مریم آية ۶۶
وَيَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَيًّا
طاہر القادری:
اور انسان کہتا ہے: کیا جب میں مرجاؤں گا تو عنقریب زندہ کر کے نکالا جاؤں گا،
English Sahih:
And man [i.e., the disbeliever] says, "When I have died, am I going to be brought forth alive?"
1 Abul A'ala Maududi
انسان کہتا ہے کیا واقعی جب میں مر چکوں گا تو پھر زندہ کر کے نکال لایا جاؤں گا؟
2 Ahmed Raza Khan
اور آدمی کہتا ہے کیا جب میں مرجاؤں گا تو ضرور عنقریب جِلا کر نکالا جاؤں گا
3 Ahmed Ali
اور انسان کہتا ہے جب میں مرجاؤں گا تو کیا پھر زندہ کر کے نکالا جاؤں گا
4 Ahsanul Bayan
انسان کہتا (١) ہے کہ جب میں مر جاؤنگا تو کیا پھر زندہ کر کے نکالا جاؤنگا (٢)۔
٦٦۔١ انسان سے مراد یہاں کافر باحیثیت جنس کے ہے، جو قیامت کے وقوع اور بعث بعد الموت کے قائل نہیں۔
٦٦۔٢ استفہام، انکار کے لئے ہے۔ یعنی جب میں بوسیدہ اور مٹی میں رل مل جاؤں گا، تو مجھے دوبارہ کس طرح نیا وجود عطا کر دیا جائے گا؟ یعنی ایسا ممکن نہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور (کافر) انسان کہتا ہے کہ جب میں مر جاؤ گا تو کیا زندہ کرکے نکالا جاؤں گا؟
6 Muhammad Junagarhi
انسان کہتا ہے کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا پھر زنده کر کے نکالا جاؤں گا؟
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (غافل) انسان کہتا ہے کہ جب میں مر جاؤں گا تو کیا پھر زندہ کرکے نکالا جاؤں گا؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور انسان یہ کہتا ہے کہ کیا جب ہم مرجائیں گے تو دوبارہ زندہ کرکے نکالے جائیں گے
9 Tafsir Jalalayn
اور (کافر) انسان کہتا ہے کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا
آیت نمبر 66 تا 75
ترجمہ : اور انسان کہتا ہے جو بعث بعد الموت کا منکر ہے یعنی ابی بن خلف یا ولید بن مغیر جس کے بارے میں آیت نازل ہوئی ہے کہ کیا جب ثانی ہمزہ کی تحقیق اور اس کی تسہیل کے ساتھ اور ثانی (ہمزہ) اور پہلے ہمزہ کے درمیان الف داخل کر کے دونوں صورتوں میں (یعنی تسہیل اور تحقیق کی صورت میں) میں مرجاؤں گا تو پھر زندہ کر کے قبر سے نکالا جاؤں گا جیسا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں استفہام نفی کے معنی میں ہے (یعنی أئِذ َا میں استفہام انکاری ہے) یعنی میں مرنے کے بعد زندہ نہ کیا جاؤں گا مَا اور لام تاکید کے لئے زائدہ ہیں (اس انسان کافر کے قول کا جواب) اللہ تعالیٰ کے قول اَوَلاَ یَذَّکَّرُ (الآیۃ) سے دیا گیا ہے کیا یہ انسان اتنا بھی یاد نہیں رکھتا یَذَّکَّرُ اصل میں یَتَذَکَّرُ تھا ت کو ذال سے بدل دیا گیا اور ذال کو ذال میں ادغام کردیا گیا اور ایک قرأۃ ترک تا اور سکون ذال اور کاف