الرعد آية ۱
الٓـمّٓرٰ ۗ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ ۗ وَالَّذِىْۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَـقُّ وَلٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ
طاہر القادری:
الف، لام، میم، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ کتابِ الٰہی کی آیتیں ہیں، اور جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ کی جانب نازل کیا گیا ہے (وہ) حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے،
English Sahih:
Alif, Lam, Meem, Ra. These are the verses of the Book; and what has been revealed to you from your Lord is the truth, but most of the people do not believe.
1 Abul A'ala Maududi
ا ل م ر یہ کتاب الٰہی کی آیات ہیں، اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے، مگر (تمہاری قوم کے) اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
یہ کتاب کی آیتیں ہیں اور وہ جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا حق ہے مگر اکثر آدمی ایمان نہیں لاتے
3 Ahmed Ali
یہ کتاب کی آیتیں ہیں اور جو کچھ تجھ پر تیرے رب سے اترا سوحق ہے اورلیکن اکثر آدمی ایمان نہیں لاتے
4 Ahsanul Bayan
یہ قرآن کی آیتیں ہیں، اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے، سب حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
الٓمرا۔ (اے محمد) یہ کتاب (الہیٰ) کی آیتیں ہیں۔ اور جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے
6 Muhammad Junagarhi
ا ل م رٰ۔ یہ قرآن کی آیتیں ہیں، اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے، سب حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں ﻻتے
7 Muhammad Hussain Najafi
الف، لام، میم، را۔ یہ الکتاب (قرآن) کی آیتیں ہیں اور جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ سب بالکل حق ہے لیکن اکثر لوگ (اس پر) ایمان نہیں لاتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
المۤرۤ -یہ کتاب هخدا کی آیتیں ہیں اور جو کچھ بھی آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ سب برحق ہے لیکن لوگوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
المر (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کتاب (الہٰی) کی آیتیں ہیں۔ اور جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے حق ہے۔ لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت نمبر ١ تا ٧
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے، المر، اس سے اپنی مراد کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، یہ آیتیں قرآن کریم کی آیتیں ہیں اور (آیاتُ الکتاب) میں اضافت بمعنی مِنْ ہے اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے اتارا جاتا ہے سب حق ہے (یعنی) اس میں کوئی شک نہیں ہے، (وَالَّذِیْ اُنزلَ اِلیک الخ) مبتداء ہے اور الحقُّ اس کی خبر ہے، لیکن اکثر لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے کہ یہ منجانب اللہ ہے اور وہ اہل مکہ ہیں، اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر بلند فرمایا جو تم کو نظر آتے ہوں، العمد، عمادٌ کی جمع ہے اور وہ ستون ہیں اور عدم رویت اس وقت بھی صادق آتی ہے جبکہ ستون ہی نہ ہوں