النحل آية ۲۶
قَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَاَتٰٮهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ
طاہر القادری:
بیشک اُن لوگوں نے (بھی) فریب کیا جو اِن سے پہلے تھے تو اللہ نے اُن (کے مکر و فریب) کی عمارت کو بنیادوں سے اکھاڑ دیا تو ان کے اوپر سے ان پر چھت گر پڑی اور ان پر اس طرف سے عذاب آپہنچا جس کا اُنہیں کچھ خیال بھی نہ تھا،
English Sahih:
Those before them had already plotted, but Allah came at [i.e., uprooted] their building from the foundations, so the roof fell upon them from above them, and the punishment came to them from where they did not perceive.
1 Abul A'ala Maududi
اِن سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کو نیچا دکھانے کے لیے) ایسی ہی مکاریاں کر چکے ہیں، تو دیکھ لو کہ اللہ نے اُن کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آ رہی اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا اُن کو گمان تک نہ تھا
2 Ahmed Raza Khan
بیشک ان سے اگلوں نے فریب کیا تھا تو اللہ نے ان کی چنائی کو نیو سے (تعمیر کو بنیاد) سے لیا تو اوپر سے ان پر چھت گر پڑی اور عذاب ان پر وہاں سے آیا جہاں کی انہیں خبر نہ تھی
3 Ahmed Ali
پھر قیامت کے دن انہیں رسوا کرے گا اور کہے گا میرے شریک کہاں ہیں جن پر تمہیں بڑی ضد تھی جنہیں علم دیا گیا تھا وہ کہیں گے کہ بے شک آج کافروں کے لیے رسوائی اور برائی ہے
4 Ahsanul Bayan
ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی مکر کیا تھا، (آخر) اللہ نے (ان کے منصوبوں) کی عمارتوں کو جڑوں سے اکھیڑ دیا اور ان (کے سروں) پر (ان کی) چھتیں اوپر سے گر پڑیں (١) اور ان کے پاس عذاب وہاں سے آگیا جہاں کا انہیں وہم و گمان بھی نہ تھا (٢)
٢٦۔١ بعض مفسرین اسرائیلی روایات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اس سے مراد نمرود یا بخت نصر ہے، جنہوں نے آسمان پر کسی طرح چڑھ کر اللہ کے خلاف مکر کیا، لیکن وہ ناکام واپس آئے اور بعض مفسرین کا خیال میں یہ ایک کہانی ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کے ساتھ کفر و شرک کرنے والوں کے عمل اسی طرح برباد ہونگے جس طرح کسی کے مکان کی بنیادیں متزلزل ہو جائیں اور وہ چھت سمیت گر پڑے۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مقصود ان قوموں کے انجام کی طرف اشارہ کرنا ہے، جن قوموں نے پیغمبروں کی تکذیب پر اصرار کیا اور بالآخر عذاب الٰہی میں گرفتار ہو کر گھروں سمیت تباہ ہوگئے، مثلاً قوم عاد وقوم لوط وغیرہ۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا من حیث لم یحتسبوا۔
٢٦۔٢ ' پس اللہ (کا عذاب) ان کے پاس ایسی جگہ سے آیا جہاں سے ان کو وہم وگمان بھی نہ تھا '
٢٦۔۳بس اللہ کا عذاب ان کے پاس ایسی جگہ سے آیا جہاں سے ان کو وہم وگمان بھی نہ تھا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ان سے پہلے لوگوں نے بھی (ایسی ہی) مکاریاں کی تھیں تو خدا (کا حکم) ان کی عمارت کے ستونوں پر آپہنچا اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی اور (ایسی طرف سے) ان پر عذاب آ واقع ہوا جہاں سے ان کو خیال بھی نہ تھا
6 Muhammad Junagarhi
ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی مکر کیا تھا، (آخر) اللہ نے (ان کے منصوبوں) کی عمارتوں کو جڑوں سے اکھیڑ دیا اور ان (کے سروں) پر (ان کی) چھتیں اوپر سے گر پڑیں، اور ان کے پاس عذاب وہاں سے آگیا جہاں کا انہیں وہم وگمان بھی نہ تھا
7 Muhammad Hussain Najafi
جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں انہوں نے بھی (دعوتِ حق کے خلاف) مکاریاں کی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی (مکاریوں والی) عمارت بنیاد سے اکھیڑ دی اور اس کی چھت اوپر سے ان پر آپڑی اور ان پر اس طرف سے عذاب آیا جدھر سے ان کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یقینا ان سے پہلے والوں نے بھی مکاریاں کی تھیں تو عذاب الٰہی ان کی تعمیرات تک آیا اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا اور ان کے سروں پر چھت گر پڑی اور عذاب ایسے انداز سے آیا کہ انہیں شعور بھی نہ پیدا ہوسکا
9 Tafsir Jalalayn
ان سے پہلے لوگوں نے بھی (ایسی ہی) مکاریاں کی تھیں تو خدا (کا حکم) ان کی عمارت کے ستونوں پر آپہنچا اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی اور (ایسی طرف سے) ان پر عذاب آ واقع ہوا جہاں سے ان کو خیال بھی نہ تھا۔
آیت نمبر 26 تا 34
ترجمہ : ان سے پہلے لوگوں نے بھ مکر کیا تھا، اور وہ نمرود تھا جس نے ایک بہت اونچا منارہ بنایا تاکہ اس پر چڑھ کر آسمان والوں سے
قتال کرے، آخر اللہ تعالیٰ نے ان بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑدیا کہ ان پر آندھی اور زلزلہ بھیج کر ان کو منہدم کردیا، اور ان کے سروں پر ان کی چھتیں اوپر آپڑیں جس وقت وہ ان کے نیچے تھے اور ان پر عذاب وہاں سے آگیا جہاں کا انھیں وہم و گمان بھی نہ تھا، یعنی ایسی جہت سے کہ ان کے خیال و خواب میں بھ نہ تھا، اور کہا گیا ہے کہ یہ تمثیل ہے ان منصوبوں کو ناکام کرنے کی جن کو انہوں نے رسول کے خلاف استوار کیا تھا، پھر روز قیامت بھی اللہ انھیں رسوا کرے گا اور فرشتوں کے ذریعہ اللہ ان سے تو بیخًا کہے گا بزعم شما میرے وہ شرکاء کہاں ہیں جن کے بارے میں تم مومنین سے جھگڑتے تھے یعنی مومنین سے اختلاف کرتے تھے، اور جن کو علم عطا کیا گیا یعنی انبیاء اور مومنین کہیں گے یقیناً آج رسوائی اور بدبختی کافروں کے لئے ہے، اور یہ بات ان کی مصیبت پر اظہار مسرت کے طور پر کہیں گے جن کافروں کی جان فرشتے حالت کفر پر قبض کرتے ہیں (آخر وقت تک) کفر کرکے اپنے اوپر ظلم کرتے رہے، اس وقت یہ لوگ ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور موت کے وقت تسلیم و رضا کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ہم تو کوئی شرک نہیں کرتے تھے، تو فرشتے کہیں گے ہاں کیوں نہیں اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے تھے، وہ تم کو اس کی سزا دے گا اور ان سے کہا جا ئیگا پس تم جہنم کے دروازوں میں ہمیشہ کے لئے داخل ہوجاؤ، وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے تکبر کرنے والوں کا، اور جو لوگ شرک سے بچتے ہیں ان سے (فرشتے) پوچھتے ہیں تمہارے رب نے کیا نازل کیا ؟ تو وہ جواب دیتے ہیں خیر ہی خیر ( نازل کی) یعنی جن لوگوں نے ایمان کے ذریعہ اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہی بھلائی ہے یعنی پاکیزہ زندگی ہے اور دار آخرت یعنی جنت بہت ہی بہتر ہے دنیا اور مافیہا سے اللہ تعالیٰ نے دار آخرت کے بارے میں فرمایا، جنت متقیوں کے لئے کیا خوب گھر ہے، ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں (جنّٰت عدن) مبتداء ہے یدخلونھا، اس کی خبر ہے جن میں وہ داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوگی، جو کچھ یہ لوگ اس میں طلب کریں گے وہ ان کو ملے گا پرہیز گاروں کو اللہ اسی طرح جزاء عطا فرماتا ہے وہ پرہیز گار کہ جن کی روحیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ کفر سے پاک صاف ہوتے ہیں (فرشتے) ان سے موت کے وقت کہتے ہیں تمہارے لئے سلامتی ہی سلامتی