الاسراء آية ۱
سُبْحٰنَ الَّذِىْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَـرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِىْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۗ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ
طاہر القادری:
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے،
English Sahih:
Exalted is He who took His Servant [i.e., Prophet Muhammad] by night from al-Masjid al-Haram to al-Masjid al-Aqsa, whose surroundings We have blessed, to show him of Our signs. Indeed, He is the Hearing, the Seeing.
1 Abul A'ala Maududi
پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا
2 Ahmed Raza Khan
پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو، راتوں رات لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے،
3 Ahmed Ali
وہ پاک ہے جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجدحرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں بے شک وہ سننے والا دیکھنے ولا ہے
4 Ahsanul Bayan
پاک ہے (١) وہ اللہ تعالٰی جو اپنے بندے (٢) کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ(٣) تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے (٤) رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں (٥) یقیناً اللہ تعالٰی خوب سننے دیکھنے والا ہے۔
١۔ ١ سُبْحَا نَ عام طور پر اس کا استعمال ایسے موقع پر ہوتا ہے جب کسی عظیم الشان واقعے کا ذکر ہو۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک ظاہری اسباب کے اعتبار سے یہ واقعہ کتنا محال ہو، اللہ کے لئے مشکل نہیں، اس لئے کہ وہ اسباب کا پابند نہیں، وہ لفظ کُنْ سے پلک جھپکنے میں جو چاہے کر سکتا ہے۔ اسباب تو انسانوں کے لئے ہیں۔ اللہ تعالٰی ان پابندیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔
١۔٢ اِسْرَآء کے معنی ہوتے ہیں، رات کو لے جانا۔ آگے لَیْلًا اس لیے ذکر کیا گیا تاکہ رات کی قلت واضح ہو جائے۔ یعنی رات ایک حصے یا تھوڑے سے حصے میں۔ یعنی چالیس راتوں کا دور دراز کا سفر، پوری رات میں بھی نہیں بلکہ رات کے ایک قلیل حصے میں طے ہوا۔
١۔٣ اقصیٰ دور کو کہتے ہیں بیت المقدس، جو القدس یا ایلیاء (قدیم نام) شہر میں اور فلسطین میں واقع ہے، مکے سے القدس تک مسافت (٤٠) دن کی ہے، اس اعتبار سے مسجد حرام کے مقابلے میں بیت المقدس کو مسجد اقصٰی (دور کی مسجد) کہا گیا ہے۔
١۔٤ یہ علاقہ قدرتی نہروں اور پھلوں کی کثرت اور انبیاء کا مسکن و مدفن ہونے کے لحاظ سے ممتاز ہے، اس لئے اسے بابرکت قرار دیا گیا ہے۔
١۔٥ یہ اس سیر کا مقصد ہے تاکہ ہم اپنے بندے کو عجائبات اور آیات کبریٰ دکھائیں۔ جن میں سے ایک آیت اور معجزہ یہ سفر بھی ہے کہ اتنا لمبا سفر رات کے ایک قلیل حصے میں ہو گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معراج ہوئی یعنی آسمانوں پر لے جایا گیا، وہاں مختلف آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتیں ہوئیں اور سدرۃ المنتہٰی پر، جو عرش سے نیچے ساتویں آسمان پر ہے، اللہ تعالٰی نے وحی کے ذریعے سے نماز اور دیگر بعض چیزیں عطا کیں۔ جس کی تفصیلات صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہیں اور صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک امت کے اکثر علماء فقہاء اس بات کے قائل چلے آرہے ہیں کہ یہ معراج حالت بیداری میں ہوئی ہے۔ یہ خواب یا روحانی سیر اور مشاہدہ نہیں ہے، بلکہ عینی مشاہدہ ہے جو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اپنے پیغمبر کو کرایا ہے۔ اس معراج کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ اسراء کہلاتا ہے، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اور جو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کا نام ہے، یہاں پہنچنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ بیت المقدس سے پھر آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا، یہ سفر کا دوسرا حصہ ہے جسے معراج کہا جاتا ہے۔ اس کا تذکرہ سورہ نجم میں کیا گیا ہے اور باقی تفصیلات احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ عام طور پر اس پورے سفر کو ' معراج ' سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔ معراج سیڑھی کو کہتے ہیں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ عُرِجَ بِیْ اِلَی السّمَاءِ (مجھے آسمان پر لے جایا یا چڑھایا گیا) سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ اس سفر کا یہ دوسرا حصہ پہلے سے بھی زیادہ اہم اور عظیم الشان ہے، اس لئے معراج کا لفظ ہی زیادہ مشہور ہو گیا۔ اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ تاہم اس میں اتفاق ہے کہ یہ ہجرت سے قبل کا واقعہ ہے۔ بعض کہتے ہیں ایک سال قبل اور بعض کہتے ہیں کئی سال قبل یہ واقعہ پیش آیا۔ اسی طرح مہینے اور اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ کوئی ربیع الاول کی ١٧ یا ٢٧، کوئی رجب کی ٢٧ اور بعض کوئی اور مہینہ اس کی تاریخ بتلاتے ہیں۔ (فتح القدیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام یعنی (خانہٴ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
پاک ہے وہ (خدا) جو اپنے بندہ (خاص) کو رات کے ایک حصہ میں مسجد الحرام سے اس مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم انہیں اپنی (قدرت کی) کچھ نشانیاں دکھائیں بے شک وہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک لے گیا جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں بیشک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجد اقصی (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیات نمبر 1 تا 10
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لیلاً ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہے، اور اسراء رات کے سفر کو کہتے ہیں، اور لَیْل کو ذکر کرنے کا فائدہ لیل کی تنکیر سے مدت سیر کی قلت کی طرف اشارہ ہے مسجد حرام یعنی مکہ سے مسجد اقصیٰ (یعنی) بیت المقدس تک (بیت المقدس کا نام مسجد اقصی) اس کے مسجد حرام سے دور ہونے کی وجہ سے ہے جس کے اطراف میں ہم نے پھلوں اور نہروں کے ذریعہ برکت رکھی ہے تاکہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی قدرت کے عجائبات دکھائیں بلاشبہ وہ سننے والا دیکھنے والا ہے یعنی وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال و افعال سے واقف ہے، تو اللہ نے آپ پر سفر شب کا انعام فرمایا جو انبیاء کی ملاقات اور آسمان پر آپ کے تشریف لیجانے اور عالم بالا کے عجائبات کو دیکھنے اور آپ کے اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے پر مشتمل تھا، خلاصہ یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے پاس ایک سفید جانور لایا گیا جو حمار سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا، وہ اپنا قدم اپنے منتہائے نظر پر رکھتا تھا، چناچہ میں اس پر سوار ہوا تو وہ مجھے لے کر روانہ ہوا، یہاں تک کہ میں بہت المقدس پہنچ گیا اور میں نے اس جانور کو اس حلقہ سے باندھ دیا جس سے انبیاء اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے، پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا اور میں نے اس میں دو رکعت نماز پڑھی، پھر میں باہر آیا تو جبرائیل میرے پاس دو برتن لے کر آئے ایک میں شراب تھی اور دوسرے میں دودھ، میں نے دودھ پسند کیا، جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا آپ نے فطرت کو اختیار کیا، آپ نے فرمایا پھر مجھے آسمان دنیا (قریبی آسمان) کی طرف لے کر روانہ ہوئے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے دستک دی، ان سے معلوم کیا گیا کہ آپ کون ہیں ؟ تو جواب دیا میں جبرائیل ہوں (پھر) سوال کیا گیا آپ کے ساتھ کون صاحب ہیں ؟ فرمایا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں پھر معلوم کیا گیا کیا وہ مدعو ہیں ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا ہاں مدعو ہیں اس کے بعد ہمارے لئے دروازہ کھول دیا تو دفعۃ ہماری ملاقات (حضرت) آدم (علیہ السلام) سے ہوئی تو حضرت آدم نے مجھے مرحبا کہا اور مجھے دعاء خیر دی، پھر (جبرائیل) مجھے دوسرے آسمان کی طرف لے کر چلے چناچہ جبرائیل (علیہ السلام) نے دستک دی آپ سے سوال کیا گیا آپ کون ہیں ؟ جواب دیا جبرائیل ہوں، سوال کیا گیا آپ کے ساتھ کون صاحب ہیں ؟ فرمایا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں معلوم کیا گیا کیا ان کو بلایا گیا ہے ؟ جواب دیا ہاں بلایا گیا ہے، چناچہ ہمارے لئے دروازہ کھولدیا، تو میں اچانک یحییٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) دو خالہ زاد بھائیوں کے پاس تھا، دونوں نے مجھے مرحبا کہا اور دعاء خیر دی، پھر جبرائیل مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے کر روانہ ہوئے تو جبرائیل نے دستک دی سوال کیا گیا آپ کون ہیں ؟ جواب دیا جبرائیل ہوں سوال کیا گیا کیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ جواب دیا ہاں بلائے گئے ہیں تو ہمارے لئے دروازہ کھولدیا گیا تو اچانک ہماری ملاقات یوسف (علیہ السلام) سے ہوئی (دیکھا تو) معلوم ہوا کہ انھیں (مجموعی حسن کا) نصف حصہ دیا گیا ہے، تو انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور مجھے دعاء خیر دی پھر (جبرائیل) مجھے چوتھے آسمان کی طرف لے کر چلے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے دستک دی سوال کیا گیا کہ آپ کون ہیں ؟ جواب دیا جبرائیل ہوں سوال کیا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ کہا میرے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں معلوم کیا وہ مدعو ہیں ؟ جواب دیا (جی ہاں) مدعو ہیں تو ہمارے لئے دروازہ کھولدیا تو اچانک ہماری ملاقات ادریس (علیہ السلام) سے ہوگئی تو انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور دعاء خیر دی، اس کے بعد ہم کو پانچویں آسمان کی طرف لے کر چلے تو جبرائیل نے دستک دی، سوال کیا گیا آپ کون ہیں ؟ جواب دیا جبرائیل ہوں پھر سوال کیا گیا تمہارے ساتھ کون ہیں ؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں پوچھا گیا کیا ان کو بلایا گیا ہے ؟ جواب دیا ہاں بلایا گیا ہے تو ہمارے لئے دروازہ کھولدیا تو اچانک ہماری ملاقات ہارون (علیہ السلام) سے ہوگئی تو انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعاء خیر دی پھر ہم کو چھٹے آسمان کی طرف لے کر چلے (وہاں پہنچ کر) جبرائیل نے دستک دی، سوال کیا گیا تم کون ہو ؟ جواب دیا میں جبرائیل ہوں پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں سوال کیا گیا ان کو بلایا گیا ہے ؟ جواب دیا ہاں بلایا گیا ہے تو ہمارے لئے (دروازہ) کھول دیا، تو اچانک ہماری ملاقات موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوئی تو انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور مجھے دعاء خیر دی، پھر ہم کو ساتویں آسمان کی طرف لے کر چلے (دروازہ پر) جبرائیل نے دستک دی سوال ہوا آپ کون ہیں ؟ جواب دیا میں جبرائیل ہوں، سوال کیا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں سوال ہوا کیا ان کو بلایا گیا ہے ؟ جواب دیا (ہاں) بلایا گیا ہے تو ہمارے لئے دروازہ کھولا، تو اچانک (حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تو وہ بیت معمور سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، اور اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اس کے بعد دوبارہ ان کا نمبر نہیں آتا، پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے گئے (تو دیکھا) کہ اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر ہیں اور اس کے پھل ٹھلیوں کے برابر ہیں، جب اس درخت کو اللہ کے حکم سے ڈھانپ لیا جس چیز (نور) نے ڈھانپ لیا تو اس درخت کی حالت ایسی بدل گئی کہ اللہ کی کوئی مخلوق اس کے حسن کی تعریف نہیں کرسکتی، نبی (علیہ السلام) نے فرمایا اس کے بعد اللہ نے میری جانب جو چاہی وحی بھیجی اور میرے اوپر پچاس وقت کی نماز فرض فرمائی، چناچہ جب میں نیچے اترا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے مجھ سے دریافت فرمایا آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض فرمایا ؟ میں نے کہا یومیہ پچاس نمازیں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا واپس جاؤ اور اللہ سے تخفیف کا سوال کرو اسلئے کہ آپ کی امت اس کی متحمل نہ ہوگی اور میں بنی اسرائیل کو خوب جانچ پرکھ چکا ہوں، نبی (علیہ السلام) نے فرمایا، کہ میں اپنے پروردگار کے پاس واپس گیا تو عرض کیا اے میرے پروردگار میری امت کیلئے تخفیف فرما دے تو مجھ سے پانچ نمازیں کم کردیں اس کے بعد پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچا تو انہوں نے دریافت فرمایا آپ نے کیا کیا ؟ میں نے عرض کیا کہ مجھ سے پانچ نمازیں کم کردی گئیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا آپ کی امت اس کی بھی متحمل نہ ہوگی اپنے رب کے پاس واپس جاؤ اور اپنی امت کے لئے تخفیف کا سوال کرو، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اپنے رب اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان مسلسل چکر لگاتا رہا اور اللہ تعالیٰ مجھ سے ہر بار پانچ پانچ نمازیں کم کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات اور دن میں یہ پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز کے عوض دس نمازوں (کا ثواب) ہے اس طرح یہ کل پچاس نمازیں ہوئیں اور جس شخص نے کسی نیکی کا ارادہ کیا اور ہنوز عمل نہیں کیا تو میں اس کیلئے ایک نیکی لکھ دیتا ہوں اور اگر اس نے عمل کرلیا تو میں اس کیلئے دس نیکیاں لکھ دیتا ہوں اور جو شخص کسی بدی کا ارادہ کرتا ہے اور ہنوز اس کو عملی جامہ نہیں پہناتا تو میں اس کو نہیں لکھتا، اور اگر وہ اسے کرلیتا ہے تو میں ایک بدی لکھتا ہوں، اس کے بعد میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچا اور میں نے ان کو صورت حال کی اطلاع دی تو (پھر) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اپنے رب کے پاس جاؤ اور اپنی امت کیلئے تخفیف کا سوال کرو، اسلئے کہ آپ کی امت اس کی (بھی) متحمل نہ ہوگی، تو آپ نے فرمایا میں بار بار اپنے رب کے حضور حاضر ہوا یہاں تک کہ مجھے شرم آنے لگی، (رواہ الشیخان، اور الفاظ مسلم کے ہیں) اور حاکم نے مستدرک میں ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب تورات عطا کی اور ہم نے اسے نبی اسرائیل کیلئے رہنما بنایا کہ میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا کہ اس کو اپنے معاملات سونپ دو ، اور ایک قراءت میں (تتخذوا) بطور التفات تاء فو قانیہ کے ساتھ ہے، أن زائدہ اور (لفظ) قول مضمر ہے اے ان لوگوں کی اولاد و کہ جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا وہ ہمارا بڑا شکر گذار بندہ تھا یعنی ہمارا بہت زیادہ شکر کرنے والا، اور ہرحال میں تعریف کرنے والا، اور ہم نے بنی اسرائیل سے وحی کے ذریعہ تورات میں صاف کہہ دیا تھا کہ تم ملک شام میں معاصی کے ذریعہ دو مرتبہ فساد برپا کرو گے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے یعنی بڑا ظلم کرو گے، اور جب ان دونوں موقعوں میں سے یعنی فساد کے دو موقعوں میں سے پہلا موقع آیا تو ہم نے تمہاری سرکوبی کیلئے اپنے ایسے بندے بھیج دئیے جو بڑی شدید قوت والے تھے (یعنی) حرب واخذ میں بڑے زور آور تھے تو وہ تمہاری تلاش میں (تمہارے) گھروں میں گھس گئے تاکہ وہ تم کو قتل و قید کریں، اور (اللہ کا یہ) وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا، اور ان لوگوں نے پہلا فساد (حضرت) زکریا (علیہ السلام) کو قتل کرکے برپا کیا تو اللہ نے ان کے اوپر جالوت اور اس کے لشکر کو بھیج دیا (جس نے) ان کو قتل کیا اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لیا اور بیت المقدس کو ویران کردیا، پھر ہم نے تمہارا جالوت کے قتل کے سو سال بعد ان پر دبدبہ اور غلبہ لوٹا دیا، یعنی (تمہارے دن پھیر دئیے) اور مال و اولاد سے تمہاری مدد کی اور ہم نے تم کو بڑے جتھے والا بنادیا اور ہم نے کہا اگر تم نے طاعت کے ذریعہ اچھے کام کئے تو اپنے فائدہ کیلئے اس لئے کہ ان کا اجر تم ہی کو ملے گا، اور اگر فساد کے ذریعہ تم نے برے اعمال کئے تو ان کی سزا بھی تمہارے لئے ہوگی، اور جب (فساد کا) دوسرا موقع آیا تو (پھر) ہم نے ان کو بھیج دیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں، یعنی وہ تم کو قتل و قید کے ذریعہ اتنا رنج دیں کہ جس کا اثر تمہارے چہروں پر ظاہر ہوجائے اور تاکہ وہ مسجد یعنی بیت المقدس میں داخل ہوجائیں اور اس کو ویران کردیں، یا جس طرح وہ پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور بیت المقدس کو ویران کردیا تھا، اور تاکہ وہ پوری طرح تہس نہس کردیں جس پر انہوں نے غلبہ حاصل کیا ہے اور انہوں نے (حضرت) یحییٰ (علیہ السلام) کو قتل کرکے دوسری مرتبہ فساد برپا کیا تو اللہ نے ان پر بخت نصر کو بھیج دیا تو اس نے ان میں سے ہزاروں کو قتل کردیا اور ان کی اولاد کو قید کرلیا اور بیت المقدس کو ویران کردیا، اور ہم نے کتاب (توراۃ) میں کہا دوسری مرتبہ کے بعد (بھی) اگر تم نے توبہ کرلی تو امید ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے گا اور اگر تم نے پھر فساد برپا کیا تو ہم پھر سزادیں گے چناچہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرکے پھر فساد برپا کیا تو اللہ نے ان پر قریظہ کو قتل کرکے اور بنو نضیر کو جلاوطن کرکے اور ان پر جزیہ عائد کرکے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان پر مسلط کردیا، اور جہنم کو ہم نے کافروں کے لئے قید کانہ بنادیا بلاشبہ یہ قرآن راہ راست یعنی درمیانی اور ٹھیک راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیک عمل کرنے والے مومنوں کو اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کیلئے بڑا اجر ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے انھیں اس بات کی خبر دیتا ہے کہ ہم نے ان کیلئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے اور وہ آگ ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : سُبْحانَ ، یہ فعل محذوف کا مصدر ہے ای سَبّحتُ اللہ سبحانًا۔
قولہ : لیلاً نصبٌ علی الظرفیۃ، یعنی لَیْلاً ، اسریٰ کا ظرف زمان ہے نہ کہ مفعول اسلئے کہ اسراء اور سَرا دونوں لازم ہیں۔
سوال : اسریٰ ، سیر فی اللیل کو کہتے ہیں پھر لیلاً کو ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
جواب : یہ ہے کہ سیر فی اللیل اگرچہ اسریٰ میں داخل ہے مگر لیلاً کو نکرہ ذکر کرکے قلیل مدت کی طرف اشارہ ہے اور لیلاً کی تنوین یہاں قلت کے لئے ہے۔
قولہ : لِیُعدہٖ منہ، یہ مسجد اقصیٰ کی وجہ تسمیہ کی طرف اشارہ ہے اسلئے کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے درمیان ایک ماہ کی مسافت ہے یا اس لئے کہ اس وقت مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے درمیان کوئی مسجد نہیں تھی اسی وجہ سے اس کا مسجد اقصیٰ نام رکھا گیا۔
قولہ : کالقلال، قِلال، قُلَّۃ کی جمع ہے بمعنی مٹکا، ٹھلیا۔
قولہ : لاتتخذوا، أن مصدریہ ہے اور لام تعلیل مقدر ہے جسے شارح (رح) تعالیٰ نے ظاہر کردیا ہے لاتتخذوا حذف نون کے ساتھ منصوب ہے اور لانافیہ ہے اور یہ ترکیب یاء تحتانیہ کی صورت میں ہے اور تاء فوقانیہ کی صورت میں حذف نون کے ساتھ مجزوم ہوگا اور لا، ناہیہ ہوگا اور أن زائدہ ہوگا۔
قولہ : القول مضمر، ای مقولاً لھم لا تتخذوا، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ أن کا مفسرہ ہونا راجح ہے اسلئے کہ اٰتَیْنَا، قلنا کے معنی میں ہے جو کہ أن مفسرہ کیلئے شرط ہے۔
قولہ : نفیرًا یہ نَفرٌ کی جمع ہے، بمعنی خاندان، جمعیۃ۔ قولہ : وَاِنْ اَسَأتم فَلَھا۔
سوال : نقصان کے لئے صلہ میں علی استعمال ہوتا ہے حالانکہ یہاں لام استعمال ہوا ہے جو کہ نفع کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
جواب : یہ ازواج یعنی مقابلہ کے طور پر علی کی جگہ لام استعمال ہوا ہے۔
تفسیر و تشریح
واقعہ اسراء و معراج کی تاریخ : واقعہ معراج کی تاریخ میں روایات بہت مختلف ہیں بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت مدینہ سے چھ ماہ قبل پیش آیا بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ معراج آپ کی بعثت کے سات سال بعد پیش آیا اسلئے کہ حضرت خدیجہ کی وفات نماز کی فرضیت سے قبل ہوئی ہے اور حضرت خدیجہ کی وفات بعثت کے ساتویں سال ہے تمام روایات سے یہ تو بالاتفاق معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ معراج ہجرت سے پہلے پیش آیا حربی کہتے ہیں کہ واقعہ اسراء و معراج ربیع الثانی کی ستائیسویں شب میں ہجرت سے پہلے پیش آیا ہے اور عام طور پر مشہور یہ ہے کہ ماہ رجب کی ستائیسویں شب میں پیش آیا۔
واقعہ معراج : یہ سورة بنی اسرائیل شروع ہوئی اور یہیں سے پندرھواں پارہ شروع ہوتا ہے اس کی پہلی آیت میں واقعۂ اسراء کا غیر معمولی انداز میں ذکر فرمایا گیا ہے، عرف عام میں اسی واقعہ کو معراج کہا جاتا ہے، معراج کا واقعہ آپ حضرات نے کتابوں میں پڑھا ہوگا اور سنا ہوگا، قرآن مجید میں اس کا ذکر بہت اجمال کے ساتھ آیا ہے، ہاں حدیثوں میں واقعہ کی پوری تفصیل بیان کی گئی ہے، اکثر روایات کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے قریباً ایک سال پہلے مکہ معظمہ میں پیش آیا تھا، معراج کی حقیقت اور نوعیت کو یوں سمجھنا آپ حضرات کیلئے کچھ آسان ہوگا کہ جس طرح اللہ کے حکم سے فرشتے آسمان سے زمین پر آتے ہیں اور یہاں سے آسمانوں پر چلے جاتے ہیں اور ایک لمحہ میں مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق پہنچ سکتے ہیں، اسی طرح ایک رات میں بلکہ رات کے بھی بہت تھوڑے سے حصے میں بس چند لمحات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص قدرت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے مکہ معظمہ سے بیت المقدس تک اور پھر وہاں سے آسمانوں سے بھی اوپر سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچایا اور اپنی قدرت کی خاص نشانیوں اور بہت سی غیبی حقیقتوں کا مشاہدہ کرایا اور یہ مشاہدہ کرانا ہی اس سفر معراج کا خاص مقصد تھا، اسی آیت میں فرمایا گیا ہے ” لِنُرِیَہٗ مِنْ آیتِنَا “ یعنی ہم نے یہ سفر اسی لئے کرایا کہ اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے عجائبات قدرت کا مشاہدہ اور نظارہ کرائیں۔
اس سفر کے دو حصے ہیں ایک مکہ مکرمہ کی مسجد حرام سے فلسطین کی مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس تک، اور دوسرا حصہ سفر کا ہے وہاں سے آسمانوں اور ان کے بھی اوپر سدرۃ المنتھیٰ تک، عرف عام میں اس پورے سفر کو معراج کہا جاتا ہے، اور اہل علم کی خاص اصطلاح میں پہلے حصہ کو ” اِسراء “ اور دوسرے کو معراج سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہاں سورة بنی اسرائیل کی اس پہلی آیت میں صرف پہلے حصہ کا ذکر ہے یعنی مسجد حرام سے بیت المقدس تک کے آپ کے سفر کا ذکر ہے، اور چونکہ یہ سفر ایسا تھا کہ عام عقلیں اس کو سمجھ نہیں سکتیں اور باور نہیں کرسکتیں کہ رات کے ذرا سے حصہ میں مکہ سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر ہوگیا، اس لئے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کی بےانتہا قدرت کی طرف اشارہ کرکے یہ صراحت کردی گئی کہ یہ محیر العقول سفر خود محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل نہیں تھا بلکہ اس خداوند قدوس کا فعل تھا جس کی قدرت کی کوئی حدو انتہا نہیں ہے اور جو ” فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْد “ ہے، آیت کے سب سے پہلے لفظ ” سُبْحَانَ الَّذِیْ “ سے اسی طرف اشارہ کیا گیا۔
اگر کہا جاتا کہ یہ سفر خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا جو اپنی ذات سے ایک بشر اور پیغمبر تھے تو شک و شبہ کی گنجائش تھی کہ ایک انسان اور آدم زاد کیلئے بظاہر یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ چند لمحوں میں حرم مکہ سے بیت المقدس تک اور وہاں سے آسمانوں کے بھی اوپر سدرۃ المنتہیٰ تک جائے اور واپس آجائے، لیکن اس آیت میں اس سفر معراج کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فعل بتلایا گیا ہے، ارشاد فرمایا گیا ہے ” سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرَیٰ بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ “ (یعنی وہ خداوند قدوس ہر نقص اور کمزوری سے پاک ہے جو اپنے خاص بندے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات کے ایک حصہ میں مکہ کی مسجد حرام سے اس مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک لے گیا جس کے آس پاس اور ماحول کو ہم نے اپنی خاص برکتوں سے مالا مال کیا ہے) قرآن مجید نے اس آیت میں اسراء اور معراج کو اللہ تعالیٰ کا فعل بتلا کر منکرین اور مخالفین کے تمام اعتراضات اور شکوک و شبہات کا جواب دے دیا اور ہم مسلمانوں کو بھی اس مشرکانہ گمراہی سے بچا دیا جس میں عیسائی مبتلا ہوئے، انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو ان کا ذاتی فعل اور ان کا تصرف سمجھا اور ان کو خدائی اور خداوندی صفات میں شریک مان لیا، اگر وہ حضرت مسیح کے ان معجزات کو خدا کا فعل اور خداوندی تصرف سمجھتے تو اس شرک میں مبتلا نہ ہوتے۔