کے ضمہ کے ساتھ بھی ہے کہ ہم نے اس کو اس سے پہلے پیدا کیا حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں تھا کہ ابتداء سے اعادہ پر استدلال کرے تیرے پروردگار کی قسم کہ ہم ان کو یعنی منکرین بعث کو اور شیاطین کو البتہ ضرور جمع کریں گے یعنی ان میں سے ہر ایک کو اس کے شیطان کو ایک زنجیر میں جمع کریں گے پھر ہم ان کو جہنم کے گرد باہر سے گھٹنوں کے بل گرے ہوئے حاضر کریں گے پھر کافروں کے ہر گروہ میں سے ان لوگوں کو جدا کریں گے جو رحمٰن کے مقابلہ میں سب سے زیادہ سخت ہیں سرکشی یعنی جرأۃ کے اعتبار سے پھر ہم ایسے لوگوں کو خوب جانتے ہیں جو جہنم کے مستحق ہیں دخول کے اعتبار سے اور جلنے کے اعتبار سے یعنی جہنم کے زیادہ حقدار ہیں، سرکشی میں اشد اور غیر اشد سب کو خوب جانتے ہیں، لہٰذا ہم انہی (اشد) لوگوں سے ابتداء کریں گے اور صِلِیًّا اصل میں صَلُوْیٌ تھا یہ صَلِیَ بکسر اللام سے ماخوذ ہے اور تم میں کا کوئی ایسا نہیں کہ جس کا اس پر ورود نہ ہو یعنی داخل جہنم نہ ہو یہ تیرے پروردگار کے ذمہ قطعی فیصل شدہ امر ہے جس کو اس نے لازم کرلیا ہے اور اس کا فیصلہ کرلیا ہے اس کو ترک نہ کرے گا نُنْجِیْ جیم کی تشدید اور تخفیف دونوں کے ساتھ ہے پھر ہم شرک وکفر سے بچنے والوں کو بچا لیں گے اور نافرمانوں کو یعنی شرک وکفر کرنے والوں کو جہنم میں گھٹنوں کے بل پڑا چھوڑ دیں گے اور جب ان کو یعنی مومنین وکافرین کو ہماری قرآنی روشن آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کافر مومنوں سے کہتے ہیں دونوں فریقوں میں سے کونسا فریق مرتبہ یعنی منزل ومسکن کے اعتبار سے بہتر ہے ہمارا یا تمہارا اگر مَقَاماً فتح میم کے ساتھ ہو قَامَ سے مشتق ہوگا اور اگر ضمہ میم کے ساتھ ہو تو اقام سے مشتق ہوگا اور کس کی مجلس شاندار ہے نَدِیٌّ نادِیْ کے معنی میں ہے نادی چوپال (دارالمشورہ) کو کہتے ہیں جہاں لوگ جمع ہو کر باتیں کرتے ہیں (احسن نَدِیًّا) سے خود کو مراد لیتے ہیں لہٰذا ہم تم سے بہتر ہیں (اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں) اور ہم تو ان سے پہلے گذشتہ قوموں میں سے بہت سی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں جو سازوسامان اور نام نمود (شان و شوکت) کے اعتبار سے (ان سے) بہتر تھیں، جب ہم نے ان کو ان کے کفر کی وجہ سے ہلاک کردیا تو ان کو بھی ہلاک کردیں گے آپ کہہ دیجئے کہ جو لوگ گمراہی میں پڑے ہیں (مَنْ کان) شرط ہے اور اس کا جواب فَلْیَمْدُدْ ہے (صیغہ امر ہے) معنی میں خبر کے ہے یعنی یَمُدُّ لہٗ کے معنی میں ہے یعنی رحمٰن اس کی رسی کو ڈھیلی کردیتا ہے یعنی دنیا میں اس کو خوب ڈھیل دیتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس چیز کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے یا تو عذاب، جیسا کہ قتل وقید، یا قیامت جو جہنم پر مشتمل ہوگی تو اس میں داخل ہوں گے، تو ان کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کس کا ٹھکانہ برا ہے، اور کس کے مددگار کمزور ہیں، وہ یا مومنین، اور ان کا لشکر شیطان ہے، اور ان کے مقابلہ میں مومنین کا لشکر، فرشتے ہیں۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
