البقرہ آية ۲۱
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ۙ
طاہر القادری:
اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو (بھی) جو تم سے پیشتر تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ،
English Sahih:
O mankind, worship your Lord, who created you and those before you, that you may become righteous –
1 Abul A'ala Maududi
لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اُس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالق ہے، تمہارے بچنے کی توقع اِسی صورت ہوسکتی ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے لوگو! اپنے رب کو پوجو جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا، یہ امید کرتے ہوئے، کہ تمہیں پرہیزگاری ملے -
3 Ahmed Ali
اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور انہیں جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ
4 Ahsanul Bayan
اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔
nil
5 Fateh Muhammad Jalandhry
لوگو! اپنے پروردگار کی عبات کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو
6 Muhammad Junagarhi
اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے لوگو! اپنے اس پروردگار کی عبادت (پرستش) کرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا اور انہیں بھی جو تم سے پہلے ہو گزرے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے انسانو! پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پہلے والوں کو بھی خلق کیاہے. شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرہیزگار بن جاؤ
9 Tafsir Jalalayn
لوگو ! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو
آیت نمبر ٢١
ترجمہ : اے لوگو (یعنی) اے مکہ کے رہنے والو، اپنے اس رب کی بندگی کرو یعنی اس کی توحید کا اقرار کرو جس نے تم کو پید کیا، حال یہ کہ تم کوئی (قابل ذکر) شئ نہ تھے اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم اس کی عبادت کے ذریعہ اس کے عذاب سے محفوظ رہو اور لَعَلَّ دراصل ترجی کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں تحقیق کے لئے ہے، جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا، (فِراشًا) حال ہے (یعنی) ایسا بچھونا جس کو بچھایا جائے، جو نہ نہایت سخت ہے اور نہ نہایت نرم کہ اس پر قرار ہی ممکن نہ ہو اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسایا، جس کے ذریعہ تمہاری غذا کے لئے مختلف قسم کے پھل پیدا کئے، جن کو تم کھاتے ہو اور جن کو تم اپنے جانوروں کو (چارے کے طور پر) کھلاتے ہو سو تم عبادت میں اللہ کا کسی کو ہمسر (یعنی) شریک نہ ٹھہراؤ حال یہ ہے کہ تم جانتے ہو کہ خالق وہی ہے اور وہ شرکاء تخلیق نہیں کرسکتے اور معبود وہی ہوسکتا ہے جو تخلیق کرسکے، ہم نے اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پو جو (قرآن) نازل کیا ہے اگر تم اس کے منجانب اللہ ہونے میں شک میں ہو، تو اس مُنَزَّلْ جیسی ایک سورت لے آؤ اور مِن بیانیہ ہے کہ وہ سورت بلاغت میں اور حسن نظم میں اور اخبار بالغیب میں اس جیسی ہو، سورت ایسے حصہ کو کہتے ہیں کہ جس کی ابتداء اور انتہا ہو، اور اس میں کم از کم تین آیتیں ہوں اور اپنے ان معبودوں کو بھی بلا لو جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر بندگی کرتے ہو تاکہ وہ تمہاری مدد کریں، اگر تم اس بات میں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے سچے ہو لہٰذا تم بھی یہ کام کر دکھاؤ اس لئے کہ تم بھی اس کے جیسے فصیح عرب ہو، اور جب وہ اس سے عاجز ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا پس اگر تم نے اپنے عجز کی وجہ سے مذکورہ کام نہ کیا اور تم اس کو ہرگز کبھی نہ کرسکو گے اس کے اعجاز کے ظاہر ہونے کی وجہ سے (شرط اور جزاء کے درمیان) یہ جملہ معترضہ ہے، لہٰذا تم اللہ پر ایمان لا کر اور اس بات کی تصدیق کرکے کہ یہ انسانی