مریم آية ۱۶
وَاذْكُرْ فِى الْـكِتٰبِ مَرْيَمَۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا ۙ
طاہر القادری:
اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ کتاب (قرآن مجید) میں مریم (علیہا السلام) کا ذکر کیجئے، جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر (عبادت کے لئے خلوت اختیار کرتے ہوئے) مشرقی مکان میں آگئیں،
English Sahih:
And mention, [O Muhammad], in the Book [the story of] Mary, when she withdrew from her family to a place toward the east.
1 Abul A'ala Maududi
اور اے محمدؐ، اس کتاب میں مریم کا حال بیان کرو، جبکہ وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر شرقی جانب گوشہ نشین ہو گئی تھی
2 Ahmed Raza Khan
اور کتاب میں مریم کو یاد کرو جب اپنے گھر والوں سے پورب کی طرف ایک جگہ الگ گئی
3 Ahmed Ali
اور اس کتاب میں مریم کا ذکر کر جب کہ وہ اپنے لوگوں سے علیحدہ ہو کر مشرقی مقام میں جا بیٹھی
4 Ahsanul Bayan
اس کتاب میں مریم کا بھی واقعہ بیان کر۔ جبکہ وہ اپنے گھر کے لوگوں سے علیحدہ ہو کر مشرقی جانب آئیں
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کتاب (قرآن) میں مریم کا بھی مذکور کرو، جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرق کی طرف چلی گئیں
6 Muhammad Junagarhi
اس کتاب میں مریم کا بھی واقعہ بیان کر۔ جبکہ وه اپنے گھر کے لوگوں سے علیحده ہو کر مشرقی جانب آئیں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے۔ جب کہ وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہوکر ایک مشرقی مکان میں گئیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور پیغمبر علیھ السّلام اپنی کتاب میں مریم کا ذکر کرو کہ جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ مشرقی سمت کی طرف چلی گئیں
9 Tafsir Jalalayn
اور کتاب (قرآن) میں مریم کا بھی مذکور کرو جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرق کی طرف چلی گئیں
آیت نمبر 16 تا 25
ترجمہ : اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کتاب یعنی قرآن میں مریم کا یعنی ان کے واقعہ کا ذکر کیجئے جب کہ وہ اپنے اہل خانہ سے الگ ہو کر ایک ایسے مکان میں جو شرقی جانب تھا چلی گئیں یعنی دار (بیت المقدس) کے مشرقی جانب کسی جگہ تنہائی میں چلی گئیں اور اہل خانہ کی جانب سے پردہ ڈال لیا، یعنی پردہ لٹکا لیا تاکہ آڑ ہوسکے (اور) اپنے سریا کپڑوں میں جوں دیکھ سکے یا حیض سے طہارت کے لئے غسل کرسکے تو ہم نے اس کے پاس اپنی روح جبرئیل (علیہ السلام) کو بھیج دیا تو وہ ان کے سامنے کپڑے پہننے کے بعد مکمل مرد بن کر نمودار ہوا حضرت مریم کہنے لگیں کہ میں تجھ سے اپنے خدا کی پناہ طلب کرتی ہوں اگر تجھے کچھ بھی خوف خدا ہے تو تو یہاں سے میرے پناہ طلب کی وجہ سے ہٹ جائے گا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا میں تیرے رب کا قاصد ہوں تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دینے آیا ہوں اور اس کی پاکیزگی نبوت کی وجہ سے ہے تو حضرت مریم (علیہ السلام) کہنے لگیں بھلا میرے بچہ کیسے ہوسکتا ہے حالانکہ مجھے کسی بشر نے ہاتھ تک نہیں لگایا نکاح کر کے اور نہ میں بدکار زانیہ ہوں فرشتہ نے کہا امر تو ایسا ہی ہے کہ تجھ سے باپ کے بغیر لڑکا پیدا ہو تیرے پروردگار کا ارشاد ہے کہ یہ میرے لئے بہت آسان ہے اس طریقہ پر کہ جبرائیل تجھ میں میرے حکم سے پھونک ماردیں گے پھر تو اس کی وجہ سے حاملہ ہوجائے گی، مذکور (یعنی ھو علیّ ھیّن) چونکہ علت کے معنی میں ہے لہٰذا اس پر لِنَجْعَلَہ کا عطف کیا گیا ہے اور تاکہ اس کو میں اپنی قدرت پر لوگوں کے لئے نشانی بناؤں اس شخص کے لئے جو ہماری کمال قدرت پر یقین رکھتا ہو اور اس (ولد) کی تخلیق طے شدہ بات ہے میرے علم میں، چناچہ حضرت جبرائیل نے حضرت مریم (علیہ السلام) کی قمیص کے گریبان میں پھونک مار دی چناچہ حضرت مریم (علیہ السلام) نے اپنے پیٹ میں (حمل) متشکل محسوس کیا چناچہ حضرت مریم (علیہ السلام) فرزند سے حاملہ ہوگئیں اور اسی وجہ سے یکسو ہو کر اپنے اہل خانہ سے دور ایک مقام پر چلی گئیں پھر دردزہ اس کو ایک کھجور کے تنے کے پاس لے آیا تاکہ اس سے ٹیک لگائے پھر اس نے (بچہ) جنا اور یہ حمل اور تشکل اور ولادت (سب کچھ) ایک ساعت میں ہوگیا کہنے لگیں کاش میں اس واقعہ سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور میں ایسی بھولی بسری متروک شئ ہوگئی ہوتی کہ نہ کوئی مجھے پہچانتا اور نہ میرا تذکرہ کرتا اتنے میں اسے نیچے کی جانب سے جبرائیل (علیہ السلام) نے جو کہ مریم سے بائیں جانب تھے آواز دی کہ تو آزردہ خاطر نہ ہو تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ جاری کردیا ہے یعنی ایسی نہر کو (جاری کردیا) جس کا پانی خشک ہوگیا تھا اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا حالانکہ وہ درخت خوشک تھا بجذع میں باء زائدہ ہے تیرے سامنے تروتازہ پکی کھجوریں گرادے گا رَطَبًا تمیز ہے اور جَنِیّا اس کی صفت ہے تَسَّاقَطَ اس کی اصل دو تاؤں کے ساتھ ہے دوسری تاسین سے بدل دی گئی اور سین کو سین میں ادغام کردیا گیا اور ایک قرأۃ میں ترک تا کے ساتھ بھی ہے۔ (ای تساقَطٌ)
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
قولہ واذکر فی الکتاب مریم اس کا عطف کلام سابق کے مضمون پر ہے تقدیر عبارت یہ ہے اعلم ذکر رحمۃِ ربِّکَ عبدہٗ زکریا واذکر فی الکتاب مریم قص تھا اذکر فی الکتاب مریم ای قصتہ مریم مضاف محذوف ہے مریَمْ بمعنی عابدہ، زاہدہ، اور خادمۃ الرب کے ہیں الکتاب میں الف لام عہد کا ہے مراد قرآن کریم ہے قولہ اِذ انتبذت مضاف محذوف کا ظرف ہے جس کو مفسر علام نے خبرھا کہہ کر ظاہر کردیا مریم سے بدل الکل یا بدل الاشتمال بھی ہوسکتا ہے (مظہری) قولہ مکاناً شرقیاً موصوف صفت سے ملکر یا تو انتبذت کا ظرف ہے یا اس کا مفعول بہ ہے اس لئے کہ انتبذت اَتَتْ کے معنی کو مشتمل ہے ای اَتَتْ مکاناً اِنْتَبَذَتْ ای ابتعدت وتنحت ایک طرف ہونا بعید ہونا قولہ بعد لبسِھَا ثیابًا یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ جس گھر میں عورت کھلے سر ہو اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے تو مریم اس جگہ برہنہ تھیں، کیسے داخل ہوگئے جواب دَخَلَ بعد لبسھا قولہ لتفلِیْ مضارع