ویقول الانسان کی تفسیر المنکر للبعث سے کرکے اشارہ کردیا کہ انسان سے مخصوص شخص مراد ہے اور وہ ابی ابن خلف یا ولید بن مغیرہ ہے۔ قولہ : أنَذا ما مِتُّ ما رائدہ ہے مِتُّ واحد متکلم ماضی معروف ہے مصدر موت ہے حرف شرط کی وجہ سے مستقبل کے معنی میں ہے۔ قولہ : لَسَوْفْ میں لام زائدہ ہے الانسان میں الف لام عہد کا ہے، جیسا کہ مفسر علام نے اشارہ کردیا ہے۔ قولہ : اَئِذَا اخرج کا ظرف مقدم ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
سوال : لام تاکید کا مابعد ما قبل میں عمل نہیں کرتا تو یہاں اُخْرَجُ کسی طرح عمل کرے گا۔ جواب : یہ قاعدہ لام ابتداء کے لئے ہے اور لام زائدہ ہے۔
سوال : جو لام مضارع پر داخل ہوتا ہے وہ مضارع کو حال کے معنی میں کردیتا ہے اور سوف مضارع کو استقبال کے معنی کے ساتھ خاص کردیتا ہے، دونوں کے مقتضیٰ میں تعارض ہے۔ جواب : یہ لام محض تاکید کے لئے ہے تخصیص مضارع للحال کے معنی سے مجرد ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔ (روح البیان)
بعض مفسرین حضرات نے کہا ہے کہ اَئِذَا میں اُبْعثُ فعل محذوف عامل ہے جس پر اخرج دلالت کر رہا ہے اس لئے اخرجُ کا ظرف بنانا درست نہیں۔ قولہ : لَمْ یکُ اصل میں لَمْ یکن تھا نون کو کثرت استعمال کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے۔ قولہ : شیعۃ فرقہ، جماعت، حمایتی، طرفدار (ج) شِیَعٌ اس میں واحد تثنیہ جمع سے برابر ہے۔ قولہ : جثیًّا یہ جاثٍ کی جمع ہے خوف کی وجہ سے گھٹنوں کے بل گرنے والا اور ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جثیا جثوَۃ کی جمع ہے، مفسر علام نے وارِدُھا کی تفسیر داخل جہنم سے کرکے اشارہ کردیا کہ وارد مختلف معنی میں استعمال ہوتا ہے بعض اس کے معنی حضور اور بعض نے عبور اور بعض نے دخول اور بعض نے مرور مراد لئے ہیں مفسر علام نے دخول کے معنی کو ترجیح دی ہے، لہٰذا یہ تفسیر تعیین معنی کیلئے ہے۔
قولہ : اَیُّھُمْ اسم موصول، اس کا صدر صلہ محذوف ہے ای ھو اَشدُّ اَیُّھُمْ اسم موصول بمعنی الذی یہ اضافت کی وجہ سے مبنی برضم ہے اس کا صدر صلہ محذوف ہے ای ھُوَ اَشَدُّ ھو مبتداء اشد اس کی خبر مبتدا خبر سے ملکر صلہ موصول کا، موصول صلہ سے ملکر مفعول نَنْزِعَنَّ کا غَیًّا تمییز منقول ہے مبتداء محذوف سے ای عُتُوُّہ اَشَدُّ ۔ قولہ : عِتِیًّا اکڑنا، سرکشی کرنا عتَا یَعْتُوْا کا مصدر ہے یہ دراصل عُتُوًّ تھا ضمہ کو کسرہ سے بدلا تو واؤ یا ہوگیا عُتیًّا پوا پھر عین کے ضمہ کو بھی کسرہ سے بدلاتا کہ تبدیلی کی مزید تاکید ہوجائے اس طرح عتیاً ہوگیا (لغات القرآن)
