اگر ہر ظالم شخص کی ملکیت میں وہ (ساری دولت) ہو جو زمین میں ہے تو وہ یقیناً اسے (اپنی جان چھڑانے کے لئے) عذاب کے بدلہ میں دے ڈالے، اور (ایسے لوگ) جب عذاب کو دیکھیں گے تو اپنی ندامت چھپائے پھریں گے اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں ہوگا،
English Sahih:
And if each soul that wronged had everything on earth, it would offer it in ransom. And they will confide regret when they see the punishment; and they will be judged in justice, and they will not be wronged.
1 Abul A'ala Maududi
اگر ہر اُس شخص کے پاس جس نے ظلم کیا ہے، رُوئے زمین کی دولت بھی ہو تو اُس عذاب سے بچنے کے لیے وہ اسے فدیہ میں دینے پر آمادہ ہو جائے گا جب یہ لوگ اس عذاب کو دیکھ لیں گے تو دل ہی دل میں پچھتائیں گے مگر ان کے درمیان پُورے انصاف سے فیصلہ کیا جائے گا کوئی ظلم ان پر نہ ہو گا
2 Ahmed Raza Khan
اور اگر ہر ظالم جان، زمین میں جو کچھ ہے سب کی مالک ہوتی، ضرور اپنی جان چھڑانے میں دیتی اور دل میں چپکے چپکے پشیمان ہوئے جب عذاب دیکھا اور ان میں انصاف سے فیصلہ کردیا گیا اور ان پر ظلم نہ ہوگا،
3 Ahmed Ali
اور اگر ہر ایک نافرمان کے پاس روئے زمین کی تمام چیزیں ہوں البتہ اپنے بدلے میں دے ڈالے اور جب وہ عذاب دیکھیں گے تو دل میں نادم ہوں گے اور ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ ہوگا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا
4 Ahsanul Bayan
اور اگر ہر جان، جس نے ظلم (شرک) کیا ہے، کے پاس اتنا ہو کہ ساری زمین بھر جائے تب بھی اس کو دے کر اپنی جان بچا نے لگے (١) اور جب عذاب کو دیکھیں گے تو پشیمانی کو پوشیدہ رکھیں گے۔ اور ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہوگا۔ اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔
٥٤۔١ یعنی اگر دنیا بھر کا خزانہ دے کر وہ عذاب سے چھوٹ جائے تو دینے کے لئے آمادہ ہوگا۔ لیکن وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا؟ مطلب یہ ہے کہ عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر ہر ایک نافرمان شخص کے پاس روئے زمین کی تمام چیزیں ہوں تو (عذاب سے بچنے کے) بدلے میں (سب) دے ڈالے اور جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو (پچھتائیں گے اور) ندامت کو چھپائیں گے۔ اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور (کسی طرح کا) ان پر ظلم نہیں ہوگا
6 Muhammad Junagarhi
اور اگر ہر جان، جس نے ﻇلم (شرک) کیا ہے، کے پاس اتنا ہو کہ ساری زمین بھر جائے تب بھی اس کو دے کر اپنی جان بچانے لگے اور جب عذاب کو دیکھیں گے تو پشیمانی کو پوشیده رکھیں گے۔ اور ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہوگا۔ اور ان پر ﻇلم نہ ہوگا
7 Muhammad Hussain Najafi
جو کچھ روئے زمین پر موجود ہے اگر وہ ہر ظالم شخص کے قبضہ میں آجائے تو (وہ عذاب اس قدر سخت ہے) کہ وہ یہ سب کچھ بطور فدیہ دے دے۔ جب یہ لوگ عذابِ الٰہی کو دیکھیں گے تو ندامت و پشیمانی کو دل میں چھپائیں گے (اور اندر ہی اندر پچھتائیں گے) لیکن پورے انصاف کے ساتھ ان کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اگر ہر ظلم کرنے والے نفس کو ساری زمین کے خزینے مل جائیں تو وہ اس دن کے عذاب کے بدلے دے دیگا اور عذاب کے دیکھنے کے بعد اندر اندر نادم بھی ہوگا .... لیکن ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہ کیا جائے گا
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر ہر ایک نافرمان شخص کے پاس روئے زمین کی تمام چیزیں ہوں تو (عذاب سے بچنے کے) بدلے میں (سب) دے ڈالے اور جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو پچھتائیں گے (اور) ندامت کو چھپائیں گے۔ اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور (کسی طرح کا) ان پر ظلم نہیں ہوگا۔ آیت نمبر ٥٤ تا ٦٠ ترجمہ : اگر ہم اس شخص کے پاس کہ جس نے کفر کرکے ظلم کیا روئے زمین کی پوری دولت ہو تو وہ قیامت کے دن عذاب سے رہائی حاصل کرنے کیلئے فدیہ میں دینے پر آمادہ ہوجائے اور جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو ترک ایمان پر ندامت کو چھپائیں گے، یعنی ان کے پیشوا عار دلانے کے خوف سے ندامت کو ان کمزور لوگوں سے چھپائیں گے جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہوگا مگر ان کے یعنی مخلوق کے درمیان پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائیگا اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہ کیا جائیگا، سنو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے، سن رکھو کہ بعث اور جزاء کا اللہ کا وعدہ حق ہے لیکن اکثر لوگ اس سے واقف نہیں ہیں وہی زندگی عطاء کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور آخرت میں اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تم کو تمہارے اعمال کی جزاء دے گا، اے لوگو ! یعنی مکہ والو تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نصیحت نامہ آگیا کہ اس میں فائدے اور نقصان کی چیزوں کا بیان ہے، وہ قرآن ہے اور دل کی بیماریوں کیلئے یعنی عقائد فاسدہ اور شکوک (شبہات) کیلئے شفاء ہے اور گمراہی سے ہدایت ہے اور اس پر یقین رکھنے والوں کیلئے ہدایت اور رحمت ہے (کہو) کہ اللہ کے فضل یعنی اسلام سے اور اس کی رحمت یعنی قرآن سے (خوشی منانی چاہیے) اس پر تو خوش ہونا چاہیے یہ دنیا کی ان سب چیزوں سے بہتر ہے جس کو یہ سمیٹ رہے ہیں (یجمعون) یاء اور تاء کے ساتھ ہے، (اے نبی) ان سے کہو کیا تم نے کچھ سوچا کہ اللہ نے جو رزق تمہارے لئے اتارا ہے اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھہرا لیا جیسا کہ بحیرہ اور سائبہ اور مردار، ان سے پوچھو کیا اللہ نے تم کو اس تحریم و تحیل کی اجازت دی تھی، نہیں، بلکہ تم اللہ پر اس کی طرف نسبت کرکے بہتان لگا رہے ہو، جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان لگاتے ہیں ان کا کیا گمان ہے کہ قیامت کے روز ان کے ساتھ کیسا معاملہ ہوگا ؟ کیا ان کا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو سزا نہ دے گا ؟ ایسا نہیں ہے، اللہ تو لوگوں کو مہلت دے کر اور ان پر انعام فرما کر ان پر رحم کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد ترکیب : لَوْ أنَّ لِکُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الارضِ لافتدَتْ بَہٖ ، لَوْ شرطیہ امتناعیہ أنَّ حرف مشبہ بالفعل، نفس ظلمت موصوف صفت سے مل کر أنَّ کی خبر مقدم ما اسم موصول محلاً منصوب أنَّ اپنے ماتحت کے ثَبَتَ فعل محذوف کا فاعل، ما موصولہ صلہ سے مل کر جملہ ہو کر أنَّ کا اسم لافتدت بہ جواب شرط ای لَوْ ثَبَتَ ذلک لافتدتْ بہ۔ قولہ : ای اَخْفَاھَا، اَسَرُّوْا کی تفسیر اَخَفَاھَا سے بیان معنی کے لئے ہے کہ اَسَرّوا، اضداد میں سے ہے اسلئے کہ اس کے معنی اَظْھَرَ کے بھی ہیں اور اَخْفَا کے بھی دوسرے معنی زیادہ مشہور ہیں اگرچہ احتمال دونوں معنی کا ہے۔ قولہ : ایُّ شیْءٍ ظنّھم بہ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مَا ظَنَّ الَّذِیْنَ ، میں ما بمعنی ایَّ شئٍ مبتداء ہے اور ظنَّ الذین یفترون علی اللہ اس کی خبر ہے، اور یوم ظنَّ کی وجہ سے منصوب ہے، ای ظن واقع فیہ۔ تفسیر و تشریح وَلَوْ أنَّ لِکُلِّ نفسٍ ظَلَمَتْ الخ یعنی اگر دنیا بھر کا خزانہ دے کر وہ عذاب سے چھوٹ جائے تو دینے کیلئے آمادہ ہوگا، لیکن وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا ؟ خلاصہ یہ کہ عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ و شفاء لما فی الصدور، شفاء کے معنی بیماری دور ہونے کے ہیں اور صدور صدر کی جمع ہے جس کا معنی سینہ کے ہیں مراد قلب ہے، مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید دل کی بیماریوں کا کامیاب علاج ہے اور صحت و شفاء کا نسخہ اکسیر ہے حسن بصری (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کی اس صفت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن خاص دلوں کی بیماریوں کیلئے شفاء ہے نہ کہ جسمانی بیماریوں کیلئے (روح المعانی) مگر دیگر حضرات کا کہنا ہے کہ در حقیقت قرآن ہر بیماری کی شفاء ہے خواہ قلبی ہوں یا روحانی، مگر چونکہ روحانی بیماری انسان کیلئے جسمانی بیماری کی نہ نسبت زیادہ تباہ کن اور ہلاکت خیز ہوتی ہے اس لئے خاص طور پر قلبی بیماری کا ذکر فرمایا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جسمانی بیماریوں کیلئے شفاء نہیں ہے۔ روایات حدیث اور علماء امت کے بیشمار تجربات اس پر شاہد ہیں کہ قرآن کریم جیسے روحانی علاج کیلئے اکسیر اعظم ہے اس طرح جسمانی بیماریوں کیلئے بھی بہترین علاج ہے۔ حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ ایک شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور سینہ میں درد کی شکایت کی آپ نے فرمایا قرآن پڑھا کرو کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے ” شفاء لما فی الصدور “ (روح المعانی) علماء امت نے کچھ روایات اور آثار سے آیات قرآنی کے خواص اور فوائد مستقل کتابوں میں جمع بھی کر دئیے ہیں امام غزالی کی کتاب ” خواص قرآنی “ اس موضوع پر معروف و مشہور ہے جس کی تلخیص حضرت تھانوی (رح) تعالیٰ نے ” اعمال قرآنی “ کے نام سے فرمائی ہے اور مشاہدات و تجربات اتنے ہیں کہ ان کا انکار نہیں کیا جاسکتا، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ نزول قرآن کا اصل مقصد قلب روح ہی کی بیماریوں کو دور کرنا ہے اور ضمنی طور پر جسمانی بیماریوں کا بھی بہترین علاج ہے۔ قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا ھو خیر مما یجمعون ” خوشی “ اس کیفیت کا نام ہے جو کسی مطلوب چیز کے حصول پر انسان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، اہل ایمان سے کہا جا رہا ہے کہ یہ قرآن اللہ کا خاص فضل اور اس کی رحمت ہے اس پر اہل ایمان کو خوش ہونا چاہیے۔ فجعلتم منہ حراماً وحلالاً الخ اس سے مراد ہی بعض جانوروں کا حرام کرنا ہے جو مشرکین اپنے بتوں کے نام پر چھوڑ کر کیا کرتے تھے جس کی تفصیل سورة انعام میں گزر چکی ہے مثلا بحیرہ، اس جانور کو کہتے ہیں کہ جس کا کان چیر کر بتوں کے نام پر آزاد کردیتے تھے، سائب اس جانور کو کہا جاتا تھا کہ جس کو اہل جاہلیت مویشی میں سے بت کے نام آزاد کردیتے تھے اور اس سے کوئی کام نہیں لیتے تھے اور اس کا جدھر جی چاہے پھرے اس کیلئے کوئی روک نہیں ہوتی تھی۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَ﴾ ” اور“ جب قیامت برپا ہوگی ﴿ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ﴾ اگر ہو ہر گناہ گار کے پاس جس نے کفر و معاصی کے ذریعے سے ظلم کیا ﴿ مَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” جو کچھ زمین میں ہے“ یعنی زمین میں جو سونا چاندی وغیرہ ہے، تو وہ سب کا سب اپنے کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے فدیہ میں دے دے۔ ﴿ لَافْتَدَتْ بِهِ﴾ ” تو وہ ضرور فدیے میں دے دے۔“ مگر یہ فدیہ دینا اس کے کسی کام نہ آئے گا، کیونکہ نفع و نقصان اور ثواب و عذاب تو نیک اور برے اعمال پر منحصر ہے۔ ﴿وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ﴾ ” اور چھپے چھپے پچھتائیں گے وہ جب دیکھیں گے“ یعنی وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا دل ہی دل میں اپنے اعمال پر پچھتائیں گے مگر اب رہائی کا کوئی وقت نہیں ہوگا۔ ﴿ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ﴾ ” اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا۔“ یعنی کامل انصاف کے ساتھ ان کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ جس میں کسی پہلو سے بھی ظلم و جور نہیں ہوگا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jiss jiss shaks ney zulm ka irtikab kiya hai , agar uss kay paas rooaey zameen ki sari dolat bhi hogi to woh apni jaan churraney kay liye uss ki paishkash kerday ga . aur jab woh azab ko aankhon say dekh len gay to apni sharmindagi ko chupana chahen gay , aur unn ka faisla insaf kay sath hoga , aur unn per zulm nahi hoga .
12 Tafsir Ibn Kathir
خالق کل عالم کل ہے مالک آسمان و زمین مختار کل کائنات اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اللہ کے وعدے سچے ہیں وہ پورے ہو کر ہی رہیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔ جلانے مارنے والا وہی ہے، سب باتوں پر وہ قادر ہے۔ جسم سے علیحدہ ہونے والی چیز کو، اس کے بکھر کر بگڑ کر ٹکڑے ہونے کو وہ جانتا ہے اس کے حصے کن جنگلوں میں کن دریاؤں میں کہاں ہیں وہ خوب جانتا ہے۔