یونس آية ۳۱
قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۤءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَ مَنْ يُّخْرِجُ الْحَـىَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَـىِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَۗ فَسَيَـقُوْلُوْنَ اللّٰهُۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
طاہر القادری:
آپ (ان سے) فرما دیجئے: تمہیں آسمان اور زمین (یعنی اوپر اور نیچے) سے رزق کون دیتا ہے، یا (تمہارے) کان اور آنکھوں (یعنی سماعت و بصارت) کا مالک کون ہے، اور زندہ کو مُردہ (یعنی جاندار کو بے جان) سے کون نکالتا ہے اور مُردہ کو زندہ (یعنی بے جان کو جاندار) سے کون نکالتا ہے، اور (نظام ہائے کائنات کی) تدبیر کون فرماتا ہے؟ سو وہ کہہ اٹھیں گے کہ اللہ، تو آپ فرمائیے: پھرکیا تم (اس سے) ڈرتے نہیں،
English Sahih:
Say, "Who provides for you from the heaven and the earth? Or who controls hearing and sight and who brings the living out of the dead and brings the dead out of the living and who arranges [every] matter?" They will say, "Allah," so say, "Then will you not fear Him?"
1 Abul A'ala Maududi
اِن سے پُوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اِس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ کہو، پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے) پرہیز نہیں کرتے؟
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ تمہیں کون روزی دیتا ہے آسمان اور زمین سے یا کون مالک ہے کان اور آنکھوں کا اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردے سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے اور کون تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے تو اب کہیں گے کہ اللہ تو تم فرماؤ تو کیوں نہیں ڈرتے
3 Ahmed Ali
کہو تمہیں آسمان اور زمین سے کون روزی دیتا ہے یا کانوں اور آنکھوں کا کون مالک ہے اور زندہ کو مردہ سے کون نکلتا ہے اور مردہ کو زندہ سے کون نکلتا ہے اور سب کاموں کا کون انتظام کرتا ہے سو کہیں گے کہ اللہ تو کہہ دو کہ پھر (اللہ) سے کیوں نہیں ڈرتے
4 Ahsanul Bayan
آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وہ یہی کہیں گے کہ ' اللہ ' (١) تو ان سے کہیئے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے۔
٣١۔١ اس آیت سے بھی واضح ہے کہ مشرکین اللہ تعالٰی کی مالکیت، خالقیت، ربویت اور اس کے مدبر
الامور ہونے کو تسلیم کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ وہ اس کی الوہیت میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے تھے، اس لئے اللہ تعالٰی انہیں جہنم کا ایندھن قرار دیا۔ آج کل کے مدعیان ایمان بھی اسی توحید الوہیت کے منکر ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(ان سے) پوچھو کہ تم کو آسمان اور زمین میں رزق کون دیتا ہے یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بےجان سے جاندار کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے۔ جھٹ کہہ دیں گے کہ خدا۔ تو کہو کہ پھر تم (خدا سے) ڈرتے کیوں نہیں؟
6 Muhammad Junagarhi
