النحل آية ۴۱
وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِى اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَـنُبَوِّئَنَّهُمْ فِى الدُّنْيَا حَسَنَةً ۗ وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَۙ
طاہر القادری:
اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی اس کے بعد کہ ان پر (طرح طرح کے) ظلم توڑے گئے تو ہم ضرور انہیں دنیا (ہی) میں بہتر ٹھکانا دیں گے، اور آخرت کا اجر تو یقیناً بہت بڑا ہے، کاش! وہ (اس راز کو) جانتے ہوتے،
English Sahih:
And those who emigrated for [the cause of] Allah after they had been wronged – We will surely settle them in this world in a good place; but the reward of the Hereafter is greater, if only they could know.
1 Abul A'ala Maududi
جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کر گئے ہیں ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے کاش جان لیں وہ مظلوم
2 Ahmed Raza Khan
اور جنہوں نے اللہ کی راہ مں ی اپنے گھر بار چھوڑے مظلوم ہوکر ضرور ہم انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور بیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے کسی طرح لوگ جانتے، ف۸۶)
3 Ahmed Ali
اورجنہوں نے الله کے واسطے گھر چھوڑا اس کےبعد ان پر ظلم کیا گیا تھا تو البتہ ہم نے انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور آخرت کا ثواب تو بہت ہی بڑا ہے کاش یہ لوگ سمجھ جاتے
4 Ahsanul Bayan
جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کی راہ میں ترک وطن کیا ہے (١) ہم انہیں بہتر سے بہتر ٹھکانا دنیا میں عطا فرمائیں گے (٢) اور آخرت کا ثواب تو بہت ہی بڑا ہے، (٣) کاش کہ لوگ اس سے واقف ہوتے۔
٤١۔١ ہجرت کا مطلب ہے اللہ کے دین کے لئے اللہ کی رضا کی خاطر اپنا وطن، اپنے رشتہ دار اور دوست احباب چھوڑ کر ایسے علاقے میں چلے جانا جہاں آسانی سے اللہ کے دین پر عمل ہو سکے۔ اس آیت میں ان ہی مہاجرین کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے، یہ آیت عام ہے جو تمام مہاجرین کو شامل ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ ان مہاجرین کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی قوم کی ایذاؤں سے تنگ آ کر حبشہ ہجرت کر گئے تھے۔ ان کی تعداد عورتوں سمیت ایک سو یا اس سے زیادہ تھی، جن میں حضرت عثمان غنی اور ان کی زوجہ۔ دختر رسول حضرت رقیہ بھی تھیں۔
٤١۔٢ اس سے رزق طیب اور بعض نے مدینہ مراد لیا ہے، جو مسلمانوں کا مرکز بنا، امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دونوں قولوں میں منافات نہیں ہے۔ اس لئے کہ جن لوگوں نے اپنے کاروبار اور گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی تھی، اللہ تعالٰی نے دنیا میں ہی انہیں نعم البدل عطا فرما دیا۔ رزق طیب بھی دیا اور پورے عرب پر انہیں اقتدار و تمکن عطا فرمایا۔
٤١۔ ٣ حضرت عمر نے جب مہاجرین و انصار کے وظیفے مقرر کئے تو ہر مہاجر کو وظیفہ دیتے ہوئے فرمایا۔ ھَذَا مَا وَ عَدَکَ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا ' یہ وہ ہے جس کا اللہ نے دنیا میں وعدہ کیا ہے '۔ وما ادخر لک فی الآخرۃ افضل۔ اور آخرت میں تیرے لیے جو ذخیرہ ہے وہ اس سے کہییں بہتر ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد خدا کے لیے وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے۔ اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ کاش وہ (اسے) جانتے
6 Muhammad Junagarhi
جن لوگوں نے ﻇلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کی راه میں ترک وطن کیا ہے ہم انہیں بہتر سے بہتر ٹھکانا دنیا میں عطا فرمائیں گے اور آخرت کا ﺛواب تو بہت ہی بڑا ہے، کاش کہ لوگ اس سے واقف ہوتے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جن لوگوں نے خدا کے واسطے ہجرت کی اس کے بعد کہ (ایمان لانے کی وجہ سے) ان پر ظلم کئے گئے ہم ان کو دنیا میں بھی اچھا ٹھکانہ دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے کاش یہ لوگ جان لیتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد راہ هخدا میں ہجرت اختیار کی ہے ہم عنقریب دنیا میں بھی ان کو بہترین مقام عطا کریں گے اور آخرت کا اجر تو یقینا بہت بڑا ہے .اگر یہ لوگ اس حقیقت سے باخبر ہوں
9 Tafsir Jalalayn
اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد خدا کے لئے وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانہ دیں گے۔ اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ کاش وہ (اسے) جانتے۔
آیت نمبر 41 تا 50
