البقرہ آية ۱۴۲
سَيَقُوْلُ السُّفَهَاۤءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰٮهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِىْ كَانُوْا عَلَيْهَا ۗ قُلْ لِّـلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۗ يَهْدِىْ مَنْ يَّشَاۤءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ
طاہر القادری:
اَب بیوقوف لوگ یہ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو اپنے اس قبلہ (بیت المقدس) سے کس نے پھیر دیا جس پر وہ (پہلے سے) تھے، آپ فرما دیں: مشرق و مغرب (سب) اﷲ ہی کے لئے ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے،
English Sahih:
The foolish among the people will say, "What has turned them away from their qiblah, which they used to face?" Say, "To Allah belongs the east and the west. He guides whom He wills to a straight path."
1 Abul A'ala Maududi
نادان لوگ ضرور کہیں گے : اِنہیں کیا ہوا کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، اس سے یکایک پھر گئے؟ اے نبی، ان سے کہو: "مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں اللہ جسے چاہتا ہے، سیدھی راہ دکھا دیتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اب کہیں گے بیوقوف لوگ، کس نے پھیردیامسلمانوں کو، ان کے اس قبلہ سے، جس پر تھے تم فرمادو کہ پورب پچھم (مشرق مغرب) سب اللہ ہی کا ہے جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے۔
3 Ahmed Ali
بے وقوف لوگ کہیں گے کہ کس چیز نے مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ تھے کہہ دو مشرق اور مغرب الله ہی کا ہے وہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے
4 Ahsanul Bayan
عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا؟ آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالٰی ہی ہے ف۱ وہ جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دے۔
۱٤۲۔۱جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکے سے ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لے گئے ١٦/١٧ مہینے تک بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے حالانکہ آپ کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جائے جو قبلہ ابراہیمی ہے اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا بھی فرماتے اور بار بار آسمان کی طرف نظر بھی اٹھاتے۔ بلآخر اللہ تعالٰی نے تحویل کعبہ کا حکم دے دیا جس پر یہودیوں اور منافقین نے شور مچایا حالانکہ نماز اللہ کی ایک عبادت ہے اور عبادت میں عابد کو جس طرح حکم ہوتا ہے اسی طرح کرنے کا پابند ہوتا ہے اس لئے جس طرف اللہ نے رخ پھیر دیا اسی طرف پھر جانا ضروری تھا علاوہ ازیں جس اللہ کی عبادت کرنی ہے مشرق اور مغرب ساری سمتیں اسی کی ہیں اس لئے سمتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہر سمت میں اللہ کی عبادت ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس سمت کو اختیار کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہو۔ تحویل کعبہ کا یہ حکم نماز عصر کے وقت آیا اور عصر کی نماز خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی گئی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلے پر (پہلے سے چلے آتے) تھے (اب) اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے۔ تم کہہ دو کہ مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے، سیدھے رستے پر چلاتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
عنقریب نادان لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا؟ آپ کہہ دیجیئے کہ مشرق ومغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے وه جسے چاہے سیدھی راه کی ہدایت کردے
7 Muhammad Hussain Najafi