واحد مؤنث غائب، تاکہ وہ جوں دیکھے قولہ روحَنَا ای جبرائیل قولہ لَمْ اَکُ بَغیًا بغیۃ نہیں فرمایا حالانکہ موقع بغیۃ کا تھا اس لئے کہ یہ صفت عام طور پر عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے تو یہ حائض اور عاقر کے قبیل سے ہونے کی وجہ سے تا کی ضرورت نہیں ہے قولہ قال ربک ھو علَیَّ ھَیِّنٌ قال کذلک کی علت کے قائم مقام ہے، یعنی اسی طرح ہوگا، اس لئے کہ یہ ہمارے لئے آسان ہے، دراصل یہ ایک اعتراض کا جواب ہے، اعتراج یہ ہے کہ یہاں جملہ تعلیلیہ کا عطف غیر تعلیلیہ پر ہو رہا ہے جو جائز نہیں ہے، جواب یہ ہے کہ معطوف علیہ بھی جملہ تعلیلیہ ہے لہٰذا لنجعلہ آیۃ للناس کا اس پر عطف درست ہوگا، قولہ رحمۃ کا عطف آیۃ پر ہے قولہ المخاض دردزہ (س) قولہ فتنتھی محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ اِنْ کنتَ تقیَّا کا جواب شرط فتنتھی محذوف ہے قولہ بتزوجٍ مفسر علام نے بتزوجٍ کا اضافہ کر کے ایک سوال کا جواب دیا ہے، سوال جواب دیا ہے، سوال یہ ہے کہ لَمْ یَمْسَسْنِیْ یہ عدم جماع سے کنایہ ہے لہٰذا یہ جماع حلال اور حرام دونوں کو شامل ہے اس صورت میں لَمْ اَکُ بغیاً کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔
جواب : کا خلاصہ یہ ہے کہ عرف میں مس وطی حلال ہی کو شامل ہے وطی حرام عرفاً اس سے خارج ہے وطی حرام اور حلال دونوں کی نفی کرنے کے لئے لمْ اکُ بَغِیَّا کا اضافہ فرمایا قولہ اَجَاءَھَا کی تفسیر جاءَ بھَا سے کر کے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ جاء اور اجاء دونوں ایک ہی معنی میں ہیں یعنی دونوں متعدی بیک مفعول ہیں بظاہر یہ شبہ تھا کہ جب جاء کے شروع میں ہمزہ کا اضافہ کردیا تو شاید متعدی بدو مفعول ہوگیا ہو اس شبہ کو مفسر علام نے اَجَاءَھَا کی تفسیر جاءَبِھا سے کر کے دفع کردیا، دوسرا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اجاءَ اَلْجَاَ کے معنی میں ہے اور جب استعمال بدل گیا تو متعدی بیک مفعول ہوگیا۔ (جمل)
تفسیر وتشریح
وَاذْکرُ فی الکتاب مریم اس سورة میں مذکور قصوں میں سے یہ دوسرا واقعہ ہے، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ قرآن کے اس حصہ میں حضرت مریم کا قصہ بھی ذکر کیجئے یہ قصہ حضرت یحییٰ علیہ السلالم کی ولادت کے قصہ سے بھی زیادہ عجیب ہے اس لئے بغیر مرد کے بچہ پیدا ہونا، بانجھ عورت سے بچہ پیدا ہونا لوگوں کے لئے عجیب ضرور ہے مگر بغیر شوہر کے بچہ کی پیدا ئش ہماری کمال قدرت پر اس سے بھی زیادہ دلالت کرنے والا ہے، اور یہ قصہ اس وقت واقع ہوا جب کہ وہ گھر سے الگ ہو کر ایک ایسے مکان میں جو کہ مشرق کی جانب تھا چلی گئیں یہ تنہائی یا تو غسل حیض کے لئے تھی یا عبادت میں یکسوئی کے لئے تاکہ گوشہ تنہائی میں یکسوئی اور دل جمعی کے ساتھ خدا کی بندگی کرسکیں، لوگوں کی نظر پڑنے سے بچنے کے لئے ایک پردہ بھی ڈال لیا تاکہ اس کی آڑ میں غسل کرسکیں اور اپنے سر وغیرہ میں جوئیں دیکھ سکیں تو اس حالت میں ہم نے ان کے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیجا اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ان کے سامنے نہایت حسین و جمیل امر جوان کی شکل میں ظاہر ہوئے اور ابو مسلم نے کہا ہے کہ روحنا سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہیں، لقولہ تعالیٰ وَرُوْحٌ مِّنْہٗ (روح المعانی)
