اور تم کسی جان کو قتل مت کرنا جسے (قتل کرنا) اﷲ نے حرام قرار دیا ہے سوائے اس کے کہ (اس کا قتل کرنا شریعت کی رُو سے) حق ہو، اور جو شخص ظلماً قتل کردیا گیا تو بیشک ہم نے اس کے وارث کے لئے (قصاص کا) حق مقرر کر دیا ہے سو وہ بھی (قصاص کے طور پر بدلہ کے) قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے، بیشک وہ (اﷲ کی طرف سے) مدد یافتہ ہے (سو اس کی مدد و حمایت کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی)،
English Sahih:
And do not kill the soul [i.e., person] which Allah has forbidden, except by right. And whoever is killed unjustly – We have given his heir authority, but let him not exceed limits in [the matter of] taking life. Indeed, he has been supported [by the law].
1 Abul A'ala Maududi
قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، اُس کی مدد کی جائے گی
2 Ahmed Raza Khan
اور کوئی جان جس کی حرمت اللہ نے رکھی ہے ناحق نہ مارو، اور جو ناحق نہ مارا جائے تو بیشک ہم نے اس کے وارث کو قابو دیا تو وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے ضرور اس کی مدد ہونی ہے
3 Ahmed Ali
اور جس جان کو قتل کرنا الله نے حرام کر دیا ہے اسے ناحق قتل نہ کرنا اور جو کوئی ظلم سے مارا جائے تو ہم نے اس کے ولی کے واسطے اختیار دے دیا ہے لہذاا قصاص میں زيادتی نہ کرے بے شک اس کی مدد کی گئی ہے
4 Ahsanul Bayan
اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کر دیا ہرگز ناحق قتل نہ کرنا (١) اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مار ڈالا جائے ہم نے اس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے کہ پس اسے چاہیے کہ مار ڈالنے میں زیادتی نہ کرے بیشک وہ مدد کیا گیا ہے (٢)۔
٣٣۔١ حق کے ساتھ قتل کرنے کا مطلب قصاص میں قتل کرنا ہے، جس کو انسانی معاشرے کی زندگی اور امن و سکون کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح شادی شدہ زانی اور مرتد کو قتل کرنے کا حکم ہے۔ ٣٣۔٢ یعنی مقتول کے وارثوں کو یہ حق یا غلبہ یا طاقت دی گئی ہے کہ وہ قاتل کو حاکم وقت کے شرعی فیصلہ کے بعد قصاص میں قتل کر دیں یا اس سے دیت لے لیں یا معاف کر دیں اور اگر قصاص ہی لینا ہے تو اس میں زیادتی نہ کریں کہ ایک کے بدلے میں دو یا تین چار کو مار دیں، یا اس کا مثلہ کر کے یا عذاب دے کر ماریں، مقتول کا وارث، مدد دیا گیا ہے، یعنی امرا و احکام کو اس کی مدد کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اس لئے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ یہ کہ زیادتی کا ارتکاب کر کے اللہ کی ناشکری کرے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جس کا جاندار کا مارنا خدا نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی بفتویٰ شریعت) ۔ اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیئے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتحیاب ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کردیا ہے ہرگز ناحق قتل نہ کرنا اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مار ڈاﻻ جائے ہم نے اس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے پس اسے چاہیئے کہ مار ڈالنے میں زیادتی نہ کرے بےشک وه مدد کیا گیا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جس جان کا مارنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو قتل نہ کرو۔ مگر حق کے ساتھ اور جو شخص ناحق قتل کیا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قصاص کا) اختیار دے دیا ہے پس چاہیئے کہ وہ قتل میں حد سے آگے نہ بڑھے ضرور اس کی مدد کی جائے گی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور کسی نفس کو جس کو خدا نے محترم بنایا ہے بغیر حق کے قتل بھی نہ کرنا کہ جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلہ کا اختیار دے دیتے ہیں لیکن اسے بھی چاہئے کہ قتل میں حد سے آگے نہ بڑھ جائے کہ ِس کی بہرحال مدد کی جائے گی