اور بعض حضرات نے عِتیًّا کو عادتٍ کی جمع بنایا ہے یعنی سرکشی کرنے والے۔ قولہ : صِلِیًّا یہ صلیٰ یَصلِی کا مصدر سماعی ہے، دخل ہونا۔ قولہ : واردٌ پہنچنے والا، مراد پلصراط سے گزرنا ہے شارح مسلم علامہ نووی نے اسی کو ترجیح دی ہے نَذَرُ ای نترک ۔
تفسیر و تشریح
وَیَقُوْلُ الاِنْسَانُ یہ منکر آخرت انسان استبعاد و انکار کے طور پر یوں کہتا ہے کہ جب میں مرجاؤں گا اور مٹی ہوجاؤں گا تو مجھے دوبارہ کس طرح زندہ کرکے قبر سے نکالا جائے گا ؟ اگرچہ انسان سے مراد جنس انسان ہے ہر منکر بعث کا یہی قول ہے مگر اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ایک روز ابی ابن خلف ایک بوسیدہ ہڈی لیکر آیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس ہڈی کو رگڑ کر ہوا میں اڑاتے ہوئے کہا کہ اے محمد یہ کیسے ممکن ہے کہ اس بوسیدہ ہڈی کو دوبارہ زندہ کردیا جائے۔ (روح البیان) لہٰذا میں اس کو تسلیم نہیں کرتا کہ میرے مرنے کے بعد مجھے زندہ کرکے دوبارہ قبر سے نکالا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس شخص کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ جب پہلی مرتبہ بغیر نمونہ کے جب کہ کہیں اس کا نام و نشان نہیں تھا تو ہم نے انسان کو پیدا کردیا تو دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لئے کیونکر مشکل ہوگا ؟ بھلا اس سے پوچھو تو کہ پہلی مرتبہ پیدا کرنا مشکل ہوتا ہے یا دوسری مرتبہ، انسان کتنا نادان اور خود فراموش ہے ؟ اسی خود فراموشی نے اس کو خدا فراموش بنادیا ہے۔
فواربِّک قسم ہے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے پروردگار کی کہ ہم دوبارہ صرف انہی کو نہیں بلکہ ان شیاطین کو بھی زندہ کریں گے جنہوں نے ان کو گمراہ کیا تھا یا جن کی وہ عبادت کرتے تھے پھر ہم ان کو اس حال میں جہنم کے گرد جمع کردیں گے یہ لوگ محشر کی ہولناکی اور حساب کے خود سے گھٹنوں کے بل پڑے ہوں گے۔
ابتداءً حشر کے وقت مومنین اور کفار، سعداء اور اشقیاء سب جہنم کے گرد جمع کیے جائیں گے اور سب پر ہیبت طاری ہوگی سب گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے پھر مومنین اور سعداء کو جہنم سے عبور کراکر جنت میں داخل کیا جائے گا تاکہ جہنم کے اس منظر کو دیکھنے کے بعد ان کو مکمل اور دائمی خوشی حاصل ہو، پھر ہم ہر گمراہ فرقہ کے بڑے بڑے سرکشوں اور لیڈروں کو الگ کرلیں گے اور ان کو جمع کر کے جہنم میں پھنک دیں گے کیونکہ یہ قائدین دوسرے جہنمیوں کے مقابلہ میں سزا کے زیادہ سزاوار ہیں۔
