البقرہ آية ۱۸۹
يَسْـــَٔلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ۗ قُلْ هِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَأْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا وَلٰـكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰىۚ وَأْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَاۖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ
طاہر القادری:
(اے حبیب!) لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: یہ لوگوں کے لئے اور ماہِ حج (کے تعیّن) کے لئے وقت کی علامتیں ہیں، اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم (حالتِ احرام میں) گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی تو (ایسی الٹی رسموں کی بجائے) پرہیزگاری اختیار کرنا ہے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ،
English Sahih:
They ask you, [O Muhammad], about the crescent moons. Say, "They are measurements of time for the people and for Hajj [pilgrimage]." And it is not righteousness to enter houses from the back, but righteousness is [in] one who fears Allah. And enter houses from their doors. And fear Allah that you may succeed.
1 Abul A'ala Maududi
لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں کہو: یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کی تعین کی اور حج کی علامتیں ہیں نیز ان سے کہو: یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف داخل ہوتے ہو نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو البتہ اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے
2 Ahmed Raza Khan
تم سے نئے چاند کو پوچھتے ہیں تم فرمادو وہ وقت کی علامتیں ہیں لوگوں اور حج کے لئے اور یہ کچھ بھلائی نہیں کہ گھروں میں پچھیت (پچھلی دیوار) توڑ کر آ ؤ ہاں بھلائی تو پرہیزگاری ہے، اور گھروں میں دروازوں سے آ ؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ فلاح پاؤ
3 Ahmed Ali
آپ سے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دو یہ لوگوں کے لیے اور حج کے لیے وقت کے اندازے ہیں اور نیکی یہ نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ اور لیکن نیکی یہ ہے کہ جو کوئی الله سے ڈرے اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور الله سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ
4 Ahsanul Bayan
لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لئے ہے (احرام کی حالت میں ) اور گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں ، بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہو اور گھروں میں تو دروازوں میں سے آیا کرو ف۲ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ
١٨٩۔١ انصار جاہلیت میں جب حج یا عمرہ کا احرام باندھ لیتے اور پھر کسی خاص ضرورت کے لئے گھر آنے کی ضرورت پڑ جاتی تو دروازے سے آنے کے بجائے پیچھے سے دیوار پھلانگ کر اندر آتے، اس کو نیکی سمجھتے اللہ تعالٰی نے فرمایا یہ نیکی نہیں ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے محمدﷺ) لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے) کہہ دو کہ وہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں) اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے اور نیکی اس بات میں نہیں کہ (احرام کی حالت میں) گھروں میں ان کے پچھواڑے کی طرف سے آؤ۔ بلکہ نیکوکار وہ ہے جو پرہیز گار ہو اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ نجات پاؤ
6 Muhammad Junagarhi
لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجیئے کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لئے ہے (احرام کی حالت میں) اور گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں، بلکہ نیکی واﻻ وه ہے جو متقی ہو۔ اور گھروں میں تو دروازوں میں سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں پوچھتے ہیں (کہ وہ گھٹے بڑھتے کیوں ہیں؟) کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں کے (دنیوی معاملات) کی تاریخیں اور حج کے لئے اوقات مقرر کرنے کا ذریعہ ہیں اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ تم گھروں میں پچھواڑے کی طرف سے (پھاند کر) آؤ۔ بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ (آدمی غلط کاری سے) پرہیزگاری اختیار کرے۔ اور گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو۔ اور خدا سے ڈرو (اس کے قہر و غضب سے بچو) تاکہ تم فلاح پاؤ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے پیمبر ےہ لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو فرمادیجئے کہ ےہ لوگوں کے لئے اور حج کے لئے وقت معلوم کرنے کا ذریعہ ہے۔اور یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ مکانات میں پچھواڑے کی طرف سے آﺅ،بلکہ نیکی ان کے لئے ہے جو پرہیزگار ہوں اور مکانات میں دروازوں کی طرف سے آئیں اور اللہ سے ڈرو شاید تم کامیاب ہو جاﺅ
9 Tafsir Jalalayn
(اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے) کہہ دو کہ وہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں) اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے اور نیکی اس بات میں نہیں کہ (احرام کی حالت میں) گھروں میں ان کے پچھواڑے کی طرف سے آؤ بلکہ نیکو کار وہ ہے جو پرہیزگار ہو اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ نجات پاؤ
آیت نمبر ١٨٩ تا ١٩٤
ترجمہ : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سے چاند کی حالتوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ باریک کیوں نمودار ہوتا ہے ؟ (یعنی جب نمودار ہوتا ہے تو باریک ہوتا ہے) پھر بڑھتا ہے، یہاں تک کہ پرنور ہوجاتا ہے، پھر (اپنی سابقہ حالت کی طرف) عود کرتا ہے (یعنی گھٹنا شروع ہوجاتا ہے) اور ویسا ہی ہوجاتا ہے جیسا نمودار ہوا تھا، اور سورج کے مانند ایک حالت پر نہیں رہتا، آپ ان سے کہئے یہ لوگوں کے لئے اوقات معلوم کرنے کا ذریعہ ہے مواقیت میقات کی جمع ہے، یعنی لوگ ان کے ذریعہ اپنی کھیتی اور تجارت کے اوقات معلوم کرتے ہیں، اور اپنی عورتوں کی عدت اور اپنے روزوں (رمضان) اور افطار (شوال) کے اوقات معلوم کرتے ہیں اور حج کے لئے (شناخت وقت کا آلہ ہے) اس کا عطف اَلنَّاسْ پر ہے یعنی چاند کے ذریعہ حج کا وقت معلوم کرتے ہیں اگر (چاند) ایک ہی حالر پر رہتا تو یہ باتیں معلوم نہ ہوسکتیں، اور حالر احرام میں گھروں کے پیچھے سے آنا کوئی نیکی نہیں کہ تم گھروں (کی دیواروں) میں نقب لگاؤ، تاکہ تم اس نقب سے داخل ہو اور نکلو، اور دروازہ (سے نکلنا) چھوڑ دو (مشرکین عرب) ایسا کرتے تھے، اور اس کو نیکی سمجھتے تھے بلکہ نیکی یعنی نیک وہ ہے جو اللہ کی مخالفت کو ترک کرکے اللہ سے ڈرا، حالت احرام میں بھی بغیر احرام کے مانند گھروں سے آیا کرو، اور اللہ سے اس پر صلح کی کہ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئندہ سال آئیں گے، اور وہ (مشرکین) ان کے لئے تین دن کے لئے مکہ خالی کردیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرۃ القضاء کے لئے تیاری فرمائی، اور مسلمانوں کا اس بات کا اندیشہ تھا کہ (کہیں ایسا نہ ہو کہ قریش اپنے عہد) کی پابندی نہ کریں اور مسلمانوں سے جنگ کریں اور مسلمان ان سے حرم میں اور (حالت) احرام میں اور شہر حرام میں قتال کرنا ناپسند کریں، اور قتال کرو اللہ کی راہ میں ان کافروں