مریم آية ۱
كٓهٰيٰـعٓـصٓ ۚ
طاہر القادری:
کاف، ہا، یا، عین، صاد (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
English Sahih:
Kaf, Ha, Ya, Ain, Sad.
1 Abul A'ala Maududi
ک، ہ، ی، ع، ص
2 Ahmed Raza Khan
کھیٰعص
3 Ahmed Ali
کھیصۤ
4 Ahsanul Bayan
کہیعص
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہیٰعص
6 Muhammad Junagarhi
کہیعص
7 Muhammad Hussain Najafi
کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کۤھیعۤصۤ
9 Tafsir Jalalayn
کھیعص
آیت نمبر 1 تا 6
ترجمہ : شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان اور نہایت رحم والا ہے کھیٰعص اس سے اللہ کی کیا مراد ہے وہی خوب جانتا ہے یہ (متلو) اپنے بندے زکریا پر تیرے رب کی رحمت کا تذکرہ ہے عبدہٗ رحمت کا مفعول ہے زکریا، عبدہ کا بیان ہے جبکہ اس نے اپنے رب کو مخفی طور پر پکارا اِذْ رحمۃً سے متعلق ہے، یعنی ایسا پکارنا کہ جو راز داری پر مشتمل تھا رات کے درمیان حصہ میں اس لئے کہ یہ (طریقہ) سریع القبول ہے عرض کیا اے میرے پروردگار میری تمام ہڈیاں کمزور ہوگئیں ہیں اور میرے سر میں بالوں کی سفیدی پھیل پڑی ہے شیباً فاعل سے منقول ہو کر تمیز ہے یعنی جس طرح لکڑیوں میں آگ پھیل جاتی ہے اسی طرح سفیدی میرے سر کے بالوں میں پھیل گئی (اس کے باوجود) میں آپ سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں (اور اس سے قبل بھی) میں آپ سے اے میرے رب درخواست کر کے کبھی محروم نہیں رہا ہوں یعنی میں آپ سے اپنی دعاء میں زمانہ گذشتہ میں بھی (ناکام نہیں رہا ہوں) لہٰذا آئندہ بھی مجھے محروم نہ فرمائیں اور مجھے میرے قریبی رشتہ داروں کی طرف سے یعنی ان لوگوں کی طرف سے کہ جو میرے نسبی رشتہ دار ہیں جیسا کہ چچا زاد بھائی وغیرہ دین کے معاملہ میں اندیشہ ہے کہ میرے بعد یعنی میرے مرنے کے بعد دین کو ضائع کردیں گے جیسا کہ میں بنی اسرائیل میں مشاہدہ کرچکا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہے جس سے کوئی اولاد نہیں سو (اس صورت میں) آپ مجھ کو خاص اپنے پاس سے یعنی اپنی خصوصی رحمت سے (اسباب عادیہ کے مفقود ہونے کے باوجود) ایک وارث یعنی ایسا بیٹا دے دیجئے جو میرا اور میرے دادا یعقوب کے خاندان کے علم ونبوت کا وارث بنے یَرِثُنِیْ میں جواب امر ہونے کی وجہ سے جزم اور (جملہ ہو کر) ولیًا کی صفت ہونے کی وجہ سے رفع ہے اور یَرِثُ میں بھی مذکورہ دونوں صورتیں جائز ہیں اور اے میرے پروردگار اس کو پسندیدہ یعنی اپنے نزدیک مقبول بنا دیجئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) سے اجابت دعاء کی وجہ سے بطور رحمت حاصل ہونے والے بیٹے کی درخواست کے جواب میں فرمایا یا زکریا الخ۔
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
