الکہف آية ۵۰
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۤٮِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِيْسَۗ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖۗ اَفَتَـتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗۤ اَوْلِيَاۤءَ مِنْ دُوْنِىْ وَهُمْ لَـكُمْ عَدُوٌّ ۗ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا
طاہر القادری:
اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ تم آدم (علیہ السلام) کو سجدۂ (تعظیم) کرو سو ان (سب) نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، وہ (ابلیس) جنّات میں سے تھا تو وہ اپنے رب کی طاعت سے باہر نکل گیا، کیا تم اس کو اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر دوست بنا رہے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں، یہ ظالموں کے لئے کیا ہی برا بدل ہے (جو انہوں نے میری جگہ منتخب کیا ہے)،
English Sahih:
And [mention] when We said to the angels, "Prostrate to Adam," and they prostrated, except for Iblees. He was of the jinn and departed from [i.e., disobeyed] the command of his Lord. Then will you take him and his descendants as allies other than Me while they are enemies to you? Wretched it is for the wrongdoers as an exchange.
1 Abul A'ala Maududi
یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا وہ جنوں میں سے تھا اس لیے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا اب کیا تم مجھے چھوڑ کر اُس کو اور اس کی ذرّیّت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ بڑا ہی برا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے، قومِ جن سے تھا تو اپنے رب کے حکم سے نکل گیا بھلا کیا اسے اور اس کی اولاد و میرے سوا دوست بناتے ہو اور وہ ہمارے دشمن ہیں ظالموں کو کیا ہی برا بدل (بدلہ) ملا،
3 Ahmed Ali
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا وہ جنوں میں سے تھا سو اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی پھر کیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی اولاد کو کارساز بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں بے انصافوں کو برا بدل ملا
4 Ahsanul Bayan
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، یہ جنوں میں سے تھا (١) اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی، (٢) کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے (٣) ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدلہ ہے۔
٥٠۔١ قرآن کی اس آیت نے واضح کر دیا کہ شیطان فرشتہ نہیں تھا، فرشتہ اگر ہوتا تو حکم الٰہی سے سرتابی کی اسے مجال ہی نہ ہوتی، کیونکہ فرشتوں کی صفت اللہ تعالٰی نے بیان فرمائی ہے ( لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ) 66۔ التحریم;6)۔ وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں یہ اشکال رہتا ہے اگر وہ فرشتہ نہیں تھا تو پھر اللہ کے حکم کا وہ مخاطب ہی نہیں تھا کیونکہ اس کے مخاطب تو فرشتے تھے انہیں کو سجدے کا حکم دیا گیا تھا صاحب روح المعانی نے کہا ہے کہ وہ فرشتہ یقینا نہیں تھا لیکن وہ فرشتوں کے ساتھ ہی رہتا تھا اور ان ہی میں شمار ہوتا تھا اس لیے وہ بھی اسجدوا لادم کے حکم کا مخاطب تھا اور سجدہ آدم کے حکم کے ساتھ اس کا خطاب کیا جانا قطعی ہے ارشاد باری ہے۔ ما منعک الا تسجد اذ امرتک۔ جب میں نے تجھے حکم دے دیا تو پھر تو نے سجدہ کیوں نہ کیا۔
