Skip to main content

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّرَحْمَةً ۗ اُولٰۤٮِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۗ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ۚ فَلَا تَكُ فِىْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ اِنَّهُ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ

Then is he who
أَفَمَن
کیا بھلا وہ شخص
is
كَانَ
ہو
on
عَلَىٰ
اوپر
a clear proof
بَيِّنَةٍ
ا یک واضح دلیل کے
from
مِّن
کی
his Lord
رَّبِّهِۦ
اپنے رب کی طرف
and recites it
وَيَتْلُوهُ
اور پیچھے آتا ہے
a witness
شَاهِدٌ
اس کے ایک گواہ
from Him
مِّنْهُ
اس سے
and before it
وَمِن
اور اس سے
and before it
قَبْلِهِۦ
پہلے تھی
(was) a Book
كِتَٰبُ
کتاب
(of) Musa
مُوسَىٰٓ
موسیٰ کی
(as) a guide
إِمَامًا
راہ نما
and (as) mercy?
وَرَحْمَةًۚ
اور رحمت
Those
أُو۟لَٰٓئِكَ
یہی لوگ
believe
يُؤْمِنُونَ
ایمان رکھتے ہیں
in it
بِهِۦۚ
اس پر
But whoever
وَمَن
اور جو کوئی
disbelieves
يَكْفُرْ
کفر کرے
in it
بِهِۦ
ساتھ اس کے
among
مِنَ
میں سے
the sects
ٱلْأَحْزَابِ
گروہوں
then the Fire
فَٱلنَّارُ
تو آگ
(will be) his promised (meeting) place
مَوْعِدُهُۥۚ
اس کی وعدہ گاہ ہے
So (do) not
فَلَا
پس نہ
be
تَكُ
تم ہو
in
فِى
میں
doubt
مِرْيَةٍ
کسی شک (میں)
about it
مِّنْهُۚ
اس سے
Indeed, it
إِنَّهُ
بیشک وہ
(is) the truth
ٱلْحَقُّ
حق ہے
from
مِن
سے
your Lord
رَّبِّكَ
تیرے رب کی طرف سے
but
وَلَٰكِنَّ
اور لیکن
most
أَكْثَرَ
اکثر
(of) the people
ٱلنَّاسِ
لوگ
(do) not
لَا
نہیں
believe
يُؤْمِنُونَ
ایمان لاتے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

پھر بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا، اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اس شہادت کی تائید میں) آ گیا، اور پہلے موسیٰؑ کی کتاب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی (کیا وہ بھی دنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کرسکتا ہے؟) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے پس اے پیغمبرؐ، تم اِس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے

English Sahih:

So is one who [stands] upon a clear evidence from his Lord [like the aforementioned]? And a witness from Him follows it, and before it was the Scripture of Moses to lead and as mercy. Those [believers in the former revelations] believe in it [i.e., the Quran]. But whoever disbelieves in it from the [various] factions – the Fire is his promised destination. So be not in doubt about it. Indeed, it is the truth from your Lord, but most of the people do not believe.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

پھر بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا، اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اس شہادت کی تائید میں) آ گیا، اور پہلے موسیٰؑ کی کتاب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی (کیا وہ بھی دنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کرسکتا ہے؟) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے پس اے پیغمبرؐ، تم اِس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

تو کیا وہ جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہو اور اس پر اللہ کی طرف سے گواہ آئے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب پیشوا اور رحمت وہ اس پر ایمان لاتے ہیں، اور جو اس کا منکر ہو سارے گروہوں میں تو آگ اس کا وعدہ ہے تو اے سننے والے! تجھے کچھ اس میں شک نہ ہو، بیشک وہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے لیکن بہت آدمی ایمان نہیں رکھتے،

احمد علی Ahmed Ali

بھلا وہ شخص جو اپنے رب کے صاف راستہ پر ہو اور اس کے ساتھ الله کی طرف سے ایک گواہ بھی ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب گواہ تھی جو امام اور رحمت تھی یہی لوگ قرآن کو مانتے ہیں اور جو کوئی سب فرقوں میں سے اس کا منکر ہوتو اس کا ٹھکانا دوزخ ہے سو تو قرآ ن کی طرف سے شبہ میں نہ رہ بے شک یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