آپ کہیے کہ وه کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وه کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وه کون ہے جو زنده کو مرده سے نکالتا ہے اور مرده کو زنده سے نکالتا ہے اور وه کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وه یہی کہیں گے کہ اللہ تو ان سے کہیے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو (پوچھو) وہ کون ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی دیتا ہے؟ وہ کون ہے جو سمع و بصر (سننے اور دیکھنے کی طاقت) کا مالک ہے؟ وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے؟ اور وہ کون ہے جو کائنات کا انتظام کر رہا ہے؟ اس سوال پر وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ پس تم کہو (کہ اگر حقیقت حال یہی ہے) تو تم کیوں نہیں ڈرتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر ذرا ان سے پوچھئے کہ تمہیں زمین و آسمان سے کون رزق دیتا ہے اور کون تمہاری سماعت و بصارت کا مالک ہے اور کون لَردہ سے زندہ اور زندہ سے لَردہ کو نکالتا ہے اور کون سارے امور کی تدبیرکرتا ہے تو یہ سب یہی کہیں گے کہ اللہ !تو آپ کہئے کہ پھر اس سے کیوں نہیں ڈرتے ہو
9 Tafsir Jalalayn
(ان سے) پوچھو کہ تم کو آسمان اور زمین میں رزق کون دیتا ہے ؟ یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ؟ اور بےجان سے جاندار کون پیدا کرتا ہے ؟ اور جاندار سے بےجان کون پیدا کرتا ہے ؟ اور (دنیا کے) کاموں کا انتظام کون کرتا ہے ؟ جھٹ کہہ دیں گے کہ خدا تو کہو کہ پھر تم (خدا سے) ڈرتے کیوں نہیں ؟
آیت نمبر ٣١ تا ٤٠
ترجمہ : ان سے پوچھو آسمان سے بارش کے ذریعہ اور زمین سے نباتات کے ذریعہ تم کو کون رزق دیتا ہے ؟ یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے ؟ سَمْعٌ بمعنی اَسْمَاعٌ ہے یعنی کس نے ان کو پیدا کیا ہے ؟ اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے ؟ اور وہ کون ہے جو مخلوق کے معاملات کا نظم کرتا ہے ضرور وہ یہی کہیں گے وہ اللہ ہے تو ان سے کہو کہ پھر اللہ سے کیوں نہیں ڈرتے کہ ایمان لے آؤ، سو یہ جو ان تمام چیزوں کا کرنے والا ہے اللہ ہے جو تمہارا حقیقی رب ہے، پھر حق کے بعد بجز گمراہی کے اور باقی رہ ہی کیا گیا ؟ استفہام تقریری ہے یعنی اس کے بعد کچھ باقی نہیں رہا، لہٰذا جو حق سے ہٹا کہ وہ اللہ کی عبادت ہے گمراہی میں گرا، تو پھر دلیل قائم ہونے کے باوجود ایمان سے کہاں بھٹکے جا رہے ہو ؟ اسی طرح آپ کے رب کی یہ بات کہ یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے فاسقوں کے حق میں ثابت ہوگئی، وہ بات لَاملأنّ جھنم الخ یا انَّھم لا یؤمنون ہے، آپ کہیے کہ کیا تمہارے شرکاء میں کوئی، ایسا ہے کہ جو پہلی بار بھی پیدا کرے اور دوبارہ بھی پیدا کرے آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی پہلی بار پیدا کرتا ہے اور دوبارہ بھی پیدا کرے گا، تو تم قیام دلیل کے باوجود اس کی عبادت سے کہاں بھٹکے جا رہے ہو ؟ آپ ان سے کہئے کہ تمہارے شرکاء میں کوئی ایسا ہے جو دلائل کے ساتھ اور ہدایت کی تخلیق کے ساتھ راستہ بتاتا ہو ؟ آپ کہئے کہ صرف اللہ ہی حق کا راستہ بتاتا ہے، آپ کہئے کہ وہ ذات جو حق کی طرف رہنمائی کرتی ہے اس بات کئ زیادہ لائق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے ؟ یا وہ جس نے خود ہی ہدایت نہیں پائی بجز اس کے کہ اس کی رہنمائی کی جائے زیادہ حق دار ہے کہ اس کی اتباع کی جائے، استفہام تقریر و توبیخ کیلئے ہے، یعنی اول زیادہ حق دار ہے آخر تمہیں ہو کیا گیا کہ تم غیر حق دار کی اتباع کے کیسے غلط فیصلے کرتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ ان میں کی اکثریت بت پرستی کے بارے میں محض خیال و گمان کی پیروی کرتے ہے اس لئے کہ انہوں نے اس معاملہ میں اپنے آباء کی تقلید کی ہے حالانکہ گمان حق، یعنی علم مطلوب کی ضرورت کو ذرا بھی پورا نہیں کرتا یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے لہٰذا وہ ان کے اعمال کی جزاء دے گا، اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ کی وحی کے بغیر اپنی طرف سے گھڑ لیا گیا ہو، بلکہ یہ تو ان کتابوں کی تصدیق کے لئے نازل کیا گیا ہے جو اس سے پہلے نازل کی گئی ہیں اور احکام وغیرہ جو اللہ نے فرض کئے ہیں ان کی تفصیل کرنے والا ہے اس میں کوئی شبہ کی بات نہیں کہ رب العلمین کی طرف سے نازل ہوا ہے (من رّب العٰلمین) تصدیق یا انزل محذوف کے متعلق ہے، اور تصدیق و تفصیل کے رفع کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے ھو کی تقدیر کے ساتھ، کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھڑ لیا ہے ؟ آپ (ان سے) کہہ دیجئے کہ تم بھی فصاحت و بلاغت میں اس کے جیسی ایک سورت گھڑ کرلے آؤ اس لئے کہ تم بھی میرے جیسے عربی ہو فصحاء ہو اور اس میں مدد کے لئے غیر اللہ میں سے جس کو بلا سکو بلا لو اگر تم اس دعوے میں سچے ہو کہ یہ گھڑا ہوا ہے چناچہ وہ یہ نہ کرسکے، بلکہ ایسی چیز کی تکذیب کرنے لگے جس کا وہ علمی احاطہ نہ کرسکے یعنی قرآن کا اور نہ انہوں نے اس میں غور و فکر کیا، اور ہنوز ان کو اس کا اخیر نتیجہ کہ وہ وعید ہے نہیں ملا اسی طرح انہوں نے جو لوگ ان سے پہلے ہوئے ہیں اپنے رسولوں کی تکذیب کی تھی سو دیکھ لو رسولوں کی تکذیب کی وجہ سے ان ظالموں کا کیا انجام ہوا ؟ یعنی ان کا آخری انجام ہلاکت ہوئی تو اسی طرح یہ لوگ ہلاک کئے جائیں گے ان میں بعض لوگ ایسے ہیں کہ اللہ کے علم میں ہونے کے وجہ سے جو اس پر ایمان لے آئیں گے اور بعض ایسے ہیں جو اس پر کبھی ایمان نہ لائیں گے اور تیرا رب ان مفسدوں کو خوب جانتا ہے یہ ان کیلئے تہدید ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : بمعنی الاسماع، اس میں اشارہ ہے کہ السمعُ پر الف لام استغراق کا ہے تاکہ الابصار کا تقابل صحیح ہو سکے۔
سوال : بملک کی تفسیر مفسر علام نے خلْقَھَا سے کیوں فرمائی۔ جواب : اس لئے کہ کانوں اور آنکھوں میں ملکیت آنکھ وکان والوں کی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ارش کا صاحباذن و سمع ہی مالک ہوتا ہے، اس شبہ کو دور کرنے کیلئے ملک کی تفسیر خَلْقَھِا سے فرمائی۔
قولہ : ھو اللہ۔ سوال : ھو، مقدر ماننے کی وجہ ہے۔
جواب : چونکہ یہاں لفظ اللہ جو کہ مقولہ واقع ہو رہا ہے مفرد ہے حالانکہ مقولہ جملہ ہوا کرتا ہے مفسر علام نے ھُوَ محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ ھو محذوب ہے جس کی وجہ سے مقولہ جملہ ہے نہ کہ مفرد۔
قولہ : اَوْھِیَ اَنَّھُمْ لایؤمنون، اس اضافہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کَلِمَتُ رَبکَّ سے دو صورتیں مراد ہوسکتی ہیں ایک تو اللہ تعالیٰ کا قول لاملئن جنھم الخ اور دوسری اَنَّھُمْ لا یؤمنون، اگر پہلی صورت مراد ہو تو، انُّھم لایؤمنون علت ہوگی ای لِاَنَّھم لا یؤمنون۔
قولہ : بنصب الحج اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ہدایت سے مراد محض اراءۃ الطریق نہیں ہے اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ہے کیوں کہ دیگر بھی رہنمائی کا کام انجام دیتے ہیں، بخلاف ایصال الی المطلوب کے جو کہ یہاں مراد ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔ قولہ : یھتدی، اس اصافہ کا مقصد یھدی کی اصل بتانا کہ یَھدّی اصل میں یھتدی باب افتعال سے ہے تاء کو دال میں قلب کے بعد ادغام کردیا اور باء کو التقاء ساکنین کی وجہ سے کسرہ دیدیا۔ قولہ : اَحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ ، یہ ام مَن لا یھدّی بتداء کی خبر ہے۔
تفسیر و تشریح
