مریم آية ۴۱
وَاذْكُرْ فِى الْكِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ ۙ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا
طاہر القادری:
اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے،
English Sahih:
And mention in the Book [the story of] Abraham. Indeed, he was a man of truth and a prophet.
1 Abul A'ala Maududi
اور اس کتاب میں ابراہیمؑ کا قصہ بیان کرو، بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا
2 Ahmed Raza Khan
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا (نبی) غیب کی خبریں بتاتا،
3 Ahmed Ali
اور کتاب میں ابراھیم کا ذکر بے شک وہ سچا نبی تھا
4 Ahsanul Bayan
اس کتاب میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کر، بیشک وہ بڑی سچائی والے پیغمبر تھے (١)۔
٤١۔١ صدیق صدق (سچائی سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ بہت راست باز، یعنی جس کے قول وعمل میں مطابقت اور راست بازی اس کا شعار ہو۔ صدیقیت کا یہ مقام، نبوت کے بعد سب سے اعلٰی ہے ہر نبی اور رسول بھی اپنے وقت کا سب سے بڑا راست باز اور صداقت شعار ہوتا ہے، اس لئے وہ صدیق بھی ہوتا ہے۔ تاہم ہر صدیق، نبی نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں حضرت مریم کو صدیقہ کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تقویٰ وطہارت اور راست بازی میں بہت اونچے مقام پر فائز تھیں تاہم نبیہ نہیں تھیں۔ امت محمدیہ میں بھی صدیقین ہیں۔ اور ان میں سر فہرست حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ ہیں جو انبیاء کے بعد امت میں خیر البشر تسلیم کئے گئے ہیں۔ رَ ضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو۔ بےشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے
6 Muhammad Junagarhi
اس کتاب میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کر، بیشک وه بڑی سچائی والے پیغمبر تھے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور قرآن میں ابراہیم (ع) کا ذکر کیجئے۔ بےشک وہ بڑے راست باز تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور کتاب هخدا میں ابراہیم علیھ السّلام کا تذکرہ کرو کہ وہ ایک صدیق پیغمبر تھے
9 Tafsir Jalalayn
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے
آیت نمبر 41 تا 50
ترجمہ : آپ کفار مکہ کو کتاب میں مذکور ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ سنائیے یعنی اس کی خبر بیان کیجئے بیشک وہ بڑی راستی والے نبی تھے یعنی نہایت سچے نبی تھے اور اِذ قال لابیہ خبْرَہ سے بدل ہے (یعنی اس وقت کا قصہ بیان کیجئے) جب انہوں نے اپنے والد آزر سے عرض کیا تھا یَا اَبَتِ اے ابا جان، تایائے اضافت کے عوض میں ہے (عوض اور معوض) دونوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے اور آزر بت پرستی کرتا تھا آپ ان (بتوں) کی پوجا پاٹ کیوں کرتے ہیں ؟ جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں یعنی نہ کفایت کرسکیں، نہ نفع پہنچا سکیں اور نہ نقصان کو دفع کرسکیں اے میرے مہربان باپ میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا لہٰذا آپ میری بات مانیں میں آپ کو صراط مستقیم یعنی سیدھا راستہ دکھاؤں گا اے ابا جان آپ شیطان کی پرستش نہ کریں بت پرستی میں اس کی اطاعت کر کے بیشک شیطان تو (حضرت) رحمان کا بڑا ہی نافرمان ہے یعنی بکثرت نافرمانی کرنے والا ہے اے ابا جان مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں آپ پر عذاب الٰہی نہ آپڑے کہ کہیں آپ شیطان کے ساتھی نہ بن جائیں، یعنی معاون اور جہنم میں ساتھی نہ بن جائیں (یہ سن کر) باپ نے جواب دیا اے ابراہیم کیا تو ہمارے معبودوں سے روگردانی کر رہا ہے ؟ جس کی وجہ تو ان پر نکتہ چینی کرتا ہے (کان کھول کر سن لے) اگر تو ان کی چھیڑ چھاڑ سے باز نہ آیا تو میں تجھ کو پتھروں سے کچل دوں گا یا تیرے ساتھ گالی گلوچ سے پیش آؤں گا جا ایک طویل زمانہ تک مجھ سے دور رہ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا تو میرا سلام لو یعنی میں آپ کو تکلیف پہنچانا نہیں چاہتا میں اپنے رب سے آپ کی مغفرت کے لئے درخواست کروں گا، بلاشبہ وہ مجھ پر حد درجہ مہربان ہے حَفِیَّا، حَفِی سے مشتق ہے اس کے معنی ہیں احسان کرنے والا، لہٰذا وہ میری درخواست کو شرف قبولیت بخشے گا، اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے اس وعدہ کو اپنے اس قول سے پورا فرمایا جو سورة شعراء میں مذکور ہے واغفِرْ لِاَبِیْ اور یہ دعاء کرنا اس وقت کی بات ہے جب تک یہ واضح نہیں ہوا تھا کہ وہ دشمن خدا ہے، جیسا کہ سورة برأۃ میں مذکور ہے میں تو تم سے بھی اور ان (بتوں) سے بھی کنارہ کشی اختیار کر رہا ہوں جن کی تم خدا کو چھوڑ کر بندگی کرتے ہو میں تو اپنے رب کی بندگی کرتا رہوں گا مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب کی بندگی کر کے محروم نہ رہوں گا جیسا کہ تم بتوں کی بندگی کر کے محروم رہے ہو چناچہ جب ابراہیم (علیہ السلام) ان کو اور اللہ کے سوا ان کے سب معبودوں کو چھوڑ کر علیحدہ ہوگئے تو ہم نے ان کو دو بیٹے جن سے وہ انس حاصل کرے اسحٰق اور یعقوب عطا کئے اور ان کو نبی بنایا اور ہم نے ان تینوں کو اپنی رحمت سے مال واولاد عطا کی اور ہم نے ان کو اعلیٰ درجہ کا ذکر جمیل عطا کیا اور وہ تمام اہل ادیان میں ان کی اچھی تعریف ہے۔
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
واذکر فی الکتاب ابراھیم کا عطف واذکر فی الکتاب مریم پر ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا عطف وانذرھم یوم الحسرۃ پر ہو، قولہ خبرہٗ کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ابراہیم کے پہلے مضاف محذوف ہے اس لئے کہ خبر احوال کی ہوتی ہے نہ کہ ذات کی قولہ صِدِّیْقًا مبالغہ کا صیغہ ہے بہت راست گو، نبی اور صدیق کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے ہر نبی صدیق ہوتا ہے مگر ہر صدیق کا نبی ہونا ضروری نہیں اسی طرح ولی اور صدیق میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے ہر صدیق ولی ہوتا ہے مگر ہر ولی کا صدیق ہونا ضروری نہیں مقام صدیقیت مقام کے اعتبار سے مقام نبوت سے نیچا ہے قولہ اِذ قال لِاَبیہ خبرہ سے بدل الاشتمال ہے قولہ اِنَّہٗ کان صدِّیقا نبیا ما قبل کی علت ہے اور بدل اور مبدل منہ کے درمیان جملہ معترضہ ہے صدیقاً کان کی خبر اول ہے اور نبیًّا خبر ثانی ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ آزر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حقیقی والد ہیں قرآن کے طرز بیان سے یہی راجح معلوم ہوتا ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ آزر آپ کے چچا ہیں عرف کے اعتبار سے مجازاً اَبْ کہہ دیا گیا ہے، ان کے والد کا نام تارخ ہے قولہ اراغب مبتدا ہے اور اَنْتَ قائم مقام فاعل خبر ہے، استفہام تعجبی ہے، چونکہ اراغب استفہام پر اعتماد کئے ہوئے، لہٰذا نکرہ کا مبتداء بنانا صحیح ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ أراغبٌ خبر مقدم اور انت مبتدا مؤخر ہو قولہ لئن اس میں لام قسم ہے ای واللہ لئن لم تنتہ قولہ العصی والعاصی دونوں کے ایک ہی معنی ہیں عَصِیٌّ اصل میں عَصُویٌ تھا، واؤ کو یا کیا اور یا کو تا میں ادغام کردیا پھر یا کی مناسبت سے صاد کو کسرہ دے دیا، عِصیَّ ہوگیا قولہ واھْجُرْنِیْ ملیا کا عطف واحذرنی محذوف پر ہے جس پر لا رجمنک دلالت کرر ہا ہے تاکہ دونوں جملے انشائیہ ہوجائیں، معطوف اور معطوف علیہ میں موافقت سیبویہ کے یہاں ضروری ہے ملیًا طویل زمانہ، ایک معنی اس کے صحیح سالم کے بھی ہیں، مطلب یہ کہ زمانہ دراز کے لئے تو میری نظروں کے سامنے سے ٹل جا، دوسرے معنی کے اعتبار سے ترجمہ یہ ہوگا کہ تو مجھے میری حالت پر چھوڑ دے مجھ سے چھیڑ چھاڑ نہ کر، ورنہ کہیں مجھ سے اپنے ہاتھ پیر نہ توڑ والینا، ملیًا ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے جیسا کہ مفسر علام نے دھرًا طویلاً مقدر مان کر اشارہ کردیا ہے، واھجرنی کی ضمیر فاعل سے حال بھی ہوسکتا ہے قولہ ناصرًا وقرینًا مناسب تھا کہ مفسر علام قرینًا پر اکتفاء کرتے اس لئے کہ دخول نار کے بعد کوئی کسی کا معاون نہیں ہوگا قولہ فتکون للشیطان ولیًا آیت کا ظاہر مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کے ساتھ ولایت مس عذاب پر مرتب ہے، یعنی مس عذاب کی وجہ سے شیطان کے ساتھ ولایت ہوگی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شیطان سے ولایت کی وجہ سے مس عذاب ہوگا، اس شبہ کا جواب مفسر علام نے قریناً فی النار کا اضافہ کر کے دے دیا قولہ حَفِیّ صفت مشبہ ہے بڑا مہربان، اکرام میں مبالغہ کرنے والا قولہ کُلاَّ جعلنا کا مفعول اول ہے تخصیص کے لئے فعل پر مقدم کردیا گیا ہے۔
تفسیر و تشریح
واذکُرْ فی الکتابِ ابراھیم اس سورة میں مذکور قصوں میں سے یہ تیسرا قصہ ہے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ کا خلاصہ : تورات اور تاریخی روایات کے اعتبار سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نسب نو پشتوں کے واسطوں سے حضرت نوح (علیہ السلام) کے صاحبزادے سام سے ملتا ہے۔
حضرت ابراہیم کے والد کا نام : علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا کیا نام ہے ؟ توریت اور تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے والد صاحب کا نام تارخ ہے مگر قرآن عزیز نے آپ کے والد کا نام آزر بتایا ہے وَاِذْ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ لِاَبِیْہِ آزَرَ اَتَتَّخِذ اَصْنَامًا آلِھَۃ ً بعض مفسرین نے اس اختلاف کو دور کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ دونوں نام ایک ہی شخصیت کے ہیں تارخ علم اسمی ہے اور آزر علم وصفی ہے ان میں سے بعض حضرات تطبیق اس طرح دیتے ہیں کہ آزر عبری زبان میں محبّ صنم کو کہتے ہیں اور چونکہ تارخ میں بت پرستی اور بت تراشی دونوں وصف موجود تھے اس لئے آزر کے لقب سے مشہور ہوا، اور بعض کا خیال ہے کہ آزر کے معنی اَعْوَج (کم فہم) یا خفیف العقل کے ہیں اور چونکہ تارخ میں یہ بات موجود تھی اس لئے اس کو اس وصف سے موصوف کیا گیا، قرآن عزیز نے اسی وصفی نام کو بیان کیا ہے۔
اور دوسرے علماء کی تحقیق یہ ہے کہ آزر اس بت کا نام ہے، تارخ جس کا پجاری اور مہنت تھا مجاہد (رض) سے روایت ہے کہ قرآن عزیز کی مسطورہ بالا آیت کا مطلب یہ ہے کہ اَتَتَّخِذ آزَرَ اِلھا ای اتتخذ اصناماً آلِھَۃ ً کیا تو آزر کو خدا مانتا ہے یعنی بتوں کو خدا مانتا ہے غرضیکہ ان کے نزدیک آزر ابیہ کا بدل نہیں ہے بلکہ ایک بت کا نام ہے اس طرح قرآن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام مذکور نہیں ہے، ایک مشہور قول یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ تھا اور چچا کا نام آزر اور چونکہ آزر ہی نے ان کی تربیت کی تھی اور بمنزلہ اولاد کے پالا تھا اس لئے قرآن عزیز میں آزر کو باپ کہہ کر پکارا گیا ہے جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے العم صِنو ابیہ چچا باپ ہی کی طرح ہوتا ہے، عبد الوہاب نجار کی رائے یہ ہے کہ کہ ان اقوال میں سے مجاہد (رح) کا قول قرین قیاس ہے اس لئے کہ مصریوں کے قدیم دیوتاؤں میں ایک کا نام اَزَوْرِیس بھی آتا ہے جس کے معنی خدائے قوی اور معین کے ہیں اور اصنام پرست اقوام کا شروع سے یہ دستور رہا ہے کہ قدیم دیوتاؤں کے نام پر ہی جدید دیوتاؤں کے نام رکھ لیا کرتے تھے اس لئے اس دیوتا کا نام بھی قدیم مصری دیوتا کے نام پر آزر رکھا گیا ورنہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ تھا۔
ہمارے نزدیک یہ تمام تکلفات باردہ ہیں اس لئے کہ قرآن عزیز نے جب صراحت کے ساتھ آزر کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ کہا ہے تو پھر علماء کو انساب اور بائبل کے تخمینی قیاسات سے متاثر ہو کر قرآن عزیز کی یقینی تعبیر کو مجاز کہنے یا اس سے بھی آگے بڑھ کر خواہ مخواہ قرآن عزیز میں نحوی مقدرات ماننے پر کونسی شرعی اور حقیقی ضرورت مجبور کرتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ آدار کالدی زبان میں بڑے پجاری کو کہتے ہیں اور عربی زبان میں یہی آزر کہلایا، تارخ چونکہ بت تراش اور سب سے بڑا پجاری تھا اس لئے آزر ہی کے نام سے مشہور ہوگیا حالانکہ یہ نام نہ تھا بلکہ لقب تھا اور جب لقب نے نام کی جگہ لے لی تو قرآن عزیز نے بھی اسی نام سے پکارا۔ (ماخوذ از قصص القرآن ج ١، ص ١٥١)
وَاذْکُرْ فِی الکِتابِ اِبْرَاھِیْمَ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ کو ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ سنائیے جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ ہم ان کی نسبی اولاد ہیں شاید ان کو اپنے جد امجد کے بت شکنی اور بت بیزاری کے حالات سن کر توحید و رسالت کا مسئلہ سمجھ میں آجائے وہ اپنے ہر قول وفعل میں بڑے راستی والے پیغمبر تھے اور ان کا جو قصہ ہم بیان کرنا چاہتے ہیں وہ اس وقت پیش آیا تھا جب کہ انہوں نے اپنے باپ سے جو کہ مشرک تھا کہا تھا اے میرے ابا جان آپ ایسی چیزوں کی کیوں عبادت کرتے ہو کہ جو نہ کچھ سنے اور نہ کچھ دیکھے اور نہ وہ تمہارے کچھ کام آسکیں، اے میرے ابا جان میرے پاس ایسا علم پہنچا ہے جو آپ کے پاس نہیں پہنچا، تم میرے کہنے پر چلو میں تم کو سیدھا راستہ بتلاؤں گا اور اے ابا جان آپ شیطان کی پرستش نہ کریں یعنی اس کو اور اس کی بندگی کو خود تم بھی ناپسند کرتے ہو اور بت پرستی میں شیطان پرستی یقیناً لازم ہے اس لئے کہ وہی یہ حرکت کراتا ہے اسی کا نام شیطان پرستی ہے، بیشک شیطان رحمان کا بڑا نافرمان ہے وہ اطاعت کے لائق کیسے ہوسکتا ہے، اے ابا جان مجھے قوی اندیشہ ہے کہ کہیں تم پر رحمان کی طرف سے عذاب نہ آپڑے پھر تم عذاب میں شیطان کے ساتھ مبتلا ہوجاؤ، اپنے صاحبزادے کی مذکورہ تمام باتیں سن کر کہنے لگا کیا تم میرے معبودوں سے پھرے ہوئے ہو اگر تم ان بتوں کی مذمت اور مجھے ان کی عبادت سے منع کرنے سے باز نہ آئے تو میں تم کو ضرور بالضرور پتھروں سے مار مار کر سنگسار کردوں گا۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ کے ادب واحترام کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت ہی شفقت اور پیار کے لہجے میں ابا جان کو توحید کا وعظ سنایا لیکن توحید کا سبق کتنے ہی شیریں اور نرم لہجے میں بیان کیا