٥٠۔٢ فِسْق کے معنی ہوتے ہیں نکلناِ چوہا جب اپنے بل سے نکلتا ہے تو کہتے ہیں فَسَقَتِ الفَارَۃ مِنْ جُحرِھَا، شیطان بھی سجدہ تعظیم و تحیہ کا انکار کرکے رب کی اطاعت سے نکل گیا۔
٥٠۔٣ یعنی کیا تمہارے لئے یہ صحیح ہے کہ تم ایسے شخص کو اور اسکی نسل کو دوست بناؤ جو تمہارے باپ آدم علیہ السلام کا دشمن، تمہارا دشمن اور تمہارے رب کا دشمن ہے اور اللہ کو چھوڑ کر اس شیطان کی اطاعت کرو؟
۵۰۔٤ ایک دوسرا ترجمہ اس کا یہ کیا گیا ہے ظالموں نے کیا ہی برا بدل اختیار کیا ہے یعنی اللہ کی اطاعت اور اسکی دوستی کو چھوڑ کر شیطان کی اطاعت اور اسکی دوستی جو اختیار کی ہے تو یہ بہت ہی برا بدل ہے جسے ان ظالموں نے اپنایا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس (نے نہ کیا) وہ جنات میں سے تھا تو اپنے پروردگار کے حکم سے باہر ہوگیا۔ کیا تم اس کو اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو۔ حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں (اور شیطان کی دوستی) ظالموں کے لئے (خدا کی دوستی کا) برا بدل ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجده کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجده کیا، یہ جنوں میں سے تھا، اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی، کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اوﻻد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حاﻻنکہ وه تم سب کا دشمن ہے۔ ایسے ﻇالموں کا کیا ہی برا بدل ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ۔ تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ جنات میں سے تھا۔ اس نے اپنے پروردگار کے حکم کی سرتابی کی۔ کیا تم (اے منکرینِ حق) مجھے چھوڑ کر اس کو اور اس کی اولاد کو اپنا سرپرست و کارساز بناتے ہو؟ حالانکہ وہ تمہارا دشمن ہے۔ ظالموں کیلئے کیا ہی برا بدل ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کرلیا کہ وہ جناّت میں سے تھا پھر تو اس نے حکم خدا سے سرتابی کی تو کیا تم لوگ مجھے چھوڑ کر شیطان اور اس کی اولاد کو اپنا سرپرست بنا رہے ہو جب کہ وہ سب تمہارے دشمن ہیں یہ تو ظالمین کے لئے بدترین بدل ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس (نے نہ کیا) وہ جنات میں سے تھا تو اپنے پروردگار کے حکم سے باہر ہوگیا کیا تم اس کو اور اس کی اولاد کو میرے سواء دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں (اور شیطان کی دوستی) ظالموں کے لئے (خدا کی دوستی کا) برا بدل ہے
آیت نمبر 50 تا 53