ترجمہ : اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لئے اہل مکہ کی اذیتوں کے ظلم سہنے کے بعد ترک وطن کیا، اور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب ہیں، ہم ان کو دنیا میں بہترین ٹھکانہ عطا کریں گے وہ ٹھکانہ مدنیہ ہے، اور آخرت کا اجر یعنی جنت بہت ہی بڑا ہے کاش کافر یا ہجرت نہ کرنے والے اس بات کو جان لیتے کہ مہاجروں کے لئے کس قدر اعزاز ہے تو ضرور مہاجرین کی (ہجرت میں) موافقت کرتے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مشرکوں کی اذیتوں اور اظہار دین کے لئے ہجرت پر صبر کیا اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں تو وہ ان کو ایسے طریقہ سے رزق دیتا ہے کہ ان کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا، اور آپ سے پہلے بھی ہم مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجتے رہے ہیں، کہ جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے نہ کہ فرشتوں کو، سو تم اہل علم یعنی تورات اور انجیل کے عالموں سے معلوم کرلو اگر تم اس بارے میں نہیں جانتے، اسلئے کہ وہ اس بارے میں جانتے ہیں، اور تم ان کی تصدیق کے قریب تر ہو نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والوں کی تصدیق کے (اور ہم نے ان کو) دلائل کے ساتھ بھیجا (بالبینٰت) محذوف کے متعلق ہے، یعنی ہم نے ان کو واضح دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور کتابوں کے ساتھ اور ہم نے آپ پر ذکر قرآن نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ احکام واضح طور پر بیان کردیں جو ان کے لئے اس قرآن میں حلال و حرام کے احکام نازل کئے گئے ہیں اور تاکہ وہ اس میں غور و فکر کریں اور عبرت حاصل کریں، کیا وہ لوگ جو نبی کے ساتھ دارالندوہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قید کرنے یا قتل کرنے یا ان کو وطن سے نکالنے کے بارے میں بدترین چالیں چل رہے ہیں، جیسا کہ سورة انفال میں ذکر کیا گیا ہے، اس بات سے بےخوف ہوگئے کہ اللہ انہیں قارون کے مانند زمین میں دھنسا دے یا ان پر عذاب ایسی جگہ سے آجائے کہ انہیں وہم و گمان بھی نہ ہو، یعنی ایسی جہت سے کہ اس کا ان کے دل میں کبھی خطرہ بھی نہ گذرا ہو، اور ان کو بدر میں ہلاک کردیا گیا، اور انہوں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا یا انھیں ان کے تجارتی سفر کے دوران چلتے پھرتے پکڑلے، اور وہ اسے عاجز نہیں کرسکتے یعنی اس کے عذاب سے بچ کر نہیں نکل سکتے، یا ان کی بتدریج گرفت کرے یہاں تک کہ سب کو ہلاک کر دے (علی تخوفٍ ) فاعل یا مفعول سے حال ہے یقیناً تمہارا پروردگار، اعلی شفقت والا اور بڑا مہربان ہے اس لئے کہ ان کی فوری گرفت کرتا کیا ان لوگوں نے ان چیزوں کو نہیں دیکھا کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے سایہ دار پیدا کیا ہے جیسا کہ درخت اور پہاڑ کہ ان کے سائے دائیں بائیں جھک جھک کر اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں، شِمائل، شِمال کی جمع ہے یعنی شئ اپنی دائیں بائیں دن کے اول اور آخر حصے میں (سُجّدًا) ظلالہ کی ضمیر سے حال ہے، یعنی جو ان سے مطلوب ہے اس کے لئے سر تسلیم خم کئے رہتے ہیں، اور وہ یعنی سائے اظہار عاجزی کرتے ہیں اور سایوں کو ذوی العقول کے درجہ میں اتار لیا، اور آسمانوں اور زمین کا ہر جاندار جو زمین پر چلتا پھرتا ہے اللہ کو سجدہ کرتا ہے یعنی جو اس سے مطلوب ہے اس کے لئے سر تسلیم خم کرتا ہے اور ’ ما ‘ لانے میں غیر ذوی العقول کو ان کی کثرت کی وجہ سے (ذوی العقول پر) غلبہ دیا گیا ہے اور فرشتے بھی سجدہ کرتے ہیں، ان کی فضیلت کی وجہ سے خصوصیات کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا ہے، اور وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور فرشتے حال یہ ہے کہ اپنے رب سے جو غلبہ کے ساتھ ان کے اوپر ہے لرزہ براندام رہتے ہیں اور ان کو جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : لِاِِ قامۃ دینِہٖ ، اس اضافہ میں اس سوال کا جواب ہے کہ فِی اللہ میں، اللہ، مھاجرت کا ظرف واقع ہورہا ہے حالانکہ اللہ کے ظرف ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں جواب کا حاصل یہ ہے کہ فی بمعنی لام ہے اور نضاف محذوف ہے فی اللہ، ای لدین اللہ .
قولہ : لَنُبَوِّ أنَّھُمْ (تفعیل) سے مضارع جمع متکلم لام تاکید بانون تاکید ثقیلہ، ہم ان کو ضرور اتاریں گے، ضرور ٹھکانہ دیں گے مادہ
بَوءٌ ہے، ھم، ضمیر جمع مذکر غائب کی ہے۔
قولہ : دارًا، اس اضافہ میں حسنۃ کی تانیث کی علت کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : ای الکفار او المتخلفون عن الھجرۃ، اس میں یعلمون کی ضمیر میں دو احتمالوں کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : مَا للمھاجرین، یہ یعلمون کا مفعول ہے۔ قولہ : لَوَ افقوھم اس میں اشارہ ہے کہ لَوْ کا جواب محذوف ہے۔
قولہ : فانھم لیعلمونہ، یہ اِنْ شرطیہ کا جواب ہے جو کہ محذوف ہے۔
قولہ : متعلق بمحذوف، یعنی بالبینٰت، اَرْسلنا محذوف کے متعلق ہے نہ کہ مااَرْسَلْنَا مذکورہ کے اور نہ حی کے اور نہ تعملوں کے اس لئے کہ پہلی دو صورتوں میں متعلق اور متعلق کے درمیان فضل بالا جنبی لازم آتا ہے اور وہ فاسئلوا اھل الذکر ہے اور تیسری صورت میں شرط تیکیب اور الزام کے لئے ہے اسلئے کہ ان کے عالم ہونے کی نفی متحقق ہے۔
قولہ : المکرات یہ السیئات کی وجہ تانیث کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : یَتَفَیَّوُّ ، مضارع واحد مذکر غائب مصدر تَفَیُّئٌ (تفعل) مادہ فَئٌ جھک جاتے ہیں۔
قولہ : تَنَفُّصٌ، تحوُّف کی تفسیر تنقص سے بیان معنی کے ہے، اسلئے کہ تحوُّف کے معنی خوف اور ڈر کے بھی آتے ہیں اور بتدریج کم کرنے کے بھی، کمی خواہ نفس میں ہو یا اموال میں مفسر علام نے یہی مراد لئے ہیں، یقال تُخَوِف الشئ ای تُنِقّصُہ .