سے جو تم سے قتال کریں، اس کے دین کے بلند کرنے کے لئے اور لڑائی کی ابتداء کرکے ان پر ظلم نہ کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ مقررہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور یہ حکم سورة براءت کی آیت یا اللہ کے قول ” واقتلوھم حَیثُ ثَقِفْتموھم “ سے منسوخ ہے یعنی جہاں تم ان کو پاؤ وہیں قتل کرو اور ان کو نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا یعنی مکہ سے، اور فتح مکہ کے سال ان کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا، اور فتنہ یعنی ان کا شرک قتل سے زیادہ شدید ہے ان کو حرم میں ھالت احرام میں قتل کرنے سے جس کو تم عظیم سمجھتے ہو، اور مسجد حرام کے پاس یعنی حرم میں ان سے قتال نہ کرو تاآنکہ وہ خود تم سے اس میں قتال نہ کریں پس اگر وہ حرم میں تم سے قتال کریں تو تم بھی حرم میں ان سے قتال کرو اور ایک قراءت میں تینوں افعال بغیر الف کے ہیں، یہی قتل اور جلاوطنی ایسے کافروں کی سزا ہے، پس اگر وہ کفر سے باز آجائیں اور اسلام قبول کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف کرنے والا ہے تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ شرک باقی نہ رہے اور عبادت اللہ وحدہ کی ہونے لگے اور اس کے سوا کسی کی بندگی نہ ہو، پس اگر وہ شرک سے باز آجائیں تو ان پر تم زیادتی نہ کرو، اس حذف جزاء پر فَلَا عَدْوَانَ ، دلالت کر رہا ہے تو قتل وغیرہ کے ذریعہ زیادتی ظالموں کے علاوہ پر جائز نہیں اور جو باز آگیا وہ ظالم نہیں، لہٰذا اس پر زیادتی بھی نہیں ہونی چاہیے، ماہ محترم عوض ہے ماہ محترم کا لہٰذا جس طرح انہوں نے اس میں تم سے قتال کیا تو تم بھی اس جیسے مہینہ میں قتال کرو اور یہ مسلمانوں کے اس مہینہ کو باعظمت سمجھنے کا رد ہے، اور احترام میں برابر ہے، حُرماتٌ حرمَۃ کی جمع ہے، جس کا احترام واجب ہو اور احترام کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا، یعنی اگر بےحرمتی کی جائے تو اس کے مثل بدلہ لیا جائے گا لہٰذا حرم میں یا احرام میں یا ماہ محرم میں قتال کے ذریعہ جو شخص تمہارے اوپر ظلم کرے تو تم بھی اس پر اتنا ہی ظلم کرسکتے ہو جتنا اس نے تم پر کیا ہے ظلم کی جزاء کو ظلم مقابلہ کے طور پر کہا گیا ہے، صورۃ اس زیادتی کے اپنے مقابل کے مشابہ ہونے کی وجہ سے اور اللہ سے ڈرتے رہو بدلہ لینے میں اور ترک زیادتی میں، اور خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ مدد اور نصرت کے ذریعہ متقیوں کے ساتھ ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : جَمْعُ ھِلَالٍ ، اَھَلَّۃ، ھِلَالٌ کی جمع ہے ھلال تیسری رات تک کے چاند کو کہتے ہیں، ھِلَال کو ھلال، اس لئے کہا جاتا ہے کہ ھِلَال کے معنی آواز بلند کرنے اور شور مچانے کے ہیں نئے چاند کو دیکھ کر لوگ شور مچاتے ہیں جیسا کہ ہمارے یہاں عید بقرا عید کا چاند کو بچے بڑے شور مچاتے ہیں، اسی لئے اس کو ھلال کہا جاتا ہے۔
سوال : ھِلال تو ایک ہی ہوتا ہے پھر اس کی جمع کیوں لائی گئی ہے ؟ جواب : یا تو اس لئے کہ روزانہ کا چاند اپنے ما قبل کے دن کے چاند سے مختلف ہوتا ہے تو گویا وہ سابق چاند کا غیر ہے اس لئے متعدد چاند ہوگئے جس پر جمع کا ا اطلاق کرنا درست ہے، یا ہر ماہ کا چاند الگ ہوتا ہے، اس اعتبار سے بھی متعدد چاند ہوگئے لہٰذا جمع کا اطلاق درست ہے۔
سوال : یسئلُونَک عَنِ الْاَھِلَّۃِ میں چاند کے گھٹنے بڑھنے کی علت کے بارے میں سوال کیا گیا ہے مگر جواب میں اس کی حکمت اور فائدہ بیان کیا گیا ہے۔ جواب : جواب میں چاند کے گھٹنے بڑھنے کی علت بیان کرکے اس بات کی جانب اشارہ کرنا مقصود ہے کہ سائل کو چاند کے گھٹنے بڑھنے کی حقیقت یا علت معلوم کرنے کے بجائے اس کی حکمتوں اور فائدوں کے بارے میں سوال کرنا چاہیے جو کہ ان کے کام کی اور فائدہ کی بات ہے۔ (کما فی المختصر المعانی)
قولہ : لِمَ تبدوا دقیقۃً یہ دوسرے جواب کی طرف اشارہ ہے اس جواب کا حاصل یہ ہے کہ سوال چاند کے گھٹنے بڑھنے کی حکمت کے بارے میں ہی تھا سوال میں مضاف محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے کہ یَسْلُونکَ عن حکمۃ الأھِلّۃِ اس صورت میں جواب سوال کے مطابق ہوگا، فلا اعتراض، اس جواب کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو ابن جریر نے ابو العالیہ سے روایت کیا ہے قَالُوْا یَا رسولَ اللہ، لِمَ خُلِقَتِ الْاَھِلَّۃُ ، فنزلَتْ یَسْئلونکَ عن الْاَھِلَّۃِ ، یہ روایت چاند کے گھٹنے بڑھنے کی حکمت کے سوال کرنے کے بارے میں صریح ہے۔ قولہ : جمعُ میقات، مَوَاقیت میقات اسم آلہ کی جمع ہے وقت پہچاننے کا آلہ۔
قولہ : مَتَاجِرِھِمْ یہ مَتْجَر کی جمع ہے مصدر ہے نہ کہ ظرف زمان۔ قولہ : عِدَدَ نِسَآئِھِمْ عِدَد، عِدَّۃ کی جمع ہے۔
قولہ : عَطْفٌ علی الناس، مفسر علام کا اس اضافہ سے مقصد بعض لوگوں کے اس شبہ کو دور کرنا ہے کہ والحج کا عطف مَوَاقِیْتُ ، پر ہے حالانکہ یہ درت نہیں ہے اس لئے کہ مواقیتُ کا حمل اَھِلَّۃ کی ضمیر ھِی پر ہے ای اَلْاَھِلَّۃُ ھِیَ المواقیتُ اگر الحج کا عطف مواقیت پر کردیا جائے تو اس کا حمل بھی ھِیَ ضمیر پر ہوگا اور تقدیر عبارت یہ ہوگی اَلْاَھِلَّۃُ ھِیَ الحج، حالانکہ یہ معنی درست نہیں ہیں۔
قولہ : فی الاحرام۔ سوال : فی الاحرام، کے اضافہ کا کیا فائدہ ہے۔ جواب : دراصل فی الاحرام کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے
سوال : لَیْسَ البرُّ بَان تاتوا البُیُوْتَ مِن ظھورِھَا، اور ماسبق لِلنَّاسِ میں بظاہر کوئی جوڑا اور ربط نہیں ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ جوڑا اور ربط ہے اور وہ یہ کہ مواقیت اوقات حج ہیں اور حالت احرام میں گھر کے پیچھے سے گھر میں داخل ہونا ان کے نزدیک افعال حج میں سے ہے لہٰذا ربط وتعلق ظاہر ہے۔
قولہ : ای ذَالبِرَّ اس کے بارے میں سوال و جواب سابق میں گذر چکا ہے ملاحظہ فرما لیا جائے۔
قولہ : بآیۃِ البراءۃ وَھِیَ فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ ۔ (الآیۃ) قولہ : ای فی الحرم۔ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کی تفسیر ای فی الحرم سے کرکے اشارہ کردیا کہ جزء بول کر کل۔ یعنی مسجد حرام بول کر پورا حرم مراد ہے اس لئے کہ قتال صرف مسجد حرام ہی میں ممنوع نہیں ہے بلکہ پورے حرم میں ممنوع ہے۔
قولہ : بِلَا الف فی الافعال الثلث وہ تین افعال یہ ہیں، لاتَقْتُلوھم، یَقْتُلوکم، فان قتلوکم۔
قولہ : توجَدُ ، تکون کی تفسیر توجَدُ سے کرکے اشارہ کردیا کہ کان تامہ ہے۔ قولہ : سُمِّیَ مقابلتَہ الخ سے ایک شبہ کا جواب ہے۔
شبہ : یہ ہے کہ ظالم سے اگر ظلم کا بدلہ لیا جائے تو اس کو ظلم نہیں کیا جاتا وہ تو اس کا حق ہے حالانکہ یہاں بدلہ لینے کو اعتداء سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جواب : صورۃً یکساں ہونے کی وجہ سے جزاءِ اعتداء سے تعبیر کردیا گیا ہے یہ جزاء السیئۃ سیِّئۃ، کے قبیل سے ہے۔
تفسیر و تشریح
شان نزول : اَخْرَجَ ابن ابی حاتم عن ابی العالیہ قال : بَلَغنا اِنَّھم قالوا یا رسول اللہ لِمَا خُلقَتِ الْاَھِلَّۃُ فاَنْزَلَ اللہ تعالیٰ ، یَسْئلونَکَ عَنِ الْاَھِلّۃِ ، لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلوم کیا کہ چاند کا گھٹنا بڑھنا کس غرض سے ہے، تو مذکورہ آیت نازل ہوئی، اس روایت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کا سوال چاند کے گھٹنے بڑھنے کی حکمت کے بارے میں تھا، لہٰذا اس کا جواب بھی قُلْ ھِیَ مَوَاقیْتُ للناس کے ذریعہ بیان حکمت سے دیا گیا لہٰذا، الجواب علی اسلوب الحکیم کے تکلف کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اب رہی وہ روایت جو معاذ بن جبل (رض) سے مروی ہے : ” مَا بالُ الھِلال یَبْدُوا دَقیقًا ثمّ یَزیدُ “ الخ تو اس کی سند ضعیف ہے، کما فی روح المعانی نیز اس کا بھی سوال عن الحکمت پر محمول کرنا ممکن ہے۔