جائے مشرک کے لئے ناقابل برداشت ہی ہوتا ہے چناچہ مشرک باپ نے اس نرمی اور پیار کے جواب میں نہایت ہی درشتی اور تلخی کے ساتھ موحد بیٹے سے کہا اگر تو میرے معبودوں سے روگردانی کرنے سے باز نہ آیا میں تجھے سنگسار کر دوں گا ورنہ تو میری نظروں کے سامنے سے ٹل جا (دوسرا ترجمہ) ملیاً کے ایک معنی صحیح سالم کے بھی ہیں اس وقت ترجمہ یہ ہوگا یعنی مجھے میرے حال پر چھوڑ دے اور مجھے توحید کا سبق سکھانے سے باز آجا اگر تو باز نہ آیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ تو مجھ سے اپنے ہاتھ پیر تڑوا بیٹھے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کیا (بہتر) میرا سلام لو اب تم سے کہنا سننا بےسود ہے اب میں تمہارے لئے اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروں گا کہ وہ تم کو ہدایت کرے بیشک وہ مجھ پر حد درجہ مہربان ہے، جب تم میری حق بات کو نہیں مانتے تو تم میں میرا رہنا بھی فضول ہے اس لئے میں تم سے اور جن کی تم پوجا کرتے ہو کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں کہیں جا کر اطمینان سے اپنے رب کی بندگی کروں گا غرضیکہ اس گفتگو کے بعد ان سے اس طرح علیحدہ ہوئے کہ ملک شام کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے اور ہم نے ان کو اسحٰق بیٹا اور یعقوب پوتا عطا کیا، اسماعیل (علیہ السلام) چونکہ پہلے پیدا ہوچکے تھے اس لئے ان کا اس جگہ ذکر نہیں اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا ذکر مستقلاً عنقریب ان کے اوصاف کے ساتھ آرہا ہے اس وجہ سے یہاں ترک کردیا گیا۔
صدیق کی تعریف : صدیق کے اصطلاحی معنی میں علماء کا اختلاف ہے، بعض نے فرمایا کہ جس شخص نے عمر میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو وہ صدیق ہے، اور بعض نے فرمایا کہ جو شخص اعتقاد اور قول وفعل ہر چیز میں صادق ہو اور جو دل میں ہو وہی زبان پر ہو ایسا شخص صدیق، روح المعانی اور مظہری میں اسی آخری قول کو اختیار کیا گیا ہے۔
صدیقیت کے درجات : صدیقیت کے درجات مختلف ومتفاوت ہیں اصل صدیق تو رسول اور نبی ہی ہوسکتا ہے اور ہر نبی اور رسول کے لئے صدیقیت وصف لازم ہے مگر اس کا عکس لازم نہیں کہ جو صدیق ہو اس کا نبی ہونا ضروری ہو بلکہ غیر نبی بھی صدیق ہوسکتا ہے، حضرت مریم (علیہ السلام) کو خود قرآن کریم نے اُمُّہٗ صَدِّیقۃ کا خطاب دیا ہے حالانکہ جمہور امت کے نزدیک وہ نبی نہیں ہیں اور کوئی عورت نبی نہیں ہوسکتی۔
بڑوں کو نصیحت کرنے کے آداب اور طریقے : یَا اَبَتِ عربی لغت کے اعتبار سے یہ لفظ باپ کی تعظیم و محبت کا خطاب ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام جامعیت اوصاف و کمالات کا عطا فرمایا تھا ان کی یہ تقریر اپنے والد کے سامنے ہو رہی ہے، اعتدال مزاج اور رعایت اضداد کی ایک بےنظیر تقریر ہے ایک طرف باپ کو شرک وکفر اور کھلی گمراہی میں نہ صرف مبتلا بلکہ اس کا داعی دیکھ رہے ہیں، جس کے مٹانے ہی کے لئے خلیل اللہ پیدا کئے گئے ہیں، دوسری طرف باپ کا ادب اور عظمت اور محبت ہے اور ان دونوں ضدوں کو خلیل اللہ نے کس طرح جمع فرمایا، اول تو یا اَبَتِ کا لفظ جو باپ کی مہربانی اور محبت کا داعی ہے ہر جملہ کے شروع میں اس لفظ سے خطاب کیا، پھر کسی جملہ میں باپ کی طرف کوئی لفظ ایسا منسوب نہیں کیا جس سے اس کی توہین یا دل آزادی ہو کہ اس کو گمراہ یا کافر کہتے بلکہ حکمت پیغمبرانہ کے ساتھ صرف ان بتوں کی بےبسی اور بےحسی کا اظہار فرمایا کہ ان کو خود اپنی غلط روش کی طرف توجہ ہوجائے، دوسرے جملہ میں اپنی اس نعمت کا اظہار فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے ان کو علوم نبوت کی عطا فرمائی تھی تیسرے اور چوتھے جملہ میں انجام بد سے ڈرایا جو اس کفروشرک کے نتیجے میں آنے والا تھا، اس پر بھی باپ نے بجائے کسی غورو فکر کے ان کی فرزند انہ گذارش پر کچھ نرمی کا پہلو اختیار کرتے۔۔۔۔ پورے تشدد کے ساتھ خطاب کیا انہوں نے تو خطاب یا ابت کے پیارے لفظ سے کیا جس کا جواب عرف میں یَا بُنَیَّ کے لفظ سے ہونا چاہیے تھا مگر آزر نے ان کا نام لے کر یا ابراہیم سے خطاب کیا اور ان کو سنگسار کر کے قتل کرنے کی دھمکی اور گھر سے نکل جانے کا حکم دیا اس کا جواب خلیل اللہ کی طرف سے کیا ملتا ہے وہ سنئے، فرمایا :
سَلاَمٌ عَلَیْکَ یہاں لفظ سلام دو معنی کے لئے ہوسکتا ہے اول یہ کہ سلام مقاطعہ ہو، یعنی کسی سے شریفانہ اور مہذب طریقہ سے قطع تعلق کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بات کا جواب دینے کے بجائے لفظ سلام کہہ کر علیحدہ ہوجائے جیسا کہ قرآن کریم نے اپنے مقبول اور صالح بندوں کی صفت میں بیان فرمایا وَاِذَا خَاطَبَھُمْ الجَاھِلُوْنَ قالُوْا سلاماً یعنی جب جاہل لوگ ان سے جاہلانہ خطاب کرتے ہیں تو یہ ان کے دو بدو ہونے کے بجائے لفظ سلام کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ باوجود مخالفت کے میں تمہیں کوئی گزند اور تکلیف نہ پہنچاؤں گا، اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہاں سلام عرفی سلام ہی کے معنی میں لیا جائے، اس میں فقہی اشکال ہوتا ہے جس کی تفصیل سابق میں گذر چکی ہے۔
ساَسْتَغْثِرلَکَ رَبِّی یہاں بھی ایک اعتراض ہوتا ہے اعتراض یہ ہے کہ کسی کافر کے لئے استغفار کرنا شرعاً ممنوع ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا ابو طالب سے فرمایا تھا کہ وَاللہِ لاَ سْتغْفِرَنَّ لَکَ مَالَمْ انہ عنہ بخدا میں آپ کے لئے اس وقت تک استغفار کرتا رہوں گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے منع نہ کردیا جائے اس پر یہ آیت نازل ہوئی مَا کَانَ لِنَبِیٍّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا ان یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمشرکِینَ یعنی نبی اور ایمان والوں کے لئے جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے استغفار کریں اس آیت کے نازل ہونے پر آپ نے چچا کے لئے استغفار کرنا چھوڑ دیا۔
اشکال کا جواب : یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ سے وعدہ کرنا کہ میں آپ کے لئے استغفار کروں گا یہ ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہے اس کے بعد ممانعت کردی گئی، سورة ممتحنہ میں حق تعالیٰ نے خود اس واقعہ کا بطور استثناء ذکر فرما کر اس کی اطلاع دے دی ہے اِلاَّ قَوْلَ اِبراھِیمَ لِاَبِیْہِ لَا َسْتَغْفِرَنَّ لَکَ اور اس سے زیادہ واضح سورة توبہ میں آیت مذکورہ مَا کَانَ لِنَبِیٍّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا أ نْ یَّسْتَغْفِرُوْا کے بعد دوسری آیت میں فرمایا مَا کَان استغفار اِبْرَھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلاَّ عَنْ مَوْعدۃٍ وَعَدَھَا اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ عَدُوّ لِّللہِ تَبَرَّ أ مِنْہٗ جس سے معلوم ہوا کہ یہ استغفار اور اس کا وعدہ باپ کے کفر پر جمے رہنے اور خدا کا دشمن ثابت ہونے سے پہلے کا تھا جب باپ کے عدو اللہ ہونے کی حقیقت معلوم ہوگئی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی برأت کا اعلان فرمادیا۔
