الکہف آية ۱۳
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَـقِّۗ اِنَّهُمْ فِتْيَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنٰهُمْ هُدًىۖ
طاہر القادری:
(اب) ہم آپ کو ان کا حال صحیح صحیح سناتے ہیں، بیشک وہ (چند) نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کے لئے (نورِ) ہدایت میں اور اضافہ فرما دیا،
English Sahih:
It is We who relate to you, [O Muhammad], their story in truth. Indeed, they were youths who believed in their Lord, and We increased them in guidance.
1 Abul A'ala Maududi
ہم ان کا اصل قصہ تمہیں سناتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی
2 Ahmed Raza Khan
ہم ان کا ٹھیک ٹھیک حال تمہیں سنائیں، وہ کچھ جوان تھے کہ اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کو ہدایت بڑھائی،
3 Ahmed Ali
ہم تمہیں ان کا صحیح حال سناتے ہیں بے شک وہ کئی جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انہیں اور زيادہ ہدایت دی
4 Ahsanul Bayan
ہم ان کا صحیح واقعہ تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں۔ یہ چند نوجوان (١) اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی دی تھی۔
١٣۔١ اب اختصار کے بعد تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ یہ نوجوان، بعض کہتے ہیں عیسائیت کے پیروکار تھے اور بعض کہتے ہیں ان کا زمانہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے کا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا، دقیانوس، جو لوگوں کو بتوں کی عبادت کرنے اور ان کے نام کی نذر نیاز دینے کی ترغیب دیتا تھا۔ اللہ تعالٰی نے ان کے چند نوجوانوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ عبادت کے لائق تو صرف ایک اللہ ہی ہے جو آسمان و زمین کا خالق اور کائنات کا رب ہے۔ فِتْیِۃ جمع قلت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے ان کی تعداد ٩ یا اس سے بھی کم تھی۔ یہ الگ ہو کر کسی ایک جگہ اللہ واحد کی عبادت کرتے، آہستہ آہستہ لوگوں میں ان کے عقیدہ کا چرچا ہوا، تو بادشاہ تک بات پہنچ گئی اور اس نے انہیں اپنے دربار میں طلب کر کے ان سے پوچھا، تو وہاں انہوں نے برملا اللہ کی توحید بیان کی بالآخر پھر بادشاہ اور اپنی مشرک قوم کے ڈر سے اپنے دین کو بچانے کے لئے آبادی سے دور ایک پہاڑ کے غار میں پناہ گزین ہوگئے، جہاں اللہ تعالٰی نے ان پر نیند مسلط کر دی اور وہ تین سو نو (٣٠٩) سال وہاں سوئے رہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ہم اُن کے حالات تم سے صحیح صحیح بیان کرتے ہیں۔ وہ کئی جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو اور زیادہ ہدایت دی تھی
6 Muhammad Junagarhi
ہم ان کا صحیح واقعہ تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں۔ یہ چند نوجوان اپنے رب پر ایمان ﻻئے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی دی تھی
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) ہم آپ کو ان کا اصل قصہ سناتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کر دیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ہم آپ کو ان کے واقعات بالکل سچے سچے بتارہے ہیں-یہ چند جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا تھا
