الکہف آية ۶۰
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰٮهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ اَوْ اَمْضِىَ حُقُبًا
طاہر القادری:
اور (وہ واقعہ بھی یاد کیجئے) جب موسٰی (علیہ السلام) نے اپنے (جواں سال ساتھی اور) خادم (یوشع بن نون علیہ السلام) سے کہا: میں (پیچھے) نہیں ہٹ سکتا یہاں تک کہ میں دو دریاؤں کے سنگم کی جگہ تک پہنچ جاؤں یا مدتوں چلتا رہوں،
English Sahih:
And [mention] when Moses said to his boy [i.e., servant], "I will not cease [traveling] until I reach the junction of the two seas or continue for a long period."
1 Abul A'ala Maududi
(ذرا اِن کو وہ قصہ سناؤ جو موسیٰؑ کو پیش آیا تھا) جبکہ موسیٰؑ نے اپنے خادم سے کہا تھا کہ "میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں ایک زمانہ دراز تک چلتا ہی رہوں گا"
2 Ahmed Raza Khan
اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا میں باز نہ رہوں گا جب تک وہاں نہ پہنچوں جہاں دو سمندر ملے ہیں یا قرنوں (مدتوں تک) چلا جاؤں
3 Ahmed Ali
اورجب موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا کہ میں نہ ہٹوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر پہنچ جاؤں یا سالہا سال چلتا جاؤں
4 Ahsanul Bayan
جبکہ موسیٰ نے اپنے نوجوان (١) سے کہا کہ میں تو چلتا ہی رہوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے (٢) سنگم پر پہنچوں، خواہ مجھے سالہا سال چلنا پڑے (٣)۔
٦٠۔١ نوجوان سے مراد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے وفات کے بعد ان کے جانشین بنے۔
٦٠۔٢ اس مقام کی تعیین کسی یقینی ذریعہ سے نہیں ہو سکی تاہم قیاس کیا جاتا ہے کہ اس سے مراد صحرائے سینا کا وہ جنوبی راستہ ہے جہاں خلیج عقبہ اور خلیج سویز دونوں آکر ملتے ہیں اور بحر احمر میں ضم ہو جاتے ہیں۔ دوسرے مقامات جن کا ذکر مفسرین نے کیا ہے ان پر سرے سے مجمع البحرین کی تعبیر ہی صادق نہیں آتی۔
٦٠۔٣ حقب، کے ایک معنی ۷۰یا ۸۰ سال اور دوسرے معنی غیر معین مدت کے ہیں یہاں یہی دوسرا معنی مراد ہے یعنی جب تک میں مجمع البحرین (جہاں دونوں سمندر ملتے ہیں) نہیں پہنچ جاؤں گا، چلتا رہوں گا اور سفر جاری رکھوں گا، چاہے کتنا بھی عرصہ لگ جائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس سفر کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ انہوں نے ایک موقع پر ایک سائل کے جواب میں یہ کہہ دیا کہ اس وقت مجھ سے بڑا عالم کوئی نہیں۔ اللہ تعالٰی کو ان کا یہ جملہ پسند نہیں آیا اور وحی کے ذریعہ سے انہیں مطلع کیا کہ ہمارا ایک بندہ (خضر) ہے جو تجھ سے بڑا عالم ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ یا اللہ اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا، جہاں دونوں سمندر ملتے ہیں، وہیں ہمارا وہ بندہ بھی ہوگا۔ نیز فرمایا کہ مچھلی ساتھ لے جاؤ، جہاں مچھلی تمہاری ٹوکری (زنبیل) سے نکل کر غائب ہو جائے تو سمجھ لینا کہ یہی مقام ہے (بخاری، سورہ کہف) چنانچہ اس کے حکم کے مطابق انہوں نے ایک مچھلی لی اور سفر شروع کر دیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں خواہ برسوں چلتا رہوں
6 Muhammad Junagarhi
جب کہ موسیٰ نے اپنے نوجوان سے کہا کہ میں تو چلتا ہی رہوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے سنگم پر پہنچوں، خواه مجھے سالہا سال چلنا پڑے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ (ع) نے اپنے جوان سے کہا کہ میں برابر سفر جاری رکھوں گا یہاں تک کہ اس جگہ پہنچوں جہاں دو دریا اکٹھے ہوتے ہیں یا پھر (یونہی چلتے چلتے) سالہا سال گزار دوں گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس وقت کو یاد کرو جب موسٰی نے اپنے جوان سے کہا کہ میں چلنے سے باز نہ آؤں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر پہنچ جاؤں یا یوں ہی برسوں چلتا رہوں
9 Tafsir Jalalayn
اور جب موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں خواہ برسوں چلتا رہوں
آیت نمبر 60 تا 65
اور اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے جو کہ عمران کے بیٹے ہیں اپنے خادم یوشع بن نون سے جو کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ہمراہ تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت کے ساتھ ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) سے تحصیل علم بھی کرتے تھے کہا کہ میں چلتا ہی رہوں گا سفر موقوف نہ کروں گا تاآنکہ میں دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں یعنی مشرقی جانب سے بحرروم اور بحر فارس کے ملنے کی جگہ اور اگر میں منزل مقصود کو نہ پاؤں تو ایک وقت یعنی زمانہ دراز تک چلتا رہوں گا چناچہ جب یہ دونوں حضرات دریاؤں کے سنگم پر پہنچے تو یہ دونوں اپنی مچھلی بھول گئے یوشع روانگی کے وقت مچھلی اٹھانا بھول گئے اور موسیٰ (علیہ السلام) یوشع کو یاد دلانا بھول گئے تو مچھلی نے دریا میں سرنگ نما راہ بنائی یعنی مچھلی نے قدرت خداوندی سے ایسا کیا سرنگ نما راستہ ایسا لمبا سوراخ تھا جو آرپار نہیں تھا اور یہ اس سبب سے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کی رہ گذر سے پانی کا بہاؤ روک دیا جس کی وجہ سے پانی مچھلی کی راہ سے منقطع ہوگیا اس طریقہ سے وہ سوراخ طاق نما ہوگیا اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی تک بند نہیں ہوا اور مچھلی جہاں سے گذرتی تھی پانی منجمد ہوجاتا تھا (جس کی وجہ سے رہ گذر سوراخ کی شکل اختیار کرلیتی تھی) چناچہ جب یہ دونوں حضرات اس مقام موعود سے آگے بڑھ گئے اور دوسرے دن ناشتہ کے وقت تک سفر کرتے رہے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے کہا ہمارا ناشتہ لاؤ غدا اس کھانے کو کہتے ہیں جو بوقت صبح کھایا جاتا ہے آج کے سفر میں تو ہم تھک گئے نَصَبٌ بمعنی تعبٌ ہے اور تکان منزل مقصود سے آگے بڑھنے کے بعد محسوس ہوئی تو یوشع نے کہا دیکھئے سنئے (میں آپ کو اس مچھلی کا واقعہ سنتا ہوں) جب ہم نے اس چٹان کے پاس قیام کیا تھا تو میں اس مچھلی کو بھول گیا تھا اور اس کی یاد مجھے شیطان نے بھلا دی تھی (أن أذکرہ) اَنسانیہِ کی ضمیر مفعول ہٗ سے بدل اشتمال ہے یعنی مجھے اس کا یاد رکھنا بھلا دیا اور اس مچھلی نے دریا میں عجیب طریقہ سے اپنی راہ بنا لی عَجَبًا اِتَّخَذَ کا مفعول ثانی ہے، اس واقعہ سے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے خادم تعجب میں پڑگئے، جیسا کہ واقعہ سابق میں بیان ہوچکا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا مچھلی کے گم ہونے کا ہی وہ موقع ہے جس کی ہم کو تلاش تھی اور ہمارے مطلوب کے وجود کی علامت ہے چناچہ دونوں حضرات اپنے نقش قدم کو تلاش کرتے ہوئے واپس لوٹے حتی کہ اس چٹان کے پاس پہنچے پس ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے خضر کو پایا جس کو ہم نے اپنی خصوصی رحمت سے نوازا تھا یعنی ایک قول کے مطابق نبوت اور دوسرے قول کے مطابق ولایت سے اور اس دوسرے قول کے اکثر علماء قائل ہیں اور ہم نے اس کو ہماری جانب سے خاص علم دیا تھا عِلمًا، عَلَّمْنَاہٗ کا مفعول ثانی ہے یعنی مغیبات کی معلومات کا علم دیا تھا، امام بخاری نے ایک حدیث روایت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے ایک روز موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم بنی اسرائیل میں خطبہ دیا تو ان سے سوال کیا گیا کہ انسانوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا میں ہوں، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جواب کی وجہ سے ان پر عتاب فرمایا اس لئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس مسئلہ کو (واللہ اعلم) کہہ کر اللہ کے حوالہ نہیں کیا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اطلاع دی کہ میرا ایک بندہ ہے جو مجمع البحرین کے پاس ہے وہ تم سے زیادہ علم رکھتا ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی یا الٰہ العالمین اس بندہ تک رسائی کی میرے لئے کیا صورت ہوسکتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی لو اور اس کو تھیلے میں رکھ لو اور جہاں کہیں وہ مچھلی گم ہوجائے (تو سمجھ لو) کہ وہ بندہ وہیں ہے، چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مچھلی لی اور اس کو تھیلے میں رکھ لیا اور سفر پر روانہ ہوگئے اور ان کے ساتھ ان کے خادم یوشع بن نون بھی روانہ ہوئے حتی کہ یہ دونوں حضرات ایک چٹان کے پاس پہنچے اور وہاں لیٹنے کے بعد سو گئے اور مچھلی نے تھیلے میں حرکت کی اور تھیلے سے نکل کر دریا میں جا پڑی اور اس نے دریا میں سرنگ نما اپنا راستہ بنا لیا، اور اللہ تعالیٰ نے اس مچھلی کی رہ گزرہ سے پانی سے کا سیلان روک دیا چناچہ وہ رہ گذر طاق کے مانند ہوگئی جب موسیٰ (علیہ السلام) کے خادم یوشع بیدار ہوئے تو مچھلی کا واقعہ حضرت موسیٰ کو بتانا بھول گئے اور بقیہ دن اور رات چلتے رہے یہاں تک کہ دوسرے دن جب ناشتہ کا وقت آیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے کہا ہمارا ناشتہ لاؤ الیٰ قولہ واتخذ سبیلہ فی البحر عجبًا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (اس آیت کی تفسیر میں) فرمایا کان للحوت سرَبًا ولموسیٰ ولفتاہ عجَبًا الخ (یعنی مچھلی کا پانی میں اس طرح جانا مچھلی کے لئے تو سرنگ تھی اور موسیٰ اور یوشع کے لئے تعجب خیز بات تھی)
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
فتٰی نواجوان، خادم، غلام (ج) فِتْیَۃ ً ، مفسرین نے یہاں عام طور پر خادم مراد لیا ہے لاَ اَبْرَحُ فعل ناقص بمعنی لاَ اَزَالُ اس کا اسم أنا اس میں وجوباً مستتر ہے اس کی خبر حتی ابلغ کے قرینہ کی وجہ سے محذوف ہے اَیْ اَسِیْرُ اور اگر اس کو فعل تام مانا جائے تو اس کو خبر کی ضرورت نہیں مفسر علام نے موسیٰ (علیہ السلام) کی تفسیر ابن عمران سے کر کے بعض لوگوں کے اس قول کی تردید کردی جو کہتے ہیں کہ موسیٰ سے مراد موسیٰ ابن عمران نہیں ہیں بلکہ موسیٰ بن میشیٰ بن یوسف بن یعقوب ہیں قولہ لاَ اَبْرَحُ کی تفسیر لاَ اَزَالُ اسِیْرُ سے کر کے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ اَبْرَحُ فعل ناقص ہے اور اس کی خبر اسیر محذوف ہے اور حذف پر قرینہ حتیّٰ ابلغَ ہے ای لا اَبْرَحُ سَائِرًا حُقُبًا حقب زمانہ دراز کو کہتے ہیں، ایک مقررہ مدت کو بھی کہتے ہیں، بعض حضرات نے ستر سال اور بعض نے اسّی سال، اور ایک قول تیس ہزار سال کا بھی ہے یہاں مجازاً مدت دراز مراد ہے سَرَب