ہود آية ۱
الٓرٰ ۗ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰـتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍۙ
طاہر القادری:
الف، لام، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں، یہ وہ) کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم بنا دی گئی ہیں، پھر حکمت والے باخبر (رب) کی جانب سے وہ مفصل بیان کر دی گئی ہیں،
English Sahih:
Alif, Lam, Ra. [This is] a Book whose verses are perfected and then presented in detail from [one who is] Wise and Aware
1 Abul A'ala Maududi
ا ل ر فرمان ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے
2 Ahmed Raza Khan
یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں پھر تفصیل کی گئیں حکمت والے خبردار کی طرف سے،
3 Ahmed Ali
یہ ایسی کتاب ہےکہ جس کی آیتیں حکیم خبردار کی طرف سے مستحکم کر دی گئی ہیں پھر مفصل بیان کی گئی ہیں
4 Ahsanul Bayan
الر، یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں (١) پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں (٢) ایک حکیم باخبر کی طرف سے (٣)
١۔١ یعنی الفاظ و نظم کے اعتبار سے اتنی محکم اور پختہ ہیں کہ ان کی ترکیب اور معنی میں کوئی خلل نہیں۔
١۔٢ پھر اس میں احکام و شرائع، مواعظ و قصص، عقائد و ایمانیات اور آداب و اخلاق جس طرح وضاحت اور تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں، پچھلی کتابوں میں اس کی نظیر نہیں آئی۔
١۔٣ یعنی اپنے اقوال میں حکیم ہے، اس لئے اس کی طرف سے نازل کردہ باتیں حکمت سے خالی نہیں اور وہ خبر رکھنے والا بھی ہے۔ یعنی تمام معاملات اور ان کے انجام سے باخبر ہے۔ اس لئے اس کی باتوں پر عمل کرنے سے ہی انسان برے انجام سے بچ سکتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
الٓرا۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہے
6 Muhammad Junagarhi
الرٰ، یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے
7 Muhammad Hussain Najafi
الف، لام، را، یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم اور مضبوط بنائی گئی ہیں اور پھر تفصیل کے ساتھ کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں یہ اس کی طرف سے ہے جو بڑا حکمت والا، بڑا باخبر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
الۤر - یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم بنائی گئی ہیں اور ایک صاحبِ علم و حکمت کی طرف سے تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں
9 Tafsir Jalalayn
الرا۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں۔
آیت نمبر ١ تا ٥
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے الرٰ ، اس سے اپنی مراد کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیات عجیب نظم اور انوکھے معانی کے ذریعہ محکم کی گئی ہیں، پھر حکیم باخبر یعنی اللہ کی طرف سے احکام اور واقعات اور نصائح کے اعتبار سے صاف صاف بیان کی گئی ہیں، یہ کہ اللہ کے سوا کسی کو بندگی نہ کرو میں اس کی طرف سے تم کو عذاب سے ڈرانے والا ہوں اگر تم کفر کرو گے اور ثواب کی خوشخبری دینے والا ہوں اگر تم ایمان لاو گے اور یہ کہ تم اپنے رب سے شرک سے مغفرت طلب کرو پھر طاعت ل کے ذریعہ اس کی طرف رجوع کرو وہ دنیا میں تم کو معینہ مدت تک اچھا سامان عیش اور وسعت رزق دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ اجر دے گا اور اگر تم، اعراض کرو گے) تولوا (میں دو تاوں میں سے ایک تاء حذف کردی گئی ہے تو مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کہ وہ قیامت کا دن ہے، کے عذاب کا اندیشہ ہے تم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور وہ ہر شئ پر قادر ہے اور اسی ہر شئ میں ثواب اور عقاب بحی ہے، اور) آئندہ آیت (جیسا کہ امام ابخاری نے اس کو حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے، اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی کہ جو اس خیال سے کہ میرا یہ عمل آسمان) یعنی اللہ ( تک پہنچ رہا ہے قضائے حاجت کرنے اور) بیوی سے (مجامعت کرنے میں شرم محسوس کرتا تھا، اور کہا گیا ہے کہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی یاد رکھو وہ لوگ اپنے سینوں کو دہرا کئے ہیں) یعنی جھکے جاتے ہیں (تاکہ اللہ سے اپنی باتیں چھپا سکیں یاد رکھو کہ وہ لوگ جس وقت اپنے کپڑے لپیٹ لیتے ہیں) یعنی (ان میں چھپ جاتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ) اس وقت بھی (اس چیز کو جانتا ہے جس کو وہ چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں لہٰذا ان کے چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں، بلاشبہ وہ تو دلوں کے اندر کی باتوں کو جانتا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : سورة ھود بترکیب اضافی مبتداء مکیۃ خبر اول مائۃ الخ خبر ثانی، مکیۃ مستثنیٰ منہ ہے اِلاَّ حرف استثناء اقم الصلوۃ) الآیۃ (مستثنیٰ یعنی پوری سورت مکی ہے سوائے ایک آیت واقم الصلوۃ) الآیۃ ( کے یہ قول ابن عباس (رض) کا ہے۔
قولہ : اَوْ اِلاَّ فَلَعَلَّکَ تارک بعض ما یوحٰی اِلَیْکَ ) الآیۃ ( یہ دوسرے قول کی طرف اشارہ ہے اس قول کے مطابق پوری سورت مکی ہے مگر دو آیتیں، ایک تو فَلَعَلَّک اور دوسری اولئکَ یومنون بہ) الآیۃ ( یہ قول مقاتل کا ہے۔
قولہ : ھذا، اس میں اشارہ ہے کہ کتاب مبتداء محذوف کی خبر ہے نہ کہ خود مبتداء اس لئے کہ نکرہ محضہ مبتداء واقع نہیں ہوتا، اُحکمتْ آیاتہ، جملہ ہو کر کتاب کی صفت ہے۔
قولہ : ثُمَّ فصلت، ثُمَّ میں دو احتمال ہیں اول یہ اخبار محض کیلئے ہے، اور معنی ہوں گے اللہ نے ہم کو خبر دی کہ قرآن غایت درجہ
باحسن وجوہ محکم ہے اور بہترین تفصیل کے ساتح مفصل ہے، جیسا کہ عرب بولتے ہیں، |" فلان کریم الاصل ثم کریم الفصل |" دوسرا احتمال یہ ہے کہ ثُمَّ نزول کے اعتبار سے ترتیب زمانی کے ہو بایں طور کہ نزول اول یعنی عرش سے لوح محفوظ پر نزول کے وقت محکم کیا گیا پھر حسب موقع تفصیل کے ساتھ نازل ہوا۔
قولہ : من لدنْ حکیم خبیر یہ کتاب کی دوسری صفت ہے۔
قولہ : باَنْ اس میں اشارہ ہے کہ ان مصدریہ ہے، ان تفسیر یہ بھی ہوسکتا ہے، ان کے تفسیر یہ ہونے کیلئے یہ شرط ہے کہ اس سے پہلے قول یا قول کے ہم معنی کوئی لفظ ہو یہاں اگرچہ لفظ قول نہیں مگر اس کا معنی فصلت، موجود ہے لہٰذا ان کا مفسرہ ہونا بھی درست ہے، اور یہاں تفسیر یہ ہی بہتر ہے۔ ) صاوی (
قولہ : قیل فی المنافقین، اگر منافقین سے معروف منافقین مراد ہیں تو اس میں نظر ہے اس لئے کہ معروف منافقین کا وجود مکہ میں نہیں تھا اور آیت مکی ہے، حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ آیت اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہ منافقین مکہ میں سے تھا یہ شخص چرب زبان حسین المنظر تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوش کن خبریں سنایا کرتا تھا اور دل میں اس کے خلاف پوشیدہ رکھتا تھا اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔
قولہ : یثنون، الثنی الطّی چھپانے کیلئے لپیٹنا، یَثنُون کی اصل یَثْنیون تھی ضمہ یاء پر دشوار رکھ کر نون کو دیدیا، یاء اور واو کے درمیان التقاء ساکنین کی وجہ سے یاء کو حذف کردیا، یثنُون ہوگیا۔
تفسیر و تشریح
سورة ہود کے مضامین : اس سورت میں بھی ان ہی قوموں کا تذکرہ ہے جو آیات الہٰی اور پیغمبروں کی تکذیب کرکے عذاب الہٰی کا نشانہ بنیں، اور تاریخ کے صفحات سے یا تو حرف غلط کی طرف مٹا دی گئیں، یا تاریخ کے اوراق میں عبرت کا نمونہ بن کر موجود ہیں، اسی لئے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا، کیا وجہ ہے کہ آپ بوڑھے ہوئے چلے جارہے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا |" مجھے ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا |"۔