9 Tafsir Jalalayn
ہم ان کے حالات تم کو صحیح صحیح بیان کرتے ہیں وہ کئی جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو اور زیادہ ہدایت دی تھی۔
آیت نمبر 13 تا 17
ترجمہ : ہم آپ کو ان کا صحیح قصہ سناتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی دی تھی اور ہم نے ان کے دل قوی کر دئیے تھے یعنی حق بات کہنے کے لئے قوی کر دئیے تھے جب وہ اپنے بادشاہ کے سامنے کھڑے ہوئے اور اس بادشاہ نے ان کو بتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہمارا پروردگار تو وہی ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار ہے ہم اس کو چھوڑ کر کسی غیر کی ہرگز بندگی نہ کریں گے اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم نے نہایت ہی غلط بات کی یعنی حد سے گزری ہوئی حرکت کی یعنی بالفرض اگر ہم نے اللہ کے علاوہ کسی غیر کی بندگی کی تو ہم کفر میں حد سے تجاوز کرنے والے ہوں گے یہ ہماری قوم ہے جس نے معبود حقیقی کو چھوڑ کر دوسرے معبود ٹھہرائے ہیں ھٰؤلاء مبتداء ہے قومنا عطف بیان ہے وہ ان پر یعنی ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے ؟ یعنی کوئی کھلی دلیل، اس سے بڑا ظالم کون ہوگا یعنی اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں، جو اس کی طرف شریک کی نسبت کر کے اللہ پر بہتان باندھے، نوجوانوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا جب تم نے ان عابدین کو اور اللہ کے علاوہ ان کے معبودوں کو چھوڑ دیا ہے تو اب کسی غار میں پناہ لو، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لئے تمہارے کام میں سہولت مہیا کر دے گا، مرفقًا میم کے کسرہ اور فاء کے فتحہ کے ساتھ ہے اور اس کا عکس بھی، وہ صبح وشام کا کھانا کہ جس سے تم فائدہ اٹھاؤ گے اور جب سورج ہوتا ہے تو (اے مخاطب) تو دیکھے گا کہ وہ ان کی غار کی دائیں جانب کتراتا ہوا نکل جاتا ہے تَذ اؤ ر تشدید اور بلاتشدید دونوں (درست ہے) اور جب ڈھلتا ہے تو ان سے بائیں جانب بچ کر نکل جاتا ہے یعنی ان کو چھوڑ کر کترا کر نکل جاتا ہے، جس کی وجہ سے یقیناً ان پر دھوپ نہیں پڑتی، حال یہ ہے کہ وہ غار کے کشادہ مقام میں ہیں کہ جہاں ان کو ٹھنڈی ہوا اور باد نسیم پہنچتی رہتی ہے یہ یعنی مذکور حالات اس کی نشانیاں یعنی اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں، وہ جس کی چاہے رہبری فرمائے وہ راست پر ہے اور وہ جسے گمراہ کر دے ناممکن ہے کہ آپ اس کا کوئی کارساز اور رہنما پاسکیں۔
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