قولہ کھیٰعص یہ متشابہات میں سے ہے جس کا واقعی علم اللہ اور اس کے رسول ہی کو ہے بندوں کے لئے اس کی تفتیش و جستجو بھی اچھی نہیں بعض اسلاف نے اس کی مراد بیان کی ہے، مگر وہ تخمینی ہے کہ تحقیقی ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یہ اسماء الہٰیہ میں سے ایک اسم ہے اور قتادہ (رح) نے فرمایا یہ قرآن کے اسماء میں سے ایک اسم ہے اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ اسم اعظم ہے وغیرہ وغیرہ ذکر رحمت ربِّکَ عبدَہُ ، عبدَہٗ رحمت کا مفعول بہ ہے اور بعض حضرات نے ذکر کا مفعول بہ کہا ہے زکریا عبدہ سے بدل یا عطف بیان ہے ذکر رحمۃِ میں ذکر مصدر اپنے مفعول کی جانب مضاف ہے اور مصدر کا فاعل محذوف ہے ای ذکر اللہ رحمتہ اور رحمۃ مصدر کی اضافت رب کی جانب مصدر کی اضافت فاعل کی طرف ہے اور جملہ ہو کر ھٰذا مبتدا محذوف کی خبر ہے جیسا کہ مفسر علام نے ھٰذا محذوف مان کر اشارہ کردیا ہے ای ھٰذا المتلو ذکر رحمۃ ربک اور ایک ترکیب یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ذکر رَحْمَۃِ ربِّکَ الخ مبتداء ہے اور اس۔۔۔ خبر مقدم محذوف ہے ای فیما یتلیٰ علَیْکَ ذکرُ رحمۃِ ربِّکَ اور ذکر رحمت کا مطلب رحمت کا معاملہ کرنا ہے نہ وہ ذکر جو نسیان کے مقابلہ میں ہے اِذ نادیٰ ، رحمۃ کا ظرف ہے اور بعض حضرات نے ذکر کا ظرف قرار دیا ہے مفسر علام نے اِذ کے بعد متعلِّق بِرَحْمَۃٍ کے اضافہ سے یہ بتادیا کہ اِذْ نادیٰ اگرچہ ذکر کا بھی ظرف ہوسکتا ہے مگر مفسر کے نزدیک رحمۃ کا ظرف بنانا بہتر ہے ای رحمۃ اللہِ اِیَّاہ وقتَ اَنْ ناداہٗ قولہ وَھَنَ (س ض) وَھْنًا کمزور ہونا، ضعیف ہونا، حضرت زکریا (علیہ السلام) نے وَھَنَ العَظْمُ مِنِّیْ فرمایا حالانکہ وَھَنَ عظمی زیادہ مختصر ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : وَھَنَ العظم منی میں تفصیل بعد الاجمال ہے اس لئے کہ العظم منی جنسیۃ مقصودہ پر واضح الدلالۃ ہے، اس لئے کہ وَھَنَ العظم مطلق ہے جس میں حضرت زکریا (علیہ السلام) اور ان کے غیر کی ہڈیاں شامل ہیں منی کہہ کر خود کو دوبارہ شامل کرلیا اس طرح مِنّی، العظم کی تاکید ہوئی (روح) قولہ قال رَبِّی یہ جملہ نادیٰ رَبَّہٗ کی تفسیر ہے، العظم میں الف لام استغراق جنسی کے لئے ہے مراد تمام ہڈیاں ہیں، العظم کو مفرد لایا گیا ہے نہ کہ جمع اس لئے کہ جمع کا اطلاق اس صورت میں بھی درست ہے جبکہ بعض ہڈیاں کمزور ہوگئیں ہوں قولہ اشتعال اصل میں انتشارُ شعاع النارِ فی الحطب کو کہتے ہیں، شیباً بوجہ تمییز منصوب ہے اور فاعل سے منقول ہے تقدیر عبارت یہ ہے انتشر الشیبُ فی شعرہٖ (ض) شیباً بوڑھا ہونا، بالوں کا سفید ہونا، بعض حضرات نے شیباً کو مصدریت کی وجہ سے منصوب کہا ہے، بایں طور کہ اِشتَعَلَ الرأسُ شَابَ کے معنی میں ہے لہٰذا اب عبارت ہوگی شاب شیباً اور بعض حضرات نے حال ہونے کی وجہ سے منصوب کہا ہے اور شیباً بمعنی شائباً کہا ہے (روح) مگر یہ دونوں قول مرجوح ہیں رأس کے بعد مِنِّی کو ماقبل پر اعتماد کرتے ہوئے ترک کردیا قولہ الموالی جمع مولیٰ ، قریبی رشتہ دار، بنی عم وغیرہ عاقراً بانجھ عاقر کے آخر سے ۃ حذف کردی گئی ہے جیسا کہ حائض سے، حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیوی کا نام اشاع بنت فاقور ہے اور اشاع کی بہن کا نام حنہ ہے اشاع کے یحییٰ پیدا ہوئے اور حنہ کے مریم اور مریم کے عیسیٰ علیہ السلام، اس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) یحییٰ (علیہ السلام) کے خالہ زاد بھانجے ہوئے قولہ رضیاً مصدر بمعنی مفعول پسندیدہ قولہ بدعائک کی تفسیر بدعائی سے کر کے اشارہ کردیا کہ دعاء مصدر ہے اور اپنے مفعول کی جانب مضاف ہے اور اس کا فاعل ی ضمیر متکلم محذوف ہے قولہ العلم والنبوۃ سے اشارہ کردیا کہ انبیاء کی میراث علم ہے نہ کہ مال و دولت۔
