یہاں تک کہ جب پیغمبر (اپنی نافرمان قوموں سے) مایوس ہوگئے اور ان منکر قوموں نے گمان کر لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے (یعنی ان پر کوئی عذاب نہیں آئے گا) تو ان رسولوں کو ہماری مدد آپہنچی پھر ہم نے جسے چاہا (اسے) نجات بخش دی، اور ہمارا عذاب مجرم قوم سے پھیرا نہیں جاتا،
English Sahih:
[They continued] until, when the messengers despaired and were certain that they had been denied, there came to them Our victory, and whoever We willed was saved. And Our punishment cannot be repelled from the people who are criminals.
1 Abul A'ala Maududi
(پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ وہ مدتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سن کر نہ دیا) یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہو گئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ اُن سے جھوٹ بولا گیا تھا، تو یکا یک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی پھر جب ایسا موقع آ جاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا
2 Ahmed Raza Khan
یہاں تک جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی اور لوگ سمجھے کہ رسولوں نے غلط کہا تھا اس وقت ہماری مدد آئی تو جسے ہم نے چاہا بچالیا گیا اور ہمارا عذاب مجرموں سے پھیرا نہیں جاتا،
3 Ahmed Ali
یہاں تک کہ جب رسول ناامید ہونے لگے اورخیال کیا کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا تب انہیں ہماری مدد پہنچی پھر جنہیں ہم نے چاہا بچا لیا اور ہمارے عذاب کو نافرمانوں سے کوئی بھی روک نہیں سکتا
4 Ahsanul Bayan
یہاں تک کہ جب رسول نا امید ہو نے لگے (١) اور وہ (قوم کے لوگ) خیال کرنے لگے کہ انہیں جھوٹا کہا گیا (٢) فوراً ہی ہماری مدد ان کے پاس آپہنچی (٣) جسے ہم نے چاہا اسے نجات دی گئی (٤) بات یہ ہے کہ ہمارا عذاب گناہ گاروں سے واپس نہیں کیا جاتا۔
١١٠۔١ یہ مایوسی اپنی قوم کے ایمان لانے سے ہوئی۔ ١١٠۔٢ قرأت کے اعتبار سے اس آیت کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن سب سے مناسب مفہوم یہ ہے کہ ظَنُّوا کا فاعل قوم کفار کو قرار دیا جائے یعنی کفار عذاب کی دھمکی پر پہلے تو ڈرے لیکن جب زیادہ تاخیر ہوئی تو خیال کیا کہ عذاب تو آتا نہیں ہے، (جیسا کہ پیغمبر کی طرف سے دعویٰ ہو رہا ہے) اور نہ آتا نظر ہی آتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ نبیوں سے بھی یوں ہی جھوٹا وعدہ کیا گیا ہے۔ مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا ہے کہ آپ کی قوم پر عذاب میں جو تاخیر ہو رہی ہے، اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پچھلی قوموں پر بھی عذاب میں بڑی بڑی تاخیر روا رکھی گئی ہے اور اللہ کی مشیت و حکمت کے مطابق انہیں خوب خوب مہلت دی گئی حتیٰ کہ رسول اپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہوگئے اور لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ شاید انہیں عذاب کا یوں ہی جھوٹ موٹ کہہ دیا گیا ہے۔ ١١٠۔٣ اس میں دراصل اللہ تعالٰی کے اس قانون مہلت کا بیان ہے، جو وہ نافرمانوں کو دیتا ہے، حتیٰ کہ اس بارے میں وہ اپنے پیغمبروں کی خواہش کے برعکس بھی زیادہ سے زیادہ مہلت عطا کرتا ہے، جلدی نہیں کرتا، یہاں تک کہ بعض دفعہ پیغمبر کے ماننے والے بھی عذاب سے مایوس ہو کر یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ ان سی یوں ہی جھوٹ موٹ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ محض ایسے وسوسے کا پیدا ہو جانا ایمان کے منافی نہیں ہے۔ ١١٠۔٤ یہ نجات پانے والے اہل ایمان ہی ہوتے تھے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے اور انہوں نے خیال کیا کہ اپنی نصرت کے بارے میں جو بات انہوں نے کہی تھی (اس میں) وہ سچے نہ نکلے تو ان کے پاس ہماری مدد آ پہنچی۔ پھر جسے ہم نے چاہا بچا دیا۔ اور ہمارا عذاب (اتر کر) گنہگار لوگوں سے پھرا نہیں کرتا
6 Muhammad Junagarhi