قولہ : حال من الفاعل اوالمفعول یعنی عَلیٰ تخوفٍ یا تو یاخذ ، کی ضمیر فاعل سے حال ہے، یا ھم ضمیر سے۔
قولہ : جمع شمال یہ انسان کے یمین و شمال سے کنایہ ہے اور غالباً یمین کو مفردلانے میں ’ ما ‘ کے لفظ کی رعایت ہے اور سُجَّدًا میں ما کے معنی کی۔ قولہ : نُزِّلوا منزلۃ العقلاء اس میں اس شبہ کا جواب ہے کہ واؤنون کے ساتھ جمع ذوی العقول کی لائی جاتی ہے اور ظلال ذوی العقول سے نہیں ہے، حالانکہ اس کی جمع داخرون، واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے۔
جواب : چونکہ ظلال کی طرف دخور (عاجزی کرنا) کی نسبت کی گئی ہے جو کہ ذوی العقول کی صفت ہے، اس لیے واؤنون کے ساتھ جمع لائی گئی ہے۔
قولہ : من دابۃٍ ، یہ مافی السمٰوات وما فی الارض کا بیان ہے اور اس میں اس سوال کے جواب کی طرف اشارہ ہے کہ دابۃ اس کو کہتے ہیں جو زمین پر چلے لہٰذا اس میں وہ مخلوق شامل نہیں ہے جو آسمانوں یا فضا میں حرکت کرتی اور چلتی ہے، اس کا جواب دیا کہ اِنَّ الدبیبھی حرکۃ جسمانیۃ سواء کان فی الارض اوفی السماء لہٰذا یہ کہنا کہ دابۃ، ما یدب علی الارض ہی کو کہتے ہیں جس میں ملائکہ وغیرہ داخل نہیں ہیں درست ہے۔
تفسیر وتشریح
والذین۔۔۔۔ اللہ الخ ھاجروا ہجرت سے مشتق ہے ہجرت کے لغوی معنی ہیں ترک وطن، اصلاح میں ہجرت کہتے ہیں دین
کی خاطر اللہ کی رضا جوئی کیلئے اپنے وطن، اپنے عزیز و اقارب، دوست و احباب وغیرہ کو چھوڑ کر ایسے علاقہ میں چلے جانا جہاں آسانی سے اللہ کے دین پر عمل ہوسکے، ہجرت اللہ کی راہ میں بڑی عبادت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، الھجرۃ تَھْدِمُ ما کان قبلھا، یعنی ہجرت ان تمام گناہوں کو ختم کردیتی ہے جو انسان نے ہجرت سے پہلے کئے ہوں۔
ہجرت بعض صورتوں میں فرض اور بعض میں واجب اور بعض میں مستجب و افضل ہوتی ہے اس کے مفصل احکام سورة نساء کی آیت ٩٧ کے تحت بیان ہوچکے ہیں، اس جگہ صرف ان وعدوں کا بیان ہے جو اللہ نے مہاجرین سے کئے ہیں۔
یہ آیت عام ہے جو تمام مہاجرین کو شامل ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ خاص ہو اور ان مہاجرین کے بارے میں نازل ہوئی ہو جو اپنی قوم کی ایذاؤں سے تنگ آکر ہجرت کرگئے تھے ان کی تعداد عورتوں سمیت ایک سو یا اس سے کچھ زیادہ تھی، جن میں حضرت عثمان (رض) اور آپ کی زوجہ دختر رسول حضرت رقیّہ (رض) بھی تھیں۔
کیا ہجرت دنیا میں فراخی کا سبب ہوتی ہے ؟
آیات مذکورہ میں چند شرائط کے ساتھ مہاجرین کے لئے دو عظیم الشان وعدے کئے گئے ہیں اول دنیا ہی میں اچھاٹھکانہ دینے کا، دوسرے آخرت میں بےحساب اجرعظیم کا، دنیا میں اچھا ٹھکانہ ایک نہایت جامع لفظ ہے اس میں یہ بھی داخل ہے کہ مہاجرین کو سکونت کے لئے مکان اور اچھے پڑوسی ملیں اور یہ بھی شامل ہے کہ رزق اچھا ملے دشمنوں پر فتح و غلبہ نصیب ہو عزت و شرف ملے۔
بعض مفسرین نے کہا ہے یہ وعدے ان مہاجرین کے لئے ہیں جنہوں نے پہلی ہجرت حبشہ میں حصہ لیا، اور یہ بھی احتمال
ہے کہ ہجرت حبشہ اور اس کے بعد کی ہجرت الی المدینہ دونوں اس میں داخل ہوں چناچہ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین سے کئے ہوئے وعدے مکمل اور احسن طریقہ پر پورے فرمادیئے۔
ہجرت کے فضائل اور فوائد ان ہی مہاجرین کے لئے ہیں جنہوں نے مطلوبہ شرائط پوری کردی ہوں ان شرائط میں پہلی شرط ” فی اللہ “ ہے یعنی ہجرت کرنے کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہو اس میں دینوی منافع تجارت، ملازمت وغیرہ نفسانی فوائد پیش نظرنہ ہوں دوسری شرط مہاجرین کا مظلوم ہونا ہے جیسا کہ من بعد ما ظلموا سے معلوم ہوتا ہے، تیسری شرط ابتدائی تکلیف و مصائب پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا ہے، جس کی طرف ” اَلَّذِیْنَ صَبَرُا “ سے اشارہ ہے چوتھی شرط تمام مادی تدبیروں کا اہتمام کرتے ہوئے بھی بھروسہ صرف اللہ پر رکھنا، وعلی ربھم یتوکلون سے اسی کی طرف اشارہ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ابتدائی مشکلات و تکالیف تو ہر کام میں ہوا کرتی ہیں ان کو عبور کرنے کے بعد بھی اگر کسی مہاجر کو اچھا ٹھکانہ اور اچھے حالات نہ ملے تو قرآن کے وعدہ میں کوئی شک کرنے کی بجائے اپنی نیت اخلاص اور اس کے حسن عمل کا جائزہ لینا چاہیے جس پر یہ وعدے کئے گئے ہیں تو اس کو معلوم ہوگا کہ قصور اپنا ہی تھا، کہیں نیت میں کھوٹ ہوتا ہے اور کہیں صبر و ثبات و توکل میں کمی ہوتی ہے۔ (معارف)
ترک وطن کی مختلف قسمیں اور ان کے احکام : امام قرطبی نے بحوالہ ابن عربی لکھا ہے کہ وطن سے نکلنا اور سفر کرنا کبھی تو
کسی چیز سے بچنے کے لئے ہوتا ہے اور کبھی کسی چیز کی طلب کے لئے پہلی قسم کے سفر کو جو کسی چیز سے بچنے کے لئے ہو اس کو ہجرت کہتے ہیں اور اسکی چھ قسمیں ہیں۔
(١) دارلکفر سے دارالاسلام کی طرف جانا، یہ سفر ہجرت بشرط استطاعت فرض ہے (جبکہ دارلکفر میں اپنے جان و مال اور آبرو کا امن نہ ہو یا دینی فرائض کی ادائیگی ممکن نہ ہو) ایسی صورت میں دارلکفر میں مقیم رہنے سے گنہگار ہوگا۔
(٢) دارلبدعت سے سفر کرنا، ابن قاسم کہتے ہیں کہ امام مالک سے سنا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے اس مقام پر قیام کرنا حلال نہیں جس میں سلف صالحین پر سب و شتم کیا جاتا ہو، ابن عربی یہ قول نقل کرکے لکھتے ہیں کہ یہ بالکل صحیح ہے کیونکہ اگر تم کسی منکر کا ازالہ نہیں کرسکتے تو تم پر لازم ہے کہ تم خود وہاں سے زائل ہوجاؤ۔
(٣) تیسرا سفر وہ ہے کہ جس جگہ حرام کا غلبہ ہو وہاں سے نکل جانا، کیونکہ طلب حلال ہر مسلمان پر فرض ہے۔
(٤) چوتھا جسمانی اذیتوں سے بچنے کیلئے سفر، یہ سفر جائز ہے کہ انسان جس جگہ دشمنوں سے جسمانی اذیت محسوس کرے وہاں سے نکل جائے تاکہ اس خطرہ سے نجات حاصل ہو، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اہذاؤں سے نجات حاصل کرنے کے لئے عراق سے شام کا سفر کیا تھا، اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی قسم کا سفر مصر سے مدین کا کیا تھا، ” فَخَرَجَ منھا خائفا یترقب “.
