البقرہ آية ۱۲۲
يٰبَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْۤ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِيْنَ
طاہر القادری:
اے اولادِ یعقوب! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر ارزانی فرمائی اور (خصوصاً) یہ کہ میں نے تمہیں اس زمانے کے تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی،
English Sahih:
O Children of Israel, remember My favor which I have bestowed upon you and that I preferred you over the worlds.
1 Abul A'ala Maududi
اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری وہ نعمت، جس سے میں نے تمہیں نواز ا تھا، اور یہ کہ میں نے تمہیں دنیا کی تمام قوموں پر فضیلت دی تھی
2 Ahmed Raza Khan
اے اولاد یعقوب یاد کرو میرا احسان جو میں نے تم پر کیا او ر وہ جو میں نے اس زمانہ کے سب لوگوں پر تمہیں بڑائی دی -
3 Ahmed Ali
اے بنی اسرائل میرے احسان کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیے اور بے شک میں نے تمہیں سارے جہاں پر بزرگی دی تھی
4 Ahsanul Bayan
اے اولاد یعقوب میں نے جو نعمتیں تم پر انعام کی ہیں انہیں یاد کرو اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دے رکھی تھی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے بنی اسرائیل! میرے وہ احسان یاد کرو، جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تم کو اہلِ عالم پر فضیلت بخشی
6 Muhammad Junagarhi
اے اوﻻد یعقوب! میں نے جو نعمتیں تم پر انعام کی ہیں انہیں یاد کرو اور میں نے تو تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دے رکھی تھی
7 Muhammad Hussain Najafi
اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا۔ اور یہ بھی کہ تمہیں دنیا و جہان والوں پر فضیلت دی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے بنی اسرائیل ان نعمتوں کو یاد کرو جو ہم نے تمہیں عنایت کی ہیں اور جن کے طفیل تمہیں سارے عالم سے بہتر بنا دیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اے اولاد یعقوب میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تم کو اہل عالم پر فضیلت بخشی
آیت نمبر ١٢٢ تا ١٢٦
ترجمہ : اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو یاد کرو جس سے میں نے تم کو نوازا تھا اور میں نے تم کو اقوام عالم پر فضیلت عطا کی تھی، اسی جیسی آیت سابق میں گذر چکی ہے اور اس دن سے ڈرو جس دن کسی کے کام نہ آئے گا۔ اور نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا، اور نہ کوئی سفارش ہی کسی کو فائدہ دے گی اور نہ (مجرموں) کو کہیں سے مدد ہی پہنچ سکے گی، کہ وہ اللہ کے عذاب سے بچا سکیں اور یاد کرو جب ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے رب نے چند باتوں سے آزمایا اور ایک قراءت میں ابراہام ہے (اور وہ باتیں) جن کا اس کو مکلف کرنا اور مونچھوں کو کاٹنا اور سر کے بالوں میں مانگ نکالنا، اور ناخن تراشنا، اور بغل کے بال اکھاڑنا، اور زیر ناف کے بال لینا، اور ختنہ کرانا، اور پانی سے استنجاء کرنا تھیں، چناچہ (ابراہیم (علیہ السلام) نے) ان باتوں کو مکمل طور پر ادا کیا (تو) اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ میں تم کو دین میں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا، ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا : میری اولاد میں سے بھی پیشوا بنائیے، اللہ نے جواب دیا : پیشوائی کا میرا وعدہ ان میں سے ظالموں کافروں سے نہیں ہے اس سے معلوم ہوا جو ظالم نہیں ہیں ان سے وعدہ ہے اور یہ کہ ہم نے اس گھر کو کعبہ کو لوگوں کے لئے مرجع (مرکز) بنایا، ہر جانب سے لوگ اس کی طرف رجوع کرتے ہیں، اور ظلم سے اور دوسری جگہ ہونے والی غارت گری سے امن کی جگہ بنائی آدمی بیت اللہ میں اپنے باپ کے قاتل سے ملتا تھا مگر (باپ کا قتل) اس کو (قاتل کے قتل پر) برانگیختہ نہیں کرتا تھا، اور اے لوگو ! تم مقام ابراہیم کو جائے نماز بنا لو اور وہ وہی پتھر ہے جس پر تعمیر بیت اللہ کے وقت (ابراہیم (علیہ السلام) کھڑے ہوتے تھے، مصلیٰ بمعنی جائے نماز، بایں طور کہ اس کے پیچھے طواف کی دو رکعت نماز پڑھو، اور ایک قراءت میں اِتَّخَڈُوا خاء کے فتح کے ساتھ ہے اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اور اسماعیل (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں کے لئے بتوں سے پاک رکھو، یعنی اس میں قیام کرنے والوں کے لئے، اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے (یعنی) نماز پڑھنے والوں کے لئے، رُکّع راکع کی اور السجود ساجد کی جمع ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار تو اس جگہ کو امن والی بنا اور اللہ تعالیی نے اس کی دعاء قبول فرمائی چناچہ اس کو محترم بنادیا کہ نہ اس میں انسان کا خون بہایا جاتا ہے اور نہ اس میں کسی پر ظلم کیا جاتا ہے اور نہ اس میں شکار کیا جاتا ہے اور نہ اس کا کانٹا اکھاڑا جاتا ہے اور اس کے باشندوں کو پھلوں کی روزی عطا کر چناچہ طائف کے خطہ کو ملک شام سے منتقل کرکے ایسا ہی کردیا حالانکہ وہ بنجر بےآب وگیاہ زمین تھی ان کے لئے جو ان میں سے اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر مَنْ آمَنَ ، اھلہ سے بدل ہے اور ان کو دعاء کے لئے خاص کرنا اس وجہ سے ہے کہ یہ لاینال عھدی الظلمین کے موافق ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جو لوگ کفر کریں گے ان کو بھی قدرت یعنی ان کی حیات کی مقدار نفع پہنچاؤں گا، پھر آخرت میں ان کو جبراً دوزخ کی طرف لیجاؤں گا کہ وہ اس سے رہائی نہ پاسکیں گے اور وہ (دوزخ) بدترین ٹھکانا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : یَوْمًا لَّاتَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ ، فِیْہِ لَاتَجْزِی نَفْسٌ عن نفسٍ جملہ ہو کر یَوْمًا کی صفت ہے، اور صفت جب جملہ ہو تو عائد ضروری ہوتا ہے فِیْہِ کا اضافہ عائد کے محذوف ہونے کی طرف اشارہ ہے واذکر اذا ابتلیٰ ابراہیم میں ایک قراءت ابراھام بھی ہے، ابراہیم سریانی زبان میں أَبٌّ رحیمٌ کو کہتے ہیں، یعنی مشفق و مہربان باپ، یہاں اذکر محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ اِذْ ، اذکر فعل محذوف کا معمول ہے نہ کہ ابتلیٰ کا، یہ ان لوگوں پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ اِذْ ، اِبتَلٰی کا معمول ہے، اس لئے کہ اس میں معمول کا عامل پر مقدم ہونا لازم آتا ہے۔
قولہ : قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا یہ جملہ مستانفہ ہے، اور ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے تمام اوامرو نواہی کو بحسن و خوبی انجام دیدیا تو کیا ہوا ؟