تفسیر و تشریح
نِداءً خفِیًّا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعاء آہستہ اور خفیہ طور پر کرنا افضل ہے حضرت سعد بن وقاص (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اِنَّ خیرَ الذکر الخفی وخیر الرزق ما یکفی یعنی بہترین ذکر خفی ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو کافی ہوجائے (ضرورت سے نہ گھٹے اور نہ بڑھے) ذکر خفی کے افضل ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ذکر خفی میں تضرع وانابت اور خشوع و خضوع زیادہ ہوتا ہے، ریا ونمود سے دور ہوتا ہے حضرت زکریا (علیہ السلام) کے خفیہ طور پر بیٹے کی دعاء میں ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ لوگ ان کو بیوقوف قرار نہ دیں کہ بڈھا اب بڑھاپے میں اولاد مانگ رہا ہے جبکہ اولاد کے ظاہری تمام امکانات ختم ہوچکے ہیں۔
اِنِّی وَھَنَ العظْمُ مِنّی الخ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنی کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ہڈیوں کی کمزوری کا ذکر فرمایا ہے اس لئے کہ ہڈیاں ہی عمود بدن ہوتی ہیں جب ہڈیاں ہی کمزور ہوگئیں تو بقیہ چیزوں کے کمزور نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دعاء میں اپنی حاجت مندی کا اظہار مستحب ہے : حضرت زکریا (علیہ السلام) نے دعا سے پہلے اپنی کمزوری اور ضعف کا ذکر فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کرتے وقت اپنی بدحالی نیز ضعف اور کمزوری نیز حاجت مندی کا ذکر کرنا قبولیت کے لئے اقرب ہے اسی لئے علماء نے فرمایا کہ انسان کو چاہیے کہ دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اپنی حاجت مندی کا ذکر ہے۔
حضرت زکریا (علیہ السلام) کے اپنے ضعف اور کمزوری کا ذکر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اولاد پیدا ہونے کے تمام ظاہری اسباب مفقود ہیں اب تو ہم دونوں بوڑھے ہوچکے ہیں جب دونوں جوان تھے اور اولاد کے ظاہری اسباب بھی موجود تھے اس وقت کچھ نہ ہوا تو اب تو ظاہری اسباب بھی مفقود ہوچکے ہیں، اس بات کا تقاضہ تو یہ تھا کہ میں آپ سے اولاد کی دعا نہ کروں مگر چونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے قریبی عزیزوقریب دین پر قائم نہ رہ سکیں خود ہی گمراہ ہوجائیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں، اس ضرورت اور مصلحت کی وجہ سے ظاہری اسباب نہ ہونے کے باوجود میں آپ سے ایک بیٹے کی درخواست کرتا ہوں کہ جو میرے اور خاندان یعقوب (علیہ السلام) کے علمی اور نبوی ورثہ کا وارث ہو سکے۔
وَاِشْتَعَلَ الرَّأسُ شَیْبًا اور میرا پورا سر بڑھاپے کی وجہ سے سفید ہوچکا ہے اس سے بھی ضعف وکبرسنی کا اظہار مقصود ہے، بالوں کی سفیدی کو آگ کی روشنی سے تشبیہ دے کر اس کا پورے سر پر پھیل جانا مقصود ہے۔