ظاہری اور باطنی برکتوں کی سرزمین : اس آیت میں مسجد اقصیٰ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اس کے ماحول اور اطراف کو برکتوں سے نوازا ہے، مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس جس سرزمین اور جس علاقہ میں واقع ہے اس کی سب سے بڑی برکت اور عظمت تو یہ ہے کہ وہ انبیاء بنی اسرائیل کے قریباً پورے سلسلہ کا مرکز دعوت و ہدایت اور ان کا قبلہ رہا ہے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنے جلیل القدر انبیاء و رسل اس میں مدفون ہیں، اس کے علاوہ یہ علاقہ دنیوی اور مادی برکتوں اور نعمتوں سے مالا مال ہے، بہترین آب و ہوا ہے، پھلوں کی پیداوار کے لحاظ سے تو گویا جنت کا ایک خطہ ہے، الغرض بیت المقدس کا یہ علاقہ دینی اور دنیوی، روحانی اور مادی ہر قسم کی برکتوں سے مالا مال ہے، ” بَارَکْنَا حَوْلَہٗ “ میں غالباً ان ہی سب برکتوں کی طرف اشارہ ہے۔ (واللہ اعلم) ۔
مقصدِ سفر : آگے اس سفر معراج کا مقصد اور اس کی غرض وغایت بیان فرمائی گئی ہے، ارشاد ہے ” لِنُرِیَہٗ مِنْ آیتِنَا “ یعنی ہم نے اپنے اس بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ سفر اس لئے کرایا کہ اپنی قدرت کی کچھ خ اس نشانیاں اس کو کھلا دیں اور بعض ان حقائق کا مشاہدہ کرا دیں جو اس دنیا کے دائرہ سے باہر پردۂ غیب میں ہیں، آگے ارشاد فرمایا گیا ہے ” اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْر “ یعنی وہ اللہ اپنی ذات سے سمیع وبصیر ہے سارا عالم غیب و شہادت ہر وقت اس کی نگاہ میں ہے، کائنات کا کوئی ذرہ اس سے مخفی نہیں ہے، اور وہ عالم غیب و شہادت کی ہر آواز سنتا ہے اور یہ سننا اور دیکھنا اس کی ذاتی صفت ہے (اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْر) پھر یہ بھی اس کے اختیار میں ہے کہ اپنے جس بندہ کو اور جس مخلوق کو جو چاہے دکھلا دے اور جو آواز چاہے سنوا دے، اور جس بندے اور مخلوق کو وہ اپنی قدرت سے عالم غیب و شہادت کی کچھ چیزیں دکھلا دے یا سنوا دے تو وہ ہرگز اس کے برابر اور اس صفت میں اس کا شریک نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ تو اپنی ذات سے سمیع وبصیر ہے اور یہ اس کی ذاتی اور قدیم ازلی صفت ہے ” اِنَّہٗ ھُو السَّمِیْعُ الْبَصِیْر “۔ یہاں تک سورت کی پہلی آیت کی تشریح ہوئی اور اسراء کا بیان اسی پر ختم ہوگیا، آگے دوسرا مضمون شروع ہے جس کا خاص تعلق بنی اسرائیل سے ہے۔
کچھ سوالات کچھ بحثیں : اسراء اور معراج سے متعلق کچھ مشہور سوالات اور اشکالات ہیں اور کچھ بحثیں ہیں جن کے بارے میں کتابوں میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، ایک اہم سوال اور بحث تو یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسراء اور معراج کا یہ سفر خواب تھا یا عالم بیداری کا واقعہ ؟
اسی طرح کا دوسرا سوال اور دوسری بحث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سفر صرف آپ کی روح کو کرایا تھا یا آپ کا یہ سفر جسم عنصری کے ساتھ ہوا تھا، مختصر لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ معراج روحانی تھی یا جسمانی ؟
صحابۂ کرام اور تابعین سے لے کر اس وقت تک امت کی غالب اکثریت بلکہ کہنا چاہیے کہ جمہور امت اس کے قائل ہیں کہ معراج خواب کی بات نہیں بلکہ عالم بیداری کا واقعہ ہے اور وہ صرف روحانی نہیں بلکہ جسم عنصری کے ساتھ ہوئی، حدیث کی عام روایات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے اور قرآن مجید کے الفاظ اور خاص اندازِ بیان سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے۔
اس آیت میں اسراء اور معراج کے اس واقعہ کو ” أَسْریٰ بِعَبْدِہٖ “ کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے خواب یا صرف روحانی سیر کی تعبیر ان الفاظ سے کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتی، اس کے علاوہ مضمون کو ” سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرَیٰ “ کے الفاظ سے شروع کیا گیا ہے جس سے صاف معلوم ہوا کہ کسی بہت ہی غیر معمولی قسم کے اور محیر العقول واقعہ کا ذکر کیا جا رہا ہے، ھالان کہ ایسے خواب تو ہم آپ بھی دیکھ سکتے ہیں اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں، اور جس کو روحانی سیر کہا جاتا ہے وہ بھی خواب سے ملتی جلتی ایک کیفیت ہوتی ہے، الغرض ان دونوں میں سے کوئی بھی ایسی اہم اور غیر معمولی بات نہیں ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب پاک میں غیر معمولی انداز میں اور ” سُبْحَانَ الَّذِیْ “ کے شاندار عنوان سے بیان فرمائیں، جس شخص کو عربی زبان اور محاورات سے ذرا سی بھی واقفیت ہو وہ سمجھ سکتا ہے اس انداز اور اس اہتمام سے ایسے ہی واقعہ کو بیان کیا جاتا ہے جو بہت غیر معمولی ہو اور لوگوں کی عقل میں آنا مشکل ہو، الغرض قرآن مجید کے خاص انداز بیان اور الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اسراء اور معراج حضور کا خواب نہیں تھا، بلکہ عالم بیداری کا واقعہ تھا، اور یہ صرف روحانی سیر اور روحانی مشاہدہ نہیں تھا، ہاں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ اس طرح کا سفر بھی نہیں تھا جس طرح کے سفر ہم اس دنیا میں کرتے ہیں۔
ہماری اس دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے، اس لئے اس کی حقیقت اور نوعیت کو ہم پوری طرف سمجھ نہیں سکتے، جس طرح خود نبوت اور وحی کا معاملہ ہے کہ ہمارا اس پر ایمان تو ہے لیکن ہم اس کی نوعیت اور حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتے، میرا خیال ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور حضرت معاویہ (رض) وغیرہ بعض صحابہ کے متعلق روایات میں جو یہ مذکور ہے کہ وہ حضرات اسراء اور معراج کو ” خواب “ کا واقعہ کہتے تھے تو میرے خیال میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کو ہماری اس دنیا کے سفروں جیسا سفر نہیں مانتے تھے بلکہ اس کو دوسرے عالم کا ایک معاملہ سمجھتے تھے اور اس کو ” رؤیا “ سے تعبیر کرتے تھے، یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ اس کو حضور کا صرف ایک خواب سمجھتے ہوں، قرآن پاک نے اس کو جس غیر معمولی انداز میں بیان کیا ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے عربی زبان و محاورات سے واقفیت رکھنے والا کوئی آدمی بھی اس کو ” خواب کی بات “ نہیں کہہ سکتا، پھر صحیح روایات میں یہ بھی ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کا واقعہ لوگوں کے سامنے بیان کیا تو ابو جہل اور دیگر کفار نے اس پر خوب مذاق اڑایا اور اس واقعہ کو معاذ اللہ حضور کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور پروپیگنڈہ کیا کہ یہ ایسی بات کا دعویٰ کر رہے ہیں جو بالکل ناممکن ہے، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی آدمی ایک رات میں اتنا طویل سفر کرکے واپس آجائے، تو اگر صرف خواب کی بات ہوتی تو اس میں کسی کیلئے بھی تعجب اور اعتراض کا موقع نہ ہوتا، الغرض ابوجہل وغیرہ نے معراج کے بارے میں جو شور و غوغا مچایا اور اس سلسلہ میں حضور کے خلاف جس طرح کا پروپیگنڈہ کیا وہ بھی اس کی واضح دلیل ہے کہ حضور نے معراج کے واقعہ کو خراب کے طور پر یا صرف روحانی سیر کے طور پر بیان نہیں فرمایا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ایک غیر معمولی انعام اور معجزہ کے طور پر بیان فرمایا تھا جو ان کے نزدیک ناممکن اور خلاف عقل تھا اور معجزہ کی شان یہی ہوتی ہے، ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کسی صحابی یا تابعی نے اسراء اور معراج کو حضور کے دوسرے خوابوں کی طرح صرف ایک خواب قرار دیا ہو، اس لئے قریب قریب یقین کے ساتھ میرا یہ خیال ہے کہ جن بعض صحابہ یا تابعین سے یہ مروی ہے کہ انہوں نے اسراء اور معراج کو ” رؤیا “ کہا اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس طرح کا سفر نہیں تھا جس طرح کے سفر ہم اپنی اس دنیا میں مختلف قسم کی سواریوں پر کرتے ہیں بلکہ وہ ایک دوسرے عالم کا معاملہ تھا جس کی کوئی مثال اس دنیا کے ہمارے حالات اور واردات میں نہیں مل سکتی، اسی کو ان بزرگوں نے ” رؤیا “ کے لفظ سے تعبیر کردیا ہے۔
مرحوم حضرت علامہ انور شاہ صاحب کی رائے گرامی : علامہ سید محمد انورشاہ کشمیری قدس سرہ جنہوں نے قدیم آسمانی کتابوں کا بھی گہرا مطالعہ کیا تھا اور اس مقصد کیلئے عبرانی اور سریانی زبانوں سے بھی واقفیت حاصل کی تھی، فرماتے تھے کہ انبیاء سابقین کے صحیفوں میں انبیاء (علیہ السلام) کے خاص واردات و معاملات کو بکثرت ” رؤیا “ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس سے مراد وہ نہیں ہوتا جس کو ہم لوگ ” خواب “ کہتے ہیں، اور اسی سورة بنی اسرائیل میں ثند رکوع کے بعد ” رؤیا “ کا جو لفظ آیا ہے ” وَم۔ اجَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْ اَرَیْنکَھَا اِلاَّ فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ الخ تو بظاہر اس واقعہ اسراء اور معراج ہی کو اس آیت میں ” رؤیا “ کہا گیا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے ” رؤیا عین اریھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے نزدیک یہ بالکل وہی بات ہے جو ہمارے استاذ (رح) تعالیٰ فرماتے تھے، پس جن صحابہ یا تابعین نے معراج کو ” رؤیا “ کہا ہے اس کا مطلب یہی سمجھنا چاہیے !۔
اسراء اور معراج کے بارے میں ایک سوال یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ اب سے تقریباً ڈیڑھ ہزار برس پہلے جبکہ ہوائی جہاز اور راکٹ جیسی تیز رفتار کوئی چیز ایجاد نہیں ہوئی تھی ایک رات بلکہ اس کے بھی تھوڑے سے حصہ میں اتنا طویل سفر کیسے ہوگیا ؟ لیکن یہ اور اس طرح کے سارے اشکالات کا یہ جواب کافی ہے کہ قرآن پاک نے اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل نہیں بلکہ قادر مطلق اللہ تعالیٰ کا فعل بتلایا ہے اور اس کیلئے کچھ بھی مشکل نہیں، اس کے حکم اور اس کی قدرت سے فرشتے ایک آن میں آسمان سے زمین پر اور زمین سے آسمان پر آتے اور جاتے ہیں، بس اسی قادر مطلق نے اپنی قدرت کاملہ سے اپنے بندے اور رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ سفر اس طرح کرایا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجئے کہ یہ سفر ایک خاص معجزہ تھا اور معجزہ تو وہی ہوتا ہے جو اس عالم اسباب کے لحاظ سے عام عقلوں کیلئے ناقابل فہم ہو، اور ہر معجزہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے اگرچہ اس کے نبی و رسول کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے، اسی لئے اس آیت میں اسراء کو اللہ تعالیٰ کا فعل قرار دیا گیا ہے اور فرمایا گیا، اَسْریٰ بِعَبْدِہٖ ۔
معجزہ کے بارے میں ہمارے عقائد کی کتابوں میں بھی بنیادی عقیدہ کے طور پر یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ معجزہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جو پیغمبر کی تصدیق کیلئے اس کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے، اسی طرح کرامت کے بارے میں عقائد کی کتابوں میں صاف صاف لکھا ہے کہ وہ ولی کا فعل نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جو کسی متقی اور صالح بندہ کی عند اللہ مقبولیت ظاہر کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر ظاہر کرتا ہے، اسی لئے معجزہ اور کرامت نبی یا ولی کے اختیار میں نہیں ہوتی کہ جب چاہیں ظاہر کریں اور دکھائیں بلکہ اللہ ہی کے اختیار میں ہوتی ہے، قرآن پاک میں جا بجا بیان فرمایا گیا ہے کہ انبیاء (علیہ السلام) کے منکرین نے ان سے جب معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ معجزات ہمارے اختیار کی چیز نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ” اِنَّمَا الْآیاتُ عنْدَ اللہ “ بہرحال معراج کا واقعہ بھی ایک عظیم معجزہ ہی تھا اور جو کچھ ہوا براہ راست اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہوا، اس لئے اس طرح کے سوال اور اشکال کی گنجائش ہی نہیں۔ جن امتوں اور گروہوں نے اس بات کو ذہن میں نہیں رکھا اور معجزوں اور کرامتوں کو خود نبیوں اور ولیوں کا فعل اور تصرف سمجھا وہ شرک میں مبتلا ہوگئے، عیسائیوں میں بھی شرک یہیں سے آیا، افسوس ہے کہ بہت سے مسلمان کہلانے والے بھی اس معاملہ میں گمراہ ہوئے، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہم کو اور آپ کو اس سے محفوظ رکھا ہے، اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْر۔