وان منکم الا واردھا یعنی کوئی انسان مومن ہو یا کافر ایسا نہ رہے گا کہ جس کا گذر جہنم پر نہ ہو، ورود سے مراد مرور اور عبور ہے جیسا کہ ابن مسعود (رض) کی ایک روایت میں لفظ مرور آیا ہے اور اگر دخول مراد لیا جائے تو مومنین متقیین کا دخول اس طرح ہوگا کہ جہنم ان کے لئے بردوسلام بن جائے گا جیسا کہ (ابو سَمیّہ) کی روایت میں بھی مضمون وارد ہوا ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) کی ورود سے مرور مراد لینے کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنم کے اوپر ایک پل بنایا جائے گا جس پر سے ہر مومن و کافر کو گزرنا ہوگا مومن تو اپنے اعمال کے مطابق جلد یا بدیر گزر جائیں گے کچھ تو پلک جھپکنے میں اور کچھ بجلی اور ہوا کی طرح کچھ پرندوں کی طرح اور کچھ عمدہ گھوڑوں اور دیگر سواریوں کی طرح گزر جائیں گے کچھ بالکل صحیح سالم اور کچھ زخمی تاہم کسی نہ کسی طرح پل کو عبور کرلیں کچھ جہنم میں گرپڑیں گے بعد میں شفاعت کے ذریعہ میں شفاعت کے ذریعہ نکال لیا جائے گا، لیکن کافر اس پل کو عبور کرنے میں کامیاب نہ ہوں گے اور سب جہنم رسید ہوجائیں گے، اس حدیث کے مضمون کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں فرمایا ہے کہ جس کے تین بچے بلوغت سے پہلے وفات پاگئے اس آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف قسم حلال کرنے کے لئے۔ (بخاری کتاب الجنائز و مسلم کتاب البر) یہ قسم وہی ہے کہ جس کو اس آیت میں حتماً مقضیاً (قطعی فیصل شدہ امر کہا گیا ہے) یعنی ان کا ورود صرف گزرنے کی حد تک ہوگا۔
10 Tafsir as-Saadi
یہاں (الانسان) سے مراد ہر وہ شخص ہے جو زندگی بعد موت کا منکر ہے اور وہ مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو بعید سمجھتا ہے، چنانچہ وہ نفی، عناد اور کفر کی وجہ سے استفہامیہ اسلوب میں کہتا ہے : ﴿ أَإِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا﴾ یعنی میرے مرنے کے بعد، جبکہ میں بوسیدہ ہوچکا ہوں گا، اللہ تعالیٰ مجھے دوبارہ کیسے زندہ کرے گا؟ ایسا نہیں ہوسکتا اور اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اس کی عقل فاسد، برے مقصد، اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور کتابوں کے ساتھ اس کے عناد کے مطابق ہے۔ اگر اس نے تھوڑا سا بھی غور و فکر کیا ہوتا تو اسے معلوم ہوجاتا کہ اس کا دوبارہ زندہ کئے جانے کو بعید سمجھنا بہت بڑی حماقت ہے۔ بناء بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے زندگی بعد موت کے امکان پر ایسی قطعی برہان اور واضح دلیل بیان فرمائی ہے جسے ہر شخص جانتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( kafir ) insan yeh kehta hai kay : jab mein mar-chuka hun ga to kiya waqaee uss waqt mujhay zinda ker kay nikala jaye ga-?