سرنگ، نالی، سوراخ سرَبًا اتخذَ کا مفعول ثانی ہے اور سبیلہ مفعول اول ہے نَصَبًا اسم ہے بمعنی تکان، کوفت، تکلیف، نصَبًا لَقِیْنًا کا مفعول بہ ہے اَرَاَیْتَ میں ہمزہ استفہامیہ تعجیبیہ ہے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بتانا مقصود ہے کہ ایسا واقعہ جو کہ عجیب ہونے کی وجہ سے ناقابل فراموش تھا مگر میں اس کو بھول گیا، أرأیت کا مفعول محذوف ہے أی أرأیت ما نا بنی فی ذلک الوقت محاورہ میں اخبرنی کے معنی میں مستعمل ہے جیسے اردو محاورے میں بولتے ہیں (بھلا بتلائے) چونکہ یہاں کوئی دریافت طلب بات نہیں ہے اس لئے محض اظہار تعجب کے لئے ہے اَوَینَا ماضی جمع متکلم اَویٰ یاوی (ض) اَوِیًّا واِوَاءً ٹھکانہ لینا، اترنا، اس لفظ کی پوری تحقیق سورة کہف کی آیت ١٦ میں گذر چکی ہے اَنْسَانیہِ اَنْسَا یُنْسِیٔ اِنسَاءًبھلا دینا نون وقایہ ی ضمیر واحد متکلم مفعول اول ہٗ ضمیر واحد مذکر غائب مفعول ثانی ہٗ میں اصل یہ ہے کہ وہ مضموم ہو مگر جب اس کے ماقبل ی ساکنہ یا کسرہ آتا ہے تو ہ کو بھی کسرہ دیتے ہیں جیسے عَلَیہِ فیہِ بہٖ مگر دو جگہ امام حفص نے اصل کے مطابق پڑھا ہے ایک یہاں اور دوسرے سورة الفتح آیت ١٠ میں عَلَیہُ اللہ جس کو ملا علی قاری نے شاطبیہ کی شرح میں تفصیل سے لکھا ہے ص ٣٢٠، اَن اذکرہٗ میں اَنْ مصدریہ ہے جملہ اذکر بتاویل مصدر ہو کر انسانیہ کے مفعول ثانی سے بدل اشتمال ہے ای ما انسانی ذکرہٗ الا الشیطان، ذکرٌ، دل میں یاد کرنا اور کسی کے سامنے ذکر کرنے کے لئے ذَکَرَ لہٗ استعمال ہوتا ہے عَجَبًا اتخذ کا مفعول ثانی بھی ہوسکتا ہے اور مفعول مطلق بھی اس صورت میں موصوف محذوف ہوگا ای اتخاذًا عجبًا اور فی البحر بنا بر حال منصوب ہے ای کائنًا فی البحر اور اِتَّخذ سے متعلق بھی ہوسکتا تھا نَبْغِ اصل میں نَبْغِیْ تھا ی قرآنی رسم الخط میں یہاں حذف کردی گئی ہے اور سورة یوسف آیت ٦٥ میں لکھی گئی ہے، ی کا حذف اسماء میں تو شائع ذائع ہے جیسے قاضی میں، مگر افعال میں میں شاذ اور خلاف قیاس ہے قصصًا یا تو مصدر ہے (ن) قَصَصًا پیروی کرنا ای نَقُصُّ قَصَصًا یا حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ای قاصِّینَ قصصًا مِن عندنا محذوف سے متعلق ہو کر رحمۃً کا حال ہے اور من لدنا بھی محذوف سے متعلق ہو کر علمًا سے حال ہے رعایت فو اصل کی وجہ سے مقدم کیا گیا ہے۔
تفسیر وتشریح
سورة کہف میں موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر کے قصہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے یہود مدینہ کے سکھانے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سوال کئے تھے اور یہ کہہ دیا تھا کہ اگر ان سوالوں کو جواب دے دیں تو نبی ہیں اور اگر لا علمی کا اظہار کریں تو سمجھنا کہ ان کا دعوہ نبوت جھوٹا ہے، گویا کہ بعض باتوں کے عدم علم کو عدم نبوۃ کی دلیل قرار دیا تھا، حضرت موسیٰ وخضر (علیہ السلام) کے قصہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ موسیٰ جن کو تم بھی نبی مانتے ہو ان کو بھی تمام چیزوں کا علم نہیں تھا بلکہ ان کو بعض چیزوں کا علم حاصل کرنے کے لئے غیر نبی (خضرعلیہ السلام) کے پاس جانا پڑا تھا، اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض باتوں کا فوری جواب نہ دے سکیں تو یہ کوئی نقص کی بات نہیں ہے حتی کہ غیر نبی کو نبی پر جزوی فضیلت حاصل بھی ہو تو اس سے کلی فضیلت کی نفی نہیں ہوتی جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی بعض باتوں کا علم نہیں تھا جن کے حصول کے لئے خضر کے پاس جانا پڑا، موسیٰ وخضر (علیہ السلام) کے دلچسپ واقعہ کو سنانے سے مذکورہ مقصد کے علاوہ اور متعدد مقاصد کے پیش نظر یہ قصہ سنایا گیا ہے دراصل یہ قصہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تعلیمی سفر نامہ ہے جو کہ علوم و معارف کا خزینہ ہے، جب یہ واقعہ پورا ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کاش موسیٰ کچھ اور صبر فرما لیتے تو دونوں کی اور خبریں معلوم ہوتیں۔
واقعہ کا آغاز : بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم بنی اسرائیل کے سامنے وعظ کہا جس میں حاضرین کی آنکھیں نم ہوگئیں، اور دل نرم ہوگئے، لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا میں ہوں، اللہ تعالیٰ کو یہ جواب ناپسند آیا، اس لئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو چاہیے تھا (واللہ اعلم) کہتے، یہ جواب واقع میں صحیح تھا ظاہر ہے کہ ان کے زمانہ میں اسرار شرعیہ کا علم ان سے زیادہ کس کو ہوسکتا تھا ؟ لیکن حق تعالیٰ کو ان کے الفاظ پسند نہ آئے (اس جواب پر تنبیہ کرنے کے لئے وحی آئی) ہمارا ایک بندہ مجمع البحرین میں رہتا ہے وہ آپ سے زیادہ علم رکھتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا خدایا مجھے اس کا پتہ، نشان بتادیا جائے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی تل کر اپنے تھیلے میں رکھ لو اور مجمع البحرین کی طرف سفر کرو جس جگہ مچھلی گم ہوجائے سمجھ لینا کہ اسی جگہ ہمارا وہ بندہ ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے حسب ہدایت سفر شروع کیا اور اپنے خادم یوشع بن نون کو اپنے ہمراہ لے لیا اور مچھلی والا تھیلا دے کر فرمایا مچھلی کا خیال رکھنا اور فرمایا کہ مجمع البحرین پہنچنے تک برابر سفر کرتا رہوں گا اگرچہ منزل مقصود تک پہنچنے میں ایک طویل زمانہ ہی کیوں نہ گذر جائے، مطلب یہ کہ میں منزل مقصود پر پہنچ کر ہی دم لوں گا۔
