البقرہ آية ۱۰۴
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ۗ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِيْمٌ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ (ادب سے) اُنْظُرْنَا (ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو، اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے،
English Sahih:
O you who have believed, say not [to Allah's Messenger], "Ra’ina" but say, "Unzurna" and listen. And for the disbelievers is a painful punishment.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو: رَاعِناَ نہ کہا کرو، بلکہ اُنظرنَا کہو اور توجہ سے بات کو سنو، یہ کافر تو عذاب الیم کے مستحق ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے-
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور انظرنا کہو اور سنا کرو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو تم (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو) ' راعنا ' نہ کہا کرو، بلکہ ' انظرنا ' کہو (١) یعنی ہماری طرف دیکھئے اور سنتے رہا کرو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
١٠٤۔١ رَاعِنَا کے معنی ہیں، ہمارا لحاظ اور خیال کیجئے۔ بات سمجھ میں نہ آئے تو سامع اس لفظ کا استعمال کر کے متکلم کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا، لیکن یہودی اپنے بغض و عناد کی وجہ سے اس لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر استعمال کرتے تھے جس سے اس کے معنی میں تبدیلی اور ان کے جذبہ عناد کی تسلی ہو جاتی، مثلا وہ کہتے رَعِینَا (اَحمْق) وغیرہ جیسے وہ السلامُ علیکم کی بجائے السامُ علیکم (تم پر موت آئے) کہا کرتے تھے اللہ تعالٰی نے فرمایا تم ـ ' انْظُرْنَا ' کہا کرو۔ اس سے ایک تو یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ ایسے الفاظ جن میں تنقیص و اہانت کا شائبہ ہو، ادب و احترام کے پیش نظر کے طور پر ان کا استعمال صحیح نہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ کفار کے ساتھ افعال اور اقوال میں مشابہت کرنے سے بچا جائے تاکہ مسلمان (حدیث من تشبہ بقوم فھو منھم ،ابوداؤد ( جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا) کی وعید میں داخل نہ ہوں ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے اہل ایمان! (گفتگو کے وقت پیغمبرِ خدا سے) راعنا نہ کہا کرو۔ انظرنا کہا کرو۔ اور خوب سن رکھو، اور کافروں کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! تم (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو) “راعنا” نہ کہا کرو، بلکہ “انظرنا” کہو یعنی ہماری طرف دیکھئے اور سنتے رہا کرو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو (پیغمبر (ع) سے) راعنا نہ کہا کرو (بلکہ) انظرنا کہا کرو اور (توجہ سے ان کی بات) سنا کرو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو! راعنا (ہماری رعایت کرو) نہ کہا کرو «انظرنامِ کہا کرو اور غور سے سنا کرو اور یاد رکھو کہ کافرین کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے
9 Tafsir Jalalayn
اے اہل ایمان (گفتگو کے وقت پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے) راعنا نہ کہا کرو اُنْظُرْنا کہا کرو اور خوب سن رکھو اور کافروں کے لئے دکھ دینے والا عذاب ہے
آیات نمبر ١٠٤ تا ١٠٨
ترجمہ : اے ایمان والو ! تم نبی کو راعنا نہ کہا کرو (رَاعِنَا) مَرَاعَاۃٌ سے امر کا صیغہ ہے (صحابہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ لفظ کہا کرتے تھے، اور یہ (لفظ) یہود کی زبان میں گالی ہے، رَعونَۃ سے مشتق ہے، یہود اس سے خوش ہوتے تھے، اور خود بھی اس کلمے سے (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو) خطاب کرتے تھے، مومنوں کو اس (کلمے کے کہنے) سے منع کردیا گیا، اور اس کے بجائے انظرنا کہا کرو، یعنی ہمارا خیال رکھئے، اور توجہ سے سنا کرو جس بات کا حکم دیا جائے عمل کی نیت سے اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے، تکلیف دہ اور وہ آگ ہے، یہ لوگ جنہوں نے حسد کی وجہ سے (دعوت حق قبول کرنے سے) انکار کردیا، اہل کتاب ہوں یا مشرکین عرب اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ تمہارے لئے تمہارے رب کی طرف سے کوئی خیر (مثلاً ) وحی نازل ہو، (ولا المشرکین کا عچف) اھل الکتاب پر ہے، اور مِن بیانیہ ہے۔ (مِن خیرٍ ) میں مِن زائدہ ہے، اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت (یعنی) نبوت کے لئے خاص کرلیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے، اور جب کفار نے نسخ میں طعن کیا اور کہا کہ محمد اپنے اصحاب کو آج ایک بات کا حکم دیتے ہیں تو دوسرے دن اس سے منع کردیتے ہیں، تو یہ آیت نازل ہوئی، ہم جس آیت کو منسوخ کردیں یعنی اس کے حکم کو زائل کردیں ما شرطیہ ہے، یا تو مع لفظ کے (یعنی تلاوت اور حکم دونوں کو) یا بغیر لفظ کے (صرف حکم کو) اور ایک قراءت میں نُنْسِخُ ، اَنْسَخَ سے نون کے ضمہ کے ساتھ ہے، یعنی تم کو یا جبرئیل کو اس نسخ کا حکم دیتے ہیں، یا اس کو مؤخر کردیں تو ہم اس کے حکم کو زائل (منسوخ) نہیں کرتے، اور اس کی تلاوت اٹھا لیتے ہیں یا اس کو لوح محفوظ میں مؤخر (موقوف) کردیتے ہیں، اور ایک قراءت میں بغیر ہمزہ کے ہے (نُنْسِھَا) نسیان سے مشتق ہے، اور اس کو ہم آپ کے قلب سے مٹا دیتے ہیں، اور جواب شرط، نَأتِ بخیر مِنْھَا ہے تو ہم اس سے بہتر لاتے ہیں، (یعنی) جو بندوں کے لئے (عملاً ) سہولت کے اعتبار سے یا کثرت اجر کے اعتبار سے زیادہ نافع ہو یا کلیف و اجر میں اسی کے برابر ہو، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اسی میں سے نسخ و تبدیل بھی ہے، اور استفہام تقریر کے لئے ہے کیا تم نہیں جانتے کہ زمین و آسمان کی فرمانروائی اللہ ہی کے لئے ہے ان میں جو (تصرف) چاہتا کرتا ہے، اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی مولا ہے جو تمہاری حفاظت کرے اور نہ مددگار، جو تم سے عذاب کو روک سکے اگر تمہارے اوپر آئے (مِن غیرہٖ ) میں من زائدہ ہے، اور جب اہل مکہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کہ (پہاڑوں کو ہٹا کر) مکہ میں وسعت کردو، اور (کوہ) صفا کو سونے کا بنادو، تو