البقرہ آية ۱۵۸
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَاۤٮِٕرِ اللّٰهِۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا ۗ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِيْمٌ
طاہر القادری:
بیشک صفا اور مروہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں، چنانچہ جو شخص بیت اﷲ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے (درمیان) چکر لگائے، اور جو شخص اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو یقیناً اﷲ (بڑا) قدر شناس (بڑا) خبردار ہے،
English Sahih:
Indeed, as-Safa and al-Marwah are among the symbols of Allah. So whoever makes Hajj [pilgrimage] to the House or performs Umrah – there is no blame upon him for walking between them. And whoever volunteers good – then indeed, Allah is Appreciative and Knowing.
1 Abul A'ala Maududi
یقیناً صفا اور مَروہ، اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے، اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ اِن دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کر لے اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے او ر وہ اس کی قدر کرنے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں سے ہیں تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے پھیرے کرے اور جو کوئی بھلی بات اپنی طرف سے کرے تو اللہ نیکی کا صلہ دینے خبردار ہے-
3 Ahmed Ali
بے شک صفا اور مروہ الله کی نشانیوں میں سے ہیں پس جو کعبہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان کے درمیان طواف کرے اورجو کوئی اپنی خوشی سے نیکی کرے تو بے شک الله قدردان جاننے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں (١) اس لئے بیت اللہ کا حج و عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں (٢) اپنی خوشی سے کرنے والوں کا اللہ قدردان ہے اور انہیں خوب جاننے والا ہے۔
١٥٨۔١ شَعْآئِرُ جس کے معنیٰ علامتیں ہیں یہاں حج کے وہ مناسک (مثلا سعی اور قربانی کو اشعار کرنا وغیرہ) مراد ہیں جو اللہ تعالٰی نے مقرر فرمائے ہیں۔
١٥٨۔٢ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا حج کا ایک رکن ہے۔ لیکن قرآن کے الفاظ (فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ) سے بعض صحابہ کو یہ شبہ ہوا کہ شاید ضروری نہیں ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے علم میں جب یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا ( فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا) 2۔ البقرۃ;158)۔ جب لوگ مسلمان ہوئے تو ان کے ذہین میں آیا کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی تو شاید گناہ ہو، کیونکہ اسلام سے قبل دو بتوں کی وجہ سے سعی کرتے رہے تھے۔ اللہ تعالٰی نے اس آیت میں ان کے اس وہم کو اور خلش کو دور فرما دیا۔ اب یہ سعی ضروری ہے جس کا آغاز صفا سے اور خاتمہ مروہ پر ہوتا ہے۔ (ایسرالتفاسیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بےشک (کوہ) صفا اور مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں۔ تو جو شخص خانہٴ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے۔ (بلکہ طواف ایک قسم کا نیک کام ہے) اور جو کوئی نیک کام کرے تو خدا قدر شناس اور دانا ہے
6 Muhammad Junagarhi
صفااور مروه اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں، اس لئے بیت اللہ کا حج وعمره کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں بھی کوئی گناه نہیں اپنی خوشی سے بھلائی کرنے والوں کا اللہ قدردان ہے اور انہیں خوب جاننے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
