الکہف آية ۲۳
وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَاىْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا ۙ
طاہر القادری:
اورکسی بھی چیز کی نسبت یہ ہرگز نہ کہا کریں کہ میں اس کام کو کل کرنے والا ہوں،
English Sahih:
And never say of anything, "Indeed, I will do that tomorrow,"
1 Abul A'ala Maududi
اور دیکھو، کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کر دوں گا
2 Ahmed Raza Khan
اور ان کے بارے میں کسی کتابی سے کچھ نہ پوچھو، اور ہر گز کسی بات کو نہ کہنا میں کل یہ کردوں گا،
3 Ahmed Ali
اورکسی چیز کے متعلق یہ ہر گز نہ کہو کہ میں کل اسے کر ہی دوں گا
4 Ahsanul Bayan
اور ہرگز ہرگز کسی کام پر یوں نہ کہنا میں اسے کل کروں گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کردوں گا
6 Muhammad Junagarhi
اور ہرگز ہرگز کسی کام پر یوں نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور آپ کسی چیز کے بارے میں یہ نہ کہیں کہ میں کل اسے ضرور کروں گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور کسی شے کے لئے یہ نہ کہیں کہ میں یہ کام کل کرنے والا ہوں
9 Tafsir Jalalayn
اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کردوں گا۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ نہی دیگر نواہی کی مانند ( عام) ہے اگرچہ یہ ایک خاص سبب کی بنا پر ہے اور اس کے مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، مگر اس کا خطاب عام مکلفین کے لیے بھی ہے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے روک دیا ہے کہ بندہ مومن، مستقبل کے امور کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کو ملائے بغیر کہے ” میں یہ کام کروں گا“ اور یہ اس لیے کہ اس میں خطرات ہیں، اور وہ ہے مستقبل کے غیبی معاملات کے بارے میں کلام کرنا، جن کے بارے میں بندہ نہیں جانتا کہ وہ ان پر عمل کر سکے گا یا نہیں، یا وہ ہو گا یا نہیں؟ اس طرح کہنے میں فعل کے کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ مستقل طور پر بندے کی طرف لوٹانا ہے، حالانکہ یہ قابل احتراز شے اور ممنوع ہے، کیونکہ مشیت تمام تر اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ فرمایا : ﴿وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللّٰـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴾ (لتکویر :81؍29)’’تم نہیں چاہتے مگر جو اللہ جہانوں کا رب چاہتا ہے۔“ اپنے کسی امر میں اللہ کی مشیت کے ذکر کرنے میں اس امر کی آسانی تسہیل، اس میں برکت کا حصول اور بندے کی اپنے رب سے مدد کی طلب ہے۔ علاوہ ازیں بندہ ایک بشر ہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ذکر کو بھول جانا ایک لا بدی امر ہے اس لیے اس نے اپنے بندے کو حکم دیا کہ جب اسے یاد آئے وہ استثناء کرلیا کرے ( یعنی ” ان شاء اللہ“ کہہ لیا کرے) تاکہ مطلوبہ و مقصود حاصل ہو اور محزور سے بچا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( aey payghumber ! ) kissi bhi kaam kay baaray mein kabhi yeh naa kaho kay mein yeh kaam kal kerlun ga ,
12 Tafsir Ibn Kathir
ان شاء اللہ کہنے کا حکم
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ختم المرسلین نبی کو ارشاد فرماتا ہے کہ جس کام کو کل کرنا چاہو تو یوں نہ کہہ دیا کرو کہ کل کروں گا بلکہ اس کے ساتھ ہی انشاء اللہ کہہ لیا کرو کیونکہ کل کیا ہوگا ؟ اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ علام الغیوب اور تمام چیزوں پر قادر صرف وہی ہے۔ اس کی مدد طلب کرلیا کرو۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں حضرت سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) کی نوے بیویاں تھیں۔ ایک روایت میں ہے سو تھیں۔ ایک میں ہے بہتر \07\02 تھیں تو آپ نے ایک بار کہا کہ آج رات میں ان سب کے پاس جاؤں گا ہر عورت کو بچہ ہوگا تو سب اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے، اس وقت فرشتے نے کہا انشاء اللہ کہہ۔ مگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے نہ کہا، اپنے ارادے کے مطابق وہ سب بیویوں کے پاس گئے، مگر سوائے ایک بیوی کے کسی کے ہاں بچہ نہ ہوا اور جس ایک کے ہاں ہوا بھی وہ بھی آدھے جسم کا تھا۔ انحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر وہ انشاء اللہ کہہ لیتے تو یہ ارادہ ان کا پورا ہوتا اور ان کی حاجت روائی ہوجاتی۔ اور یہ سب بچے جوان ہو کر راہ حق کے مجاہد بنتے۔ اسی سورت کی تفسیر کے شروع میں اس آیت کا شان نزول بیان ہوچکا ہے کہ جب آپ سے اصحاب کہف کا قصہ دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں کل تمہیں جواب دوں گا۔ انشاء اللہ نہ کہا اس بنا پر پندرہ دن تک وحی نازل نہ ہوئی۔ اس حدیث کو پوری طرح ہم نے اس سورت کی تفسیر کے شروع میں بیان کردیا ہے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی حاجت نہیں۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ جب بھول جائے تب اپنے رب کو یاد کر یعنی انشاء اللہ کہنا اگر موقعہ پر یاد نہ آیا تو جب یاد آئے کہہ لیا کر۔ حضرت ابن عباس (رض) اس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں جو حلف کھائے کہ اسے پھر بھی انشاء اللہ کہنے کا حق ہے گو سال بھر گزر چکا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے کلام میں یا قسم میں انشاء اللہ کہنا بھول گیا تو جب بھی یاد آئے کہہ لے گو کتنی مدت گزر چکی ہو اور گو اس کا خلاف بھی ہوچکا ہو۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ اب اس پر قسم کا کفارہ نہیں رہے گا اور اسے قسم توڑنے کا اختیار رہے۔ یہی مطلب اس قول کا امام ابن جریر (رح) نے بیان فرمایا ہے اور یہی بالکل ٹھیک ہے اسی پر حضرت عباس (رض) کا کلام محمول کیا جاسکتا ہے ان سے اور حضرت مجاہد (رح) سے مروی ہے کہ مراد انشاء اللہ کہنا بھول جانا ہے۔ اور روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہے، دوسرا کوئی تو اپنی قسم کے ساتھ ہی متصل طور پر انشاء اللہ کہے تو معتبر ہے۔ یہ بھی ایک مطلب ہے کہ جب کوئی بات بھول جاؤ تو اللہ کا ذکر کرو کیونکہ بھول شیطانی حرکت ہے اور ذکر الہٰی یاد کا ذریعہ ہے۔ پھر فرمایا کہ تجھ سے کسی ایسی بات کا سوال کیا جائے کہ تجھے اس کا علم نہ ہو تو تو اللہ تعالیٰ سے دریافت کرلیا کر اور اس کی طرف توجہ کر تاکہ وہ تجھے ٹھیک بات اور ہدایت والی راہ بتا اور دکھا دے۔ اور بھی اقوال اس بارے میں مروی ہیں۔ واللہ اعلم۔