البقرہ آية ۲۱۹
يَسْـــَٔلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۗ قُلْ فِيْهِمَاۤ اِثْمٌ کَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۖ وَاِثْمُهُمَاۤ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْـــَٔلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ۗ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ
طاہر القادری:
آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ (دنیوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے، اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں: جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)، اسی طرح اﷲ تمہارے لئے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو،
English Sahih:
They ask you about wine and gambling. Say, "In them is great sin and [yet, some] benefit for people. But their sin is greater than their benefit." And they ask you what they should spend. Say, "The excess [beyond needs]." Thus Allah makes clear to you the verses [of revelation] that you might give thought
1 Abul A'ala Maududi
پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے پوچھتے ہیں: ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو
2 Ahmed Raza Khan
تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں، تم فرمادو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں تم فرماؤ جو فاضل بچے اسی طرح اللہ تم سے آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم دنیا،
3 Ahmed Ali
آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دو ان میں بڑا گنا ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت بڑا ہے اور آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کہہ دو جو زاید ہو ایسے ہی الله تمہارے لیے آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم غور کرو
4 Ahsanul Bayan
لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے (١) اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ (٢) ہے، آپ سے بھی دریافت کرتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں، تو آپ کہہ دیجئے حاجت سے زیادہ چیز (٣) اللہ تعالٰی اسطرح سے اپنے احکام صاف صاف تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے تاکہ تم سوچ سمجھ سکو۔
٢١٩۔١ یہ گناہ تو دین کے اعتبار سے ہے۔
٢١٩۔٢ فائدوں کا تعلق دنیا سے ہے مثلاً شراب سے وقتی طور پر بدن میں چستی اور مستعدی اور بعض ذہنوں میں تیزی آجاتی ہے جنسی قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے لئے اس کا استعمال عام ہوتا ہے اس طرح اس کی خرید و فروخت نفع بخش کاروبار ہے۔ جوا میں بھی بعض دفعہ آدمی جیت جاتا ہے تو اس کو کچھ مال مل جاتا ہے لیکن یہ فائدے ان نقصانات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جو انسان کی عقل اور اس کے دین کو ان سے پہنچتے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ ان کا گناہ ان کے فائدوں سے بہت بڑا ہے اس طرح اس آیت میں شراب اور جوا کو حرام تو قرار نہیں دیا گیا تاہم اس کے لیے تمہبند باندھ دی گئی ہے اس آیت سے ایک بہت اہم نقطہ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہرچیز چاہے وہ کتنی ہی بری ہو کچھ نہ کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں۔ اور لوگ بعض فوائد بیان کر کے اپنے نفس کو دھوکہ دے لیتے ہیں دیکھنا یہ چاہیے کہ فوائد اور نقصانات کا تقابل کیا ہے خاص طور پر دین و ایمان اور اخلاق وکردار کے لحاظ سے اگر دینی نقطہ نظر سے نقصانات ومفاسد زیادہ ہیں تو تھوڑے سے دنیاوی فائدوں کی خاطر اسے جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔
٢١٩۔٣ اس معنی کے اعتبار سے یہ اخلاقی ہدایت ہے یا پھر یہ حکم ابتدائے اسلام میں دیا گیا جس پر فریضہ زکاۃ کے بعد عمل ضروری نہیں رہا تاہم افضل ضرور ہے (فتح القدیر) جو آسان اور سہولت سے ہو اور دل پر شاق (گراں) نہ گزرے۔ اسلام نے یقینا انفاق کی بڑی ترغیب دی ہے لیکن یہ اعتدال ملحوظ رکھا ہے کہ ایک تو اپنے زیر کفالت افراد کی خبر گیری اور ان کی ضرویات کو مقدم رکھنے کا حکم دیا ہے دوسرے اس طرح خرچ کرنے سے بھی منع کیا ہے کہ کل کو تمہیں یا تمہارے اہم خاندان کو دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا پڑ جائے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے پیغمبر) لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کون سا مال خرچ کریں۔ کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح خدا تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو
6 Muhammad Junagarhi
لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے ان دونوں میں بہت بڑا گناه ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائده بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناه ان کے نفع سے بہت زیاده ہے۔ آپ سے یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ تو آپ کہہ دیجیئے حاجت سے زائد چیز، اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنے احکام صاف صاف تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے، تاکہ تم سوچ سمجھ سکو،
7 Muhammad Hussain Najafi
لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ ان میں بڑا گناہ ہے۔ اگرچہ ان میں لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت بڑا ہے اور لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ (راہِ خدا میں) کیا خرچ کریں؟ کہہ دیجیے جو کچھ (تمہاری ضروریات سے) زیادہ ہو! اس طرح خدا تمہارے لئے اپنی آیات و ہدایات واضح کرتا ہے۔ تاکہ تم دنیا و آخرت کے بارے میں غور و فکر کرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ آپ سے شراب اورجوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور بہت سے فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ فائدے سے کہیں زیادہ بڑا ہے اور یہ راسِ خدا میں خرچ کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں تو کہہ دیجئے کہ جو بھی ضرورت سے زیادہ ہو. خدا اسی طرح اپنی آیات کو واضح کرکے بیان کرتا ہے کہ شاید تم فکر کرسکو
9 Tafsir Jalalayn
(اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کونسا مال خرچ کریں کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو، اس طرح خدا تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ ، خمر اور میسر یہاں دونوں اپنے وسیع معنی میں ہیں خمر کے تحت ہر وہ نشیلا مشروب داخل ہے جو عقل کو مختل کر دے اسی طرح میسِرْ بھی اپنے تمام اقسام کو شامل ہے (کل شئ فیہ قمارٌ فھُو المَیسر) (تاج) ۔ شراب اور جوا آج جس طرح فرنگی تہذیب میں جائز ہی نہیں بلکہ عین اس تہذیب کا جز ہیں اور دلیل اعزاز ہیں، اسی طرح قدیم عربی تہذیب کے بھی جزء تھے، اکیلے عرب ہی کی کیا بات ہے یہ مشغلے تمام روئے زمین پر پھیلے ہوئے تھے، ہندی تہذیب، مصری تہذیب، یونانی تہذیب، رومی تہذیب یہ تہذیبیں تو خیر جاہلی تہذیبیں تھیں ہی، اسرائیلی اور مسیحی تہذیبیں جو شرف نبوت کے تعلق سے مشرف تھیں وہ بھی اس کی روک تھام نہ کرسکیں، شریعت اسلامی ہی دنیا کا وہ واحد قانون ہے جس نے آکر ان کی قطعی حرمت کا اعلان کیا، یہ آیت سلسلہ حرمت کی سب سے پہلی آیت ہے حرمت کا قطعی حکم بعد میں نازل ہوا۔ جوئے اور شراب سے متعلق یہ پہلا حکم ہے جس میں صرف اظہار ناپسندیدگی کرکے چھوڑ دیا گیا ہے، تاکہ ذہن ان کی حرمت قبول کرنے کے لئے تیار ہوجائے، اس کے بعد شراب پی کر نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ” لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سَکَارَی “ پھر شراب، جوئے اور اس نوعیت کی تمام چیزوں کو قطعی حرام کردیا گیا۔