البَلاغۃ : (١) اَلْکِنَایَۃ (وَھَنَ العظم منی) کنایۃ عن ذھاب القوۃ وضعف الجسم (٢) اَلاستعارۃ (اشتعل الرأس شیباً ) شَبَّہَ اِتشارَ الشیب وکثرتہٖ باشتعال بمعنی اِنْتَشَرَ ففیہ استعارۃٌ تَبْعِیَّۃ ٌ۔
یَرِثنی وَیَرِث مِنْ ءَالِ یعقوب الخ باتفاق جمہور علماء اس آیت میں وراثت سے وراثت مالی مراد نہیں ہے قال البیضاوی المراد وِرَاثۃ الشرع والعلم فاِن الانبیاء لا یورثون المال ١٤/٢، اول حضرت زکریا (علیہ السلام) کے پاس کوئی بڑی دولت ہونا ثابت نہیں کہ جس کی فکر ہو کہ اس کا وارث کون ہوگا ؟ اور ایک پیغمبر کی شان سے بھی ایسی فکر کرنا بعید ہے اس کے علاوہ وہ صحیح حدیث جس پر صحابہ کرام کا اجماع ثابت ہے اس میں ہے :
العلماءُ ورثۃ الاَنبِیاءِ واَنَّ الاَنْبِیَاءَ لم یُوَرِّثُوْا دِینارًا ولا دِرْھَمًا اِنَّما ورِّثوا العلمَ فمن اَخَذَہ اَخَذ بحظٍّ وافِرٍ (رواہ احمد و ابوداؤد وابن ماجہ والترمذی)
“ بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں کیونکہ انبیاء علماء انبیاء کے وارث ہیں کیونکہ انبیاء دینار و درہم کی وراثت نہیں چھوڑتے بلکہ ان کی وراثت علم ہوتا ہے جس نے علم حاصل کرلیا اس نے بڑی دولت حاصل کرلی ”
یہ حدیث کلینی کی اصول کافی وغیرہ میں بھی موجود ہے اور صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
لاَ نُوَرِّثُ وَمَا نُوَرِّثُ صَدَقَۃ ٌ : ہم انبیاء کی مالی وراثت کسی کو نہیں ملتی ہم جو مال چھوڑتے ہیں وہ سب صدقہ ہے۔
اور خود اس آیت میں یَرِثُنِیْ کے بعد وَیَرِثُ مِنْ آل یَعْقوْبَ کا اضافہ اس کی دلیل ہے کہ وراثت سے وراثت مالی مراد نہیں ہے کیوں کہ جس لڑکے کی پیدائش کی دعا کی جا رہی ہے اس کا آل یعقوب کے لئے مالی وارث بننا بظاہر ممکن نہیں اس لئے کہ آل یعقوب کے ورثاء ان کے عصاب قریبہ ہوں گے اور وہ وہی موالی ہیں جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے وہ بلاشبہ قرابت اور عصوبت میں حضرت یحییٰ (علیہ السلام) سے اقرب ہیں اقرب کے ہوتے ہوئے عصبہ بعید کو وراثت ملنا اصول وراثت کے خلاف ہے۔
روح المعانی میں کتب شیعہ سے یہ نقل کیا گیا ہے :
رَوَی الکلینی فی الکافی عن ابی البختری عن ابی عبداللہ قال اِنّ سلیمان وَرِثَ داؤد وأن محمدًا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ورث سلیمان۔
سلیمان (علیہ السلام) داؤد (علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلیمان (علیہ السلام) کے وارث ہوئے۔
یہ ظاہر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی مالی وراثت ملنے کا کوئی احتمال وامکان ہی نہیں اس سے مراد علوم نبوت کی وراثت ہے اس سے معلوم ہوا کہ وَرِثَ سلیمان داؤد میں بھی وراثت مالی مراد نہیں وَاَجْعَلْہٗ رَبِّ رَضِیًّا اے پروردگار تو اس کو اپنے نزدیک مقبول اور پسندیدہ بنا اس سے معلوم ہوا کہ والدین کو اپنے بچوں کے لئے نیک صالح خوش اخلاق وخوش اطوار بننے کی دعاء کرنا طریقہ انبیاء ہے۔