عنقریب بے وقوف لوگ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو کس چیز نے روگردان کر دیا۔ اس قبلہ (بیت المقدس) سے، جس پر وہ پہلے تھے (اے پیغمبر(ص)) کہہ دیجئے اللہ ہی کے لیے ہے مشرق اور مغرب بھی۔ وہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرتا ہے (اس پر لگا دیتا ہے)۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
عنقریب احمق لوگ یہ کہیں گے کہ ان مسلمانوں کو اس قبلہ سے کس نے موڑ دیا ہے جس پر پہلے قائم تھے تو اے پیغمبر کہہ دیجئے کہ مشرق و مغرب سب خدا کے ہیں وہ جسے چاہتاہے صراط مستقیم کی ہدایت دے دیتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلے پر (پہلے سے چلے آتے) تھے (اب) اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ؟ تم کہہ دو کہ مشرق و مغرب سب خدا ہی کا ہے وہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے پر چلاتا ہے
آیت نمبر ١٤٢ تا ١٤٣
ترجمہ : نادان جاہل لوگ یعنی یہود و مشرکین عنقریب کہیں گے کہ کس چیز نے پھیر دیا ان کو ؟ یعنی نبی اور مومنین کو اس قبلہ سے جس پر وہ تھے یعنی نماز میں اب تک جس قبلہ کی طرف رخ کرتے تھے اور وہ بیت المقدس ہے اور سین استقبالیہ کو لانا اخبار بالغیب کے قبیل سے ہے، اور کہہ دیجئے کہ مشرق و مغرب کا مالک اللہ ہی ہے، یعنی تمام جہات اسی کی ملک ہیں، لہٰذا اس کو حق ہے کہ جس جہت کی جانب چاہے رخ کرنے کا حکم دے، اس پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں، وہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کو سیدھی (یعنی) دین اسلام کی راہ دکھا دیتا ہے اور ان میں (اے مومنو ! ) تم بھی ہو جن کو راہ مستقیم دکھائی، اور ہم نے اسی طرح جس طرح تم کو راہ مستقیم دکھائی، اے امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تم کو خیر امت یعنی معتدل امت (بھی) بنایا تاکہ تم لوگوں کے لئے قیامت کے دن گواہ ہو، اس بات پر کہ ان کے رسولوں نے ان کو پیغام پہنچا دیا اور رسول تمہارے لئے گواہ ہوں کہ اس نے تم کو پیغام پہنچا دیا، جس سمت قبلہ پر تم پہلے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے، مگر جب آپ نے ہجرت فرمائی تو یہود کی دل جوئی کے لئے بیت المقدس کی جانب رخ کرنے کا حکم دیا گیا تو آپ نے اس کی طرف رخ کرکے سولہ یا سترہ مہینہ نماز پڑھی پھر (یہ حکم) تبدیل کردیا گیا، اس کو ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا تاکہ ہم علم ظہور کے طور پر ظاہر کردیں کہ رسول کی کون اتباع کرتا ہے ؟ (یعنی) اس کی تصدیق کرتا ہے، اور کون ہے، جو الٹا پھرجاتا ہے ؟ یعنی دین میں شک کرتے ہوئے، اور یہ گمان کرتے ہوئے کہ نبی قبلہ کے معاملہ میں مذبذب ہے، اور اسی وجہ سے ایک جماعت مرتد ہوگئی، گو تبدیل قبلہ کا یہ کام مشکل ہے یعنی لوگوں پر شاق ہے اِنْ مخففۃ عن المثقلۃ ہے، اور اس کا اسم محذوف ہے، (دراصل) وَاِنَّھَا تھا، مگر ان میں سے جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے (ان کیلئے کوئی مشکل نہیں ہے) اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا یعنی بیت المقدس کی جانب پڑھی ہوئی نماز کو (ضائع نہ کرے گا) بلکہ اس پر تم کو اجر دے گا، اس لئے کہ اس کا سبب نزول، ان لوگوں کے بارے میں سوال تھا جو تحویل قبلہ سے پہلے مرگئے، اللہ لوگوں مومنوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے، ان کے اعمال کو ضائع نہ کرے گا، اور رأفۃ شدتِ رحمت کو کہتے ہیں ابلغ (یعنی رؤف) کو فاصلہ کی رعایت کی وجہ سے مقدم کیا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : سُفَھَاءُ (واحد) سَفِیْۃٌ بیوقوف، نادان، احمق، جاہل، (س) ۔
قولہ : مَاوَلّٰھُمْ ، مَا استفہامیہ مبتداء وَلّٰھُمْ خبر، وَلّٰی توْلِیَۃً (تفعیل) پیٹھ پھیرنا، منہ توڑنا۔