کیا وہ شخص جو اپنے رب کے پاس کی دلیل پر ہو اور اس کے ساتھ اللہ کی طرف کا گواہ ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (گواہ ہو) جو پیشوا و رحمت ہے (اوروں کے برابر ہو سکتا ہے) (١) یہی لوگ ہیں جو اس پر ایمان رکھتے ہیں (٢) اور تمام فرقوں میں سے جو بھی اس کا منکر ہو اس کے آخری وعدے کی جگہ جہنم (٣) ہے پس تو اس میں کسی قسم کے شبہ میں نہ رہنا، یقیناً یہ تیرے رب کی جانب سے سراسر حق ہے، لیکن اکثر لوگ ایمان والے نہیں ہوتے (٤)۔

١٧۔١ منکرین اور کافرین کے مقابلے میں اہل فطرت اور اہل ایمان کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ' اپنے رب کی طرف سے دلیل ' سے مراد وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالٰی نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور وہ اللہ واحد کا اعتراف اور اسی کی عبادت جس طرح کہ نبی کا فرمان ہے کہ ' ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پس اس کے بعد اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں (صحیح بخاری) یتلوہ کے معنی ہیں اس کے پیچھے یعنی اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے ایک گواہ بھی ہو گواہ سے مراد قرآن ، یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، جو اس فطرت صحیحہ کی طرف دعوت دیتے اور اس کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس سے پہلے
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب تورات بھی جو پیشوا بھی ہے اور رحمت کا سبب بھی یعنی کتاب موسیٰ علیہ السلام بھی قرآن پر ایمان لانے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک وہ شخص ہے جو منکر اور کافر ہے اور اس کے مقابلے میں ایک دوسرا شخص ہے جو اللہ تعالٰی کی طرف سے دلیل پر قائم ہے، اس پر ایک گواہ (قرآن۔ یا پیغمبر اسلام بھی ہے، اسی طرح اس سے قبل نازل ہونے والی کتاب تورات، میں بھی اس کے لئے پیشوائی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اور وہ ایمان لے آتا ہے کیا یہ دونوں شخص برابر ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ایک مومن ہے اور دوسرا کافر۔ ہر طرح کے دلائل سے لیس ہے اور دوسرا بالکل خالی ہے۔
١٧۔ ٢ یعنی جن کے اندر مذکورہ اوصاف پائے جائیں گے وہ قرآن کریم اور نبی پر ایمان لائیں گے۔
١٧۔ ٣ تمام فرقوں سے مراد روئے زمین پر پائے جانے والے مذاہب ہیں، یہودی، عیسائی، زرتشی، بدھ مت، مجوسی اور مشرکین و کفار وغیرہ، جو بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے گا، اس کا ٹھکانا جہنم ہے یہ وہی مضمون ہے جسے اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے" قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس امت کے جس یہودی، یا عیسائی نے بھی میری نبوت کی بابت سنا اور پھر مجھ پر ایمان نہیں لایا وہ جہنم میں جائے ہے"(صحیح مسلم کتاب الایمان، باب وجوب الایمان برسالۃ نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم الی جمیع الناس) یہ مضمون اس سے پہلے سورہ بقرہ آیت ٦۲ (خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۚ لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ يُنْظَرُوْنَ ١٦٢؁) اور سورہ نساء آیت ۱۵۰، ۱۵۲ (اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ ۙ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا ١٥٠؀ۙ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا ۚ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّهِيْنًا ١٥١؁ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَلَمْ يُفَرِّقُوْا بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ اُولٰۗىِٕكَ سَوْفَ يُؤْتِيْهِمْ اُجُوْرَهُمْ ۭوَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ١٥٢؀ۧ ) 4۔ النساء;150 تا 152) میں گزر چکا ہے۔
١٧۔٤ یہ وہی مضمون ہے جو قرآن مجید کے مختلف مقامات پر بیان کیا گیا (وَمَآ اَکْثَرُالنَّاسِ وَلَوْ حَرَصَتْ بِمُؤ مِنِیْنَ) (سورۃ یوسف۔ ١٠٣) (وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ١٠٣؁) 12۔یوسف;103) 'تیری خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے ' ابلیس نے اپنا گمان سچا کر دکھایا، مومنوں کے ایک گروہ کے سوا، سب اس کے پیروکار بن گئے '۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے (روشن) دلیل رکھتے ہوں اور ان کے ساتھ ایک (آسمانی) گواہ بھی اس کی جانب سے ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب ہو جو پیشوا اور رحمت ہے (تو کیا وہ قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے) یہی لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو کوئی اور فرقوں میں سے اس سے منکر ہو تو اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔ تو تم اس (قرآن) سے شک میں نہ ہونا۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