(٥) پانچواں سفر آب و ہوا کی خرابی اور وبائی امراض کے خطرہ سے بچنے کے لئے سفر کرنا ہے، شریعت اسلام نے اس کی اجازت
سی ہے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل عرینہ کو مدینہ سے باہر جنگل میں قیام کرنے کی اجازت دی تھی، اسی طرح حضرت عمر (رض) نے ابو عبیدہ (رض) کو حکم دیا تھا کہ دارلخلافہ اردن سے منتقل کرکے کسی مرتفع سطح پر لے جائیں جہاں کی آب وہوا خراب نہ ہوا۔
وبائی امراض کے مقام پر جانے یا وہاں سے آنے کا حکم : جہاں وباپھیلی ہو اس کا حکم یہ ہے کہ جو لوگ اس جگہ پہلے سے موجود ہیں وہ تو وہاں سے نہ بھاگیں اور جو باہر ہیں وہ وہاں نہ جائیں، جیسا کہ حضرت فاروق اعظم (رض) کو سفر شام کے وقت پیش آیا تھا، کہ سرحد شام پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ شام میں طاعون پھیلا ہوا ہے تو آپ کو اس ملک میں داخل ہونے میں ترددپیش آیا صحابۂ کرام سے مسلسل مشوروں کے بعد آخر میں جب حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے ان کو یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔ اِذا وقع بارضٍ وانتم بھا فلا تخرجوا منھا و اِذا وقع بارضٍ ولستم بھا فلا تھبطوا عَلَیْھا . (رواہ الترمذی)
جب کسی خطہ میں طاعون پھیل جائے اور تم موجود ہو تو وب وہاں سے نہ نکلوا اور جہاں تم پہلے سے موجود نہیں وہاں طاعون پھیلنے کی خبر سنو تو اس میں داخل نہ ہو۔
اس وقت فاروق اعظم نے حکم حدیث کی تعمیل کرتے ہوئے پورے قافلہ کو لے کر واپسی کا اعلان کردیا، بعض علماء نے فرمایا
کہ حدیث شریف کے اس حکم میں ایک خاص حکمت یہ بھی ہے کہ جو لوگ اس جگہ مقیم ہیں جہاں کوئی وباپھیل چکی ہے یہاں کے لوگوں میں وبائی جراثیم کا موجود ہونا ظن غالب ہے، وہ اگر یہاں سے بھاگیں گے تو جس میں وہ وبائی مادہ سرایت کرچکا ہے وہ تو بچے گا نہیں اور جہاں یہ جائیگا وہاں کے لوگ اس سے متاثر ہوں گے اسلئے یہ حکیمانہ فیصلہ فرمایا۔
(٦) چھٹا سفر اپنے مال کی حفاظت کے لئے ہے جب کوئی شخص کسی مقام میں چوروں ڈوکوؤں کا خطرہ محسوس کرے تو وہاں سے منتقل ہوجائے، شریعت میں اس کی اجازت ہے۔
سفر کی یہ چھ قسمیں تو کسی چیز سے بچنے اور بھاگنے کی ہیں، اور جو سفر کسی طلب و جستجو کے لئے کیا جائے اس کی نو قسمیں ہے
١۔ سفر عبرت یعنی دنیا کی سیاحت اس لئے کرنا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات اور قدرت کاملہ اور اقوام سابقہ کے آثار کا مشاہدہ کرکے عبرت حاصل کرے قرآن کریم نے ایسے سفر کی ترغیب دی ہے فرمایا، اَوَلم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الَّذِیْنَ من قبلھم
٢۔ سفر حج اس کا چند شرائط کے ساتھ فرضِ اسلامی ہونا سب کو معلوم ہے۔
٣۔ سفر جہاد، اس کا فرض یا واجب یا مستحب ہونا سب کو معلوم ہے۔
٤۔ سفر معاش، جب کسی کو اپنے وطن میں ضرورت کے مطابق معاشی سامان حاصل نہ ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہاں سے سفر کرکے دوسری جگہ تلاش روزگار کرے۔
٥۔ سفر تجارت یعنی قدرضرورت سے زائد حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا یہ بھی شرعًا جائز ہے حق تعالیٰ نے فرمایا ” لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلاً من ربکم “ ابتغاء فضل سے مراد اس آیت میں تجارت ہے۔
٦۔ طلب علم کے لئے سفر، علم دین کا بقدر ضرورت فرض عین ہونا اور زائد از ضرورت کا فرض کفایہ ہونا معلوم و معروف ہے لہٰذا اس کی طلب بھی اسی درجہ میں ہے۔
٧۔ کسی مقام کو مقدس اور متبرک سمجھ کر اس کے لئے سفر کرنا، یہ بجز تین مسجدوں کے درست نہیں مسجد حرام (مکہ مکرمہ) مسجد نبوی (مدینہ طیبہ) مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) یہ قرطبی اور ابن عربی کی رائے ہے دوسرے اکابر علماء سلف و خلف نے عام مقامات متبرکہ کی طرف سفر کرنے کو بھی جائز قرار دیا ہے۔ (معارف)
٨۔ اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے لئے سفر، جس کو رباط کہا جاتا ہے احادیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے۔
٩۔ عزیزوں اور دوستوں سے ملاقات کے لئے سفر، حدیث میں اس کو بھی باعث اجر وثواب قراردیا گیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں اقرباء و احباب کی ملاقات کے لئے سفر کرنے والے کے لئے فرشتوں کی دعاء کا ذکر فرمایا گیا ہے یہ اس وقت ہے جب اس ملاقات سے اللہ کی رضا مقصود ہو، کو یئ مادی غرض نہ ہو۔ (واللہ اعلم) ۔ (قرطبی، ملخصاً )
وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قبلکَ اِلَّا رجالًا (الآیۃ) روح المعانی میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مشرکین مکہ نے اپنے قاصد مدینہ کے یہود کے پاس دریافت حال کے لئے بھیجے کہ کیا یہ بات واقعی ہے کہ پہلے بھی سب انبیاء جنس بشر سے ہوتے آئے ہیں۔
