اور اہلِ شہر (اپنی بد مستی میں) خوشیاں مناتے ہوئے (لوط علیہ السلام کے پاس) آپہنچے،
English Sahih:
And the people of the city came rejoicing.
1 Abul A'ala Maududi
اتنے میں شہر کے لوگ خوشی کے مارے بے تاب ہو کر لوطؑ کے گھر چڑھ آئے
2 Ahmed Raza Khan
اور شہر والے خوشیاں مناتے آئے،
3 Ahmed Ali
اور شہر والے خوشیاں کرتے ہوئے آئے
4 Ahsanul Bayan
اور شہر والے خوشیاں مناتے ہوئے آئے (١)۔
٦٧۔١ ادھر تو حضرت لوط علیہ السلام کے گھر میں قوم کی ہلاکت کا یہ فیصلہ ہو رہا تھا۔ ادھر قوم لوط کو پتہ چلا کہ لوط علیہ السلام کے گھر میں خوش شکل نوجوان مہمان آئے ہیں تو اپنی امرد پرستی کی وجہ سے بڑے خوش ہوئے اور خوشی خوشی حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے اور مطالبہ کیا کہ ان نوجوانوں کو ان کے سپرد کیا جائے تاکہ وہ ان سے بےحیائی کا ارتکاب کر کے اپنی تسکین کر سکیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اہل شہر (لوط کے پاس) خوش خوش (دوڑے) آئے
6 Muhammad Junagarhi
اور شہر والے خوشیاں مناتے ہوئے آئے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور شہر والے (نوجوان اور خوبصورت مہمانوں کو دیکھ کر) خوشیاں مناتے ہوئے آگئے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ادھر شہر والے نئے مہمانوں کو دیکھ کر خوشیاں مناتے ہوئے آگئے
9 Tafsir Jalalayn
اور اہل شہر (لوط کے پاس) خوش خوش (دوڑے) آئے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَجَاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ﴾ ’’اور اہل شہر آئے۔“ یعنی اس شہر کے لوگ آئے جس میں لوط رہتے تھے۔ ﴿يَسْتَبْشِرُونَ﴾ ” خوشیاں کرتے“ یعنی لوط علیہ السلام کے خوبصورت مہمانوں کی آمد اور ان پر انہیں قدرت حاصل ہونے کی بنا پر وہ ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے تھے۔ ان کا مقصد ان کے ساتھ بد فعلی کرنے کا تھا۔ پس وہ آئے اور حضرت لوط علیہ السلام کے گھر پہنچ گئے اور ان کے مہمانوں کے بارے میں ان کے ساتھ جھگڑنے لگے اور لوط علیہ السلام نے ان سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا :
قوم لوط کی خر مستیاں قوم لوط کو جب معلوم ہوا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر نوجوان خوبصورت مہمان آئے ہیں تو وہ اپنے بد ارادے سے خوشیاں مناتے ہوئے چڑھ دوڑے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں سمجھانا شروع کیا کہ اللہ سے ڈرو، میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو۔ اس وقت خود حضرت لوط (علیہ السلام) کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ فرشتے ہیں۔ جیسے کہ سورة ہود میں ہے۔ یہاں گو اس کا ذکر بعد میں ہے اور فرشتوں کا ظاہر ہوجا نا پہلے ذکر ہوا ہے لیکن اس سے ترتیب مقصود نہیں۔ واؤ ترتیب کے لئے ہوتا بھی نہیں اور خصو صاً ایسی جگہ جہاں اس کے خلاف دلیل موجود ہو۔ آپ ان سے کہتے ہیں کہ میری آبرو ریزی کے درپے ہوجاؤ۔ لیکن وہ جواب دیتے ہیں کہ جب آپ کو یہ خیال تھا تو انہیں آپ نے اپنا مہمان کیوں بنایا ؟ ہم تو آپ کو اس سے منع کرچکے ہیں۔ تب آپ نے انہیں مزید سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری عورتیں جو میری لڑکیاں ہیں، وہ خواہش پوری کرنے کی چیزیں ہیں نہ کہ یہ۔ اس کا پورا بیان نہایت وضاحت کے ساتھ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اس لئے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ چونکہ یہ بد لوگ اپنی خرمستی میں تھے اور جو قضا اور عذاب ان کے سروں پر جھوم رہا تھا اس سے غافل تھے اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم کھا کر ان کی یہ حالت بیان فرما رہا ہے اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بہت تکریم اور تعظیم ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی جتنی مخلوق پیدا کی ہے ان میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں۔ اللہ نے آپ کی حیات کے سوا کسی کی حیات کی قسم نہیں کھائی۔ سکرۃ سے مراد ضلالت و گمراہی ہے، اسی میں وہ کھیل رہے تھے اور تردد میں تھے۔