واقعۂ معراج سے متعلق ایک غیر مسلم کی شہادت : تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حافظ ابو نعیم اصبہانی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں محمد بن عمر واقدی کی سند سے بروایت محمد بن کعب قرظی یہ واقعہ نقل کیا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شام روم قیصر کے پاس اپنا نامۂ مبارک دے کر حضرت وحیہ بن خلیفہ (رض) کو بھیجا، شاہ روم ہرقل نے نامۂ مبارک پڑھنے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات کی تحقیق کرنے کیلئے عرب کے ان لوگوں کو جمع کیا جو اس وقت ان کے ملک میں بغرض تجارت آئے ہوئے تھے، شاہی حکم کے مطابق ابو سفیان بن حرب اور ان کے رفقاء جو ملک شام میں تجارت کی غرض سے آئے ہوئے تھے وہ حاضر کئے گئے شاہ ہرقل نے ان سے وہ سوالات کئے جن کی تفصیل بخاری و مسلم میں موجود ہے، ابوسفیان کی دلی خواہش یہ تھی کہ وہ اس موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کچھ ایسی باتیں بیان کریں جن سے آپ کی حقارت اور بےتوقیری ظاہر ہو، ابو سفیان کا بیان ہے کہ مجھے اس ارادہ سے کوئی چیز اس کے سوا مانع نہیں تھی کہ مبادا میری زبان سے کوئی ایسی بات نکل جائے جس کا جھوٹ ہونا ظاہر ہوجائے اور میں بادشاہ کی نظروں میں گر جاؤں اور میرے ساتھی بھی ہمیشہ مجھے جھوٹا ہونے کا طعنہ دیا کریں، البتہ مجھے اس وقت خیال آیا کہ بادشاہ کے سامنے واقعۂ معراج بیان کروں جس کا جھوٹ ہونا بادشاہ خود سمجھ لے گا تو میں نے کہا میں اس کا ایک واقعہ آپ سے بیان کرتا ہوں جس سے آپ کو خود معلوم ہوجائیگا کہ وہ جھوٹ ہے ہرقل نے پوچھا وہ کیا واقعہ ہے ؟ ابو سفیان نے کہا اس مدعی نبوت کا کہنا یہ ہے کہ وہ ایک رات میں مکہ مکرمہ سے نکلے اور آپ کی اس مسجد بیت المقدس میں پہنچے اور اسی رات میں صبح سے پہلے ہمارے پاس مکہ مکرمہ میں پہنچ گئے ایلیا (بیت المقدس) کا سب سے بڑا عالم اس وقت شاہ روم کے پاس موجود تھا، اس نے کہا کہ میں اس رات سے واقف ہوں، شاہ روم اس کی طرف متوجہ ہوا اور معلوم کیا آپ کو اس کا علم کیسے ہوا ؟ اس نے عرض کیا کہ میری عادت تھی کہ رات کو اس وقت تک سوتا نہیں تھا کہ جبتک بیت المقدس کے تمام دروازے بند نہ کردوں اس رات میں نے حسب عادت تمام دروازے بند کر دئیے، مگر کسی پہاڑ کو ہلا رہے ہیں میں نے عاجز ہو کر کاریگروں کو بلایا، انہوں نے دیکھ کر اس دروازہ پر عمارت کا وزن پڑگیا اب صبح سے پہلے اس کے بند ہونے کی کوئی صورت نہیں، ہم صبح کو دیکھیں گے، کہ کیا کیا جائے ؟ میں مجبور ہو کر لوٹ آیا اور اس دروازہ کے دونوں کو اڑ اسی طرح کھلے رہے، صبح ہوتے ہی میں اس دروازہ پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ مسجد کے دروازہ کے پاس ایک پتھر کی چٹان میں سوراخ کیا ہوا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کوئی جانور باندھا گیا ہے اس وقت میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آج اس دروازہ کو اللہ نے شاید اسی لئے بند ہونے سے روکا ہے کہ کوئی نبی یہاں آنیوالے تھے۔
بنی اسرائیل کی ایک سرگزشت : میں نے عرض کیا تھا کہ اسراء اور معراج کے معجزانہ سفر کا ذکر اس سورت کی صرف پہلی ایک آیت میں کیا گیا ہے، آگے دوسری آیت سے دوسرا مضمون شروع ہے جس کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے، اس مضمون کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کیلئے کتاب ہدایت (یعنی تورات) نازل کی تھی تو جب تک انہوں نے ہماری اس ہدایت کی پیروی کی اور نیکی اور فرمانبرداری کے راستے کتاب ہدایت (یعنی تورات) نازل کی تھی تو جب تک انہوں نے ہماری اس ہدایت کی پیروی کی اور نیکی اور فرمانبرداری کے راستے پر چلتے رہے وہ دنیا میں بھی عزت اور اقبال کے ساتھ رہے، اور جب انہوں نے اطاعت کے بجائے نافرمانی اور بندگی و سرافگندگی کے بجائے سرکشی کا راستہ اختیار کیا تو ان پر ان کے بدترین دشمنوں کو مسلط کردیا گیا جنہوں نے ان کو بہت ذلیل و خوار کیا اور بالکل تباہ و برباد کر ڈالا، اور ایہ ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار ہوا اور اس کے باوجود ہوا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو اس کے بارے میں اسی کتاب ہدایت میں کھلی آگاہی دی تھی، آخر میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ نافرمانی اور سرکشی کی یہ سزا تو ان کو دنیا میں دی گئی، اور آخرت میں نہ ماننے والوں کیلئے جہنم کا عذاب ہے، اللہ کی پناہ۔
ارشاد فرمایا گیا ہے ” وَاٰتَیْنَا مُوْسِی الْکِتَابَ وَجَعَلْنَاہُ ھُدًی لِّبَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ اَلاَّ تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلاً ، یعنی ہم نے اپنے بندے اور پیغمبر موسیٰ کو کتاب یعنی تورات دی تھی اور اس کو ہم نے بنی اسرائیل کیلئے اپنا ہدایت نامہ قرار دیا تھا اور اس میں خاص ہدایت یہ دی گئی تھی کہ میرے سوا کسی کو کو رساز نہ ٹھہراؤ، صرف مجھ کو ہی کارساز اور مختار کل مانو اور میرے ہی ساتھ عبادت و بندگی کا وہ معاملہ کرو جو کسی کارسار ہستی کے ساتھ ہونا چاہیے، اَلاَّ تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلاً “ کا یہی مطلب ہے۔
آگے فرمایا گیا ہے ” ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْح اِنَّہٗ کاَنَ عَبْدًا شَکُوْرًا “ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ سورة ھود میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے، نوح (علیہ السلام) نے سینکڑوں سال تبلیغ کی اور اس کی کوشش کی کہ ان کی قوم کفر و شرک کا راستہ چھوڑ کر ایمان اور عمل صالح والی زندگی اختیار کرلے، لیکن قوم کے بہت بڑے حصہ نے آپ کی بات بہیں مانی، بہت تھوڑے لوگوں نے آپ کی دعوت کو قبول کیا اور ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرلیا، آخری نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہلاکت خیز طوفان کی شکل میں خدا کا عذاب آیا اور وہ سب لوگ ہلاک و برباد کر دئیے گئے جنہوں نے نوح (علیہ السلام) کی ہدایت کے مقابلہ میں انکار اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا تھا، اور جن تھوڑے سے بندوں نے آپ کی ہدایت کو قبول کیا تھا وہ خدا کے حکم سے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی کشتی پر سوار ہو کر اس عذاب سے بچ گئے، انہی میں سے کچھ لوگوں کی نسل سے ابراہیم (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور ان کے پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے بنی اسرائیل کا سلسلہ چلا، تو اس آیت (ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْح) میں اس قدیم تاریخی واقعہ کو یاد دلا کر بنی اسرائیل سے فرمایا گیا ہے کہ تم ہمارے ان بندوں کی نسل ہو جن کو ہم نے ان کے ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے اپنے پیغمبر نوح کے ساتھ جو ہمارے بڑے شکر گزار بندے تھے، ان کی کشتی پر اپنے حکم سے سوار کرا کے طوفان کے عذاب سے بچا لیا تھا، تو اگر اپنے آباء و اجداد کی طرح تم نے بھی ہماری نازل کی ہوئی ہدایت کی پیروی اور ایمان اور اعمال صالحہ والی زندگی اپنائی تو تم پر بھی ہمارا ایسا ہی فضل و کرم ہوگا، اسی کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ اگر تم نے نہ ماننے کا اور سرکشی کا وہ رویہ اختیار کیا جو قوم نوح کی اکثریت نے اختیار کیا تھا تو تم بھی خدا کے عذاب اور اس کی مار سے نہ بچ سکو گے، خدا کا قانون بےلاگ ہے، کسی سے اس کی رشتہ داری نہیں ہے۔
آگے کی آیتوں میں انہی بنی اسرائیل کے بارے میں جو بیان فرمایا گیا ہے وہ بڑا ہی سبق آموز بلکہ لرزہ خیز ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے سبق لینے کی توفیق دے، جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے دراصل ہماری یعنی امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تنبیہ اور سبق آموزی کیلئے بیان کیا جا رہا ہے، ارشاد ہے۔
” وقضینا الی بنی اسرائیل۔۔۔۔۔۔ للکفرین حصیرا “ یعنی ہم نے اس کتاب یعنی تورات میں بنی اسرائیل کو آگاہی دے دی تھی کہ یہ ہونے والا ہے کہ تم اپنی بداعمالیوں اور شیطانی حرکتوں سے علاقہ میں دو دفعہ فساد برپا کرو گے اور خباثت پھیلاؤ گے اور خدا کی بندگی اور فرمانبرداری کا راستہ چھوڑ کر سرکشی کا راستہ اختیار کرو گے، قرآن پاک میں یہاں صراحت کے ساتھ صرف اتنی ہی آگاہی کا ذکر فرمایا گیا لیکن جو لوگ قرآن مجید کے طرز بیان سے کچھ آشنا ہیں وہ سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اسی میں یہ آگاہی بھی مضمر ہے کہ جب تم فساد و بدعملی اور سرکشی کا راستہ اختیار کرو گے تو ہماری طرف سے تم پر عذاب کا تازیانہ پڑے گا، آگے کی آیتوں میں بنی اسرائیل کے فساد کے ساتھ ان پر خداوندی عذاب کے تازیانوں کے پڑنے کا جس طرح ذکر کیا گیا ہے اس سے بھی یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ فساد اور سرکشی کی آگاہی کے ساتھ خداوندی سزا اور عذاب کی آگاہی بھی دی گے گئی تھی، اور ” کان وعداً مفعولاً “ (اور یہ پورا ہو کر رہنے والا وعدہ تھا) کے الفاظ سے تو یہ بات گویا صراحت ہی کے ساتھ معلوم ہوجاتی ہے کہ عذاب کی آگاہی بھی ساتھ ہی ساتھ دی گئی تھی۔
پیشین گوئی نہیں آگاہی : یہاں ایک بات یہ بھی قابل ذکر اور قابل لحاظ ہے کہ بنی اسرائیل کو دی جانے والی جس آگاہی کا یہاں قرآن پاک میں ذکر کیا گیا ہے وہ صرف ایک ” پیشین گوئی “ نہیں تھی، بلکہ بنی اسرائیل کیلئے اہم تنبیہ اور آگاہی تھی، اس کو بالکل اسی طرح کی آگاہی سمجھنا چاہیے جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام اور امت کو بہت سے فتنوں کے بارے میں حدیثوں میں آگاہی دی ہے، حدیث کی کتابوں میں ایسی پچاسوں حدیثیں ہیں جن کو محدثین نے اپنی مرتب کی ہوئی کتابوں میں ” کتاب الفتن “ میں درج کیا ہے، تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان ارشادات کا مقصد نجومیوں میں ملوث ہونے سے بچائیں، الغرض تورات میں بنی اسرائیل کو جو آگاہی دی گئی تھی اور جس کا ذکر اس آیت میں بھی کیا گیا ہے وہ اسی طرح کی تھی۔
پہلی آگہی کا ظہور : آگے کی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ جب بنی اسرائیل میں پہلی دفعہ فساد آیا جس کے بارے میں ان کو آگاہی دی جا چکی تھی اور انہوں نے ہماری ہدایت اور آگاہی کو پس پشت ڈال کر شیطنت اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا تو ہم نے ایسے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا جو ” اُوْلِی بَأس شَدِیْدٍ “ یعنی نہایت خوفناک اور بڑے جلاد تھے، وہ ان بنی اسرائیل کی بستیوں میں اور ان کے گھروں میں گھس گئے اور بالکل تباہ کر ڈالا، فرمایا گیا، فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اَوْلٰھُمَا بَعَثّنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَأسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلَالَ الدّیَارِ وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلا “ بہت سے مفسرین نے جن کی بنی اسرائیل کی تاریخ پر اچھی نظر ہے، یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس سے بابل کے بادشاہ بخت نصر کا حملہ مراد ہے جو حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریباً چھ سو سال پہلے بنی اسرائیل کی بستیوں پر ہوا تھا، اس نے بنی اسرائیل کو بری طرح تباہ و برباد کیا تھا، ان کی بہت بڑی تعداد قتل ہوئی اور بہت بڑی تعداد میں قیدی بنا کر بابل لے جایا گیا اور ان کی بستیاں بالکل اجاڑ دی گئی۔ آگے بیان فرمایا گیا ہے کہ پھر ایک مدت کے بعد اللہ نے ان پر رحم فرمایا ان کی مدد فرمائی اور خدا کی اس مدد نے پانسہ پلٹ دیا، بنی اسرائیل کو غلبہ نصیب ہوا، پھر ان کے مال و اولاد میں بھی برکت ہوئی اور ان کا ایک نیا دور شروع ہوا، ارشاد ہے، ” ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْھِمْ وَاَمْدَدْنَاکُمْ بِأمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَجَعَلْنَاکُمْ اَکْثَرَ نَفِیْرًا۔
یہاں قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی توبہ وانابت اور رجوع الی اللہ کا بظاہر کوئی ذکر نہیں فرمایا گیا لیکن تورات میں اور بنی اسرائیل کی تاریخ میں اس کا ذکر ہے اور قرآن مجید کے خاص طرز بیان کے مطابق یہاں اس کو مضمر سمجھنا چاہیے، آیت کا مطلب یہی ہے کہ ” بُخت نصر “ کے لشکر کے ہاتھوں پامال اور تباہ و برباد ہونے کے بعد ان میں انابت پیدا ہوئی، جیسا کہ عام طور سے ہوا کرتی ہے۔ ” جب دیارنج بتوں نے تو خدا یاد آیا “۔