ترجمہ : وَاِذْ قلنا یہ اذکر فعل محذوف کی وجہ سے محلاً منصوب ہے اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو یعنی آدم کی تعظیم کے لئے تم اس کے سامنے جھکو نہ یہ کہ زمین پر پیشانی رکھو چناچہ ابلیس کے علاوہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا کیونکہ (ابلیس) جنات میں سے تھا، کہا گیا ہے کہ جنات ملائکہ کی اقسام میں سے ایک قسم ہیں، تو اس صورت میں مستثنیٰ متصل ہوگا اور (یہ بھی) کہا گیا ہے کہ اِلاَّ ابلیس مستثنیٰ منقطع ہے اور ابلیس جنات کا جد اعلیٰ ہے اس کی ذریت بھی ہے جس کا ذکر بعد والی آیت میں آرہا ہے، اور ملائکہ کی ذریت نہیں ہوتی اسی سبب (یعنی جنی ہونے کے سبب سے) اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی یعنی ترک سجدہ کر کے اپنے رب کی اطاعت سے خارج ہوگیا کیا تم پھر بھی اس کو اور اس کی ذریت کو (یہ) خطاب آدم اور ان کی ذریت کو ہے مجھے چھوڑ کر دوست بناتے ہو یعنی ان کی اطاعت کرتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں عدُوًّ بمعنی اَعْداءً ہے اور حال یہ ہے کہ (یہ) ظالموں کے لئے بہت برا بدل ہے یعنی ابلیس اور اس کی ذریت کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے بجائے نہایت برا بدل ہے، اور میں نے ان کو یعنی ابلیس اور اس کی ذریت کو آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے وقت اور خود ان کی تخلیق کے وقت حاضر نہیں رکھا یعنی خود ان میں سے بعض کی تخلیق کے وقت ان میں سے کسی کو حاضر نہیں رکھا اور میں گمراہ کرنے والوں کو اپنا مددگار بنانے والا نہیں یعنی تخلیق میں اپنا معاون بنانے والا نہیں تو پھر ان کی اطاعت کیوں کرتے ہو ؟ اور یوم اذکر (محذوف) کی وجہ سے منصوب ہے یقول ی اور ن کے ساتھ ہے اور جس دن وہ کہے گا کہ تمہارے خیال میں جو میرے شریک تھے (یعنی بت) ان کو پکاروتا کہ تمہارے خیال کے مطابق وہ تمہاری شفاعت کریں چناچہ یہ ان کو پکاریں گے لیکن ان میں سے کوئی بھی جواب نہ دے گا اور ان کے یعنی بتوں اور ان کے عابدین کے درمیان جہنم کی وادیوں میں سے ایک وادی متعین کردیں گے تو وہ سب اس میں ہلاک ہوجائیں گے مَوْبِقًا وَبَقَ بالفتح سے مشتق ہے بمعنی ھَلَکَ اور مجرم جہنم کو دیکھ کر سمجھ لیں گے (یقین کرلیں گے) کہ وہ اس میں جھونکے جانے والے ہیں یعنی اس میں داخل ہوں گے اور اس سے بچنے کی جگہ نہ پائیں گے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیر فوائد
قولہ تحیۃً لہ یہ اسجدوا کا معمول ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ کان بمعنی صار ہے ای صار من الجن، کان من الجن جملہ مستانفہ ہے اور لم یسجد کی علت ہے قولہ فَفَسَقَ عن امر ربِّہ فا تعلیلیہ اور سببیہ دونوں ہوسکتی ہے فَسَقَ بمعنی خَرَجَ ہے عرب بولتے ہیں فَسَقَتِ الرطبۃ عن قشرھا جبکہ کھجور اپنے چھلکے سے نکل جائے اسی طرح یہ بھی بولتے ہیں فَسَقَتِ الفَارۃ من حُجُرِھَا چوہا اپنے بل سے نکل گیا (ض ن ک) اس کے اصطلاحی معنی ہیں حق وصلاح کے راستے سے ہٹ جانا، نافرمان ہوجانا، حدود شریعت سے نکل جانا، قولہ ھم نوع من الملائکۃ یہ مستثنیٰ متصل کی توجیہ ہے اور ابلیس ابو الجن یہ مستثنیٰ منقطع کی توجیہ ہے افتخذونہٗ میں ہمزہ انکار اور اظہار حیرت کے لئے ہے اور فا تعقیب کے لئے ہے ذریتہٗ کا عطف تتخذونہ کی ضمیر پر ہے مجاہد نے کہا ہے کہ ابلیس کی ذریت میں لاقس اور ولھان ہیں ان دونوں کا کام طہارت میں وسوسہ ڈالنا ہے قولہ ذریّۃ یہ ابو الجن پر تفریع ہے فَسَقَ کی تفسیر خرج سے کر کے لغوی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے اور عن طاعتہٖ بترک السجود کا اضافہ کر کے اصطلاحی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ اَفَتتخذونَہ ہمزہ محذوف