ابن مردویہ اور ابن عسا کرو غیر ہما نے مسروق کی سند سے حضرت ابوبکر صدیق سے روایت کیا ہے۔ قال، قلتُ ، یا رسول اللہ لَقَدْ اَسْرَع الیک الشیبُ فقال شیّبَتْنی ھود والواقعۃ والحاقۃ والمرسلات وعمّ یتسٰالون واذا الشمس کورت۔ ) تفسیر فتح القدیر (
کتاب احکمت آیاتہ، قرآنی آیات نظم و معانی کے اعتبارے سے اتنی محکم اور پختہ ہیں کہ نہ ان کی ترکیب لفظی میں کوئی خلل ہے اور نہ ترکیب مغوی میں اس کے علاوہ اس میں احکام و شرائع، مواعظ و قصص، عقائدو ایمانیات، عقائد و اخلاقیات جس طرح وضاحت و تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں کتب سابقہ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ محکم اس جگہ منسوخ کے مقابلہ میں ہے مطلب یہ ہے کہ اس
کتاب کو اللہ تعالیٰ نے مجموعی حیثیت سے محکم غیر منسوخ بنایا ہے یعنی جس طرح سابقہ کتابیں تورات انجیل وغیرہ مجموعی اعتبار سے منسوخ ہوگئیں یہ کتاب تا قیامت منسوخ نہ ہوگی اسلئے کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ منطقع ہوگیا ہے بعض قرآنی آیات کا بعض کے ذریعہ منسوخ ہونا اس کے منافی نہیں، ثم فُصَّلَتْ کی تفسیر تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان گذرچ کی ہے ملاحظہ کرلیا جائے۔
یُمتعکم متاعاً حَسَنًا، دینوی سامان عیش کو قرآن میں دوسری جگہ |" متاع غرور |" کہا گیا ہے یعنی دھوکے کا سامان اور یہاں اسے |" متاع حَسَن |" قرار دیا گیا ہے دونوں میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے، مطلب اس کا یہ ہے کہ جو آخرت سے غافل ہو کر متاع دنیا سے استفادہ کرے گا اس کے لئے یہ متاع غرور ہے اور جو آخرت کی تیاری کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اس کیلئے یہ چند روزہ متاع، متاع حسن ہے۔
شان نزول : اَلا اِنَّھُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَھم) الآیۃ ( اس آیت کے شان نزول کے بارے میں نفسرین کا اختلاف ہے اسی لئے اس کے مفہوم میں بھی اختلاف ہے۔ ) صحیح بخاری تفسیر سورة ہود ( میں بیان کردہ شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی جو غلبہ حیا کی وجہ سے قضائے حاجت اور بیوی سے ہمبستری کے وقت برہنہ ہونا اور ستر کھولنا پسند نہیں کرتے تھے کہ اللہ جل شانہ ہمیں دیکھ رہا ہے اس لئے ایسے موقع پر شرم گاہ کو چھپانے کے لئے اپنے سینوں کو دہرا کرلیتے تھے، اللہ نے فرمایا رات کو جب وہ اپنے بستروں میں اپنے کپڑوں میں خود کو ڈھانپ لیتے ہیں اس وقت بھی وہ ان کو دیکھتا ہے مطلب یہ ہے کہ شرم و حیا کا جذبہ اپنی جگہ بہت اچھا ہے لیکن اس میں اتنا غلو اور افراط بھی صحیح نہیں، اسلئے کہ جس ذات کی خاطر تم ایسا کرتے ہو، اس سے تو تم پھر بھی نہیں چھپ سکتے تو اس طرح کے تکلیف سے کیا فائدہ۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿كِتَابٌ ﴾ یہ عظیم کتاب اور بہترین فضل و عنایت ہے۔ ﴿ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ﴾ ” جس کی آیتیں مستحکم ہیں۔“ یعنی اس کی آیات کو بہت اچھے اور محکم طریقے سے بیان کیا گیا ہے، اس کی خبریں سچی، اس کے او امر و نواہی عدل پر مبنی، اس کے الفاظ نہایت فصیح اور اس کے معانی بہت خوبصورت ہیں۔ ﴿ثُمَّ فُصِّلَتْ﴾ ” پھر ان کی تفصیل بیان کردی گئی“ یعنی ان کو علیحدہ علیحدہ اور معانی و بیان کی بہترین انواع کے ذریعے سے کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ ﴿ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ ﴾ ” حکمت والے کی طرف سے“ وہ تمام اشیاء کو ان کے مناسب مقام پر رکھتا ہے اور ان کے لائق جگہ پر نازل کرتا ہے۔ صرف اسی چیز کا حکم دیتا ہے اور اسی چیز سے روکتا ہے جس کا تقاضا اس کی حکمت کرتی ہے ﴿ خَبِيرٍ ﴾ وہ تمام ظاہر و باطن کی خبر رکھتا ہے۔