مشرکین سے چند سوالات : قُلْ مَنْ یرزقکم مِنَ السّماءِ والارضِ ، یہ تمام سوالات مشرکین سے بطور جرح ہو رہے ہیں، ان سوالات میں غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ سوالات میں ایک خاص ترتیب ملحوظ رکھی گئی ہے، پہلا سوال رزق سے متعلق ہے جو سلسلہ ربوبیت میں اول نمبر پر ہے پھر انسان کے حواس ظاہرہ سے متعلق سوال ہے جن کے بغیر انسان اور جماد برابر ہیں، پھر حیات و موت سے متعلق سوال ہے اور آخر میں انتظام امور سے متعلق ہے۔ آیت ٣٢ میں خطاب عام لوگوں سے کیا جا رہا ہے، سوال یہ نہیں کہ تم کدھر پھرے جا رہے ہو بلکہ یہ ہے کہ کدھر پھرائے جا رہے ہو اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی ایسا گمراہ کن شخص یا گروہ موجود ہے جو لوگوں کو صحیح رخ سے ہٹا کر غلط رخ پر لے جا رہا ہے اسی بنا پر عام لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ تم اندھے بن کر غلط رہنمائی کرنے والوں کے پیچھے کیوں چلے جا رہے ہو ؟ اپنی عقل سے کام لے کر آخر کیوں نہیں سمجھتے کہ جب حقیقت یہ ہے کہ تم کو کسی خاص مقصد سے ایک سوچتے سمجھے منصوبے کے تحت غلط راستہ پر لیجا رہے ہو اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی ایسا گمراہ کن شخص یا گروہ موجود ہے جو لوگوں کو صحیح رخ سے ہٹا کر غلط رخ پر لے جا رہا ہے اسی بنا پر عام لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ تم اندھے بن کر غلط رہنمائی کرنے والوں کے پیچھے کیوں چلے جا رہے ہو ؟ اپنی عقل سے کام لے کر آخر کیوں نہیں سمجھتے کہ جب حقیقت یہ ہے کہ تم کو کسی خاص مقصد سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غلط راستہ پر لیجایا رہا ہے ایسے موقعوں پر عام طور پر قرآن کریم میں گمراہ کن گروہ یا شخص کا نام لینے کے بجائے مجہول کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے تاکہ ان کے معتقدین اپنے معاملہ پر ٹھنڈے دل سے غور کرسکیں اور کسی کو یہ کہہ کر انھیں اشتعال دلانے اور دعماغی توازن بگاڑنے کا موقع نہ ملے کہ دیکھو یہ تمہارے بزرگوں اور پیشواؤں پر چوٹیں کسی جا رہی ہیں، اس طرز میں حکمت تبلیغ کا ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے جس سے ایک مبلغ کو کسی حال میں غافل و بیخبر نہ رہنا چاہیے۔
کذلک حقت کلمت رَبکَ الخ مطلب یہ ہے کہ ایسی کھلی کھلی اور عام فہم دلیلوں کے ذریعہ بات سمجھائی جا رہی ہے کہ ہر انصاف پسند کے دل میں اتر جائے، لیکن جنہوں نے نہ ماننے ہی کا فیصلہ کرلیا ہے وہ اپنی ضد کی وجہ سے کسی طرح مان کر نہیں دیتے۔
قل ھل من شرکاء کم مَنْ یَبْدَوْا الخلق الخ تخلیق کی ابتداء کے متعلق تو مشرکین مانتے ہی تھے کہ یہ صرف اللہ کا کام ہے ان کے شریکوں میں سے اس کام میں کسی کا کوئی حصہ نہیں وہاں تخلیق کے اعادہ کا مسئلہ تو ظاہر ہے کہ جو ابتداءً پیدا کرنے والا ہے وہ ہی دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے مگر جو ابتداءً ہی پیدا کرنے پر قادر نہ ہو وہ کس طرح اعادہ تخلیق پر قادر ہوگا ؟ یہ بات اگرچہ صریحاً ایک معقول بات ہے اور خود مشرکین کے دل بھی اندر سے اس کی گواہی دیتے تھے کہ بات بالکل پتے کی ہے لیکن انھیں اس کا اقرار کرنے میں اس بنا پر قامل تھا کہ اسے مان لینے کے بعد انکار آخرت مشکل ہوجاتا، یہی وجہ ہے کہ اوپر کے سوالات کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ خود کہیں گے کہ یہ کام اللہ کے ہیں، مگر یہاں اس کے بجائے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ارشاد ہوا کہ تم علی الاعلان ڈنکے کی چوٹ کہہ دو کہ یہ ابتداء خلق اور اعادہ خلق کا کام بھی اللہ ہی کا ہے، جب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تمہاری ابتداء اور انتہا کے دونوں سرے اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں تو ذرا اپنے ہی خیر خواہ بن کر یہ سوچو کہ آخر تمہیں یہ کیا باور کرایا جا رہا ہے کہ ان دونوں سروں کے بیچ میں تمہاری نیاز مندیوں اور بندگیوں کا حق اللہ کے سوا کسی اور کو پہنچتا ہے ؟