پر داخل ہے فا عاطفہ ہے معطوف علیہ فعل محذوف ہے، استفہام توبیخی ہے تقدیر عبارت یہ ہے أبَعْدَمَا حَصَلَ منہ ما حصَلَ من الاباء والفسق یلیق منکم اتخاذہٗ اولیاء قولہ من دونی محذوف سے متعلق ہو کر اولیاء کی صفت ہے مِن دونی کا تعلق تتخذوا سے بھی ہوسکتا ہے وھم لکم عدُوّٗمفعول یا فاعل سے حال ہے عَدُوَّ مصدر ہونے کی وجہ سے معنی میں اعداء کے ہے للظالمین بدلاً سے متعلق ہے اور بدلاً بئس کے فاعل ضمیر مستتر ھو سے تمیز واقع ہے اور ابلیس وذریتہ مخصوص بالذم محذوف کا بیان ہے تقدیر عبارت یہ ہے بئس البدلُ بدلاً ھو ابلیس وذریتہ قولہ شرکائی شر کائی کے قرینہ سے زعمتمونی کے دونوں مفعول محذوف ہیں ای زعمتموھم شرکائی قولہ رَءَیَ کو فی رء یٰ کے آخر یا لکھتے ہیں بصری نہیں لکھتے، رآی کی اصل رَاَیَ ہے یا متحرک ما قبل مفتوح ہونے کی وجہ سے الف سے بدل گئی تو رآ ہوا عربی زبان میں کو فیوں کا رسم الخط رائج ہے لہٰذا را کے آخر میں یا لکھی گئی قولہ مُوَاقِعُوْا اسم فاعل جمع مذکر اصل میں مواقعُون تھا، اضافت کی وجہ سے نون گرگیا ، ایک دوسرے سے قریب ہونے والے، مصدر موقعۃً ہے، مصرف ظرف مکان ہے لوٹنے کی جگہ۔
تفسیر وتشریح
اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے سامنے سجدہ کرو یعنی اس کی تعظیم بجا لاؤ تاکہ تمام مخلوق کا انقیاد ظاہر ہوجائے اور آدم خلافت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکیں تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا یعنی ابلیس کے علاوہ سب نے آدم کی بڑائی کا اعتراف کیا مگر ابلیس نے نہ کیا اور گھمنڈ میں آکر کہنے لگا کہ میں آدم سے بہتر ہوں تو آدم کے سامنے کیوں جھکوں اس طرح وہ حکم خداوندی کا انکار کر کے کافروں میں شامل ہوگیا، اور وجہ اس کی یہ تھی کہ ابلیس جنات میں سے تھا فرشتہ نہ تھا ورنہ حکم عدولی نہ کرنا، اس صورت میں یہ اشکال ہوتا ہے کہ جب وہ فرشتہ نہیں تھا تو پھر وہ اللہ کے حکم کا مخاطب ہی نہیں تھا اس لئے کہ حکم کے مخاطب تو فرشتے تھے انہیں کو سجدہ کا حکم دیا گیا تھا صاحب روح المعانی نے کہا ہے کہ وہ فرشتہ یقیناً نہیں تھا لیکن وہ فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا اور ان ہی میں شمار ہوتا تھا اس لئے وہ حکم خداوندی کا مخاطب تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (مَا مَنَعَکَ اَلاَّ تَسْجُدَ اِذَا اَمَرْتُکَ ) واخرج ابن جریر ابن الانباری عنہ قال ما کان من الملائکۃ طرفۃ عینٍ واخرج ابن المنذر وابن ابی حاتم عن الحسن قال (قاتَلَ اللہُ اقواماً زَعَمُوْا اَنَّ ابلیسَ کانَ من الملائِکَۃِ وَاللہُ یقُولُ کانَ مِنَ الجِنِّ )
جنات، انسانوں ہی کی طرح با اختیار مخلوق ہیں، مگر جنات اور انسان فرشتوں کے مانند پیدائشی فرمانبردار مخلوق نہیں ہے بلکہ کفرو ایمان اطاعت و معصیت دونوں پر قدرت دی گئی ہے چناچہ ابلیس خود اپنے اختیار سے فسق وعصیان کی راہ اختیار کر کے حکم خداوندی کا منکر ہوگیا، فرشتوں کا یہ سجدہ ایک رمزی سجدہ، انقیاد و اطاعت کی علامت کے طور پر تھا اور اس قسم کا سجدہ امم سابقہ میں جائز تھا یہ سجدہ تحیۃ (سلامی کا سجدہ) تھا شریعت محمدیہ میں غیر اللہ کے لئے ہر قسم کا سجدہ حرام ہے، اور سجدہ کرنے کا حکم صرف جن وملائ کہ ہی کو نہیں تھا بلکہ تمام مخلوقات کو تھا اور روح