بیشک صفا و مروہ نامی دو پہاڑیاں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ لہٰذا جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ بجا لائے، اس پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ ان دونوں کے درمیان چکر لگائے اور جو شخص برضا و رغبت کچھ (مزید) نیکی کرے تو اللہ تعالیٰ (نیکی کا) قدر دان ہے اور خوب جاننے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بے شک صفا اور مروہ دونوںپہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں ہیںلہٰذاجو شخص بھی حج یا عمرہ کرے اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ان دونوں پہاڑیوںکا چکر لگائے اور جو مزید خیر کرے گا تو خدا اس کے عمل کا قدر دان اوراس سے خوب واقف ہے
9 Tafsir Jalalayn
بیشک (کوہ) صفا اور مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے (بلکہ طواف ایک قسم کا نیک کام ہے) اور جو کوئی نیک کام کرے تو خدا قدر شناس اور دانا ہے
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللہِ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، حض کا ایک رکن ہے لیکن قرآن کے الفاظ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا سے بعض صحابہ (رض) کو یہ شبہ ہوا کہ شاید یہ ضروری نہیں ہے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے علم میں جب یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا : اگر اس کا یہ مطلب ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ یوں فرماتا : فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ ان لایطَّوَّف بھمَا اگر ان کا طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں، پھر حضرت عائشہ (رض) نے اس آیت کا شان نزول بیان فرمایا کہ انصار قبول اسلام سے پہلے مناۃ طاغیہ (بت) کے نام کا تلبیہ پکارتے تھے جس کی وہ مشلل پہاڑی کے اوپر عبادت کرتے تھے، اور پھر مکہ پہنچ کر ایسے لوگ صفا ومروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے تھے، مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلوم کیا تو یہ آیت نازل ہوئی، جس میں کہا گیا ہے کہ صفا ومروہ کے درمیان سعی گناہ نہیں۔ (صحیح بخاری، کتاب الحج) ۔ بعض حضرات نے اس کا پس منظر اس طرح بیان کیا ہے کہ جاہلیت میں مشرکوں نے صفا پہاڑی پر ایک بت جس کا نام اساف اور مروہ پر ایک دوسرا بت جس کا نام نائلہ تھا، رکھ لئے تھے، جنہیں وہ سعی کے دوران چھوتے اور بوسہ دیتے تھے جب یہ لوگ مسلمان ہوئے تو ان کے ذہن میں آیا کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی تو شاید گناہ ہو کیونکہ اسلام سے قبل دو بتوں کی وجہ سے سعی کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے اس وہم اور خلش کو دور فرما دیا، اب یہ سعی ضروری ہے جس کا آغاز صفا سے اور خاتمہ مروہ پر ہوتا ہے۔ (ایسر التفاسیر)
ایک فقہی مسئلہ : سعی بین الصفا والمروہ امام احمد بن حنبل (رح) تعالیٰ کے نزدیک سنت، مستحب ہے اور امام مالک اور شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ کے نزدیک فرض ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک واجب اس کی ترک سے ایک بکری ذبح کرنا لازم ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے ﴿ اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ﴾” بے شک صفا اور مروہ‘‘ یعنی صفا اور مروہ وہ معروف پہاڑیاں ﴿ مِنْ شَعَائِرِاللّٰہِ ۚ ﴾” اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔“ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے دین کی ظاہری علامتیں ہیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی عبدیت کو جانچتا ہے اور جب صفا اور مروہ دونوں اللہ تعالیٰ کے شعائر میں شمار ہوتی ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے شعائر کی تعظیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴾(لحج : 22؍ 32) ” اور جو کوئی اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو یہ فعل دلوں کا تقویٰ ہے۔ “