ہے، اور آخرت میں ان سے کہا جائیگا اپنے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہوجاؤ انھیں صرف اسی بات کا انتظار ہے کہ فرشتے ان کے پاس ان کی روح قبض کرنے کے لئے آجائیں (یاتیھم) یاء اور تاء کے ساتھ، یا تیرے رب کا حکم یعنی عذاب یا قیامت کا دن جو عذاب پر مشتمل ہوگا آجائے، اسی طرح جس طرح انہوں نے کیا ان سے پہلی امتوں نے بھی کیا ( یعنی) اپنے رسولوں کو جھٹلایا تو وہ ہلاک کردیئے گئے، ان کو بغیر جرم کے ہلاک کرکے اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا لیکن وہ کفر کے ذریعہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے پس ان کے برے اعمال کے نتیجے انھیں مل گئے یعنی ان کے اعمال کی سزا ان کو مل گئی، اور جس عذاب کی وہ ہنسی اڑایا کرتے تھے وہی عذاب ان پر ٹوٹ پڑا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و رتفسیری فوائد
قولہ : قَصَدَ ، اتیان کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے لئے چونکہ محال ہے اسلئے اتیان کی تفسیر مجازًاقَصَدَ سے کی ہے۔
قولہ : بُنیا نھم اس سے پہلے مضاف محذوف ہے، ای قَصَدَ استیصال بنیا نِھِمْ.
قولہ : لِاِ فساد مَا اَبْرَموہ، یعنی تمثیل مراد لینے کی صورت میں ان کے منصوبوں کو جن کو وہ استوار کرچکے تھے ناکام بنانا مراد ہوگا نہ
کہ نمرود کی تعمیر کردہ عمارت کو منہدم کرنا۔
قولہ : ای یقول اس اشارہ ہے کہ ماضی بمعنی مضارع ہے تحقیق و قوع کی وجہ سے مضارع کو ماضی سے تعبیر کردیا ہے۔
قولہ : قائلین، قائلین کا اضافہ کلام کو مربوط و مسلسل بنانے کے لئے کیا ہے، اس کے بغیر ماقبل و مابعد میں ربط نہیں رہتا۔
قولہ : نعت یعنی المتقین موصوف ہے اور تتوفّٰھم اس کی صفت ہے اور طیبین، تتو فّٰھُمْ کی ضمیر سے حال ہے۔
تفسیر وتشریح
وَقد۔۔۔۔ القواعد، بعض مفسرین اسرائیلی روایات کی بنیاد پر کہتے ہیں اس سے مراد نمرود یا بخت نصّر ہے جنہوں نے بلندو بالامحل یا منارے بناکر آسمانوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اور لوگوں کو بیوقوف بنایا کہ ہماری آسمانی مخلوق سے جنگ ہوئی جس میں فتح اور ان کی شکست ہوئی لہٰذا اب ہمارا کوئی سہیم وشریک نہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ناکام و نامراد کردیا اور ان کا تعبیر کردہ چشم زدن میں زمین بوس ہوگیا، اور یہ واقعہ عراق کے شہر بابل کا بتایا جاتا ہے۔
مگر بعض دیگر مفسرین نے فرمایا کہ یہ محض ایک تمثیل ہے، جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کے ساتھ کفر و شرک کرنے والوں کے عمل اسی طرح برباد ہوں گے جس طرح کسی مکان کی بنیادیں متزلزل ہوجائیں اور وہ چھت کے بل گرپڑے، مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس تمثیل سے مقصود ان قوموں کے انجام کی طرف اشارہ ہے جن قوموں نے پیغمبروں کی تکذیب پر اصرار کیا اور ان کے خلاف منصوبہ سازیاں کیں بالآخر عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے اور اپنے گھروں سمیت تباہ ہوگئے، مثلاً قوم عاد اور قوم لوط اور وثمود وغیرہ۔
اَلَّذِیْنَ تتوفّٰھُمُ الملائکۃ (الآیۃ) یہ مشرک ظالموں کی اس وقت کی کیفیت بیان کی جارہی ہے جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں تو وہ صلح کی بات کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور فرشتوں کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں، اور اطاعت و عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو برائی (شرک) نہیں کرتے تھے، مشرکین میدان حشر میں اللہ تعالیٰ کے دو برو جھوٹی قسمیں کھائیں گے اور کہیں گے |" وَاللہ ربنا ما کنا مشرکین |".