کلام نہیں ہے، تو اس آگ سے بچو کہ جس کا ایندھن کافر انسان اور پتھر ہوں گے مثلاً پتھر سے بنے ہوئے ان کے بت، یعنی وہ آگ شدید حرارت والی ہوگی، مذکورہ چیزوں سے دہکائی جائے گی، نہ کہ دنیوی آگ کے مانند کہ لکڑی وغیرہ سے دہکائی جاتی ہے (وہ آگ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے، اس میں ان کو عذاب دیا جائے گا (یہ) جملہ معترضہ ہے یا حال لازمہ ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : یاَیُّھَا النَّاسُ ای اَھْلُ مَکۃَ : یا حرف ندا متوسط کے لئے ہے قرآن میں ندا کے لئے صرف یا، کا استعمال ہوا ہے، دوسرے کسی حرف ندا کا استعمال نہیں ہوا، ندا خواہ خالق کی جانب سے ہو، یا مخلوق کی جانب سے، اَیُّ ، منادی لفظاً مبنی برضمہ ہے اور محل میں نصب کے ہے، ھا، برائے تنبیہ ہے، اَلنَّاس لفظوں کے اعتبار سے اَیُّ ، کی صفت یا بدل ہے۔
قولہ : اَیْ اَھلُ مکۃَ ، یہ الناس کی تفسیر ہے۔
سوال : قاعدہ یہ ہے کہ قرآن میں اہل مکہ کو خطاب یاَیُّھَا الناس سے اور اہل مدینہ کو یاَیّھا الذّین آمنوا، سے ہوتا ہے یہ سورت مدنی ہے اور خطاب اہل مدینہ سے یاَیُّھَا الَّذین آمنوا سے ہے ایسا کیوں ؟
جواب : یہ قاعدہ اکثری ہے کلی نہیں۔
لفظ اَھْلٌ پر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں، نصب اس اعتبار سے کہ یہ باعتبار محل کے الناس کی تفسیر ہے اور رفع اس اعتبار سے کہ یہ باعتبار لفظ کے الناس کی تفسیر ہے۔
قولہ : وَحِّدُوْا اُعْبُدُوْا کی تفسیر وَحِّدوا سے حضرت ابن عباس (رض) کی اتباع میں ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اُعْبُدُوْا، قرآن میں جہاں کہیں بھی آیا ہے، اس سے مراد توحید سرِ فہرست ہے اس لئے کہ توحید کے بغیر کوئی عبادت مقبول نہیں، اسی طرح الناس کی تفسیر اہل مکہ سے یہ بھی حضرت ابن عباس (رض) کی اتباع میں ہے ورنہ دیگر مفسرین نے الناس کو مطلق رکھا ہے، جس میں مکہ وغیر مکہ کے سب لوگ شامل ہیں۔
قولہ : لَعَلَّ فی الاصل للترجی :
سوال : لَعَلَّ کا اصل استعمال طمع فی المحبوب کے لئے ہے، عوام اس کو توقع سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ جہل کی متقاضی ہے، حق تعالیٰ کے لئے اس معنی کے لئے استعمال محال ہے۔
جواب : مفسر علام نے اپنے قوم ” وفی کلامہٖ تعالیٰ للتحقیق “ سے اسی سوال کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی کلام ربانی میں لَعَلَّ کا استعمال تحقیق و قوع کے لیے ہوتا ہے، اس لئے کہ کریم اسی کی توقع دلاتا ہے، جو اسے یقینی طور پر کرنا ہو۔
قولہ : فِرَاشًا، اَلْاَرْضَ : سے حال ہے، مگر یہ اس صورت میں ہے جب کہ : جَعَلَ ، بمعنی خَلَقَ متعدی بیک مفعول ہو، جیسا کہ مفسر علام نے جَعَلَ کی تفسیر خَلَقَ سے کرکے اشارہ کردیا ہے اور جن حضرات نے جَعَلَ بمعنی صَیَّرَ متعدی بد و مفعول لیا ہے، ان کے نزدیک اَلْاَرْضَ مفعول اول اور فِرِاشًا مفعول ثانی ہوگا۔
قولہ : من السماء السماء سے لغوی معنی مراد ہیں یعنی : فوق، مَا علاکَ وَاَظَلک فھو سماءٌ، سماءٌ مونث ہے کبھی مذکر بھی استعمال ہوتا ہے اور بارش بھی چونکہ اوپر سے اترتی ہے، لہٰذا یہ شبہ ختم ہوگیا کہ : بارش بادلوں سے برستی ہے نہ کہ : آسمان سے، دوسرا جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ سماء سے سحاب مراد ہے۔
قولہ : تَعلفونَ بہٖ دَوابَّکُمْ : سے اشارہ کردیا کہ ثمرات سے زمین کی ہر قسم کی پیداوار مراد ہے اور عَلَفْ ، جانوروں کے چارے کو کہتے ہیں۔
قولہ : فَلَا تَجْعَلُوْا للہِ اَنْدَادًا : اس کا تعلق ماقبل میں مذکور اُعْبُدُوا رَبَّکم الَّذِی، سے ہے۔
قولہ : اَندادٌ: یہ نِدٌّ : کی جمع ہے، بمعنی برابر، مقابل، شریک نِدٌّ ذات میں شریک اور مثل ہر قسم کے شریک کو کہتے ہیں۔
قولہ : وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْن : مبتداء خبر سے مل کر جملہ ہو کر فَلَا تَجْعَلُوْا کی ضمیر سے حال ہے۔
قولہ : اِنَّہُ الخالق : معطوف علیہ اور ولا یخلقون جملہ ہو کر معطوف جملہ معطوفہ ہو کر یہ تَعْلَمُوْنَ ، کا مفعول بہ ہے۔
