وَمَا مَنَعَنَاۤ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰيٰتِ اِلَّاۤ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَۗ وَاٰتَيْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَاۗ وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰيٰتِ اِلَّا تَخْوِيْفًا
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اور ہم کو نشانیاں بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ اِن سے پہلے کے لوگ اُن کو جھٹلا چکے ہیں (چنانچہ دیکھ لو) ثمود کو ہم نے علانیہ اونٹنی لا کر دی اور اُنہوں نے اس پر ظلم کیا ہم نشانیاں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں
English Sahih:
And nothing has prevented Us from sending signs [i.e., miracles] except that the former peoples denied them. And We gave Thamud the she-camel as a visible sign, but they wronged her. And We send not the signs except as a warning.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اور ہم کو نشانیاں بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ اِن سے پہلے کے لوگ اُن کو جھٹلا چکے ہیں (چنانچہ دیکھ لو) ثمود کو ہم نے علانیہ اونٹنی لا کر دی اور اُنہوں نے اس پر ظلم کیا ہم نشانیاں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور ہم ایسی نشانیاں بھیجنے سے یوں ہی باز رہے کہ انہیں اگلوں نے جھٹلایا اور ہم نے ثمود کو ناقہ دیا آنکھیں کھولنے کو تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم ایسی نشانیاں نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کو
احمد علی Ahmed Ali
اور ہم نے اس لیےمعجزات بھیجنے موقوف کر دیےکہ پہلوں نے انہیں جھٹلایا تھا اور ہم نے ثمود کو اونٹنی کا کھلا ہوا معجزہ دیا تھا پھر بھی انہوں نے اس پر ظلم کیا اور یہ معجزات تو ہم محض ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
ہمیں نشانات (معجزات) کے نازل کرنے سے روک صرف اسی کی ہے کہ اگلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں (١) ہم نے ثمودیوں کو بطور بصیرت کے اونٹنی دی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا (٢) ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانی بھیجتے ہیں۔
٥٩۔١ یہ آیت اس وقت اتری جب کفار مکہ نے مطالبہ کیا کوہ صفا کو سونے کا بنا دیا جائے یا مکے کے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دیئے جائیں تاکہ وہاں کاشت کاری ممکن ہو سکے، جس پر اللہ تعالٰی نے جبرائیل کے ذریعے سے پیغام بھیجا کہ ان کے مطالبات ہم پورے کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن اگر اس کے بعد بھی وہ ایمان نہ لائے تو پھر ان کی ہلاکت یقینی ہے۔ پھر انہیں مہلت دی جائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کو پسند فرمایا کہ ان کا مطالبہ پورا نہ کیا جائے تاکہ یہ ہلاکت سے بچ جائیں، اس آیت میں بھی اللہ تعالٰی نے یہی مضمون بیان فرمایا کہ ان کی خواہش کے مطابق نشانیاں اتار دینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں۔ لیکن ہم اس سے گریز اس لئے کر رہے ہیں کہ پہلی قوموں نے بھی اپنی خواہش کے مطابق نشانیاں مانگیں جو انہیں دکھا دی گئیں، لیکن اس کے باوجود انہوں نے تکذیب کی اور ایمان نہ لائے، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک کر دی گئیں۔
٥٩۔٢ قوم ثمود کا بطور مثال تذکرہ کیا کیونکہ ان کی خواہش پر پتھر کی چٹان سے اونٹنی ظاہر کر کے دکھائی گئی تھی، لیکن ان ظالموں نے، ایمان لانے کی بجائے، اس اونٹنی ہی کو مار ڈالا، جس پر تین دن کے بعد ان پر عذاب آگیا۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے نشانیاں بھیجنی اس لئے موقوف کردیں کہ اگلے لوگوں نے اس کی تکذیب کی تھی۔ اور ہم نے ثمود کو اونٹنی (نبوت صالح کی کھلی) نشانی دی۔ تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم جو نشانیاں بھیجا کرتے ہیں تو ڈرانے کو