جب اس کتاب کا محکم کرنا اور اس کی تفصیل حکمت والی اور خبردار ہستی کی طرف سے ہے تب اس ہستی کی عظمت و جلال، حکمت و کمال اور بے کراں رحمت کے بارے میں مت پوچھ۔
11 Mufti Taqi Usmani
Alif-Laam-Raa . yeh woh kitab hai jiss ki aayaton ko ( dalaeel say ) mazboot kiya gaya hai , phir aik aesi zaat ki taraf say unn ko tafseel kay sath biyan kiya gaya hai jo hikmat ki malik aur her baat say ba-khabar hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
تعارف قرآن حکیم
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جو حروف سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفصیل اس تفسیر کے شروع میں سورة بقرہ کے ان حروف کے بیان میں گزر چکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں فرمان ہے کہ یہ قرآن لفظوں میں محکم اور معنی میں مفصل ہے۔ پس مضمون اور معنی ہر طرح سے کامل ہے۔ یہ اس للہ کا کلام ہے جو اپنے اقوال و احکام میں حکیم ہے۔ جو کاموں کے انجام سے خبردار ہے۔ یہ قرآن اللہ کی عبادت کرانے اور دوسروں کی عبادت سے روکنے کے لیے اترا ہے۔ سب رسولوں پر پہلی وحی توحید کی آتی رہی ہے۔ سب سے یہی فرمایا گیا ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کریں۔ اس کے سوا اور کسی کی پرستش نہ کریں۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی مخالفت کی وجہ سے جو عذاب آجاتے ہیں ان سے میں ڈرا رہا ہوں اور اس کی اطاعت کی بنا پر جو ثواب ملتے ہیں، ان کی میں بشارت سناتا ہوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا پہاڑی پر چڑھ کر قریش کے خاندانوں کو آواز دیتے ہیں۔ زیادہ قریب والے پہلے، پھر ترتیب وار جب سب جمع ہوجاتے ہیں تو آپ ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ اگر میں تم سے کہوں کہ کوئی لشکر صبح کو تم پر دھاوا کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے آج تک آپ کی زبان سے کوئی جھوٹ سنا ہی نہیں۔ آپ نے فرمایا سنو میں تم سے کہتا ہوں کہ قیامت کے دن تمہاری ان بد اعمالیوں کی وجہ سے سخت تر عذاب ہوگا۔ پس تم ان سے ہوشیار ہوجاؤ۔ پھر ارشاد ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بھی کہہ دو کہ میں تمہیں اپنے گذشتہ گناہوں سے توبہ کرنے اور آئندہ کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کرتا ہوں اگر تم بھی ایسا ہی کرتے رہے تو دنیا میں بھی اچھی زندگی بسر کرو گے اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی بڑے بلند درجے عنایت فرمائے گا۔ قرآن کریم نے ( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 97) 16 ۔ النحل :97) میں فرمایا ہے کہ جو مرد و عورت ایمان دار ہو کر نیک عمل بھی کرتا رہے، اسے ہم پاکیزہ زندگی سے زندہ رکھیں گے۔ صحیح حدیث میں بھی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد (رض) سے فرمایا کہ اللہ کی رضامندی کی تلاش میں تو جو کچھ بھی خرچ کرے گا اس کا اجر اللہ تعالیٰ سے پائے گا، یہاں تک کہ جو لقمہ تو اپنی بیوی کے منہ میں دے اس کا بھی۔ فضل والوں کو اللہ تعالیٰ فضل دے گا۔ یعنی گناہ تو برابر لکھا جاتا ہے اور نیکی دس گناہ لکھی جاتی ہے پھر اگر گناہ کی سزا دنیا میں ہی ہوگئی تو نیکیاں جوں کی توں باقی رہیں۔ اور اگر یہاں اس کی سزا نہ ملی تو زیادہ سے زیادہ ایک نیکی اس کے مقابل جاکر بھی نو نیکیاں بچ رہیں۔ پھر جس کی اکائیاں دھائیوں پر غالب آجائیں وہ تو واقعی خود ہی بد اور برا ہے۔ پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے جو اللہ کے احکام کی رو گردانی کرلیں اور رسولوں کی نہ مانیں کہ ایسے لوگوں کو ضرور ضرور قیامت کے دن سخت عذاب ہوگا۔ تم سب کو لوٹ کر مالک ہی کے پاس جانا ہے، اسی کے سامنے جمع ہونا ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے، اپنے دوستوں سے احسان اپنے دشمنوں سے انتقام، مخلوق کی نئی پیدائش، سب اس کے قبضے میں ہے۔ پس پہلے رغبت دلائی اور اب ڈرایا۔