اس آیت میں ” اہل ذکر “ سے مراد اہل کتاب یہود و نصاری ہیں :
ائمہ مجتہدین کی تقلید غیر مجتہدین پر واجب ہے ؟ آیت مذکورہ کا یہ جملہ ” فَسْئلوا اَھْلَ الذکر ان کنتم لا تعلمون “ اس جگہ اگرچہ ایک خاص مضمون کے بارے میں آیا ہے، مگر الفاظ عام ہیں جو تمام معاملات کو شامل ہیں، اس لئے قرآنی اسلوب کے اعتبار سے درحقیقت یہ اہم ضابطہ ہے جو عقلی بھی کہ جو لوگ احکام نہیں جانتے وہ جاننے والوں سے پوچھ کر عمل کریں اسی کا نام تقلید ہے یہ قرآن کا واضح حکم بھی ہے اور عقلاً بھی اس کے سوا عمل کونے کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی، امت میں عہد صحابہ سے لے کر آج تک بلا اختلاف اسی ضابطہ پر عمل ہوتا آیا ہے جو تقلید کے منکر ہیں وہ بھی اس تقلید کا انکار نہیں کرتے کہ جو لوگ عالم نہیں وہ علما نہیں وہ علماء سے فتویٰ لے کر عمل کریں، اور یہ ظاہر ہے کہ ناواقف عوام کو علماء اگر قرآن و حدیث کے دلائل بتلا بھی دیں تو وہ ان دلائل کو بھی ان ہی علماء کے اعتماد پر قبول کریں گے ان میں خود دلائل کو سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت تو ہوتی نہیں اور تقلید اسی کا نام ہے کہ نہ جاننے والے کے اعتماد پر کسی حکم کو شریعت کا حکم قرار دے کر عمل کرے، یہ تقلید وہ ہے جس کے جواز بلکہ وجوب میں کسی کو اختلاف کی گنجائش نہیں البتہ وہی علماء کہ جو خود قرآن و حدیث کو اور مواقع اجماع کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کو ایسے احکام میں جو قرآن و حدیث میں صریح اور واضح طور پر مذکور ہیں، اور علماء وتابعین کے درمیان ان مسائل میں کوئی اختلاف بھی نہیں ان احکام میں وہ علماء براہ راست قرآن و حدیث اور اجماع پر عمل کریں ان میں علماء کو کسی مجتہد کی تقلید کی ضرورت نہیں لیکن وہ احکام و مسائل جو قرآن و حدیث اور اجماع پر عمل کریں ان میں علماء کو کسی مجتہد کی تقلید کی ضرورت نہیں لیکن وہ احکام و مسائل جو قرآن و حدیث میں صراحۃً مذکور نہیں یا جن میں آیات قرآن اور روایات حدیث میں اختلاف پیش آیا ہے یہ احکام و مسائل محل اجتہاد ہوتے ہیں ان کو اصطلاح میں ” مجتہد فیہ “ کہا جاتا ہے ان کا حکم یہ ہے کہ جس عالم کو درجۂ اجتہاد حاصل نہیں اس کو بھی ان مسائل میں کسی امام مجتہد کی تقلیدضروری ہے، محض اپنی ذاتی رائے کے بھروسہ پر ایک آیت یا روایت کو ترجیح دیکر اختیار کرنا اور دوسری آیت اور روایت کو مرجوح قرار دے کر چھوڑ دینا اس کے لئے جائز نہیں۔
اسی طرح جو احکام قرآن و سنت میں صراحتہ مذکور نہیں ان قرآن و سنت کے بیان کردہ اصول سے نکالنا اور ان کا حکم شرعی متعین کرنا یہ بھی ان ہی مجتہدین امت کا کام ہے جن کو عربی زبان عربی لغت اور محاورات اور طریق استعمال کا نیز قرآن و سنت سے متعلقہ تمام علوم کا معیاری علم اور معیاری علم اور روع کا اونچا مقام حاصل ہو، جیسے امام اعظم ابوحنیفہ، شافعی، مالک، احمد بن حنبل یا اوزاعی، فقیہ ابواللیث (رح) تعالیٰ وغیرہ جن میں حق تعالیٰ نے قرب زمانہ نبوت اور صحبت صحابہ اور تابعین کی برکت سے شریعت کے اصول و مقاصد سمجھنے کا خاص ذوق اور منصوص احکام سے غیر منصوص کو قیاس کرکے حکم نکالنے کا خاص سلیقہ عطا فرمایا تھا، ایسے مجتہد فیہ مسائل میں عام علماء کو بھی ائمہ مجتہدین میں سے کسی کی تقلید لازم ہے، ائمہ مجتہدین کے خلاف کوئی نئی رائے اختیار کرنا خطاء ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امت کے اکابر علماء، محدثین و فقہاء، امام غزالی، رازی، ترمذی، طحاوی، مزنی، ابن ہمام، ابن قدامہ (رح)
تعالیٰ اور اسی معیار کے لاکھوں علماء سلف و خلف باوجود علوم عربیت اور علوم شریعت کی اعلی مہارت حاصل ہونے کے اجتہادی
مسائل میں ہمیشہ ائمہ مجتہدین کی تقلید کے پابند رہے ہیں ان سب مجتہدین کے خلاف اپنی رائے سے کوئی فتوی دینا جائز نہیں۔
البتہ ان حضرات کو علم وتقویٰ کا وہ معیاری درجہ حاصل تھا کہ مجتہدین کے اقوال و آراء کو قرآن و سنت کے دلائل سے جانچنے پرکھتے پھر ائمہ مجتہدین کے مسلک سے خروج اور ان سب کے خلاف کوئی رائے قائم کرنا ہرگز جائز نہ جانتے تھے، تقلید کی اصل حقیقت اتنی ہی ہے۔