کیا عورت نبی ہوسکتی ہے ؟ علماء اور مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ حضرت مریم نبیہ تھیں یا نہیں، یا عورت نبی ہوسکتی ہے یا نہیں،
بعض حضرات اسی آیت سے عورت کے نبی ہونے پر استدلال کرتے ہیں، علماء جمہور فرماتے ہیں کہ مطلق وحی تو عورت کی جانب بھی آسکتی ہے البتہ وحی رسالت مردوں کے ساتھ خاص ہے حضرت مریم (علیہ السلام) کی طرف جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعہ وحی بھیجی تھی وہ وحی بشارت تھی نہ کہ وحی رسالت۔
جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ایک خوبصورت اور رعنا امرد نوجوان کی شکل میں حضرت مریم کے سامنے ظاہر ہوئے تو وہ گھبرا گئیں، گھبرا کے کہنے لگیں کہ میں تجھ سے اپنے خدا کی پناہ مانگتی ہوں اگر تجھے ذرا بھی خوف خدا ہے تو تو یہاں سے ہٹ جا اس کا مفہوم مخالف مراد نہیں کہ اگر تو متقی نہیں ہے تو میں تجھ سے پناہ نہیں مانگتی، بلکہ مطلب یہ ہے کہ متقی ہونے کی صورت میں پناہ طلب کی تو غیر متقی ہونے کی صورت میں تو بطریق اولیٰ پناہ طلب کرتی ہوں، بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ جبرائیل امین نے جب یہ کلمہ سنا تو اللہ کے نام کی تعظیم کے لئے کچھ پیچھے ہٹ گئے، اور کہا میں بشر نہیں ہوں کہ تم مجھ سے ڈرتی ہو، بلکہ میں تو تمہارے رب کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں میں اس لئے آیا ہوں کہ تم کو باذن خدا ایک پاکیزہ بچہ دوں لِاَھَبَ میں ہبہ کی نسبت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنی طرف کی ہے یہ نسبت مجازی ہے اور اضافت الشی ٔ الی السبب کے قبیل سے ہے چونکہ اعطاء ولد کا ظاہری سبب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھے اس لئے اپنی جانب نسبت کردی ورنہ درحقیقت اعطاء ولد اللہ کا فعل ہے، یا حکایت حال کے طور پر جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنی طرف نسبت کردی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ مریم سے کہہ دو کہ میں تم کو ایک پاکیزہ فرزند دینے والا ہوں، بعض قراءتوں میں لِاَھَبَ کے بجائے لِیَھَبَ ہے اس صورت میں کوئی اشکال ہی نہیں ہے اس لئے کہ اس قرأ ت کے مطابق اعطاء ولد کی نسبت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے بعض حضرات لِاَھَبَ سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول بخش اور پیر بخش وغیرہ نام رکھنا درست ہے یہ نہایت نادانی اور نادانی اور ناسمجھی کی بات ہے۔
قال کذٰلک الخ فرشتہ نے جواب دیا یہ بات صحیح ہے کہ تجھے مرد سے مقاربت کا کوئی موقع نہیں ملا ہے نہ جائز طریقہ سے اور نہ ناجائز طریقہ سے، جب کہ حمل کے لئے عادتاً یہ ضروری ہے، مگر تیرے رب کا فرمان ہے کہ میں اسباب عادیہ کا محتاج نہیں ہوں میرے لئے یہ بالکل آسان ہے اور میں اسے (یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو) اپنی قدرت تخلیق کے لئے ایک نشانی اور لوگوں کے لئے رحمت بنانا چاہتا ہوں