دونوں نصوص مجموعی طور پر اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کے شعائر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم کرنا دلوں کا تقویٰ ہے اور تقویٰ ہر مکلف پر فرض ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صفا و مروہ کی سعی (دونوں پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا) فرض اور حج وعمرہ کا لازمی رکن ہے۔ جیسا کہ جمہور فقہاء کا مسلک ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔ آپ نے خود بھی یہ کام کیا اور فرمایا :"خُذُوْا عَنِّی مَنَاسِکَکُم"’’اپنے مناسک حج مجھ سے اخذ کرو۔“
[صحيح مسلم، الحج، باب استحباب رمي جمرة العقبة.... الخ، حديث: 1297، سنن البيهقي الكبري: 5؍ 125]
﴿ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ۭ﴾” پس جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان کا طواف کرے“ چونکہ جاہلیت کے زمانے میں صفا اور مروہ پر بت نصب تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی اس لیے وہم دور کرنے اور مسلمانوں کے رفع حرج کے لیے فرمایا کہ ان کے طواف میں کوئی گناہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو رفع کرنے کے لیے گناہ کی نفی کی ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان کے مابین سعی لازم نہیں۔ نیز حج اور عمرہ میں ان کی سعی میں بطور خاص گناہ کی نفی، اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ حج یا عمرہ کے بغیر صرف ان کی سعی کرنا جائز نہیں۔ بخلاف طواف بیت اللہ کے، کیونکہ وہ حج اور عمرہ کے ساتھ بھی مشروع ہے اور طواف ایک مستقل عبادت بھی ہے (یعنی حج اور عمرے کے بغیر بھی طواف جائز ہے) لیکن صفا اور مروہ کے مابین سعی، عرفہ اور مزدلفہ میں وقوف اور رمی جماریہ تمام افعال دیگر مناسب حج کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ افعال دیگر مناسک حج کے ساتھ نہ کیے جائیں بلکہ اکیلے کیے جائیں، تو یہ بدعت ہوں گے۔ اس لیے کہ بدعت کی دو اقسام ہیں۔
(1) اللہ تعالیٰ کی کسی ایسے طریقے سے عبادت کرنا جو اصل میں اس نے مشروع نہیں کی۔
(2) بدعت کی دوسری قسم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عبادت ایک خاص طریقے پر مشروع کی ہے اور اس کو کسی مختلف طریقے سے کیا جائے۔ مذکورہ بدعات اسی دوسری قسم سے ہوں گی۔
﴿ وَمَنْ تَـطَوَّعَ خَیْرًا﴾ ” اور جو کوئی نیک کام کرے۔“ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کے لیے خلوص کے ساتھ نیکی کا کام کرتا ہے جیسے حج، عمرہ، طواف، نماز اور روزہ وغیرہ نیکی کے کام تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ اس میں اس امر کی بھلائیوں اور اس کے درجات میں، اس کے ایمان میں اضافے کی وجہ سے اضافہ ہوتا ہے اور نیکیوں میں بھلائی کی قید اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی نیکی کے طور پر بدعات پر عمل کرتا ہے جن کو اللہ اور اس کے رسول نے مشروع نہیں کیا، اسے محض مشقت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ اس کے لیے خیر نہیں، بلکہ اگر بدعات کا مرتکب ان کی عدم مشروعیت کا علم رکھتے ہوئے جان بوجھ کر اس پر عمل کرتا ہے، تو بسا اوقات یہ اس کے لیے شربن جاتی ہیں۔ ﴿ۙفَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِـرٌ عَلِــیْمٌ﴾۔ (لَشَّاکِرُ) اور (لَشکُوْرُ) اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ الَشَّاکِرُ اور الَشکُوْر اس ہستی کو کہتے ہیں جو بندوں کے تھوڑے عمل کو بھی قبول کرلیتی ہے اور اس پر بہت بڑا اجر عطا کرتی ہے۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لاتا ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے تو وہ اپنے بندے کی مدد کرتا ہے اس کی مدح و ثنا کرتا ہے اور اسے یہ بدلہ دیتا ہے کہ وہ اس کے قلب کو نور اور ایمان سے لبریز کردیتا ہے اور اس کے بدن میں قوت و نشاط، اس کے احوال میں برکت اور نشو و نما اور اس کے اعمال میں مزید توفیق عطا کرتا ہے۔ پھر یہ بندہ مومن آخرت میں جب رب کے پاس حاضر ہوگا تو وہاں اسے وافر اور کامل ثواب ملے گا، مذکورہ دنیاوی جزائیں اس کے اخروی ثواب میں کمی نہیں کریں گی۔