المعانی میں ایک قول یہ لکھا ہے کہ صرف زمینی مخلوق کو تھا اور فرشتوں میں سے جو زمین پر رہتے تھے انہی کو تھا قرآن کریم میں یہ واقعہ متعدد جگہ آیا ہے مگر کسی جگہ کوئی لفظ ایسا نہیں ہے کہ جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ حکم صرف فرشتوں کے لئے تھا بکہ یہاں صراحت ہے کہ ابلیس کو بھی تھا اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سجدہ کا حکم ملائکہ کے علاوہ دیگر مخلوقات کو بھی دیا گیا تھا اور فرشتوں کا تذکرہ ہر جگہ اس لئے کیا گیا ہے کہ اس وقت کی مخلوق میں سب سے بہتر مخلوق تھے اس لئے جب ان کو حکم ہوا تو دیگر مخلوقات کو بدرجہ اولیٰ حکم ہوگا، ابلیس کے بارے میں جو یہ بات مشہور ہے کہ وہ فرشتہ بلکہ فرشتوں کا استاد تھا یہ خیال اسرائیلی روایات کی پیداوار ہے اور (وکانَ مِنَ الجن) سے مقصد ابلیس کی اصل بتانا نہیں ہے بلکہ اس بات کی علت بیان کرنا ہے کہ ابلیس نے سجدہ کیوں نہیں کیا ؟ اور وجہ یہ بتائی گئی ہے چونکہ وہ جنی تھا فرشتہ نہ تھا اس لئے اطاعت سے باہر ہوجانا اس کے لئے ممکن ہوا اگر فرشتہ ہوتا تو یہ بات ممکن نہ ہوتی اس لئے کہ فرشتے فطرہ مطیع اور معصوم ہوتے ہیں۔ (دیکھئے سورة تحریم)
وذُِّیَّتُہ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کے اولاد ہے تو الدوتناسل کا سلسلہ جس طرح انسانوں میں ہے اسی طرح جنات میں بھی البتہ فرشتوں میں یہ سلسلہ نہیں ہے اس لئے یہ بات تو طے ہے کہ ابلیس کی بھی اولاد ہے مگر یہ معلوم نہیں کہ ان میں توالد و تناسل کی کیا صورت ہے، ایک صحیح حدیث جس کو حمیدی نے کتاب الحج میں حضرت سلمان فارسی سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو نصیحت فرمائی کہ تم ان لوگوں میں سے نہ بنو جو سب سے پہلے بازار میں داخل ہوتے ہیں یا سب آخر میں بازار سے نکلتے ہیں کیونکہ بازار ایسی جگہ ہے کہ جہاں سب سے پہلے بازار میں داخل ہوتے ہیں یا سب سے آخر میں بازار سے نکلتے ہیں کیونکہ بازار ایسی جگہ ہے کہ جہاں شیطان نے انڈے بچے دے رکھے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کی ذریت انڈوں بچوں سے پھیلتی ہے اور بعض حضرات نے اس جگہ ذریت سے مراد اس کے معاون و مددگار مراد لئے ہیں خواہ جن ہوں یا انس۔
ابلیس چونکہ کی جنات میں سے تھا اس لئے اس نے اپنے پروردگار کی حکم عدولی کی کیا پھر بھی تم مجھے چھوڑ کر اس کو اور اس کی ذریت کو اپنا کارساز بناتے ہو ؟ حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں یہ شیاطین کا رساز تو کیا ہوتے میں نے آسمان اور زمین پیدا کرتے وقت ان کو دکھلایا بھی نہیں، کیونکہ زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت یہ موجود ہی نہیں تھے اور نہ خود ان کی تخلیق ان کو دکھلائی گئی یعنی ان میں سے ایک کی تخلیق دوسرے کو نہیں دکھلائی گئی تھی اور میں ایسا نہیں کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست وبازو بناؤں اور اس دن کو یاد کرو جب حق تعالیٰ فرمائیں گے پکاروان کو جن کو تم میرا شریک مانتے تھے لہٰذا وہ پکاریں گے تو وہ ان کو جواب ہی نہ دیں گے یعنی وہ ان کی کچھ مدد نہ کرسکیں گے اور ہم ان (عابدین ومعبودین) کے درمیان ہلاکت کی جگہ حائل کردیں گے یعنی دونوں کے درمیان آگ کی وسیع خلیج حائل کردی جائے گی جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے قریب بھی نہ آسکیں گے کام آنا تو درکنار اور مجرم لوگ دوزخ کو دیکھیں گے تو یقین کرلیں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ کافر چالیس سالہ مسافت کے جہنم کو دیکھ لیں گے اور وہ یقین کرلیں گے کہ انہیں ضرور اس میں گرنا ہے یعنی ان کے لئے فرار کی کوئی راہ نہ ہوگی
