اور جب (ایسے) انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں اپنے پہلو پر لیٹے یا بیٹھے یا کھڑے پکارتا ہے، پھر جب ہم اس سے اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو وہ (ہمیں بھلا کر اس طرح) چل دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف میں جو اسے پہنچی تھی ہمیں (کبھی) پکارا ہی نہیں تھا۔ اسی طرح حد سے بڑھنے والوں کے لئے ان کے (غلط) اَعمال آراستہ کر کے دکھائے گئے ہیں جو وہ کرتے رہے تھے،
English Sahih:
And when affliction touches man, he calls upon Us, whether lying on his side or sitting or standing; but when We remove from him his affliction, he continues [in disobedience] as if he had never called upon Us to [remove] an affliction that touched him. Thus is made pleasing to the transgressors that which they have been doing.
1 Abul A'ala Maududi
انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے، مگر جب ہم اس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں تو ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی اپنے کسی بُرے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا اس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لیے ان کے کرتوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور جب آدمی کو تکلیف پہنچتی ہے ہمیں پکارتا ہے لیٹے اور بیٹھے اور کھڑے پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں چل دیتا ہے گویا کبھی کسی تکلیف کے پہنچنے پر ہمیں پکارا ہی نہ تھا یونہی بھلے کر دکھائے ہیں حد سے بڑھنے والے کو ان کے کام
3 Ahmed Ali
اورجب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹے اور بیٹھے اورکھڑے ہونے کی حالت میں ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اس سے اس تکلیف کودور کر دیتے ہیں تو اس طرح گزر جاتا ہے گویا کہ ہمیں کسی تکلیف پہنچنے پر پکارا ہی نہ تھا اس طرح بیباکوں کو پسند آیا ہے جو کچھ وہ کر رہے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارتا ہے لیٹے بھی، بیٹھے بھی، کھڑے بھی۔ پھر جب ہم اس کی تکلیف اس سے ہٹا دیتے ہیں تو وہ ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے اپنی تکلیف کے لئے جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہیں تھا (١) ان حد سے گزرنے والوں کے اعمال کو ان کے لئے اس طرح خوش نما بنا دیا گیا ہے (٢)۔
١٢۔١ یہ انسان کی اس حالت کا تذکرہ ہے جو انسانوں کی اکثریت کا شیوہ ہے۔ بلکہ بہت سے اللہ کے ماننے والے بھی اس کوتاہی کا عام ارتکاب کرتے ہیں کہ مصیبت کے وقت تو خوب اللہ اللہ ہو رہا ہے، دعائیں کی جا رہی ہیں توبہ استغفار کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالٰی مصیبت کا وہ کڑا وقت نکال دیتا ہے تو پھر بارگاہ الٰہی میں دعا و گڑگڑانے سے غافل ہو جاتے ہیں اور اللہ نے ان کی دعائیں قبول کرکے جس امتحان اور مصیبت سے نجات دی، اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی بھی توفیق انہیں نصیب نہیں ہوتی۔ ١٢۔٢ بطور آزمائش اور مہلت اللہ تعالٰی کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے، وسوسوں کے ذریعے سے شیطان کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے اور انسان اس نفس کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے، جو انسان کی برائی پر امادہ کرتا ہے، تاہم اس کا شکار ہوتے وہی لوگ ہیں جو حد سے گزر جانے والے ہیں۔ یہاں معنی یہ ہوئے کہ ان کے لیے دعا سے اعراض، شکر الہی سے غفلت اور شہوات و خواہشات کے ساتھ اشتغال کو مزین کردیا گیا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹا اور بیٹھا اور کھڑا (ہر حال میں) ہمیں پکارتا ہے۔ پھر جب ہم اس تکلیف کو اس سے دور کر دیتے ہیں تو (بےلحاظ ہو جاتا ہے اور) اس طرح گزر جاتا ہے گویا کسی تکلیف پہنچنے پر ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا۔ اسی طرح حد سے نکل جانے والوں کو ان کے اعمال آراستہ کرکے دکھائے گئے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارتا ہے لیٹے بھی، بیٹھے بھی، کھڑے بھی۔ پھر جب ہم اس کی تکلیف اس سے ہٹا دیتے ہیں تو وه ایسا ہوجاتا ہے کہ گویا اس نے اپنی تکلیف کے لیے جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہ تھا، ان حد سے گزرنے والوں کے اعمال کو ان کے لیے اسی طرح خوشنما بنادیا گیا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کروٹ کے بل لیٹے یا بیٹھے یا کھڑے ہوئے (ہر حال میں) ہمیں پکارتا ہے اور جب ہم اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو وہ اس طرح (منہ موڑ کے) چل دیتا ہے جیسے اس نے کسی تکلیف میں جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہ تھا اسی طرح حد سے گزرنے والوں کے لیے ان کے وہ عمل خوشنما بنا دیئے گئے ہیں جو وہ کرتے رہے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