9 Tafsir Jalalayn
اور جس جاندار کا مارنا خدا نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی بہ فتوی شریعت) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا (کہ ظالم قاتل سے بدلا لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصور و فتحیاب ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اس آیت کریمہ کا حکم ہر اس جان کو شامل ہے جس کے قتل کو ﴿حَرَّمَ اللّٰـهُ ﴾ ’’اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے‘‘ وہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام اور مسلم ہو یا کافر معاہد ﴿إِلَّا بِالْحَقِّ﴾ ’’سوائے اس (قتل)کے جو برحق ہو‘‘ مثلاً مقتول کے قصاص میں قاتل کو قتل کرنا، شادی شدہ زانی کو قتل کرنا، مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہونے والے مرتد کو قتل کرنا اور باغی کو بغاو ت کی حالت میں قتل کرنا جبکہ اس کو قتل کئے بغیر بغاوت پر قابو نہ پایا جاسکتا ہو۔ ﴿وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا ﴾ ’’ اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے‘‘ یعنی جسے ناحق قتل کیا گیا ہو۔ ﴿ فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ﴾’’تو کی ہم نے اس کے ولی کے لئے‘‘ یہاں’’ولی‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو مقتول کے ورثاء اور عصبہ میں سے اس کے سب سے زیادہ قریب ہو۔ ﴿سُلْطَانًا﴾ ’’دلیل‘‘ یعنی ہم نے مقتول کے ولی کے لئے قاتل سے قصاص لینے کی ظاہری دلیل فراہم کردی، نیز اسے قدرتی طور پر بھی قاتل پر اختیار عطا کردیا ہے مگر یہ اس وقت ہے جب قصاص کی موجب تمام شرائط یکجاء ہوں، مثلاً ارادہ اور تعدی کے ساتھ قتل کرنا اور مقتول اور قاتل میں برابری وغیرہ۔ ﴿فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ﴾ ’’پس وہ قتل (کے قصاص)میں زیادتی نہ کرے۔‘‘ یعنی ولی قاتل کے قتل میں اسراف سے کام نہ لے۔ یہاں ’’اسراف‘‘ سے مراد یہ ہے کہ مقتول کا ولی قاتل کو قتل کرنے میں حد سے تجاوز کرے۔ (اس اسراف کی تین صورتیں ہیں۔) (1) ولی قاتل کا مثلہ کرے۔(یعنی اسے ایذا دے دے کر مارے، ناک کاٹے، کان کاٹے، وغیرہ وغیرہ) (2) ولی قاتل کو کسی ایسی چیز کے ذریعے سے قتل کرے جس کے ذریعے سے مقتول کو قتل نہ کیا گیا ہو۔ (3) قاتل کو چھوڑ کر کسی اور کو قتل کردیا جائے۔ اس آیت کریمہ میں دلیل ہے کہ صرف ولی کو قصاص لینے کا حق ہے اور ولی کی اجازت کے بغیر قصاص نہیں لیا جاسکتا۔ اگر ولی قاتل کو معاف کر دے تو قصاص ساقط ہوجاتا ہے، نیز اس میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ قاتل اور اس کے مددگاروں کے مقابلے میں مقتول کے ولی کی مدد کرتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jiss jaan ko Allah ney hurmat ata ki hai , ussay qatal naa kero , illa yeh kay tumhen ( sharann ) uss ka haq phonchta ho . aur jo shaks mazloomana tor per qatal hojaye to hum ney uss kay wali ko ( qisaas ka ) ikhtiyar diya hai . chunacheh uss per lazim hai kay woh qatal kernay mein hadd say tajawuz naa keray . yaqeenan woh iss laeeq hai kay uss ki madad ki jaye .