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آدم اور ان کی اولاد کے ساتھ ابلیس کی عداوت کا ذکر کرتا ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کی تعظیم و تکریم اور اپنے حکم کی تعمیل کے لئے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ پس انہوں نے حکم کی تعمیل کی۔ ﴿إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ﴾ ” سوائے ابلیس کے، وہ جنوں میں سے تھا، پس اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی“ اور کہنے لگا ﴿أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا﴾(بنی اسرائیل:17؍61) ” کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا۔“ اور کہا ﴿ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ﴾ (الاعراف 7؍12) ” میں اس سے بہتر ہوں۔“ اس سے واضح ہوگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور تمہارے جد امجد سے عداوت رکھتا ہے، پھر کیسے تم اس کو اور اس کی ذریت کو دوست بناتے ہو؟ ﴿بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا ﴾ ” برا ہے ظالموں کے لئے بدل“ یعنی کتنی بری ہے شیطان کی دوستی اور سرپرستی جو انہوں نے اپنے لئے چنی ہے، جو انہیں صرف فحش اور برے کاموں کا حکم دیتا ہے اور رب رحمٰن کی دوستی اور سرپرستی چھوڑ دی جس کی دوستی میں ہر قسم کی سعادت، فلاح اور سرور ہے۔
اس آیت کریمہ میں پر زور ترغیب ہے کہ شیطان کو دشمن سمجھا جائے اور وہ سبب بھی بیان کردیا گیا جو اس کو دشمن قرار دینے کا موجب ہے، نیز یہ بھی واضح کردیا کہ صرف ظالم شخص ہی اس کو اپنا دوست قرار دیتا ہے اور اس کے شخص کے ظلم سے بڑھ کر کون سا ظلم ہوسکتا ہے جو اپنے حقیقی دشمن کو دوست سمجھے اور اپنے حقیقی اور قابل تعریف دوست کو چھوڑ دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿اللّٰـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ﴾ ” اللہ ان لوگوں کا دوست اور مددگار ہے جو ایمان لائے، وہ ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے اور وہ لوگ جو کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے والی اور مددگا رطاغوت ہیں جو ان کی روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّـهِ ﴾ ” انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیاطین کو دوست اور سرپرست بنا لیا ہے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aur woh waqt yaad kero jab hum ney farishton say kaha tha kay : Adam kay aagay sajda kero . chunacheh sabb ney sajda kiya , siwaye iblees kay . woh jinnaat mein say tha , chunacheh uss ney apney rab kay hukum ki nafarmani ki . kiya phir bhi tum meray bajaye ussay aur uss ki zurriyat ko apna rakhwala banatay ho , halankay woh sabb tumharay dushman hain-? ( Allah taalaa ka ) kitna bura mutabadil hai jo zalimon ko mila hai !