اس سے قبل ہم نے تمہارے دادا آدم (علیہ السلام) کو مرد اور عورت کے بغیر اور تمہاری دادی حوا کو صرف مرد سے عورت کے بغیر پیدا کیا اور اب عیسیٰ (علیہ السلام) کو چوتھی شکل یعنی بغیر باپ کے محض بطن مادر سے پیدا کر کے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم تخلیق کی چاروں قسموں پر قادر ہیں اسی طرح ہم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا کر کے لوگوں کے لئے اپنی رحمت کی نشانی بھی بنانا چاہتے ہیں کیونکہ نبی اپنی امت کے لئے رحمت ہوتا ہے۔
وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیَّا یہ کلام سابق کا تتمہ ہے یعنی یہ اعجازی تخلیق تو اللہ کے علم اور اس کی قدرت میں مقدر ہوچکی ہے اس میں تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا، اس گفتگو کے بعد حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے مریم کے گریبان یا منہ میں پھونک مار دی جس کے نیتجے میں حضرت مریم کو حمل رہ گیا پھر حضرت مریم (علیہ السلام) اس حمل کو لئے ہوئے شرم کے مارے اپنے گھر والوں سے کہیں دور مقام پر چلی گئیں، اور اس خیال سے کہ بچہ کے معاملہ میں لوگوں کو کس طرح مطمئن کرسکوں گی جب کہ میری بات کی تصدیق کرنے کے لئے کوئی تیار ہی نہیں ہوگا اور ساتھ ہی یہ تصور بھی روح فرسا تھا کہ کہاں میری شہرت ایک عابدہ اور زاہدہ کے طور پر اور اس کے بعد لوگوں کی نظر میں بدکار ٹھہروں گی، اس خیال سے مغلوب الحال ہو کر موت کی آرزو کر ڈالی۔
تمنائے موت کا حکم : اگر یہ تمنائے موت غم دنیا سے تھی تب تو غلبہ حال کو اس کا عذر کہا جائے گا جس میں انسان من کل الوجوہ مکلّف نہیں رہتا، اور اگر غم دین سے تھا کہ لوگ بدنام کریں گے اور شاید مجھ سے اس پر صبر نہ ہوسکے تو بےصبر کی معصیت میں ابتلاء ہوگا موت کے ذریعہ معصیت سے حفاظت رہے گی تو ایسی تمنا ممنوع نہیں ہے۔
جب حضرت مریم (علیہا السلام) غلبہ حال کی وجہ سے موت کی تمنا کر رہی تھیں تو زیریں جانب سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرئیل نے پکار کر کہا کہ اے مریم تو بےسروسامانی یا خوف بدنامی کی وجہ سے مغموم مت ہو کیونکہ بےسروسامانی کا تو یہ انتظام ہوگیا ہے کہ تمہارے رب نے تمہارے پائیں (زیریں جانب) ایک نہر پیدا فرما دی ہے ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنا پیر زمین پر مارا جس کی وجہ سے شیریں پانی کا ایک چشمہ جاری ہوگیا، اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ تم اس کھجور کے تنے کو ہلاؤ یہ تیرے سامنے پکی تروتازہ کھجوریں گرائے گا یعنی خرق عادت اور کرامت کے طور پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کے پائیں جانب پینے کے لئے پانی اور کھانے کے لئے ایک سوکھے ہوئے کھجور کے درخت سے پکی اور تازہ کھجوروں کا انتظام فرما دیا۔
