اور جب ان (کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ جو اﷲ نے نازل فرمایا ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں: (نہیں) بلکہ ہم تو اسی (روش) پر چلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ عقل رکھتے ہوں اور نہ ہی ہدایت پر ہوں،
English Sahih:
And when it is said to them, "Follow what Allah has revealed," they say, "Rather, we will follow that which we found our fathers doing." Even though their fathers understood nothing, nor were they guided?
1 Abul A'ala Maududi
ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انہیں کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟
2 Ahmed Raza Khan
اور جب ان سے کہا جائے اللہ کے اتارے پر چلو تو کہیں بلکہ ہم تو اس پر چلیں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ عقل رکھتے ہوں نہ ہدایت
3 Ahmed Ali
اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کرو جو الله نے نازل کیا ہے تو کہتے ہیں بلکہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا کیا اگرچہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ سمجھتے ہوں اور نہ سیدھی راہ پائی ہو
4 Ahsanul Bayan
اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں ہم اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کردہ راہ ہوں (١)۔
١٧٠۔١آج بھی اہل بدعت کو سمجھایا جائے کہ ان بدعات کی دین میں کوئی اصل نہیں تو وہ بھی جواب دیتے ہیں کہ یہ رسمیں تو ہمارے آباؤ اجداد سے چلی آرہی ہیں۔ حالانکہ آباؤ جداد بھی دینی بصیرت سے بےبہرہ اور ہدایت سے محروم رہ سکتے ہیں اس لئے دلائل شریعت کے مقابلے میں آباء پرستی کی پیروی غلط ہے۔ اللہ تعالٰی مسلمانوں کو اس دلدل سے نکالے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے نازل فرمائی ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں (نہیں) بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ بھلا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اورنہ سیدھے رستے پر ہوں (تب بھی وہ انہیں کی تقلید کئے جائیں گے)
6 Muhammad Junagarhi
اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کرده راه ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب ان (کفار و مشرکین) سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے اتارا ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ، دادا کو پایا ہے اگرچہ ان کے باپ، دادا بے عقل ہوں اور راہ راست پر بھی نہ ہوں (تو پھر بھی انہی کی پیروی کریں گے)۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جب ان سے کہاجاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم اس کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کوپایا ہے. کیا یہ ایسا ہی کریں گے چاہے ان کے باپ دادا بے عقل ہی رہے ہوں اورہدایت یافتہ نہ رہے ہوں
9 Tafsir Jalalayn
اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے نازل فرمائی ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں (نہیں) بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، بھلا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ سیدھے راستے پر ہوں (تب بھی وہ انہیں کی تقلید کئے جائیں گے ؟ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا (الآیۃ) اس آیت سے جس طرح باپ دادوں کی اندھی تقلید و اتباع کی مذمت ثابت ہوتی ہے اسی طرح جائز تقلید و اتباع کے شرائط اور ایک ضابطہ بھی معلوم ہوگیا جس کی طرف دو لفظوں سے اشارہ فرمایا : لَایَعْقِلُوْنَ اور لَایَھْتَدُوْنَ کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ ان آباء و اجداد کی تقلید و اتباع کو اس لئے منع کیا گیا ہے کہ انہیں نہ عقل تھی نہ ہدایت، ہدایت سے مراد احکام ہیں جو اللہ کی طرف سے صریح طور پر نازل کئے گئے ہیں، اور عقل سے مراد وہ احکام ہیں جو بذریععہ اجتہاد نصوص شرعیہ سے استنباط کئے گئے ہوں۔ آباء و اجداد کے اتباع و تقلید کے عدم جواز کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ احکام ہیں اور نہ اس کی صلاحیت کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان یعنی نصوص قطعیہ سے احکام کا استنباط کرسکیں، اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہوگیا کہ جس عالم کے متعلق یہ اطمینان ہوجائے کہ اس کے پاس قرآن و سنت کا علم ہے اور اس کو درجہ اجتہاد بھی حاصل ہے کہ جو احکام صراحۃ قرآن و سنت میں نہ ہوں ان کو نصوص قرآن و سنت سے بذریعہ قیاس نکال سکتا ہے تو ایسے عالم کی تقلید واتباع جائز ہے، اس لئے نہیں کہ یہ اس کا حکم ماننا اور اس کی اتباع کرنی ہے بلکہ اس لئے کہ حکم اللہ کا ماننا اور اسی کا اتباع کرنا ہے مگر چونکہ ہم براہ راست اللہ کے حکم سے واقف نہیں ہوسکتے اس لئے کسی عالم مجتہد کا اتباع کرتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل ہوسکے۔ جاہلانہ تقلید اور ائمہ مجتہدین کی تقلید میں فرق : اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ مطلق تقلید ائمہ مجتہدین کے خلاف اس طرح کی آیت پڑھ دیتے ہیں وہ خود ان آیات کے صحیح مدلول سے واقف نہیں۔ امام قرطبی نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اس آیت میں تقلید آبائی کے ممنوع ہونے کا جو ذکر ہے اس سے مراد باطل عقائد و اعمال میں آباء و اجداد کی تقلید کرنا ہے، عقائد صحیحہ و اعمال صالحہ میں تقلید اس میں داخل نہیں ہے جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کلام میں ان دونوں چیزوں کی وضاحت سورة یوسف میں اس طرح آئی ہے : اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَۃَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَھُمْ بِالْآخرَۃِ ھُمْ کَافِرُوْنَ ، وَاتَّبَعْتُ مِلّۃَ آبَائیِ اِبْرَاھِیْمَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ ۔ ” میں نے ان لوگوں کی ملت اور مذہب کو چھوڑ دیا جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور جو آخرت کے منکر ہیں اور میں نے اتباع کیا اپنے آباء ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کا “۔ اس میں پوری وضاحت سے ثابت ہوگیا کہ آباء کی تقلید باطل میں حرام ہے حق میں جائز بلکہ مستحسن ہے۔ امام قرطبی نے اسی آیت کے ذیل میں ائمہ مجتہدین کی تقلید سے متعلق بھی مسائل و احکام بیان کئے ہیں، فرمایا : تعلق قوم بھذہ الآیۃ فی ذم التقلید (الیٰ ) وھذا فی الباطل صحیح اَمّا التقلید فی الحق فاصل من اصول الدین وعصمۃ من عصم المسلمین یلجاءُ الَیْھَا الجاھِل المقصر عن درک النظر۔ (قرطبی : ص ٤٩١، ج ٢، معارف) ” کچھ لوگوں نے اس آیت کو تقلید کی مذمت میں پیش کیا ہے، اور یہ باطل کے معاملہ میں تو صحیح ہے لیکن حق کے معاملہ میں تقلید سے اس کا کوئی تعلق نہیں، حق میں تقلید کرنا تو دین کے اصول میں سے ایک مستقل بنیاد ہے، اور مسلمانوں کے دین کی حفاظت کا بہت بڑا ذریعہ ہے کہ جو شخص اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ دین کے معاملہ میں تقلید ہی پر اعتماد کرتا ہے “۔ یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ (الآیۃ) اوپر اکل طیبات کے معاملہ میں مشرکین کو غلطی پر تنبہ اور اصلاح مقصود تھی، اس آیت میں اہل ایمان کو اس بات پر متنبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس غلطی میں مشرکین کی موافقت نہ کریں، اس کے ضمن میں اہل ایمان پر اپنے انعامات کا بھی ذکر ہے، اور اس پر ادائے شکر کی تعلیم بھی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تعالیٰ مشرکین کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب ان کو اس کتاب کی اتباع کرنے کا حکم دیا جاتا ہے جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی ہے جس کی صفت گزشتہ اوراق میں گزر چکی ہے تو وہ اس سے روگردانی کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَاۗءَنَا ۭ﴾” بلکہ ہم تو اسی کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے۔“ پس انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کی تقلید پر اکتفا کیا اور انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے سے بے رغبتی اختیار کی۔ باوجود اس بات کے کہ ان کے آباؤ و اجداد لوگوں میں سب سے زیاد جاہل اور سب سے زیادہ گمراہ تھے۔ حق کو رد کرنے کا یہ ایک نہایت ہی کمزور شبہ ہے، یہ ان کی حق سے روگردانی اور اس سے اعراض اور ان کے عدم انصاف کی دلیل ہے، اگر رشد و ہدایت اور اچھے مقصد کی طرف ان کی راہنمائی کی گئی ہوتی، تو حق ان کا مقصد ہوتا اور جو کوئی حق کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے اور وہ حق اور غیر حق کے درمیان موازنہ کرتا ہے تو قطعی طور پر حق اس کے سامنے واضح ہوجاتا ہے اور اگر وہ انصاف پسند ہے تو وہ حق کی اتباع کرتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab inn ( kafiron ) say kaha jata hai kay uss kalam ki perwi kero jo Allah ney utaara hai , to woh kehtay hain kay nahi ! hum to unn baaton ki perwi keren gay jinn per hum ney apney baap dadon ko paya hai . bhala kiya uss soorat mein bhi ( inn ko yehi chahiye ) jab unn kay baap daday ( deen ki ) zara bhi samajh naa rakhtay hon , aur unhon ney koi ( aasmani ) hidayat bhi hasil naa ki ho-?
12 Tafsir Ibn Kathir
گمراہی اور جہالت کیا ہے ؟ یعنی ان کافروں اور مشرکوں سے جب کہا جاتا ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کرو اور اپنی ضلالت و جہالت کو چھوڑ دو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے بڑوں کی راہ لگے ہوئے ہیں جن چیزوں کی وہ پوجا پاٹ کرتے تھے ہم بھی کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے جس کے جواب میں قرآن کہتا ہے کہ وہ تو فہم و ہدایت سے غافل تھے۔ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں اتری ہے۔ پھر ان کی مثال دی کہ جس طرح چرنے چگنے والے جانور اپنے چرواہے کی کوئی بات صحیح طور سے سمجھ نہیں سکتے صرف آواز کانوں میں پڑتی ہے اور کلام کی بھلائی برائی سے بیخبر رہتے ہیں اسی طرح یہ لوگ بھی ہیں۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جن جن کو یہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں اور ان سے پانی حاجتیں اور مرادیں مانگتے ہیں وہ نہ سنتے ہیں نہ جانتے ہیں نہ ان میں زندگی ہے نہ انہیں کچھ احساس ہے۔ کافروں کی یہ جماعت حق کی باتوں کے سننے سے بہری ہے حق کہنے سے بےزبان ہے حق کے راہ چلنے سے اندھی ہے عقل وفہم سے دور ہے، جیسے اور جگہ ہے آیت (صُمٌّ وَّبُكْمٌ فِي الظُّلُمٰتِ ) 6 ۔ الانعام :39) یعنی ہماری باتوں کو جھٹلانے والے بہرے، گونگے اور اندھیرے میں ہیں جسے اللہ چاہے گمراہ کرے اور جسے چاہے سیدھی راہ لگا دے۔