12 Tafsir Ibn Kathir
ناحق قتل بغیر حق شرعی کے کسی کو قتل کرنا حرام ہے۔ بخاری مسلم میں ہے جو مسلمان اللہ کے واحد ہونے کی اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو اس کا قتل تین باتوں کے سوا حلال نہیں۔ یا تو اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا شادی شدہ ہو اور پھر زنا کیا ہو یا دین کو چھوڑ کر جماعت کو چھوڑ دیا ہو۔ سنن میں ہے ساری دنیا کا فنا ہوجانا اللہ کے نزدیک ایک مومن کی قتل سے زیادہ آسان ہے۔ اگر کوئی شخص ناحق دوسرے کے ہاتھوں قتل کیا گیا ہے تو اس کے وارثوں کو اللہ تعالیٰ نے قتل پر غالب کردیا ہے۔ اسے قصاص لینے اور دیت لینے اور بالکل معاف کردینے میں سے ایک کا اختیار ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کریمہ کے عموم سے حضرت معاویہ کی سلطنت پر استدلال کیا ہے کہ وہ بادشاہ بن جائیں گے اس لئے کہ حضرت عثمان (رض) انتہائی مظلومی کے ساتھ شہید کئے گئے تھے۔ حضرت معاویہ (رض) قاتلان حضرت عثمان (رض) کو حضرت علی (رض) سے طلب کرتے تھے کہ ان سے قصاص لیں اس لئے کہ یہ بھی اموی تھے اور حضرت عثمان (رض) بھی اموی تھے۔ حضرت علی (رض) اس میں ذرا ڈھیل کررہے تھے۔ ادھر حضرت علی (رض) کا مطالبہ حضرت معاویہ (رض) سے یہ تھا کہ ملک شام ان کے سپرد کردیں۔ حضرت معاویہ (رض) فرماتے ہیں تاوقتیکہ آپ قاتلان عثمان (رض) کو نہ دیں میں ملک شام کو آپ کی زیر حکومت نہ کروں گا چناچہ آپ نے مع کل اہل شام کے بیعت علی (رض) سے انکار کردیا۔ اس جھگڑے نے طول پکڑا اور حضرت معاویہ (رض) شام کے حکمران بن گئے۔ معجم طبرانی میں یہ روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے رات کی گفتگو میں ایک دفعہ فرمایا کہ آج میں تمہیں ایک بات سناتا ہوں نہ تو وہ ایسی پوشیدہ ہے، نہ ایسی علانیہ حضرت عثمان (رض) کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، اس وقت میں نے حضرت علی (رض) کو مشورہ دیا کہ آپ یکسوئی اختیار کرلیں، واللہ اگر آپ کسی پتھر میں چھپے ہوئے۔ ہوں گے تو نکال لئے جائیں گے لیکن انہوں نے میری نہ مانی۔ اب ایک اور سنو اللہ کی قسم معاویہ تم پر بادشاہ ہوجائیں گے، اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے، جو مظلوم مار ڈالا جائے، ہم اس کے وارثوں کو غلبہ اور طاقت دیتے ہیں۔ پھر انہیں قتل کے بدلے میں قتل میں حد سے نہ گزرنا چاہئے الخ۔ سنو یہ قریشی تو تمہیں فارس و روم کے طریقوں پر آمادہ کردیں گے اور سنو تم پر نصاری اور یہود اور مجوسی کھڑے ہوجائیں گے اس وقت جس نے معروف کو تھام لیا اس نے نجات پا لی اور جس نے چھوڑ دیا اور افسوس کہ تم چھوڑنے والوں میں سے ہی ہو تو مثل ایک زمانے والوں کے ہوؤگے کہ وہ بھی ہلاک ہونے والوں میں ہلاک ہوگئے۔ اب فرمایا ولی کو قتل کے بدلے میں حد سے نہ گزر جانا چاہئے کہ وہ قتل کے ساتھ مثلہ کرے۔ کان، ناک، کاٹے یا قتل کے سوا اور سے بدلہ لے۔ ولی مقتول شریعت، غلبے اور مقدرت کے لحاظ سے ہر طرح مدد کیا گیا ہے۔