البلاغۃ : ولم یمسَسْنی بشَرً کنایۃ عن المعاشرۃ الزوجیہ بالجماع۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے زکریا اور یحییٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کرنے کے بعد۔۔۔ کہ یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی عجیب نشانیوں میں سے ہے۔۔۔ ایک اور قصہ بیان فرمایا جو اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ یہ ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف تدریج ہے۔ ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ﴾ ” اور ذکر کر کتاب میں“ یعنی قرآن کریم میں ﴿ مَرْيَمَ﴾ مریم علیہا السلام کا۔ یہ مریم علیہا السلام کی سب سے بڑی فضیلت ہے کہ کتاب عظیم میں ان کا نام مذکور ہے جس کی مشرق و مغرب کے تمام مسلمان تلاوت کرتے ہیں۔ اس کتاب عظیم میں بہترین پیرائے میں ان کا ذکر اور ان کی مدح و ثنا بیان کی گئی ہے یہ ان کے اچھے اعمال اور کوشش کامل کی جزا ہے، یعنی کتاب عظیم میں، حضرت مریم علیہا السلام کے بہترین حال کا ذکر کیجئے۔ جب ﴿انتَبَذَتْ ﴾ ” وہ جدا ہوئی“ یعنی جب مریم علیہا السلام اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ﴿مَكَانًا شَرْقِيًّا﴾ مشرقی جانب ایک مکان میں گوشہ نشیں ہوگئی تھیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur iss kitab mein maryam ka bhi tazkarah kero . uss waqt ka tazkarah jab woh apney ghar walon say alehda ho ker uss jagah chali gaeen jo mashriq ki taraf waqay thi .
12 Tafsir Ibn Kathir
ناممکن کو ممکن بنانے پہ قادر اللہ تعالیٰ ۔
اوپر حضرت زکریا (علیہ السلام) کا ذکر ہوا تھا اور یہ بیان فرمایا گیا تھا کہ وہ اپنے پورے بڑھاپے تک بےاولاد رہے ان کی بیوی کو کچھ ہوا ہی نہ تھا بلکہ اولاد کی صلاحیت ہی نہ تھی اس پر اللہ نے اس عمر میں ان کے ہاں اپنی قدرت سے اولاد عطا فرمائی حضرت یحییٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے جو نیک کار اور وفا شعار تھے اس کے بعد اس سے بھی بڑھ کر اپنی قدرت کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ حضرت مریم (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ وہ کنواری تھیں۔ کسی مرد کا ہاتھ تک انہیں نہ لگا تھا اور بےمرد کے اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت کاملہ سے انہیں اولاد عطا فرمائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جیسا فرزند انہیں دیا جو اللہ کے برگزیدہ پیغمبر اور روح اللہ اور کلمۃ اللہ تھے۔ پس چونکہ ان دو قصوں میں پوری مناسبت ہے اسی لئے یہاں بھی اور سورة آل عمران میں بھی اور سورة انبیاء میں بھی ان دونوں کو متصل بیان فرمایا۔ تاکہ بندے اللہ تعالیٰ کی بےمثال قدرت اور عظیم الشان سلطنت کا معائنہ کرلیں۔ حضرت مریم (علیہ السلام) عمران کی صاحبزادی تھیں حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نسل میں سے تھیں۔ " بنو اسرائیل میں یہ گھرانہ طیب وطاہر تھا۔ سورة آل عمران میں آپ کی پیدائش وغیرہ کا مفصل بیان گزر چکا ہے اس زمانے کے دستور کے مطابق آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کو بیت المقدس کی مسجد اقدس کی خدمت کے لئے دنیوی کاموں سے آزاد کردیا تھا۔ اللہ نے یہ نذر قبول فرما لی اور حضرت مریم کی نشو ونما بہترین طور پر کی اور آپ اللہ کی عبادت میں، ریاضت میں اور نیکیوں میں مشغول ہوگئیں۔ آپ کی عبادت و ریاضت زہد وتقوی زبان زد عوام ہوگیا۔ آپ اپنے خالو حضرت زکریا (علیہ السلام) کی پرورش و تربیت میں تھیں۔ جو اس وقت کے بنی اسرائیلی نبی تھے۔ تمام بنی اسرائیل دینی امور میں انہی کے تابع فرمان تھے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) پر حضرت مریم (علیہا السلام) کی بہت سی کرامتیں ظاہر ہوئیں خصوصا یہ کہ جب کبھی آپ ان کے عبادت خانے میں جاتے نئی قسم کے بےموسم پھل وہاں موجودپاتے دریافت کیا کرتے کہ مریم یہ کہاں سے آئے ؟ جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے وہ ایسا قادر ہے کہ جسے چاہے بےحساب روزیاں عطا فرمائے۔ اب اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کرے جو منجملہ پانچ اولوالعزم پیغمبروں کے ایک ہیں۔ آپ مسجد قدس کے مشرقی جانب گئیں یا تو بوجہ کپڑے آنے کے یا کسی اور سبب سے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اہل کتاب پر بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہونا اور حج کرنا فرض کیا گیا تھا لیکن چونکہ مریم صدیقہ (رض) بیت المقدس سے مشرق کی طرف گئی تھیں جیسے فرمان الہٰی ہے اس وجہ سے ان لوگوں نے مشرق رخ نمازیں شروع کردیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت گاہ کو انہوں نے از خود قبلہ بنا لیا۔ مروی ہے کہ جس جگہ آپ گئی تھیں، وہ جگہ یہاں سے دور اور بےآباد تھی۔ کہتے ہیں کہ وہاں آپ کا کھیت تھا، جسے پانی پلانے کے لیے آپ گئی تھیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہیں حجرہ بنا لیا تھا کہ لوگوں سے الگ تھلگ عبادت الہٰی میں فراغت کے ساتھ مشغول رہیں۔ واللہ اعلم۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش۔
جب یہ لوگوں سے دور گئیں اور ان میں اور آپ میں حجاب ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس اپنے امین فرشتے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیجا، وہ پوری انسانی شکل میں آپ پر ظاہر ہوئے۔ یہاں روح سے مراد یہی بزرگ فرشتے ہیں۔ جیسے آیت قرآن ( نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ\019\03ۙ ) 26 ۔ الشعراء :193) میں ہے۔ ابی بن کعب کہتے ہیں کہ روز ازل میں جب کہ ابن آدم کی تمام روحوں سے اللہ کا اقرار لیا گیا تھا۔ اسی روح نے آپ سے باتیں کیں اور آپ کے جسم میں حلول کرگئی۔ لیکن یہ قول علاوہ غریب ہونے کے بالکل ہی منکر ہے بہت ممکن ہے کہ یہ بنی اسرئیلی قول ہو۔ آپ نے جب اس تنہائی کے مکان میں ایک غیر شخص کو دیکھا تو یہ سمجھ کر کہ کہیں یہ کوئی برا آدمی نہ ہو، اسے اللہ کا خوف دلایا کہ اگر تو پرہیزگار ہے تو اللہ کا خوف کر۔ میں اللہ کی پناہ چاہتی ہوں۔ اتنا پتہ تو آپ کو ان کے بشرے سے چل گیا تھا کہ یہ کوئی بھلا انسان ہے۔ اور یہ جانتی تھیں کہ نیک شخص کو اللہ کا ڈر اور خوف کافی ہے۔ فرشتے نے آپ کا خوف وہراس ڈر اور گھبراہٹ دور کرنے کے لئے صاف کہہ دیا کہ اور کوئی گمان نہ کرو میں تو اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں، کہتے ہیں کہ اللہ کا نام سن کر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کانپ اٹھے اور اپنی صورت پر آگئے اور کہہ دیا میں اللہ کا قاصد ہوں۔ اس لئے اللہ نے مجھے بھیجا ہے کہ وہ تجھے ایک پاک نفس فرزند عطا کرنا چاہتا ہے لاحب کی دوسری قرأت لیھب ہے۔ ابو عمر و بن علا جو ایک مشہور معروف قاری ہیں۔ ان کی یہی قرأت ہے۔ دونوں قرأتوں کی توجیہ اور مطلب بالکل صاف ہے اور دونوں میں استلزام بھی ہے۔ یہ سن کر مریم صدیقہ (علیہ السلام) کو اور تعجب ہوا کہ سبحان اللہ مجھے بچہ کیسے ہوگا ؟ میرا تو نکاح ہی نہیں ہوا اور برائی کا مجھے تصور تک نہیں ہوا۔ میرے جسم پر کسی انسان کا کبھی ہاتھ ہی نہیں لگا۔ میں بدکار نہیں پھر میرے ہاں اولاد کیسی " بغیا " سے مراد زنا کار ہے جیسے حدیث میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں ہے کہ مہر البغی زانیہ کی خرچی حرام ہے۔ فرشتے نے آپ کے تعجب کو یہ فرما کر دور کرنا چاہا کہ یہ سب سچ ہے لیکن اللہ اس پر قادر ہے کہ بغیر خاوند کے اور بغیر کسی اور بات کے بھی اولاد دے دے۔ وہ جو چاہے ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بچے کو اور اس واقعہ کو اپنے بندوں کی تذکیر کا سبب بنا دے گا۔ یہ قدرت الہٰی کی ایک نشانی ہوگی تاکہ لوگ جان لیں کہ وہ خالق ہر طرح کی پیدائش پر قادر ہے۔ آدم (علیہ السلام) کو بغیر عورت مرد کے پیدا کیا حوا کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا۔ باقی تمام انسانوں کو مرد و عورت سے پیدا کیا سوائے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے کہ وہ بغیر مرد کے صرف عورت سے ہی پیدا ہوئے۔ پس تقیسم کی یہ چار ہی صورتیں ہوسکتی تھیں جو سب پوری کردی گئیں اور اپنی کمال قدرت اور عظیم سلطنت کی مثال قائم کردی۔ فی الواقع نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار۔ اور یہ بچہ اللہ کی رحمت بنے گا، رب کا پیغمبر بنے گا اللہ کی عبادت کی دعوت اس کی مخلوق کو دے گا۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمے کی خوش خبری سناتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا جو دنیا اور آخرت میں آبرودار ہوگا اور ہوگا بھی اللہ کا مقرب وہ گہوارے میں ہی بولنے لگے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی۔ اور صالح لوگوں میں سے ہوگا یعنی بچپن اور بڑھاپے میں اللہ کے دین کی دعوت دے گا۔ مروی ہے کہ حضرت مریم نے فرمایا کہ خلوت اور تنہائی کے موقعہ پر مجھ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بولتے تھے اور مجمع میں اللہ کی تسبیح بیان کرتے تھے یہ حال اس وقت کا ہے جب کہ آپ میرے پیٹ میں تھے۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ کام علم اللہ میں مقدر اور مقرر ہوچکا ہے وہ اپنی قدرت سے یہ کام پورا کر کے ہی رہے گا۔ بہت ممکن ہے کہ یہ قول بھی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ فرمان الہٰی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہو۔ اور مراد اس سے روح کا پھونک دینا ہو۔ جیسے فرمان ہے کہ عمران کی بیٹی مریم باعصمت بیوی تھیں ہم نے اس میں روح پھونکی تھی۔ اور آیت میں ہے وہ باعصمت عورت جس میں ہم نے اپنی روح پھونک دی۔ پس اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ تو ہو کر ہی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کا ارادہ کرچکا ہے۔