بابل میں جب وہ قیدیوں والی ذلت و خواری کی زندگی گزار رہے تھے، ان میں انابت پیدا ہوئی، انہوں نے نافرمانی کی زندگی سے توبہ کی اور فرمانبرداری والی زندگی کا خدا سے عہد کیا تو اللہ تعالیٰ کا ان پر فضل ہوا اور اس کی خاص مدد سے ان کو دشمنوں پر غلبہ بھی نصیب ہوگیا اور ان کی نسل اور دولت میں بھی خدا تعالیٰ نے خوب اضافہ کیا، اور بنی اسرائیل پھر سے ایک خوش حال اور طاقتور قوم بن گئے۔ آگے فرمایا گیا ہے ” اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ وَاِنْ اَسَأْتُمْ فَلَھَا “ یعنی ہم نے ان بنی اسرائیل کے اس دوسرے دور میں پھر ان کو جتا دیا تھا اور آگاہ کردیا تھا کہ دیکھو آئندہ بھی یہی ہوگا کہ اگر تمہارا رویہ اچھا رہا جیسا کتاب و پیغمبر والی امت کا ہونا چاہیے تو تم کو ہماری طرف سے اس کا بہترین صلہ ملتا رہے گا، لیکن اگر تم نے بدعملی اور شرارت کی راہ اختیار کی تو سابق کی طرح اس کا برا نتیجہ بھی تمہیں بھگتنا ہوگا، جزا و سزا کا ہمارا یہ قانون اٹل ہے، ” اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ وَاِنْ اَسَأْتُمْ فَلَھَا “۔
دوسری بار کی تباہی : آگے فرمایا گیا ہے ” فَاِذَا وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ “ الخ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و کرم کے بعد جس کا ذکر اوپر کی آیت میں کیا گیا ہے، بنی اسرائیل نے پھر خدا کو اور اس کی ہدایت کو بھلا دیا اور نفس پرستی اور سرکشی کا وہ راستہ پھر اختیار کرلیا جس کے بارے میں ان کو آگاہی دی جا چکی تھی ”(لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا) “ تو خدا کی طرف سے ان پر ان کے دوسرے نہایت خراب اور خونخوار دشمن مسلط کر دئیے گئے، وہ خدا کا عذاب بن کر ان پر نازل ہوئے، انہوں نے ان کو ایسی مار دی کی صورتیں تک بگاڑ دیں اور جس طرح بخت نصر کے لشکر نے ان کے دینی اور قومی مرکز اور ان کی عزت اور عظمت کے نشان بیت المقدس کو تباہ و برباد کیا تھا اس کے نئے حملہ آور دشمنوں نے بھی ایسا ہی کیا اور اس کے علاوہ بھی جہاں تک قابو پایا سب برباد کردیا، اور یہ خدائے ذوالجلال کے عذاب کے طور پر ہوا، خدا نے بنی اسرائیل کی شرارت اور سرکشی کی سزا دینے ہی کے لئے ان دشمنوں کو ان پر اس طرح مسلط کیا، اس کی طرف سے پہلے ہی جتا دیا گیا تھا ” وَاِنْ اَسَأْتُمْ فَلَھَا “ (کہ اگر تم نے بد کرداری اختیار کی تو تم کو اس کی سزا ضرور بھگتی ہوگی) اکثر واقف مفسرین نے طیطوس رومی کے حملہ (70 ء) کو اس کا مصداق قرار دیا ہے۔ (واللہ اعلم) ۔
آگے فرمایا گیا ہے، عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا “ یعنی بنی اسرائیل کی اس دوسری دفعہ کی بربادی کے بعد بھی ان کو اس کی امید دلائی گئی تھی کہ اگر اب بھی معصیت کوشی اور سرکشی کا راستہ چھوڑ کے نیکی اور فرمانبرداری کا راستہ اختیار کرلو گے تو تمہارا پروردگار پھر تم کو اپنی رحمت کے سایہ میں لے لے گا اور تم کو پھر ایک نئی زندگی عطا کردی جائے گی، اور اگر اس کے برخلاف تم نے پھر شرارت اور شیطنت کا راستہ اختیار کیا تو ہم پھر وہی کریں گے جو پہلے ہم نے کیا تھا، یعنی جس طرح پہلے تم پر ہمارے عذاب کے کوڑے برسے تھے اسی طرح پھر برسیں گے۔ (وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا) ۔
اور پھر آخرت کی سزا : آگے ارشاد فرمایا گیا ہے ” وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا “ بنی اسرائیل سے متعلق جو سلسلہ کلام سورت کی دوسری آیت سے شروع ہوا تھا وہ یہاں ختم ہوگیا، یہ اس سلسلہ کی آخری آیت ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر اس بار بار کی تنیہ اور ہمارے قہر و عذاب کے بار بار کے تجربے کے بعد بھی تم نے ہدایت کی پیروی اور فرمانبرداری کا راستہ اختیار نہیں کیا اور کفر و طغیان ہی کی راہ پر چلتے رہے تو ایسے مجرموں کیلئے دنیوی عذاب کے ان تازیانوں کے علاوہ آخرت کی کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی میں جہنم کا شدید عذاب ہے اور پھر جہنم کا جیل خانہ ہی ان کا دائمی ٹھکانا ہے، وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا۔
ان آیتوں کا سبق : یہاں ہمارے آپ کے لئے سوچنے سمجھنے کی خاص بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی یہ سرگزشت ہم کو یعنی امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیوں سنائی گئی اور اس کو قرآن مجید میں کیوں شامل کیا گیا ؟ قرآن پاک نہ تو تاریخ کی کتاب ہے اور نہ قصہ کہانیوں کی، وہ تو کتاب ہدایت ہے، اس میں بنی اسرائیل کے اور دوسری قوموں اور ان کے نبیوں رسولوں کے جو واقعات بیان کئے گئے ہیں، سب ہمارے ہدایت اور سبق آموزی کیلئے بیان کئے گئے ہیں، ان آیتوں کا کھلا سبق ہمیں اور آپ کو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ساری امت کو یہ ہے کہ کسی قوم، کسی نسل اور کسی امت سے اللہ تعالیٰ کی رشتے داری نہیں ہے، اس کا قانون بےلاگ ہے، بنی اسرائیل حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہم السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبروں کی اولاد تھے، اور یہ ایسی نسل تھی جس میں اللہ کے ہزاروں پیغمبر آئے، لیکن اللہ تعالیٰ کا معاملہ بندوں کے ساتھ ایسے بےلاگ ہے کہ جب تک یہ سیدھے چلیں اور ان کی زندگی ایمان اور عمل صالح والی زندگی رہی ان پر نعمتوں کی بارشیں ہوتی رہیں اور ان کو عزت اور سربلندی نصیب رہی، لیکن جب انہوں نے خدا اور اس کے پیغمبروں کا بتایا ہوا راستہ چھوڑ کر نفس پرستی اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا تو اللہ کی رحمت سے محروم ہوگئے، اور پھر نہایت خبیث قسم کے کفار ان پر مسلط کر دئیے گئے جنہوں نے ان کو بری طرح تہس نہس کیا اور ان کے قبلے بیت المقدس تک کو برباد کر ڈالا، اور یہ سب اللہ کے حکم سے اور اس کی طرف سے ہوا۔
امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہی ہوا ہے، جب تک اس کی عام زندگی ایمان و عمل صالح اور تقوے والی رہی روم وفارس جیسی عظیم الشان اور نہایت طاقتور حکومتوں کے مقابلہ میں ان کو غلبہ حاصل رہا اور ” اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ “ کا ظہور ہوتا رہا، لیکن جب ایمان اور تقویٰ کے بجائے امت میں نفاق اور فسق و فجور کا غلبہ ہوگیا تو ان پر تاتاریوں جیسی وحشی اور خونخوار قوم مسلط کردی گئی اور پھر وہی ہوا جو بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا تھا، ” فَجَاسُوْا خِلاَلَ الدِّیَارِ وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلاً “ اس کے بعد بھی دنیا کے مختلف حصوں میں اللہ تعالیٰ کے اس بےلاگ قانون کا ظہور ہوتا رہا ہے، اور ہم اور آپ خود بھی کسی نہ کسی رنگ میں اس کا تجربہ کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم کو سبق لینے کی توفیق دے اور ہم پر رحم فرمائے، ہمارے لئے بھی اللہ تعالیٰ کا اور قرآن مجید کا پیغام یہی ہے، ” عَسٰی رَبُّکُمْ أنْ یَّرَحَمَکُمْ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدنَا “۔ (درس القرآن)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات مقدس کی تنزیہ و تعظیم بیان کرتا ہے کیونکہ اس کے افعال بہت عظیم اور اس کے احسانات بہت جسیم ہیں۔ اس کے جملہ افعال و احسانات میں سے ایک یہ ہے۔ ﴿ أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا﴾ ’’وہ رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو لے گیا۔‘‘ یعنی وہ اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راتوں رات لے گیا ﴿مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ ’’مسجد حرام سے‘‘جو علی الاطلاق تمام مساجد میں جلیل ترین مسجد ہے۔ ﴿إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ﴾ ’’مسجد اقصیٰ تک‘‘ جو فضیلت والی مسجدوں میں شمار ہوتی ہے اور وہ انبیاء کرام کی سر زمین ہے۔
جناب نبی مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک ہی رات میں بہت دور مسافت تک لے جا یا گیا پھر اسی رات واپس لایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی نشانیاں دکھائیں جن سے ہدایت، بصیرت، ثبات اور قوت تفریق و امتیاز میں اضافہ ہوا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی آپ پر عنایت اور لطف و کرم ہے کہ اس نے تمام امور میں آپ کے لئے بھلائی کو آسان فرما دیا اور آپ کو ایسی ایسی نعمتوں سے نوازا جن کی بناء پر آپ نے تمام اولین و آخرین پر فوقیت حاصل کی۔ آیت کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’اسراء‘‘ کا یہ واقعہ رات کے ابتدائی حصے میں پیش آیا اور سفر مسجد حرام سے شروع ہوا مگر صحیح حدیث میں آتا ہے کہ آپ کو حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر سے رات کے اس سفر پر لے جایا گیا۔ [تفسیر طبری: 9؍5]
اس سے ظاہر ہوا کہ مسجد حرام کو جو فضیلت حاصل ہے، وہ تمام حرم کے لئے ہے۔ حرم میں عبادات کا ثواب اسی طرح کئی گنا بڑھ جاتا ہے جس طرح مسجد حرام میں عبادت کا ثواب کئی گنا ہوجاتا ہے، نیز یہ ’’اسراء‘‘ (معراج) کا واقعہ آپ کو بیک وقت جسم اور روح کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اگر آپ کو معراج جسم اور روح کے ساتھ نہ ہوئی ہوتی تو اس میں ’’آیت کبریٰ‘‘ کا کوئی مفہوم ہے نہ کسی بڑی منقبت کا کوئی پہلو ہے۔
[صحيح بخاري، كتاب المناقب، باب كان النبي صلي الله عليه وسلم..... الخ، حديث: 3570]
معراج کے واقعہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت سی صحیح احادیث منقول ہیں ان میں ان تمام امور کی تفاصیل مذکور ہیں جن کا آپ نے مشاہدہ کیا۔ آپ کو بیت المقدس لے جایا گیا وہاں سے آسمانوں پر لے جایا گیا حتیٰ کہ آپ تمام آسمانوں کے اوپر چلے گئے۔ وہاں آپ نے جنت، جہنم اور تمام انبیاء کرام کو ان کے مراتب کے مطابق دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر پچاس نمازیں فرض کیں، پھر آپ موسیٰ علیہ اسلام کے مشورے سے بار بار اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے رہے حتیٰ کہ وہ بالفعل پانچ ہوگئیں مگر ان کا ثواب، پچاس نمازوں کا ہے۔ اس رات آپ کو اور آپ کی امت کو بہت سے مفاخر عطا کئے گئے جن کی مقدار کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہاں، قرآن مجید کو نازل کرنے کے ذکر کے مقام پر (سورہ فرقان میں) اور جہاں قرآن کی بابت چیلنج کیا گیا، (سورہ بقرہ میں) ان تینوں مقامات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت عبودیت (آپ کے بندے ہونے کی خوبی) کو بیان فرمایا، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مقامات بلند اپنے رب کی عبودیت کی تکمیل کی وجہ ہی سے حاصل کئے ہیں۔
﴿الَّذِي بَارَكْنَا ححَوْلَهُ ﴾ ’’وہ جس کے گرد ہم نے برکت رکھی ہے‘‘ یعنی درختوں، دریاؤں اور سدا بہار شادابی کے ذریعے سے برکت عطا کی اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی برکت ہی ہے کہ مسجد اقصیٰ کو مسجد حرام اور مسجد نبوی کے سوا دیگر تمام مسجدوں پر فضیلت عطا کی گئی، نیز مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کے لئے دور سے سفر کر کے جانا مطلوب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سر زمین کو اپنے نبیوں اور چنے ہوئے بندوں کے رہنے کے لئے مختص فرمایا۔
11 Mufti Taqi Usmani
pak hai woh zaat jo apney banday ko raaton raat masjid-e-haram say masjid-e-aqsa tak ley gaee jiss kay mahol per hum ney barkaten nazil ki hain , takay hum unhen apni kuch nishaniyan dikhayen . beyshak woh her baat sunney wali , her cheez dekhney wali zaat hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
سرگزشت معراج کا تسلسل
پس آپ نے نہ تو صخرہ کی ایسی تعظیم کی جیسے یہود کرتے تھے کہ نماز بھی اسی کے پیچھے پڑھتے تھے بلکہ اسی کو قبلہ بنا رکھا تھا۔ چونکہ حضرت کعب رحمۃ اللہ عیہ بھی اسلام سے پہلے یہودی تھے اسی لئے آپ نے ایسی رائے پیش کی تھی جسے خلیفۃ المسلمین نے ٹھکرا دیا اور نہ آپ نے نصرانیوں کی طرح صخرہ کی اہانت کی کہ انہوں نے تو اسے کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ بنا رکھا۔ بلکہ آپ نے خود اس کے آس پاس سے کوڑا اٹھا کر پھینکا یہ بالکل اس حدیث کے مشابہ ہے جس میں ہے کہ نہ تو قبروں پر بیٹھو نہ ان کی طرف نماز ادا کرو۔ ایک طویل روایت معراج کی بابت ابوہریرہ (رض) سے غرب والی بھی مروی ہے، اس میں ہے کہ جبرائیل اور میکائیل (علیہ السلام) کے لائے ہوئے پانی کے طشت سے اسے دھویا اور آپ کے سینے کو کھول دیا سب غل و غش دور کردیا اور علم و حلم ایمان و یقین سے اس پر کیا اسلام میں بھر دیا اور آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت لگا دی۔ اور ایک گھوڑے پر بٹھا کر آپ کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) لے چلے دیکھا ایک قوم ہے ادھر کھیتی کاٹتی ہے ادھر بڑھ جاتی ہے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ اللہ کی راہ کے مجاہد ہیں جن کی نیکیاں سات سات سو تک بڑھتی ہیں جو خرچ کریں اس کا بدلہ پاتے ہیں اللہ تعالیٰ بہترین رزاق ہے۔ پھر آپ کا گزر اس قوم پر ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جار ہے تھے ہر بار ٹھیک ہوجاتے اور پھر کچلے جاتے دم بھر کی انہیں مہلت نہ ملتی تھی میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں کہ فرض نمازوں کے وقت ان کے سر بھاری ہوجایا کرتے تھے۔ ؟ پھر کچھ لوگوں کو میں نے دیکھا کہ ان کے آگے پیچھے دھجیاں لٹک رہی ہیں اور اونٹ اور جانوروں کی طرح کانٹوں دار جہنمی درخت چر چگ رہے اور جہنم کے پتھر اور انگارے کھا رہے ہیں میں نے کہا یہ کیسے لوگ ہیں ؟ فرمایا اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دینے والے۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔
پھر میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے سامنے ایک ہنڈیا میں تو صاف ستھرا گوشت ہے دوسری میں خبیث سڑا بھسا گندہ گوشت ہے یہ اس اچھے گوشت سے تو روک دئے گئے ہیں اور اس بدبو دار بدمزہ سڑے ہوئے گوشت کو کھا رہے ہیں میں نے سوال کیا یہ کس گناہ کے مرتکب ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ وہ مرد ہیں جو اپنی حلال بیویوں کو چھوڑ کر حرام عورتوں کے پاس رات گزارتے تھے۔ اور وہ عورتیں ہیں جو اپنے حلال خاوند کو چھوڑ کر اوروں کے ہاں رات گزارتی تھیں۔
پھر آپ نے دیکھا کہ راستے میں ایک لکڑی ہے کہ ہر کپڑے کو پھاڑ دیتی ہے اور ہر چیز کو زخمی کردیتی ہے۔ پوچھا یہ کیا ؟ فرمایا یہ آپ کے ان امتیوں کی مثال ہے جو راستے روک کر بیٹھ جاتے ہیں پھر اس آیت کو پڑھا ( وَلَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَتَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَتَبْغُوْنَهَا عِوَجًا 86) 7 ۔ الاعراف :86) یعنی ہر ہر راستے پر لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور راہ حق سے روکنے کے لئے نہ بیٹھا کرو۔ الخ پھر دیکھا کہ ایک شخص بہت بڑا ڈھیر جمع کئے ہوئے ہے جسے اٹھا نہیں سکتا پھر بھی وہ اور بڑھا رہا ہے۔ پوچھا جبرائیل (علیہ السلام) یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ آپ کی امت کا وہ شخص ہے جس کے اوپر لوگوں کے حقوق اس قدر ہیں کہ وہ ہرگز ادار نہیں کرسکتا تاہم وہ اور حقوق چڑھا رہا ہے اور امانتیں لئے رہا ہے۔ پھر آپ نے ایک جماعت کو دیکھا جن کی زبان اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں ادھر کٹے، ادھر درست ہوگئے، پھر کٹ گئے، یہی حال برابر جاری ہے۔ پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ فتنے کے واعظ اور خطیب ہیں۔ پھر دیکھا کہ ایک چھوٹے سے پتھر کے سوارخ میں سے ایک بڑا بھاری بیل نکل رہا ہے پھر وہ لوٹنا چاہتا ہے لیکن نہیں جاسکتا تھا۔
پھر آپ ایک وادی میں پہنچے وہاں نہایت نفیس خوش گوار ٹھنڈی ہوا اور دل خوش کن معطر خوشبودار راحت و سکون کی مبارک صدائیں سن کر آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا یہ جنت کی آواز ہے وہ کہہ رہی ہے کہ یا اللہ مجھ سے اپنا وعدہ پورا کر۔ میرے بالا خانے، ریشم، موتی، مونگے، سونا، چاندی، جام، کٹورے اور پانی، دودھ، شراب وغیر وغیرہ نعمتیں بہت زیادہ ہوگئیں۔ اسے اللہ کی طرف سے جواب ملا کہ ہر ایک مسلمان مومن مرد و عورت جو مجھے اور میرے رسولوں کو مانتا ہو نیک عمل کرتا ہو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو میرے برابر کسی کو نہ سمجھتا ہو وہ سب تجھ میں داخل ہوں گے۔ سن جس کے دل میں میرا ڈر ہے وہ ہر خوف سے محفوظ ہے۔ جو مجھ سے سوال کرتا ہم وہ محروم نہیں رہتا۔ جو مجھے قرض دیتا ہے میں اسے بدلہ دیتا ہوں، جو مجھ پر توکل کرتا ہے میں اسے کفایت کرتا ہوں وہ محروم نہیں رہتا۔ جو مجھے قرض دیتا ہے میں اسے بدلہ دیتا ہوں، جو مجھ پر توکل کرتا ہم میں اسے کفایت کرتا ہوں، میں سچا معبود ہوں میرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ میرے وعدے خلاف نہیں ہوتے مومن نجات یافتہ ہیں اللہ تعالیٰ بابرکت ہے جو سب سے بہتر خالق ہے۔ یہ سن کر جنت نے کہا بس میں خوش ہوگئی۔
پھر آپ ایک دوسری وادی میں پہنچے جہاں نہایت بری اور بھیانگ مکروہ آوازیں آرہی تھیں اور بدبو تھی آپ نے اس کی بابت بھی جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا انہوں نے بتلایا کہ یہ جہنم کی آواز ہے وہ کہہ رہی ہے کہ اے اللہ مجھ سے اپنا وعدہ کر اور مجھے وہ دے میرے طوق و زنجیر، میرے شعلے اور گرمائی، میرا تھور اور لہو پیپ میرے عذاب اور سزا کے سامان بہت وافر ہوگئے ہیں میرا گہراؤ بہت زیادہ ہے میری آگ بہت تیز ہے یہ سن کر جہنم نے اپنی رضا مندی ظاہر کی۔ آپ پھر چلے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچے اتر کر صخرہ میں اپنے گھوڑے کو باندھا اندر جا کر فرشتوں کے ساتھ نماز ادا کی فراغت کے بعد انہوں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ انہوں نے کہا آپ کی طرف بھیجا گیا ؟ فرمایا ہاں، سب نے مرحبا کہا کہ بہترین بھائی اور بہت ہی اچھے خلیفہ ہیں اور بہت اچھائی اور عزت سے آئے ہیں۔
پھر آپ کی ملاقات نبیوں کی روحوں سے ہوئی سب نے اپنے پروردگار کی ثنا بیان کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اپنا خلیل بنایا اور مجھے بہت بڑا ملک دیا اور میرے امت کو ایسے فرمانبردار بنایا کہ ان کی اقتدا کی جاتی ہے، اسی نے مجھے آگ سے بچا لیا اور اسے میرے لئے ٹھنڈک اور سلامتی بنادی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ ہی کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھ سے کلام کیا میرے دشمنوں کو، آل فرعون کو ہلاک کیا ،۔ بنی اسرائیل کو میرے ہاتھوں نجات دی میرے امت میں ایسی جماعت رکھی جو حق کی ہادی اور حق کے ساتھ عدل کرنے والی تھی۔ پھر حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کرنی شروع کی کہ الحمد للہ اللہ نے مجھے عظیم الشان ملک دیا مجھے زبور کا علم دیا میرے لئے لوہا نرم کردیا پہاڑوں کو مسخر کردیا اور پرندوں کو بھی جو میرے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے مجھے حکمت اور پر زور کلام عطا فرمایا۔ پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ثنا خوانی شروع کی کہ الحمد للہ اللہ نے ہواؤں کو میری تابع کردیا اور شیاطین کو بھی کہ وہ میری فرمان کے ماتحت بڑے بڑے محلات اور نقشے اور برتن وغیر بناتے تھے۔ اس نے مجھے جانوروں کی گفتگو کے سمجھنے کا علم فرمایا۔
ہر چیز میں مجھے فضیلت دی، انسانوں کے، جنوں کے، پرندوں کے لشکر میرے ماتحت کر دئے اور اپنے بہت سے مومن بندوں پر مجھے فضیلت دی اور مجھے وہ سلطنت دی جو میرے بعد کسی کے لائق نہیں اور وہ بھی ایسی جس میں پاکیزگی تھی اور کوئی حساب نہ تھا۔ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنی شروع کی کہ اس نے مجھے اپنا کلمہ بنایا اور میری مثال حضرت آدم (علیہ السلام) کی سی کی۔ جسے مٹی سے پیدا کر کے کہہ دیا تھا کہ ہوجا اور وہ ہوگئے تھے اس نے مجھے کتاب و حکمت تورات انجیل سکھائی میں مٹی کا پرند بناتا پھر اس میں پھونک مارتا تو وہ بحکم الہٰی زندہ پرند بن کر اڑ جاتا۔ میں بچپن کے اندھوں کو اور جذامیوں کو بحکم الہی اچھا کردیتا تھا مردے اللہ کی اجازت سے زندہ ہوجاتے تھے مجھے اس نے اٹھا لیا مجھے پاک صاف کردیا مجھے اور میری والدہ کو شیطان سے بچا لیا ہم پر شیطان کا کچھ دخل نہ تھا، اب جناب رسول آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم سب نے اللہ کی تعریفیں بیان کرلیں اب میں کرتا ہوں۔ اللہ ہی کے لئے حمد و ثنا ہے جس نے مجھے رحمت للعالمین بنا کر اپنی تمام مخلوق کے لئے ڈرانے اور خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا مجھ پر قرآن کریم نازل فرمایا۔ جس میں ہر چیز کا بیان ہے میری امت کو تمام اور امتوں سے افضل بنایا جو کہ اوروں کی بھلائی کے لئے بنائی گئی ہے۔ اسے بہترین امت بنایا انہی کو اول کی اور آخر کی امت بنایا۔ میرا سینہ کھول دیا میرے بوچھ دور کر دئے میرا ذکر بلند کردیا مجھے شروع کرنے والا اور ختم کرنے والا بنایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا انہی وجوہ سے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے افضل ہیں۔
امام ابو جعفر رازی (رح) فرماتے ہیں شروع کرنے والے آپ ہیں یعنی بروز قیامت شفاعت آپ ہی سے شروع ہوگی، پھر آپ کے سامنے تین ڈھکے ہوئے برتن پیش کئے گئے۔ پانی کے برتن میں سے آپ نے تھوڑا سا پی کر واپس کردیا پھر دودھ کا برتن لے کر آپ نے پیٹ بھر کر دودھ پیا۔ پھر شراب کا برتن لایا گیا تو آپ نے اس کے پینے سے انکار کردیا کہ میں شکم سیر ہوچکا ہوں۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا یہ آپ کی امت پر حرام کردی جانے والی ہے اور اگر آپ اسے پی لیتے تو آپ کی امت میں سے آپ کے تابعدار بہت ہی کم ہوتے۔ پھر آپ کو آسمان کی طرف چڑھایا گیا دروازہ کھلوانا چاہا تو پوچھا گیا یہ کون ہیں ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا محمد ہیں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کیا آپ کی طرف بھیج دیا گیا ؟ فرمایا ہاں انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اس بھائی اور خلیفہ کو خوش رکھے یہ بڑے اچھے بھائی اور نہایت عمدہ خلیفہ ہیں اسی وقت دروازہ کھول دیا گیا۔ آپ نے دیکھا کہ ایک شخص ہیں پوری پیدائش کے عام لوگوں کی طرح انکی پیدائش میں کوئی نقصان نہیں ان کے دائیں ایک دروازہ ہے جہاں سے خوشبو کی لپٹیں آرہی ہیں اور بائیں جانب ایک دروازہ ہے جہاں سے خبیث ہوا آرہی ہے داہنی طرف کے دروازے کو دیکھ کر ہنس دیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور بائیں طرف کے دروازے کو دیکھ کر رو دیتے ہیں اور غمگین ہوجاتے ہیں میں نے کہا جبرائیل (علیہ السلام) یہ شیخ پوری پیدائش والے کون ہیں ؟ جن کی خلقت میں کچھ بھی نہیں گھٹا۔ اور یہ دونوں دروازے کیسے ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ آپ کے والد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں دائیں جانب جنت کا دروازہ ہے اپنی جنتی اولاد کو دیکھ کر خوش ہو کر ہنس دیتے ہیں اور بائیں جانب جہنم کا دروازہ ہے آب اپنی دوزخی اولاد کو دیکھ کر رو دیتے ہیں اور غمگین ہوجاتے ہیں۔ پھر دوسرے آسمان کی طرف چڑھے اسی طرح کے سوال جواب کے بعد دروازہ کھلا وہاں آپ نے دو جوانوں کو دیکھا دریافت پر معلوم ہوا کہ یہ حضرت عیسیٰ بن مریم اور حضرت یحیٰی بن زکریا (علیہما السلام) ہیں یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہوتے ہیں۔ پھر اسی طرح تیسرے آسمان پر پہنچے وہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پایا جنہیں حسن میں اور لوگوں پر وہی فضیلت تھی جو چاند کو باقی ستاروں پر۔ پھر چوتھے آسمان پر اسی طرح پہنچے وہاں حضرت ادریس (علیہ السلام) کو پایا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بلند مکان پر چڑھا لیا ہے پھر آپ پانچویں آسمان پر بھی انہی سوالات و جوابات کے بعد پہنچے دیکھا کہ ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں ان کے پاس کچھ لوگ ہیں جو ان سے باتیں کر رہے ہیں پوچھا یہ کون ہیں ؟ جواب ملا کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) ہیں جو اپنی قوم میں ہر دلعزیز تھے اور یہ لوگ بنی اسرائیل ہیں۔ پھر اسی طرح چھٹے آسمان پر پہنچے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا آپ کے ان سے بھی آگے نکل جانے پر وہ رو دئے، دریافت کرنے پر سبب یہ معلوم ہوا کہ نبی اسرائیل میری نسبت یہ سمجھتے تھے کہ تمام اولاد آدم میں اللہ کے پاس سب سے زیادہ بزرگ میں ہوں لیکن یہ ہیں میرے خلیفہ جو دنیا میں ہیں اور میں آخرت میں ہوں خیر صرف یہی ہوتے تو بھی چنداں مضائقہ نہ تھا لیکن ہر نبی کے ساتھ ان کی امت ہے۔ پھر آپ اسی طرح ساتویں آسمان پر پہنچے وہاں ایک صاحب کو دیکھا جن کی داڑھی میں کچھ سفید بال تھے وہ جنت کے دروازے پر ایک کرسی لگائے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے پاس کچھ اور لوگ بھی ہیں بعض کے چہرے تو روشن ہیں اور بعض کے چہروں پر کچھ کم چمک ہے بلکہ رنگ میں کچھ اور بھی ہے یہ لوگ اٹھے اور نہر میں ایک غوطہ لگایا جس سے رنک قدرے نکھر گیا پھر دوسری نہر میں نہائے کچھ اور نکھر گئے پھر تیسری میں غسل کیا بالکل روشن سفید چہرے ہوگئے۔ آ کر دوسروں کے ساتھ مل کر بیٹھ گئے اور انہی جیسے ہوگئے۔ آپ کے سوال پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے بتلایا کہ یہ آپ کے والد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں روئے زمین پر سفید بال سب سے پہلے ان ہی کے نکلے یہ سفید منہ والے وہ ایماندار لوگ ہیں جو برائیوں سے بالکل بچے رہے اور جن کے چہروں کے رنگ میں کچھ کدورت تھی یہ وہ لوگ ہیں جن سے نیکیوں کے ساتھ کچھ بدیاں بھی سرزد ہوگئی تھیں ان کی توبہ پر اللہ تعالیٰ مہربان ہوگیا۔