فِتْیَۃ ٌ کی جمع ہے جیسا کہ صِبْیَۃ ٌ صَبِیّ کی جمع۔ نوجوان قولہ بالحق متلبسأ کے متعلق ہو کر یا تو نَقُصُّ کے فاعل سے حال ہے یا نَبَاَ مفعول سے حال ہے اِنَّھُمْ فِتْیَۃ ٌ جملہ مستانفہ ہے یعنی ما ھو الخبر الصادق کا جواب ہے آمنوا بِرَبِّھِمْ جملہ ہو کر فتیۃ کی صفت ہے قولہ ربطنا (ن) ربطًا باندھنا، قوی کرنا لَنْ نَدْعُوْا فعل مضارع منصوب بلن جمع متکلم آخر میں واؤ جمع کا نہیں ہے بلکہ لام کلمہ ہے واو جمع کے مشابہ ہونے کی وجہ سے رسم قرآنی کے مطابق اس کے آخر میں الف لکھا جاتا ہے مگر پڑھا نہیں جاتا اور نہ پڑھنے کی علامت کے طور پر اس کے اوپر ایک چھوٹا سا گول دائرہ بنادیا جاتا ہے (یعنی) ہرگز نہیں پکاریں گے قولہ شَطَطًا (ن، ض) شطًّا حد سے تجاوز کرنا حق سے بعید ہونا اِذْقَامُوْا، رَبَطْنَا کا ظرف ہے فَأؤا میں فا جرائیہ ہے اور اِذِا اعْتَذَلْتُمُوْھُمٌ الخ شرط ہے واؤ اشباع کا ہے قولہ قولاً ذا شطط کا اضافہ اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کیا ہے کہ شططاً حذف مضاف کے ساتھ مصدریت کی وجہ سے منصوب ہے اور اس کا موصوف قولاً محذوف ہے اور اگر ذَا محذوف نہ مانیں تو مصدر کا حمل مبالغۃ ً ہوگا جیسا کہ زید ٌ عدلٌ میں ہے قولہ فرضًا، فرضًا کا اضافہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ غیر اللہ کی بندگی کرنے کا کسی قسم کا امکان نہیں ہے نہ عقلی نہ شرعی اور نہ اخلاقی اگر بفرض المحال ایسا ہو بھی جائے تو یہ بڑی بےجا بات ہوگی قولہ ھٰؤلاء مبتداء ہے اور اِتَّخَذ ُ وْا من دون اللہ اس کی خبر ہے لو لا کی تفسیر ھَلاً سے کر کے اشارہ کردیا کہ لَوْلاَ تحضیضیہ ہے قَومَنَا، ھٰؤلائ سے عطف بیان ہے نیز بدل بھی ہوسکتا ہے قولہ تَذ َا وَرُ اصل میں تَتَز َاوَرُ تھا ایک تا حذف کردی گئی (فعل مضارع واحد مؤنث غائب) قوم کا آپس میں ایک دوسرے کی زیارت کرنا اور اگر اس کا صلہ عن ہو تو انحراف کرنا اور اگر اصل تَذ َاوَرُ ہو تو ایک تا کو زا کیا اور زا کو زا میں ادغام کردیا تَقْرِضُھُمْ مضارع واحد مؤنث غائب، قرضاً کاٹنا، کترانا، بچ کر نکل جانا ذَاتَ ذو کا مؤنث ہے، آیت میں ذات کا لفظ زائدہ ہے زینت کلام کیلئے ہے قولہ ذات الیمین وذات الشِّمال تَذ َاوَرُ کا ظرف مکان ہے قولہ ناحیتَہٗ اس کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذات الیمین اور ذات الشمال ظرف مکان ہیں، ای جھت الیمین وجھت الشمال وھم فی فجوۃٍ جملہ حالیہ ہے قولہ مَنْ یھد اللہ فھو المھتد یہ جملہ درمیان قصہ میں معترضہ ہے، مقصد آپ کو تسلی دینا ہے۔
تفسیر و تشریح
اولاً اصحاب کہف کا قصہ اجمالاً بیان فرمایا اب نحن نقُصُّ سے تفصیلاً بیان فرماتے ہیں، ارشاد فرمایا ہم آپ سے اصحاب کہف کا قصہ صحیح صحیح بیان کرتے ہیں مطلب یہ ہے کہ قرآنی بیان میں کوئی بات خلاف واقعہ نہیں ہے، اور ہو بھی کیسے سکتی ہے قرآن تو خالق کا ئنات کا کلام ہے جو کائنات کے ہر ذرہ سے واقف ہے البتہ لوگوں میں اصحاب کہف کا واقعہ مختلف طریقوں سے مشہور ہے ان میں صحیح وہ ہے جو ہم بیان کر رہے ہیں، وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی بخشی تھی، یہ چند نوجوان ایک ظالم بادشاہ دقیانوس کے زمانہ میں تھے، بادشاہ غالی متعصب اور بت پرست تھا، اور جبروا کراہ کے ذریعہ بت پرستی کی اشاعت کرتا تھا ان نوجوانوں نے سچادین قبول کرلیا تھا، ان نوجوانوں کا تعلق اونچے گھرانوں اور عمائدین سلطنت سے تھا، حق تعالیٰ نے ان کو ایمان کی دولت سے نوازا تھا، یہ نوجوان کس مذہب پر تھے ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ دین مسیحی پر تھے، لیکن علامہ ابن کثیرنے مختلف قرائن سے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ مسیح (علیہ السلام) سے پہلے کا ہے مگر صحیح اور راجح بات یہ ہے کہ یہ واقعہ پہلی صدی عیسوی کا ہے۔ (مزید تحقیق کے لئے قصص القرآن کی طرف رجوع کریں) ۔
