الفیل آية ۱
اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِۗ
طاہر القادری:
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا،
English Sahih:
Have you not considered, [O Muhammad], how your Lord dealt with the companions of the elephant?
1 Abul A'ala Maududi
تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟
2 Ahmed Raza Khan
اے محبوب! کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے رب نے ان ہاتھی والوں کیا حال کیا
3 Ahmed Ali
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں سے کیا برتاؤ کیا
4 Ahsanul Bayan
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ (١)
١۔١ جو یمن سے خانہ کعبہ کی تخریب کے لئے آئے تھے، الم تعلم کیا تجھے معلوم نہیں؟ استفہام تقریر کے لیے ہے، یعنی تو جانتا ہے یا وہ سب لوگ جانتے ہیں جو تیرے ہم عصر ہیں۔ یہ اس لئے فرمایا کہ عرب میں یہ واقعہ گزرے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ مشہور ترین قول کے مطابق یہ واقعہ اس سال پیش آیا جس سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تھی، اس لئے عربوں میں اس کی خبریں مشہور اور متواتر تھیں یہ واقع مختصر! حسب ذیل ہے ;
واقعہ اصحاب الفیل;
حبشہ کے بادشاہ کی طرف سے یمن میں ابرہتہ الاشرم گورنر تھا اس نے صنعاء میں ایک بہت بڑا گرجا (عبادت گھر) تعمیر کیا اور کوشش کی کہ لوگ خانہ کعبہ کی بجائے عبادت اور حج عمرہ کے لئے ادھر آیا کریں۔ یہ بات اہل مکہ اور دیگر قبائل عرب کے لئے سخت ناگوار تھی۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص ابرہہ کے بنائے ہوئے عبادت خانے کو غلاظت سے پلید کر دیا، جس کی اطلاع اس کو کر دی گئی کہ کسی نے اس طرح گرجا کو ناپاک کر دیا ہے، جس پر اس نے خانہ کعبہ کو ڈھانے کا عزم کر لیا اور ایک لشکر جرار لے کر مکے پر حملہ آور ہوا، کچھ ہاتھی بھی اس کے ساتھ تھے۔ جب یہ لشکر وادی محسر کے پاس پہنچا تو اللہ تعالٰی نے پرندوں کے غول بھیج دیئے جن کی چونچوں اور پنجوں میں کنکریاں تھیں جو چنے یا مسور کے برابر تھیں، جس فوجی کے بھی یہ کنکری لگتی وہ پگل جاتا اور اس کا گوشت جھڑ جاتا۔ خود ابرہہ کا بھی صنعاء پہنچتے پہنچتے یہی انجام ہوا۔ اسطرح اللہ نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی، مکے کے قریب پہنچ کر ابرہہ کے لشکر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کے، جو مکے کے سردار تھے، اونٹوں پر قبضہ کر لیا، جس پر عبدالمطلب نے آ کر ابرہہ سے کہا کہ تو میرے اونٹ واپس کر دے جو تیرے لشکریوں نے پکڑے ہیں۔ باقی رہا خانہ کعبہ کا مسئلہ جس کو ڈھانے کے لئے تو آیا ہے تو وہ تیرا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے، وہ اللہ کا گھر ہے، وہی محافظ ہے، تو جانے اور بیت اللہ کا مالک اللہ جانے۔ (ایسر التفاسیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا
6 Muhammad Junagarhi
کیا تو نے نہ دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا (سلوک) کیا؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیاہے
9 Tafsir Jalalayn
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا ؟
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم نہیں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ (اور) اس ہاتھی کا نام محمود تھا اور اس کے اصحاب ابرہہ یمن کا بادشاہ اور اس کا لشکر تھا، اس نے صنعاء میں کلیسیا بنوایا تھا، تاکہ حجاج کو مکہ کے بجائے اس کی طرف موڑ دے، کنانہ کے ایک شخص نے کلیسا میں رفع حاجت کر کے اس کے قبلہ کو تحقیر کے طور پر نجاست سے آلودہ کردیا، چناچہ ابرہہ نے خانہ کعبہ کو منہدم کرنے کی قسم کھالی، سو وہ اپنے لشکر کے ساتھ ہاتھیوں پر سوار ہو کر مکہ آیا اور ہاتھیوں میں سب سے آگے محمود نامی ہاتھ تھا، چناچہ جب یہ لوگ معتبہ اللہ کو منہدم کرنے کے لئے متوجہ ہوئے (تو اللہ نے) ان پر وہ چیز بھیج دی جس کا قصہ (اللہ نے) اپنے قول الم یجعل کیدھم الخ میں بیان فرمایا، کیا اس نے انہدام کعبہ کے بارے میں ان کی تدبیر کو اکارت اور ناکارہ نہیں کردیا ؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیئے، کہا گیا ہے کہ (ابابیل) کا واحد نہیں ہے اور کہا گیا ہے کہ واحد ابول ہے جیسا کہ عجول، عجاجیل کا واحد ہے یا ابال ہے جیسا کہ مفتاح، مفاتیح کا واحد ہے یا اس کا واحد ابیل ہے، جیسا کہ سکاکین کا واحد سکین ہے، جو ان پر پکی ہوئی مٹی کی پتھریاں پھینک رہے تھے، پھر ان کا ایسا حال کردیا جایسا کہ جانوروں کا کھایا ہوا بھوسہ جیسا کہ کھکیتی کے پتے، کہ ان کو جانوروں نے چر دیا ہو، اور اس کو فنا کردیا ہو، یعنی اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک کو اس کی اس پتھری سے ہلاک کردیا، جس پر اس کا نام لکھا ہوا تھا اور وہ مسور سے بڑی اور چنے سے چھوٹی تھی، جو خود کو، ہاتھی کو اور آدمی کو چھیدتی ہوئی زمین تک پہنچ جات تھی اور یہ واقعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت با سعادت کے سال پیش آیا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : المر تر رئویت سے رئویت علمیہ مراد ہے اور خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے، رئویت سے رئویت بصری بھی مراد ہو سکتی ہے، اس لئے کہ اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس واقعہ کو نہیں دیکھا، مگر اس کے آثار و علامات کو دیکھا تھا یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس واقعہ کو متواتر بیان کرنے والوں سے اس قدر تواتر کے ساتھ سنا کہ بمنزلہ مشاہدہ کے ہوگیا، اس لئے کہ تواتر کے ساتھ سنی ہوئی چیز بمنزلہ مشاہد کے ہوتی ہے۔
قولہ : استفھام تعجیب یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ ال لہ تعالیٰ عالم الغیب ہیں ان کو تو ماکان ومایکون کا علم ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ نے الم تر کے ذریعہ کیوں سوال فرمایا ؟
جواب :۔ جواب کا ماحصل یہ ہے کہ یہ استفہام برائے تعجب ہے نہ کہ برائے سوال، یعنی اے مخاطب ! تو اصحاب فیل کی حالت کو دیکھ کر تعجب کر۔
قولہ : ھو محمود تمام ہاتھیوں کا سردار ایک محمود نامی ہاتھی تھا، جو عظیم الجثہ اور بڑے ڈیل ڈول والا تھا، اس کی کنیت ابو العباس تھی۔
قولہ : ابابیل ایک پرندہ جو کہ کبوتر سے قدرے چھوٹا ہوتا ہے۔
قولہ : ھو محمود تمام ہاتھیوں کا سردار ایک محمود نامی ہاتھی تھا، جو عظیم الجثہ اور بڑے ڈیل ڈول والا تھا، اس کی کنیت ابو العباس تھی۔
قولہ : ابابیل ایک پرندہ جو کہ کبوتر سے قدرے چھوٹا ہوتا ہے۔
قولہ : سجیل یہ سنگ گل کا معرب ہے، وہ پتھر جس میں مٹی کی آمیزش ہو، آگ میں پکی ہوئی مٹی کو بھی ” سجیل “ کہتے ہیں۔
تفسیر و تشریح
اس سورت میں واقعہ فیل کا مختصر بیان ہے، شاہ حبشہ کی طرف سے یمن میں ابرہتہ الاشرم گورنر تھا، اس نے صنعاء میں ایک بہت بڑا گرجا تعمیر کرایا تھا اور اس کی کوشش تھی کہ لوگ خانہ کعبہ کے بجائے اسی گرجا کا حج کیا کریں، یہ بات اہل مکہ اور دیگر عرب قبائل کو سخت ناگوار تھی، چناچہ بنی کنانہ کے ایک قریشی شخص نے ابرہہ کے بنائے ہوئے عبادت خانہ کو غلاظت سے آلودہ کر کے ناپاک کردیا، جب ابرہہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے خانہ کعبہ کو منہدم کرنے کا عزم کر یا اور ایک لشکر جرار لے کر مکہ پر حملہ آور ہوا، کچھ ہاتھی بھی اس کے ساتھ تھے جب یہ لشکر وادی محشر کے پاس پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے غول بھیج کر اپنے گھر کی حفاظت فرمائی، ہر پرندے کی چونچ میں ایک ایک اور پنجوں میں دو دو کنکریاں تھیں جو چنے یا مسور کے برابر تھیں، جس لشکری کے بھی وہ کنکری لگتی وہ ہیں ڈھیر ہوجاتا، خود ابرہہ کا بھی یہی حشر ہوا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی، مکہ کے قریب پہنچ کر ابرہہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دادا عبدالمطلب (جو کہ مکہ کے سردار تھے) کے دو سو اونٹوں پر قبضہ کرلیا، جس پر آپ کے دادا عبدالمطلب نے ابرہہ سے آ کر کہا : میرے اونٹواپس کردو، باقی رہا خانہ کعبہ کا مسئلہ تو وہ اللہ کا گھر ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔ (ایسر التفاسیر مخلصاً )
واقعہ کی تفصیل اور پس منظر :
اصحاب فیل کا واقعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سن ولادت 571 ء میں پیش آیا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت 611 ء میں ہوئی تھی اس وقت بھی اس واقعہ کے چشم دید گواہ بڑی تعداد میں موجود تھے، یہ واقعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارہاصات میں سے ہے ارہاص تاسیس وتمہید کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، رھص سنگ بنیاد کو کہتے ہیں۔
تاریخی پس منظر :
نجرات میں یمن کے فرمانرواز و نواس نے عیسائیوں پر آتش بھری خندق میں جلا کر ظلم کیا تھا اس کا بدلہ لینے کے لئے حبش کی عیسائی سلطنت نے یمن پر حملہ کر کے خمیری حکوتم کا خاتمہ کردیا تھا اور سن 525 میں اس پورے علاقہ پر حبشی حکوتم قائم ہوگئی تھی، یہ پوری کارروائی دراصل قسطنطنیہ کی رومی سلطنت اور حبش کے باہمی تعاون سے ہوئی تھی، یہ عسکری کارروائی شاہ حبش کے کمانڈر اریاط اور ابرہہ کی زیر کمان پایہ تکمیل کو پہنچی تھی، حمیر کا بادشاہ ذونواس فرار ہوگیا، مگر دریا میں غرق ہو کر مرگیا، ادھر یہ ہوا کہ اریاط اور ابرہہ کے درمیان جنگ چھڑ گئی، جس میں اریاط مارا گیا، اس طرح ابرہہ شاہ حبشہ کی طرف سے یمن کا حاکم مقرر ہوگیا، اور شاہ حبشہ کے انتقال کے بعد اس کے جانشین نے ابرہہ کو نائب السلطنت تسلیم کرلیا، اس کے بعد ابرہہ رفتہ رفتہ یمن کا خود مختار بادشاہ بن گیا اور برائے نام ہی اس نے شاہ حبش کی بالا دستی قبول کر رکھی تھی۔