پھر وہ تخت شاہی پر جلوہ فرما ہوا ایسی جلوہ فرمائی کہ جو اس کے شایان شان ہے اور اس نے شمس و قمر دونوں کو قانون کا پابند بنایا ان میں سے ہر ایک اپنے مدار پر ایک مدت (یعنی) قیامت تک کیلئے جاری ہے (وہی اللہ) ہر کام کی تدبیر کرتا ہے (یعنی) اپنے کے معاملات طے کرتا ہے اور وہ اپنی قدرت کی دلالتوں کو خوب کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ اے اہل مکہ بعث کے ذریعہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو اور وہ ایسی ذات ہے کہ اس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں نہ ہلنے والے پہاڑ پیدا کئے اور نہریں پیدا کیں اور زمین میں ہر قسم کے پھلوں کے دہرے دہرے جوڑے پیدا کئے وہ رات کی تاریکی کے ذریعہ دن کو چھپا دیتا ہے یقیناً اس مذکور میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی بہت سی نشانیاں ہیں اللہ کی صنعت میں غور و فکر کرنے والوں کیلئے، اور زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں، ان میں زرخیز بھی ہیں اور بنجر بھی اور قلیل النفع بھی ہیں اور کثیر النفع بھی، یہ بھی خدا کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے، اور انگور کے باغات ہیں، اور کھیتیاں ہیں (زرعٌ) رفع کے ساتھ جنات پر عطف کی وجہ سے اور جر کے ساتھ بھی اعناب پر عطف کی وجہ سے، اور کھجور کے درخت ہیں (صنوان) صنوٌ کی جمع ہے کھجور کے ان درختوں کو کہتے ہیں جن کی جڑ ایک ہو اور اوپر اس میں متعدد شاخیں ہوں اور کچھ اکہرے بھی ہیں سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے (تسقٰی) کی ضمیر مذکور کی طرف راجع ہوگی مگر مزے میں ہم بعض کو بہتر بنا دیتے اور بعض کو کمتر (نفضل) نون اور یاء کے ساتھ ہے (الاُکُلُ ) کاف کے ضمہ اور اس کے سکون کے ساتھ (دو قراءتیں ہیں) بعض ان میں شیریں اور بعض ترش ہوتے ہیں یہ بھی خدا کی قدرت کے دلائل میں سے ہے، بلاشبہ ان مذکورہ باتوں میں غور و فکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں اور اگر اے محمد آپ کو کفار کے آپ کی تکذیب کرنے سے تعجب ہوتا ہے تو درحقیقت منکرین بعث کا یہ قول قابل تعجب ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کئے جائیں گے ؟ اس لئے کہ جو ذات سابقہ نمونے کے بغیر ازسر نو پیدا کرنے اور مذکورہ چیزوں پر قادر ہے وہ ان کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے، اور دونوں ہمزوں میں دونوں جگہ تحقیق اور پہلے کی تحقیق اور ثانی کی تسہیل اور دونوں صورتوں میں دونوں ہمزوں کے درمیان الف داخل کرکے اور ادخال کو ترک کرکے (سب جائز ہے) اور ایک قراءت اول میں استفہام اور ثانی میں خبر اور دوسری قراءت میں اس کا برعکس یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کا کفر کیا اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی گردنوں میں طوق ہے، یہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، اور ان کے بطور استہزاء عذاب کے بارے میں جلدی مچانے کے بارے میں (آئندہ) آیت نازل ہوئی یہ لوگ نیکی یعنی رحمت سے پہلے برائی کیلئے جلدی مچا رہے ہیں حالانکہ ان سے پہلے عبرتناک مثالیں گذر چکی ہیں مثلات، مَثلۃ کی جمع ہے سَمُرَۃ کے وزن پر، یعنی ان جیسے تکذیب کرنے والوں کی سزائیں (گذر چکی ہیں) کیا اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے ؟ حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب لوگوں کی زیادتی کے باوجود ان کو معاف بھی کرتا ہے ورنہ تو وہ روئے زمین پر کوئی چلنے والا (یعنی ذی روح) نہ چھوڑے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا رب لوگوں کی زیادتی کے باوجود ان کو معاف بھی کرتا ہے ورنہ تو وہ روئے زمین پر کوئی چلنے والا (یعنی ذی روح) نہ چھوڑے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا رب اپنی نافرمانی کرنے والوں کو سخت سزا دینے والا ہے اور کافر کہتے ہیں کس لئے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نہیں اتاری گئی اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی جیسا کہ عصا (موسیٰ (علیہ السلام) اور ید (بیضاء) اور اونٹنی (ناقۂ صالح علیہ الصلوٰۃ والسلام) اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ تو کافروں کا محض آگاہ کرنے والے ہیں (یعنی ڈرانے والے ہیں، معجزات کا لانا آپ کے ذمہ نہیں ہے، اور ہر قوم کیلئے رہنما ہوتا ہے (یعنی) نبی ہوتا ہے جو لوگوں کو ان معجزات کے ذریعہ جو اس کو اللہ عطا کرتا ہے ان کے رب کی طرف بلاتا ہے نہ کہ ان معجزات کے ذریعہ جن کو وہ تجویز کرے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : سورة الرعد مکیۃ سورة الرعد مبتداء ہے مکیۃ خبر اول ہے اور ثلث الخ خبرثانی ہے، مکی مدنی ہونے کے بارے میں پانچ قول ہیں (١) یوری سورت مکی سوائے ” ولا یزال الذین کفروا (الآیۃ) کے (٢) پوری سورت مکی ہے سوائے ھو الذی یریکم البرق، الی قولہ، لہ دعوۃ الحق (٣) پوری سورت مدنی ہے سوائے وَلَوْ انَّ قرآنا (دو آیتیں) (٤) کہا گیا ہے کہ پوری سورت مدنی ہے، (٥) کہا گیا ہے کہ پوری سورت مکی ہے۔
قولہ : الاضافۃ بمعنی من، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ آیات الکتاب میں اضافت الشئ الی نفسہٖ لازم آرہی ہے اسلئے کہ آیات اور کتاب ایک ہی شئ ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ اضافت الشی الی نفسہ اس وقت لازم آتی جب اضافت بمعنی لام ہوتی یہاں اضافت بمعنی من ہے فلاحرج۔
قولہ : بانّہ من عندہ یہ جملہ یؤمنون کا مفعول بہ ہے۔ سوال : یُؤْمِنُ متعدی بالی استعمال ہوتا ہے نہ کہ متعدی بالباء۔ جواب : یُؤْمنون، یقرّون کے معنی کو متضمن ہے لہٰذا تعدیہ بالباء درست ہے۔
قولہ : اللہ الذی رفع السمٰوات الخ اللہ مبتداء ہے اور اَلَّذِیْ الخ اس کی خبر ہے۔
قولہ : وھو صادق بان لا عَمَدَ اصْلا یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ جمع کی نفی بطور مفہوم کے ثبوت واحد پر دلالت کرتی ہے یعنی ایک ستون ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ مقید کی نفی مطلق کی نفی پر دلالت کرتی ہے، یہاں نفی موصوف اور صفت دونوں کی طرف راجع ہے۔
قولہ : جَعَلَ ، یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ جعل متعدی بدو مفعول ہوتا ہے حالانکہ یہاں دو مفعول نہیں ہیں۔
جواب : جَعَلَ بمعنی خَلَقَ ہے نہ کہ بمعنی صَیَّرَ ۔ قولہ : من کل نوعٍ من کُلّ الثمرات کی تفسیر ہے۔
قولہ : یغشی الَّیل النھارَ یہ جملہ مستانفہ ہے اور ماقبل میں مذکور افعال کے فاعل سے حال بھی ہوسکتا ہے، یُغَشِی کا فاعل ضمیر ھو مستتر ہے جو اللہ کی طرف راجع ہے، الّیْل مفعول اول ہے اور النھارَ مفعول ثانی یعنی اللہ تعالیٰ رات کے ذریعہ دن کو چھپا دیتا ہے۔