قمری تاریخوں کا حکم اور اہمیت : سورج اپنے تشکل کے اعتبار سے ہمیشہ ایک ہی حالت پر رہتا ہے، گو مطالع اور مغارب اس کے بھی روزانہ بدلتے ہیں مگر اس کی شناخت ایک امر دقیق اور پیچیدہ ہے شمسی تاریخیں معلوم کرنے کے لئے تقویم (کیلنڈر) کے علاوہ وہ کوئی صورت نہیں، اگر کوئی شخص شمسی تاریخ بھول جائے اور کسی ایسی جگہ ہو کہ جہاں (تقویم) کیلنڈر وغیرہ دستیاب نہ ہو اس کے لئے شمسی تاریخ معلوم کرلینا آسان نہ ہوگا، بخلاف چاند کے کہ روزانہ اس کے تشکلات بدلتے رہتے ہیں اس کے علاوہ ہر ماہ ایک ہی ضابطہ کے مطابق بدلتے ہیں اور اختلاف ایسا واضح ہوتا ہے کہ ہر کہ ومہ خواندہ و ناخواندہ دیکھ کر معلوم کرسکتا ہے اسی وجہ سے شریعت نے اصالۃً احکام و عبادات کا دارومدار قمری تاریخوں پر رکھا ہے، بعض احکام میں تو قمری حساب کو لازم کردیا کہ ان میں دوسرے حساب پر مدار جائز ہی نہیں جیسے حج، روزہ رمضان، عیدین، زکوٰۃ وعدت طلاق وغیرہ، ان کے علاوہ معاملات میں اختیار ہے چاہے جس حساب سے معاملہ کریں شریعت نے مجبور نہیں کیا کہ قمری تاریخوں ہی سے حساب رکھیں۔ احکام شرعیہ کے علاوہ میں گو قمری حساب کے علاوہ کی اجازت ہے مگر چونکہ بوجہ خلاف ہونے وضع صحابہ و صالحین کے خلاف اولیٰ ضرور ہے، اور چونکہ بہت سے احکام شرعیہ کا مدار قمری حساب پر ہے اس لئے قمری تاریخوں کو محفوظ رکھنا یقیناً فرض علی الکفایہ ہے اور انضباط کا آسان طریقہ یہی ہے کہ اپنے روز مرہ کے معاملات میں قمری تاریخوں کا استعمال رکھا جائے۔
بدعت کی اصل بنیاد : لِیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُھُوْرِھَا، زمانہ جاہلیت میں جہاں اور بہت سے رسم و رواج رائج تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ احرام باندھنے کے بعد اگر کسی ضرورت سے گھر آنا ہوتا تو دروازہ سے داخل ہونے کے بجائے گھر کی پشت کی جانب سے دیوار میں نقب لگا کر یا دیوار پھاند کر داخل ہوتے اور اس کو کار ثواب سمجھتے اس آیت میں اسی بدعت کی تردید کی گئی ہے، اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جس چیز کو شریعت اسلام ضروری یا عبادت نہ سمجھتی ہو اس کو اپنی طرف سے ضروری یا عبادت سمجھ لینا جائز نہیں، اسی طرح جو چیز شرعاً جائز ہو اس کو گناہ سمجھنا بھی گناہ ہے، بدعات کے ناجائز ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ غیر ضروری چیز کو فرض اور واجب کی طرح سمجھ لیا جاتا ہے یا بعض جائز چیزوں کو حرام و ناجائز قرار دیا جاتا ہے اس آیت میں نہ صرف یہ کہ بےاصل اور بےبنیاد رسم کی تردید کی گئی ہے بلکہ تمام اوھام پر یہ کہہ کر ضرب لگائی گئی ہے کہ نیکی دراصل اللہ سے ڈرنے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے بچنے کا نام ہے ان بےمعنی رسموں کو نیکی سے کوئی واسطہ نہیں جو محض رسماً زمانہ قدیم سے آباء و اجداد کی تقلید میں چلی آرہی ہیں اور جن کا انسان کی سعادت و شقاوت، نحوست وسعادت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ الْاَہِلَّۃِ ۭ﴾(ہلال) جمع ہے، یعنی وہ سوال کرتے ہیں کہ چاند کا کیا فائدہ اور اس میں کیا حکمت ہے یا چاند کیا چیز ہے؟ ﴿ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ﴾” کہہ دیجیے ! یہ اوقات مقررہ ہیں لوگوں کے لیے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے اسے درج ذیل نظم و تدبیر پر تخلیق کیا ہے۔