قل ھل من شرکاء کم من یھدی الی الحق الخ یعنی گم گشتہ راہ اور ہدایت سے برگشتہ لوگوں کو ہدایت کی طرف پھیرنے والا بھی اللہ ہی ہے ان کے شرکاء میں کوئی ایسا نہیں کہ یہ کام کرسکے جب یہ حقیقت اور امر واقعہ ہے تو سوچو کہ وہ شخص جو دیکھتا سنتا ہے اور لوگوں کی حق کی جانب رہنمائی کرتا ہے وہ پیروی کے زیادہ لائق ہے یا وہ جو اندھے اور بہرے ہونے کی وجہ سے خود بھی راستہ پر نہ چل سکتا ہو جب تک کہ دوسرے لوگ اسے راستہ پر نہ ڈالدیں یا ہاتھ پکڑ کر نہ لیجائیں ؟ تمہاری عقلوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ کہ تم اللہ کو اور اس کی مخلوق کو برابر ٹھہراتے ہو جبکہ ان دلائل کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اسی ایک اللہ کو معبود مانا جائے اور اسی کو حاجت روامشکل کشا سمجھا جائے، لیکن بات یہ ہے کہ لوگ اٹکل پچو محض ظن وتخمین پر چلتے ہیں، حالانکہ جانتے ہیں کہ دلائل کے مقابلہ میں اوہام و خیالات اور ظن و گمان کی کوئی حیثیت نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿قُلْ﴾ یعنی ان کے تو حیدر بوبیت کے اقرار کو ان کے توحید الوہیت کے انکار پر حجت بناتے ہوئے ان مشرکین سے کہہ دیجئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے شرک کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ ﴿مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ﴾ ” کون ہے جو تمہیں روزی دیتا ہے آسمان اور زمین سے“ یعنی آسمان سے رزق نازل کر کے اور زمین سے رزق کی مختلف اقسام کو نکال کر اور اس میں رزق کے اسباب کو آسان بنا کر؟ ﴿أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ ﴾ ” یا کون مالک ہے کان اور آنکھوں کا“ یعنی کون ہے جس نے ان دونوں قویٰ کو تخلیق کیا اور وہ ان کا مالک ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خاص طور پر ان دونوں قویٰ کا ذکر فرمایا‘یہ مفضول پر فاضل کی فضیلت پر تنبیہ کے باب سے ہے، نیز ان کے شرف اور فوائد کی بنا پر ان کا ذکر کیا۔ ﴿وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ﴾ ”اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے“ مثلاً شجر و نباتات کی تمام اقسام کو دانے اور گٹھلی سے پیدا کیا، مومن کو کافر سے جنم دیا اور پرندے کو انڈوں سے تخلیق کیا۔ ﴿وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ﴾ ” اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے“ یعنی مذکورہ تمام چیزوں کے برعکس ﴿وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ﴾ ” اور کاموں کا انتظام کون کرتا ہے۔“ یعنی کون ہے جو عالم علوی اور عالم سفلی کی تدبیر کرتا ہے؟ اور اس میں تدابیر الٰہیہ کی تمام اقسام شامل ہیں۔
اگر آپ ان سے اس بارے میں سوال کریں ﴿فَسَيَقُولُونَ اللَّـهُ﴾ ” تو وہ کہیں گے، اللہ“ کیونکہ وہ ان تمام امور کا اقرار کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مذکورہ تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿فَقُلْ﴾ تو الزامی حجت کے طور پر ان سے کہہ دیجئے ! ﴿أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴾ ”پھر تم ڈرتے کیوں نہیں۔“ کیا تم اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے کہ خالص اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتے اور جھوٹے معبودوں اور بتوں کی بندگی کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکتے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! inn mushrikon say ) kaho kay : kon hai jo tumhen aasman aur zameen say rizq phonchata hai-? ya bhala kon hai jo sunney aur dekhney ki quooaton ka malik hai-? aur kon hai jo jandaar ko bey jaan say aur bey jaan ko jandaar say bahir nikal lata hai-? aur kon hai jo her kaam ka intizam kerta hai-? " to yeh log kahen gay kay : Allah ! to tum inn say kaho kay : kiya phir bhi tum Allah say nahi dartay-?