یہ آیت نازل ہوئی تو کیا تم اپنے رسول سے ایسے ہی سوال کرنا چاہتے ہو جیسے ماسبق میں موسیٰ (علیہ السلام) سے کئے جا چکے ہیں یعنی ان کی قوم نے ان سے سوال کئے، مثلاً ان کا یہ سوال کہ ہم کو اللہ کا بچشم سردیدار کرا دو وغیرہ (سنو) سو جس نے ایمان کو کفر سے بدلا یعنی ایمان چھوڑ کر کفر اختیار کیا، واضح آیتوں میں غور و فکر کو ترک کرکے، اور ان آیات کے علاوہ کی جستجو میں لگا، تو وہ راہ راست سے بھٹک گیا، یعنی راہ حق سے خطا کر گیا، اور سَوَاء دراصل وسط شئ کو کہتے ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا، راعِم مُرَاعَاۃٌ (مفاعلۃ) سے امر واحد مذکرحاضرکا صیغہ ہے، نَا ضمیر مفعول ہے، ہمارا خیال رکھئے، ہماری رعایت کیجئے، عبرانی زبان میں راعن بیوقوف کو کہتے ہیں، یہ رعونت سے مشتق ہے جس کے معنی حمق کے ہیں، الف ندا کا ہے، اے بےوقوف، راعی چروا ہے کو بھی کہتے ہیں، یہود تحقیر و استہزاء کے طور پر زبان دبا کر جب رَاعِنَا بولتے تھے تو رَاعِیْنَا ہوجاتا تھا، جس کے معنی ہیں ہمارا چرواہا۔
قولہ : اُنْظُرْ اِلَیْنَا مفسر علام نے انظرنا کی تفسیر انظر اِلَینَا سے کرکے اس بات کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ کلام حذف کے ساتھ ہے اس سے اس اعتراض کا جواب بھی ہوگیا کہ انظر لازم ہے اور یہاں متعدی استعمال ہوا ہے، اس لئے کہ نَا اس کا مفعول ذکر کیا گیا ہے، اور ان لوگوں پر بھی رد ہوگیا جو انظرنا کو انتظرنا کے معنی میں لیتے ہیں۔ (ترویح الارواح)
قولہ : مَا تُؤْمَرُوْنَ بہٖ یہ حذف مفعول کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : مَا یَوَدُّ ، مَا نافیہ ہے، یَوَدُّ ، مَوَدَّۃٌ سے جمع مذکر غائب مجزوم، آرزو کریں گے، خواہش کریں گے۔
قولہ : من العرب من العرب کے اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کو فع کرنا ہے۔
اعتراض : اہل الکتاب بھی مشرک تھے اس پر ولا المشرکین کا عطف کیا، یہ عطف الشئ علی نفسہ ہے۔
جواب : مشرکین سے غیر اہل کتاب مشرکین مراد ہیں جو کہ عرب ہیں۔
قولہ : اَنْ یُنَزَّلَ یہ یَوَدُّ کا مفعول ہے۔
قولہ : مَا شرطیہ مَا ننسَخْ کا مفعول مقدم ہے اور شرطیہ ہے نہ کہ موصولہ کہ اس کے صلہ میں ضمیر کی ضرورت ہو۔
قولہ : نُزِلْ حُکْمھَا یہ مِن آیۃٍ کی صفت ہے۔
قولہ : اِمَّا مَعَ لَفْظِھَا اَوْلَا یعنی کبھی صرف حکم منسوخ ہوتا ہے مگر تلاوت باقی رہتی ہے اور کبھی حکم اور تلاوت دونوں منسوخ کردی جاتی ہیں۔
قولہ : او جبرئیل جبرئیل کا عطف نَاْمُرُکَ کے کاف پر ہے، یعنی ہم نسخ کا حکم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یا جبرئیل (علیہ السلام) کو کرتے ہیں۔ (ترویح الارواح)
قولہ : نَنْسَخْ مِنْ آیَۃٍ ، نَنْسَخْ جمع متکلم مضارع مجزوم (ف) نَسْخًا مٹانا، زائل کرنا۔
قولہ : وفی قراء ۃِ ، نُنْسِخُ باب (افعال) سے مضارع جمع متکلم، اس صورت میں نُنسِخُ متعدی ہوگا یعنی ہم مٹانے کا یا زائل کرنے کا حکم کرتے ہیں، مفسر علام نے نَامُرُکَ او جبرئیل مقدر مان کر، اسی قراءت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : نُنْسِھَا یہ اِنسَاءٌ (افعال) سے جمع متکلم مضارع ھَا مفعول بہ، اصل میں نُنْسِھَا ہم اس کو فراموش کرا دیتے ہیں