قولہ : مِنَ النَاسِ ، سُفَھَاء سے حال ہونے کی وجہ سے محل میں نصب کے ہے عامل سیقول ہے، یہ حال مبینہ ہے، یعنی دوسروں سے ممتاز اور جدا کرنے کے لئے کہ سفاہت کے ساتھ جس طرح انسان متصف ہوتا ہے، غیر انسان بھی متصف ہوتا ہے حتی کہ غیر حیوان بھی متصف ہوتا ہے، گدھے کی بےوقوفی تو زبان زد عام و خاص ہے جماد کی جانب بھی سفہ کی نسبت کی جاتی ہے، بَقَلَۃُ الحمقاء بیوقوف دانہ، خرفہ کو کہتے ہیں، خرفہ ایک دانہ ہے دوا کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے، اس کو بیوقوف کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ پانی پر بہتے ہوئے بھی اگ آتا ہے جب کہ سیلاب میں بہنے کے وقت بےاطمینانی کی کیفیت ہوتی ہے، ایسی حالت میں اس کا برگ و بار نکالنا بےوقوفی نہیں تو اور کیا ہے ؟ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی مسافر حالت سفر میں اپنا مکان بنانا شروع کر دے، اور خرف (س، ک) خرَفًا بڑھاپے کی وجہ سے عقل کا فاسد ہوجانا۔
قولہ : قِبلۃ بروزن جِلسۃ بیان حالت کے لئے ہے، جیسے جلستُ جِلسۃَ القاری، میں قاری کی طرح بیٹھا قِبْلَۃً استقبال کی حالت کو کہتے ہیں عرف شرع میں نماز میں قبلہ کی جانب رخ کو کہتے ہیں، قبلۃ، جعلنا کا مفعول اول ہے اور التی کنت عَلیَھا تقدیر موصوف کے ساتھ مفعول ثانی ہے، تقدیر یہ ہے الجھۃ التی کنت علیھا۔
قولہ : علی عقِبَیہِ اس کا واحد عقبٌ ایڑھی کو کہتے ہیں، مراد انقلاب علی عقبیہ سے حق سے باطل کی طرف پلٹ جانا مرتد ہوجانا۔
قولہ : لِأنّ سبب نُزُولِھَا السوال الخ اس عبارت کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : ایمان کی تفسیر صلوٰۃ سے کیوں کی ؟
جواب : یہود کی جانب سے چونکہ سوال نماز ہی کے بارے میں تھا اس لئے ایمان کی تفسیر صلوٰۃ سے کی ہے۔
قولہ : وقُدّم الا بلغ للفاصلۃ یہ ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : عام طور پر ترقی من الادنیٰ الی الاعلیٰ ہوتی ہے نہ کہ بالعکس، جیسے کہتے ہیں عالم نحویرٌ، نحریرٌ عالم نہیں کہتے، اسی قاعدے کے مطابق یہاں رحیمٌ رؤفٌ کہنا چاہیے تھا۔
جواب : فواصل کی رعایت کے لئے پورے قرآن میں ایسا کیا گیا ہے، اگرچہ رحیم کے مقابلہ میں رؤف میں شدت رحمت ہے۔
تفسیر و تشریح
شان نزول : جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں تھے تو یہ ممکن تھا کہ بیک وقت کعبۃ اللہ اور بیت المقدس کی جانب رخ ہوجائے اس لئے کہ مدینہ منورہ اور بیت المقدس مکہ سے ٹھیک جانب شمال میں واقع ہیں، مگر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ صورت ممکن نہ رہی اس لئے کہ بیت المقدس مدینہ سے ٹھیک جانب شمال میں واقع ہے، اور بیت اللہ جانب جنوب میں بدرجہ مجبوری یہود کی دلجوئی کے لئے بحکم خداوندی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت المقدس کو قبلہ بنا لیا جو یہود کا بھی قبلہ تھا، سولہ یا سترہ مہینہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز پڑھی مگر آپ کی دلی خواہش اور تمنا تھی کہ قبلہ بیت اللہ ہی ہوجائے اس لئے کہ دعوت اسماعیلی کا وہی مرکز تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے انتظار میں بار بار نظر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے تھے، آخر کار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش کے مطابق تحویل قبلہ کا حکم فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الخ کے ذریعہ نازل ہوگیا۔
جب تحویل قبلہ ہوا تو یہود اور مشرکین نے اعتراض کرنا شروع کردیا کہ مسلمانوں کے قبلہ کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں، کبھی بیت المقدس ہوتا ہے تو کبھی بیت اللہ، تو اس کے جواب میں مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
قَلْ للہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ دراصل یہ نادانوں کے اعتراض کا پہلا جواب ہے، یہ لوگ سمت ومقام کے پرستار بندے بنے ہوئے تھے، ان کا خیال تھا کہ خدا کسی خاص سمت میں مقید ہے اس لئے ان کے جاہلانہ اعتراض کے جواب میں فرمایا گیا، مشرق و مغرب اللہ کے ہیں، کسی سمت کو قبلہ بنانے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ اسی طرف ہے، لہٰذا یہ کوئی نہ بحث کی بات ہے اور نہ جھگڑنے کی کہ پہلے تم اس طرف عبادت کرتے تھے اب اس طرف کیوں کرنے لگے ؟