فرشتے جواب دیں گے کیوں نہیں ؟ یعنی تم جھوٹ بولتے ہو، تمہاری عمر برائیوں میں گذری ہے اور اللہ کے پاس تمہارے تمام اعمال کار کارڈ موجود ہے تمہارے اس انکار سے کچھ نہیں ہوگا، امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ان کے انتقال کے بعد فوراً ان کی روحیں جہنم میں پہنچ جاتی ہیں اور جسم قبر میں رہتے ہیں۔
دفع تعارض : سورة اعراف کی آیت ٤٣ کے تحت یہ حدیث گذر چکی ہے کہ کوئی شخص بھی محض اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائیگا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ ہوگی، لیکن یہاں فرمایا جارہا ہے کہ تم اپنے عملوں کے بدلے جنت میں داخل ہوجاؤ، دراصل ان میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ اللہ کی رحمت کے حصول کے لئے اعمال صالحہ ضروری ہیں گویا کہ عمل صالح اللہ کی رحمت
کے حصول کا ذریعہ ہیں اس لئے عمل کی اہمیت بھی بجائے خود مسلم ہے اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، نہ اس کے بغیر آخرت
میں اللہ کی رحمت مل سکتی ہے۔
وَاصَا۔۔۔۔ عملوا (الآیۃ) یعنی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہتے کہ اگر تم ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر اللہ کا عذاب آجائیگا تو وہ استہزاء کے طور پر کہتے ہیں کہ جا اپنے اللہ سے جا کر کہہ کہ عذاب بھیج کر ہمیں تباہ کردے، چناچہ اس عذاب نے انھیں گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے، پھر ان کے پاس بچاؤ کا کوئی راستہ نہ رہا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ﴾ ” تحقیق سازش کی ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے“ یعنی جنہوں نے اپنے رسولوں کے خلاف سازشیں کیں اور ان کی دعوت کو ٹھکرانے کے لئے مختلف قسم کے حیلے ایجاد کئے اور اپنے مکر و فریب کی اساس اور بنیاد پر خوفناک عمارت اور محل تعمیر کئے۔ ﴿فَأَتَى اللّٰـهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ﴾ یعنی اللہ کے عذاب نے ان کے مکرو فریب (کی عمارتوں) کو بنیادوں اور جڑوں سے اکھاڑ پھینکا ،﴿فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ ﴾ ” پس گری پڑی ان پر چھت“ سازشوں کا تانا بنا بن کر انہوں نے مکر و فریب کی جو عمارت کھڑی کی تھی ان کے لئے عذاب بن گئی جس کے ذریعے سے ان کو عذاب دیا گیا۔ ﴿وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ﴾ ” اور آیا ان کے پاس عذاب، جہاں سے ان کو خبر نہ تھی“ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے سمجھا کہ یہ عمارت ان کو فائدہ دے گی اور ان کو عذاب سے بچا لے گی مگر اس کے برعکس انہوں نے جو بنیاد رکھی تھی وہ ان کے لئے عذاب بن گئی۔
11 Mufti Taqi Usmani
inn say pehlay kay logon ney bhi makar kay mansoobay banaye thay . phir huwa yeh kay ( mansoobon ki ) jo imaraten unhon ney tameer ki then , Allah taalaa ney unhen jarr buniyad say ukhaar phenka , phir unn kay oopper say chat bhi unn per aagiri , aur unn per azab aesi jagah say aa-dhamka jiss ka unhen ehsas tak nahi tha .