یمن پر پوری طرح اقتدار مضبوط کرلینے کے بعد ابرہہ نے اس مقصد کے لئے کام شروع کردیا جو اس مہم کی ابتداء سے رومی سلطنت اور اس کے حلیف حبشی عیسائیوں کے پیش نظر تھا یعنی ایک طرف عرب میں عیسائیت کا پھیلانا اور دوسری طرف اس تجارت پر قبضہ کرنا جو بلاد مشرق اور رومی مقبوضات کے درمیان عربوں کے ذریعہ ہوت تھی، یہ ضرورت اس بناء پر بڑھ گئی تھی کہ ایران کی سا سانی سلطنت کے ساتھ رومی سلطنت کی کشمکش اقتدار نے بلاد مشرق سے رومی تجارت کے دوسرے تمام راستے بند کردیئے تھے۔
ابرہہ نے اس مقصد کے لئے یمن کے دارالسلطنت صنعاء میں ایک عظیم الشان کلیسا بنایا، محمد بن اسحاق کی روایت کے مطابق کلیسا کی تکمیل کے بعد ابرہہ نے شاہ حبش کو لکھا کہ میں عربوں کو حج کعبہ سے اس کلیسا کی طرف موڑے بغیر نہ رہوں گا، ابن کثیر (رح) تعالیٰ نے لکھا ہے کہ اس نے علی الاعلان اپنے اس ارادہ کا اظہار کیا اور اس کی منادی کرا دی کہ اب یمن سے کوئی کعبہ کے حج کے لئے نہ جائے، اس کی اس حرکت کا مقصد ہمارے نزدیک یہ تھا کہ عربوں کو غصہ دلائیں، تاکہ وہ کوئی ایسی کارروائی کریں جس سے اس کو مکہ پر حملہ کرنے اور کعبہ کو منہدم کنے کا بہانہ مل جائے، محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ اس کے اس اعلان سے عرب کے قبائل عدنان، قحطان اور قریش کے قبائل میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی، یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے رات کے وقت کلیسا میں داخل ہو کر اس کو گندگی سے آلودہ کردیا۔
ابرہہ کو جب اس حرکت کا علم ہوا تو اس نے قسم کھالی کہ میں کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا، اس کے بعد 570 ء یا 571 ء میں 60 ہزار فوج اور 12 ہاتھی لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں عربوں کے ایک سردار ذونفر نے اس کی مزاحمت کی، مگر وہ شکستک ھا کر گرفتار ہوگیا، اس کے بعد خشعم کے علاقہ میں ایک عرب سردار نفیل بن حبیب خشعمی نے مزاحمت کی، مگر وہ بھی شکست کھا کر گرفتار ہوا اور اس نے اپنی جان بچانے کے لئے رہبری کی خدمت انجام دینا قبول کرلیا۔
محمد بن اسحاق کی روایت ہے کہ المغس سے ابرہہ نے اپنے مقدمتہ الجیش کو آگے بڑھایا اور وہ اہل تہامہ اور قریش کے بہت سے مویشی لوٹ کرلے گیا، جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دادا عبدالمطلب کے بھی دو سو اونٹ تھے، اس کے بعد اس نے اپنے ایک ایلچی کو مکہ بھیجا اور اس کے ذریعہ اہل مکہ کو یہ پغام دیا کہ میں تم سے لڑنے نہیں آیا ہوں، بلکہ کعبہ کو منہدم کرنے کے لئے آیا ہوں اگر تم تعرض نہ کرو گے تو میں تمہاری جان و مال سے کوئی تعرض نہ کروں گا، نیز اس نے اپنے ایلچی کو ہدایت کردی کہ اہل مکہ اگر بات کرنا چاہیں تو ان کے سردار کو میرے پاس لے آنا، مکہ کے سب سے بڑے سردار اس وقت عبدالمطلب تھے، ایلچی نے ان کو ابرہہ کا پیغام پہنچایا، انہوں نے کہا ہم میں ابرہہ سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے، یہ اللہ کا گھر ہے وہ چاہے گا تو خود اپنے گھر کی حفاظت کرلے گا، ایلچی نے کہا آپ میرے ساتھ ابرہہ کے پاس چلیں، وہ اس پر راضی ہوگئے، ابرہہ نے جب عبدالمطلب کو دیکھا کہ بڑے وجیہ آدمی ہیں تو ان کو دیکھ کر اپنے تخت سے نیچے اتر کر بیٹھ گیا اور عبدالمطلب کو اپنے برابر بٹھایا، پھر پوچھا آپ کیا چاہتے ہیں ؟ عبدالطلب نے جواب دیا کہ آپ نے جو میرے اونٹ پکڑ لئے ہیں وہ مجھے واپس دے دیئے جائیں، ابرہہ نے کہا کہ آپ کو دیکھ کر تو میں بہت متاثر ہوا تھا، مگر آپ کی اس بات نے آپ کو میری نظر سے گرا دیا کہ آپ اپنے اونٹوں کا مطالبہ کر ہرے ہیں اور یہ گھر جو آپ کا اور آپ کے دین کا آبائی مرجع ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے، عبدالمطلب نے جواب دیا، میں تو صرف اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور انہی کے بارے میں آپ سے درخواست کر رہا ہوں اب رہا کبعہ تو اس کا مالک رب ہے وہ اس کی حفاظت خود کرے گا ابرہہ نے جواب دیا، وہ اس کو مجھ سے نہ بچا سکے گا عبدالمطلب نے کہا آپ جانیں اور وہ جانے عبدالمطلب کے اونٹ ابرہہ نے واپس کردیئے وہ اپنے اونٹ لے کر واپس آئے تو بیت اللہ کے دروازے کا حلقہ پکڑ کر دعاء میں مشغول ہوئے جس میں قریش کی بڑی جماعت ساتھ تھی سب نے اللہ سے گڑ گڑا کر بڑی عاجزی کے ساتھ دعائیں کیں، اس خانہ کعبہ میں 360 بت موجود تھے، مگر یہ لوگ اس نازک گھڑی میں ان سب کو بھول گئے اور انہوں نے صرف اللہ کے آگے دست سوال پھیلایا ان کی جو دعائیں تاریخوں میں منقول ہیں ان میں اللہ وحدہ لاشریک لہ کے سوا کسی دوسرے کا نام تک نہیں پایا جاتا، سچ ہے کہ مصیبت کے وقت خدا ہی یاد آتا ہے۔