اول نہر اللہ کی رحمت ہے، دوسری نعمت ہے، تیسری شراب طہور کی نہر ہے جو جنتیوں کی خاص شراب ہے۔ پھر آپ سدرۃ المنتہی تک پہنچے تو آپ سے کہا گیا کہ آپ ہی کی سنتوں پر جو پابندی کرے وہ یہاں تک پہچایا جاتا ہے اس کی جڑ سے پاکیزہ پانی کی صاف ستھرے دودھ کی لذیذ بےنشہ شراب کی اور صاف شہد کی نہریں جاری تھیں اس درخت کے سائے میں کوئی سوار اگر ستر سال بھی چلا جائے تاہم اس کا سایہ ختم نہیں ہوتا۔ اس کا ایک ایک پتہ اتنا بڑا ہے کہ ایک ایک امت کو ڈھانپ لے۔ اللہ تعالیٰ عز و جل کے نور نے اسے چاروں طرف ڈھک رکھا تھا اور پرند کی شکل کے فرشتوں نے اسے چھپالیا تھا جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت میں وہاں تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ جل شانہ نے آپ سے باتین کیں فرمایا کہ مانگو کیا مانگتے ہو ؟ آپ نے گزارش کی کہ اے اللہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا خلیل بنایا اور انہیں بڑا ملک دیا، موسیٰ (علیہ السلام) سے تو نے باتیں کیں، داؤد (علیہ السلام) کو عظیم الشان سلطنت دی اور ان کے لئے لوہا نرم کردیا، سلیمان (علیہ السلام) کو تو نے بادشاہت دی، جنات انسان شیاطین ہوائیں ان کے تابع فرمان کیں اور وہ بادشاہت دی جو کسی کے لائق ان کے سوا نہیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو تو نے تورات و انجیل سکھائی اپنے حکم سے اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرنے والا اور مردوں کو جلانے والا بنایا انہیں اور ان کی والدہ کو شیطان رجیم سے بچایا کہ اسے ان پر کوئی دخل نہ تھا میری نسبت فرمان ہو۔ رب العالمین عز و جل نے فرمایا تو میرا خلیل ہے توراۃ میں میں نے تجھے خلیل الرحمن کا لقب دیا ہے تجھے تمام لوگوں کی طرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے، تیرا سینہ کھول دیا ہے، تیرا بوجھ اتار دیا ہے، تیرا ذکر بلند کردیا ہے جہاں میرا ذکر آئے وہاں تیرا ذکر بھی ہوتا ہے اور تیری امت کو میں نے سب امتوں سے بہتر بنایا ہے۔ جو لوگوں کے لئے ظہور میں لائی گی ہے۔ تیری امت کو بہترین امت بنایا ہے، تیری ہی امت کو اولین اور آخرین بنایا ہے۔ ان کا خطبہ جائز نہیں جب تک وہ تیرے بندے اور رسول ہونے کی شہادت نہ دے لیں۔ میں نے تیری امت میں ایسے لوگ بنائے ہیں جن کے دل میں الکتاب ہے۔ تجھے از روئے پیدائش سب سے اول کیا اور از روئے بعثت کے سب سے آخر کیا اور از روئے فیصلہ کے بھی سب سے اول کیا تجھے میں نے سات ایسی آیتیں دیں جو باربار دہرائی جاتی ہیں جو تجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملیں تجھے میں نے اپنے عرش تلے سے سورة بقرہ کے خاتمے کی آیتیں دیں جو تجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں میں نے تجھے کوثر عطا فرمائی اور میں نے تجھے اسلام کے آٹھ حصے دئے۔ اسلام، ہجرت، جہاد، نماز، صدقہ، رمضان کے روزے، نیکی کا حکم، برائی سے روک اور میں نے تجھے شروع کرنے والا اور ختم کرنے والا بنایا۔ پس آپ فرمانے لگے مجھے میرے رب نے چھ باتوں کی فضیلت مرحمت فرمائی کلام کی ابتداء اور اس کی انتہا دی۔ جامع باتیں دیں۔ تمام لوکوں کی طرف خوشخبری دی نے والا اور آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا۔ میرے دشمن مجھ سے مہینہ بھر کی راہ پر ہوں وہیں سے اس کے دل میں میرا رعب ڈال دیا گیا۔ میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوئیں میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو بینائی گئی۔ پھر آپ پر پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا اور بہ مشورہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تخفیف طلب کرنے کا اور آخر میں پانچ رہ جانے کا ذکر ہے۔ جیسے کہ اس سے پہلے گزر چکا ہے پس پانچ رہیں اور ثواب پچاس کا جس سے آپ بہت ہی خوش ہوئے۔ جاتے وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سخت تھے اور آتے وقت نہایت نرم اور سب سے بہتر۔ اور کتاب کی ایس حدیث میں بھی ہے کہ اسی آیت (سبحان الذی) کی تفسیر میں آپ نے یہ واقعہ بیان فرمایا یہ بھی واضح رہے کہ اس لمبی حدیث کا ایک راوی ابو جعفر رازی بظاہر حافظہ کے کچھ ایسے اچھے نہیں معلوم ہوتے اس کے بعد الفاظ میں سخت غرابت اور بہت زیادہ نکارت ہے۔ انہیں ضعیف بھی کہا کیا ہے اور صرف انہی کی روایت والی حدیث قابل توجہ ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ خواب والی حدیث کا کچھ حصہ بھی اس میں آگیا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سی اجادیث کا مجموعہ ہو یا خواب یا معراج کے سوا کم واقعہ کی اس میں روایت ہو۔ واللہ اعلم۔ بخاری مسلم کی ایک روایت میں آپ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا حلیہ بیان کرنا وغیرہ بھی مروی ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں حطیم میں آپ سے بیت المقدس کے سوالات کئے جانے اور پہر اس کے ظاہر ہوجانے کا واقعہ بھی ہے، اس میں بھی ان تینوں نبیوں سے ملاقات کرنے کا اور ان کے حلیہ بیان ہے اور یہ بھڈ کہ آپ نے انہیں نماز میں کھڑا پایا۔ آپ نے مالک خازن جہنم کو بھی دیکھا اور انہوں نے ہی ابتدء آپ سے سلام کیا۔
بیہقی وغیرہ میں کئی ایک صحابہ (علیہ السلام) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ام ہانی کے مکان پر سوئے ہوئے تھے آب عشا کی نماز سے فارغ ہوگئے تھے وہیں سے آپ کو معراج ہوئی۔ پھر امام حاکم نے بہت لمبی حدیث بیان فرمائی ہے جس میں درجوں کا اور فرشتوں وغیرہ کا ذکر ہے اللہ کی قدرت سے تو کوئی چیز بعید نہیں بشرطیکہ وہ روایت صحیح ثابت ہوجائے۔
امام بیہقی (رح) اس روایت کو بیان کر کے فرماتے ہیں کہ مکہ شریف سے بیت المقدس تک جانے اور معراج کے بارے میں اس حدیث میں پوری کفایت ہے لیکن اس راویت کو بہت ائمہ حدیث نے مرسل بیان کیا ہے واللہ اعلم۔
اب حضرت عائشہ (رض) کی روایت سنئے۔ بیہقی میں ہے کہ جب صبح کے وقت لوگوں سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کا ذکر کیا تو بہت سے لوگ مرتد ہوگئے جو اس سے پہلے باایمان اور تصدیق کرنے والے تھے، پھر حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس ان کا جانا اور آپ کا سچا ماننا اور صدیق لقب پانا مروی ہے۔ خود حضرت ام ہانی سے راویت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج میرے ہی مکان سے کرائی گئ ہے اس رات آپ نماز عشاء کے بعد میرے مکان پر آرام فرما تھے۔ آپ بھی سو گئے اور ہم سب بھی۔ صبح سے کجھ ہی پہلے ہم نےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جگایا۔ پھر آپ کے ساتھ ہی ہم نے صبح کی نماز ادا کی تو آپ نے فرمایا ام ہانی میں نے تمہارے ساتھ ہی عشاء کی نماز ادا کی اور اب صبح کی نماز میں بھی تمہارے ساتھ ہی ہوں اس درمیان میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بیت المقدس پہنچایا اور میں نے وہاں نماز بھی پڑھی۔
ایک راوی کلبی متروک ہے اور بالکل ساقط ہے لیکن اسے ابو یعلی میں اور سند سے خوب تفصیل سے روایت کیا ہے۔ طبرانی میں حضرت ام ہانی (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شب معراج میرے ہاں سوئے ہوئے تھے میں نے رات کو آپ کی ہرچند تلاش کی لیکن نہ پایا ڈر تھا کہ کہیں قریشیوں نے کوئی دھوکا نہ کیا لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ تھام کر مجھے لے چلے دروازے پر ایک جانور تھا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے اونچا تھا مجھے اس پر سوار کیا پھر مجھے بیت المقدس پہنچایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھایا وہ اخلاق میں اور صورت شکل میں بالکل میرے مشابہ تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھایا لانبے قد کے سیدھے بالوں کے ایسے تھے جیسے ازدشنوہ کے قبیلے کے لوگ ہوا کرتے ہیں۔ اسی طرح مجھے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی دکھایا درمیانہ قد سفید سرخی مائل رنگ بالکل ایسے جیسے عروہ بن مسعود ثقفی ہیں۔ دجال کو دیکھا ایک آنکھ اس کی بالکل مٹی ہوئی تھی۔ ایسا تھا جیسے قطن بن عبد العزی۔ یہ فرما کر اچھا اب میں جاتا ہوں جو کچھ دیکھا ہے وہ قریش سے بیان کرتا ہوں۔ میں نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کیا للہ آپ اپنی قوم میں اس خواب کو بیان نہ کریں وہ آپ کو جھٹلائیں گے آپ کی بات ہرگز نہ مانیں گے اور اگر بس چلا تو آپ کی بےادبی کریں گے۔ لیکن آپ نے جھٹکا مار کر اپنا دامن میرے ہاتھ سے چھڑا لیا اور سیدھے قریش کے مجمع میں پہنچ کر ساری باتیں بیان فرما دیں۔
جبیر من مطعم کہنے لگا بس حضرت آج ہمیں معلوم ہوگیا اگر آپ سچے ہوتے تو ایسی بات ہم میں بیٹھ کر نہ کہتے۔ ایک شخص نے کہا کیوں حضرت ؟ راستے میں ہمارا فلاں قافلہ بھی ملا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور ان کا ایک اونٹ کھو گیا تھا جس کی تلاش کر رہے تھے۔ کسی نے کہا اور فلاں قبیلے والوں کے اونٹ بھی راستے میں ملے ؟ آپ نے فرمایا وہ بھی ملے تھے فلاں جگہ تھے ان میں ایک سرخ رنگ اونٹنی تھے جس کا پاؤں ٹوٹ کیا تھا ان کے پاس ایک بڑے پیالے میں پانی تھا۔ جسے میں نے بھی پیا۔ انہوں نے کہا اچھا ان کے اونٹوں کی گنتی بتاؤ ان میں چرواہے کون کون تھے یہ بھی بتاؤ ؟ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے قافلہ آپ کے سامنے کردیا آپ نے ساری گنتی بھی بتادی اور چرواہوں کے نام بھی بتا دئے ایک چرواہا ان میں ابن ابی قحافہ تھا اور یہ بھی فرما دیا کہ کل صبح کو وہ ثنیہ پہنچ جائیں گے۔ چناچہ اس وقت اکثر لوگ بطور آزمائش ثنیہ جا پہنچے دیکھا کہ واقعی قافلہ آگیا ان سے پوچھا کہ تمہارا اونٹ گم ہوگیا تھا ؟ انہوں نے کہا درست ہے گم ہوگیا تھا۔ دوسرے قافلے والوں سے پوچھا تمہاری کسی سرخ رنگ اونٹنی کا پاؤں ٹوٹ گیا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں یہ بھی صحیح ہے۔ پوچھا کیا تمہارے پاس بڑا پیالہ پانی کپ بھی تھا۔ ابوبکر (رض) نے کہا ہاں اللہ کی قسم اسے تو میں نے خود رکھا تھا اور ان میں سے نہ کسی نے اسے پیا نہ وہ پانی گرایا گیا۔ بیشک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہیں۔ یہ آپ پر ایمان لائے اور اس دن سے ان کا نام صدیق رکھا گیا۔
" فصل " ان تمام احادیث کی واقفیت کے بعد جن میں صحیح بھی ہیں حسن بھی ہیں ضعیف بھی ہیں۔ کم از کم اتتنا تو ضرور معلوم ہوگیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکہ شریف سے بیت المقدس تک لے جانا ہوا۔ اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ صرف ایک ہی مرتبہ ہوا ہے۔ گو راویوں کی عبارتیں اس باب میں مختلف الفاظ سے ہیں۔ گو ان میں کمی بیشی بھی ہے یہ کوئی بات نہیں اور سوائے انبیاء (علیہم السلام) کے خطا سے پاک ہے کون ؟ بعض لوگوں نے ہر ایسی روایت کو ایک الگ واقعہ کہا جاتا ہے اور اس کے قائل ہوئے ہیں کہ یہ وافعہ کئی بار ہوا لیکن یہ لوگ بہت دور نکل گئے اور بالکل انوکھی بات کہی اور نہ جانے کی جگہ چلے گئے اور پہر بھی مطلب حاصل نہ ہوا۔ متاخرین میں سے بعض نے ایک اور ہی توجیہہ پیش کی ہے اور اس پر انہیں بڑا ناز ہے وہ یہ کہ ایک مرتبہ تو آپ کو مکہ سے صرف بیت المقدس تک کی سیر ہوئی ایک مرتبہ مکہ سے آسمانوں پر چڑھائے گے اور ایک مرتبہ مکہ سے بیت المقدس تک کی سیر ہوئی ایک مرتبہ مکہ سے آسمانوں پر چڑھائے گئے اور ایک مرتبہ مکہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمانوں تک۔ لیکن یہ قول بھی بعید از قیاس اور بالکل غریب ہے۔ سلف میں سے تو اس کا کوئی قائل نہیں اگر ایسا ہوتا تو خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ہی اسے کھول کر بیان فرما دیتے اور راوی آپ سے اس کے بار بار ہونے کی روایت بیان کرتے۔ بقول حضرت زہری معراج کا یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے کا ہے۔ عروہ بھی یہی کہتے ہیں۔ سدی کہتے ہیں چھ ماہ پہلے کا ہے۔ لہذا حق بات یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جاگتے میں نہ کہ خواب میں مکہ شریف سے بیت المقدس تک کی اسرا کرائی گئی اس وقت آپ براق پر سوار تھے۔ مسجد قدس کے دروازے پر آپ نے براق کو باندھا وہاں جا کر اس کے قبلہ رخ تحیۃ المسجد کے دور پر دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر معراج لائے گئے جو درجوں والی ہے اور بطور سیڑھی کے ہے اس سے آپ آسمان دنیا پر چڑھائے گئے پھر ساتوں آسمانوں پر پہنچائے گئے ہر آسمان کے مقربین الہی سے ملاقاتیں ہوئیں انبیاء (علیہم السلام) سے ان کے منازل و درجات کے مطابق سلام علیک ہوئی چھٹے آسمان میں کلیم اللہ (علیہ السلام) سے اور ساتوں میں خلیل اللہ (علیہ السلام) سے ملے پھر ان سے بھی آگے بڑھ گئے۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وعلی سائر الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام۔ یہاں تک کہ آپ مستوی میں پہنچے جہاں قضا و قدر کی قلموں کی آوازیں آپ نے سنیں۔ سدرۃ المنتہی کو دیکھا جس پر عظمت ربی چھا رہی تھی۔ سونے کی ٹڈیاں اور طرح طرح کے رنگ وہاں پر نظر آ رہے تھے فرشتے چاروں طرف سے اسے گھیرے ہوئے تھے۔ وہیں پر آپ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا جن کے چھ سو پر تھے۔ وہیں آپ نے رف رف سبز رنگ کا دیکھا۔ جس نے آسمان کے کناروں کو ڈھک رکھا تھا۔ بیت المعمور کی زیارت کی جو خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کے زمینی کعبے کے ٹھیک اوپر آسمانوں پر ہے، یہی آسمان کے کناروں کو ڈھک رکھا تھا۔ بیت المعمور کی زیارت کی جو خلیل اللہ علیہ و صلوات اللہ کے زمینی کعبے کے ٹھیک اوپر آسمانوں پر ہے، یہی آسمانی کعبہ ہے۔ خلیل اللہ (علیہ السلام) اس سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے عبادت ربانی کے لئے جاتے ہیں مگر جو آج گئے پھر ان کی باری قیامت تک نہیں آتی۔ آپ نے جنت دوزخ دیکھی، یہیں اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم نے پچاس نمازیں فرض کر کے پھر تخفیف کردی۔ اور پانچ رکھیں جو خاص اس کی رحمت تھی۔ اس سے نماز کی بزرگی اور فضیلت بھی صاف طور پر ظاہر ہے پھر آپ واپس بیت المقدس کی طرف اترے اور آپ کے ساتھ ہی تمام انبیاء (علیہم السلام) بھی اترے وہاں آپ نے ان سب کو نماز پڑھائی جب کہ نماز کا وقت ہوگیا ممکن ہے وہ اس دن کی صبح کی نماز ہو۔ ہاں بعض حضرات کا قول ہے کہ امامت انبیاء آپ نے آسمانوں میں کی۔ لیکن صحیح روایات سے بظاہر یہ واقعہ بیت المقدس کا معلوم ہوتا ہے۔ گو بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ جاتے ہوئے آپ نے یہ نماز پڑھائی لیکن ظاہر یہ ہے کہ آپ نے واپسی میں امامت کرائی۔ اس کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ جب آسمانوں پر انبیاء (علیہم السلام) سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے تو آپ ہر ایک کی بابت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں ؟ اگر بیت المقدس میں ہی ان کی امامت آپ نے کرائی ہوئی ہوتی تو اب چنداں اس سوال کی ضرورت نہیں رہتی دوسرے یہ کہ سب سے پہلے اور سب سے بڑی غرض تو بلندی پر جناب باری تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہونا تھا تو بظاہر یہی بات سب پر مقدم تھی۔ جب یہ ہوچکا اور آپ پر اور آپ کی امت پر اس رات میں جو فریضہ نماز مقرر ہونا تھا تو بھی ہوچکا، اب آپ کو اپنے بھائیوں کے ساتھ جمع ہونے کا موقعہ ملا اور ان سب کے سامنے آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے اشارے سے آپ نے امام بن کر انہیں نماز پڑھائی۔ پھر بیت المقدس سے بذریعہ براق آپ واپس رات کے اندھیرے اور صبح کے کچھ ہی اجالے کے وقت مکہ شریف پہنچ گئے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
اب یہ جو مروی ہے کہ آپ کے سامنے دودھ اور شہد اور شراب یا دودھ اور پانی پیش کیا گیا یا چاروں ہی چیزیں اس کی بابت روایتوں میں یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ بیت المقدس کا ہے اور یہ بھی کہ یہ واقعہ آسمانوں کا ہو، لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ دونوں ہی جگہ یہ چیز آپ کے سامنے پیش ہوئی ہو اس لئے کہ جیسے کسی آنے والے کے سامنے بطور مہمانی کے کچھ چیز رکھی جاتی ہے اسی طرح یہ تھا واللہ اعلم۔ پھر اس میں بھی لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ معراج آپ کے جسم و روح سمیت کرائی گئی تھی ؟ یا صرف روحانی طور پر ؟ اکثر علماء کرام تو یہی فرماتے ہیں کہ جسم و روح سمیت آپ کو معراج ہوئی اور ہوئی بھی جاگتے میں نہ کہ بطور خواب کے۔ ہاں اس کا انکار نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے خواب میں یہی چیزیں دکھائی گئی ہوں۔ آپ خواب میں جو کچھ ملاحظہ فرماتے اسے اسی طرح پھر واقعہ میں جاگتے ہوئے بھی ملاحظہ فرما لیتے۔ اس کی بڑی دلیل ایک تو یہ ہے کہ اس کے بعد کی بات کوئی بڑی اہم ہے۔ اگر یہ واقعہ خواب کا مانا جائے تو خواب میں ایسی باتیں دیکھ لینا اتنا اہم نہیں کہ اس کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ پہلے سے بطور احسان اور بطور اظہار قدرت اپنی تسبیح بیان کرے۔ پھر اگر یہ واقعہ خواب کا ہی تھا تو کفار اس طرح جلدی سے آپ کی تکذیب نہ کرتے ایک شخص اپنا خواب اور خواب میں دیکھی ہوئی عجیب چیزیں بیان کر رہا ہے یا کرے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ بھڑ بھڑا کر آجائیں اور سنتے ہی سختی سے انکار کرنے لگیں۔ پھر جو لوگ کہ اس سے پہلے آپ پر ایمان لا چکے تھے اور آپ کی رسالت کو قبول کرچکے تھے کیا وجہ ہے کہ وہ واقعہ معراج کو سن کر اسلام سے پھرجاتے ہیں ؟ اس سے بھی ظاہر ہے کہ آپ نے خواب کا قصہ بیان نہیں فرمایا تھا پھر قرآن کے لفظ
بعبدہ پر غور کیجئے۔ عبد کا اطلاق روح اور جسم دونوں کے مجموعے پر آتا ہے۔ پھر اسری بعبدہ لیلا کا فرمانا اس چیز کو اور صاف کردیتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو رات کے تھوڑے سے حصے میں لے گیا۔ اس دیکھنے کو لوگوں کی آزمائش کا سبب آیت (وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ ۭ وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا 60ۧ) 17 ۔ الإسراء :60) میں فرمایا گیا ہے۔ اگر یہ خواب ہی تھا تو اس میں لوگوں کی ایسی بڑی کون سی آزمائش تھی جسے مستقل طور پر بیان فرمایا جاتا ؟ حضرت ابن عباس (رض) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آنکھوں کا دیکھنا تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھایا گیا (بخاری) خود قرآن فرماتا ہے آیت ( مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى 17) 53 ۔ النجم :17) نہ تو نگاہ بہکی نہ بھٹکی۔ ظاہر ہے کہ بصر یعنی نگاہ انسان کی ذات کا ایک وصف ہے نہ کہ صرف روح کا۔ پھر براق کی سواری کا لایا جانا اور اس سفید چمکیلے جانور پر سوار کرا کر آپ کو لے جانا بھی اسی کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ جاگنے کا اور جسمانی ہے ورنہ صرف روح کے لئے سواری کی ضرورت نہیں واللہ اعلم۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ معراج صرف روحانی تھی نہ کہ جسمانی۔ چناچہ محمد بن اسحاق لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کا یہ قول مروی ہے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جسم غائب نہیں ہوا تھا بلکہ روحانی معراج تھی۔ اس قول کا انکار نہیں کیا گیا کیونکہ حسن (رح) فرماتے ہیں آیت (وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ 60ۧ) 17 ۔ الإسراء :60) آیت اتری ہے۔ اور حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کی نسبت خبر دی ہے کہ انہوں نے فرمایا میں نے خواب میں تیرا ذبح کرنا دیکھا ہے اب تو سوچ لے کیا دیکھتا ہے ؟ پھر یہی حال رہا پس ظاہر ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) پر وحی جاگتے میں بھی آتی ہے اور خواب میں بھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ میری آنکھیں سو جاتی ہیں اور دل جاگتا رہتا ہے۔ واللہ اعلم اس میں سے کون سی سچی بات تھی ؟ آپ گئے اور آپ نے بہت سی باتیں دیکھیں جس حال میں بھی آپ تھے سوتے یا جاگتے سب حق اور سچ ہے۔ یہ تو تھا محمد بن اسحاق (رح) کا قول۔ امام ابن جریر (رح) نے اس کی بہت کچھ تردید کی ہے اور ہر طرح اسے رد کیا ہے اور اسے خلاف ظاہر قرار دیا ہے کہ الفاظ قرآنی کے سراسر خلاف یہ قول ہے پھر اس کے خلاف بہت سی دلیلیں پیش کی ہیں جن میں سے چند ہم نے بھی اوپر بیان کردی ہیں۔ واللہ اعلم۔
فائدہ
ایک نہایت عمدہ اور بہت زبردست فائدہ اس بیان میں اس روایت سے ہوتا ہے جو حافظ ابو نعیم اصبہانی کتاب دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ جب وحیہ بن خلیفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیصر روم کے پاس بطور قاصد کے اپنے نامہ مبارک کے ساتھ بھیجا۔ یہ گئے، پہنچے اور عرب تاجروں کو جو ملک شام میں تھے ہرقل نے جمع کیا ان میں ابو سفیان صخر بن حرب تھا اور اس کے ساتھی مکہ کے دوسرے کافر بھی تھے پھر اس نے ان سے بہت سے سوالات کئے جو بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکور ہیں۔ ابو سفیان کی اول سے آخر تک یہی کوشش رہی کہ کسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برائی اور حقارت اس کے سامنے کرے تاکہ بادشاہ کے دل کا میلان آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نہ ہو وہ خود کہتا ہے کہ میں صرف اس خوف سے غلط باتیں کرنے اور تہمتیں دھرنے سے باز رہا کہ کہیں میرا کوئی جھوٹ اس پر کھل نہ جائے پھر تو یہ میری بات کو جھٹلا دے گا اور بڑی ندامت ہوگی۔ اسی وقت دل میں خیال آگیا اور میں نے کہا بادشاہ سلامت سنئے میں ایک واقعہ بیان کروں جس سے آپ پر یہ بات کھل جائے گی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑے جھوٹے آدمی ہیں سنئے ایک دن وہ کہنے لگا کہ اس رات وہ مکہ سے چلا اور آپ کی اس مسجد میں یعنی بیت المقدس کی مسجد قدس میں آیا اور پھر واپس صبح سے پہلے مکہ پہنچ گیا۔ میری یہ بات سنتے ہی بیت المقدس کا لاٹ پادری جو شاہ روم کی اس مجلس میں اس کے پاس پڑی عزت سے بیٹھا تھا فورا ہی بول اٹھا کہ یہ بالکل سچ ہے مجھے اس رات کا علم ہے۔ قیصر نے تعجب خیز نظر سے اس کی طرف دیکھا اور ادب سے پوچھا جناب کو کیسے معلوم ہوا ؟ اس نے کہا سنئے میری عادت تھی اور یہ کام میں نے اپنے متعلق کر رکھا تھا کہ جب تک مسجد شریف کے تمام دروازے اپنے ہاتھ سے بند نہ کروں سوتا نہ تھا۔ اس رات میں دروازے بند کرنے کو کھڑا ہوا سب دروازے اچھی طرح بند کر دئے لیکن ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہوسکا۔ میں نے ہرچند زور لگایا لیکن کو اڑ اپنی جگہ سے سرکا بھی نہیں میں نے اسی وقت اپنے آدمیوں کو آواز دی وہ آئے ہم سب نے مل کر طاقت لگائی لیکن سب کے سب ناکام رہے۔ بس یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا ہم کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے سرکانا چاہتے ہیں لیکن اس کا پہیہ تک بھی تو نہیں ہلا۔ میں نے بڑھئی بلوائے انہوں نے بہت ترکیبیں کیں، کوششیں کیں لیکن وہ بھی ہار گئے اور کہنے لگے صبح پر رکھئے چناچہ وہ دروازہ اس شب یونہی رہا دونوں کواڑ بالکل کھلے رہے۔ صبح ہی جب میں اسی دروازے کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس کے پاس کونے میں جو چٹان پتھر کی تھی اس میں ایک سوراخ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رات کو کسی نے کوئی جانور باندھا ہے اس کے اثر اور نشان موجود تھے۔ میں سمجھ گیا اور میں نے اسی وقت اپنی جماعت سے کہا کہ آج کی رات ہماری یہ مسجد کسی نبی کے لئے کھلی رکھی گئی اور اس نے یہاں ضرور نماز ادا کی ہے۔ یہ حدیث بہت لمبی ہے۔
" فائدہ "
حضرت ابو الخطاب عمر بن وحیہ اپنی کتاب التنویر فی مولد السراج المنیر میں حضرت انس (رض) کی روایت سے معراج کی حدیث وارد کر کے اس کے متعلق نہایت عمدہ کلام کر کے پھر فرماتے ہیں معراج کی حدیث متواتر ہے۔ حضرت عمر بن خطاب، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابوذر، حضرت مالک بن صعصعہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابو سعید، حضرت ابن عباس، حضرت شداد بن اوس، حضرت ابی بن کعب، حضرت عبد الرحمن بن قرظ، حضرت ابو حبہ، حضرت ابو لیلی، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت جابر، حضرت حذیفہ، حضرت بریدہ، حضرت ابو ایوب، حضرت ابو امامہ، حضرت سمرہ بن جندب، حضرت ابو الخمراء، حضرت صہیب رومی، حضرت ام ہانی، حضرت عائشہ، اور حضرت اسماء وغیرہ سے مروی ہے (رض) اجمعین۔ ان میں سے بعض نے تو اسے مطول بیان کیا ہے اور بعض نے مختصر۔ گو ان میں سے بعض روایتیں سندا صحیح نہیں لیکن بالجملہ صحت کے ساتھ واقعہ معراج ثابت ہے اور مسلمان اجماعی طور پر اس کے قائل ہیں ہاں بیشک زندیق اور ملحد لوگ اس کے منکر ہیں وہ اللہ کے نوارانی چراغ کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے یہں۔ لیکن وہ پوری روشنی کے ساتھ چمکتا ہوا ہی رہے گا کافروں کو برا لگے۔