12 Tafsir Ibn Kathir
منکرین قیامت کی سوچ۔
بعض منکرین قیامت قیامت کا آنا اپنے نزدیک محال سمجھتے تھے اور موت کے بعد جینا ان کے خیال میں ناممکن تھا وہ قیامت کا اور اس کے دن کی دوسری اور نئے سرے کی زندگی کا حال سن کر سخت تعجب کرتے تھے۔ جیسے قرآن کا فرمان ہے ( وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ ) 13 ۔ الرعد :5) یعنی اگر تجھے تعجب ہے تو ان کا یہ قول بھی تعجب سے خالی نہیں کہ یہ کیا ہم جب مر کر مٹی ہوجائیں گے پھر ہم نئی پیدائش میں پیدا کئے جائیں گے ؟ سورة یاسین میں فرمایا کیا انسان اسے نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا، پھر ہم سے صاف صاف جھگڑا کرنے لگا اور ہم پر ہی باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش کو بھلا کر کہنے لگا کہ ان ہڈیوں کو جو گل گئی ہیں کون زندہ کر دے گا ؟ تو جواب دے کہ انہیں وہ خالق حقیق زندہ کرے گا جس نے انہیں اول بار پیدا کیا تھا وہ ہر ایک اور ہر طرح کی پیدائش سے پورا باخبر ہے۔ یہاں بھی کافروں کے اسی اعتراض کا ذکر ہے کہ ہم مر کر پھر زندہ ہو کر کیسے کھڑے ہوسکتے ہیں ؟ جوابا فرمایا جا رہا ہے کہ کیا اسے یہ بھی معلوم کہ وہ کچھ نہ تھا اور ہم نے اسے پیدا کردیا۔ شروع پیدائش کا قائل اور دوسری پیدائش کا منکر ؟ جب کچھ نہ تھا تب تو اللہ اسے کچھ کردینے پر قادر تھا اور اب جب کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہوگیا کیا اللہ قادر نہیں کہ اسے پھر سے پیدا کر دے ؟ پس ابتداء آفرنیش دلیل ہے دوبارہ کی پیدائش پر۔ جس نے ابتدا کی ہے وہی اعادہ کرے گا اور اعادہ بہ نسبت ابتدا کے ہمیشہ آسان ہوا کرتا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم جھٹلا رہا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہ تھا مجھے ابن آدم ایذاء دے رہا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہیں اس کا مجھے جھٹلانا تو یہ ہے کہ کہتا ہے جس طرح اللہ نے میری ابتدا کی اعادہ نہ کرے گا حالانکہ ظاہر ہے کہ ابتدا بہ نسبت اعادہ کے مشکل ہوتی ہے اور اس کا مجھے ایذاء دینا یہ ہے کہ کہتا ہے میری اولاد ہے حالانکہ میں احد ہوں صمد ہوں نہ میرے ماں باپ نہ اولاد نہ میری جنس کا کوئی اور۔ مجھے اپنی ہی قسم ہے کہ میں ان سب کو جمع کروں گا اور جن جن شیطانوں کی یہ لوگ میرے سوا عبادت کرتے تھے انہیں بھی میں جمع کروں گا پھر انہیں جہنم کے سامنے لاؤں گا جہاں گھٹنوں کے بل گرے پڑیں گے جیسے فرمان ہے ( وَتَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِيَةً 28) 45 ۔ الجاثية :28) ہر امت کو تو دیکھے گا کہ گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہوگی۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ قیام کی حالت میں ان کا حشرہو گا۔ جب تمام اول آخر جمع ہوجائیں گے تو ہم ان میں سے بڑے بڑے مجرموں اور سرکشوں کو الگ کرلیں گے اور ان کے رئیس وامیر اور بدیوں و برائیوں کے پھیلانے والے ان کے پیشوا انہیں شرک وکفر کی تعلیم دینے والے انہیں اللہ کے گناہوں کی طرف مائل کرنے والے علیحدہ کر لئے جائیں گے۔ جیسے فرمان ہے (حَتّٰى اِذَا ادَّارَكُوْا فِيْهَا جَمِيْعًا ۙ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ڛ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ 38) 7 ۔ الاعراف :38) ، جب وہاں سب جمع ہوجائیں گے تو پچھلے اگلوں کی بابت کہیں گے کہ اے اللہ انہی لوگوں نے ہمیں بہکا رکھا تھا تو انہیں دگنا عذاب کر الخ۔ پھر خبر کا خبر پر عطف ڈال کر فرماتا ہے کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ سب سے زیادہ عذابوں کا اور دائمی عذابوں کا اور جہنم کی آگ کا سزاوار کون کون ہے ؟ جیسے دوسری آیت میں ہے کہ فرمائے گا (لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ 38) 7 ۔ الاعراف :38) ہر ایک لئے دوہرا عذاب ہے لیکن تم علم سے کورے ہو۔