مقصود کلام :
جو تاریخی تفصیلات اوپر درج کی گئی ہیں ان کو نگاہ میں رکھ کر سورة فیل پر غور یا جائے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس سورت میں اس قدر اختصار کے ساتھ صرف اصحاب فیل پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ذکر کردینے پر کیوں اکتفاء کیا گیا ہے ؟ واقعہ کچھ پرانا نہ تھا مکہ کا بچہ بچہ اس کو جانتا تھا عرب کے لوگ عام طور پر اس سے واقف تھے، تمام اہل عرب اس بات کے قائل تھے کہ ابرہہ کے اس حملہ سے کعبہ کی حفاظت کسی دیوی دیوتا نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے کی تھی، اللہ ہی سے قریش کے سرداروں نے مدد مانگی تھی اور چند سال تک قریش کے لوگ اس واقعہ سے اس قدر متاثر رہے تھے کہ انہوں نے اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کی تھی اس لئے سورة فیل میں ان تفصیلات کے ذکر کی حاجت نہیں تھی، بلکہ صرف اس واقعہ کو یاد دلانا کافی تھا، تاکہ قریش کے لوگ خصوصاً اور عرب عموماً اپنے دلوں میں اس بات پر غور کریں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس چیز کی طرف دعوت دے رہے ہیں، وہ آخر اس کے سوا اور کیا ہے کہ تمام دوسرے معبودوں کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی جائے، نیز وہ یہ بھی سوچ لیں کہ اگر اس دعوت حق کو دبانے کے لئے انہوں نے زور زبردستی سے کام لیا تو جس خدا نے اصحاب فیل کو تہس نہس کیا تھا اسی کے غضب میں وہ گرفتار ہوں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کی عظمت شان اپنے بندوں پر اس کی رحمت ، اس کی توحید کے دلائل اور اس کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کو نہیں دیکھا ،کہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ جنہوں نے اس کے حرمت والے گھر کے خلاف سازش کی اور اس کو ڈھانے کا ارادہ کیا ۔ پس اس کے لیے انہوں نے خوب تیاری کی اور بیت اللہ کو منہدم کرنے کے لیے انہوں نے اپنے ساتھ ہاتھی بھی لے لیے تھے۔ وہ حبشہ اور یمن سے ایک ایسی فوج لے کرآئے جس کا مقابلہ کرنا عربوں کے بس میں نہ تھا۔ جب وہ مکہ کے قریب پہنچے تو عربوں میں مزاحمت کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اہل مکہ ان کے خوف سے مکہ سے نکل گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر پرندوں کے غول بھیجے، یعنی متفرق غول جو کھنگر کی گرم کنکریاں اٹھائے ہوئے تھے ۔ پس پرندوں نے یہ کنکریاں ان پر پھینکیں اور انہوں نے دور اور نزدیک سب کو نشانہ بنایا اور وہ سب موت کے گھاٹ اتر گئے اور وہ یوں ہوگئے ، جیسے کھایا ہوا بھس۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر کے لیے کافی ہوگیا اور اس نے ان کی چال کو انہی پر لوٹا دیا۔ ان کا یہ واقعہ بہت مشہور اور معروف ہے ۔یہ واقعہ اس سال پیش آیا جس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ پس یہ واقعہ آپ کی دعوت کی بنیاد ور آپ کی رسالت کی دلیل بن گیا ۔ پس اللہ تعالیٰ ہی کی حمد وثنا اور اسی کا شکر ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
kiya tum ney nahi dekha kay tumharay perwerdigar ney haathi walon kay sath kaisa moamla kiya-?
12 Tafsir Ibn Kathir
ابرہہ اور اس کا حشر :
اللہ رب العزت نے قریش پر جو اپنی خاص نعمت انعام فرمائی تھی اس کا ذکر کر رہا ہے کہ جس لشکر نے ہاتھیوں کو ساتھ لے کر کعبے کو ڈھانے کے لیے چڑھائی کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے کہ وہ کعبے کے وجود کو مٹائیں ان کا نام ونشان مٹا دیا۔ ان کی تمام فریب کاریاں ان کی تمام قوتیں سلب کرلیں برباد و غارت کردیا یہ لوگ مذہباً نصرانی تھے لیکن دین مسیح کو مسخ کردیا تھا قریباً بت پرست ہوگئے تھے انہیں اس طرح نامراد کرنا یہ گویا پیش خیمہ تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا اور اطلاع تھی آپ کی آمد آمد کیحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی سال تولد ہوئے اکثر تاریخ داں حضرات کا یہی قول ہے تو گویا رب العالم فرما رہا ہے کہ اے قریشیو ! حبشہ کے اس لشکر پر تمہیں فتح تمہاری بھلائی کی وجہ سے نہیں دی گئی تھی بلکہ اس میں ہمارے گھر کا بچاؤ تھا جسے ہم شرف بزرگی عظمت و عزت میں اپنے آخر الزمان پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت سے بڑھانے والے تھے۔ غرض اصحاب فیل کا مختصر واقعہ تو یہ ہے جو بیان ہوا اور مطول واقعہ اصحاب الاخدود کے بیان میں گذر چکا ہے کہ قبیلہ حمیر کا آخری بادشاہ ذونواس جو مشرک تھا جس نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کو کھائیوں میں قتل کیا تھا جو سچے نصرانی تھے اور تعداد میں تقریباً بیس ہزار تھے سارے کے سارے شہید کر دئیے گئے تھے صرف دوس ذو ثعلبان ایک بچ گیا تھا جو ملک شام جا پہنچا اور قیصر روم سے فریاد رسی چاہی۔ یہ بادشاہ نصرانی مذہب پر تھا اس نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو لکھا کہ اس کے ساتھ اپنی پوری فوج کردو اس لیے کہ یہاں سے دشمن کا ملک قریب تھا۔ اس بادشاہ نے ارباط اور ابو یکسوم ابرہہ بن صباح کو امیر لشکر بنا کر بہت بڑا لشکر دے کر دونوں کو اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا یہ لشکر یمن پہنچا اور یمن کو اور یمنیوں کو تاخت و تاراج کردیا۔ ذونواس بھاگ کھڑا ہوا اور دریا میں ڈوب کر مرگیا اور ان لوگوں کی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا اور سارے یمن پر شاہ حبشہ کا قبضہ ہوگیا اور یہ دونوں سردار یہاں رہنے سہنے لگے لیکن کچھ تھوڑی مدت کے بعد ان میں ناچاقی ہوگئی آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں نے آمنے سامنے صفیں باندھ لیں اور لڑنے کے لیے نکل آئے عام حملہ ہونے سے بیشتر ان دونوں سرداروں نے آپس میں کہا کہ فوجوں کو لڑانے اور لوگوں کو قتل کرانے کی کیا ضرورت، آؤ ہم تم دونوں میدان میں نکلیں اور ایک دوسرے سے لڑ کر فیصلہ کرلیں جو زندہ بچ جائے ملک و فوج اس کی۔ چناچہ یہ بات طے ہوگئی اور دونوں میدان میں نکل آئے ارباط نے ابرہہ پر حملہ کیا اور تلوار کے ایک ہی وار سے چہرہ خونا خون کردیا ناک ہونٹ اور منہ کٹ گیا، ابرہہ کے غلام عتودہ نے اس موقعہ پر اریاط پر ایک بےپناہ حملہ کیا اور اسے قتل کردیا ابرہہ زخمی ہو کر میدان سے زندہ واپس گیا۔ علاج معالجہ سے زخم اچھے ہوگئے اور یمن کا یہ مستقل بادشاہ بن بیٹھا۔ نجاشی حبشہ کو جب یہ واقعہ معلوم ہوا تو وہ سخت غصہ ہوا اور ایک خط ابرہہ کو لکھا اسے بڑی لعنت ملامت کی اور کہا کہ قسم اللہ کی میں تیرے شہروں کو پامال کردوں گا۔ اور تیری چوٹی کاٹ لاؤں گا، ابرہہ نے اس کا جواب نہایت عاجزی سے لکھا اور قاصد کو بہت سارے ہدئیے دئیے اور ایک تھیلی میں یمن کی مٹی بھر دی اور اپنی پیشانی کے بال کاٹ کر اس میں رکھ دئیے۔ اور اپنے خط میں اپنے قصوروں کی معافی طلب کی اور لکھا کہ یہ یمن کی مٹی حاضر ہے اور چوٹی کے بال بھی، آپ اپنی قسم پوری کیجئے اور ناراضی معاف فرمائیے اس سے شاہ حبشہ خوش ہوگیا اور یہاں کی سرداری اسی کے نام کردی، اب ابرہہ نے نجاشی کو لکھا کہ میں یہاں یمن میں آپ کے لیے ایک ایسا گرجا تعمیر کررہاں ہو کہ اب تک دنیا میں ایسا نہ بنا ہو اور اس گرجا گھر کا بنانا شروع کیا بڑے اہتمام اور کروفر سے بہت اونچا بہت مضبوط بےحد خوبصورت اور منقش و مزین گرجا بنایا۔ اس قدر بلند تھا کہ چوٹی تک نظر ڈالنے والے کی ٹوپی گر پڑتی تھی اسی لیے عرب اسے قلیس کہتے یعنی ٹوپی پھینک دینے والا۔ اب ابرہہ اشرم کو یہ سوجھی کہ لوگ بجائے کعبۃ اللہ کے حج کے اس کا حج کریں، اپنی ساری مملکت میں اس کی منادی کرادی عدنانیہ اور قحطانیہ عرب کو یہ بہت برا لگا ادھر سے قریش بھی بھڑک اٹھے تھوڑے دن میں کوئی شخص رات کے وقت اس کے اندر گھس گیا اور وہاں پاخانہ کرکے چلا آیا چوکیدار نے جب یہ دیکھا تو بادشاہ کو خبر پہنچائی اور کہا کہ یہ کام قریشیوں کا ہے چونکہ آپ نے ان کا کعبہ روک دیا ہے لہٰذا انہوں نے جوش اور غضب میں آکر یہ حرکت کی ہے ابرہہ نے اسی وقت قسم کھالی کہ میں مکہ پہنچوں گا اور بیت اللہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا اور ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ چند ملے جلے نوجوان قریشیوں نے اس گرجا میں آ ۤگ لگا دی تھی اور اس وقت ہوا بھی بہت تیز تھی سارا گرجا جل گیا اور منہ کے بل زمین پر گرگیا اس پر ابرہہ نے بہت بڑا لشکر ساتھ لے کر مکہ پر چڑھائی کی تاکہ کوئی روک نہ سکے اور اپنے ساتھ ایک بڑا اونچا اور موٹا ہاتھی لیا جسے محمود کہا جاتا تھا۔ اس جیسا ہاتھی اور کوئی نہ تھا شاہ حبشہ نے یہ ہاتھی اس کے پاس اسی غرض سے بھیجا تھا آٹھ یا بارہ ہاتھی اور بھی ساتھ تھے یہ کعبے کے ڈھانے کی نیت سے چلا یہ سوچ کر کہ کعبہ کی دیواروں میں مضبوط زنجیریں ڈال دوں گا اور ہاتھیوں کی گردنوں میں ان زنجیروں کو باندھ دوں گا ہاتھی ایک ہی جھٹکے میں چاروں دیواریں بیت اللہ کی جڑ سے گرا دیں گے، جب اہل عرب کو یہ خبریں معلوم ہوئیں تو ان پر بڑا بھاری اثر ہوا انہوں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم ضرور اس سے مقابلہ کریں گے اور اسے اس کی اس بدکرداری سے روکیں گے ایک یمنی شریف سردار جو وہاں کے بادشاہوں کی اولاد میں سے تھا جسے ' ذونفر ' کہا جاتا تھا یہ کھڑا ہوگیا اپنی قوم کو اور کل آس پاس کے عرب کو جمع کیا اور اس بدنیت بادشاہ سے مقابلہ کیا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا عربوں کو شکست ہوئی اور ذو نفر اس خبیث کے ہاتھ میں قید ہوگیا اس نے اسے بھی ساتھ لیا اور مکہ شریف کی طرف بڑھا خثم قبیلے کی زمین پر جب یہ پہنچا تو یہاں نفیل بن حبیب خثعمی نے اپنے لشکروں سے اس کا مقابلہ کیا لیکن ابرہہ نے انہیں بھی مغلوب کرلیا اور نفیل بھی قید ہوگیا پہلے تو اس ظالم نے اسے قتل کرنا چاہا لیکن پھر قتل نہ کیا اور قید کرکے ساتھ لے لیا تاکہ راستہ بنائے، جب طائف کے قریب پہنچا تو قبیلہ ثقیف نے اس سے صلح کرلی کہ ایسا نہ ہو ان کے بت خانوں کو جس میں لات نامی بت تھا یہ توڑ دے اس نے بھی ان کی بڑی آؤ بھگت کی انہوں نے ابو رغال کو اس کے ساتھ کردیا کہ یہ تمہیں وہاں کا راستہ بتائے گا۔ ابرہہ جب مکہ کے بالکل قریب معمس کے پہنچا تو اس نے یہاں پڑاؤ کیا اس کے لشکر نے آس پاس مکہ والوں کے جو جانور اونٹ وغیرہ چر چگ رہے تھے سب کو اپنے قبضہ میں کیا ان جانوروں میں دو سو اونٹ تو صرف عبدالمطلب کے تھے اسود بن مقصود جو اس کے لشکر کے ہر اول کا سردار تھا اس نے ابرہہ کے حکم سے ان جانوروں کو لوٹا تھا، جس پر عرب شاعروں نے اس کی ہجو میں اشعار تصنیف کئے ہوئے ہیں جو سیرۃ ابن اسحاق میں موجود ہیں، اب ابرہہ نے اپنا قاصد حناطہ حمیری مکہ والوں کے پاس بھیجا کہ مکہ کے سب سے بڑے سردار کو میرے پاس لاؤ اور یہ بھی اعلان کردو کہ میں مکہ والوں سے لڑنے نہیں آیا میرا ارادہ صرف بیت اللہ کو گرانے کا ہے ہاں اگر مکہ والے اس کے بچانے کے درپے ہوئے تو لامحالہ مجھے ان سے لڑائی کرنی پڑے گی، حناطہ جب مکہ میں آیا اور لوگوں سے ملا جلا تو معلوم ہوا کہ یہاں کا بڑا سردار عبدالمطلب بن ہاشم ہے، یہ عبدالمطلب سے ملا اور شاہی پیغام پہنچایا جس کے جواب میں عبدالمطلب نے کہا واللہ نہ ہمارا ارادہ اس سے لڑنے کا ہے نہ ہم میں اتنی طاقت ہے یہ اللہ کا حرمت والا گھر ہے اس کے خلیل حضرت ابراہیم کی زندہ یادگار ہے اللہ اگر چاہے گا تو اپنے گھر کی آپ حفاظت کرے گا، ورنہ ہم میں تو ہمت و قوت نہیں۔ حناطہ نے کہا اچھا تو آپ میرے ساتھ بادشاہ کے پاس چلے چلئے عبدالمطلب ساتھ ہوئے، بادشاہ نے جب انہیں دیکھا تو ہیبت میں آگیا عبدالمطلب گورے چٹے سڈول اور مضبوط قوی والے حسین و جمیل انسان تھے، دیکھتے ہی ابرہہ تخت سے نیچے اتر آیا اور فرش پر عبدالمطلب کے ساتھ بیٹھ گیا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھ کہ کیا چاہتا ہے ؟ عبدالمطلب نے کہا میرے دو سو اونٹ جو بادشاہ نے لے لئے ہیں انہیں واپس کردیا جائے بادشاہ نے کہا ان سے کہہ دے کہ پہلی نظر میں تیرا رعب مجھ پر پڑا تھا اور میرے دل میں تیری وقعت بیٹھ گئی تھی لیکن پہلے ہی کلام میں تو نے سب کچھ کھو دی اپنے دو سو اونٹ کی تو تجھے فکر ہے اور اپنے اور اپنی قوم کے دین کی تجھے فکر نہیں میں تو تم لوگوں کا عبادت خانہ توڑنے اور اسے خاک میں ملانے کے لیے آیا ہوں۔ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ سن بادشاہ اونٹ تو میرے ہیں اس لیے انہیں بچانے کی کوشش میں میں ہوں اور خانہ کعبہ اللہ کا ہے وہ خود اسے بچالے گا اس پر یہ سرکش کہنے لگا کہ اللہ بھی آج اسے میرے ہاتھ سے نہیں بچا سکتا، عبدالمطلب نے کہا بہتر ہے وہ جانے اور تو جان، یہ بھی مروی ہے کہ مکہ نے تمام حجاز کا تہائی مال ابرہہ کو دینا چاہا کہ وہ اپنے اس بد ارادہ سے باز آئے لیکن اس نے قبول نہ کیا خیر عبدالمطلب تو اپنے اونٹ لے کر چل دئیے اور آکر قریش کو حکم دیا کہ مکہ بالکل خالی کردو پہاڑوں میں چلے جاؤ، اب عبدالمطلب اپنے ساتھ قریش کے چیدہ چیدہ لوگوں کو لے کر بیت اللہ میں آیا اور بیت اللہ کے دروازہ کا کنڈا تھام کر رو رو کر اور گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں مانگنی شروع کیں کہ باری تعالیٰ ابرہہ اور اس کے خونخوار لشکر سے اپنے پاک اور ذی عزت گھر کو بچا لے عبدالمطلب نے اس وقت یہ دعائیہ اشعار پڑھے۔
لا ھم ان المرایم نع رحلہ فامنع رحالک
لا یغلبن صلیبھم ومحالھم ابدا محالک
یعنی ہم بےفکر ہیں ہم جانتے ہیں کہ ہر گھر والا اپنے گھر کا بچاؤ آپ کرتا ہے اے اللہ تو بھی اپنے گھر کو اپنے دشمنوں سے بچا یہ تو ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ان کی صلیب اور ان کی ڈولیں تیری ڈولوں پر غالب آجائیں۔
