اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کر دو،
English Sahih:
And [mention] when We made the House [i.e., the Ka’bah] a place of return for the people and [a place of] security. And take, [O believers], from the standing place of Abraham a place of prayer. And We charged Abraham and Ishmael, [saying], "Purify My House for those who perform ‹Tawaf and those who are staying [there] for worship and those who bow and prostrate [in prayer]."
1 Abul A'ala Maududi
اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبے) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیمؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو اور ابراہیمؑ اور ا سماعیل کو تاکید کی تھی کہ میرے گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو
2 Ahmed Raza Khan
اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسماعیل ؑ کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف کرنے والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لئے -
3 Ahmed Ali
اور جب ہم نے کعبہ لوگوں کے لیے عبادت گاہ اور امن کی جگہ بنایا (اور فرمایا) مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ اور ہم نے ابراھیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو
4 Ahsanul Bayan
ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لئے ثواب اور امن و امان کی جگہ بنائی (١) تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو (٢) ہم نے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل (علیہما السلام) سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو۔
١٢٥۔١ حضرت ابراہیم کی نسبت سے جو اس کے بانی اول ہیں، بیت اللہ کی دو خصوصیتیں اللہ تعالٰی نے یہاں بیان فرمائی ایک (لوگوں کے لئے ثواب کی جگہ) دوسرے کے معنی ہیں لوٹ لوٹ کر آنے کی جگہ جو ایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہو جاتا ہے، دوبارہ سہ بارہ آنے کے لئے بیقرار رہتا ہے یہ ایسا شوق ہے جس کی کبھی تسکین نہیں ہوتی بلکہ روز افزوں رہتا ہے دوسری خصوصیت امن کی جگہ یعنی یہاں کسی دشمن کا خوف بھی نہیں رہتا چنانچہ زمانہء جاہلیت میں بھی لوگ حدود حرم میں کسی دشمن جان سے بدلہ نہیں لیتے تھے۔ اسلام نے اس کے احترام کو باقی رکھا، بلکہ اس کی مزید تاکید اور توسیع کی۔ ٢٥۔٢ مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے، جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیر کعبہ کرتے رہے اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم کے نشانات ہیں اب اس پتھر کو ایک شیشے میں محفوظ کر دیا گیا ہے، جسے ہر حاجی طواف کے دوران باآسانی دیکھتا ہے۔ اس مقام پر طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا حکم ہے۔ آیت (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى)2۔بقرہ;125)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ہم نے خانہٴ کعبہ کو لوگوں کے لیے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا اور (حکم دیا کہ) جس مقام پر ابراہیم کھڑے ہوئے تھے، اس کو نماز کی جگہ بنا لو۔ اور ابراہیم اور اسمٰعیل کو کہا کہ طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے میرے گھر کو پاک صاف رکھا کرو
6 Muhammad Junagarhi
ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لئے ﺛواب اور امن وامان کی جگہ بنائی، تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کرلو، ہم نے ابراہیم ﴿علیہ السلام﴾ اور اسماعیل ﴿علیہ السلام﴾ سے وعده لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجده کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو تمام لوگوں کے لئے مرکز اور مقام امن قرار دیا۔ اور (حکم دیا کہ) مقام ابراہیم (جہاں عبادت کے لئے کھڑے ہوئے تھے) کو (اپنی) نماز کی جگہ بناؤ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو وصیت کی (حکم دیا) کہ تم دونوں میرے (اس) گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے خانہ کعبہ کو ثواب اور امن کی جگہ بنایا اور حکم دے دیا کہ مقام ابراہیم کو مصّلی بناؤ اور ابراہیم علیھ السّلام و اسماعیل علیھ السّلام سے عہد لیا کہ ہمارے گھر کو طواف اور اعتکاف کرنے والوںاو ر رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ بنائے رکھو
9 Tafsir Jalalayn
اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے جمع ہونے کی اور امن پانے کی جگہ مقرر کرلیا۔ اور (حکم دیا کہ) جس مقام پر ابراہیم کھڑے ہوئے تھے اس کو نماز کی جگہ بنالو۔ اور ابراہیم اور اسماعیل کو کہا کہ طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے میرے گھر کو پاک صاف رکھا کرو۔ وَاِذْجَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّنَّاسِ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسبت سے جو بیت اللہ کے بانی اول ہیں، بیت اللہ کی دو خصوصیتیں اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمائی ہیں، ایک مَثَابَۃً لِّنَّاسِ لوگوں کے لئے ثواب ی جگہ اور دوسرے معنی ہیں بار بار لوٹ کر آنے کی جگہ (یعنی) مرکز، دوسری خصوصیت امن کی جگہ یعنی یہاں کسی دشمن کا خوف نہیں رہتا، چناچہ زمانہ جاہلیت میں بھی حدود حرم میں کسی دشمن جان سے بھی انتقام نہیں لیتے تھے، اسلام نے ان کے اس احترام کو نہ صرف یہ کہ باقی رکھا بلکہ اس کی مزید تاکید اور توسیع کردی حتی کہ حرم میں خودروگھاس وغیرہ بھی اکھاڑنا ممنوع قرار دیدیا۔ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلّٰی مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تعمیر کعبہ کرتے تھے، اس پتھر پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قدموں کے نشانات ہیں، اب اس پتھر کو شیشے میں محفوظ کردیا گیا ہے، اس مقام پر طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا حکم ہے۔ حنفیہ اور مالکیہ کے یہاں یہ نماز واجب ہے اور شافعیہ کہ یہاں سنت۔ اَنْ طَھِّرَابَیْتِیَ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و اسماعیل (علیہ السلام) کو اپنے گھر کو پاک رکھنے کا حکم دیا جا رہا ہے، اس پانی سے کیا مراد ہے ؟ ابن جریر کہتے ہیں (ھو تطھیرہٗ مِنَ الاصْنَامِ و عبَادَۃِ الَا وثَان فیہ ومن الشرک باللہ) یعنی تطہیر سے مراد بتوں اور بت پرستی سے پاک کرنا ہے، حقیقت میں تو معنوی اعتقادی نجاست سے پاکی کا حکم ہے، ضمنا ظاہری طہارت کا حکم بھی اس میں داخل ہے، طھِّرَا بَیتیَ میں بیت سے اگرچہ بیت اللہ (کعبہ) مراد ہے مگر اس سے ہر مسجد کو پاک و صاف رکھنے کا حکم مفہوم ہوتا ہے۔ دَخَلَ فیہ بالمعنی جمیع بیوتہٖ تعالیٰ (قرطبی) اَنْ طَھِّرَا میں اَن تفسیریہ ہے یعنی بمعنی اے۔
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے باقی رہنے والے نمونے کا ذکر فرمایا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امامت پر دلالت کرتا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا محترم گھر جس کی زیارت کو اللہ تعالیٰ نے دین کا ایک رکن اور گناہوں، کوتاہیوں کو ختم کردینے والا قرار دیا اور اس محترم گھر میں اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے آثار ہیں جن کے ذریعے سے ان کی امامت کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور حضرت خلیل علیہ السلام کی حالت یاد آتی ہے۔ پس فرمایا: ﴿ وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا ۭ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس محترم گھر کو لوگوں کا مرجع قرار دیا، لوگ اپنے دینی اور دنیاوی منافع کے حصول کی خاطر وہاں اکٹھے ہوتے ہیں۔ وہاں بار بار جانے کے باوجود ان کا دل نہیں بھرتا ﴿وَاَمْنًا ﴾ اور اللہ تعالیٰ نے اس محترم مقام کو جائے امن قرار دیا جہاں پہنچ کر ہر شخص محفوظ و مامون ہوجاتا ہے یہاں تک کہ جنگلی جانور اور نباتات و جمادات بھی مامون ہوتے ہیں۔ بنابریں جاہلیت کے زمانے میں، اہل عرب اپنے شرک کے باوجود بیت اللہ کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں سے کوئی اگر بیت اللہ میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تو تب بھی اس میں انتقامی جذبہ جوش نہ مارتا جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی حرمت، عظمت اور اس کے شرف و تکریم میں اور اضافہ کردیا۔ ﴿ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ۭ﴾” اور بناؤ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ“ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ اسے مراد وہ معروف مقام ہو جو اب بیت اللہ کے دروازے کے بالمقابل ہے اور جائے نماز بنانے سے مراد طواف کی دو رکعت ہیں جو مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنا مستحب ہے۔ جمہور مفسرین کا یہی مذہب ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہاں مقام مفرد اور مضاف ہو، اس صورت میں یہ حج کے ان تمام مقامات کو شامل ہوگا، جہاں جہاں ابراہیم علیہ السلام کے قدم پہنچے اور یہ حج کے سارے مشاعر ہوں گے، جیسے طواف، سعی صفا و مروہ، وقوف عرفات و مزدلفہ، رمی جمار (کنکریاں مارنا) قربانی اور دیگر افعال حج۔ پس یہاں ﴿ مُصَلًّی ﴾ کا معنی ” عبادت کی جگہ“ قرار پائے گا۔ یعنی تمام شعائر حج میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کرو۔ شاید یہی معنی زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس کے اندر پہلا معنی بھی آجاتا ہے اور لفظ بھی اس معنی کا متحمل ہے۔ ﴿ وَعَہِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ﴾ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام کی طرف وحی کر کے انہیں حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کو شرک، کفر و معاصی، رجس و نجاست اور گندگی سے پاک کریں تاکہ اللہ کا یہ گھر ﴿لِلطَّاۗیِٕفِیْنَ﴾ طواف کرنے والوں ﴿وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ﴾ ” اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں“ یعنی نمازیوں کے لیے پاک ہوجائے۔ آیت کریمہ میں طواف کے ذکر کو مقدم رکھا گیا ہے کیونکہ یہ مسجد حرام سے مختص ہے اس کے بعد اعتکاف کا ذکر آیا ہے کیونکہ صحت اعتکاف کے لیے مطلقاً مسجد کی شرط ہے یہی وجہ ہے کہ نماز کا ذکر طواف و اعتکاف کے بعد ہے باوجود اس بات کے کہ وہ افضل ہے۔ باری تعالیٰ نے کعبہ کو چند وجوہات کی بنا پر اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ (1) اللہ کا گھر ہونے کے حوالے سے یہ نہایت شدت سے اس بات کا متقاضی تھا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اس کی تطہیر کا خوب اہتمام کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کریں اور اپنی پوری طاقت صرف کردیں۔ (2) اللہ تعالیٰ کی طرف یہ نسبت عزت و شرف اور تکریم کی متقاضی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا ہے۔ (3) یہ اضافت اور نسبت ہی ہے جو دلوں کو بیت اللہ کی طرف کھینچنے کا باعث ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur woh waqt yaad karo jab hum ney baitullah ko logon kay liye aesi jagah banaya jiss ki taraf woh lot lot ker jayen aur jo sarapa aman ho . aur tum maqam-e-Ibrahim ko namaz parhney ki jagah bana lo . aur hum ney Ibrahim aur Ismail ko yeh takeed ki kay : tum dono meray ghar ko unn logon kay liye pak karo jo ( yahan ) tawaf keren aur aetikaf mein bethen aur rukoo aur sajda baja layen .