غرض کہ ان نوجوانوں کو شاہی دربار میں طلب کیا گیا ان نوجوانوں نے بےجھجک بغیر کسی خوف وہراس کے ظالم بادشاہ کے روبرو اپنے ایمان کا اعلان کردیا، اور اپنی ایمانی جرأت سے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا، ارشاد ربانی ہے |" اور ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دئیے جب وہ دربار میں بادشاہ کے روبرو جواب دہی یا دعوت دین دینے کے لئے کھڑے ہوئے تھے، تو انہوں نے اپنے پروردگار سے یوں دعا کی، اے ہمارے پروردگار تو ہی ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار ہے ہم تجھ کو چھوڑ کر کسی غیر کی بندگی نہ کریں گے، اور اگر ہم ایسا کریں تو یقیناً بہت بےجا بات کرنے والے ہوں گے۔
یہ ہماری قوم جو معبود حقیقی کو چھوڑ کر دوسرے فرضی معبودوں کو اختیار کئے ہوئے ہے یہ ان کے معبود حقیقی ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں پیش نہیں کرتی ؟ لہٰذا اس سے بڑا ظالم کوئی ہو ہی نہیں سکتا جو اللہ پر بہتان باندھے نوجوانوں کی یہ بات سن کر بادشاہ کو ان کی نوجوانی پر کچھ رحم آیا اور کچھ دیگر مشاغل مانع ہوئے اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ عمائدین سلطنت اور بڑے گھرانوں کے چشم چراغ تھے اس لئے یک لخت ان پر ہاتھ ڈالنا مصلحت کے خلاف تھا اس لئے ان کو چند روز کی مہلت دے دی، تاکہ وہ اپنے معاملہ میں غور کرلیں۔
ادھر یہ نوجوان دربار سے نکل کر مشورہ کے لئے بیٹھ گئے، اور یہ طے کیا کہ اب اس شہر میں قیام خطرہ سے خالی نہیں، مناسب یہ ہے کہ کسی قریبی غار میں روپوش ہوجائیں، اور واپسی کے لئے کسی مناسب وقت کا انتظار کریں۔
10 Tafsir as-Saadi
یہاں سے اصحاب کہف کے واقعہ کی تفصیل شروع ہوتی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اس قصے کو حق اور صداقت کے ساتھ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بیان کرتا ہے جس میں کسی لحاظ سے کوئی شک و شبہ نہیں۔ ﴿ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ ﴾ ” وہ چند نوجوان تھے جو اپنے rب پر ایمان لائے“ )فِتْيَةٌ( جمع قلت ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ نوجوان تعداد میں دس سے کم تھے۔ وہ اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لائے مگر ان کی قوم ایمان نہ لائی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کی قدر کی اور ان کی ہدایت میں اضافہ کیا، یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے راہ ایمان پر گامزن ہونے کے سبب سے ان کی ہدایت کو اور زیادہ کردیا۔ ہدایت سے مراد علم نافع اور عمل صالح ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَيَزِيدُ اللّٰـهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى﴾ )مریم:19؍76) ” جو لوگ راہ راست اختیار کرتے ہیں اللہ ان کی راست روی اور زیادہ بڑھاتا ہے۔“
11 Mufti Taqi Usmani
hum tumharay samney unn ka waqiaa theek theek biyan kertay hain . yeh kuch nojawan thay jo apney perwerdigar per emaan laye thay , aur hum ney unn ko hidayat mein khoob taraqqi di thi ,