قولہ : صِنوان، بالتثلیث، نخلۃ لھا رأسان واصلھا واحد، ایسا کھجور کا درخت کہ جس کی جڑ ایک ہو سر دو ہوں۔
قولہ : بالتاء والیاء تُسْقٰی مؤنث کی صورت میں اس کا نائب فاعل الجنات ہوگا اور یُسٌقٰی مذکر کی صورت میں اسکا فاعل مذکور ہوگا۔
قولہ : بالیاء، یعنی نُفضِّلُ میں یاء اور نون دونوں جائز ہیں مذکر غائب کی صورت میں یُدَبِّرُ کے ساتھ مطابقت ہوگی۔
قولہ : حقیق بالعجب۔ سوال : فعجبٌ کی تفسیر حقیق سے کس مقصد کے پیش نظر کی ہے ؟ جواب : اسکا مقصد ایک سوال کا جواب ہے
سوال : کیا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ عجبٌ خبر مقدم ہے اور قولھم مبتداء مؤخر ہے، اور عجبٌ مصدر ہے اور مصدر کا حمل قولھم پر درست نہیں۔ جواب : حقیق محذوف مانا تاکہ حمل درست ہوجائے۔
تفسیر و تشریح
فضائل سورة رعد : سورة رعد کا مختصر (قریب المرگ شخص) کے پاس پڑھنا مستحب ہے اس سے روح نکلنے ہونے میں آسانی ہوتی ہے، ابن ابی شیبہ نے جابر بن زید سے روایت کیا ہے، قال ! کان یستحب اذا احتضر المیت أن یقرأ عندہٗ سورة الرعد فاِن ذلک یخفف عن المیت واِنہ اھون لقبضہ وأیسرُ لشانِہٖ ۔ (فتح القدیر شوکانی)
المرٰ ، تلک اٰیٰت الکتب (الآیۃ) حروف مقطعات کے متعلق الم کے شروع میں بحث گذر چکی ہے وہاں دیکھ لی جائے احوط اور مناسب طریقہ یہی ہے کہ اس کے بارے میں زیادہ بحث نہ کی جائے اور اس کی حقیقی مراد کو اللہ کے حوالہ کیا جائے، اس سورت میں جو کچھ پڑھا جانے والا ہے وہ اس عظیم الشان قرآن کی آیتیں ہیں، یہ کتاب جو آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے اتاری گئی ہے یقیناً حق و صواب ہے، لیکن تعجب کا مقام ہے کہ ایسی صاف اور واضح حقیقت کے ماننے سے بھی لوگ انکار کرتے ہیں۔
سورت کا مرکزی مضمون : پہلی آیت میں مرکزی مضمون کی مناسبت سے تمہیدی مضمون تھا دوسری آیت سے اصل مضمون شروع ہو رہا ہے، یہ بات پیش نظر رہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت جس چیز کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ تین بنیادی باتوں پر مشتمل تھی ایک یہ کہ خدائی پوری کی پوری اللہ ہی کی ہے اس کے علاوہ کوئی مستحق بندگی نہیں، دوسرےؔ یہ کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں سب کو اپنے اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہوگی تیسرےؔ یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں جو کچھ پیش کر رہا ہوں وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہے یہی تین باتیں ہیں جنہیں لوگ ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ دوسری آیت (اللہ الذی رفع السمٰوات بغیر عمدٍ ترونھا) میں اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید کے دلائل مذکور ہیں کہ اس کی مخلوقات اور مصنوعات کو ذرا غور سے دیکھو تو یقین کرنا پڑے گا کہ اس کو بنانے والی کوئی ایسی ذات ہے کہ جو قادر مطلق اور تمام مخلوقات و کائنات اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔
کیا آسمان کا جرم آنکھوں سے نظر آتا ہے ؟ عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نیلا رنگ جو ہم کو نظر آتا ہے آسمان کا رنگ ہے، مگر فلاسفہ کا کہنا یہ ہے کہ یہ رنگ روشنی اور اندھیرے کی آمیزش سے محسوس ہوتا ہے جیسا کہ گہرے پانی پر روشنی پڑتی ہے تو وہ نیلا نظر آتا ہے، مگر ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے دونوں باتیں ایک جگہ جمع ہوسکتی ہیں۔