12 Tafsir Ibn Kathir
نمرود کا تذکرہ
بعض تو کہتے ہیں اس مکار سے مراد نمرود ہے جس نے بالاخانہ تیار کیا تھا۔ سب سے پہلے سب سے بڑی سرکشی اسی نے زمین میں کی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کرنے کو ایک مچھر بھیجا جو اس کے نتھنے میں گھس گیا اور چار سو سال تک اس کا بھیجا چاٹتا رہا، اس مدت میں اسے اس وقت قدرے سکون معلوم ہوتا تھا جب اس کے سر پر ہتھوڑے مارے جائیں، خوب فساد پھیلایا تھا۔ بعض کہتے ہیں اس کے سر پر ہتھوڑے پڑتے رہتے تھے۔ اس نے چار سو سال تک سلطنت بھی کی تھی اور خوب فساد پھیلایا تھا۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد بخت نصر ہے یہ بھی بڑا مکار تھا لیکن اللہ کو کوئی کیا نقصان پہنچا سکتا ہے ؟ گو اس کا مکر پہاڑوں کو بھی اپنی جگہ سے سرکا دینے والا ہو۔ بعض کہتے ہیں یہ تو کافروں اور مشرکوں نے اللہ کے ساتھ جو غیروں کی عبادت کی ان کے عمل کی بربادی کی مثال ہے جیسے حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا تھا آیت (وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ) 27 ۔ النمل :50) ان کافروں نے بڑا ہی مکر کیا، ہر حیلے سے لوگوں کو گمراہ کیا، ہر وسیلے سے انہیں شرک پر آمادہ کیا۔ چناچہ ان کے چیلے قیامت کے دن ان سے کہیں گے کہ تمہارا رات دن کا مکر کہ ہم سے کفر و شرک کے لیے کہنا، الخ۔ ان کی عما رت کی جڑ اور بنیاد سے عذاب الٰہی آیا یعنی بالکل ہی کھو دیا اصل سے کاٹ دیا جیسے فرمان ہے جب لڑائی کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے۔ اور فرمان ہے ان کے پاس اللہ ایسی جگہ سے آیا جہاں کا انہیں خیال بھی نہ تھا، ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ یہ اپنے ہاتھوں اپنے مکانات تباہ کرنے لگے اور دوسری جانب سے مومنوں کے ہاتھوں مٹے، عقل مندو ! عبرت حاصل کرو۔ یہاں فرمایا کہ اللہ کا عذاب ان کی عمارت کی بنیاد سے آگیا اور ان پر اوپر سے چھت آ پڑی اور نا دانستہ جگہ سے ان پر عذاب اتر آیا۔
قیامت کے دن کی رسوائی اور فضیحت ابھی باقی ہے، اس وقت چھپا ہوا سب کھل جائے گا، اندر کا سب باہر آجائے گا۔ سارا معاملہ طشت ازبام ہوجائے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہر غدار کے لئے اس کے پاس ہی جھنڈا گاڑ دیا جائے گا جو اس کے غدر کے مطابق ہوگا اور مشہور کردیا جائے گا کہ فلاں کا یہ غدر ہے جو فلاں کا لڑکا تھا۔ اسی طرح ان لوگوں کو بھی میدان محشر میں سب کے سامنے رسوا کیا جائے گا۔ ان سے ان کا پروردگار ڈانٹ ڈپٹ کر دریافت فرمائے گا کہ جن کی حمایت میں تم میرے بندوں سے الجھتے رہتے تھے وہ آج کہاں ہیں ؟ تمہاری مدد کیوں نہیں کرتے ؟ آج بےیارو مددگار کیوں ہو ؟ یہ چپ ہوجائیں گے، کیا جواب دیں ؟ لا چار ہوجائیں گے، کون سی جھوٹی دلیل پیش کریں ؟ اس وقت علماء کرام جو دنیا اور آخرت میں اللہ کے اور مخلوق کے پاس عزت رکھتے ہیں جواب دیں گے کہ رسوائی اور عذاب آج کافروں کو گھیرے ہوئے ہیں اور ان کے معبودان باطل ان سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