12 Tafsir Ibn Kathir
اصحاب کہف کا قصہ
یہاں سے تفصیل کے ساتھ اصحاب کہف کا قصہ شروع ہوتا ہے کہ یہ چند نوجوان تھے جو دین حق کی طرف مائل ہوئے اور ہدایت پر آگئے قریش میں بھی یہی ہوا تھا کہ جوانوں نے تو حق کی آواز پر لبیک کہی تھی لیکن بجز چند کے اور بوڑھے لوگ اسلام کی طرف جرات سے مائل نہ ہوئے کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض کے کانوں میں بالے تھے یہ متقی مومن اور راہ یافتہ نوجوانوں کی جماعت تھی اپنے رب کی وحدانیت کو مانتے تھے اس کی توحید کے قائل ہوگئے تھے اور روز بروز ایمان و ہدایت میں بڑھ رہے تھے۔ یہ اور اس جیسی اور آیتوں اور احادیث سے استدلال کر کے امام بخاری (رح) وغیرہ محدثین کرام کا مذہب ہے کہ ایمان میں زیادتی ہوتی ہے۔ اس میں مرتبے ہیں، یہ کم و بیش ہوتا رہتا ہے۔ یہاں ہے ہم نے انہیں ہدایت میں بڑھا دیا اور جگہ ہم آیت ( وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَّاٰتٰىهُمْ تَقْوٰىهُمْ 17) 47 ۔ محمد :17) ہدایت والوں کو ہدایت بڑھ جاتی ہے الخ اور آیت میں ہے (فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا وَّھُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ\012\04 ) 9 ۔ التوبہ :124) ایمان والوں کے ایمان کو بڑھاتی ہے الخ اور جگہ ارشاد ہے آیت ( هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ لِيَزْدَادُوْٓا اِيْمَانًا مَّعَ اِيْمَانِهِمْ ۭ وَلِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَكَان اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا ۙ ) 48 ۔ الفتح :4) تاکہ وہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ایمان میں اور بڑھ جائیں اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔ مذکور ہے کہ یہ لوگ مسیح عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے دین پر تھے واللہ اعلم۔ لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسیح (علیہ السلام) کے زمانے سے پہلے کا واقعہ ہے اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ لوگ نصرانی ہوتے تو یہود اس قدر توجہ سے نہ ان کے حالات معلوم کرتے نہ معلوم کرنے کی ہدایت کرتے۔ حالانکہ یہ بیان گزر چکا ہے قریشیوں نے اپنا وفد مدینے کے یہود کے علماء کے پاس بھیجا تھا کہ تم ہمیں کچھ بتلاؤ کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آزمائش کرلیں تو انہوں نے کہا کہ تم اصحاب کہف کا اور ذوالقرنین کا واقعہ آپ سے دریافت کرو اور روح کے تعلق سوال کرو پس معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی کتاب میں ان کا ذکر تھا اور انہیں اس واقعہ کا علم تھا جب یہ ثابت ہوا تو یہ ظاہر ہے کہ یہود کی کتاب نصرانیت سے پہلے کی ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں قوم کی مخالفت پر صبر عطا فرمایا اور انہوں نے قوم کی کچھ پرواہ نہ کی بلکہ وطن اور راحت و آرام کی بھی تج دیا۔