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ کی الوہیت کے منکر
اللہ کی ربوبیت کو مانتے ہوئے اس کی الوہیت کا انکار کرنے والے قریشیوں پر اللہ کی حجت پوری ہو رہی ہے کہ ان سے پوچھو گے کہ آسمانوں سے بارش کون برساتا ہے ؟ پھر اپنی قدرت سے زمین کو پھاڑ کر کھیتی و باغ کون اگاتا ہے ؟ دانے اور پھل کون پیدا کرتا ہے ؟ اس کے جواب میں یہ سب کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی۔ اس کے ہاتھ میں ہے چاہے روزی دے چاہے روک لے۔ کان آنکھیں بھی اس کے قبضے میں ہیں۔ دیکھنے کی سننے کی حالت بھی اسی کی دی ہوئی ہے اگر وہ چاہے اندھا بہرا بنا دے۔ پیدا کرنے والا وہی، اعضا کا دینے والا وہی ہے۔ وہ اسی قوت کو چھین لے تو کوئی نہیں دے سکتا۔ اس کی قدرت و عظمت کو دیکھو کہ مردے سے زندے کو پیدا کر دے، زندے سے مردے کو نکالے۔ وہی تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے۔ ہر چیز کی بادشاہت اسی کے ہاتھ ہے۔ سب کو وہی پناہ دیتا ہے اس کے مجرم کو کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ وہی متصرف و حاکم ہے کوئی اس سے باز پرس نہیں کرسکتا وہ سب پر حاکم ہے آسمان و زمین اس کے قبضے میں ہر تر و خشک کا مالک وہی ہے عالم بالا اور سفلی اسی کا ہے۔ کل انس و جن فرشتے اور مخلوق اس کے سامنے عاجز و بےکس ہیں۔ ہر ایک پست و لاچار ہے۔ ان سب باتوں کا ان مشرکین کو بھی اقرار ہے۔ پھر کیا بات ہے جو یہ تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار نہیں کرتے۔ جہالت وغبادت سے دوسروں کی عبادت کرتے ہیں۔ فاعل خود مختار اللہ کو جانتے ہوئے رب ومالک مانتے ہوئے معبود سمجھتے ہوئے پھر بھی دوسروں کی پوجا کرتے ہیں۔ وہی ہے تم سب کا سچا معبود اللہ تعالیٰ وکیل ہے اس کے سوا تمام معبود باطل ہیں وہ اکیلا ہے بےشریک ہے۔ مستحق عبادت صرف وہی ہے۔ حق ایک ہی ہے۔ اس کے سوا سب کچھ باطل ہے۔ پس تمہیں اس کی عبادت سے ہٹ کر اوروں کی عبادت کی طرف نہ جانا چاہیے یاد رکھو وہی رب العلمین ہے وہی ہر چیز میں متصرف ہے۔ کافروں پر اللہ کی بات ثابت ہوچکی ہے، ان کی عقل ماری گئی ہے۔ خالق رازق متصرف مالک صرف اللہ کو مانتے ہوئے اس کے رسولوں کا خلاف کر کے اس کی توحید کو نہیں مانتے۔ اپنی بدبختی سے جہنم کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا۔