الماعون آية ۱
اَرَءَيْتَ الَّذِىْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِۗ
طاہر القادری:
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے،
English Sahih:
Have you seen the one who denies the Recompense?
1 Abul A'ala Maududi
تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟
2 Ahmed Raza Khan
بھلا دیکھو تو جو دین کو جھٹلاتا ہے
3 Ahmed Ali
کیا آپ نے اس کو دیکھا جو روزِ جرا کو جھٹلاتا ہے
4 Ahsanul Bayan
کیا تو نے دیکھا جو (روز) جزا کو جھٹلاتا ہے (١)۔
١۔١ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب ہے اور استفہام سے مقصد اظہار تعجب ہے۔ رؤیت معرفت کے مفہوم میں ہے اور دین سے مراد آخرت کا حساب اور جزا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کلام میں حذف ہے۔ اصل عبادت ہے" کیا تو نے اس شخص کو پہچانا جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے؟ آیا وہ اپنی اس بات میں صحیح یا غلط۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جو (روزِ) جزا کو جھٹلاتا ہے؟
6 Muhammad Junagarhi
کیا تو نے (اسے بھی) دیکھا جو (روز) جزا کو جھٹلاتا ہے؟
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جو جزا و سزا (کے دن) کو جھٹلاتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جوقیامت کو جھٹلاتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جو (روز) جزا کو جھٹلاتا ہے
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو یکھا جو روز جزاء یعنی حساب اور جزاء کے دن کو جھٹلاتا ہے ؟ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو پہچانا یا نہیں پہچانا ؟ یہ وہ شخص ہے فاء کے بعد ھو مقدر ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے یعنی اس کو سختی کے ساتھ اس کے حق سے محروم رکھتا ہے اور مسکینوں کو کھانا دینے کی نہ خود کو ترغیب دیتا ہے اور نہ دوسروں کو (یہ آیت) عاص بن وائل یا ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی، سو ایسے نمازیوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو غفلت کرتے ہیں بایں طور کہ اس کو اس کے وقت سے مئوخر کردیتے ہیں، جو ایسے ہیں کہ نماز وغیرہ میں ریا کاری کرتے ہیں اور برتنے کی چیز سے منع کردیتے ہیں مثلاً سوئی، کلہاڑی اور ہانڈی اور پیالہ۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ھل عرفتہ اولم تعرفہ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ ارأیت سے رئویت علمیہ مراد ہے جو متعدی بیک مفعول ہے۔
قولہ : بتقدیر ھو بعد الفاء یہ تقدیر لازم نہیں ہے، بلکہ اسم اشارہ کا مبتدا واقع ہونا اور موصوف کا خبر واقع درست ہے، بہر حال ! فذلک جملہ اسمیہ ہے جو کہ جواب شرط واقع ہے، اسی وجہ سے اس پر فاء داخل ہے اور شرط مقدر ہے۔
تفسیر و تشریح
سورة ماعون کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے جبکہ بعض نے کہا ہے کہ اس کا نصف مکی اور نصف مدنی ہے، ابن مردویہ نے ابن عباس اور ابن زبیر (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ یہ سورت مکی ہے اور یہی قول عطاء اور جابر کا ہے، لیکن ابوحیان نے البحر المحیط میں ابن عباس اور قتادہ (رض) اور ضحاک (رح) تعالیٰ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔
ارأیت میں بظاہر خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے، مگر قرآن کا انداز بیان یہ ہے کہ وہ ایسے موق پو عموماً ہر وہ صاحب عقل و خرد کو مراد لیتا ہے جس میں مخاطب بننے کی صلاحیت ہو اور رویت سے مراد رویت علمیہ ہے، رویت بصریہ بھی مراد ہوسکتی ہے اور استفہام سے مراد اظہار تعجب ہے۔
اس سورت میں آیت (٢) اور آیت (٣) میں ان کفار کی حالت بیان یک لئی ہے جو علانیہ آخرت کو جھٹلاتے ہیں اور آخری چار آیتوں میں ان منافقین کا حال بیان کیا گیا ہے جو بظاہر مسلمان ہیں مگر دل میں آخرت اور اس کی جزا و سزا اور اس کے ثواب و عقاب کا کوئی تصور نہیں رکھتے، مجموعی طور پر دونوں گروہوں کے طرز عمل کو بیان کرنے سے مقصود یہ حقیقت لوگوں کے ذہن نشین کرانا ہے کہ انسان کے اندر ایک مضبوط اور مستحکم پاکیزہ کردار، عیدہ آخرت کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا۔