سوال : حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا یَرِثُنِیْ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پیدا ہونے والا لڑکا حضرت زکریا (علیہ السلام) کی وفات کے بعد بھی زندہ رہے اور اس لئے کہ وارث بننے کا عام طور پر یہی مطلب ہوتا ہے حالانکہ تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) حضرت زکریا (علیہ السلام) کی زندگی ہی میں قتل کر دئیے گئے تھے۔
جواب : (١) بقاء عام ہے بقاء ذات اور بقاء آثار کو لہٰذا اگر حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی ذات باقی نہیں رہی تو ان کے آثار باقی رہے (٢) یا فاستجبنا دعاء کے بعض اجزاء کے اعتبار سے ہے (٣) حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے قصہ قتل کی تقدیم ثابت نہ ہو۔ (بیان القرآن)
10 Tafsir as-Saadi
كهيعص
11 Mufti Taqi Usmani
Kaaf-Haa-Yaa-Aen-Suad
12 Tafsir Ibn Kathir
دعا اور قبولیت۔
اس سورت کے شروع میں جو پانچ حروف ہیں انہیں حروف مقطعہ کہا جاتا ہے ان کا تفصیلی بیان ہم سورة بقرہ کی تفسیر کے شروع میں کرچکے ہیں۔ اللہ کے بندے حضرت زکریا نبی (علیہ السلام) پر جو لطف الہٰی نازل ہوا اس کا واقعہ بیان ہو رہا ہے۔ ایک قرأت ہے۔ یہ لفظ مد سے بھی ہے اور قصر سے بھی۔ دونوں قرأتیں مشہور ہیں۔ آپ بنو اسرائیل کے زبر دست رسول تھے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے آپ بڑھئی کا پیشہ کر کے اپنا پیٹ پالتے تھے۔ رب سے دعا کرتے ہیں لیکن اس وجہ سے کہ لوگوں کے نزدیک یہ انوکھی دعا تھی کوئی سنتا تو خیال کرتا کہ لو بڑھاپے میں اولاد کی چاہت ہوئی ہے۔ اور یہ وجہ بھی تھی کہ پوشیدہ دعا اللہ کو زیادہ پیاری ہوتی ہے اور قبولیت سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ متقی دل کو بخوبی جانتا ہے اور آہستگی کی آواز کو پوری طرح سنتا ہے۔ بعض سلف کا قول ہے کہ جو شخص اپنے والوں کی پوری نیند کے وقت اٹھے اور پوشیدگی سے اللہ کو پکارے کہ اے میرے پروردگار اے میرے پالنہار اے میرے رب اللہ تعالیٰ اسی وقت جواب دیتا ہے کہ لبیک میں موجود ہوں میں تیرے پاس ہوں۔ دعا میں کہتے ہیں کہ اے اللہ تعالیٰ اسی وقت جواب دیتا ہے کہ لبیک میں موجود ہوں میں تیرے پاس ہوں۔ دعا میں کہتے ہیں کہ اے اللہ میرے قوی کمزور ہوگئے ہیں میری ہڈیاں کھوکھلی ہوچکی ہیں میرے سر کے بالوں کی سیاہی اب تو سفیدی سے بدل گئی ہے یعنی ظاہری اور پوشیدگی کی تمام طاقتیں زائل ہوگئی ہیں اندرونی اور بیرونی ضعف نے گھیر لیا ہے۔ میں تیرے دروازے سے کبھی خالی ہاتھ نہیں گیا تجھ کریم سے جو مانگا تو نے عطا فرمایا۔ موالی کو کسائی نے موالی پڑھا ہے۔ مراد اس سے عصبہ ہیں۔ امیرا لمومنین حضرت عثمان بن عفان سے خفت کو خفت پڑھنا مروی ہے یعنی میرے بعد میرے والے بہت کم ہیں۔ پہلی قرأت پر مطلب یہ ہے کہ چونکہ میری اولاد نہیں اور جو میرے رشتے دار ہیں ان سے خوف ہے کہ مبادہ یہ کہیں میرے بعد کوئی برا تصرف نہ کردیں تو تو مجھے اولاد عنایت فرما جو میرے بعد میری نبوت سنبھالے۔ یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ آپ کو اپنے مال املاک کے ادھر ادھر ہوجانے کا خوف تھا۔ انبیاء (علیہم السلام) اس سے بہت پاک ہیں۔ ان کا مرتبہ اس سے بہت سوا ہے کہ وہ اس لئے اولاد مانگیں کہ اگر اولاد نہ ہوئی تو میرا ورثہ دور کے رشتے داروں میں چلا جائے گا۔ دوسرے بہ ظاہر یہ بھی ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) جو عمر بھر اپنی ہڈیاں پیل کر بڑھئی کا کام کر کے اپنا پیٹ اپنے ہاتھ کے کام سے پالتے رہے ان کے پاس ایسی کون سی بڑی رقم تھی کہ جس کے ورثے کے لئے اس قدر پس وپیش ہوتا کہ کہیں یہ دولت ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ انبیاء علہم السلام تو یوں بھی ساری دنیا سے زیادہ مال سے بےرغبت اور دنیا کے زاہد ہوتے ہیں۔ تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ بخاری ومسلم میں کئی سندوں سے حدیث ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ ہمارا ورثہ تقسیم نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑیں سب صدقہ ہے۔ ترمذی میں صحیح سند سے مروی ہے کہ ہم اس سے مطلب ورثہ نبوت ہے نہ کہ مالی ورثہ۔ اسی لئے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو۔ جیسے فرمان ہے کہ ( وورث سلیمان داود) سلیمان داؤد (علیہ السلام) کے وارث ہوئے۔ یعنی نبوت کے وراث ہوئے۔ نہ کہ مال کے ورنہ مال میں اور اولاد بھی شریک ہوتی ہے۔ تخصیص نہیں ہوتی۔ چوتھی وجہ یہ بھی ہے اور یہ بھی معقول وجہ ہے کہ اولاد کا وارث ہونا تو عام ہے، سب میں ہے تمام مذہبوں میں ہے پھر کوئی ضرورت نہ تھی کہ حضرت زکریا اپنی دعا میں یہ وجہ بیان فرماتے اس سے صاف ثابت ہے کہ وہ ورثہ کوئی خالص ورثہ تھا اور وہ نبوت کا وارث بننا تھا۔ پس ان تمام وجوہ سے ثابت ہے کہ اس سے مراد ورثہ نبوت ہے۔ جیسے کہ حدیث میں ہے ہم جماعت انبیاء کا ورثہ نہیں بٹتا ہم جو چھوڑ جائیں صدقہ ہے۔ مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں مراد ورثہ علم ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) اولاد یعقوب (علیہ السلام) میں تھے۔ ابو صالح (رح) فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ وہ بھی اپنے بڑوں کی طرح نبی ہے۔ حسن (رح) فرماتے ہیں نبوت اور علم کا وارث بنے۔ سدی (رح) کا قول ہے میری اور آل یعقوب (علیہ السلام) کی نبوت کا وہ وراث ہو۔ زید بن اسلم بھی یہی فرماتے ہیں ابو صالح کا قول یہ بھی ہے کہ میرے مال کا اور خاندان حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی نبوت کا وہ وارث ہو۔ عبد الرزاق میں حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ زکریا (علیہ السلام) پر رحم کرے بھلا انہیں وراثت مال سے کیا غرض تھی ؟ اللہ تعالیٰ لوط (علیہ السلام) پر رحم کرے وہ کسی مضبوط قلعے کی تمنا کرنے لگے۔ ابن جریر میں ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بھائی زکریا پر اللہ کا رحم ہو کہنے لگے اے اللہ مجھے اپنے پاس سے والی عطا فرما جو میرا اور آل یقوب کا وارث بنے لیکن یہ سب حدیثیں مرسل ہیں جو صحیح احادیث کا معارضہ نہیں کرسکتیں واللہ اعلم۔ اور اے اللہ اسے اپنا پسندیدہ غلام بنالے اور ایسا دین دار دیانتدار بنا کہ تیری محبت کے علاوہ تمام مخلوق بھی اس سے محبت کرے اس کا دین اور اخلاق ہر ایک پسندیدگی اور پیار کی نظر سے دیکھے۔