اب عبدالمطلب نے بیت اللہ کے دروازے کا کنڈا ہاتھ سے چھوڑ دیا اور اپنے تمام ساتھیوں کو لے کر آس پاس کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گیا یہ بھی مذکور ہے کہ جاتے ہوئے قربانی کے سو اونٹ بیت اللہ کے ارد گرد نشان لگا کر چھوڑ دئیے تھے اس نیت سے کہ اگر یہ بددین آئے اور انہوں نے اللہ کے نام کی قربانی کے ان جانوروں کو چھیڑا تو عذاب الٰہی ان پر اترے گا، دوسری صبح ابرہہ کے لشکر میں مکہ جانے کی تیاریاں ہونے لگیں اپنا خاص ہاتھی جس کا نام محمود تھا اسے تیار کیا لشکر میں کمر بندی ہوچکی تھی اور مکہ شریف کی طرف منہ اٹھا کر چلنے کی تیاری کی اس وقت نفیل بن حبیب جو اس سے راستے میں لڑا تھا اور اب بطور قیدی کے اس کے ساتھ تھا وہ آگے بڑھا اور شاہی ہاتھی کا کان پکڑ لیا اور کہا محمود بیٹھ جا اور جہاں سے آیا ہے وہیں خیریت کے ساتھ چلا جاتو اللہ تعالیٰ کے محترم شہر میں ہے یہ کہہ کر کان چھوڑ دیا اور بھاگ کر قریب کی پہاڑی میں جا چھپا، محمود ہاتھی یہ سنتے ہی بیٹھ گیا، اب ہزار جتن فیلبان کررہے ہیں لشکری بھی کوششیں کرتے کرتے تھک گئے لیکن ہاتھی اپنی جگہ سے ہلتا ہی نہیں، سر پر آنکس مار رہے ہیں ادھر ادھر سے بھالے اور برچھے مار رہے ہیں آنکھوں میں آنکس ڈال رہے ہیں غرض تمام جتن کر لئے لیکن ہاتھی جنبش بھی نہیں کرتا پھر بطور امتحان کے اس کا منہ یمن کی طرف کرکے چلانا چاہا تو جھٹ سے کھڑا ہو کر دوڑتا ہوا چل دیا شام کی طرف چلانا چاہاتو بھی پوری طاقت سے آگے بڑھ گیا، مشرق کی طرف لے جانا چاہا تو بھی بھاگا بھاگا گیا پھر مکہ شریف کی طرف منہ کرکے آگے بڑھانا چاہا وہیں بیٹھ گیا، انہوں نے پھر اسے مارنا شروع کیا دیکھا کہ ایک گھٹا ٹوپ پرندوں کا جھرمٹ بادل کی طرح سمندر کے کنارے کی طرف سے امڈا چلا آرہا ہے ابھی پوری طرح دیکھ بھی نہیں پائے تھے کہ وہ جانور سر پر آگئے چاروں طرف سے سارے لشکر کو گھیر لیا اور ان میں ہر ایک کی چونچ میں ایک مسر یا ماش کے دانے برابر کنکری تھی، اور دونوں پنجوں میں دو دو کنکریاں تھیں یہ ان پر پھینکنے لگے جس پر یہ کنکری آن پڑی وہ وہیں ہلاک ہوگیا، اب تو اس لشکر میں بھاگڑ پڑگئی ہر ایک نفیل نفیل کرنے لگا کیونکہ اسے ان لوگوں نے اپنا راہبر اور راستے بتانے والاسمجھ رکھا تھا نفیل تو ہاتھی کو کہہ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور دیگر اہل مکہ ان لوگوں کی یہ درگت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور نفیل وہیں کھڑا یہ اشعار پڑھ رہا تھا۔
این المفر والا لہ الطالب والاشرم المغلوب لیس الغالب
اب جائے پناہ کہاں ہے ؟ جبکہ اللہ خود تاک میں لگ گیا ہے سنو اشرم بدبخت مغلوب ہوگیا اب یہ پنپنے کا نہیں اور بھی نفیل نے اس واقعہ کے متعلق بہت سے اشعار کہے ہیں جن میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کاش کہ تو اس وقت موجود ہوتا جبکہ ان ہاتھی والوں کی شامت آئی ہے اور وادی محصب میں ان پر عذاب کے سنگریزے برسے ہیں تو اس وقت تو اس اللہ کے لشکر یعنی پرندوں کو دیکھ کر قطعاً سجدے میں گرپڑتا ہم تو وہاں کھڑے حمد رب کی راگنیاں الاپ رہے تھے گو کلیجے ہمارے بھی اونچے ہوگئے تھے کہ کہیں کوئی کنکری ہمارا کام بھی تمام نہ کر دے نصرانی منہ موڑے بھاگ رہے تھے اور نفیل نفیل پکار رہے تھے۔ گویا کہ نفیل پر ان کے باپ دادوں کا کوئی قرض تھا واقدی فرماتے ہیں یہ پرندے زرد رنگ کے تھے کبوتر سے کچھ چھوٹے تھے ان کے پاؤں سرخ تھے اور روایت میں ہے کہ جب محمود ہاتھی بیٹھ گیا اور پوری کوشش کے باوجود بھی نہ اٹھا تو انہوں نے دوسرے ہاتھی کو آگے کیا اس نے قدم بڑھایا ہی تھا کہ اس کی پیشانی پر کنکری پڑی اور بلبلا کر پیچھے ہٹا اور پھرا اور ہاتھی بھی بھاگ کھڑے ہوئے ادھر برابر کنکریاں آنے لگیں اکثر تو وہیں ڈھیر ہوگئے اور بعض جو ادھر ادھر بھاگ نکلے گا ان میں سے کوئی جانبر نہ ہوا بھاگتے بھاگتے ان کے اعضاء کٹ کر گر تے جاتے تھے اور بالآخر جان سے جاتے تھے ابرہہ بادشاہ بھی بھاگا لیکن ایک ایک عضو بدن جھڑنا شروع ہوا یہاں تک کہ خثعم کے شہروں میں سے صنعا میں جب وہ پہنچا تو بالکل گوشت کا لوتھڑا بنا ہوا تھا وہیں بلک بلک کر دم توڑا اور کتے کی موت مرا دل تک پھٹ گیا قریشیوں کو بڑا مال ہاتھ لگا، عبدالمطلب نے تو سونے سے ایک کنواں پر کرلیا تھا، زمین عرب میں آبلہ اور چیچک اسی سال پیدا ہوتے ہوئے دیکھے گئے اور اسی طرح سپند اور حنظل وغیرہ کے کڑوے درخت بھی اسی سال زمین عرب میں دیکھے گئے ہیں پس اللہ تعالیٰ بزبان رسول معصوم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی یہ نعمت یاد دلاتا ہے اور گویا فرمایا جارہا ہے کہ اگر تم میرے گھر کی اسی طرح عزت و حرمت کرتے رہتے اور میرے رسول کو مانتے تو میں بھی اسی طرح تمہاری حفاظت کرتا اور تمہیں دشمنوں سے نجات دیتا ابابیل جمع کا صیغہ ہے اس کا واحد لغت عرب میں پایا نہیں گیا، سجیل کے معنی ہیں بہت ہی سخت اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دو فارسی لفظوں سے مرکب ہے یعنی سنگ اور گل سے یعنی مٹی اور پتھر غرض سجیل وہ ہے جس میں پتھر معہ مٹی کے ہو، عصف جمع ہے عصفۃ کی کھیتی کے ان پتوں کو کہتے ہیں جو پک نہ گئے ہوں۔ ابابیل کے معنی ہیں گروہ گروہ جھنڈ بہت سارے پے در پے جمع شدہ ادھر ادھر سے آنے والے بعض نحوی کہتے ہیں اس کا واحد ابیل ہے ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ان پر ندوں کی چونچ تھی پرندوں جیسی اور پنجے کتوں جیسے عکرمہ فرماتے ہیں یہ سبز رنگ کے پرند تھے جو سمندر سے نکلے تھے ان کے سر درندوں جیسے تھے اوراقوال بھی ہیں یہ پرند باقاعدہ ان لشکریوں کے سروں پر پرے باندھ کر کھڑے ہوگئے اور پھر چیخنے لگے پھر پتھر کیا جس کے سر میں لگا اس کے نیچے سے نکل گیا اور دو ٹکڑے ہو کر زمین پر گرا جس کے جس عضو پر گرا وہ عضو ساقط ہوگیا ساتھ ہی تیز آندھی آئی جس سے اور آس پاس کے کنکر بھی ان کی آنکھوں میں گھس گئے اور سب تہہ وبالا ہوگئے عصف کہتے ہیں چارے کو اور کٹی کھیتی کو اور گیہوں کے درخت کے پتوں کو اور ماکول سے مراد ٹکڑے ٹکڑے کیا ہوا ہے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ عصف کہتے ہیں بھوسی کو جوا ناج کے دانوں کے اوپر ہوتی ہے ابن زید فرماتے ہیں مراد کھیتوں کے وہ پتے ہیں جنھیں جانور چرچکے ہوں مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کو تہس نہس کردیا اور عام خاص کو ہلاک کردیا اس کی ساری تدبیریں الٹ ہوگئیں کوئی بھلائی انہیں نصیب نہ ہوئی ایسا بھی کوئی ان پر صحیح سالم نہ رہا جو کہ ان کی خبر پہنچائے، جو بھی بچا وہ زخمی ہو کر اور اس زخم سے پھر جاں بر نہ ہوسکا، خود بادشاہ بھی گو وہ ایک گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہوگیا تھا جوں توں صنعا میں پہنچا لیکن وہاں جاتے ہی اس کا کلیجہ پھٹ گیا اور واقعہ بیان کر ہی چکا تھا کہ مرگیا، اس کے بعد اسکا لڑکا یکسو یمن کا بادشاہ بنا پھر اس کے دوسرے بھائی مسروق بن ابرہہ کو سلطنت ملی اب سیب بن ذویزن حمیری کسریٰ کے دربار میں پہنچا اور اس سے مدد طلب کی تاکہ وہ اہل حبشہ سے لڑے اور یمن ان سے خالی کرالے کسریٰ نے اس کے ساتھ ایک لشکر جرار کردیا اس لشکر نے اہل حبشہ کو شکست دی اور ابرہہ کے خاندان سے سلطنت نکل گئی اور پھر قبیلہ حمیر یہاں کا بادشاہ بن گیا عربوں نے اس پر بڑی خوشی منائی اور چاروں طرف سے مبارکبادیاں وصول ہوئیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا بیان ہے کہ ابرہہ کے لشکر کے فیلبان اور چرکٹے کو میں نے مکہ شریف میں دیکھا دونوں اندھے ہوگئے تھے چل پھر نہیں سکتے تھے اور بھیک مانگا کرتے تھے حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) فرماتے ہیں اساف اور نائلہ بتوں کے پاس یہ بیٹھے رہتے تھے جہاں مشرکین اپنی قربانیاں کرتے تھے اور لوگوں سے بھیک مانگتے پھرتے تھے اس فیلبان کا نام انیسا تھا، بعض تاریخوں میں یہ بھی ہے کہ ابرہہ خواد اس چڑھائی میں نہ تھا بلکہ اس نے اپنے لشکر کو بہ ماتحتی شمس بن مقصود کے بھیجا تھا یہ لشکر بیس ہزار کا تھا اور یہ پرند ان کے اوپر رات کے وقت آئے تھے اور صبح تک ان سب کا ستیا ناس ہوچکا تھا لیکن یہ روایت بہت غریب ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ خود ابرہہ اشرم حبشی ہی اپنے ساتھ لشکر لے کر آیا تھا یہ ممکن ہے کہ اس کے ہر اول کے دستہ پر یہ شخص سردر ہو، اس واقعہ کو بہت سے عرب شاعروں نے اپنے شعروں میں بھی بسط کے ساتھ بیان کیا ہے، سورة فتح کی تفسیر میں ہم اس واقعہ کو مفصل بیان کر آئے ہیں جس میں ہے کہ جب حدیبیہ والے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس ٹیلے پر چڑھے جہاں سے آپ قریشیوں پر جانے والے تھے تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی لوگوں نے اسے ڈانٹا ڈپٹا لیکن وہ نہ اٹھی لوگ کہنے لگے قصواء تھک گئی آپ نے فرمایا یہ تھکی نہ اس میں اڑنے کی عادت ہے اسے اس اللہ نے روک لیا ہے جس نے ہاتھیوں کو روک لیا تھا پھر فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مکہ والے جن شرائط پر مجھ سے صلح چاہیں گے میں سب مان لوں گا بشرطیکہ اللہ کی حرمتوں کی ہتک اس میں نہ ہو پھر آپ نے اسے ڈانٹا تو وہ فورا اٹھ کھڑی ہوگی۔ یہ حدیث صحیح بخاری مسلم کی اور ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ پر سے ہاتھیوں کو روک لیا اور اپنے نبی کو وہاں کا قبضہ دیا اور اپنے ایماندار بندوں کو، سنو آج اس کی حرمت ویسی ہی لوٹ کر آگئی ہے جیسے کل تھی، خبر دار ہر حاضر کو چاہیے کہ غیر حاضر کو پہنچا دے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے سورة فیل کی تفسیر ختم ہوئی۔