قولہ : وفی قراءۃ بلاھمزٍ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مفسر علام کے سامنے قرآن کریم کا جو نسخہ ہے وہ نُنْسَأھَا، مع المہزۃ والا ہے، اسی وجہ سے فرمایا بلاھمز، ہمارے سامنے جو نسخہ ہے اور یہاں ہمارے اطراف میں یہی نسخہ رائج ہے، وہ بلا ہمزہ والا ہی ہے، نُنْسَأھَا یہ نَسْاءٌ سے ماخوذ ہے، اس کے معنی ہیں مؤخر کرنا، بولا جاتا ہے نَسَأَ اللہُ فِیْ اَجَلہٖ اللہ نے اس کی عمر مؤخر کردی، یعنی عمر بڑھا دی، یہ ہمزہ والی قراءت کی تفسیر ہے۔ (لغات القرآن)
قولہ : او نُنْسِکَھَا اگر نُنْسِھَا نسیان سے ہو تو متعدی بیک مفعول ہوگا، یعنی ہم اس کو بھول جاتے ہیں اور اگر اِنْسَاءٌ سے ماخوذ ہو تو متعدی بدو مفعول ہوگا، اس لئے کہ انساء متعدی بدو مفعل ہے، ایک مفعول، نُنْسِکَھَا میں ضمیر خطاب کاف ہے، اور دوسرا مفعول ہا ضمیر ہے جو آیت کی طرف راجع ہے، ہم تم کو وہ آیت بھلا دیتے ہیں، مفسر علام نے وَنَمْحُھَا مِنْ قَلْبِکَ کا اضافہ کرکے اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
فائدہ : اگر مفسر علام فی قراء ۃٍ بلاھمزٍ کے بجائے وفی قراءۃ بِضَمِّ النون والسِّین کہتے تو مراد زیادہ واضح ہوتی، اس لئے کہ مفسر علام کی عبارت میں ایک دوسری قراءت کا بھی احتمال ہے جو فاسد ہے، اور وہ نَنْسَھَا بفتح النون والسین ہے، یہ صورت لفظاً اور معنی دونوں طرح فاسد ہے، لفظا تو اس لئے کہ یہ قراءت منقول نہیں، معنًا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سے صدور نسیان کا مقتضی ہے۔
قولہ : مِنَ النِّسْیَانِ بہتر ہوتا کہ من الانساء کہتے، اس لئے کہ رباعی کا مصدر جو کہ زیر بحث ہے اِنْسَاءٌ ہے نہ کہ نسیان۔ (جمل)
تفسیر و تشریح
شان نزول :
لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا اے ایمان والو ! تم رَاعِنَا نہ کہا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو، رَاعِنَا کے معنی ہیں ہمارا خیال رکھئے، جب متکلم کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو سامع اس لفظ کے ذریعہ متکلم کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، لیکن یہودی اپنے بغض وعناد کی وجہ سے اس لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر بولتے جس کی وجہ سے اس کے معنی تبدیل ہوجاتے تھے، اس سے وہ اپنے جذبہ عناد کی تسکین کرتے، مثلاً راعِنَا کو ذرا کھینچ کر بولتے تو رَاعِیْنَا ہوجاتا، جس کے معنی ہیں ہمارا چرواہا، یا رَاعِنٌ حماقت اور بےوقوفی کو بھی کہتے ہیں، یہ رعونۃ سے مشتق ہے اور الف اس میں اشباع کا ہے، اس کے علاوہ یہود کی زبان میں راعِنَا گالی کا کلمہ بھی تھا، جیسا کہ یہود السلام علیکم کی بجائے السام علیکم (تم پر موت ہو) کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے مسلمانو ! تم یہ کلمہ نہ کہا کرو، بلکہ ابتداء ہی سے بغور سنتے رہا کرو تاکہ اس کلمہ کے کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔
مذکورہ واقعہ بعض روایتوں میں کچھ تھوڑی تبدیلی کے ساتھ منقول ہوا ہے، وَاَخْرَجَ ابو نُعَیم فی الدلالئل عن ابن عباس (رض) قال : ابو نعیم نے ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ رَاعِنَا یہود کی زبان میں قبیح قسم کی گالی تھی، اور یہود اس لفظ کا استعمال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں کیا کرتے تھے، جب صحابہ کرام (رض) نے یہ لفظ سنا تو وہ بھی کلمہ تعظیم سمجھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں اس کلمہ کا استعمال کرنے لگے، اب تک تو یہود اس کلمہ کا استعمال خفیہ طور پر کرتے تھے مگر جب یہود نے دیکھا کہ مسلمان بھی اس کلمہ کو استعمال کرتے ہیں تو یہود نے اس کا استعمال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں اعلانیہ کرنا شروع کردیا، اور اس کلمہ کو استعمال کرکے آپس میں خوب ہنستے، سعد بن معاذ (رض) چونکہ یہود کی زبان سمجھتے تھے جب سعد بن معاذ (رض) نے یہ کلمہ یہودیوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں سنا تو کہا اگر آئندہ میں نے کسی سے یہ کلمہ سن لیا تو اس کی گردن مار دوں گا۔ (مظہری و فتح القدیر شوکانی) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
10 Tafsir as-Saadi
مسلمان جب دینی امور سیکھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوتے تو عرض کرتے ﴿رَاعِنَا﴾ یعنی ہمارے حال کی رعایت کیجئے۔ ان کے نزدیک اس لفظ کا صحیح معنی مقصود تھا۔ مگر یہودی اس سے فاسد معنی مراد لیتے تھے، لہٰذا وہ مسلمانوں کے اس لفظ کے استعمال کو غنیمت جانتے ہوئے فاسد معنی کے ارادے سے اس لفظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی اس لفظ کے ذریعے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرنے سے روک دیا۔ تاکہ (گستاخی کا) یہ دروازہ بند ہوجائے۔
اس آیت کریمہ میں کسی جائز کام سے روکنے کی دلیل ہے جبکہ یہ جائز کام کسی حرام کام کے لیے وسیلہ ہو، نیز اس میں ادب کا اور ایسے الفاظ کے استعمال کا بیان ہے جو اچھے ہوں، جن میں بے ہودگی نہ ہو۔ نیز قبیح الفاظ کے ترک کرنے کی تاکید ہے، یا جن میں کسی قسم کی تشویش اور کسی نامناسب امر کا احتمال ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایسا لفظ استعمال کرنے کا حکم دیا جس میں صرف اچھے معنی کا احتمال ہو۔ فرمایا : ﴿وَقُوْلُوا انْظُرْنَا ﴾” اور اُنْظُرْنَا کہو“ یہ لفظ کافی ہے اور بغیر کسی خدشے کے اس سے اصل مقصد حاصل ہوجاتا ہے ﴿ وَاسْمَعُوْا ۭ ﴾’’اور سنو“ یہاں مسموع کا ذکر نہیں کیا گیا تاکہ اس کی عمومیت میں ہر وہ چیز شامل ہو جس کے سننے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس کے مفہوم میں سماع قرآن اور سماع سنت شامل ہیں جو لفظی، معنوی اور قبولیت کے اعتبار سے سراسر حکمت ہے۔ اس میں ادب اور اطاعت کی تعلیم ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
emaan walo ! ( Rasool Allah SallAllaho-alehi-wa-aalihi-wasallam say mukhatib hoker ) raeena naa kaha karo , aur unzurna keh diya kero . aur suna kero . aur kafiron kay liye dardnak azab hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مسلمانو کافروں کی صورت لباس اور زبان میں مشابہت سے بچو !