اس کے بعد علم کا معیار دن بدن گھٹیا گیا اور تقویٰ اور خدا ترسی کے بجائے اغراض نفسانی غالب آنے لگیں ایسی حالت میں اگر یہ آزادی دیدی جائے کہ جس مسئلہ میں چاہیں کسی ایک امام کا قول اختیار کرلیں اور جس میں چاہیں کسی دوسرے امام کا قول لے لیں تو اس کا لازمی اثر یہ ہوگا کہ لوگ اتباع شریعت کا نام لے کر اتناع ہویٰ میں مبتلا ہوجائیں، کہ امام کے قول میں اپنی غرض نفسانی پوری ہوتی نظر آئے اس کو اختیار کرلیں، اور یہ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا کوئی دین و شریعت کا اتباع نہیں ہوگا بلکہ اپنی اغراض و ہویٰ کا اتباع ہوگا جو جماع امت حرام ہے، علامہ شاطبی نے موافقات میں اس پر بڑی تفصیل سے کلام کیا ہے اور ابن تیمہ نے بھی عام تقلید کی مخالفت کے باوجود اس طرح کے اتباع کو اپنے فتاوی میں باجماع امت کہا ہے، اس لئے متاخرین فقہاء نے یہ ضروری سمجھا کہ عمل کرنے والوں کو کسی ایک ہی امام مجتہد کی پابند کرنا چاہیے یہیں سے تقلید شخصی کا آغاز ہوا جو درحقیقت ایک انتظامی حکم ہے جس سے دین کا انتظام قائم رہے، اور لوگ دین کی آڑ میں اتباع ہویٰ کا شکار نہ ہوجائیں، اس کی مثال بعینہٖ وہ ہے جو حضرت عثمان غنی (رض) نے با جماع صحابہ قرآن کے سبعۃ احرف (یعنی سات لغات) میں سے صرف ایک لغت کو مخصوص کردینے میں کیا، اگرچہ ساتوں لغات قرآن ہی کے لغات تھے، جبرئیل امین کے ذریعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش کئ مطابق نازل ہوئے مگر جب قرآن کریم عجم میں پھیلا اور مختلف لغات میں پڑھنے سے تحریف قرآن کا خطرہ محسوس کیا گیا تو با جماع صحابہ مسلمانوں پر لازم کردیا گیا کہ صرف ایک ہی لغت میں قرآن کریم کو لکھا اور پڑھا جائے، حضرت عثمان (رض) نے اسی ایک لغت کئ مطابق تمام مصاحف کو لکھوا کر اطراف عالم میں بھجوایا، اور آج تک پوری امت اسی کی پابند ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ دوسرے لغات حق نہیں تھے بلکہ انتظام دین اور حفاظت قرآن از تحریف کی بنا پر صرف ایک لغت کو اختیار کرلیا گیا اسی طرح ائمہ مجتہدین سب برحق ہیں ان میں سے کسی ایک کو تقلید کے لئے معین کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ امام معین کی تقلید کسی نے اختیار کی ہے اس کے نزدیک دوسرے ائمہ قابل تقلید نہیں، بلکہ اپنی صواب دید اور اپنی سہولت جس امام کی تقلید میں دیکھی اس کو اختیار کرلیا اور دوسرے ائمہ کو بھی اسی طرح قابل احترام سمجھا۔
اور یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا بیمار آدمی شہر کے حکیم اور ڈاکٹروں میں سے کسی ایک ہی کو اپنے علاج کے لئے متعین کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے کیونکہ بیمار اپنی رائے سے کبھی کسی ڈاکٹر سے پوچھ کر دوا استعمال کرے کبھی کسی دوسرے سے پوچھ کر یہ اس کی ہلاکت کا سبب ہوگا وہ جب کسی ڈاکٹر کا انتخاب اپنے علاج کے لئے کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوگز نہیں ہوتا کہ دوسرے ڈاکٹر ماہر نہیں یا ان میں علاج کی صلاحیت نہیں، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کی جو تقسیم امت میں قائم ہوئی اس کی حقیقت اس سے زائد کچھ نہ تھی، اس میں فرقہ بندی اور گروہ بندی کا رنگ اور باہمی جدال و شقاق کرکے گرم بازاری نہ کوئی دین کا کام ہے اور نہ کبھی اہل بصیرت علماء نے اسے اچھا سمجھا، بعض علماء کے کلام میں علمی بحث و تحقیق نے مناظرانہ رنگ اختیار کرلیا اور بعد میں طعن و طنز تک نوبت آگئی پھر جاہلانہ جنگ وجدال نے وہ نوبت پہنچادی جو آج عمومًا دینداری اور مذہب پسندی کا نشان بن گیا۔
تنبیہ : مسئلہ تقلید و اجتہاد پر جو یہاں لکھا گیا وہ اس مسئلہ کا بہت مختصر خلاصہ ہے مزید تحقیقات و تفصیلات اصول فقہ کی کتابوں میں مفصل موجود ہیں خصوصًا کتاب ” الموافقات “ علامہ شاطبی جلد رابع باب الاجتہاد اور علامہ سیف الدین آمدی کی کتاب ” الاحکام “ جلد ثالث القاعدۃ الثالثہ فی المجتہدین، حضرت شاہ ولی اللہ (رح) تعالیٰ کی کتابیں، حجتہ اللہ البالغہ اور رسالہّ عقد الجید اور آخر میں حضرت حکیم الامت مولانہ اشرف علی تھانوی (رح) تعالیٰ کی کتاب الا قتصاد فی التقلید والاجتہاد اس مسئلہ میں خاص طور سے قابل دید ہیں اہل علم ان کی طرف رجوع فرمائیں۔
قرآن فہمی کے لئے حدیث رسول ضروری ہے : وانزلنا۔۔۔۔ للناس، اس آیت میں ذکر سے مراد بالاتفاق قرآن ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آیت میں مامور فرمایا گیا ہے آپ قرآن کی نازل شدہ آیات کا بیان اور وضاحت لوگوں کے سامنے کردیں یہ آیت بھی متعدد دیگر آیتوں کی طرح اس باب میں نص ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیثیت محض حامل وحی یا پیغام رساں کی نہیں بلکہ شارح اور بیان کرنے والے کی بھی قرآن مجید کے حقائق و اسرار کے حل کرنے کا حق سب سے زیادہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو حاصل ہے اور رسول کا فرج جس طرح تبلیغ وحی ہے تبیین وحی بھی اس کے فرائض میں داخل ہے اور جو لوگ سنت و حدیث رسول سے بےنیازی برتتے ہیں وہ فہم قرآن سے اپنے کو محروم رکھ رہے ہیں اگر ہر انسان صرف عربی زبان و ادب سے واقف ہو کر قرآن کے احکام کو حسب منشاء خداوندی سمجھنے پر قادر ہوتا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیان و توضیح کی خدمت سپرد کرنے کے کوئی معنی نہیں رہتے۔