بعض سلف کا بیان ہے کہ یہ لوگ رومی بادشاہ کی اولاد اور روم کے سردار تھے۔ ایک مرتبہ قوم کے ساتھ عید منانے گئے تھے اس زمانے کے بادشاہ کا نام دقیانوس تھا بڑا سخت اور سرکش شخص تھا۔ سب کو شرک کی تعلیم کرتا اور سب سے بت پرستی کراتا تھا یہ نوجوان جو اپنے باپ دادوں کے ساتھ اس میلے میں گئے تھے انہوں نے جب وہاں یہ تماشا دیکھا تو ان کے دل میں خیال آیا کہ بت پرستی محض لغو اور باطل چیز ہے عبادتیں اور ذبیحہ صرف اللہ کے نام پر ہونے چاہئیں جو آسمان و زمین کا خالق مالک ہے پس یہ لوگ ایک ایک کر کے یہاں سے رکنے لگے ایک درخت تلے جا کر ان میں سے ایک صاحب بیٹھ گئے دوسرے بھی یہیں آگئے اور بیٹھ گئے تیسرے بھی آئے چوتھے بھی آئے غرض ایک ایک کر کے سب یہیں جمع ہوگئے حالانکہ ایک دوسرے میں تعارف نہ تھا لیکن ایمان کی روشنی نے ایک دوسرے کو ملا دیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ روحیں بھی ایک جمع شدہ لشکر ہیں جو روز ازل میں تعارف والی ہیں وہ یہاں مل جل کر رہتی ہیں اور جو وہیں انجان رہیں ان کا یہاں بھی ان میں اختلاف رہتا ہے (بخاری ومسلم )
عرب کہا کرتے تھے کہ جنسیت ہی میل جول کی علت ہے۔ اب سب خاموش تھے ایک کو ایک سے ڈر تھا کہ اگر میں اپنے ما فی الضمیر کو بتادوں گا تو یہ دشمن ہوجائیں گے کسی کو دوسرے کی نسبت اطلاع نہ تھی کہ وہ بھی اس کی طرح قوم کی اس احمقانہ اور مشرکانہ رسم سے بیزار ہے۔ آخر ایک دانا اور جری نوجوان نے کہا کہ دوستو ! کوئی نہ کوئی بات تو ضرور ہے کہ لوگوں کے اس عام شغل کو چھوڑ کر تم ان سے یکسو ہو کر یہاں آ بیٹھے ہو میرا تو جی چاہتا ہے کہ ہر شخص اس بات کو ظاہر کر دے جس کی وجہ سے اس نے قوم کو چھوڑا ہے۔ اس پر ایک نے کہا بھائی بات یہ ہے کہ مجھے تو اپنی قوم کی یہ رسم ایک آنکھ نہیں بھاتی جب کہ آسمان و زمین کا اور ہمارا تمہارا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر ہم اس کے سوا دوسرے کی عبادت کیوں کریں ؟ یہ سن کر دوسرے نے کہا اللہ کی قسم یہی نفرت مجھے یہاں لائی ہے تیسرے نے بھی یہی کہا جب ہر ایک نے یہی وجہ بیان کی تو سب کے دل میں محبت کی ایک لہر دوڑ گئی اور یہ سب روشن خیال موحد آپس میں سچے دوست اور ماں جائے بھائیوں سے بھی زیادہ ایک دوسرے کے خیر خواہ بن گئے آپس میں اتحاد و اتفاق ہوگیا۔ يہ انہوں نے ایک جگہ مقرر کرلی وہیں اللہ واحد کی عبادت کرنے لگے رفتہ رفتہ قوم کو بھی پتہ چل گیا وہ ان سب کو پکڑ کر اس ظالم مشرک بادشاہ اور اہل دربار اور کل دنیا کو اس کی دعوت دی دل مضبوط کرلیا اور صاف کہہ دیا کہ ہمارا رب وہی ہے جو آسمان و زمین کا مالک خالق ہے۔ ناممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور کو معبود بنائیں ہم سے یہ کبھی نہ ہو سکے گا کہ اس کے سوا کسی اور کو پکاریں اس لئے کہ شرک نہایت باطل چیز ہے ہم اس کام کو کبھی نہیں کرنے کے۔ یہ نہایت ہی بےجا بات اور لغو حرکت اور جھوٹی راہ ہے۔