ثم استوی علی العرش، پھر تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوگیا جیسی جلوہ فرمائی کہ اس کی شایان شان ہے اس جلوہ فرمائی کی کیفیت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا، اتنا اعتقاد رکگنا کافی ہے کہ جس طرح کا استویٰ شان الٰہی کے لائق ہے وہ مراد ہے۔
وسخر الشمس والقمر، سورج اپنا دورہ ایک سال اور چاند ایک ماہ میں پورا کرتا ہے، لِاَجل مُسَمّٰی کے معنی اگر وقت مقرر تک کیلئے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ چاند سورج قیامت تک اسی طرح چلتے رہیں گے کائناتی دلائل کو پیش کرنے اور ان میں غور و فکر کی دعوت دینے کا مقصد یہ ہے کہ جو ذات اتنی عظیم الشان مخلوق پیدا کرسکتی ہے اس کیلئے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟ ! شمس و قمر کو مسخر کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو جس ضابطہ کا پابند بنادیا ہے ہزارہا سال گذر گئے مگر اسی ضابطہ کی پابندی کے ساتھ رفتار میں کمی بیشی کے بغیر چل رہے ہیں نہ تھکتے ہیں اور نہ اپنے کام سے انحراف کرتے ہیں یہ نظام قدرت بآواز بلند کہہ رہا ہے کہ اس کائنات کو بنانے اور چلانے والی کوئی ایسی ہستی ضرور ہے جو انسان کے ادراک و شعور سے بالاتر ہے۔
یدبر الامر، اللہ ہر امر کا انتظام حکمت اور مصلحت کے ساتھ کرتا رہتا ہے یعنی وہ محض صانع اور خالق ہی نہیں کہ جو ایک مرتبہ تخلیق کے بعد معطل ہو کر بیٹھ گیا ہو جیسا کہ بعض گمراہ فرقوں کا عقیدہ ہے بلکہ حاکم اور متصرف بھی ہے۔
وھو الذی مد الارض، کرۂ ارض جو کہ دیگر بہت کروں کے مقابلہ میں مثل ذرہ کے ہے پھر بھی اس کی وسعت کا اندازہ لگانا ایک عام آدمی کیلئے نہایت دشوار ہے، اور بلند وبالا پہاڑوں کے ذریعہ زمین میں گویا میخیں گاڑدی ہیں، نہروں، دریاؤں اور چشموں کا ایسا سلسلہ قائم کیا ہے کہ جس سے انسان خود بھی مستفید ہوتے ہیں اور کھیتوں کو بھی سیراب کرتے ہیں جن سے انواع و اقسام کے غلے اور پھل پیدا ہوتے ہیں جن کی شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف اور ذائقے بھی جدا گانہ ہوتے ہیں اور ان میں مختلف انواع و اقسام کے ساتھ ساتھ جوڑے بھی پیدا کئے، اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ نر اور مادہ دونوں بنائے جیسا کہ جدید تخلیق نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جوڑے سے مراد میٹھا اور کھٹا، سرد اور گرم، سیاہ وسفید، ذائقہ دار اور بد ذائقہ اس طرح ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد قسمیں پیدا کیں۔
وفی الارض قطع متجاورات، یعنی صانع حکیم نے پوری روئے زمین کو یکساں نہیں بنایا، بلکہ اس میں بیشمار خطے پیدا کئے جو متصل ہونے کے باوجود شکل میں، رنگ میں، مادۂ ترکیب میں، خاصیتوں میں، قوتوں اور صلاحیتوں میں، کیمیاوی یا معدنی خزانوں میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں، ان مختلف خطوں کی پیدائش اور ان کے اندر طرح طرح کا تفاوت و اختلاف کی موجودگی اپنے اندر اتنی حکمتیں اور مصلحتیں رکھتی ہے کہ ان کا شمار نہیں ہوسکتا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری کائنات کی تخلیق یقیناً کسی حکیم مطلق کے سوچے سمجھے اور اس کے دانشمندانہ ارادہ کا نتیجہ ہے اسے محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دینا ایک بڑی جرأت اور ہٹ دھرمی کی بات ہے۔ کھجور کے درختوں میں بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جڑ سے ایک ہی تنا نکلتا ہے اور بعض میں ایک جڑ سے دو یا زیادہ نکلتے ہیں، ان باتوں سے خدا کی قدرت اور حکمت کے نشانات ملتے ہیں جو اس کی توحید اور قادر مطلق ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