جن اعمال قبیحہ کا ذکر اس سورت میں فرمایا گیا ہے وہ یہ ہیں : (١) یتیم کے ساتھ بدسلوکی اور اس کی توہین، (٢) مسکین و محتاج کو قدرت کے باوجود کھانا نہ دینا اور دوسروں کو اس کی ترغیب نہ دینا۔ (٣) نماز پڑھنے میں ریا کاری کرنا اور سستی و غفلت سے کام لینا، (٤) برتن کی چیزیں نہ دینا یا زکوۃ ادا نہ کرنا، یہ سب اعمال اپنی ذات میں بہت مذموم اور سخت گناہ ہیں اور جب کفر و تکذیب کے نتیجہ میں یہ اعمال سر زد ہوں تو ان کا وبال دائمی جہنم ہے، جس کو اس سورت میں ویل کے الفاظ سے بیان فرمایا گیا ہے۔
یدع الیتیم اس فقرہ کے کئی معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ وہ یتیم کا حق مار کھاتا ہے اور اس کو اس کے باپ کی چھوڑی ہوئی میراث سے بےدخل کر کے اسے دھکے مار کر نکال دیتا ہے دوسرے یہ کہ اگر یتیم اس سے مدد مانگنے آتا ہے تو رحم کھانے کے بجائے اسے دھتکار دیتا ہے، تیسرے یہ کہ وہ یتیم پر ظلم ڈھاتا ہے، مثلاً اس کے گھر میں اگر اس کا اپنا ہی کوئی رشتہ دار یتیم ہو تو اس کے ذمہ پورے گھر کی خدمت گاری کرنے اور بات بات پر جھکڑیاں اور دن بھر ٹھوکریں کھانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اس فقرہ سے یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ اس شخص سے کبھی کبھار یہ ظالمانہ حرکت سر زد نہیں ہوجاتی، بلکہ اس کی عادت اور اس کا مستقل رویہ یہی ہے اور اسے یہ احساس ہی نہیں ہے کہ یہ بھی کوئی برا کام ہے جو وہ کر رہا ہے۔
عجیب واقعہ :
اس سلسلہ میں ایک بڑا عجیب واقعہ قاضی ابو الحسن الماوردی نے اپنی کتاب اعلام النبوۃ میں لکھا ہے، ابوجہل ایک یتیم کا وصی تھا وہ بچہ ایک روز اس حالت میں اس کے پاس آیا کہ اس کے بدن پر کپڑے تک نہ تھے، اس نے آ کر یہ الجاء کی کہ اس کے باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں سے وہ اسے کچھ دیدے، مگر اس ظالم نے اس کی طرف کچھ توجہ نہ کی اور وہ کھڑے کھڑے آخر مایوس ہو کر واپس چلا گیا، قریش کے سرداروں نے از راہ شرارت اس سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر شکایت کر، وہ ابوجہل سے سفارش کر کے تجھے تیرا مال دلوا دیں گے، بچہ بیچارہ حالات سے ناواقف تھا کہ ابوجہل کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تعلق ہے اور یہ بدبخت اسے کس غرض کے لئے یہ مشورہ دے رہے ہیں ؟ وہ سیدھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنا حال بیان کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر اپنے بدترین دشمن ابوجہل کے یہاں تشریف لے گئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ کر اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استقبال کیا اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس بچہ کا حق اسے دیدو، تو وہ فوراً مان گیا اور اس کا مال لا کر اسے دیدیا، قریش کے سردار تاک میں لگے ہوئے تھے کہ دیکھیں ان دونوں کے درمیان کیا معاملہ پیش آتا ہے وہ کسی مزے دار جھڑپ کی امید کر رہے تھے، مگر انہوں نے یہ معاملہ دیکھا تو حیران ہو کر ابوجہل کے پاس آئے اور اسے طعنہ دیا کہ تم بھی اپنا دین چھوڑ گئے، اس نے کہا خدا کی قسم میں نے اپنا دین نہیں چھوڑا مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ محمد (ﷺ) کے دائیں اور بائیں ایک ایک نیزہ ہے جو میرے اندر گھس جائے گا اگر میں نے ذرا بھی ان کی مرضی کے خلاف حرکت کی، اس واقعہ سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں عرب کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور معزز قبیلہ تک کے بڑے بڑے سرداروں کا یتیموں اور دوسرے بےیارو مددگاروں کے ساتھ کیا سلوک تھا، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس بلند اخلاق کے مالک تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس اخلاق کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بدترین دشمنوں تک پر کیا رعب تھا ؟
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ اس شخص کی مذمت کرتے ہوئے جس نے اس کے اور اس کے بندوں کے حقوق کو ترک کردیا ، فرماتا ہے : ﴿اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ﴾کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو حیات بعدالموت کو جھٹلاتا ہے اور جو کچھ انبیا ومرسلین لے کرآئے ہیں ان پر ایمان نہیں لاتا؟
11 Mufti Taqi Usmani
kiya tum ney ussay dekha jo jaza o saza ko jhutlata hai-?