اَفَا۔۔۔ السّیئات الخ اس سے پہلی آیت میں کفار کو عذاب آخرت سے ڈرایا گیا تھا، ان آیات میں ان کو اس سے ڈرایا گیا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا میں بھی اللہ کے عذاب میں پکڑے جاؤ، جیسے غزوۂ بدر میں ایک ہزار بہادر مسلح نوجوانوں کو چند نے سروسامان مسلمانوں کے ہاتھوں سے ایسی سزا ملی جس کا ان کو کبھی وہم و گمان بھی نہ ہوسکتا تھا یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چلتے پھرتے کسی عذاب الہٰی میں پکڑے جاؤ کہ کوئی بیماری جان لیوا آکھڑی ہو اور عذاب کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ دفعتہً عذاب نہ آئے مگر مال، صحت اور تندرستی اور اسباب راحت و سکون گھٹتے چلے جائیں اسی طرح گھٹاتے گھتاتے اس قوم کا خاتمہ ہوجائے۔
لفظ تخوّف آیت میں بظاہر خوف سے مشتق ہے، اور بعض حضرات مفسرین نے اسی معنی کے اعتبار سے یہ تفسیر کی ہے کہ ایک جماعت کو عذاب میں پکڑاجائے تاکہ دوسرے جماعت ڈرجائے اسی طرح دوسری کو اور پھر تیسری جماعت کو پکڑا جائے یوں ڈراتے ڈراتے سب کا خاتمہ ہوجائے۔
مفسر قرآن حضرت ابن عباس اور مجاہد وغیرہ ائمہ تفسیر نے یہاں لفظ تخوف کو تَنَقُّصْ کے معنی میں لیا ہے اور اسی معنی کے
اعتبار سے ترجمہ گھٹاتے گھٹاتے کیا ہے۔ حضرت سعید بن مسیّب نے فرمایا کہ حضرت فاروق اعظم کو بھی اس لفظ کے معنی میں ترددپیش آیا تو آپ نے برسر منبر صحابہ کو خطاب کرکے فرمایا کہ لفظ تخوف کے آپ لوگ کیا معنی سمجھتے ہیں ؟ تمام مجمع خاموش رہا مگر قبیلہ ہذیل کے ایک شخص نے عرض کیا امیر المومنین یہ ہمارے قبیلہ کا خاص لفظ ہے ہمارے یہاں یہ لفظ تنقص کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی بتدریج کم کرنا، اس پر حضرت فاروق اعظم نے سوال کیا کہ کیا عرب اپنے اشعار میں یہ لفظ تنقص کے معنی مکیں استعمال کرتے ہیں اس نے عرض کیا کہ ہاں اور اپنے قبیلہ کے شاعر ابو کبیر ہذلی کا ایک شعر پیش کیا جس میں یہ لفظ بتدریج گھٹانے کے معنی میں استعمال کیا گیا تھا۔ ؎
تَخَوّفَ الرحلُ منھا تامکاً قَرِدًا کما تخوّفُ عودَ النَبْعَۃِ السَّفَنُ
ترجمہ : کجا وہ اونٹنی کے فربہ کو ہان کو بتدریج کم کردیا جیسا کہ نبعہ کی لکڑی کو رندہ بتدریج کم کردیتا ہے۔
اس پر حضرت عمر فاروق نے فرمایا، لوگو تم اشعار جاہلیت کا علم حاصل کرو کیونکہ تمہاری کتاب کی تفسیر اور تمہارے کلام کے معنی کا فیصلہ اسی سے ہوتا ہے۔
قرآن فہمی کے لئے معمولی عربی دانی کافی نہیں : اس سے ایک بات تو یہ ثابت ہوئی کہ معمولی طور پر عربی زبان بولنے، لکھنے کی قابلیت قرآن فہمی کے لئے کافی نہیں بلکہ اس میں اتنی مہارت اور واقفیت ضروری ہے جس سے قدیم عرب جاہلیت کے کلام کو پورا سمجھا جاسکے کیونکہ قرآن کریم اسی زبان اور انہی کے محاوارت میں نازل ہوا ہے اس درجہ کا عربی ادب مسلمان پر سیکھنا لازم ہے۔
وللہ۔۔۔۔ الارض، یسجد یہاں اپنے اصلی لغوی معنی میں ہے یعنی فرمانبردار جیسا کہ ہر مخلوق کو اپنے خالق اور حکیم کے روبرو ہونا چاہیے، مطلب یہ ہے کہ مخلوق چھوٹی ہو یا بڑی عالم اجساد میں جہاں کہیں بھی ہو سب کے سب عظمت الہٰی کے آگے سرنگوں ہیں
وما۔۔۔ دابّۃ، دَابۃ کے معنی یہاں جاندار کے بھی کئے گئے ہیں اور متحرک کے بھی اور پھر انقیاد کے بھی ایک سرے پر دابّہ اور دوسرے سرے پر ملائکہ کو لاکر گویا یہ بتادیا ہے کہ ادنی سے لے کر اعلی تک ہر ذی حیات زنجیر انقیاد میں یکساں جکڑا ہوا ہے۔
نیز من دابۃ کا تعلق جس طرح ارض سے ہے اسی طرح سمٰوات (اجرام فلکی) سے بھی ہے اسلئے بالکل جائز ہے کہ فرشتوں کے علاوہ متحرک و جاندار مخلوق انسان کی طرح سیاروں یا آسمانوں پر بھی ہو۔
یخافون۔۔۔۔ فوقھم، یہاں فوق سے فوقیت معنوی مراد ہے ورنہ جہت فوق سے تو خوف پیدا ہونے کی کوئی صورت نہیں، اور نہ خدا کے شایان شان۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ ان اہل ایمان کی فضیلت سے آگاہ کرتا ہے جن کو امتحان میں ڈالا گیا تھا۔ چنانچہ فرمایا﴿وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللّٰـهِ﴾ ” جنہوں نے اللہ کی رضا کی خاطر )اللہ تعالیٰ کی راہ میں( ہجرت کی“ ﴿مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ﴾ ” بعداس کے کہ ان پر ظلم کیا گیا“ یعنی ان کی قوم کی طرف سے اذیت اور تعذیب کے ذریعے سے ان پر ظلم کیا گیا، کفر اور شرک کی طرف واپس لانے کے لئے ان کو آزمائش اور ابتلاء میں ڈالا گیا۔ پس انہوں نے اپنے وطن اور دوست احباب کو اللہ رحمٰن کی اطاعت کی خاطر چھوڑ دیا۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ثواب کی دو اقسام بیان کی ہیں :