یہ ہماری قوم مشرک ہے اللہ کے سوا دوسروں کی پکار اور ان کی عبادت میں مشغول ہے جس کی کوئی دلیل یہ پیش نہیں کرسکتی، پس یہ ظالم اور کاذب ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کی اس صاف گوئی اور حق گوئی سے بادشاہ بہت بگڑا انہیں دھمکایا ڈرایا اور حکم دیا کہ ان کے لباس اتار لو اور اگر یہ باز نہ آئیں گے تو میں انہیں سخت سزا دوں گا۔ اب ان لوگوں کے دل اور مضبوط ہوگئے لیکن یہ انہیں معلوم ہوگیا کہ یہاں رہ کر ہم دینداری پر قائم نہیں رہ سکتے اس لئے انہوں نے قوم، وطن، دیس اور رشتے کنبے کو چھوڑنے کا ارادہ پختہ کرلیا۔ یہی حکم بھی ہے کہ جب انسان دین کا خطرہ محسوس کرے اس وقت ہجرت کر جائے۔ حدیث میں ہے کہ انسان کا بہترین مال ممکن ہے کہ بکریاں ہوں جنہیں لے کر دامن کوہ میں اور مرغزاوں میں رہے سہے اور اپنے دین کے بچاؤ کی خاطر بھاگتا پھرے۔ پس ایسے حال میں لوگوں سے الگ تھلگ ہوجانا امر مشروع ہے۔ ہاں اگر ایسی حالت نہ ہو، دین کی بربادی کا خوف نہ ہو تو پھر جنگلوں میں نکل جانا مشروع نہیں کیونکہ جمعہ جماعت کی فضیلت ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔ جب یہ لوگ دین گے بچاؤ کے لئے اتنی اہم قربانی پر آمادہ ہوگئے تو ان پر رب رحمت نازل ہوئی۔ فرمادیا گیا کہ ٹھیک ہے جب تم ان کے دین سے الگ ہوگئے تو بہتر ہے کہ جسموں سے بھی ان سے جدا ہوجاؤ۔ جاؤ تم کسی غار میں پناہ حاصل کرو تم پر تمہارے رب کی رحمت کی چھاؤں ہوگی وہ تمہیں تمہارے دشمن کی نگاہوں سے چھپالے گا اور تمہارے کام میں آسانی اور راحت مہیا فرمائے گا۔ پس یہ لوگ موقعہ پا کر یہاں سے بھاگ نکلے اور پہاڑ کے غار میں چھپ رہے۔ بادشاہ اور قوم نے ہر چندان کی تلاش کی، لیکن کوئی پتہ نہ چلا اللہ نے ان کے غار کو اندھیرے میں چھپا دیا۔ دیکھئے یہی بلکہ اس سے بہت زیادہ تعجب خیز واقعہ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ پیش آیا۔ آپ مع اپنے رفیق خاص یار غار حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے غار ثور میں جا چھپے مشرکین نے بہت کچھ دوڑ دھوپ کی، تگ و دو میں کوئی کمی نہ کی، لیکن حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں پوری تلاش اور سخت کوشش کے باوجود نہ ملے، اللہ نے ان کی بینائی چھین لی، آس پاس سے گزرتے تھے، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے تھے، حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر کسی نے اپنے پیر کی طرف بھی نظر ڈال لی تو ہم دیکھ لئے جائیں گے آپ نے اطمینان سے جواب دیا کہ ابوبکر ان دو کے ساتھ تیرا کیا خیال ہے، جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے۔ قرآن فرماتا ہے کہ اگر تم میرے نبی کی امداد نہ کرو تو کیا ہوا ؟ جب کافروں نے اسے نکال دیا، میں نے خود اس امداد کی جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غمگین نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے سکون اس پر نازل فرمایا اور ایسے لشکر سے اس کی مدد کی جسے تم نہ دیکھ سکتے تھے آخر اس نے کافروں کی بات پست کردی اور اپنا کلمہ بلند فرمایا۔ اللہ عزت و حکمت والا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ واقعہ اصحاب کہف کے واقعہ سے بھی عجیب تر اور انوکھا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ان نوجوانوں کو قوم اور بادشاہ نے پا لیا جب غار میں انہیں دیکھ لیا تو بس کہا بس ہم تو خود ہی چاہتے تھے چناچہ انہوں نے اس کا منہ ایک دیوار سے بند کردیا کہ یہیں مرجائیں لیکن یہ قول تامل طلب ہے قرآن کا فرمان ہے کہ صبح شام ان پر دھوپ آتی جاتی ہے وغیرہ واللہ اعلم۔