12 Tafsir Ibn Kathir
نماز میں غفلت اور یتیموں سے نفرت :
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم نے اس شخص کو دیکھا جو قیامت کے دن کو جو جزا سزا کا دن ہے جھٹلاتا ہے یتیم پر ظلم و ستم کرتا ہے اس کا حق مارتا ہے اس کے ساتھ سلوک و احسان نہیں کرتا مسکینوں کو خود تو کیا دیتا دوسروں کو بھی اس کار خیر پر آمادہ نہیں کرتا جیسے اور جگہ ہے ( كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَ 17 ۙ ) 89 ۔ الفجر :17) یعنی جو برائی تمہیں پہنتی ہے وہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے کہ نہ تم یتیموں کی عزت کرتے ہو نہ مسکینوں کو کھانا دینے کی رغبت دلاتے ہو یعنی اس فققیر کو جو اتنا نہیں پاتا کہ اسے کافی ہو پھر فرمان ہوتا ہے کہ غفلت برتنے والے نمازیوں کے لیے ویل ہے یعنی ان منافقوں کے لیے جو لوگوں کے سامنے نماز ادا کریں ورنہ ہضم کر جائیں یہی معنی حضرت ابن عباس کے کیے ہیں اور یہ بھی معنی ہیں کہ مقرر کردہ وقت ٹال دیتے ہیں جیسے کہ مسروق اور ابو الضحی کہتے ہیں حضرت عاء بن دینا فرماتے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ فرمان باری میں عن صلوتھم ہے فی صلوتھم نہیں یعنی نمازوں سے غفلت کرتے ہیں فرمایا نمازوں میں غفلت برتتے ہیں نہیں فرمایا اسی طرح یہ الف ظشامل ہے ایسے نمازی کو بھی جو ہمیشہ نماز کو آخری وقت ادا کرے یا عموماً آخری وقت پڑھے یا ارکان و شروط کی پوری رعایت نہ کرے یا خشو و خضو اور تدبر و غروفکر نہ کرے لفظ قرآن ان میں سے ہر ایک کو شامل ہے یہ سب باتیں جس میں ہوں وہ تو پورا پورا بدنصیب ہے اور جس میں جتنی ہوں اتنا ہی وہ ویل ہے اور نفاق عملی کا حقو دار ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہے جب وہ غروب ہونے کے قریب پہنچے اور شیطان اپنے سینگ اس میں ملا لے تو کھڑا ہو اور مرغ کی طرح چار ٹھونگیں مار لے جس میں اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرے یہاں مراد عصر کی نماز ہے ججو صلوہ وسطی ہے جیسے کہ حدیث کے لفظوں سے ثابت ہے یہ شخص مکروہ وقت میں کھڑا ہوتا اور کوے کی طرح چونچیں مار لیتا ہے جس میں اطمینان ارکان بھی نہیں ہوتا نہ خشو و خضوع ہوتا ہے بلکہ ذکر اللہ بھی بہت ہی کم ہوتا ہے اور کیا عجب کہ یہ نماز محض دکھاوے کی نماز ہو تو پڑھی نہ پڑھی یکاں ہے انہی منافقین کے بارے میں اور جگہ ارشاد ہے (اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا\014\02ۡۙ ) 4 ۔ النسآء :142) یعنی منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ انہیں یہ جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو تھکے ہارے بادل ناخواستہ صرف لوگوں کے دکھاو کے لیے نماز گذارتے ہیں اللہ کی یاد بہت ہی کم کرتے ہیں یہاں بھی فرمایا یہ ریا کاری کرتے ہیں لوگوں میں نمازی بنتے ہیں طبرانی کی حدیث میں ہے ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس کی آگ اس قدر تیز ہے کہ اور آگ جہنم کی ہر دن اس سے چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے یہ ویل اس امت کے ریاکار علماء کے لیے ہے اور ریاکاری کے طور پر صدقہ خیرات کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر حج کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر جہاد کرنے والوں کے لیے ہے مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو شخص دوسروں کو سنانے کے لیے کوئی نیک کام کرے اللہ تعالیٰ بھی لوگوں کو سنا کر عذاب کریگا اور اسے ذلیل و حقیر کریگا ہاں اس موقعہ پر یہ یاد رہے کہ اگر کسی شخص نے بالکل نیک نیتی سے کوئی اچھا کام کیا اور لوگوں کو اس کی خبر ہوگئی اس پر سے بھی خوشی ہوئی تو یہ ریا کاری نہیں اس کی دلیل مسند ابو یعلی موصلی کی یہ حدیث ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے سرکار نبوی میں ذکر کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تو تنہا نوافل پڑھتا ہوں لیکن اچانک کوئی آجاتا