یہاں تک کہ جب رسول ناامید ہونے لگے اور وه (قوم کے لوگ) خیال کرنے لگے کہ انہیں جھوٹ کہا گیا۔ فوراً ہی ہماری مدد ان کے پاس آپہنچی جسے ہم نے چاہا اسے نجات دی گئی۔ بات یہ ہے کہ ہمارا عذاب گناهگاروں سے واپس نہیں کیا جاتا
7 Muhammad Hussain Najafi
یہاں تک کہ جب رسول مایوس ہونے لگے اور خیال کرنے لگے کہ (شاید) ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ تو (اچانک) ان کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی پس جسے ہم نے چاہا وہ نجات پا گیا اور مجرموں سے ہمارا عذاب ٹالا نہیں جا سکتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہاں تک کہ جب ان کے انکار سے مرسلین مایوس ہونے لگے اور ان لوگوں نے سمجھ لیاکہ ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا ہے تو ہماری مدد مرسلین کے پاس آگئی اور ہم نے جن لوگوں کو چاہا انہیں نجات دے دی اور ہمارا عذاب مجرم قوم سے پلٹایا نہیں جاسکتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے اور انہوں نے خیال کیا کہ (اپنی نصرت) کے بارے میں جو بات انہوں نے کہی تھی اس میں وہ سچے نہ نکلے تو ان کے پاس ہماری مدد آپہنچی۔ پھر جسے ہم نے چاہا بچا دیا اور ہمارا عذاب (اتر کر) گنہگاروں سے پھرا نہیں کرتا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ انبیاء کرام کو مبعوث فرماتا ہے ان کی قوم کے مجرم اور لئیم لوگ انہیں جھٹلا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو مہلت دیتا ہے کہ وہ حق کی طرف لوٹ آئیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں مہلت پر مہلت دئیے چلا جاتا ہے یہاں تک کہ انبیاء کرام پر ان کی سختیاں انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اور انبیاء و مرسلین یقین کامل اور اللہ تعالیٰ کے وعد و وعید کی تصدیق کے باوجود کبھی کبھی ان کے دل میں مایوسی کا کوئی خیال سا گزرتا ہے اور ان کے علم اور یقین میں ایک قسم کا ضعف سا آجاتا ہے۔ جب معاملہ اس حال کو پہنچ جاتا ہے ﴿جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ﴾ ” تو ان کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی، پس جن کو ہم نے چاہا، نجات دے دی گئی“ اس سے مراد انبیاء و رسل اور ان کے متبعین ہیں۔ ﴿وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ﴾ ” اور ہمارا عذاب مجرموں سے پھر انہیں کرتا۔“ یعنی ہمارے عذاب کو مجرموں اور اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں جرات کرنے والے پر سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی کوئی پیش چل سکے گی نہ ان کی کوئی مدد کرسکے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( pichlay anbiya kay sath bhi yehi huwa kay unn ki qoamon per azab aaney mein kuch dair lagi ) yahan tak kay jab payghumber logon say mayyus hogaye , aur kafir log yeh samajhney lagay kay unhen jhooti dhamkiyan di gaee then to unn payghumberon kay paas humari madad phonch gaee ( yani kafiron per azab aaya ) aur jinn ko hum chahtay thay , unhen bacha liya gaya , aur jo log mujrim hotay hain , unn say humaray azab ko taala nahi jasakta .
12 Tafsir Ibn Kathir
جب مخالفت عروج پر ہو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس کی مدد اس کے رسولوں پر بروقت اترتی ہے۔ دنیا کے جھٹکے جب زوروں پر ہوتے ہیں، مخالفت جب تن جاتی ہے، اختلاف جب بڑھ جاتا ہے، دشمنی جب پوری ہوجاتی ہے، انبیاء اللہ کو جب چاروں طرف سے گھیر لیا جاتا ہے، معا اللہ کی مدد آپہنچتی ہے۔ کذبوا اور کذبوا دونوں قرأتیں ہیں، حضرت عائشہ کی قرأت ذال کی تشدید سے ہے، چناچہ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر (رض) نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ یہ لفظ کذبوا یا کذبوا ہے ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کذبوا ہے۔ انہوں نے کہا پھر تو یہ معنی ہوئے کہ رسولوں نے گمان کیا کہ وہ جھٹلائے گئے تو یہ گمان کی کون سی بات تھی یہ تو یقینی بات تھی کہ وہ جھٹلائے جاتے تھے۔ آپ نے فرمایا بیشک یہ یقینی بات تھے کہ وہ کفار کی طرف سے جھٹلائے جاتے تھے لیکن وہ وقت بھی آئے کہ ایمان دار امتی بھی ایسے زلزلے میں ڈالے گئے اور اس طرح ان کی مدد میں تاخیر ہوئی کہ رسولوں کے دل میں آئی کہ غالبا اب تو ہماری جماعت بھی ہمیں جھٹلانے لگی ہوگی۔ اب مدد رب آئی۔ اور انہیں غلبہ ہوا۔ تم اتنا تو خیال کرو کہ کذبوا کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے ؟ معاذ اللہ کیا انبیاء (علیہم السلام) اللہ کی نسبت یہ بدگمانی کرسکتے ہیں کہ انہیں رب کی طرف سے جھٹلایا گیا ؟ ابن عباس کی قرأت میں کذبوا ہے۔ آپ اس کی دلیل میں آیت (حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ\021\04 ) 2 ۔ البقرة :214) پڑھ دیتے تھے یعنی یہاں تک کہ انبیاء اور ایماندار کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کہاں ہے۔ یاد رکھو مدد رب بالکل قریب ہے۔ حضرت عائشہ (رض) اس کا سختی سے انکار کرتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ جناب رسول اللہ آنحضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ تعالیٰ نے جتنے وعدے کئے، آپ کو کامل یقین تھا کہ وہ سب یقینی اور حتمی ہیں اور سب پورے ہو کر ہی رہیں گے آخر دم تک کبھی نعوذ باللہ آب کے دل میں یہ وہم ہی پیدا نہیں ہوا کہ کوئی وعدہ ربانی غلط ثابت ہوگا۔ یا ممکن ہے کہ غلظ ہوجائے یا پورا نہ ہو۔ ہاں انبیا (علیہم السلام) پر برابر بلائیں اور آزمائشیں آتی رہیں، یہاں تک کہ ان کے دل میں یہ خطرہ پیدا ہونے لگا کہ کہیں میرے ماننے والے بھی مجھ سے بدگمان ہو کر مجھے جھٹلا نہ رہے ہوں۔ ایک شخص قاسم بن محمد کے پاس آ کر کہتا ہے کہ محمد بن کعب قرظی کذبوا پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو ۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ صدیقہ عائشہ سے سنا ہے وہ کذبوا پڑھتی تھیں یعنی ان کے ماننے والوں نے انہیں جھٹلایا۔ پس ایک قرأت تو تشدید کے ساتھ ہے دوسری تخفیف کے ساتھ ہے، پھر اس کی تفسیر میں ابن عباس سے تو وہ مری ہے جو اوپر گزر چکا۔ ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے یہ آیت اسی طرح پڑھ کر فرمایا یہی وہ ہے جو تو برا جانتا ہے۔ یہ روایت اس روایت کے خلاف ہے، جسے ان دونوں بزرگوں سے اوروں نے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ ابن عباس (رض) نے فرمایا جب رسول ناامید ہوگئے کہ ان کی قوم ان کی مانے گی اور قوم نے یہ سمجھ لیا کہ نبیوں نے ان سے جھوٹ کہا، اسی وقت اللہ کی مدد آپہنچی اور جسے اللہ نے چاہا نجات بخشی۔ اسی طرح کی تفسیر اوروں سے بھی مروی ہے۔ ایک نوجوان قریشی نے حضرت سعید بن جبیر (رح) سے کہا کہ حضرت ہمیں بتائیے، اس لفظ کو کیا پڑھیں، مجھ سے تو اس لفظ کی قرأت کی وجہ سے ممکن ہے کہ اس سورت کا پڑھنا ہی چھوٹ جائے۔ آپ نے فرمایا سنو اس کا مطلب یہ کہ انبیاء اس سے مایوس ہوگئے کہ ان کی قوم ان کی بات مانے گی اور قوم والے سمجھ بیٹھے کہ نبیوں نے غلط کہا ہے یہ سن کر حضرت ضحاک بن مزاحم بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا کہ اس جیسا جواب کسی ذی علم کا میں نے نہیں سنا اگر میں یہاں سے یمن پہنچ کر بھی ایسے جواب کو سنتا تو میں اسے بھی بہت آسان جانتا۔ مسلم بن یسار (رح) نے بھی آپ کا یہ جواب سن کر اٹھ کر آپ سے معانقہ کیا اور کہا اللہ تعالیٰ آپ کی پریشانیوں کو بھی اسی طرح دور کر دے، جس طرح آپ نے ہماری پریشانی دور فرمائی۔ بہت سے اور مفسرین نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے بلکہ مجاہد (رح) کی تو قرأت ذال کے زبر سے ہے یعنی کذبوا ہاں بعض مفسرین وظنوا کا فاعل مومنوں کو بتاتے ہیں اور بعض کافروں کو یعنی کافروں نے یا یہ کہ بعض مومنوں نے یہ گمان کیا کہ رسولوں سے جو وعدہ مدد کا تھا اس میں وہ جھوٹے ثابت ہوئے عبداللہ بن مسعود (رض) تو فرماتے ہیں رسول ناامید ہوگئے یعنی اپنی قوم کے ایمان سے اور نصرت ربانی میں دیر دیکھ کر ان کو قوم گمان کرنے لگی کہ وہ جھوٹا وعدہ دئے گئے تھے۔ پس یہ دونوں روایتیں تو ان دونوں بزرگ صحابیوں سے مروی ہیں۔ اور حضرت عائشہ (رض) اس کا صاف انکار کرتی ہیں۔ ابن جریر (رح) بھی قول صدیقہ کی طرفداری کرتے اور دوسرے قول کی تردید کرتے ہیں اور اسے ناپسند کر کے رد کردیتے ہیں، واللہ اعلم۔