فائدہ : یہ ہے طلب صادق اور حصول علم کی سچی لگن، موسیٰ (علیہ السلام) کے اس مختصر ارشاد میں طالب علموں کے لئے بڑا سبق ہے علم کبھی سچی طلب کے بغیر حاصل نہیں ہوتا اور طلب علم کے لئے ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کرنا سنت انبیاء ہے۔
مجمع البحرین کی تعیین یقین کے ساتھ تو مشکل ہے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ سفر قیام مصر کے دوران پیش آیا تھا تو ملک سوڈان کے شہر خرطوم کے پاس جہاں دریائے نیل کی دو شاخیں ملتی ہیں وہ جگہ مراد ہوسکتی ہے، جمہور مفسرین کا خیال ہے کہ یہ واقعہ وادیٔ سینا میں اسارت کے زمانہ کا ہے اگر ایسا ہے تو بحر قلزم کے شمال میں دو شاخوں کے اتصال کی جگہ مراد ہے یعنی جہاں خلیج عقبہ اور خلیج سویز ملتی ہیں، صاحب فتح القدیر نے بحر فارس اور بحر روم مراد لیا ہے مگر یہ دونوں دریا ملتے نہیں ہیں، ملنے سے دونوں کا قرب مراد ہوسکتا ہے (فوائد عثمانی) اور بحراردن اور بحر قلزم کا احتمال بھی پیش کیا ہے۔
جب دونوں حضرات دریاؤں کے سنگم پر پہنچے وہاں ایک بڑا بھاری پتھر تھا اور اس کے نیچے چشمہ آب حیات جاری تھا، اس کے قریب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سو گئے تو حضرت یوشع نے دیکھا کہ مچھلی باذن اللہ زندہ ہو کر تھیلے سے نکل کر جلدی اور عجیب طریقہ سے دریا میں سرنگ بناتی چلی گئی، حضرت یوشع کو اس واقعہ اور مچھلی کے پانی میں سرنگ سی بنانے کی کیفیت سے بڑا تعجب ہو اور سوچا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوں گے تو پورا واقعہ سناؤں گا، جب موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوئے تو فوراً ہی چل کھڑے ہوئے اور یوشع واقعہ سنانا بھول گئے، روایات میں ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے یوشع سے کہا تھا کہ مچھلی کا خیال رکھنا تو ان کی زبان سے نکلا تھا کہ یہ کوئی بڑا کام نہیں، لہٰذا مچھلی کی گمشدگی کے واقعہ کو بھلا کر اللہ تعالیٰ نے متنبہ کردیا کہ چھوٹے سے چھوٹے کام کے بارے میں بھی اپنے اوپر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، ہر چھوٹے بڑے کام میں اللہ ہی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
خلاصہ یہ کہ یہ دونوں حضرات آگے کے لئے سفر پر روانہ ہوگئے اور یوشع مچھلی والا تھیلا اٹھا نا اور مچھلی کا واقعہ سنانا بھول گئے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو یاد دلانا بھول گئے اور باقی دن اور رات سفر کرتے رہے دوسرے روز موسیٰ (علیہ السلام) نے خادم سے ناشتہ مانگا اور یہ بھی فرمایا آج ہم بہت تھک گئے ہیں، اس موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو تھکان محسوس نہیں ہوئی، اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ اب وہ بےمقصد سفر کر رہے ہیں مگر نفس الامری واقعات کا قلب نبوت پر انعکاس ہوا اور طبیعت نے اس کا اثر قبول کیا جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تھکان محسوس ہوئی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ نفس الامری واقعہ کا آپ کے قلب مبارک پر انعکاس ہوا ہے ایک مرتبہ کھانا کھایا جا رہا تھا آپ نے بھی ایک بوٹی لی مگر وہ چبی نہیں آپ نے پھینک دی اور فرمایا یہ گوشت مجھ سے کہہ رہا ہے کہ وہ مالک کی اجازت کے بغیر لیا گیا ہے، ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہری نماز کے بعد مقتدیوں سے دریافت فرمایا کہ کیا کسی نے میرے پیچھے قرأت کی ؟ ایک صاحب نے عرض کیا جی ہاں، میں نے قرأت کی، تو آپ نے فرمایا میں سوچ رہا تھا کہ قرآن پڑھنے میں مجھ سے جھگڑا کیوں کیا جا رہا ہے ؟ یعنی امر منکر کا قلب نبوت پر اثر پڑا اور آپ کے لئے قرأ ت دشوار ہوگئی۔
فائدہ : موسیٰ (علیہ السلام) کے اس ارشاد سے کہ ہم آج تھک گے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ اپنی تکلیفوں کا اظہار جائز ہے یہ کمال کے منافی نہیں ہے البتہ بےصبری اور شکوہ و شکایت ممنوع ہے۔ (جصاص )
فائدہ : موسیٰ (علیہ السلام) کے ناشتہ طلب کرنے سے معلوم ہوا کہ نبیوں کو بھی بھوک پیاس لگتی ہے، زادہ راہ بھی ساتھ رکھتے ہیں اور تھکن بھی محسوس کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی چیز نبوت وولایت کے منافی نہیں ہے جو خوش عقیدہ مرید بزرگوں کی جانب بھوک پیاس اور دیگر بشری ضرورتوں کے انتساب کو بےادبی سمجھتے ہیں ان کے لئے اس میں بڑا سبق ہے (تفسیر ماجدی) القصہ دونوں حضرات اگلی صبح تک چلتے رہے اور اس پورے سفر میں مچھلی والے تھیلے کا دونوں میں سے کسی کو بھی خیال تک نہ آیا یہاں تک کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ناشتہ مانگا تو خادم کو احساس ہوا کہ وہ مچھلی والا تھیلا تو میں وہیں بھول آیا ہوں اس وقت خادم ہی ہوتا ہے مگر مخدوم کی بھی کچھ ذمہ داری ہوتی ہے اسی لئے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ وہ دونوں اپنی مچھلی بھول گئے، اور ساتھ ہی خادم نے یہ بھی کہہ دیا کہ شیطان نے مجھے بھلا دیا، شریعت کی اصطلاح میں ہر بری بات کا انتساب شیطان اور نفس کی طرف کیا جاتا ہے کیونکہ شیطان نے مجھے بھلا دیا، شریعت کی اصطلاح میں ہر بری بات کا انتساب شیطان اور نفس کی طرف کیا جاتا ہے کیونکہ شیطان ہی تمام برائیوں کا سرچشمہ ہے اور نفس ہی اس کے فریب میں آتا ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اس موقعہ کی تو ہم کو تلاش تھی سو دونوں اپنے نشان قدم کو دیکھتے ہوئے واپس پلٹے اور اس چٹان کے پاس پہنچے وہاں ہمارے ایک خاص بندے سے ملاقات ہوئی، یہ بندہ کون تھا ؟ اس کا نام کیا تھا ؟ یہ انسان تھے یا فرشتے اور اگر فرشتے تھے تو علوی یا سفلی اور اگر انسان تھے تو نبی تھے یا ولی ؟ اس بارے میں یقین سے کچھ کہنا دشوار ہے، آراء مختلف ہیں علامہ عثمانی کی رائے یہ ہے کہ یہ نبی ہیں صحیح احادیث میں ان کو خضر کہا گیا ہے یہ ان کا وصفی نام ہے حدیث میں اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک بار حضرت خضر (علیہ السلام) ایک سوکھی سفید زمین پر بیٹھے ہوئے تھے وہ یکایک سبزہ زار ہوگئی اسی وجہ سے ان کا لقب خضر (سبزہ) ہوگیا ( رواہ البخاری والترمذی) اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر کو خصوصی رحمت سے نوازا تھا اور اسرار کو نیہ سے وافر مقدار میں حصہ عطا فرمایا تھا، جو حضرات انسان ہونے کے قائل ہیں ان میں سے بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ وہ نبی ہیں اور بعض کی رائے ہے کہ وہ ولی ہیں، اور جو حضرات ان کو ملائکہ میں شمار کرتے ہیں وہ ملائکہ سفلی میں شمار کرتے ہیں جن کو اصطلاح میں رجال الغیب کہا جاتا ہے، بعض محققین کی رائے یہ بھی ہے کہ خضر ایک عہدہ ہے جس پر یکے بعد دیگرے فائز ہونے والے کو خضر کہا جاتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی موسیٰ اور بھلائی اور طلب علم میں ان کی شدید رغبت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنے خادم سے فرمایا جو سفر و حضر میں ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتا تھا اور وہ یوشع بن نون تھے جن کو بعد میں اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا : ﴿لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ﴾” جب تک میں دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں۔“ یعنی میں سفر کرتارہوں گا خواہ مسافت کتنی ہی طویل اور مشقت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو یہاں تک کہ میں دونوں دریاؤں کے سنگم پر پہنچ جاؤں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( uss waqt ka ziker suno ) jab musa ney apney nojawan ( shagrid ) say kaha tha kay : mein uss waqt tak apna safar jari rakhun ga jab tak do samandaron kay sangham per naa phonch jaon , werna barson chalta rahun ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اللہ کا ایک بندہ
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ذکر کیا گیا کہ اللہ کا ایک بندہ دو دریا ملنے کی جگہ ہے اس کے پاس وہ علم ہے جو تمہیں حاصل نہیں آپ نے اسی وقت ان سے ملاقات کرنے کی ٹھان لی اب اپنے ساتھی سے فرماتے ہیں کہ میں تو پہنچے بغیر دم نہ لوں گا۔ کہتے ہیں یہ دو سمندر ایک تو بحیرہ فارس مشرقی اور دوسرا بحیرہ روم مغربی ہے۔ یہ جگہ طنجہ کے پاس مغرب کے شہروں کے آخر میں ہے واللہ اعلم۔ تو فرماتے ہیں کہ گو مجھے قرنوں تک چلنا پڑے کوئی حرج نہیں۔ کہتے ہیں کہ قیس کے لغت میں برس کو حقت کعتے ہیں۔ عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں۔ حقب سے مراد اسی برس ہیں مجاہد (رح) ستر برس کہتے ہیں۔ ابن عباس (رض) زمانہ بتلاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ملا تھا کہ اپنے ساتھ نمک چڑھی ہوئی ایک مچھلی لیں جہاں وہ گم ہوجائے وہیں ہمارا بندہ ملے گا۔ یہ دونوں مچھلی کو ساتھ لئے چلے مجمع البحرین میں پہنچ گئے وہاں نہر حیات تھی وہیں دونوں لیٹ گئے اس نہر کے پانی کے چھینٹے مچھلی پر پڑے مچھلی ہلنے جلنے لگ گئی۔ آپ کے ساتھ حضرت یوشع (علیہ السلام) کی زنبیل میں یہ مچھلی رکھی ہوئی تھی اور وہ سمندر کے کنارے تھا مچھلی نے سمندر کے اندر کود جانے کے لئے جست لگائی اور حضرت یوشع کی آنکھ کھل گئی مچھلی ان کے دیکھتے ہوئی پانی میں گئی اور پانی میں سیدھا سوراخ ہوتا چلا گیا پس جس طرح زمین میں سوراخ اور سرنگ بن جاتی ہے اسی طرح پانی میں جہاں سے وہ گئی سوراخ ہوگیا، ادھر ادھر پانی کھڑا ہوگیا اور وہ سوراخ بالکل کھلا ہوا رہا۔ پتھر کی طرح پانی میں چھید ہوگیا جہاں جس پانی کو لگتی ہوئی وہ مچھلی گئی وہاں کا وہ پانی پتھر جیسا ہوگیا اور وہ سوراخ بنتا چلا گیا۔ محمد بن اسحقاق مرفوعا لائے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پانی اس طرح ابتداء دنیا سے نہیں جما سوائے اس مچھلی کے چلے جانے کی جگہ کے ارد گرد کے پانی کے یہ نشان مثل سوراخ زمین کے برابر موسیٰ (علیہ السلام) کے واپس پہنچنے تک باقی ہی رہے اس نشان کو دیکھتے ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اسی کی تلاش میں تو ہم تھے۔