12 Tafsir Ibn Kathir
شوق زیارت اور بڑھتا ہے " مثابتہ " سے مراد بار بار آنا۔ حج کرنے کے بعد بھی دل میں لگن لگی رہتی ہے گویا حج کرنے کے بعد بھی ہر بار دل میں ایک بار اور حج کرنے کی تمنا رہتی ہے دنیا کے ہر گوشہ سے لوگ بھاگے دوڑے اس کی طرف جوق در جوق چلے آ رہے ہیں یہی جمع ہونے کی جگہ ہے اور یہی امن کا مقام ہے جس میں ہتھیار نہیں اٹھایا جاتا جاہلیت کے زمانہ میں بھی اس کے آس پاس تو لوت مار ہوتی رہتی لیکن یہاں امن وامان ہی رہتا کوئی کسی کو گالی بھی نہیں دیتا۔ یہ جگہ ہمیشہ متبرک اور شریف رہی۔ نیک روحیں اس کی طرف مشتاق ہی رہتی ہیں گو ہر سال زیارت کریں لیکن پھر بھی شوق زیارت کم نہیں ہوتا ہے۔ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا اثر ہے۔ آپ نے دعا مانگی تھی کہ آیت (فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ ) 14 ۔ ابرہیم :37) تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے۔ یہاں باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی کوئی دیکھتا تو خاموش ہوجاتا سورة مائدہ میں قیاماللناس یعنی یہ لوگوں کے قیام کا باعث ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اگر لوگ حج کرنا چھوڑ دیں تو آسمان زمین پر گرا دیا جائے۔ اس گھر کے اس شرف کو دیکھ کر پھر اس کے بانی اول حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کے شرف کو خیال فرمائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ للطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْقَاۗىِٕمِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ ) 22 ۔ الحج :26) ہم نے بیت اللہ کی جگہ ابراہیم کو بتادی ( اور کہ دیا) کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور جگہ ہے آیت (اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ للنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران :96) اللہ جل شانہ کا پہلا گھر مکہ میں جو برکت و ہدایت والا نشانیوں والا مقام ابراہیم والا امن وامان والا ہے مقام ابراہیم بھی ہے اور حج کل کا کل بھی ہے مثلاً عرفات، مشعر الحرام، منی، رمی، جمار، صفا مروہ کا طواف، مقام ابراہیم دراصل وہ پتھر ہے جسے حضرت اسماعیل کی بیوی صاحبہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نہانے کے لیے ان کے پاؤں کے نیچے رکھا تھا، لیکن حضرت سعید بن جیر کہتے ہیں یہ غلط ہے۔ دراصل وہ یہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرات ابراہیم کعبہ بناتے تھے حضرت جابر (رض) کی لمبی حدیث میں ہے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طواف کرلیا تو حضرت عمر نے مقام ابراہیم کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ کیا یہی ہمارے باپ ابراہیم کا مقام ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں کہا پھر ہم اسے قبلہ کیوں نہ بنالیں ؟ اس پر آیت نازل ہوئی ایک اور روایت میں ہے کہ فاروق (رض) کے سوال پر تھوڑی ہی دیر گزری تھی جو حکم نازل ہوا ایک اور حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے دن مقام ابراہیم کے پتھر کی طرف اشارہ کر کے حضرت عمر نے پوچھا یہی ہے جسے قبلہ بنانے کا ہمیں حکم ہوا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں یہی صحیح بخاری شریف میں ہے۔ حضرت عمر فرماتے ہیں میں نے اپنے رب سے تین باتوں میں موافقت کی جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا وہی میری زبان سے نکلا میں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاش کہ ہم مقام ابراہیم کو قبلہ بنا لیتے تو حکم آیت (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى) 2 ۔ البقرۃ :125) نازل ہوا میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاش کہ آپ امہات المومنین کو پردے کا حکم دیں اس پر پردے کی آیت اتری جب مجھے معلوم ہوا کہ آج حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں سے خفا ہیں تو میں نے جا کر ان سے کہا کہ اگر تم باز نہ آؤ گی تو اللہ تعالیٰ تم سے اچھی بیویاں تمہارے بدلے اپنے نبی کو دے گا اس پر فرمان بازی نازل ہوا کہ آیت (عسی ربہ) الخ اس حدیث کی بہت سی اسناد ہیں اور بہت سی کتابوں میں مروی ہے ایک روایت میں بدر کے قیدیوں کے بارے میں بھی حضرت عمر کی موافقت مروی ہے آپ نے فرمایا تھا کہ اس سے فدیہ نہ لیا جائے بلکہ انہیں قتل کردیا جائے اللہ سبحانہ تعالیٰ کو بھی یہی منظور تھا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول منافق جب مرگیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے جنازے کی نماز ادا کرنے کے لیے تیار ہوئے تو میں نے کہا تھا کہ کیا آپ اس منافق کافر کا جنازہ پڑھیں گے ؟ آپ نے مجھے ڈانٹ دیا اس پر آیت آیت (وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِهٖ ) 9 ۔ التوبہ :84) نازل ہوئی اور آپ کو ایسوں کے جنازے سے روکا گیا۔ ابن جریج میں روایت ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے طواف میں تین مرتبہ رمل کیا یعنی دوڑ کی چال چلے اور چارپھیرے چل کر کئے پھر مقام ابراہیم کے پیچھے آ کردو رکعت نماز ادا کی اور یہ آیت تلاوت فرمائی آیت (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى) 2 ۔ البقرۃ :125) حضرت جابر کی حدیث میں ہے کہ مقام ابراہیم کو آپ نے اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کرلیا تھا۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کعبہ بنا رہے تھے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) آپ کو پتھر دیتے جاتے تھے اور آپ کعبہ کی بنا کرتے جاتے تھے اور اس پتھر کو سرکاتے جاتے تھی جہاں دیوار اونچی کرنی ہوتی تھی وہاں لیجاتے تھے اسی طرح کعبہ کی دیواریں پوری کیں اس کا پورا بیان حضرت ابراہیم کے واقعہ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ اس پتھر پر آپ کے دونوں قدموں کے نشان ظاہر تھے عرب کی جاہلیت کے زمانہ کے لوگوں نے بھی دیکھے تھے۔ ابو طالب نے اپنے مشہور قصیدہ میں کہا ہے وموطی ابراہیم فی الصخر رطبتہ علی قدمیہ حایا غیر ناعل یعنی اس پتھر میں ابراہیم (علیہ السلام) کے دونوں پیروں کے نشان تازہ بتازہ ہیں جن میں جوتی نہیں بلکہ مسلمانوں نے بھی اسے دیکھا تھا حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے مقام ابراہیم میں حضرت خلیل اللہ کے پیروں کی انگلیوں اور آپ کے تلوے کا نشان دیکھا تھا پھر لوگوں کے چھونے سے وہ نشان مٹ گئے حضرت قتادہ فرماتے ہیں حکم اس کی جانب نماز ادا کرنے کا ہے تبرک کے طور پر چھونے اور ہاتھ لگانے کا نہیں اس امت نے بھی اگلی امتوں کی طرح بلا حکم الہ العالمین بعض کام اپنے ذمہ لازم کر لئے جو نقصان رساں ہیں وہ نشان لوگوں کے ہاتھ لگانے سے مٹ گئے۔ یہ مقام ابراہیم پہلے دیوار کعبہ کے متصل تھا کعبہ کے دروازے کی طرف حجر اسود کی جانب دروازے سے جانے والے کے دائیں جانب مستقل جگہ پر تھا جو آج بھی لوگوں کو معلوم ہے خلیل اللہ نے یا تو اسے یہاں رکھوا دیا تھا یا بیت اللہ بناتے ہوئے آخری حصہ یہی بنایا ہوگا اور یہیں وہ پتھر رکھا ہے امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسے پیچھے ہٹا دیا اس کے ثبوت میں بہت سی روایتیں ہیں پھر ایک مرتبہ پانی کے سیلاب میں یہ پتھر یہاں سے بھی ہٹ گیا تھا خلیفہ ثانی نے اسے پھر اپنی جگہ رکھوا دیا حضرت سفیان فرماتے ہیں مجھے معلوم نہیں ہوا کہ یہ اصلی جگہ سے ہٹایا گیا اس سے پہلے دیوار کعبہ سے کتنی دور تھا ایک روایت میں ہے کہ خود آنحضرت نے اس کی اصلی جگہ سے ہٹا کر وہاں رکھا تھا جہاں اب ہے لیکن یہ روایت مرسل ہے ٹھیک بات یہی ہے کہ حضرت عمر نے اسے پیچھے رکھا، واللہ اعلم۔