جواب : میں فرمایا میں تجھ کو لوگوں کا دینی پیشوا بناؤنگا۔
قولہ : قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ کا عطف بتاویل بعض جاعِلکَ کے کاف پر ہے، جیسا کہ مِن تبعیضیہ دلالت کر رہا ہے۔
سوال : ضمیر متصل پر بغیر اعادہ ضمیر یا فصل کے عطف صحیح نہیں ہے، لہٰذا مِن ذُرِّیّتی کا عطف کاف ضمیر پر کیسے درست ہے ؟
جواب : جَاعِلُکَ میں جاعِل کی کاف کی طرف اضافت لفظیہ ہے اور انفصال کے درجہ میں ہے، لہٰذا عطف درست ہوگیا۔
سوال : اس عطف میں ایک کے مقولہ کا دوسرے کے مقولہ پر عطف لازم آرہا پے، اس لئے کہ اِنّی جَاعلُکَ اللہ تعالیٰ کا مقولہ ہے، او وَمِنْ ذُرِّیَّتِی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقولہ ہے۔
جواب : ایک کے مقولہ کا دوسرے کے مقولہ پر عطف جائز ہے جیسا کہ تیرا وَزَیْدًا اس کے جواب میں کہنا جو تجھ سے کہے ساکرمُکَ تو کہے وزَیْدًا یعنی زید کا بھی اکرام کر، اس کو عطف تلقین کہتے ہیں، جیسا کہ سلام کے جواب میں وعلیکم السلام کہنا، یہ بھی ایک کے مقولہ کا دوسرے کے مقولہ پر عطف کے قبیل سے ہے، جس میں کوئی قباحت نہیں ہے، حاصل یہ کہ خبر بمعنی طلب ہے۔ (ترویح الارواح)
قولہ : الکعبۃ، اَلْبَیْت کی تفسیر الکعبۃ سے کرکے اشارہ کردیا کہ البیت میں الف لام عہد کا ہے، اور یہ اسماء مغالیہ میں سے جیسے الثریّا مطلق ستارہ کو کہتے ہیں، اب ایک مخصوص ستارہ کا نام ہوگیا ہے، اسی طرح البیت جب مطلق بولا جاتا ہے تو بیت اللہ ہی مراد ہوتا ہے۔
قولہ : مَثابَۃً ، ثابَ یثوبُ سے ظرف مکان ہے، لوٹنے کی جگہ، مرجع، مرکز، ثوبًا کے معنی ہیں، اصلی حالت کی طرف لوٹنا، ھاء اس میں مبالغہ کے لئے ہے جیسا کہ علامۃ ونسَّابۃ میں ہے۔
قولہ : مَأمَنًا لَّھُمْ یہ مصدر میمی بمعنی ظرف مکان ہے، موضع امن، اَمْنًا کو مَامَنًا کے معنی میں لینے کی وجہ سے اَمْنًا کا اَلْبَیْت پر حمل بھی درست ہوگیا ورنہ مصدر کا حمل ذات پر لازم آرہا تھا۔
قولہ : وَکَان الرجل یَلْقٰی الخ یہ اغارات وغیرہ سے امن کے معنی کا بیان ہے۔
قولہ : وَاتَّخِذُوْا اس کا عطف جَعلنا پر ہے، اور یہ قول محذوف کا مقولہ ہے ای قلنا لہم اتحذوا مِن مقام ابراھیمَ مصلیّٰ ۔
قولہ : بفتح الخاء خبرٌ اس کا عطف بھی جَعَلْنَا پر ہے، یہ بیان حال کے لئے ہے، یعنی لوگوں نے اس کو اپنا مصلیّٰ بنا لیا۔
قولہ : اَمَرْنَاھُمَا، عَھِدَنَا کی تفسیر اَمَرْنَا سے کرکے ایک سوال کا جواب دینا مقصود ہے۔
سوال : عَھِدَ کا صلہ جب الیٰ آتا ہے تو اس کے معنی توصیۃ کے ہوتے ہیں جو ذات باری کے مناسب نہیں ہیں۔
جواب : عَھِدْنَا بمعنی اَمَرْنَا ہے، لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔
قولہ : بِاَنْ اس میں اشارہ ہے کہ اَنْ مصدریہ ہے نہ کہ تفسیر یہ، فعل امر پر بیان مامور بہ کے لئے داخل ہے۔
تفسیر و تشریح
یٰبَنِی اِسْرَآئِیْلَ سابق میں یہ بات گزرچکی ہے کہ بنی اسرائیل اولادِ یعقوب کو کہا جاتا ہے، ما قبل میں بنی اسرائیل کی ایک طویل فرد جرم شمار کرانے اور ان کی موجودہ حالت جو نزول قرآن کے وقت تھی بےکم وکاست بیان کرنے کے بعد ان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم ہماری ان نعمتوں کی انتہائی ناقدری کرچکے ہو جو ہم نے تم کو عطا کی تھیں، تم نے صرف یہی نہیں کیا کہ منصب امامت کا حق ادا نہیں کیا بلکہ خود بھی حق وراستی سے پھرگئے، اور اب ایک نہایت قلیل عنصر صالح کے سوا تمہاری پوری امت میں کوئی صلاحیت باقی نہیں رہی۔