جب مچھلی کو بھول کر یہ دونوں آگے بڑھے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایک کا کام دونوں ساتھیوں کی طرف منسوب ہوا ہے۔ بھولنے والے صرف یوشع تھے۔ جیسے فرمان ہے آیت (یخرج منہما اللولو والمرجان) یعنی ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں۔ حالانکہ دو قولوں میں سے ایک یہ ہے کہ لولو اور مرجان صرف کھاری پانی میں سے نکلتے ہیں جب وہاں سے ایک مرحلہ اور طے کر گئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھی سے ناشتہ طلب کیا اور سفر کی تکلیف بھی بیان کی یہ تکلیف مقصود سے آگے نکل آنے کے بعد ہوئی۔ اس پر آپ کے ساتھی کو مچھلی کا چلا جانا یاد آیا اور کہا جس چٹان کے پاس ہم ٹھیرے تھے اس وقت میں مچھلی بھول گیا اور آپ سے ذکر کرنا بھی شیطان نے یاد سے ہٹا دیا۔
ابن مسعود (رض) کی قرأت ان اذکر لہ ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس مچھلی نے تو عجیب و غریب طور پر پانی میں اپنی راہ پکڑی۔ اسی وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا لو اور سنو اسی جگہ کی تلاش میں ہم تھے تو وہ دونوں اپنے راستے پر اپنے نشانات قدم کے کھوج پر واپس لوٹے۔ وہاں ہمارے بندون میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس کی رحمت اور اپنے پاس کا علم عطا فرما رکھا تھا۔ یہ حضرت خضر (علیہ السلام) ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت سعید بن جبیر (رح) نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے کہا کہ حضرت نوف کا خیال ہے کہ خضر (علیہ السلام) سے ملنے والے موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہ تھے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا وہ دشمن رب جھوٹا ہے ہم سے ابی بن کعب (رض) نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انہوں نے سنا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ کر رہے تھے جو آپ سے سوال ہو کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ میں۔ تو چونکہ آب نے اس کے جواب میں یہ نہ فرمایا کہ اللہ جانے اس لئے رب کو یہ کلمہ ناپسند آیا، اسی وقت وحی آئی کہ ہاں مجمع البحرین میں ہمارا ایک بندہ ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا پھر پروردگار میں اس تک کیسے پہنچ سکتا ہوں ؟ حکم ہوا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی رکھ لو اسے توشے دان میں ڈال لو جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہیں وہ مل جائیں گے۔ تو آپ اپنے ساتھ اپنے ساتھی یوشع بن نون (علیہ السلام) کو لے کر چلے پتھر کے پاس پہنچ کر اپنے سر اس پر رکھ کردو گھڑی سو رہے۔ مچھلی اس توشے دان میں تڑپی اور کود کر اس سے نکل گئی سمندر میں ایسی گئی جیسے کوئی سرنگ لگا کر زمین میں اتر گیا ہو پانی کا چلنا بہنا اللہ تعالیٰ نے موقوف کردیا اور طاق کی طرح وہ سوراخ باقی رہ گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب جا گے تو آپ کے ساتھی یہ ذکر آپ سے بھول گئے اسی وقت وہاں سے چل پڑے دن پورا ہونے کے بعد رات بھر چلتے رہے، صبح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تھکان اور بھوک محسوس ہوئی اللہ نے جہاں جانے کا حکم دیا تھا جب تک وہاں سے آگے نہ نکل گئے تھکان کا نام تک نہ تھا اب اپ نے ساتھی سے کھانا مانگا اور تکلیف بیان کی اس وقت آپ کے ساتھی نے فرمایا کہ پتھر کے پاس جب ہم نے آرام لیا تھا وہیں اسی وقت مچھلی تو میں بھول گیا اور اس کے ذکر کو بھی شیطان نے بھلا دیا اور اس مچھلی نے تو سمندر میں عجیب طور پر اپنی راہ نکال لی۔ مچھلی کے لئے سرنگ بن گئی اور ان کے لیے حیرت کا باعث بن گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اسی کی تو تلاش تھی، چناچہ اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے دونوں واپس ہوئے اسی پتھر کے پاس پہنچے دیکھا کہ ایک صاحب کپڑوں میں لپٹے ہوئے بیٹھے ہیں۔ آپ نے سلام کیا اس نے کہا تعجب ہے آپ کی سر زمین میں یہ سلام کہاں ؟ آپ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں انہوں نے پوچھا کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھے وہ سکھائیں جو بھلائی آپ کو اللہ کی طرف سے سکھائی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے۔ اس لئے کہ مجھے جو علم ہے وہ آپ کو نہیں اور آپ کو جو علم ہے وہ مجھے نہیں اللہ تعالیٰ نے دونوں کو جداگانہ علم عطا فرما رکھا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ میں صبر کروں گا اور آپ کے کسی فرمان کی نافرمانی نہ کروں گا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا اگر تم میرا ساتھ چاہتے ہو تو مجھ سے خود کسی بات کا سوال نہ کرنا یہاں تک کہ میں آپ تمہیں اس کی بابت خبردار کروں۔ اتنی باتیں طے کر کے دونوں ساتھ چلے دریا کے کنارے ایک کشتی تھی ان سے اپنے ساتھ لے جانے کی بات چیت کرنے لگے انہوں نے خضر (علیہ السلام) کو پہچان لیا اور بغیر کرایہ لئے دونوں کو سوار کرلیا کچھ ہی دور چلے ہوں گے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا دیکھا کہ خضر (علیہ السلام) چپ چاپ کشتی کے تختے کلہاڑے سے توڑ رہے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ کیا ؟ ان لوگوں نے تو ہمارے ساتھ احسان کیا بغیر کرایہ لئے کشتی میں سوار کیا اور آپ نے اس کے تختے توڑنے شروع کر دئیے جس سے تمام اہل کشتی ڈوب جائیں یہ تو بڑا ہی ناخوش گوار کام کرنے لگے۔ اسی وقت حضرت خصر (علیہ السلام) نے فرمایا دیکھو میں نے تو تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) معذرت کرنے لگے کہ خطا ہوگئی بھولے سے پوچھ بیٹھا معاف فرمائیے اور سختی نہ کیئجے۔