مہینے کے آغاز میں چاند بہت باریک اور کمزور سا ظاہر ہوتا ہے۔ پھر مہینے کے نصف تک بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پھر گھٹنا شروع ہوجاتا ہے اور مہینے کے پورا ہونے تک گھٹتا رہتا ہے۔ (اس طرح یہ سلسلہ مستقل جاری رہتا ہے) اس میں حکمت یہ ہے کہ لوگ اس ذریعے سے اپنی عبادات کے اوقات، مثلاً روزوں، زکوٰۃ کے اوقات، کفارے اور حج کے اوقات پہچان لیں اور چونکہ حج متعین مہینوں میں ہوتا ہے اور بہت زیادہ وقت اس میں صرف ہوتا ہے، اس لیے ﴿ وَالْحَجِّ ۭ ﴾فرما کر اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا، یعنی چاند کے ذریعے سے حج کے مہینوں کا بھی علم ہوتا ہے۔ اسی طرح چاند کے ذریعے سے مدت معینہ پر ادا کیے جانے والے قرض، اجارات، عدت طلاق و وفات اور حمل وغیرہ کی مدت اور اوقات معلوم کیے جاتے ہیں جو کہ مخلوق کی ضرورت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے چاند کو ایسا حساب بنایا کہ جس سے ہر چھوٹا بڑا اور عالم و جاہل سب معلوم کرلیتے ہیں۔ اگر یہ حساب تقویم شمسی کے ذریعے سے ہوتا، تو چند لوگ ہی اس حساب کی معرفت حاصل کرسکتے۔
﴿ وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِھَا ﴾” نیکی یہ نہیں کہ تم گھروں کو پچھواڑے سے آؤ“ یہ انصار وغیرہ اور بعض دیگر عربوں کے اس طریقے کی طرف اشارہ ہے کہ جب وہ حج کے لیے احرام باندھ لیتے تھے تو اپنے گھروں میں دروازوں میں سے داخل نہیں ہوتے تھے (بلکہ پچھواڑے سے داخل ہوتے تھے) اور اسے وہ نیکی اور عبادت تصور کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ایسا کرنا نیکی نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے مشروع نہیں کیا اور ایسا شخص جو کسی ایسی عبادت کا التزام کرتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے مشروع قرار نہیں دیا، تو بدعت کا ارتکاب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ دروازوں سے اپنے گھروں میں داخل ہوا کریں، کیونکہ اسی میں ان کے لیے سہولت ہے جو شریعت کے قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے۔ اس آیت کریمہ کے اشارہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ تمام معاملات میں مناسب یہی ہے کہ انسان آسان اور قریب ترین راستہ استعمال کرے جسے اس منزل تک پہنچنے کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینے والے کو چاہئے کہ وہ مامور کے احوال کو مدنظر رکھے۔ نرمی اور ایسی حکمت عملی سے کام لے جس سے پورا مقصد یا اس سے کچھ حصہ حاصل ہوسکتا ہو۔ متعلم اور معلم دونوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے قریب ترین اور سہل ترین راستہ استعمال کریں۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو کسی کام کا ارادہ کرتا ہے اور وہ اس کے لیے صحیح راستے سے داخل ہوتا ہے اور ہمیشہ اسی اصول پر عمل کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ضرور اپنے مقصد کو پا لے گا۔
﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ﴾” اور اللہ سے ڈرتے رہو“ اور یہی حقیقی نیکی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور وہ ہے دائمی طور پر تقویٰ کا التزام، یعنی اس کے اوامر کے سامنے سرافگندہ ہونا اور اس کی منہیات سے اجتناب کرنا۔ تقوی ٰ فلاح کا سبب ہے جس کے ذریعے سے مطلوب (جنت) کے حصول میں کامرانی اور ڈرائے گئے امر (عذاب) سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ پس جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا اس کے لیے فوز و فلاح کا کوئی راستہ نہیں اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہی فوز و فلاح اور کامیابی و کامرانی سے شاد کام ہوگا۔
11 Mufti Taqi Usmani
log aap say naye maheenon kay chaand kay baaray mein poochtay hain . aap unhen bata dijiye kay yeh logon kay ( mukhtalif moamlaat kay ) aur hajj kay oqaat mutayyan kernay kay liye hain .