قولہ : فَافْعَلُوا ذلِک یہ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقین کی جزاء ہے۔
قولہ : وَقُوْدُھَا، واؤ کے فتحہ کے ساتھ بمعنی مَا تُو قَدُ بہ، یعنی ایندھن اور واؤ کے ضمہ کے ساتھ مصدر ہے، اس وزن پر آنے والے تمام صیغوں میں یہی دو صورتیں ہیں، مثلاً : وَضُوْءٌ، سَحُورٌ، طَھُورٌ، قاعدہ یہ ہے کہ فَعُوْلٌ کے وزن پر آنے والے ہر صیغہ میں اگر فائ کلمہ کے فتحہ کے ساتھ ہو تو بمعنی آلہ، اور اگر ضمہ کے ساتھ ہو تو مصدر۔ بعض نے کہا ہے ایک دوسرے کی جگہ بھی مستعمل ہیں۔
قولہ : مِنھا : یہ اَصْنامھم سے حال ہے ای حال کونِھَا منَ الحِجارۃِ ، مقصد آیت میں مذکور وقودھا الناسُ وَالحِجارۃ کی مطابقت ہے حِجَارَۃ حَجَرٌ کی جمع جیسے : جَمَالۃٌ، جَملٌ کی جمع ہے۔
قولہ : اُعِدَّتْ جملہ مستانفہ ہے اور جملہ مستانفہ ہمیشہ کسی سوال مقدر کا جواب ہوا کرتا ہے، یہاں کس سوال کا جواب ہے ؟
سوال : یہ ہے : لِمَنْ اُعِدَّتْ ھٰذِہِ النارُ التِیْ وَقودُھَا الناسُ وَالحِجَارَۃُ ؟
جواب : اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ ۔
قولہ : اَوْحالٌ، یعنی ” اُعِدَِّتْ للکافرین “ لفظ ” النار “ سے حال ہے، وَقُودُھَا کی ضمیر سے حال واقع ہونا صحیح نہیں ہے، جس کی دو وجہ
ہیں (١) اس لئے کہ ھَا ضمیر مضاف الیہ ہے، اور مضاف الیہ مقصود نہیں ہوتا، (٢) اس لئے کہ مضاف جو کہ یہاں وَقُوْدٌ بمعنی حطب عین ہے اور یہ جامد ہے اور اسم جامد عامل نہیں ہوتا۔
قولہ : لَازِمَۃٌ: اس اضافہ کا مقصد اس شبہ کو زائل کرنا ہے جو : اُعِدَّت للکافرین سے معلوم ہوتا ہے کہ : ناز جہنم کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے لہٰذا مسلمانوں کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے خواہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہوں بشرطیکہ مومن ہو۔
جواب : حال لازمہ بمنزلہ صفت ہوتا ہے، ذوالحال کے لئے اور ذوالحال سے جدا نہیں ہوتا جیسا کہ ابوک عطوفًا میں کہ باپ کی شفقت بیٹے کے لئے لازم ہے، مگر خاص نہیں ہے کہ بیٹے کے علاوہ کسی اور پر باپ کی شفقت ممنوع ہو اسی طرح ناز جہنم کافروں کے لئے لازم تو ہے مگر خاص نہیں، یعنی اصالۃً و دوامًا تو نار جہنم کافروں ہی کے لئے تیار کی گئی ہے، لہٰذا مسلمین کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے خواہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہوں بشرطیکہ مومن ہو، مگر عارضی طور پر تادیب کے لئے اہل فسق و عصیان بھی اس میں داخل کر دئیے جائیں تو یہ اس کے منافی نہیں (ماجدی ملخصا) ” وکون الا عداد للکافرین لاینافی دخول غیرھم فیہ علی جھۃ التطفل “۔ (روح)
دوسرا جواب : اُعِدَِّتْ للکافرین : میں، کافر سے مراد عام ہو جو اصطلاحی کافر اور لغوی کافر دونوں کو شامل ہو، تو اس صورت میں کوئی اعتراض نہیں، اصطلاحی کافر کا دخول دائمی ہوگا اور لغوی کافر یعنی ناشکرے اور عاصی و نافرمان کا دخول تطہیر کے لئے عارضی ہوگا۔
تفسیر وتشریح
قرآن مجید کا مخاطب ساراعالم ہے :
یَآیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا (الآیۃ) اس آیت میں مخاطب صرف قریش یا اہل مکہ ہی نہیں بلکہ عرب اور عجم سارا عالم ہے اور نہ کوئی مخصوص نسل، گروہ، یا جماعت ہے بخلاف سابقہ آسمانی کتابوں کے کہ ان کے مخاطب خاص قوم، یا خطے یا نسل کے لوگ تھے، عام مفسرین اسی کے قائل ہیں، بعض مفسرین نے مذکورہ آیت کے مخاطب اہل مکہ کو قرار دیا ہے ان ہی حضرات میں علامہ سیوطی (رح) تعالیٰ بھی ہیں غالبًا یہ تخصیص مخاطب اول ہونے کے اعتبار سے ہے۔
پہلے دو رکوعوں میں موجودات انسانی کی سہ گانہ تقسیم یعنی مومن، کافر اور منافق عقائد کے اعتبار سے تھی، سورة بقرہ کی ابتدائی بیس آیتوں میں ہدایت کے قبول کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے انسانوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسانوں کی گروہی اور قومی تقسیم رنگ و نسل یا وطن اور زبان کی بنیادوں پر معقول نہیں بلکہ صحیح تقسیم عقیدے کی بنیاد پر ہے کہ اللہ اور اس کی ہدایت کے ماننے والے ایک قوم ہیں اور نہ ماننے والے دوسری، اسی حقیقت کو سورة حشر میں ” حزبُ اللہ “ اور ” حزبُ الشیطان “ کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔
قرآن کا اصل پیغام :
یٰایُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا (الآیۃ) سے قرآن کے اصل اور بنیادی پیغام کا گویا آغاز ہے، عقیدہ توحید جو اسلام کا سب سے پہلا اور بنیادی عقیدہ ہے یہ صرف ایک عقیدہ اور نظریہ ہی نہیں بلکہ انسان کو انسان بنانے کا واحد اور صحیح طریقہ بھی ہے جو انسان کے تمام مشکلات کا حل اور ہر حالت میں اس کی پناہ گاہ ہے اور ہر فکر و غم کا مداوا، اس لئے کہ عقیدہ توحید کا حاصل یہ ہے کہ کائنات کے تمام کون و فساد اور عناصر کے سارے تغیرات ایک ہی ہستی کی مشیئت کے تابع اور اسی کی حکمت کے مظاہر ہیں جب یہ عقیدہ قلب و دماغ میں راسخ اور فکر و خیال پر چھا جائے تو ہر شر و فساد کی بنیاد ہی منہدم ہوجائے گی اس لئے کہ اس کے سامنے ہمہ وقت یہ مستحضر رہے گا۔ ؎
از خدا داں خلاف دشمن و دوست کہ دل ہر دو در تصرف اوست
اس عقیدہ کا مالک پوری دنیا سے بےنیاز ہر خوف و ہراس سے بےخطر زندگی گذارتا ہے کلمہ توحید یعنی : لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ محمد رسول اللہ، کا یہی مفہوم ہے، مگر یہ ظاہر ہے کہ توحید کا محض زبانی اقرار کافی نہیں، بلکہ سچے دل سے اس کا یقین اور یقین کے ساتھ استحضار ضروری ہے۔
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ : تاکہ تم اپنے پروردگار کے عذاب سے بچ جاؤ، لَعَلَ کا استعمال امید و آرزو اور اظہار وقوع اور شک و تردد کے لئے ہے، مگر قرآن میں جہاں حق تعالیٰ کی طرف سے ادا ہوا ہے وہاں امید و آرزو کے بجائے وقوع و یقین کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے اردو میں لَعَلَ کا ترجمہ ” تاکہ “ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ تمام لوگوں کے لئے امر عام ہے اور وہ اللہ کی عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت، اس کے نواہی سے اجتناب اور اس کی خبر کی تصدیق کی جامع ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اس چیز کا حکم دیا جس کے لئے ان کی تخلیق کی گئی ہے۔ فرمایا : ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴾ (لذاریات :56؍51) ” میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں۔ “
پھر صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ وہ تمہارا رب ہے اس نے تمہیں بہت سی نعمتوں سے نواز کر تمہاری تربیت اور پرورش کی۔ وہ تمہیں عدم سے وجود میں لایا، اس نے ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے تھے، اس نے تمہیں ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کیں، اس نے زمین کو تمہارے لئے فرش بنایا جہاں تم اپنا ٹھکانا بناتے ہو، جہاں تم عمارات تعمیر کر کے، زراعت اور کاشتکاری کر کے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کر کے مختلف فوائد حاصل کرتے ہو، اس کے علاوہ تم زمین کے بعض دیگر فوائد سے استفادہ کرتے ہو۔ اس نے تمہارے اس مسکن کے لئے آسمان کو چھت بنایا۔ اس نے تمہاری ضروریات اور حاجات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس چھت میں بھی بہت سی نفع بخش چیزیں مثلاً سورج، چاند اور ستارے پیدا کئے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey logo ! apney uss perwerdigar ki ibadat kero jiss ney tumhen aur unn logon ko peda kiya jo tum say pehlay guzray hain , takay tum muttaqi ban jao
12 Tafsir Ibn Kathir
تعارف اللہ بزبان اللہ