امت محمدیہ امت وسط ہے : وسط سین کے فتحہ کے ساتھ ہے اور معتدل کے معنی میں ہے اور افضل اشیاء کو وسط کہا جاتا ہے، ابو سعید خدری (رض) کی روایت میں وسط کی تفسیر عدل مروی ہے جو بہترین کے معنی میں ہے جس کے نتیجہ میں امت محمدیہ کو میدان حشر میں یہ امتیاز حاصل ہوگا کہ تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کی امتیں جب اپنے انبیاء (علیہم السلام) کی ہدایت و تبلیغ سے انکار کردیں گے اس وقت امت محمدیہ انبیاء (علیہم السلام) کی جانب سے گواہی میں پیش ہوگی، اور یہ شہادت دے گی کہ انبیاء (علیہم السلام) نے ہر زمانہ میں اللہ کا پیغام اپنی اپنی امتوں کو پہنچا دیا، مدعیٰ علیہم امتیں امت محمدیہ پر یہ جرح کریں گے کہ امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تو ہمارے زمانہ میں وجود ہی نہیں تھا لہٰذا یہ ہمارے معاملہ میں گواہی کس طرح دے سکتی ہیں ؟
امت محمدیہ اس جرح کا جواب دے گی کہ بیشک ہم اس وقت موجود نہیں تھے مگر ان کے و واقعات و حالت کی خبریں ہمیں صادق المصدوق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو ہمارے نزدیک ہمارے عینی مشاہدہ سے بھی زیادہ وقیع اور قابل اعتماد ہیں، دی تھیں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تزکیہ : اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش ہوں گے اور امت محمدیہ کا تزکیہ و توثیق کریں گے، بیشک انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ صحیح ہے۔
واقعہ تحویل قبلہ کی تاریخ و تفصیل : تحویل قبلہ کا یہ حکم رجب یا شعبان ٢ ھ میں نازل ہوا، ابن سعد کی روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشر بن براء بن معرور کے یہاں دعوت پر گئے ہوئے تھے، وہاں ظہر کی نماز کا وقت آگیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو نماز پڑھانے کھڑے ہوئے دورکعتیں پڑھا چکے تھے، تیسری رکعت میں یکایک وحی کے ذریعہ مذکورہ آیت نازل ہوئی اور اسی وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء میں تمام لوگ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف پھرگئے، اس کے بعد مدینہ اور اطراف مدینہ میں عام منادی کرا دی گئی، براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ ایک جگہ منادی کی آواز اس حالت میں پہنچی کہ لوگ رکوع کی حالت میں تھے، حکم سنتے ہی سب کے سب اسی حالت میں کعبے کی طرف پھرگئے، انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی سلمہ میں یہ اطلاع دوسرے دن صبح کی نماز کے وقت پہنچی، لوگ ایک رکعت پڑھ چکے تھے کہ ان کے کانوں میں آواز آئی، خبردار رہو ! قبلہ بدل کر کعبے کی طرف کردیا گیا ہے، سنتے ہی پوری جماعت نے اپنا رخ بدل دیا۔
اس بات کا خیال رہے کہ بیت المقدس مدینہ منورہ سے عین شمال میں ہے اور کعبہ بالکل جنوب میں، نماز باجماعت پڑھتے ہوئے قبلہ تبدیل کرنے میں لامحالہ امام کو چل کر مقتدیوں کے پیچھے آنا پڑا ہوگا بلکہ مقتدیوں کو بھی کچھ نہ کچھ چل کر صفیں وغیرہ درست کرنی پڑی ہوں گی، تفصیل روایات میں موجود ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