کیا وه شخص جو اپنے رب کے پاس کی دلیل پر ہو اور اس کے ساتھ اللہ کی طرف کا گواه ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (گواه ہو) جو پیشوا اور رحمت ہے (اوروں کے برابر ہو سکتا ہے؟) یہی لوگ ہیں جو اس پر ایمان رکھتے ہیں، اور تمام فرقوں میں سے جو بھی اس کا منکر ہو اس کے آخری وعدے کی جگہ جہنم ہے، پس تو اس میں کسی قسم کے شبہ میں نہ ره، یقیناً یہ تیرے رب کی جانب سے سراسر برحق ہے، لیکن اکثر لوگ ایمان ﻻنے والے نہیں ہوتے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے (اپنی صداقت کی) کھلی ہوئی دلیل رکھتا ہے اور جس کے پیچھے ایک گواہ بھی ہے جو اسی کا جزء ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (توراۃ) بھی رحمت و راہنمائی کے طور پر آچکی ہے (اور اس کی تصدیق بھی کر رہی ہے) یہ لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور جو مختلف گروہوں میں سے اس کا انکار کرے گا اس کی وعدہ گاہ آتشِ دوزخ ہے خبردار تم! اس کے بارے میں شک میں نہ پڑنا وہ آپ کے پروردگار کی طرف سے برحق ہے مگر اکثر لوگ (حق پر) ایمان نہیں لاتے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

کیا جو شخص اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل رکھتا ہے اور اس کے پیچھے اس کا گواہ بھی ہے اور اس کے پہلے موسٰی کی کتاب گواہی دے رہی ہے جو قوم کے لئے پیشوا اور رحمت تھی -وہ افترا کرے گا بیشک صاحبانِ ایمان اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں ان کاٹھکانہ جہنم ّہے تو خبردار تم اس قرآن کی طرف سے شک میں مبتلا نہ ہونا -یہ خدا کی طرف سے برحق ہے اگرچہ اکثر لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے ہیں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہے اور اﷲ کی جانب سے ایک گواہ (قرآن) بھی اس شخص کی تائید و تقویت کے لئے آگیا ہے اور اس سے قبل موسٰی (علیہ السلام) کی کتاب (تورات) بھی جو رہنما اور رحمت تھی (آچکی ہو) یہی لوگ اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں، کیا (یہ) اور (کافر) فرقوں میں سے وہ شخص جو اس (قرآن) کا منکر ہے (برابر ہوسکتے ہیں) جبکہ آتشِ دوزخ اس کا ٹھکانا ہے، سو (اے سننے والے!) تجھے چاہئے کہ تو اس سے متعلق ذرا بھی شک میں نہ رہے، بیشک یہ (قرآن) تیرے رب کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