اور اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے کے لیے قدر دانی یہ ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض اسے اس سے بہتر چیز عطا کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ایک بالشت قریب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہے، جو ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر اس کے قریب ہوتا ہے، جو چل کر اللہ تعالیٰ کی طرف آتا ہے اللہ تعالیٰ بھاگ کر اس کی طرف بڑھتا ہے، جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کئی گنا منافع سے اسے نوازتا ہے۔
اور باوجود اس بات کے کہ وہ بندوں کے اعمال کا قدر دان ہے، وہ یہ بات بھی خوب جانتا ہے کہ کون اپنی نیت، ایمان اور تقویٰ کے مطابق کامل ثواب کا مستحق ہے اور کون اس ثواب کا حق دار نہیں۔ وہ بندوں کے اعمال کا علم رکھتا ہے، پس وہ ان کے اعمال ضائع نہیں کرے گا، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنی نیتوں کے مطابق، جن کو اللہ علیم و حکیم جانتا ہے، ان عملوں کا ثواب پائیں گے۔
11 Mufti Taqi Usmani
beyshak safa aur marwa Allah ki nishaniyon mein say hain . lehaza jo shaks bhi baitullah ka hajj keray ya umrah keray to uss kay liye iss baat mein koi gunah nahi hai kay woh unn kay darmiyan chakkar lagaye . aur jo shaks khushi say koi bhalai ka kaam keray to Allah yaqeenan qadar daan ( aur ) janney wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
صفا اور مروہ کا طواف
حضرت عائشہ (رض) سے حضرت عروہ دریافت کرتے ہیں کہ اس آیت سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طواف نہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں آپ نے فرمایا بھتیجے تم صحیح نہیں سمجھے اگر یہ بیان مد نظر ہوتا تو ان لا یطوف بھما ہوتا۔ سنو آیت شریف کا شان نزول یہ ہے کہ مثلل ( ایک جگہ کا نام ہے) کے پاس مناۃ بت تھا اسلام سے پہلے انصار اسے پوجتے تھے اور جو اس کے نام لبیک پکار لیتا وہ صفا مروہ کے طواف کرنے میں حرج سمجھتا تھا، اب بعد از اسلام ان لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صفا مروہ کے طواف کے حرج کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت اتری کہ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اسی کے بعدحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا مروہ کا طواف کیا اس لئے مسنون ہوگیا اور کسی کو اس کے ترک کرنے کا جواز نہ رہا (بخاری مسلم) ابوبکر بن عبدالرحمن نے جب یہ روایت سنی تو وہ کہنے لگے کہ بیشک یہ علمی بات ہے میں نے تو اس سے پہلے سنی ہی نہ تھی بعض اہل علم فرمایا کرتے تھے کہ انصار نے کہا تھا کہ ہمیں بیت اللہ کے طواف کا حکم ہے صفا مروہ کے طواف کو جاہلیت کا کام جانتے تھے اور اسلام کی حالت میں اس سے بچتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی، ابن عباس سے مروی ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان بہت سے بت تھے اور شیاطین رات بھر اس کے درمیان گھومتے رہتے تھے اسلام کے بعد لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہاں کے طواف کی بابت تھے اور شیاطین رات بھر اس کے درمیان گھومتے رہتے تھے اسلام کے بعد لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہاں کے طواف کی بابت مسئلہ دریافت کیا جس پر یہ آیت اتری " اساف " بت صفا پر تھا اور " نائلہ " مروہ پر، مشرک لوگ انہیں چھوتے اور چومتے تھے اسلام کے بعد لوگ اس سے الگ ہوگئے لیکن یہ آیت اتری جس سے یہاں کا طواف ثابت ہوا، سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ " اساف " اور " نائلہ " دو مردو عورت تھے ان بدکاروں نے کعبہ میں زنا کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں پتھر بنادیا، قریش نے انہیں کعبہ کے باہر رکھ دیا تاکہ لوگوں کو عبرت ہو لیکن کچھ زمانہ کے بعد ان کی عبادت شروع ہوگئی اور صفا مروہ پر لا کر نصب کر دئے گئے اور ان کا طواف شروع ہوگیا، صحیح مسلم کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیت اللہ شریف کا طواف کرچکے تو رکن کو چھو کر باب الصفا سے نکلے اور آیت تلاوت فرما رہے تھے پھر فرمایا میں بھی شروع کروں گا اس سے جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا، ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم شروع کرو اس سے جس سے اللہ نے شروع کیا یعنی صفا سے چل کر مروہ جاؤ۔ حضرت حبیبہ بنت تجزاۃ فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ صفا مروہ کا طواف کرتے تھے لوگ آپ کے آگے آگے تھے اور آپ ان کے پیچھے تھے آپ قدرے دوڑ لگا رہے تھے اور اس کی وجہ سے آپ کا تہمبند آپ کے ٹخنوں کے درمیان ادھر اھر ہو رہا تھا اور زبان سے فرماتے جاتے تھے لوگوں دوڑ کر چلو اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی لکھ دی ہے (مسند احمد) اسی کی ہم معنی ایک روایت اور بھی ہے۔ یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو صفا مروہ کی سعی کو حج کا رکن جانتے ہیں جیسے حضرت امام شافعی اور ان کے موافقین کا مذہب ہے، امام احمد سے بھی ایک روایت اسی طرح کی ہے امام مالک کا مشہور مذہب بھی یہی ہے، بعض اسے واجب تو کہتے ہیں لیکن حج کا رکن نہیں کہتے اگر عمداً یا سہواً یا کوئی شخص اسے چھوڑ دے تو ایک جانور ذبح کرنا پڑے گا۔ امام احمد سے ایک روایت اسی طرح مروی ہے اور ایک اور جماعت بھی یہی کہتی ہے اور ایک قول میں یہ مستحب ہے۔ امام ابو حنیفہ، ثوری، شعبی، ابن سیرین یہی کہتے ہیں۔ حضرت انس ابن عمر اور ابن عباس سے یہی مروی ہے امام مالک سے عتیبہ کی بھی روایت ہے، ان کی دلیل آیت (فمن تطوع خیرا) ہے، لیکن پہلا قول ہی زیادہ راجح ہے اس لئے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوہ صفا مروہ کا طواف کیا اور فرمایا احکام حج مجھ سے لو، پس آپ نے اپنے اس حج میں جو کچھ کیا وہ واجب ہوگیا اس کا کرنا ضروری ہے، اگر کوئی کام کسی خاص دلیل سے وجوب سے ہٹ جائے تو اور بات ہے واللہ اعلم۔ علاوہ ازیں حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پرسعی لکھ دی یعنی فرض کردی۔ غرض یہاں بیان ہو رہا ہے کہ صفا مروہ کا طواف بھی اللہ تعالیٰ کے ان شرعی احکام میں سے ہے جنہیں حضرت ابراہیم کو بجا آوری حج کے لیے سکھائے تھے یہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس کی اصل حضرت ہاجرہ کا یہاں سات پھیرے کرنا ہے جبکہ حضرت ابراہیم نے انہیں ان کے چھوٹے بچے سمیت یہاں چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ان کے پاس کھانا پینا ختم ہوچکا تھا اور بچے کی جان پر آ بنی تھی تب ام اسماعیل (علیہ السلام) نہایت بےقراری، بےبسی، ڈر، خوف اور اضطراب کے ساتھ ان پہاڑوں کے درمیان اپنا دامن پھیلائے اللہ سے بھیک مانگتی پھر رہی تھیں۔ یہاں تک کہ آپ کا غم و ہم، رنج و کرب، تکلیف اور دکھ دور ہوا۔ یہاں سے پھیرے کرنے والے حاجی کو بھی چاہئے کہ نہایت ذلت و مسکنت خضوع و خشوع سے یہاں پھیرے کرے اور اپنی فقیری حاجت اور ذلت اللہ کے سامنے پیش کرے اور اپنی فقیری حاجت اور ذلت اللہ کے سامنے پیش کرے اور اپنے دل کی صلاحیت اور اپنے مال کی ہدایت اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے اور نقائص اور عیبوں سے پاکیزگی اور نافرمانیوں سے نفرت چاہے اور ثابت قدمی نیکی فلاح اور بہبودی کی دعا مانگے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کرے کہ گناہوں اور برائیوں کی تنگی کی راہ سے ہٹا کر کمال و غفران اور نیکی کی توفیق بخشے جیسے کہ حضرت ہاجرہ کے حال کو اس مالک نے ادھر سے ادھر کردیا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص اپنی خوشی نیکی میں زیادتی کرے یعنی بجائے سات پھیروں کے آٹھ نو کرے نفلی حج و عمرے میں بھی صفا ومروہ کا طواف کرے اور بعض نے اسے عام رکھا ہے یعنی ہر نیکی میں زیادتی کرے واللہ اعلم پھر فرمایا اللہ تعالیٰ قدر دان اور علم والا ہے، یعنی تھوڑے سے کام پر بڑا ثواب دیتا ہے اور جزا کی صحیح مقدار کو جانتا ہے نہ تو وہ کسی کے ثواب کو کم کرے نہ کسی پر ذرہ برابر ظلم کرے، ہاں نیکیوں کا ثواب بڑھا کر عطا فرماتا ہے اور اپنے پاس عظیم عنایت فرماتا ہے فالحمد والشکر للہ