یہاں سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی الوہیت کا بیان شروع ہوتا ہے وہی اپنے بندوں کو عدم سے وجود میں لایا، اسی نے ہر طرح کی ظاہری و باطنی نعمتیں عطا فرمائیں، اسی نے زمین کو فرش بنایا اور اس میں مضبوط پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں اور آسمان کو چھت بنایا۔ جیسے کہ دوسری آیت میں آیا کہ آیت (وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ښ وَّهُمْ عَنْ اٰيٰـتِهَا مُعْرِضُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء :32) یعنی آسمان کو محفوظ چھت بنایا اس کے باوجود وہ نشانیوں سے منہ موڑ لیتے ہیں، آسمان سے پانی اتارنے کا مطلب بادل نازل فرمانا ہے۔ اس وقت جبکہ لوگ اس کے پورے محتاج ہوں۔ پھر اس پانی سے طرح طرح کے پھل پھول پیدا کرنا ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور ان کے جانور بھی۔ جیسے کہ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کا بیان آیا ہے۔ ایک جگہ فرمایا ہے آیت (اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً وَّصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ) 40 ۔ غافر :64) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہیں پیاری پیاری صورتیں عطا فرمائیں اور طرح طرح کی غذائیں پہنچائیں یہی اللہ ہے جو برکتوں والا اور تمام عالم کو پالنے والا ہے پس سب کا خالق، سب کا رازق، سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس لئے شرک سے مبرا ہر قسم کی عبادت کا وہی مستحق ہے۔ اور فرمایا " اللہ تعالیٰ کے شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم جانتے ہو۔ صحیحین میں حدیث ہے " حضرت ابن مسعود (رض) پوچھتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے بڑا گناہ کونسا ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تمہارا خالق ہے کسی کو شریک ٹھہرانا " حضرت معاذ والی حدیث میں ہے " جانتے ہو کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟ یہ کہ اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہ کریں " دوسری حدیث میں ہے " تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ یوں کہے جو کچھ اللہ اکیلا چاہے۔ طفیل بن سنجرہ حضرت عائشہ (رض) کے سوتیلے بھائی فرماتے ہیں میں نے خواب میں چند یہودیوں کو دیکھا اور ان سے پوچھا تم کون ہے ؟ انہوں نے کہا تم بھی اچھے لوگ ہو لیکن افسوس تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں پھر میں نصرانیوں کی جماعت کے پاس گیا اور ان سے بھی اسی طرح پوچھا انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ میں نے ان سے کہا افسوس تم بھی مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا مانتے ہو۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ میں نے ان سے کہا افسوس تم بھی مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا مانتے ہو۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا میں نے صبح اپنے اس خواب کا ذکر کچھ لوگوں سے کیا پھر دربار نبوی میں حاضر ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی یہی خواب بیان کیا۔ آپ نے پوچھا کیا کسی اور سے بھی تم نے اس کا ذکر کیا ہے ؟ میں نے کہا ہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب آپ کھڑے ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا طفیل نے ایک خواب دیکھا اور تم میں سے بعض کو بیان بھی کیا میں چاہتا تھا کہ تمہیں اس کلمہ کے کہنے سے روک دوں لیکن فلاں فلاں کاموں کی وجہ سے میں اب تک نہ کہہ سکا۔ یاد رکھو " اب ہرگز ہرگز اللہ چاہے اور اس کا رسول " کبھی نہ کہنا بلکہ یوں کہو کہ صرف اللہ تعالیٰ اکیلا جو چاہے (ابن مردویہ) ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جو اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ چاہیں۔ آپ نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے یوں کہہ جو اللہ تعالیٰ اکیلا چاہے (ابن مردویہ) ایسے تمام کلمات توحید کے سراسر خلاف ہیں۔ توحید باری کی اہمیت کے بارے میں یہ سب احادیث بیان ہوئی ہیں۔ واللہ اعلم۔ تمام کفار اور منافقوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور فرمایا اللہ کی عبادت کرو یعنی اس کی توحید کے پابند ہوجاؤ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو جو نہ نفع دے سکے نہ نقصان پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اس کے سوا کوئی رب نہیں جو تمہیں روزی پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں اس توحید کی طرف بلا رہے ہیں جس کے حق اور سچ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ شرک اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے جیسے چیونٹی جو رات کے اندھیرے میں کسی صاف پتھر پر چل رہی ہو، قسم ہے اللہ کی اور قسم ہے آپ کی حیات کی، یہ بھی شرک ہے انسان کا یہ کہنا اگر یہ کتیا نہ ہوتی تو چور رات کو ہمارے گھر میں گھس آتے یہ بھی شرک ہے۔ آدمی کا یہ قول کہ اگر بطخ گھر میں نہ ہوتی تو چوری ہوجاتی یہ بھی شرک کا کلمہ ہے کسی کا یہ قول کہ جو اللہ چاہے اور آپ یہ بھی شرک ہے کسی کا یہ کہنا کہ اگر اللہ نہ ہوتا اور فلاں نہ ہوتا۔ یہ سب کلمات شرک ہیں صحیح حدیث میں ہے کہ کسی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں تو آپ نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے ؟ دوسری حدیث میں ہے تم اچھے لوگ ہوتے اگر تم شرک نہ کرتے تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں انداد کے معنی شریک اور برابر کے ہیں۔ مجاہد فرماتے ہیں تم توراۃ و انجیل پڑھتے ہو اور جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ایک اور لا شریک ہے، پھر جانتے ہوئے کیوں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو ؟
پانچ احکام٭٭
مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ عزوجل نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو پانچ چیزوں کا حکم دیا کہ ان پر عمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دو ، قریب تھا کہ وہ اس میں غفلت کریں تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں یاد دلایا کہ آپ کو پروردگار عالم کا حکم تھا کہ ان پانچ چیزوں پر خود کاربند ہو کر دوسروں کو بھی حکم دو ۔ لہذا یا تو آپ کہہ دیجئے یا میں پہنچا دوں۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ سبقت لے گئے تو کہیں مجھے عذاب نہ دیا جائے یا زمین میں دھنسا نہ دیا جاؤں پس یحییٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس کی مسجد میں جمع کیا، جب مسجد بھر گئی تو آپ اونچی جگہ پر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر کے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم کیا ہے کہ خود بھی عمل کریں تم سے بھی ان پر عمل کراؤں۔ ایک یہ کہ اللہ ایک کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص خاص اپنے مال سے کسی غلام کو خریدے اور غلام کام کاج کرے لیکن جو کچھ حاصل ہوا ہے اسے کسی اور کو دے دے کیا۔ تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا غلام ایسا ہو ؟ ٹھیک اسی طرح تمہارا پیدا کرنے والا، تمہیں روزی دینے والا، تمہارا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے۔ پس تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ دوسری یہ کہ نماز کو ادا کرو اللہ تعالیٰ کی نگاہ بندے کی طرف ہوتی ہے۔ جب تک کہ وہ نماز میں ادھر ادھر منہ پھیرے جب تم نماز میں ہو تو خبردار ادھر ادھر الفتات نہ کرنا۔ تیسرا حکم یہ ہے کہ روزے رکھا کرو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کے پاس مشک کی تھیلی بھری ہوئی ہو جس سے اس کے تمام ساتھیوں کے دماغ معطر رہیں۔ یاد رکھو روزے دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔ چوتھا حکم یہ ہے کہ صدقہ دیتے رہا کرو، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو دشمنوں نے قید کرلیا اور گردن کے ساتھ اس کے ساتھ باندھ دئیے گردن مارنے کے لئے لے جانے لگے تو وہ کہنے لگا کہ تم مجھ سے فدیہ لے اور مجھے چھوڑ دو چناچہ جو کچھ تھا کم زیادہ دے کر اپنی جان چھڑا لی۔ پانچواں اس کا حکم یہ ہے کہ بہ کثرت اس کے نام کا ذکر کیا کرو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کے پیچھے تیزی کے ساتھ دشمن دوڑتا آتا ہے اور وہ ایک مضبوط قلعہ میں گھس جاتا ہے اور وہاں امن وامان پا لیتا ہے اسی طرح بندہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے وقت شیطان سے بچا ہوا ہوتا ہے یہ فرما کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اب میں بھی تمہیں پانچ باتوں کا حکم کرتا ہوں جن کا حکم جناب باری نے مجھے دیا ہے مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑے رہنا اللہ اور اس کے رسول اور مسلمان حاکم وقت کے احکام سننا۔ اور جاننا ہجرت کرنا اور جہاد کرنا جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر نکل جائے گویا وہ اسلام کے پٹے کو اپنے گلے سے اتار پھینکے گا ہاں یہ اور بات ہے کہ رجوع کرلے جو شخص جاہلیت کی پکار پکارے وہ جہنم کا کوڑا کرکٹ ہے لوگوں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگرچہ وہ روزے دار اور نمازی ہو فرمایا اگرچہ نماز پڑھتا ہو اور روزے بھی رکھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔ مسلمانوں کو ان کے ان ناموں کے ساتھ پکارتے رہو جو خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے رکھے ہیں مسلمین مومنین اور عباد اللہ یہ حدیث حسن ہے اس آیت میں بھی یہی بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے وہی تمہیں روزی دیتا ہے پس عبادت بھی اسی کی کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عبادت میں توحید باری تعالیٰ کا پورا خیال رکھنا چاہیے کسی اور کی عبادت نہ کرنی چاہئے ہر ایک عبادت کے لائق صرف وہی ہے۔
اثبات وجود الہ العلمین٭٭
امام رازی وغیرہ نے اللہ تعالیٰ کے وجود پر بھی اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ اور فی الواقع یہ آیت اللہ تعالیٰ کے وجود پر بہت بڑی دلیل ہے زمین اور آسمان کی مختلف شکل و صورت مختلف رنگ مختلف مزاج اور مختلف نفع کی موجودات ان میں سے ہر ایک کا نفع بخش ہونا اور خاص حکمت کا حامل ہونا ان کے خالق کے وجود کا اور اس کی عظیم الشان قدرت، حکمت، زبردست سطوت اور سلطنت کا ثبوت ہے کسی بدوی سے پوچھا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی موجودگی کی کیا دلیل ہے ؟ تو اس نے کہا دعا (یا سبحان اللہ ان البعر لیدل علی البعیر۔ وان اثر الا قدام لیدل علی المسیر۔ فسماء ذات ابراج وارض ذات فجاج۔ وبحار ذات امواج الا یدل ذالک علی وجود اللطیف الخبیر۔ ) یعنی مینگنی سے اونٹ معلوم ہو سکے اور پاؤں کے نشان زمین پر دیکھ کر معلوم ہوجائے کہ کوئی آدمی گیا ہے تو کیا یہ برجوں والا آسمان یہ راستوں والی زمین یہ موجیں مارنے والے سمندر اللہ تعالیٰ باریک بین اور باخبر کے وجود پر دلیل نہیں ہوسکتے ؟ حضرت امام مالک (رح) سے ہارون رشید نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل ہے آپ نے فرمایا زبانوں کا مختلف ہونا، آوازوں کا جداگانہ ہونا، نغموں کا الگ ہونا، ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے امام ابوحنیفہ (رح) سے بھی یہی سوال ہوتا ہے تو آپ جواب دیتے ہیں کہ چھوڑو میں کسی اور سوچ میں ہوں۔ لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی جس میں طرح طرح کی تجارتی چیزیں ہیں نہ کوئی اس کا نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے باوجود اس کے وہ برابر آ جا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خود بخود چیرتی پھاڑتی گزر جاتی ہے ٹھہرنے کی جگہ پر ٹھہر جاتی ہے چلنے کی جگہ چلتی رہتی ہے نہ اس کا کوئی ملاح ہے نہ منتظم۔ سوال کرنے والے دہریوں نے کہا آپ کس سوچ میں پڑگئے کوئی عقلمند ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی اتنے بڑے نظام کے ساتھ تلاطم والے سمندر میں آئے جائے اور کوئی اس کا چلانے والا نہ ہو آپ نے فرمایا افسوس تمہاری عقلوں پر ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے لیکن یہ ساری دنیا آسمان و زمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے کام پر لگی رہیں اور ان کا مالک حاکم خالق کوئی نہ ہو ؟ یہ جواب سن کر وہ لوگ ہکا بکا ہوگئے اور حق معلوم کر کے مسلمان ہوگئے حضرت امام شافعی (رح) سے بھی یہی سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا کہ توت کے پتے ایک ہی ہیں ایک ہی ذائقہ کے ہیں کیڑے اور شہد کی مکھی اور گائیں بکریاں ہرن وغیرہ سب اس کو چباتے کھاتے اور چرتے چگتے ہیں اسی کو کھا کر ریشم کا کیڑا ریشم تیار کرتا ہے مکھی شہد بناتی ہے، ہرن میں مشک پیدا ہوتا ہے اور گائیں بکریاں مینگنیاں دیتی ہیں۔ کیا یہ اس امر کی صاف دلیل نہیں کہ ایک پتے میں یہ مختلف خواص پیدا کرنے والا کوئی ہے ؟ اور اسی کو ہم اللہ تبارک و تعالیٰ مانتے ہیں وہی موجد اور صانع ہے۔ حضرت امام احمد بن حنل (رح) سے بھی ایک مرتبہ وجود باری تعالیٰ پر دلیل طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا۔ سنو یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے جس میں کوئی دروازہ نہیں نہ کوئی راستہ ہے بلکہ سوراخ تک نہیں باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے ہوا تک اس میں نہیں جاسکتی اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا خوبصورت شکل اور پیاری بولی والا چلتا پھرتا نکل آتا ہے۔ بتاؤ اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں ؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں ؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو چاروں طرف سے بند ہے پھر اس میں پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کردیتا ہے۔ یہی دلیل ہے اللہ کے وجود پر اور اس کی توحید پر۔ حضرت ابو نواس سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا آسمان سے بارش برسنا، اس سے درختوں کا پیدا ہونا اور ان ہری ہری شاخوں پر خوش ذائقہ میووں کا لگنا ہی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کی کافی دلیل ہے ابن المعتز فرماتے ہیں افسوس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی تکذیب پر لوگ کیسے دلیر ہوجاتے ہیں حالانکہ ہر چیز اس پروردگار کی موجود اور لاشریک ہونے پر گواہ ہے بزرگوں کا مقولہ ہے کہ آسمانوں کو دیکھو ان کی بلندی ان کی وسعت، ان کے چھوٹے بڑے چمکیلے اور روشن ستاروں پر نظریں ڈالو۔ ان کے چمکنے دمکنے ان کے چلنے پھرنے، ٹھہر جانے، ظاہر ہونے اور چھپ جانے کا مطالعہ کرو۔ سمندروں کو دیکھو، جو موجیں مارتے ہوئے زمین کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اونچے نیچے مضبوط پہاڑوں کو دیکھو جو زمین میں گڑے ہوئے ہیں اور اسے ہلنے نہیں دیتے، جن کے رنگ، جن کی صورتیں مختلف ہیں۔ قسم قسم کی دوسری مخلوقات پر نظر ڈالو، ادھر سے ادھر پھرجانے والی کھیتیوں اور باغوں کو شاداب کرنے والی خوشنما نہروں کو دیکھو۔ کھیتوں، باغوں کی سبزیوں اور ان کے طرح طرح کے پھل پھول مزے مزے کے میووں پر غور کرو زمین ایک پانی ایک، لیکن شکلیں صورتیں، خوشبوئیں، رنگ ذائقہ، فائدہ الگ الگ۔ کیا یہ تمام مصنوعات تمہیں نہیں بتاتیں کہ ان کا صانع کوئی ہے ؟ کیا یہ تمام موجودات با آواز بلند نہیں کہہ رہیں کہ ان کا موجد کوئی ہے ؟ کیا یہ ساری مخلوق اپنے خالق کی ہستی اس کی ذات اور اس کی توحید پر دلالت نہیں کرتی۔ یہ ہیں وہ زور دار دلائل جو اللہ جل و علا نے اپنی ذات کے منوانے کے لئے ہر نگاہ کے سامنے پیش کر دئیے ہیں جو اس کی زبردست قدرتوں، اس کی پرزور حکمتوں، اس کی لاثانی رحمتوں، اس کے بےنظیر انعاموں، اس کے لازوال احسانوں پر دلالت کرنے کے لئے کافی وافی ہیں۔ ہم اقرار کرتے ہیں کہ نہ اس کا کوئی پالنے والا ہے، نہ اس کے سوا کوئی پیدا کرنے اور حفاظت کرنے والا، نہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہ اس کے سوا کوئی مسجود لاشک۔ ہاں دنیا کے لوگو ! سن لو میرا توکل اور بھروسہ اسی پر ہے میری انابت اور التجا اسی کی طرف ہے، میرا جھکنا اور پست ہونا اسی کے سامنے ہے، میری تمناؤں کا مرکز، میری امیدوں کا آسرا، میرا ماویٰ ، ملجا وہی ایک ہے اس کے دست رحمت کو تکتا ہوں اور اسی کا نام جپتا ہوں۔