ہے تو ذرا مجھ بھی یہ اچھا معلوم ہونے لگتا ہے آپ نے فرمایا تجھے دو اجر ملیں گے ایک اجر پوشیدگی کا اور دوسرا ظاہر کرنے کا حضرت ابن المبارک فرمایا کرتے تھے یہ حدیث ریا کاروں کے لیے بھی اچھی چیز ہے یہ حدیث بروئے اسنا غریب ہے لیکن اسی معنی کی حدیث اور سند سے بھی مروی ہے ابن جریر کی ایک بہت ہی ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت اتری تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ اکبر یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ تم میں سے ہر شخص کو مثل تمام دنیا کے دیا جائے اس سے مراد وہ شخص ہے کہ نماز پڑھے تو اس کی بھلائی سے اسے کچھ سروکار نہ ہو اور نہ پڑھے تو اللہ کا خوف اسے نہ ہو اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کے وقت سے موخر کرتے ہیں اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ سرے سے پڑھتے ہی نہیں دوسرے معنی یہ ہیں کہ شرعی وقت نکال دیتے ہیں پھر پڑھتے ہیں یہ معنی بھی ہیں کہ اول وقت میں ادا نہیں کرتے ایک موقوف روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ تنگ وقت کر ڈالتے ہیں زیادہ صحیح موقوف روایت ہی ہے امام بیہقی بھی فرماتے ہیں کہ مرفوع توضعیف ہے ہاں موقوف صحیح ہے امام حاکم کا قول بھی یہی ہے پس جس طرح یہ لوگ عبادت رب میں سست ہیں اسی طرح لوگوں کے حقوق بھی ادا نہیں کرتے یہاں تک کہ برتنے کی کمی قیمت چیزیں لوگوں کو اس لیے بھی نہیں دتے کہ وہ اپنا کام نکال لیں اور پھر وہ چیز جوں کی توں واپس کردیں پس ان خسیس لوگوں سے یہ کہاں بن آئے کہ وہ زکوٰۃ ادا کریں یا اور نیکی کے کام کریں حضرت علی سے ماعون کا مطلب ادائیگی زکوٰۃ بھی مروی ہے اور حضرت ابن عمر سے بھی اور دیگر حضرات مفسرین معتبرین سے بھی امام حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ اس کی نماز میں ریا کاری ہے اور مال کے صدقہ میں ہاتھ روکنا ہے حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں یہ منافق لوگ ہیں نماز تو چونکہ ظاہر ہے پڑھنی پڑتی ہے اور زکوٰۃ چونکہ پوشیدہ ہے اس لیے اسے ادا نہیں کرتے ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں ماعون ہر وہ چیز ہے جو لوگ آپس میں ایک دوسرے سے مانگ لیا کرتے ہیں جیسے کدال پھاوڑا دیگچی ڈول وغیرہ۔ دوسری روایت میں ہے کہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے اور ہم اس کی تفسیر یہی کرتے تھے نسائی کی حدیث میں ہے ہر نیکی چیز صدقہ ہے ڈول اور ہنڈیا یا پتیلی مانگے پر دینے کو ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ماعون سے تعبیر کرتے تھے غرض اس کے معنی زکوٰۃ نہ دینے کے اطاعت نہ کرنے کے مانگی چیز نہ دینے کے ہیں چھوٹی چھوٹی بےجان چیزیں کوئی دو گھڑی کے لیے مانگنے آئے اس سے ان کا انکار کردینا مثلا چھلنی ڈول سوئی سل بٹا کدال پھائوڑا پتیلی دیگچی وغیرہ ایک غریب حدیث میں ہے کہ قبیلہ نمیر کے وفد نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہمیں خاص حکم کیا ہوتا ہے آپنے فرمایا ماعون سے منع کرنا انہوں نے پوچھا ماعون کیا ؟ فرمایا پتھر لوہا پانی انہوں نے پوچھا لوہے سے مراد کونسا لوہا ہے ؟ فرمایا یہی تمہاری تانبے کی پتیلیاں اور کدال وغیرہ پوچھا پتھر سے کیا مراد ؟ فرمایا یہی دیگچی وغیرہ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے بلکہ مرفوع ہونا منکر ہے اور اس کی اسناد میں وہ راوی ہیں جو مشہور نہیں علی نمیری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میں نے سنا ہے آپ نے فرمایا مسلمان کا مسلمان بھائی ہے جب ملے سلام کرے جب سلام کرے تو بہتر جواب دے اور ماعون کا انکار نہ کرے میں نے پوچھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ماعون کیا ؟ فرمایا پتھر لوہ اور اسی جیسی اور چیزیں واللہ اعلم الحمد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کے احسان اور رحم سے اس سورت کی تفسیر بھی ختم ہوئی۔