aur yeh koi naiki nahi hai kay tum gharon mein unn ki pusht ki taraf say dakhil ho , balkay naiki yeh hai kay insan taqwa ikhtiyar keray , aur tum gharon mein unn kay darwazon say dakhil huwa kero , aur Allah say dartay raho , takay tumhen falah hasil ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
چاند اور مہ وسال
حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لوگوں نے چاند کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اس سے قرض وغیرہ کے وعدوں کی میعاد معلوم ہوجاتی ہے، عورتوں کی عدت کا وقت معلوم ہوتا ہے، حج کا وقت معلوم ہوتا ہے، مسلمانوں کے روزے کے افطار کا تعلق بھی اسی سے ہے، مسند عبدالرزاق میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے چاند کو لوگوں کے وقت معلوم کرنے کے لئے بنایا ہے اسے دیکھ کر روزے رکھو اسے دیکھ کر عید مناؤ اگر ابرو باراں کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو تیس دن پورے گن لیا کرو، اس روایت کو حضرت امام حاکم نے صحیح کہا ہے یہ حدیث اور سندوں سے بھی مروی ہے حضرت علی (رض) سے ایک موقوف روایت میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے۔ آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ بھلائی گھروں کے پیچھے سے آنے میں نہیں بلکہ بھلائی تقویٰ میں ہے گھروں میں دروازوں سے آؤ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جاہلیت کے زمانہ یہ دستور تھا کہ احرام میں ہوتے تو گھروں میں پشت کی جانب سے آتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابو داؤد طیالسی میں بھی یہ روایت ہے انصار کا عام دستور تھا کہ سفر سے جب واپس آتے تو گھر کے دروازے میں نہیں گھستے تھے دراصل یہ بھی جاہلیت کے زمانہ میں قریشیوں نے اپنے لیے ایک اور امتیاز قائم کرلیا تھا کہ اپنا نام انہوں نے حمس رکھا تھا احرام کی حالت یہ تو براہ راست اپنے گھروں میں آسکتے تھے لیکن دوسرے لوگ سیدھے راستے گھروں میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک باغ سے اس کے دروازے سے نکلے تو آپ کے ایک انصاری صحابی حضرت قطبہ بن عامر (رض) بھی آپ کے ساتھ ہی اسی دروازے سے نکلے اس پر لوگوں نے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ تو ایک تجارت پیشہ شخص ہیں یہ آپ کے ساتھ آپ کی طرح اس دروازے سے کیوں نکلے ؟ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جواب دیا کہ میں نے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس طرح کرتے دیکھا کیا۔ مانا کہ آپ حمس میں سے ہیں لیکن میں بھی تو آپ کے دین پر ہی ہوں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن ابی حاتم) حضرت ابن عباس وغیرہ (رض) سے بھی یہ روایت مروی ہے حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں بہت سی قوموں کا یہ رواج تھا کہ جب وہ سفر کے ارادے سے نکلتے پھر سفر ادھورا چھوڑ کر اگر کسی وجہ سے واپس چلے آتے تو گھر کے دروازے سے گھر میں نہ آتے بلکہ پیچھے کی طرف سے چڑھ کر آتے جس سے اس آیت میں روکا گیا، محمد بن کعب فرماتے ہیں اعتکاف کی حالت میں بھی یہی دستور تھا جسے اسلام نے ختم کیا، عطا فرماتے ہیں اہل مدینہ کا عیدوں میں بھی یہی دستور تھا جسے اسلام نے ختم کردیا۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بجا لانا اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جانا اس کا ڈر دل میں رکھنا یہ چیزیں ہیں جو دراصل اس دن کام آنے والی ہیں جس دن ہر شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اور پوری پوری جزا سزا پائے گا۔