12 Tafsir Ibn Kathir
محسن کو چھوڑ کر دشمن سے دوستی
بیان ہو رہا ہے کہ ابلیس تمہارا بلکہ تمہارے اصلی باپ حضرت آدم (علیہ السلام) کا بھی قدیمی دشمن رہا ہے اپنے خالق مالک کو چھوڑ کر تمہیں اس کی بات نہ ماننی چاہئے اللہ کے احسان و اکرام اس کے لطف و کرم کو دیکھو کہ اسی نے تمہیں پیدا کیا پالا پوسا پھر اسے چھوڑ کر اس کے بلکہ اپنے بھی دشمن کو دوست بنانا کس قدر خطرناک غلطی ہے ؟ اس کی پوری تفسیر سورة بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کر کے تمام فرشتوں کو بطور ان کی تشریف، تعظیم اور تکریم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ سب نے حکم برداری کی لیکن چونکہ ابلیس بد اصل تھا، آگ سے پیدا شدہ تھا، اس نے انکار کردیا اور فاسق بن گیا۔ فرشتوں کی پیدائش نورانی تھی۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں ابلیس شعلے مارنے والی آگ سے اور آدم (علیہ السلام) اس سے جس کا بیان تمہارے سامنے کردیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر چیز اپنی اصلیت پر آجاتی ہے اور وقت پر برتن میں جو ہو وہی ٹپکتا ہے۔ گو ابلیس فرشتوں کے سے اعمال کر رہا تھا انہی کی مشابہت کرتا تھا اور اللہ کی رضا مندی میں دن رات مشغول تھا، اسی لئے ان کے خطاب میں یہ بھی آگیا لیکن یہ سنتے ہی وہ اپنی اصلیت پر آگیا، تکبر اس کی طبیعت میں سما گیا اور صاف انکار کر بیٹھا اس کی پیدائش ہی آگ سے تھی جیسے اس نے خود کہا کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے۔ ابلیس کبھی بھی فرشتوں میں سے نہ تھا وہ جنات کی اصل ہے جیسے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) انسان کی اصل ہیں۔ یہ بھی منقول ہے کہ یہ جنات ایک قسم تھی فرشتوں کی تیز آگ کے شعلے سے تھی۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ابلیس شریف فرشتوں میں سے تھا اور بزرگ قبیلے کا تھا، جنتوں کا داروغہ تھا، آسمان دینا کا بادشاہ تھا، زمین کا بھی سلطان تھا، اس سے کچھ اس کے دل میں گھمنڈ آگیا تھا کہ وہ تمام اہل آسمان سے شریف ہے۔ وہ گھمنڈ ظاہر ہوگیا از روئے تکبر کے صاف انکا ردیا اور کافروں میں جا ملا۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں وہ جن تھا یعنی جنت کا خازن تھا جیسے لوگوں کو شہروں کی طرف نسبت کردیتے ہیں اور کہتے ہیں مکی مدنی بصری کوفی۔ یہ جنت کا خازن آسمان دنیا کے کاموں کا مدبر تھا یہاں کے فرشتوں کا رئیس تھا۔ اس معصیت سے پہلے وہ ملائکہ میں داخل تھا لیکن زمین پر رہتا تھا۔ سب فرشتوں سے زیادہ کوشش سے عبادت کرنے والا اور سب سے زیادہ علم والا تھا اسی وجہ سے پھول گیا تھا۔ اس کے قبیلے کا نام جن تھا آسمان و زمین کے درمیان آمد و رفت رکھتا تھا۔ رب کی نافرمانی سے غضب میں آگیا اور شیطان رجیم بن گیا اور ملعون ہوگیا۔ پس متکبر شخص سے توبہ کی امید نہیں ہوسکتی ہاں تکبر نہ ہو اور کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس سے ناامید نہ ہونا چاہئے کہتے ہیں کہ یہ تو جنت کے اندر کام کاج کرنے والوں میں تھا۔ سلف کے اور بھی اس بارے میں بہت سے آثار مروی ہیں لیکن یہ اکثر بیشتر بنی اسرائیلی ہیں صرف اس لئے نقل کئے گئے ہیں کہ نگاہ سے گزر جائیں۔ اللہ ہی کو ان کے اکثر کا صحیح حال معلوم ہے۔ ہاں بنی اسرائیل کی روایتیں وہ تو قطعا قابل تردید ہیں جو ہمارے ہاں کے دلائل کے خلاف ہوں۔