البلاغۃ : الکنایَۃ اللَّطیفۃ : “ لِسان صدق ” کنایۃ عن الذکر الحسن والثناء الجمیل باللسان لِأن الثناء یکون باللسان کما یکنٰی عن العطاء بالید۔
10 Tafsir as-Saadi
تمام کتابوں میں سب سے زیادہ جلیل القدر، سب سے افضل اور سب سے زیادہ بلند مرتبے والی کتاب، یہ کتاب مبین اور ذکر حکیم یعنی قرآن مجید ہے۔ اگر اس میں خبریں بیان کی گئی ہیں تو یہ خبریں سب سے زیادہ سچی، سب سے زیادہ حق اور سب سے زیادہ نفع مند ہیں۔ اگر اس میں اوامر ونواہی کا تذکرہ ہے تو یہ اوامرونواہی سب سے زیادہ قدر و قیمت کے حامل اور سب سے زیادہ عدل و انصاف پر مبنی ہیں۔ اگر اس میں سزا و جزا اور وعدے و عید کا ذکر کیا گیا ہے تو وہ سب سے زیادہ سچی خبر اور سب سے زیادہ حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے عدل و فضل پر سب سے زیادہ دلالت کرتی ہے اور اگر اس میں انبیاء و مرسلین کا ذکر ہے تو اس میں مذکور یہ مقدس ہستیاں دیگر تمام لوگوں سے کامل اور افضل ہیں۔ بناء بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان انبیائے کرام کے واقعات بیان کئے ہیں اور ان کا بار بار اعادہ کیا ہے، جن کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں پر فضیلت عطا کی اور انہیں قدر و منزلت سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی محبت، اس کی طرف انابت، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے، لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور اس راستے میں اذیتوں پر صبر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بلند درجات عطا کئے اور انہیں مقامات فاخرہ اور منازل عالیہ سے نوازا۔
پس اس سورۃ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کا ذکر فرمایا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ بھی ان کا ذکر کریں کیونکہ ان کے تذکرے میں اللہ تعالیٰ کی بھی تعریف ہے اور ان کی مدح ستائش کا اظہار اور ان پر اس کے فضل و کرم کا بیان بھی ہے، نیز اس میں ان پر ایمان لانے، ان کے ساتھ محبت کرنے اور ان کی پیروی کرنے کی ترغیب ہے۔ فرمایا : ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴾ ” اور یاد کرو کتاب میں ابراہیم کو، بے شک وہ سچے نبی تھے۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیک وقت صدیقیت اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔ صدیق، بہت راست باز شخص کو کہا جاتا ہے۔ پس وہ اپنے اقوال، افعال اور احوال میں سچا ہونے کے ساتھ ساتھ ہر اس چیز کی بھی تصدیق کرتا ہے جس کی تصدیق کا اس کو حکم دیا جاتا ہے اور یہ خوبی مستلزم ہے اس عظیم علم کو جو دل کی گہرائیوں تک پہنچتا اور اس پر اثر انداز ہوتا ہے، نیز یقین اور کامل صالح کا موجب ہوتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام انبیاء و مرسلین میں افضل ہیں۔ وہ تمام اصحاب فضیلت گروہوں کے تیسرے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ذریت کو نبوت اور کتاب سے نوازا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی پھر اس راستے میں پیش آنے والی اذیتوں اور بڑی بڑی تعذیب پر صبر کیا۔ انہوں نے قریب اور بعید، سب کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور اپنے باپ کو، جیسے بھی ممکن ہوا، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کی بھرپورجدوجہد کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس بحث و تکرار کا ذکر کیا جو انہوں نے اپنے باپ سے کی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur iss kitab mein Ibrahim ka bhi tazkarah kero . beyshak woh sachai kay khoogar nabi thay .