اور اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ امامت اور پیشوائی کسی نسل یا قوم کی میراث نہیں ہے بلکہ یہ اس سچی اطاعت و فرماں برداری کا پھل ہے جس میں ہمارے اس بندے (ابراہیم) نے اپنی ہستی کو گم کردیا تھا، اور اس کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو ابراہیم کے طریقہ پر خود چلیں اور دنیا کو اس پر چلانے کی خدمت انجام دیں، چونکہ اے بنی اسرائیل ! تم اس طریقہ سے ہٹ گئے ہو اور اس خدمت کی اہلیت پوری طرح کھوچکے ہو، لہٰذا تمہیں امامت کے منصب سے معزول کیا جاتا ہے۔ اسی کے بعد یہ بات ارشاد فرمائی کہ اب ہم نے نسل ابراہیم کی دوسری شاخ بنی اسرائیل میں وہ رسول پیدا کیا کہ جس کے لئے ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) نے دعا کی تھی، لہٰذا اب امامت کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں، جو اس رسول کی پیروی کریں گے۔
تبدیلی امامت کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی قدرتی طور پر تحویل قبلہ کا اعلان بھی ضروری تھا، جب تک بنی اسرائیل کی امامت کا دور تھا، بیت المقدس مرکزدعوت رہا اور وہی قبلہ اہل حق بھی رہا، مگر جب بنی اسرائیل اس منصب سے باضابطہ معزول کر دئیے گئے تو بیت المقدس کی مرکزیت خود بخود ختم ہوگئی، لہٰذا اعلان کیا گیا کہ اب وہ مقام دین الہٰی کا مرکز ہے جہاں سے اس رسول کی دعوت کا ظہور ہوا ہے اور چونکہ ابتداء میں ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کا مرکز بھی یہی مقام تھا، اس لئے اہل کتاب اور مشرکین کسی کے لئے بھی یہ تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ قبلہ ہونے کا زیادہ حق کعبے ہی کو پہنچتا ہے، ہٹ دھرمی کی بات دوسری ہے کہ وہ حق کو حق جانتے ہوئے بھی اعراض کئے چلے جا رہے ہیں۔
امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امامت اور کعبے کی مرکز یت کا اعلان کرنے کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے انیسویں رکوع سے آخر سورت تک مسلسل اس امت کو ہدایت دی ہیں جن پر انہیں عمل پیرا ہونا چاہیے۔
10 Tafsir as-Saadi
...
11 Mufti Taqi Usmani
aey bani Israel ! meri woh naimat yaad kero jo mein ney tum ko ata ki thi , aur yeh baat ( yaad kero ) kay mein ney tum ko saray jahano per fazilat di thi .
12 Tafsir Ibn Kathir
انتباہ
پہلے بھی اس جیسی آیت شروع سورت میں گزر چکی ہے اور اس کی مفصل تفسیر بھی بیان ہوچکی ہے یہاں صرف تاکید کے طور پر ذکر کیا گیا اور انہیں نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تابعداری کی رغبت دلائی گئی جن کی صفتیں وہ اپنی کتابوں میں پاتے تھے جن کا نام اور کام بھی اس میں لکھا ہوا تھا بلکہ ان کی امت کا ذکر بھی اس میں موجود ہے پس انہیں اس کے چھپانے اور اللہ کی دوسری نعمتوں کو پوشیدہ کرنے سے ڈرایا جا رہا ہے اور دینی اور دنیوی نعمتوں کو ذکر کرنے کا کہا جا رہا ہے اور عرب میں جو نسلی طور پر بھی ان کے چچا زاد بھائی ہیں اللہ کی جو نعمت آئی ان میں جس خاتم الانبیاء کو اللہ نے مبعوث فرمایا ان سے حسد کر کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور تکذیب پر آمادہ نہ ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