مومن کون ہیں ؟
ان مومنوں کا وصف بیان ہو رہا ہے جو فطرت پر قائم ہیں جو اللہ کی وحدانیت کو دل سے مانتے ہیں۔ جیسے حکم الٰہی ہے کہ ( فَاَقِمْ وَجْهَكَ للدِّيْنِ حَنِيْفًا ۭ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 30؀ڎ) 30 ۔ الروم ;30) اپنا منہ دین حنیف پر قائم کر دے اللہ کی فطرت جس پر اس نے انسانی فطرت پیدا کی ہے بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے کہ جانوروں کے بچے صحیح سالم پیدا ہوتے ہیں پھر لوگ ان کے کان کاٹ ڈالتے ہیں۔ مسلم شریف کی حدیث قدسی میں ہے میں نے اپنے تمام بندوں کو موحد پیدا کیا ہے لیکن پھر شیطان آکر انہیں ان کے دین سے بہکا دیتا ہے اور میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کردیتا ہے اور انہیں کہتا ہے کہ میرے ساتھ انہیں شریک کریں جن کی کوئی دلیل میں نے نہیں اتاری۔ مسند اور سنن میں ہے کہ ہر بچہ اسی ملت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کی زبان کھلے، الخ۔ پس مومن فطرت رب پر ہی باقی رہا ہے۔ پس ایک تو فطرت اس کی صحیح سالم ہوتی ہے پھر اس کے پاس اللہ کا شاہد آتا ہے یعنی اللہ کی شریعت پییغبمر کے ذریعے پہنچتی ہے جو شریعت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کے ساتھ ختم ہوئی۔ پس شاہد سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اللہ کی رسالت اولاً حضرت جبرائیل (علیہ السلام) لائے اور آپ کے واسطے سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ ایک قول میں کہا گیا ہے کہ وہ علی (رض) ہیں لیکن وہ قول ضعیف ہے۔ اس کا کوئی قائل ثابت ہی نہیں۔ حق بات پہلی ہی ہے۔ پس مومن کی فطرت اللہ کی وحی سے مل جاتی ہے۔ اجمالی طور پر اسے پہلے سے ہی یقین ہوتا ہے، پھر شریعت کی تفصیلات کو مان لیتا ہے۔ اس کی فطرت ایک ایک مسئلے کی تصدیق کرتی جاتی ہے۔ پس فطرت سلیم، اس کے ساتھ قرآن کی تعلیم، جسے حضرت جبرائیل نے اللہ کے نبی کو پہنچایا اور آپ نے اپنی امت کو پھر اس سے پہلے کی ایک اور تائید بھی موجود ہے، وہ کتاب موسیٰ یعنی تورات جیسے اللہ نے اس زمانے کی امت کے لیے پیشوائی کے قابل بنا کر بھیجی تھی اور جو اللہ کی طرف سے رحمت تھی اس پر جن کا پورا ایمان ہے وہ لامحالہ اس نبی اور اس کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں کیونکہ اس کتاب نے اس کتاب پر ایمان لانے کی رہنمائی کی ہے۔ پس یہ لوگ اس کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ پھر پورے قرآن کو یا اس کے کسی حصے کو نہ ماننے والوں کی سزا کا بیان فرمایا کہ دنیا والوں میں سے جو گروہ جو فرقہ اسے نہ مانے خواہ یہودی ہو، خواہ نصرانی کہیں کا ہو، کوئی ہو، کسی رنگت اور شکل وصورت کا ہو، قرآن پہنچا اور نہ ماناہ وہ جہنمی ہے۔ جیسے رب العالمین نے اپنے نبی کی زبانی اسی قرآن کریم میں فرمایا ہے۔ (لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ ) 6 ۔ الانعام ;19) کہ میں اس سے تمہیں بھی آگاہ کر رہا ہوں اور انہیں بھی جنہیں یہ پہنچ جائے اور آیت میں ہے ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا) 7 ۔ الاعراف ;158) لوگوں میں اعلان کردو کہ اے انسانو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس امت میں سے جو بھی مجھے سن لے اور پھر مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنمی ہے۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں میں جو صحیح حدیث سنتا ہوں اس کی تصدیق کتاب اللہ میں ضرور پاتا ہوں۔ مندرجہ بالا حدیث سن کر میں اس تلاش میں لگا کہ اس کی تصدیق قرآن کی کسی آیت سے ہوتی ہے تو مجھے یہ آیت ملی پس تمام دین والے اس سے مراد ہیں۔ پھر جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ اس قرآن کے اللہ کی طرف سے سراسر حق ہونے میں تجھے کوئی شک و شبہ نہ کرنا چاہیے جیسے ارشاد ہے کہ اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اور جگہ ہے (آیت ذالک الکتاب لا ریب فیہ) اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔ پھر ارشاد ہے کہ اکثر لوگ ایمان سے کورے ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے ( وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ\010\03 ) 12 ۔ یوسف ;103) یعنی گو تیری چاہت ہو لیکن یقین کرلے کہ اکثر لوگ مومن نہیں ہونگے۔ اور آیت میں ہے ( وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ\011\06 ) 6 ۔ الانعام ;116) اگر تو دنیا والوں کی اکثریت کی پیروی کرے گا تو وہ تو تجھے راہ حق سے بھٹکا دیں گے اور آیت میں ہے ( وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 20؀) 34 ۔ سبأ ;20) یعنی ان پر ابلیس نے اپنا گمان سچ کر دکھایا اور سوائے مومنوں کی ایک مختصر سی جماعت کے باقی سب اسی کے پیچھے لگ گئے۔