پہلی آیت ایک معجزے، تسلی اور اہل ایمان کے دلوں کو مطمئن کرنے، ایک اعتراض اور تین وجوہ سے اس کے جواب، اعتراض کرنے والے کی صفت اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے کی صفت پر مشتمل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ عنقریب بیوقوف لوگ اعتراض کریں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے نفس کے مصالح کو نہیں پہچانتے بلکہ انہیں ضائع کردیتے ہیں اور انہیں نہایت کم قیمت پر فروخت کردیتے ہیں یہ یہود و نصاریٰ اور وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی شریعت پر اعتراض کرنے میں ان سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ان کے اعتراض کی بنیاد یہ بنی کہ مسلمان جب تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے ان کو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم تھا۔ پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد بھی تقریباً ڈیڑھ سال تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمتیں تھیں جن میں سے بعض کی طرف اللہ تعالیٰ کے اشارے کا تذکرہ عن قریب ہوگا اور کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم بھی اس کی حکمت کا تقاضا تھا۔
پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ بیوقوف لوگ ضرور یہ کہیں گے ﴿مَا وَلّٰیہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِیْ کَانُوْاعَلَیْہَا ﴾” ان کو کس چیز نے اس قبلے سے پھیر دیا جس پر وہ تھے“ مراد بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا تھا، یعنی کس چیز نے ان کو بیت المقدس کی طرف منہ کرنے سے پھیر دیا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم، اس کی شریعت اور اس کے فضل و احسان پر اعتراض ہے اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کے وقوع کے بارے میں خبر دے کر اہل ایمان کو تسلی دی ہے کہ یہ اعتراض صرف وہی لوگ کریں گے جو بیوقوف، یعنی قلیل العقل اور برد باری و دیانت سے محروم ہوں۔ اس لیے ان کی باتوں کی پروا نہ کرو، کیونکہ ان کا سرچشمہ کلام معلوم ہے۔ عقل مند شخص بیوقوف کے اعتراض کی پروا نہیں کرتا اور نہ اس کی طرف دھیان دیتا ہے۔
یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر صرف وہی شخص اعتراض کرتا ہے جو بیوقوف، جاہل اور عناد رکھتا ہو اور رہا عقل مند اور ہدایت یافتہ مومن تو وہ اپنے رب کے احکام اطاعت اور تسلیم و رضا کے جذبے سے قبول کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِم﴾(لاحزاب : 33؍ 36) ” کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں کوئی فیصلہ کردیں تو اس معاملے میں وہ اپنا بھی کوئی اختیار سمجھیں۔“﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ﴾(سورۃ نساء : 4؍ 65) ” ہرگز نہیں، تیرے رب کی قسم ! لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے تنازعات میں تجھے حکم (فیصلہ کرنے والا) نہ بنائیں۔“ نیز فرمایا : ﴿إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا﴾(لنور: 24؍ 51) ” اہل ایمان کی تو یہ بات ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے، تاکہ اللہ کا رسول ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ “
اللہ تعالیٰ کا ان کے لیے ﴿السُّفَہَاۗءُ﴾ ” بے وقوف“ کا لفظ استعمال کرنا اس بات کے سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ان کا اعتراض غیر معقول ہے جس کے جواب کی ضرورت ہے نہ اس کی پروا کرنے کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے باوجود اس شب ہے کو یوں ہی نہیں چھوڑا، بلکہ اس کا ازالہ فرمایا اور بعض دلوں میں جو اعتراض پیدا ہوسکتا تھا اسے یہ کہہ کر دور فرما دیا۔ ﴿ قُلْ﴾ ان کو جواب دیتے ہوئے کہہ دیجئے !﴿لِّلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۭ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾” مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں، وہ جسے چاہتا ہے، سیدھے راستے کی رہنمائی فرما دیتا ہے۔ “
