Skip to main content

وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِىْۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْۤءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىْ ۗاِنَّ رَبِّىْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ

"And not
وَمَآ
اور نہیں
I absolve
أُبَرِّئُ
میں بری الذمہ کرتا
myself
نَفْسِىٓۚ
اپنے نفس کو
Indeed
إِنَّ
بیشک
the soul
ٱلنَّفْسَ
نفس
(is) a certain enjoiner
لَأَمَّارَةٌۢ
البتہ بہت حکم دینے والا ہے
of evil
بِٱلسُّوٓءِ
برائی کا
unless
إِلَّا
مگر
[that]
مَا
اس کے جو
bestows Mercy
رَحِمَ
رحم کرے
my Lord Indeed
رَبِّىٓۚ إِنَّ
میرا رب
my Lord
رَبِّى
میرا رب
(is) Oft-Forgiving
غَفُورٌ
غفور،
Most Merciful"
رَّحِيمٌ
رحیم ہے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

میں کچھ اپنے نفس کی براءَت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو، بے شک میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے"

English Sahih:

And I do not acquit myself. Indeed, the soul is a persistent enjoiner of evil, except those upon which my Lord has mercy. Indeed, my Lord is Forgiving and Merciful."

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

میں کچھ اپنے نفس کی براءَت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو، بے شک میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے"

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا بیشک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے

احمد علی Ahmed Ali

اور میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا بے شک نفس تو برائی سکھاتاہے مگر جس پرمیرا رب مہربانی کرے بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا (١) بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے (٢) مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کے (٣) یقیناً میرا رب پالنے والا بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے۔

٥٣۔١ اسے اگر حضرت یوسف علیہ السلام کا تسلیم کیا جائے تو بطور کسر نفسی کے ہے، ورنہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی پاک دامنی ہر طرح سے ثابت ہو چکی تھی۔ اور اگر یہ عزیز مصر کا قول ہے (جیسا کہ امام ابن کثیر کا خیال ہے) تو یہ حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اپنے گناہ کا اور یوسف علیہ السلام کو بہلانے اور پھسلانے کا اعتراف کر لیا۔
٥٣۔٢یہ اس نے اپنی غلطی کی یا اس کی علت بیان کی کہ انسان کا نفس ہی ایسا ہے کہ برائی پر ابھارتا ہے اور اس پر آمادہ کرتا ہے۔
٥٣۔٣ یعنی نفس کی شرارتوں سے وہی بچتا ہے جس پر اللہ تعالٰی کی رحمت ہو، جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے بچا لیا۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امارہ (انسان کو) برائی سکھاتا رہتا ہے۔ مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے گا۔ بےشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا۔ بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے واﻻ ہی ہے، مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے، یقیناً میرا پالنے واﻻ بڑی بخشش کرنے واﻻ اور بہت مہربانی فرمانے واﻻ ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

میں اپنے نفس کو (بھی) بری قرار نہیں دیتا بے شک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا (اور اس پر اکسانے والا) ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار (کسی کے حال پر) رحم کرے یقینا میرا پروردگار بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور میں اپنے نفس کو بھی بری نہیں قرار دیتا کہ نفس بہرحال برائیوں کا حکم دینے والا ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے کہ وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور میں اپنے نفس کی برات (کا دعوٰی) نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔ بیشک میرا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

عزیز مصر کی بیوی کہہ رہی ہے کہ میں اپنی پاکیزگی بیان نہیں کر رہی اپنے آپ کو نہیں سراہتی۔ نفس انسانی تمناؤں اور بری باتوں کا مخزن ہے۔ اس میں ایسے جذبات اور شوق اچھلتے رہتے ہیں۔ وہ برائیوں پر ابھارتا رہتا ہے۔ اسی کے پھندے میں پھنس کر میں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ مگر جسے اللہ چاہے نفس کی برائی سے محفوظ رکھ لیتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ بخشش کرنا معافی دینا اس کی ابدی اور لازمی صفت ہے۔ یہ قول عزیز مصر کی عورت کا ہی ہے۔ یہی بات مشہور ہے اور زیادہ لائق ہے اور واقعہ کے بیان سے بھی زیادہ مناسب ہے۔ اور کلام کے معنی کے ساتھ بھی زیادہ موافق ہے۔ اما ماوردی (رح) نے اپنی تفسیر میں اسے وارد کیا ہے۔ اور علامہ ابو العباس حضرت امام ابن تیمیہ (رح) نے تو اسے ایک مستقل تصنیف میں بیان فرمایا ہے اور اس کی پوری تائید کی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قول حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ہے۔ لیعلم سے اس دوسری آیت کے ختم تک انہی کا فرمان ہے۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے تو صرف یہی ایک قول نقل کیا ہے۔ چناچہ ابن جریر میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ بادشاہ نے عورتوں کو جمع کر کے جب ان سے پوچھا کہ کیا تم نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بہلایا پھسلایا تھا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حاش اللہ ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔ اس وقت عزیز مصر کی بیوی نے اقرار کیا کہ واقعی حق تو یہی ہے۔ تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا یہ سب اس لئے تھا کہ میری امانت درای کا یقین ہوجائے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ سے فرمایا وہ دن بھی یاد ہے ؟ کہ آپ نے کچھ ارادہ کرلیا تھا ؟ تب آپ نے فرمایا میں اپنے نفس کی برات تو نہیں کر رہا ؟ بیشک نفس برائیوں کا حکم دیتا ہے۔ الغرض ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ کلام حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ہے۔ لیکن پہلا قول یعنی اس کلام کا عزیز کی موت کا کلام ہونا ہی زیادہ قوی اور زیادہ ظاہر ہے۔ اس لئے کہ اوپر سے انہی کا کلام چلا آ رہا ہے جو بادشاہ کے سامنے سب کی موجودگی میں ہو رہا تھا۔ اس وقت تو حضرت یوسف علی السلام وہاں موجود ہی نہ تھے۔ اس تمام قصے کے کھل جانے کے بعد بادشاہ نے آپ کو بلوایا۔