پھر دردِ زہ انہیں ایک کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، وہ (پریشانی کے عالم میں) کہنے لگیں: اے کاش! میں پہلے سے مرگئی ہوتی اور بالکل بھولی بسری ہوچکی ہوتی،
English Sahih:
And the pains of childbirth drove her to the trunk of a palm tree. She said, "Oh, I wish I had died before this and was in oblivion, forgotten."
1 Abul A'ala Maududi
پھر زچگی کی تکلیف نے اُسے ایک کھُجور کے درخت کے نیچے پہنچا دیا وہ کہنے لگی " کاش میں اس سے پہلے ہی مر جاتی اور میرا نام و نشان نہ رہتا"
2 Ahmed Raza Khan
پھر اسے جننے کا درد ایک کھجور کی جڑ میں لے آیا بولی ہائے کسی طرح میں اس سے پہلے مرگئی ہوتی اور بھولی بسری ہوجاتی،
3 Ahmed Ali
پھر اسے درد زہ ایک کھجور کی جڑ میں لے آیا کہا اے افسوس میں اس سے پہلے مرگئی ہوتی اور میں بھولی بھلائی ہوتی
4 Ahsanul Bayan
پھر درد زہ اسے ایک کھجور کے تنے کے نیچے لے آیا، بولی کاش! میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی (١)۔
٢٣۔١ موت کی آرزو اس ڈر سے کی کہ میں بچے کے مسئلے پر لوگوں کو کس طرح مطمئن کر سکوں گی، جب کہ میری بات کی کوئی تصدیق کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوگا۔ اور یہ تصور بھی روح فرسا تھا کہ کہاں شہرت ایک عابدہ وزاہدہ کے طور پر ہے اور اس کے بعد لوگوں کی نظروں میں بدکار ٹھہروں گی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
پھر درد زہ ان کو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مرچکتی اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی
6 Muhammad Junagarhi
پھر درِد زه ایک کھجور کے تنے کے نیچے لے آیا، بولی کاش! میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی
7 Muhammad Hussain Najafi
اس کے بعد دردِ زہ اسے کھجور کے درخت کے تنا کے پاس لے گیا (اور) کہا کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور بالکل نسیاً منسیاً (بھول بسری) ہوگئی ہوتی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر وضع حمل کا وقت انہیں ایک کھجور کی شاخ کے قریب لے آیا تو انہوں نے کہا کہ اے کاش میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور بالکل فراموش کردینے کے قابل ہوگئی ہوتی
9 Tafsir Jalalayn
پھر درد زہ ان کو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مر چکتی اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی
10 Tafsir as-Saadi
جب حضرت مریم علیہا السلام کو زچگی کی تکلیف برداشت کرنا پڑی، کھانے پینے کی عدم موجودگی کی تکلیف کا سامنانا کرنا پڑا اور سب سے بڑی بات یہ کہ لوگوں کی تکلیف دہ باتوں اور طعنوں سے دلی صدمہ پہنچا اور انہیں خوف ہوا کہ کہیں صبر کا دامن ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے۔۔۔ تو انہوں نے تمنا کی کہ کاش وہ اس حادثہ سے پہلے ہی مر گئی ہوتیں، ان کو بھلا دیا جاتا اور ان کا کہیں تذکرہ تک نہ ہوتا۔ حضرت مریم علیہا السلام کی یہ تمنا ان کی گھبراہٹ کی بنا پر تھی اور اس آرزو اور تمنا میں ان کے لئے کوئی بھلائی تھی نہ مصلحت۔ بھلائی اور مصلحت تو صرف تقدیر کے مطابق اس چیز میں تھی جو انہیں حاصل ہوئی۔
11 Mufti Taqi Usmani
phir zachgi kay dard ney unhen aik khujoor kay darkht kay paas phoncha diya . woh kehney lagen : kaash kay mein iss say pehlay hi mar-gaee hoti , aur mar ker bhooli basri hojati !