وہ کہنے لگے: (اے موسٰی!) کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ تم ہمیں اس (طریقہ) سے پھیر دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو (گامزن) پایا اور زمین (یعنی سرزمینِ مصر) میں تم دونوں کی بڑائی (قائم) رہے؟ اور ہم لوگ تم دونوں کو ماننے والے نہیں ہیں،
English Sahih:
They said, "Have you come to us to turn us away from that upon which we found our fathers and so that you two may have grandeur in the land? And we are not believers in you."
1 Abul A'ala Maududi
اُنہوں نے جواب میں کہا “کیا تواس لیے آیا ہے کہ ہمیں اُ س طریقے سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں بڑائی تم دونوں کی قائم ہو جائے؟ تمہارے بات تو ہم ماننے والے نہیں ہیں"
2 Ahmed Raza Khan
بولے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اس سے پھیردو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا اور زمین میں تمہیں دونوں کی بڑائی رہے، اور ہم تم پر ایمان لانے کے نہیں،
3 Ahmed Ali
انہوں نے کہا کیاتو ہمارے ہاں آیا ہے کہ ہمیں اس راستہ سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے تم دونوں کو اس ملک میں سرداری مل جائے اور ہم تو تمہیں ماننے والے نہیں ہیں
4 Ahsanul Bayan
وہ لوگ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم کو اس طریقہ سے ہٹا دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اور تم دونوں کو دنیا میں بڑائی مل جائے (١) اور ہم تم دونوں کو کبھی نہ مانیں گے۔
٧٨۔١ یہ منکرین کی دیگر حجتیں ہیں جو دلائل سے عاجز آکر، پیش کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم ہمارے آباء واجداد کے راستے سے ہٹانا چاہتے ہو، دوسرے یہ کہ ہمیں جاہ و ریاست حاصل ہے، اسے ہم سے چھین کر خود اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہو اسلیے ہم تو کبھی بھی تم پر ایمان نہ لائیں گے۔ یعنی تنقید آباء پر اصرار اور دنیاوی وجہ کی خواہش نے انہیں ایمان لانے سے روکے رکھا۔ اس کے بعد آگے وہی قصہ ہے کہ فرعون نے ماہر جادوگروں کو بلایا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور جادوں گروں کا مقابلہ ہوا، جیسا کہ سورت اعراف میں گزرا اور سورت طہ میں بھی اس کی کچھ تفصیل آئے گی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
وہ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ جس (راہ) پر ہم اپنے باپ دادا کو پاتے رہے ہیں اس سے ہم کو پھیردو۔ اور (اس) ملک میں تم دونوں کی ہی سرداری ہوجائے اور ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں
6 Muhammad Junagarhi
وه لوگ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم کو اس طریقہ سے ہٹادو جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اور تم دونوں کو دنیا میں بڑائی مل جائے اور ہم تم دونوں کو کبھی نہ مانیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
انہوں نے (جواب میں) کہا کہ کیا تم اس لئے ہمارے پاس آئے ہو کہ ہمیں اس راہ سے ہٹا دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے۔ اور اس سر زمین میں تم دونوں (بھائیوں) کی بڑائی (سرداری) قائم ہو جائے اور ہم تم دونوں کی بات تسلیم کرنے والے نہیں ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ان لوگوں نے کہا تم یہ پیغام اس لئے لائے ہو کہ ہمیں باپ دادا کے راستہ سے منحرف کردو اور تم دونوں کو زمین میں حکومت و اقتدار مل جائے اور ہم ہرگز تمہاری بات مانتے والے نہیں ہیں
9 Tafsir Jalalayn
وہ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ جس (راہ) پر ہم اپنے باپ دادا کو پاتے رہے ہیں اس سے ہم کو پھیر دو ۔ اور (اس) ملک میں تم دونوں ہی کی سرداری ہوجائے ؟ اور ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں
10 Tafsir as-Saadi
﴿قَالُوا ﴾ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا : ﴿أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ﴾ ” کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو، تاکہ تم ہمیں اس دین سے روک دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔“ مثلاً شرک اور غیر اللہ کی عبادت وغیرہ اور تم ہمیں حکم دیتے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں چنانچہ انہوں نے اپنے گمراہ باپ دادا کے قول کو حجت بنا لیا جس کی بنیاد پر انہوں نے اس حق کو ٹھکرا دیا جسے موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے۔ ﴿وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاءُ فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور اس ملک میں تم دونوں ہی کی سرداری ہوجائے“ یعنی تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو تاکہ تم سردار بن جاؤ اور تم ہمیں ہماری زمینوں سے نکال باہر کرو۔ یہ ان کی طرف سے خلاف حقیقت بات اور جہالت کی حوصلہ افزائی ہے۔ نیز ان کا مقصد عوام کو موسیٰ (علیہ السلام) کی عداوت پر ابھارنا اور ان پر ایمان لانے سے گریز کرنا ہے۔ جو شخص حقائق کو سمجھتا اور معاملات کی خامی اور خوبی میں امتیاز کرسکتا ہے وہ ان کی اس بات کو قابل حجت اور قابل اعتنا خیال نہیں کرتا، کیونکہ دلائل کا رد دلائل اور براہین ہی کے ذریعے سے کیا جاتا ہے، لیکن جو شخص حق پیش کرتا ہے اور اس کی بات کو اس قسم کے اقوال سے رد کردیا جائے، تو یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رد کرنے والا ایسی دلیل لانے سے عاجز ہے جو مد مقابل کے قول کو رد کر دے، کیونکہ اگر اس کے پاس کوئی دلیل ہوتی تو وہ ضرور پیش کرتا اور اپنے مد مقابل کو یہ نہ کہتا ” تیرا مقصد یہ ہے“ اور ” تیری مراد وہ ہے“ خواہ وہ اپنے مد مقابل کے مقصد اور مراد کے بارے میں خبر دینے میں سچا ہے یا جھوٹا۔۔۔۔۔۔ تاہم اس کے باوجود جو کوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے احوال اور ان کی دعوت کی معرفت رکھتا ہے اسے معلوم ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا مقصد زمین میں تغلب نہ تھا۔ ان کا مقصد تو وہی تھا جو دیگر انبیاء و مرسلین کا تھا۔۔۔۔۔۔ یعنی مخلوق کی ہدایت اور ان کی ان امور کی طرف راہ نمائی کرنا جو ان کے لئے فائدہ مند ہیں۔ حقیقت دراصل یہ ہے جیسا کہ خود انہوں نے اپنی زبان سے اقرار کیا ﴿وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ ﴾ ” ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے“ یعنی انہوں نے تکبر اور عناد کی وجہ سے یہ کہا تھا ” ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔“ اور اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ جناب موسیٰ اور ہارون علیہما السلام نے جو دعوت پیش کی تھی وہ باطل تھی اور اس کی وجہ یہ بھی نہ تھی کہ اس میں یا اس کے معانی وغیرہ میں کوئی اشتباہ تھا۔ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ ظلم و تعدی اور ارادہ تغلب کے سوا کچھ نہ تھا جس کا الزام وہ موسیٰ علیہ السلام پر لگا رہے تھے۔
11 Mufti Taqi Usmani
kehney lagay : kiya tum humaray paas iss liye aaye ho kay jiss tor tareeqay per hum ney apney baap dadon ko paya hai , uss say hamen bargushta kerdo , aur iss sarzameen mein tum dono ki chaudhraahat qaeem hojaye-? hum to tum dono ki baat manney walay nahi hain .