بات یہ ہے کہ ہمیں تو قرآن کافی وافی ہے، ہمیں اگلی کتابوں کی باتوں کی کوئی ضرورت نہیں، ہم ان سے محض بےنیاز ہیں۔ اس لئے کہ وہ تبدیل ترمیم کمی بیشی سے خالی نہیں، بہت سی بناوٹی چیزیں ان میں داخل ہوگئی ہیں اور ایسے لوگ ان میں نہیں پائے جاتے جو اعلیٰ درجہ کے حافظ ہوں کہ میل کچیل دور کردیں، کھرا کھوٹا پرکھ لیں، زیادتی اور باطل کے ملانے والوں کی دال نہ گلنے دیں جیسے کہ اللہ رحمن نے اس امت میں اپنے فضل و کرم سے ایسے امام اور علماء اور سادات اور بزرگ اور متقی اور پاکباز اور حفاظ پیدا کئے ہیں جنہوں نے احادیث کو جمع کیا، تحریر کیا۔ صحیح، حسن، ضعیف، منکر، متروک، موضوع سب کو الگ الگ کر دکھایا یا گھڑنے والوں، بنانے والوں، جھوٹ بولنے والوں کو چھانٹ کر الگ کھڑا کردیا تاکہ ختم المرسلین العالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پاک اور مبرک کلام محفوظ رہ سکے اور باطل سے بچ سکے اور کسی کا بس نہ چلے کہ آپ کے نام سے جھوٹ کو رواج دے لے اور باطل کو حق میں ملا دے۔ پس ہماری دعا ہے کہ اس کل طبقہ پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و رضا مندی نازل فرمائے اور ان سب سے خوش رہے آمین ! آمین ! اللہ انہیں جنت الفردوس نصیب فرمائے اور یقینا ان سے دوستی نہ کرو اور مجھے چھوڑ کر اس سے تعلق نہ جوڑو۔ ظالموں کو بڑا برا بدلہ ملے گا۔ یہ مقام بھی بالکل ایسا ہی ہے جیسے سورة یاسین میں قیامت، اس کی ہولناکیوں اور نیک و بد لوگوں کے نتیجوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ اے مجرموں تم آج کے دن الگ ہوجاؤ، الخ۔
اللہ کے سوا سب ہی بےاختیار ہیں
جنہیں تم اللہ کے سوا اللہ بنائے ہوئے ہو وہ سب تم جیسے ہی میرے غلام ہیں۔
کسی چیز کی ملکیت انہیں حاصل نہیں۔ زمین و آسمان کی پیدائش میں میں نے انہیں شامل نہیں رکھا تھا بلکہ اس وقت وہ موجود بھی نہ تھے تمام چیزوں کو صرف میں نے ہی پیدا کیا ہے۔ سب کی تدبیر صرف میرے ہی ہاتھ ہے۔ میرا کوئی شریک، وزیر، مشیر، نظیر، نہیں۔ جیسے اور آیت میں فرمایا ( قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۚ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ 22) 34 ۔ سبأ :22) ، جن جن کو تم اپنے گمان میں کچھ سمجھ رہے ہو سب کو ہی سوا اللہ کے پکار کر دیکھ لو یاد رکھو انہیں آسمان و زمین میں کسی ایک ذرے کے برابر بھی اختیارات حاصل نہیں نہ ان کا ان میں کوئی ساجھا ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ نہ ان میں سے کوئی شفاعت کرسکتا ہے، جب تک اللہ کی اجازت نہ ہوجائے الخ مجھے یہ لائق نہیں نہ اس کی ضرورت کہ کسی کو خصوصا گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست وبازو اور مددگار بناؤں۔