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
ہمیں نشانات (معجزات) کے نازل کرنے سے روک صرف اسی کی ہے کہ اگلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں۔ ہم نے ﺛمودیوں کو بطور بصیرت کے اونٹنی دی لیکن انہوں نے اس پر ﻇلم کیا ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور (منکرین کی مطلوبہ) نشانیاں بھیجنے سے ہمیں کسی چیز نے نہیں روکا۔ مگر اس بات نے کہ پہلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں۔ اور ہم نے قومِ ثمود کو ایک (خاص) اونٹنی دی جوکہ روشن نشانی تھی۔ تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم نشانیاں صرف ڈرانے کیلئے بھیجتے ہیں۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہمارے لئے منہ مانگی نشانیاں بھیجنے سے صرف یہ بات مانع ہے کہ پہلے والوں نے تکذیب کی ہے اور ہلاک ہوگئے ہیں اور ہم نے قوم ثمود کو ان کی خواہش کے مطابق اونٹنی دے دی جو ہماری قدرت کو روشن کرنے والی تھی لیکن ان لوگوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم تو نشانیوں کو صرف ڈرانے کے لئے بھیجتے ہیں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور ہم کو (اب بھی ان کے مطالبہ پر) نشانیاں بھیجنے سے (کسی چیز نے) منع نہیں کیا سوائے اس کے کہ ان ہی (نشانیوں) کو پہلے لوگوں نے جھٹلا دیا تھا (سو اس کے بعد وہ فوراً تباہ و برباد کر دیئے گئے اور کوئی مہلت باقی نہ رہی، اے حبیب! ہم آپ کی بِعثت کے بعد آپ کی قوم سے یہ معاملہ نہیں کرنا چاہتے)، اور ہم نے قومِ ثمود کو (صالح علیہ السلام کی) اونٹنی (کی) کھلی نشانی دی تھی تو انہوں نے اس پر ظلم کیا، اور ہم نشانیاں نہیں بھیجا کرتے مگر (عذاب کی آمد سے قبل آخری بار) خوفزدہ کرنے کے لئے (پھر جب اس نشانی کا انکار ہو جاتا ہے تو اسی وقت تباہ کن عذاب بھیج دیا جاتا ہے)،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
عجیب و غریب مانگ
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے کافروں نے آپ سے کہا کہ حضرت آپ کے پہلے کے انبیاء میں سے بعض کے تابع ہوا تھی، بعض مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے، وغیرہ۔ اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم بھی آپ پر ایمان لائیں تو آپ اس صفا پہاڑ کو سونے کا کر دیئجے، ہم آپ کی سچائی کے قائل ہوجائیں گے۔ آپ پر وحی آئی کہ اگر آپ کی بھی یہی خواہش ہو تو میں اس پہاڑ کو ابھی سونے کا بنا دیتا ہوں۔ لیکن یہ خیال رہے کہ اگر پھر بھی یہ ایمان نہ لائے تو اب انہیں مہلت نہ ملے گی، فی الفور عذاب آجائے گا اور تباہ کر دئے جائیں گے۔ اور اگر آپ کو انہیں تاخیر دینے اور سوچنے کا موقع دینا منظور ہے تو میں ایسا کروں۔ آپ نے فرمایا اے اللہ میں انہیں باقی رکھنے میں ہی خوش ہوں۔ مسند میں اتنا اور بھی ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ باقی کی اور پہاڑیاں یہاں سے کھسک جائیں تاکہ ہم یہاں کھیتی باڑی کرسکیں۔ الخ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے دعا مانگی، جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور کہا آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو صبح کو ہی یہ پہاڑ سونے کا ہوجائے لیکن اگر پھر بھی ان میں سے کوئی ایمان نہ لایا تو اسے وہ سزا ہوگی جو اس سے پہلے کسی کو نہ ہوئی ہو اور اگر آپ کا ارادہ ہو تو میں ان پر توبہ اور رحمت کے دروازے کھلے چھوڑوں۔ آپ نے دوسری شق اختیار کی۔ مسند ابو یعلی میں ہے کہ آیت ( وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ\021\04ۙ ) 26 ۔ الشعراء ;214) جب اتری تو تعمیل ارشاد کے لئے جبل ابی قبیس پر چڑھ گئے اور فرمانے لگے اے بنی عبد مناف میں تمہیں ڈرانے والا ہوں۔ قیش یہ آواز سنتے ہی جمع ہوگئے پھر کہنے لگے سنئے آپ نبوت کے مدعی ہیں۔ سلیمان نبی (علیہ السلام) کے تابع ہوا تھی، موسیٰ نبی (علیہ السلام) کے تابع دریا ہوگیا تھا، عیسیٰ نبی (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے۔ تو بھی نبی ہے اللہ سے کہہ کہ یہ پہاڑ یہاں سے ہٹوا کر زمین قابل زراعت بنا دے تاکہ ہم کھیتی باڑی کریں۔ یہ نہیں تو ہمارے مردوں کی زندگی کی دعا اللہ سے کر کہ ہم اور وہ مل کر بیٹھیں اور ان سے باتیں کریں۔ یہ بھی نہیں تو اس پہاڑ کو سونے کا بنوا دے کہ ہم جاڑے اور گرمیوں کے سفر سے نجات پائیں اسی وقت آپ پر وحی اترنی شروع ہوگئی اس کے خاتمے پر آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم نے جو کچھ مجھ سے طلب کیا تھا مجھے اس کے ہوجانے میں اور اس بات میں کہ دروازہ رحمت میں چلے جاؤ، اختیار دیا گیا کہ ایمان اسلام کے بعد تم رحمت الہٰی سمیٹ لو یا تم یہ نشانات دیکھ لو لیکن پھر نہ مانو تو گمراہ ہوجاؤ اور رحمت کے دروازے تم پر بند ہوجائیں تو میں تو ڈر گیا اور میں نے در رحمت کا کھلا ہونا ہی پسند کیا۔ کیونکہ دوسری صورت میں تمہارے ایمان نہ لانے پر تم پر وہ عذاب اترتے جو تم سے پہلے کسی پر نہ اترے ہوں اس پر یہ آیتیں اتریں۔ اور آیت ( وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰى 31 ) 13 ۔ الرعد ;31) ، نازل ہوئی یعنی آیتوں کے بھیجنے اور منہ مانگے معجزوں کے دکھانے سے ہم عاجز تو نہیں بلکہ یہ ہم پر بہت آسان ہے جو تیری قوم چاہتی ہے، ہم انہیں دکھا دیتے لیکن اس صورت میں ان کے نہ ماننے پر پھر ہمارے عذاب نہ رکتے۔ اگلوں کو دیکھ لو کہ اسی میں برباد ہوئے۔ چناچہ سورة مائدہ میں ہے کہ میں تم پر دستر خوان اتار رہا ہوں لیکن اس کے بعد جو کفر کرے گا اسے ایسی سزا دی جائے گی جو اس سے پہلے کسی کو نہ ہوئی ہو۔ ثمودیوں کو دیکھو کہ انہوں نے ایک خاص پتھر میں اسے اونٹنی کا نکلنا طلب کیا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعا پر وہ نکلی لیکن وہ نہ مانے بلکہ اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں، رسول کو جھٹلاتے رہے، جس پر انہیں تین دن کی مہلت ملی اور آخر غارت کر دئے گئے۔ ان کی یہ اونٹنی بھی اللہ کی وحدانیت کی ایک نشانی تھی اور اس کے رسول کی صداقت کی علامت تھی۔ لیکن ان لوگوں نے پھر بھی کفر کیا، اس کا پانی بند کیا بالاخر اسے قتل کردیا، جس کی پاداش میں سب مار ڈالے گئے اور اللہ زبردست کی پکڑ میں آگئے، آیتیں صرف دھمکانے کے لئے ہوتی ہیں کہ وہ عبرت و نصیحت حاصل کرلیں۔ مروی ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) کے زمانے میں کوفے میں زلزلہ آیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم اس کی جانب جھکو، تمہیں فورا اس کی طرف متوجہ ہوجانا چاہئے۔ حضرت عمر (رض) کے زمانے میں مدینہ شریف میں کئی بار جھٹکے محسوس ہوئے تو آپ نے فرمایا واللہ تم نے ضرور کوئی نئی بات کی ہے، دیکھو اگر اب ایسا ہوا تو میں تمہیں سخت سزائیں دونگا۔ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا سورج چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان میں کسی کی موت وحیات سے گرہن نہیں لگتا بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے بندوں کو خوفزدہ کردیتا ہے، جب تم یہ دیکھو تو ذکر اللہ دعا اور استغفار کی طرف جھک پڑو۔ اے امت محمد واللہ اللہ سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں کہ اس کے لونڈی غلام زنا کاری کریں۔ اے امت محمد واللہ جو میں جانتا ہوں، اگر تم جانتے تو بہت کم ہنستے زیادہ روتے۔