انسان کو جب کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اٹھتے بیٹھتے کروٹیں بدلتے ہم کو پکارتا ہے اور جب ہم اس نقصان کو دور کردیتے ہیں تو یوں گزر جاتا ہے جیسے کبھی کسی مصیبت میں ہم کو پکارا ہی نہیں تھا بیشک زیادتی کرنے والوں کے اعمال یوں ہی ان کے سامنے آراستہ کردئیے جاتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹا اور بیٹھا اور کھڑا (ہر حال میں) ہمیں پکارتا ہے۔ پھر جب ہم اس تکلیف کو اس سے دور کردیتے ہیں تو (بےلحاظ ہوجاتا اور) اس طرح گزر جاتا ہے کہ گویا کسی تکلیف پہنچنے پر ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا۔ اسی طرح حد سے نکل جانے والوں کو ان کے اعمال آراستہ کر کے دکھائے گئے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اس میں انسان کی فطرت کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ جب اسے کسی مرض یا مصیبت کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو خوب دعائیں کرتا ہے اور وہ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے، اپنی دعاؤں میں گڑگڑاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کر دے۔ ﴿فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ﴾ ” پس جب ہم اس سے اس کی تکلیف کو دور کردیتے ہیں تو وہ (یوں) چلا جاتا ہے گویا کہ اس نے ہمیں کسی تکلیف کے پہنچنے پر پکارا ہی نہیں“ یعنی اپنے رب سے رو گردانی کرتے ہوئے غفلت میں مستغرق رہتا ہے گویا کہ اسے کوئی تکلیف ہی نہیں آئی، جسے اللہ تعالیٰ نے دور کیا ہو۔ اس سے بڑھ کر اور کون سا ظلم ہے کہ انسان اپنی غرض پوری کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور جب اللہ تعالیٰ اس کی یہ غرض پوری کر دے تو پھر وہ اپنے رب کے حقوق کی طرف نہ دیکھے، گویا کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا کوئی حق ہی نہیں۔ یہ شیطان کا آراستہ کرنا ہے۔ شیطان ان تمام چیزوں کو مزین کرتا ہے جو انسانی عقل و فطرت کے مطابق انتہائی بری اور قبیح ہیں۔ ﴿كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ﴾ ” اسی طرح خوش نمابنا دیے گئے ہیں بے باک لوگوں کے لئے“ یعنی ان لوگوں کے لئے جو حدود سے تجاوز کرتے ہیں ﴿مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” جو عمل وہ کرتے تھے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab insan ko koi takleef phonchti hai to woh letay bethay aur kharray huye ( her halat mein ) hamen pukarta hai . phir jab hum uss ki takleef door ker-detay hain , to iss tarah chal kharra hota hai jaisay kabhi apney aap ko phonchney wali kissi takleef mein hamen pukara hi naa tha . jo log hadd say guzar jatay hain , unhen apney kartoot issi tarah khushnuma maloom hotay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
مومن ہر حال میں اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں۔ اسی آیت جیسی (وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَاۗءٍ عَرِيْضٍ 51) 41 ۔ فصلت :51) ہے یعنی جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بڑی لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ ہر وقت اٹھتے بیٹھے لیٹتے اللہ سے اپنی تکلیف کے دور ہونے کی التجائیں کرتا ہے۔ لیکن جہاں دعا قبول ہوئی تکلیف دور ہوئی اور ایسا ہوگیا جیسے کہ نہ اسے کبھی تکلیف پہنچی تھی نہ اس نے کبھی دعا کی تھی۔ ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہیں اور وہ انہیں اپنے ایسے ہی گناہ اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ ہاں ایماندار، نیک اعمال، ہدایت و رشد والے ایسے نہیں ہوتے۔ حدیث شریف میں ہے مومن کی حالت پر تعجب ہے۔ اس کے لیے ہر الٰہی فیصلہ اچھا ہی ہوتا ہے۔ اسے تکلیف پہنچی اس نے صبر و استقامت اختیار کی اور اسے نیکیاں ملیں۔ اسے راحت پہنچی، اس نے شکر کیا، اس پر بھی نیکیاں ملیں، یہ بات مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