)1( دنیاوی ثواب : یعنی کشادہ رزق اور خوشحال زندگی اس ثواب کا انہوں نے ہجرت کے بعد اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ انہوں نے اپنے دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت حاصل کی، ان کے شہر فتح کئے، انہیں غنیمت میں بہت سامال ہاتھ آیا جس سے وہ مال دار ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس دنیا ہی میں بھلائی سے نواز دیا۔
)2( اخروی ثواب : ﴿ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ﴾ ” اور آخرت کا اجر“ یعنی وہ ثواب جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبان پر کیا ہے﴿أَكْبَرُ ۚ﴾ ”(دنیا کے ثواب سے )بہت بڑا ہے۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللّٰـهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللّٰـهِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ إِنَّ اللّٰـهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴾(التوبة:9؍20۔22) ’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کیا، ان کے لئے اللہ کے ہاں سب سے بڑا درجہ ہے اور یہی لوگ کامیاب ہیں ان کا رب انہیں اپنی رحمت، خوشنودی اور ایسی جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لئے ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں ان جنتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔“ ﴿لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾ ” کاش وہ جانتے“ یعنی کاش انہیں اس اجر و ثواب کا علم اور یقین ہوتا جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لائے اور اس کی راہ میں ہجرت کی اور ہجرت کرنے سے کوئی بھی پیچھے نہ رہا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jinn logon ney doosron kay zulm sehnay kay baad Allah ki khatir apna watan chorra hai , yaqeen rakho kay unhen hum duniya mein bhi achi tarah basayen gay , aur aakhirat ka ajar to yaqeenan sabb say bara hai . kaash kay yeh log jaan letay !
12 Tafsir Ibn Kathir
دین کی پاسبانی میں ہجرت
جو لوگ اللہ کی راہ میں ترک وطن کر کے، دوست، احباب، رشتے دار، کنبے تجارت کو اللہ کے نام پر ترک کر کے دین ربانی کی پاسبانی میں ہجرت کر جاتے ہیں ان کے اجر بیان ہو رہے ہیں کہ دونوں جہان میں یہ اللہ کے ہاں معزز و محترم ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ سبب نزول اس کا مہاجرین حبش ہوں جو مکہ میں مشرکین کی سخت ایذائیں سہنے کے بعد ہجرت کر کے حبش چلے گئے کہ آزادی سے دین حق پر عامل رہیں۔ ان کے بہترین لوگ یہ تھے حضرت عثمان بن عفان (رض) آپ کے ساتھ آپ کی بیوی صاحبہ حضرت رقیہ (رض) بھی تھیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی تھیں اور حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد بھائی تھے اور حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد (رض) وغیرہ۔ قریب قریب اسی آدمی تھے مرد بھی عورتیں بھی جو سب صدیق اور صدیقہ تھے اللہ ان سب سے خوش ہو اور انہیں بھی خوش رکھے۔ پس اللہ تعالیٰ ایسے سچے لوگوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ انہیں وہ اچھی جگہ عنایت فرمائے گا۔ جیسے مدینہ اور پاک روزی، مال کا بھی بدلہ ملا اور وطن کا بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے خوف سے جیسی چیز کو چھوڑے اللہ تعالیٰ اسی جیسی بلکہ اس سے کہیں بہتر، پاک اور حلال چیز اسے عطا فرماتا ہے۔ ان غریب الوطن مہاجرین کو دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حاکم و بادشاہ کردیا اور دنیا پر ان کو سلطنت عطا کی۔ ابھی آخرت کا اجر وثواب باقی ہے۔ پس ہجرت سے جان چرانے والے مہاجرین کے ثواب سے واقف ہوتے تو ہجرت میں سبقت کرتے۔ اللہ تعالیٰ حضرت فاروق اعظم (رض) سے خوش ہو کہ آپ جب کبھی کسی مہاجر کو اس کا حصہ غنیمت وغیرہ دیتے تو فرماتے لو اللہ تمہیں برکت دے یہ تو دنیا کا اللہ کا وعدہ ہے اور ابھی اجر آخرت جو بہت عظیم الشان ہے، باقی ہے۔ پھر اسی آیت مبارک کی تلاوت کرتے۔ ان پاکباز لوگوں کا اور وصف بیان فرماتا ہے کہ جو تکلیفیں اللہ کی راہ میں انہیں پہنچتی ہیں یہ انہیں جھیل لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر جو انہیں توکل ہے، اس میں کبھی فرق نہیں آتا، اسی لئے دونوں جہان کی بھلائیاں یہ لوگ اپنے دونوں ہاتھوں سے سمیٹ لیتے ہیں۔