جو شخص ان باتوں پر گور کرے گا وہ کبھی دیکھ کر پریشان نہ ہوگا کہ انسانی طبائع اور میلانات اور مزاجوں میں اتنا اختلاف کیوں ہے ؟ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ہر حیثیت سے یکساں بنا دیتا مگر جس حکمت پر اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے وہ یکسانی نہیں بلکہ تنوع اور رنگارنگی کی متقاضی ہے، سب کو یکساں بنا دینے کے بعد تو یہ سارا ہنگامۂ ہست و بود ہی بےمعنی ہو کر رہ جاتا، چمن اسی کو کہتے ہیں جس میں ہمہ قسم کے پھول ہوں ہر پھول کا رنگ اور مہک الگ ہو، گویا کہ کارخانہ قدرت ایک چمن ہے جس میں بیلا بھی ہے اور چنبیلی بھی، جو ہی بھی ہے اور موگھرا بھی، گلاب بھی ہے اور گل ہزارہ بھی، رات کی رانی بھی ہے اور دن کا راجہ بھی غرضیکہ ہر ایک اپنی مہک سے مشام جان کو معطر کر رہا ہے اور اپنی خوش رنگی سے آنکھوں کا نور اور دل کو سرور بخش رہا ہے، اگر کسی باغ میں گلاب ہی گلاب ہوں جو کہ پھولوں کا راجہ ہے تو اس کو چمن نہیں کہا جاسکتا البتہ اس کو گلاب کا کھیت کہہ سکتے ہیں چمن نہیں۔
وان تعجب۔۔۔۔ خلق جدید، اس آیت میں خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے کہ کفار آپ کے کھلے معجزات اور آپ کی نبوت پر کھلی نشانیاں دیکھنے کے باوجود آپ کی نبوت کا انکار کرتے ہیں، اس کے برخلاف ایسے پتھروں کو پوجتے ہیں کہ جن میں نہ حس ہے اور نہ حرکت اور نہ عقل ہے نہ شعور وہ خود اپنے نفع نقصان کے بھی مالک نہیں یہ قابل تعجب بات ہے۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ کیسا ایسا ہوسکتا ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں دوبارہ پیدا کیا جائیگا ؟ حالانکہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ پہلی مرتبہ تمام کائنات کو بیشمار حکمتوں کے ساتھ اسی نے پیدا کیا ہے، پھر دوبارہ پیدا کردینا اس کیلئے مشکل اور عقل کے اعتبار سے اس میں کیا استحالہ ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی قدرت کو پہچانا نہیں ہے اس کی قدرت کو اپنی قدرت پر قیاس کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ کھلی ہوئی نشانیوں کے باوجود جس طرح ان کا نبوت سے انکار قابل تعجب ہے اس سے زیادہ قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے اور حشر کے دن سے انکار تعجب کی چیز ہے۔ باوجود یہ کہ قوموں اور بستیوں کی تباہی کی مثالیں پہلے گذر چکی ہیں اور اپنے سفر کے دوران ان کی ہلاکت کی نشانیاں دیکھتے ہیں مگر ایک بےعقل و شعور حیوان کی طرح چشم عبرت بند کرکے گذر جاتے ہیں اس کے باوجود جلدی مانگتے ہیں، یہ کفار کے اس سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اے پیغمبر اگر تو سچا ہے تو وہ عذاب ہم پر لے آ جس سے تو
ہمیں ڈراتا ہے۔