12 Tafsir Ibn Kathir
بتوں کی پوجا۔
مشرکین مکہ جو بت پرست ہیں اور اپنے آپ کو خلیل اللہ کا متبع خیال کرتے ہیں ان کے سامنے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کیجئے۔ اس سچے نبی نے اپنے باپ کی بھی پرواہ نہ کی اور اس کے سامنے بھی حق کو واضح کردیا اور اسے بت پرستی سے روکا۔ صاف کہا کہ کیوں ان بتوں کی پوجا پاٹ کر رہے ہوں جو نہ نفع پہنچا سکیں نہ ضرر۔ فرمایا کہ میں بیشک آپ کا بچہ ہوں لیکن اللہ کا علم جو میرے پاس ہے آپ کے پاس نہیں آپ میری اتباع کیجئے میں آپ کو راہ راست دکھاؤں گا برائیوں سے بچادوں گا۔ ابا جی یہ بت پرستی تو شیطان کی تابعداری ہے وہی اس کی راہ سمجھاتا ہے اور وہی اس سے خوش ہوتا ہے۔ جیسے سورة یاسین میں ہے ( اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ 60ۙ ) 36 ۔ يس :60) ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے انسانوں کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور آیت میں ہے ( اِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اِنَاثًا ۚ وَاِنْ يَّدْعُوْنَ اِلَّا شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا\011\07ۙ ) 4 ۔ النسآء :117) ، یہ لوگ تو عورتوں کو پکارتے ہیں اور اللہ کو چھوڑتے ہیں دراصل یہ سرکش شیطان کے پکارنے والے ہیں آپ نے فرمایا شیطان اللہ کا نافرمان ہے، مخالف ہے، اس کی فرمابرداری سے تکبر کرنے والا ہے، اسی وجہ سے راندہ درگاہ ہوا ہے اگر تو نے بھی اس کی اطاعت کی تو وہ اپنی حالت پر تجھے بھی پہنچادے گا۔ ابا جان آپ کے اس شرک وعصیان کی وجہ سے مجھے تو خوف ہے کہ کہیں آپ پر اللہ کا کوئی عذاب نہ آجائے اور آپ شیطان کے دوست اور اس کے ساتھی نہ بن جائیں اور اللہ کی مدد اور اس کا ساتھ آپ سے چھوٹ نہ جائے۔ دیکھو شیطان خود بیکس بےبس ہے اس کی تابعداری آپ کو بری جگہ پہنچا دے گی۔ جیسے فرمان باری ہے۔ ( تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63) 16 ۔ النحل :63) یعنی یہ یقینی اور قسمیہ بات ہے کہ تجھ سے پہلے کی امتوں کی طرف بھی ہم نے رسول بھیجے لیکن شیطان نے ان کی بداعمالیاں انہیں مزین کر کے دکھلائیں اور وہی ان کا ساتھی بن گیا لیکن کام کچھ نہ آیا اور قیامت کے دن عذاب الیم میں پھنس گئے۔