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کافروں کی بول چال اور ان کے کاموں کی مشابہت سے روک رہا ہے یہودی بعض الفاظ زبان دبا کر بولتے تھے اور مطلب برا لیتے تھے جب انہیں یہ کہنا ہوتا کہ ہماری سنئے تو کہتے تھے راعنا اور مراد اس سے رعونت اور سرکشی لیتے تھے جیسے اور جگہ بیان ہے آیت (من الذین ھادوا) یعنی یہودیوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو باتوں کو اصلیت سے ہٹا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم سنتے ہیں لیکن مانتے نہیں اپنی زبانوں کو موڑ توڑ کر اس دین میں طعنہ زنی کے لئے راعنا کہتے ہیں اگر یہ کہتے کہ ہم نے سنا اور مانا ہماری بات سنئے اور ہماری طرف توجہ کیجئے تو یہ ان کے لئے بہتر اور مناسب ہوتا لیکن ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہے اس میں ایمان بہت ہی کم ہے احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جب یہ لوگ سلام کرتے ہیں تو السام علیکم کہتے ہیں اور سام کے معنی موت کے ہیں تو تم ان کے جواب میں وعلیکم کہا کرو ہماری دعا ان کے حق میں قبول ہوگی اور ان کی بد دعا ہمارے حق میں مقبول نہیں ہوگی الغرض قول و فعل میں ان سے مشابہت کرنا منع ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے میں قیامت کے قریب تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں میری روزی حق تعالیٰ نے میرے نیزے تلے لکھی ہے اس کے لئے ذلت اور پستی ہے مگر جو میرے احکام کے خلاف چلے کرے اور جو شخص کسی (غیر مسلم) قوم سے مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے۔ ابو داؤد میں بھی یہ پچھلا حصہ مروی ہے اس آیت اور حدیث سے ثابت ہوا کہ کفار کے اقوال و افعال لباس عید اور عبادت میں ان کی مشابہت کرنا جو ہمارے لئے مشروع اور مقرر نہیں سخت منع ہے ایسا کرنے والوں کو شریعت میں عذاب کی دھمکی سخت ڈراوا اور حرمت کی اطلاع دی گئی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جب تم قرآن کریم میں آیت (یا ایھا الذین امنوا) سنو تو کان لگا دو اور دل سے متوجہ ہوجایا کرو کیونکہ یا تو کسی بھلائی کا حکم ہوگا یا کسی برائی سے ممانعت ہوگی حضرت خیثلہ فرماتے ہیں توراۃ میں بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یا ایھا المساکین فرمایا ہے لیکن امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیت (یا ایھا الذین امنوا) کے معزز خطاب سے یاد فرمایا ہے راعنا کے معنی ہماری طرف کان لگانے کے ہیں بروزن عاطنا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس کے معنی خلاف کے بھی ہیں یعنی خلاف نہ کہا کرو اس سے یہ بھی مروی ہے کہ مطلب یہ کہ آپ ہماری سنئے اور ہم آپ کی سنیں۔ انصار نے بھی یہی لفظ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کہنا شروع کردیا تھا جس سے قرآن پاک نے انہیں روک دیا حسن فرماتے ہیں راعن کہتے ہیں (راعن مذاق کی بات کو کہتے ہیں) یعنی تم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں اور اسلام سے مذاق نہ کیا کرو۔ ابو صخر کہتے ہیں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانے لگتے تو جنہیں کوئی بات کہنی ہوتی وہ کہتے اپنا کان ادھر کیجئے اللہ تعالیٰ نے اس بےادبی کے کلمہ سے روک دیا اور اپنے نبی کی عزت کرنے کی تعلیم فرمائی۔ سدی کہتے ہیں رفاعہ بن زید یہودی حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باتیں کرتے ہوئے یہ لفظ کہا کرتا تھا مسلمانوں نے بھی یہ خیال کر کے یہ لفظ ادب کے ہیں یہی لفظ استعمال کرنے شروع کردیئے جس پر انہیں روک دیا گیا جیسے سورة نساء میں ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس کلمہ کو اللہ نے برا جانا اور اس کے استعمال سے مسلمانوں کو روک دیا جیسے حدیث میں آیا ہے کہ انگور کو کرم اور غلام کو عبد نہ کہو وغیرہ اب اللہ تعالیٰ ان بد باطن لوگوں کے حسد و بغض کو بیان فرماتا ہے کہ اے مسلمانو ! تمہیں جو اس کامل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ کامل شریعت ملی ہے اس سے یہ تو جل بھن رہے ہیں ان سے کہ دو کہ یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عنایت فرمائے وہ بڑے ہی فضل و کرم والا ہے۔