یعنی جب مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور تمام جہات میں سے کوئی جہت بھی اللہ تعالیٰ کی ملکیت سے باہر نہیں اور اس کے باوجود وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے اور اس قبلہ کی طرف راہنمائی بھی اسی کی طرف سے ہے، جو ملت ابراہیم کا حصہ ہے۔ پس معترض، تمہارے اس قبلہ کی طرف منہ کرلینے کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہے، کسی وجہ سے یہ اعتراض کرتا ہے کہ تم نے ایسی جہت کی طرف رخ کیوں کیا جو اس کی ملکیت نہیں؟ یہ ایک وجہ ہی اس کے حکم کے تسلیم کرنے کو واجب کردینے والی ہے، تو اس وقت اسے کیوں کر تسلیم نہیں کیا جائے گا، جب کہ تم پر یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے تمہیں اس کی ہدایت نصیب فرمائی۔ پس تم پر اعتراض کرنے والا دراصل اللہ کے فضل پر اعتراض کر رہا ہے، محض تم پر حسد اور ظلم کا ارتکاب کرتے ہوئے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد﴿یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ مطلق ہے اور مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ ہدایت اور گمراہی کے کچھ اسباب ہیں جن کا موجب اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کا عدل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایک سے زیادہ مقامات پر ہدایت کے اسباب بیان کیے ہیں، بندہ جب ان اسباب کو اختیار کرتا ہے، تو اسے ہدایت حاصل ہوجاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ﴾(سورۃ مائدہ 16) ” اس کے ذریعے سے اللہ اپنی رضا کی پیروی کرنے والوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے۔“ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا ہے جو اس امت کے لیے ہدایت کی تمام انواع کی طرف راہنمائی کا موجب ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
abb yeh beywaqoof log kahen gay kay aakhir woh kiya cheez hai jiss ney inn ( musalmanon ) ko uss qiblay say rukh pherney per aamada kerdiya jiss ki taraf woh mun kertay chalay aarahey thay-? aap keh dijiye kay mashriq aur maghrib sabb Allah hi ki hain . woh jiss ko chahta hai seedhi raah ki hidayat ker deta hai
12 Tafsir Ibn Kathir
تحویل کعبہ ایک امتحان بھی تھا۔ اور تقرر جہت بھی
بیوقوفوں سے مراد یہاں مشرکین عرب اور علماء یہود اور منافقین وغیرہ ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت براء (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی لیکن خود آپ کی چاہت یہ تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ شریف ہو۔ چناچہ اب حکم آگیا اور آپ نے عصر کی نماز اس کی طرف ادا کی۔ آپ کے ساتھ کے نمازیوں میں سے ایک شخص کسی اور مسجد میں پہنچا، وہاں جماعت رکوع میں تھی اس نے ان سے کہا اللہ کی قسم میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ کی طرف نماز پڑھ کر ابھی آ رہا ہوں۔ جب ان لوگوں نے سنا تو اسی حالت میں وہ کعبہ کی طرف گھوم گئے، اب بعض لوگوں نے یہ کہا کہ جو لوگ اگلے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے شہید ہوچکے ہیں ان کی نمازوں کا کیا حال ہے۔ تب یہ فرمان نازل ہوا کہ (وما کان اللہ) الخ یعنی اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ " جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو آپ اکثر آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ آیت (قدنری) الخ یعنی اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ " حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو آپ اکثر آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ آیت جس پر فرمان ( ماکان اللہ) الخ نازل ہوا اور ان کی نمازوں کی طرف سے اطمینان ہوا۔ اب بعض بیوقوف اہل کتاب نے قبلہ کے بدلے جانے پر اعتراض کیا، جس پر یہ آیتیں (سَیَقُوْلُ السُّفَہَآءُ ) الخ نازل ہوئیں " شروع ہجرت کے وقت مدینہ شریف میں آپ کو بیت المقدس کی طرف نمازیں ادا کرنے کا حکم ہوا تھا۔ یہود اس سے خوش تھے لیکن آپ کی چاہت اور دعا قبلہ ابراہیمی کی تھی۔ آخر جب یہ حکم نازل ہوا تو یہودیوں نے جھٹ سے اعتراض جڑ دیا۔ جس کا جواب ملا کہ مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں خلاصہ یہ ہے کہ مکہ شریف میں آپ دونوں رکن کے درمیان نماز پڑھتے تھے تو آپ کے سامنے کعبہ ہوتا تھا اور بیت المقدس کے صخرہ کی طرف آپ کا منہ ہوتا تھا، لیکن مدینہ جا کر یہ معاملہ مشکل ہوگیا۔ دونوں جمع نہیں ہوسکتے تھے تو وہاں آپ کو بیت المقدس کی طرف نماز ادا کرنے کا حکم قرآن میں نازل ہوا تھا یا دوسری وحی کے ذریعہ یہ حکم ملا تھا۔ بعض بزرگ تو کہتے ہیں یہ صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اجتہادی امر تھا اور مدینہ آنے کے بعد کئی ماہ تک اسی طرف آپ نمازیں پڑھتے رہے گو چاہت اور تھی۔ یہاں تک کہ پروردگار نے بیت العتیق کی طرف منہ پھیرنے کو فرمایا اور آپ نے اس طرف منہ کر کے پہلے نماز عصر پڑھی اور پھر لوگوں کو اپنے خطبہ میں اس امر سے آگاہ کیا۔ بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ ظہر کی نماز تھی۔ حضرت ابو سعید بن معلی فرماتے ہیں " میں نے اور میرے ساتھی نے اول اول کعبہ کی طرف نماز پڑھی ہے اور ظہر کی نماز تھی " بعض مفسرین وغیرہ کا بیان ہے کہ " نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب قبلہ بدلنے کی آیت نازل ہوئی۔ اس وقت آپ مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے، دو رکعت ادا کرچکے تھے پھر باقی کی دو رکعتیں آپ نے بیت اللہ شریف کی طرف پڑھیں، اسی وجہ سے اس مسجد کا نام ہی مسجد ذو قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد ہے۔ حضرت نویلہ بنت مسلم فرماتی ہیں کہ ہم ظہر کی نماز میں تھے جب ہمیں یہ خبر ملی اور ہم نماز میں ہی گھوم گئے۔ مرد عورتوں کی جگہ آگئے اور عورتیں مردوں کی جگہ جا پہنچیں۔ ہاں اہل قبا کو دوسرے دن صبح کی نماز کے وقت یہ خبر پہنچی بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ لوگ مسجد قبا میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے۔ اچانک کسی آنے والے نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رات کو حکم قرآنی نازل ہوا اور کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم ہوگیا۔ چناچہ ہم لوگ بھی شام کی طرف سے منہ ہٹا کر کعبہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ناسخ کے حکم کا لزوم اسی وقت ہوتا ہے۔ جب اس کا علم ہوجائے گو وہ پہلے ہی پہنچ چکا ہو۔ اس لئے کہ ان حضرات کو عصر مغرب اور عشا کو لوٹانے کا حکم نہیں ہوا۔ واللہ اعلم۔ اب باطل پرست کمزور عقیدے والے باتیں بنانے لگے کہ اس کی کیا وجہ ہے کبھی اسے قبلہ کہتا ہے کبھی اسے قبلہ قرار دیتا ہے۔ انہیں جواب ملا کہ حکم اور تصرف اور امر اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جدھر منہ کرو۔ اسی طرف اس کا منہ ہے بھلائی اسی میں نہیں آگئی بلکہ اصلیت تو ایمان کی مضبوطی ہے جو ہر حکم کے ماننے پر مجبور کردیتی ہے اور اس میں گویا مومنوں کو ادب سکھایا گیا ہے کہ ان کا کام صرف حکم کی بجا آوری ہے جدھر انہیں متوجہ ہونے کا حکم دیا جائے یہ متوجہ ہوجاتے ہیں اطاعت کے معنی اس کے حکم کی تعمیل کے ہیں اگر وہ ایک دن میں سو مرتبہ ہر طرف گھمائے تو ہم بخوشی گھوم جائیں گے ہم اس کے غلام ہیں ہم اس کے ماتحت ہیں اس کے فرمانبردار ہیں اور اس کے خادم ہیں جدھر وہ حکم دے گا پھیر لیں گے۔ امت محمدیہ پر یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے کہ انہیں خلیل الرحمن (علیہ السلام) کے قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا جو اسی اللہ لا شریک کے نام پر بنایا گیا ہے اور تمام تر فضیلتیں جسے حاصل ہیں۔ مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث ہے کہ یہودیوں کو ہم سے اس بات پر بہت حسد ہے کہ اللہ نے ہمیں جمعہ کے دن کی توفیق دی اور یہ اس سے بھٹک گئے اور اس پر کہ ہمارا قبلہ یہ ہے اور وہ اس سے گمراہ ہوگئے اور بڑا حسد ان کو ہماری آمین کہنے پر بھی ہے جو ہم امام کے پیچھے کہتے ہیں