ویقول الذین۔۔۔۔ من ربہ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر نبی کو حالات اور ضروریات اور اپنی منشا کے مطابق کچھ نشانیاں اور معجزات عطا فرمائے، لیکن کافر اپنے حسب منشا معجزات کے طالب ہوتے رہے ہیں جیسا کہ کفار مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے کہ کوہ صفا کو سونے کا بنادیا جائے یا پہاڑوں کی جگہ نہریں اور چشمے جاری ہوجائیں وغیرہ وغیرہ، جب ان کے مطلوبہ معجزے نہ دکھائے جاتے تو کہتے کہ ان پر کوئی نشانی نازل کیوں نہیں کی گئی ؟ اللہ نے فرمایا اے پیغمبر تمہارا کام صرف انذار و تبلیغ ہے وہ تم کرتے رہو کوئی مانے یا نہ مانے اس سے تم کو کوئی غرض نہیں اسلئے کہ ہدایت دینا ہمارا کام ہے تمہارا کام راستہ دکھانا ہے۔
ولکل قوم ھاد، گذشتہ ہر قوم میں ہادی ہوتے چلے آئے ہیں اور ہر نبی کا وظیفہ اور کار منصبی یہ تھا کہ وہ قوم کو ہدایت کریں، اللہ کے عذاب سے ڈرائیں، معجزات کا ظاہر کرنا کسی نبی کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا یہ سب اللہ کے اختیار وقدرت میں ہوتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ قرآن، کتاب اللہ کی آیات ہیں جو دین کے اصول و فروع میں ہر اس چیز کی طرف راہنمائی کرتی ہیں جس کے بندے محتاج ہیں اور یہ قرآن جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آپ کے رب کی طرف سے اتارا گیا وہ واضح حق ہے، کیونکہ اس کی خبریں صدق پر مبنی اور اس کے اوامر و نواہی سراسر عدل ہیں اور قطعی دلائل و براہین ان کی تائید کرتے ہیں۔ جو کوئی اس کے علم کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہی حقیقی اہل علم میں شمار ہوتا ہے اور اس کا علم اس کے لئے عمل کا موجب بنتا ہے۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ ﴾ ” لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔“ یعنی اکثر لوگ یا تو (قرآن) سے جہالت، اس سے روگردانی اور اس کی طرف عدم توجہ کی بنا پر یا محض عناد اور ظلم کی وجہ سے، اس قرآن پر ایمان نہیں رکھتے۔ بنا بریں اکثر لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے، اس کی وجہ اس سبب کا معدوم ہونا ہے جو فائدہ اٹھانے کا موجب ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Alif-Laam-Meem-Raa . yeh ( Allah ki ) kitab ki aayaten hain , aur ( aey payghumber ! ) jo kuch tum per tumharay perwerdigar ki taraf say nazil kiya gaya hai , bar-haq hai , lekin aksar log emaan nahi laarahey .
12 Tafsir Ibn Kathir
سورتوں کے شروع میں جو حروف مقطعات آتے ہیں ان کی پوری تشریح سورة بقرہ کی تفسیر کے شروع میں لکھ آئے ہیں۔ اور یہ بھی ہم کہہ آئے ہیں کہ جس سورت کے اول میں یہ حروف آئے ہیں وہاں عموما یہی بیان ہوتا ہے کہ قرآن کلام اللہ ہے اس میں کوئی شک و شبہ نیہں۔ چناچہ یہاں بھی ان حروف کے بعد فرمایا یہ کتاب کی یعنی قرآن کی آیتیں ہیں۔ بعض نے کہا مراد کتاب سے توراۃ انجیل ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں۔ پہر اسی پر عطف ڈال کر اور صفتیں اس پاک کتاب کی بیان فرمائیں کہ یہ سراسر حق ہے اور اللہ کی طرف سے تجھ پر اتارا گیا ہے۔ الحق خبر ہے اس کا مبتدا پہلے بیان ہوا ہے یعنی الذی انزل الیک لیکن ابن جریر (رح) کا پسندیدہ قول لائے ہیں۔ پھر فرمایا کہ باوجود حق ہونے کے پھر بھی اکثر لوگ ایمان سے محروم ہیں اس سے پہلے گزرا ہے کہ گو تو حرص کرے لیکن اکثر لوگ ایمان قبول کرنے والے نہیں۔ یعنی اس کی حقانیت واضح ہے لیکن ان کی ضد، ہٹ دھری اور سرکشی انہیں ایمان کی طرف متوجہ نہ ہونے دے گی۔