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں واقعی یہ پہلی غلطی بھول سے ہی تھی فرماتے ہیں کشتی کے ایک تختے پر ایک چڑیا آ بیٹھی اور سمندر میں چونچ ڈال کر پانی لے کر اڑ گئی، اس وقت حضرت خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا میرے اور تیرے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہے جتنا پانی سے سمندر میں سے اس چڑیا کی چونچ نے کم کیا ہے۔ اب کشتی کنارے لگی اور ساحل پر دونوں چلنے لگے جو حضرت خضر (علیہ السلام) کی نگاہ چند کھیلتے ہوئے بچوں پر پڑی ان میں سے ایک بچے کا سر پکڑ کر حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس طرح مروڑ دیا کہ اسی وقت اس کا دم نکل گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) گھبرا گئے اور فرمانے لگے بغیر کسی قتل کے اس بچے کو آپ نے ناحق مار ڈالا ؟ آپ نے بڑا ہی منکر کام کیا حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا دیکھو اسی کو میں نے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ تمہاری ہماری نبھ نہیں سکتی اس وقت حضرت خضر (علیہ السلام) نے پہلے سے زیادہ سختی کی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا اب اگر میں کوئی سوال کر بیٹھوں تو بیشک آپ مجھے ابنے ساتھ نہ رکھنا یقینا اب آپ معذور ہوگئے، چناچہ پھر دونوں ہمراہ چلے ایک بستی والوں کے پاس پہنچے ان سے کھانا مانگا لیکن انہوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کردیا، وہیں ایک دیوار دیکھی جو جھک گئی تھی اور گرنے کے قریب تھی، اسی وقت حضرت خضر نے ہاتھ لگا کر اسے ٹھیک اور درست کردیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا خیال تو فرمائیے ہم یہاں آئے ان لوگوں سے کھانا طلب کیا انہوں نے نہ دیا مہمان نوازی کے خلاف کیا ان کا یہ کام تھا آپ ان سے اجرت لے سکتے تھے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا یہ ہے مجھ میں اور تم میں جدائی اب میں تمہیں ان کاموں کی اصلیت بتلا دوں گا۔
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کاش کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) صبر سے کام لیتے تو ان دونوں کی اور بھی بہت سی باتیں ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا۔ حضرت ابن عباس (رض) کی قرأت میں وکان ورائہم کے بدلے وکان امامہم ہے اور سفینۃ کے بعد صالحتہ کا لفظ بھی ہے اور واما الغلام کے بعد فکان کافرا کے لفظ بھی ہیں۔ اور سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ اس پتھر کے پاس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) رک گئے وہیں ایک چشمہ تھا جس کا نام نہر حیات تھا اس کا پانی جس چیز کو لگ جاتا ہے وہ زندہ ہوجاتی تھی۔ اس میں چڑیا کی چونچ کا پانی اس سمندر کے مقابلے میں، الخ۔
صحیح بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہے حضرت سعید بن جبیر (رح) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے گھر میں ان کے پاس تھا آپ نے فرمایا کہ جس کو جو سوال کرنا ہو کرلے میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے کوفے میں ایک واعظ ہیں جن کا نام نوف ہے پھر پوری حدیث بیان کی جیسا کہ اوپر گزری اس میں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس خطبہ سے آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اور دل نرم پڑگئے تھے، جب آپ جانے لگے تو ایک شخص آپ کے پاس پہنچا اور اس نے سوال کیا کہ روئے زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عتاب کیا کیونکہ انہوں نے اللہ کی طرف علم کو نہ لوٹایا اس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نشان طلب کیا تو ارشاد ہوا کہ ایک مچھلی اپنے ساتھ رکھ لو جس جگہ اس میں روح پڑجائے وہیں پر آپ کی اس شخص سے ملاقات ہوگئی۔ چناچہ آپ نے مچھلی لی زنبیل میں رکھ لی اور اپنے ساتھی سے کہا آپ کا صرف اتنا ہی کام ہے کہ جہاں مچھلی آپ کے پاس سے چلی جائے وہاں آپ مجھے خبر کردینا انہوں نے کہا یہ تو بالکل آسان سی بات ہے۔ ان کا نام یوشع بن نون تھا۔ لفتہ سے یہی مراد ہے۔ یہ دونوں بزرگ تر جگہ میں ایک درخت تلے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نیند آگئی تھی اور حضرت یوشع جاگ رہے تھے جو مچھلی کود گئی انہوں نے خیال کیا کہ جگانا تو ٹھیک نہیں جب آنکھ کھلے گی ذکر کر دوں گا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ پانی میں جانے کے وقت جو سوراخ ہوگیا تھا اسے روای حدیث عمرو نے اپنے انگوٹھے اور اس کے پاس کی دونوں انگلیوں کا حلقہ کر کے دکھایا کہ اس طرح کا تھا جیسے پتھر میں ہوتا ہے۔ واپسی پر حضرت خضر سمندر کے کنارے سبز گدی بچھائے ملے ایک چادر میں لپٹے ہوئے تھے اس کا ایک سرا تو دونوں پیروں کے نیچے رکھا ہوا تھا اور دوسرا کنارہ سر تلے تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سلام پر آپ نے منہ کھولا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ کے ہاتھ میں توراۃ موجود ہے وحی آسمان سے آرہی ہے کیا یہ بس نہیں ؟ اور میرا علم آپ کے لائق بھی نہیں اور نہ میں آپ کے علم کے قابل ہوں۔ اس میں ہے کہ کشتی کا تختہ توڑ کر آپ نے ایک تانت سے باندھ دیا تھا۔ پہلی دفعہ کا آپ کا سوال تو بھولے سے ہی تھا دوسری مربتہ کا بطور شرط کے تھا ہاں تیسری بار کا سوال قصدا علیحدگی کی وجہ سے تھا۔ اس میں ہے کہ لڑکوں میں ایک لڑکا تھا کافر ہوشیار اسے حضرت خضر نے لٹا کر چھری سے ذبح کردیا ایک قرأت میں زاکیتہ مسلمۃ بھی ہے۔ ورائہم کی قرأت امامہم بھی ہے اس ظالم بادشاہ کا نام اس میں ہدو بن بدو ہے اور جس بچے کو قتل کیا گیا تھا اس کا نام جیسور تھا کہتے ہیں کہ اس لڑکے کے بدلے ان کے ہاں ایک لڑکی ہوئی ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خطبہ کر رہے تھے اور فرمایا کہ اللہ کو اور اس کے امر کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ الخ یہ نوف کعب (رض) کی بیوی کے لڑکے کا قول تھا کہ جس موسیٰ کا ان آیتوں میں ذکر ہے یہ موسیٰ بن میشا تھے۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جناب باری تعالیٰ سے سوال کیا کہ اے اللہ اگر تیرے بندوں میں مجھ سے بڑا عالم کوئی ہو تو مجھے آگاہ فرما، اس میں ہے کہ نمک چڑھی ہوئی مچھلی آپ نے اپنے ساتھ رکھی تھی۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا تم یہاں کیوں آئے ؟ آپ کو تو ابھی بنی اسرائیل میں ہی مشغول کار رہنا ہے اس میں ہے کہ چھپی ہوئی باتیں حضرت خضر (علیہ السلام) کو معلوم کرائی جاتی تھیں تو آپنے فرمایا کہ تم میرے ساتھ ٹھیر نہیں سکتے کیونکہ آپ تو ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے اور مجھے راز پر اطلاع ہوتی ہے، چناچہ شرط ہوگئی کہ گو آپ کیسا ہی خلاف دیکھیں لیکن لب نہ ہلائیں جب تک کہ حضرت خضر خود نہ بتلائیں۔ کہتے ہیں کہ یہ کشتی تمام کشتیوں سے مضبوط عمدہ اور اچھی تھی، وہ بچہ ایک بےمثل بچہ تھا بڑا حسین بڑا ہوشیار بڑا ہی طرار حضرت خضر نے اسے پکڑ کر پتھر اس کا سر کچل کر اسے مار ڈالا۔ حضرت موسیٰ خوف اللہ سے کانپ اٹھے کہ ننھا سا پیارا بےگناہ بچہ اس بےدردی سے بغیر کسی سبب کے حضرت خضر نے جان سے مار ڈالا۔ دیوار گرتی ہوئی دیکھ کر ٹھہر گئے پہلے تو اسے باقاعدہ گرایا اور پھر بہ آرام چننے بیٹھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اکتا گئے کہ بیٹھے بٹھائے اچھا دھندا لے بیٹھے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اس دیوار کے نیچے کا خانہ صرف علم تھا۔ اور روایت میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی قوم مصر پر غالب آگئی اور یہاں آ کر وہ با آرام رہنے سہنے لگے تو حکم الہٰی ہوا کہ انہیں اللہ کے احسانات یاد دلاؤ۔ آپ خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کے احسانات بیان کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ یہ نعمتیں عطا فرمائیں، آل فرعون سے اس نے تمہیں نجات دی، تمہارے دشمنوں کو غارت اور غرق کردیا، پھر تمہیں ان کی زمین کا مالک کردیا، تمہارے نبی سے باتیں کیں، اسے اپنے لیے پسند فرما لیا، اس پر اپنی محبت ڈال دی، تمہاری تمام حاجتیں پوری کیں، تمہارے نبی تمام زمین والوں سے افضل ہیں، اس نے تمہیں تورات عطا فرمائی۔ الغرض پورے زوروں سے اللہ کی بیشمار اور ان گنت نعمتیں انہیں یاد دلائیں اس پر ایک بنی اسرائیل نے کہا فی الواقع بات یہی ہے اے نبی اللہ کیا زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ نے بےساختہ فرمایا کہ نہیں ہے۔ اسی وقت جناب باری تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیجا کہ ان سے کہو کہ تمہیں کیا معلوم کہ میں اپنا علم کہاں کہاں رکھتا ہوں ؟ بیشک سمندر کے کنارے پر ایک شخص ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اس سے مراد حضرت خضر (علیہ السلام) ہیں پس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ ان کو میں دیکھ لوں وحی ہوئی کہ اچھا سمندر کے کنارے جاؤ وہاں تمہیں ایک مچھلی ملے گی اسے لے لو، اپنے ساتھی کو سونپ دو ، پھر کنارے چل دو جہاں تو مچھلی کو بھول جائے اور وہ تجھ سے گم ہوجائے وہیں تو میرے اس نیک بندے کو پائے گا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب چلتے چلتے تھک گئے تو اپنے ساتھ سے جو ان کا غلام تھا مچھلی کے بارے میں سوال کیا اس نے جواب دیا کہ جس پتھر کے پاس ہم ٹھہرے تھے وہیں میں مچھلی کو بھول گیا اور تجھ سے ذکر کرنا شیطان نے بالکل بھلا دیا میں نے دیکھا کہ مچھلی تو گویا سرنگ بناتی ہوئی دریا میں جا رہی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی اپنی لکڑی سے پانی کو چیرتے ہوئے اس کے پیچھے ہو لئے مچھلی جہاں سے گزرتی تھی اس کے دونوں طرف کا پانی پتھر بن جاتا تھا اس سے بھی اللہ کے نبی سخت متعجب ہوئے اب مچھلی ایک جزیرے میں آپ کو لے گئی الخ۔ ابن عباس (رض) اور حر بن قیس میں اختلاف تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے یہ صاحب کون تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے انہیں بلا کر اپنا اختلاف بیان کیا۔ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہوئی وہ حدیث بیان کی جو تقریبا اوپر گزر چکی ہے۔ اس میں سائل کے سوال کے الفاظ یہ ہیں کہ کیا آپ اس شخص کا ہونا بھی جانتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم والا ہو ؟