نئی بوتل میں پرانی شراب : علامہ آلوسی بغداری صاحب روح المعانی نے اس مقام پر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے ہمارے زمانہ کے فاسقوں نے نشیلے مشروبات کے لئے طرح طرح کے خوشنما نام اور لقب رکھ لئے ہیں، مثلاً عرق عنبری وغیرہ، لیکن نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی، اور نہ حکم شرعی بدلتا ہے نشہ آور چیزیں بہرحال حرام ہیں۔
شراب اور جوئے سے معاشرہ کی تباہی : شراب نوشی کی بدولت آج تک جتنے فسادات ہوئے اور ہو رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، گالیاں بکوانا، بےحیائی پھیلانا، حرام کاری کی طرف بلانا، دنگے کرانا طرح طرح کی مہلک بیماریاں پیدا کرنا، چوری اور ٹھگی پر آمادہ کرنا، قتل تک نوبت لے آنا، دوستوں اور عزیزوں کے درمیان جوتے چلوانا، یہ سب اسی شراب نوشی کے کارنامے ہیں مزید برآں جوئے کی ہلاکت خیزیاں بھی کچھ کم نہیں قمار بازی نے نہ معلوم کتنے خاندان اور گھرانے تباہ و برباد کر دئیے، فرنگستان کے سب سے بڑے قمار خانہ، مونٹے کارلو (Montecarlu) میں ہر سال بیشمار دولت تلف ہوتی ہے دیوالی کی راتوں میں ہندوستان میں کیا کچھ نہیں ہوتا، پھر جوئے کی جدید ترین شکلوں بیمہ کمپنیوں کے جوئے، گھوڑ دوڑ کے جوئے، لاٹریوں کے جوئے سٹے وغیرہ وغیرہ کہاں تک شمار کرائے جائیں۔
اسلام کا حیرت انگیز کارنامہ : یہ فخر تاریخ میں اسلام ہی کو حاصل ہے کہ اس نے اپنے ایک اشارہ میں اپنے حدود مملکت سے اس ام الخبائث کا خاتمہ ہی کردیا، اور امت کی نظر میں بحیثیت مجموعی لفظ شراعی اور لفظ جواری کی انتہائی تحقیر اور ذلت کا لقب ٹھہرادیا۔
سرولیم میور کی شہادت : سرولیم اپنے نہیں پرائے ہیں، معتقد نہیں غیر معتقد ہیں اس کے باوجود لکھتے ہیں : اسلام فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ ترک مے کشی کرانے میں اسلام کا میاب ہوا ہے، کوئی اور مذہب نہیں ہوا۔ (لائف آف محمد ص : ٥٢١)
10 Tafsir as-Saadi
﴿۔یَسْــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَیْسِرِ ۭ﴾ یعنی اے رسول ! اہل ایمان آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ صحابہ کرام زمانہ جاہلیت اور اسلام کے ابتدائی ایام میں شراب وغیرہ استعمال کیا کرتے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ شراب اور جوئے کے بارے میں کوئی اشکال واقع ہوا تھا اس لئے انہوں نے ان کے احکام کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ اہل ایمان پر شراب اور جوئے کے فوائد اور نقصانات واضح کردیں، تاکہ یہ وضاحت شراب اور جوئے کی تحریم اور ان کو حتمی طور پر تک کردینے کا مقدمہ بن جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے گناہ اور ان کے نقصانات اور ان کے اثرات سے آگاہ فرمایا، ان اثرات اور نقصانات میں عقل اور مال کا زائل ہونا، ان کا اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے روکنا اور عداوت اور بغض پیدا کرنا شامل ہیں۔ یہ تمام نقصانات ایسے ہیں جو ان کے مزعومہ فوائد، مثلاً شراب کی تجارت اور جوئے کے ذریعے سے اکتساب مال، شراب نوشی اور جو اکھیلتے وقت حاصل ہونے والے طرب اور فرحت وغیرہ سے، بہت بڑے ہیں۔
نیز یہ بیان نفوس کے لئے زجر و توبیخ کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ عقل مند شخص ہمیشہ اس چیز کو ترجیح دیتا ہے جس کے فوائد راجح ہوں اور ایسی چیز سے اجتناب کرتا ہے جس کے نقصانات زیادہ ہوں۔ لیکن چونکہ یہ حضرات شراب اور جوئے کے عادی اور ان سے مالوف تھے لہٰذا فوری اور حتمی طور پر ان کو چھوڑنا ان کے لئے سخت مشکل تھا اس لئے (تدریج کے طور پر) اس آیت کریمہ کو پہلے نازل فرمایا۔ چنانچہ یہ آیت اس آیت کے مقدمہ کی حیثیت رکھتی ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ﴾(لمائدہ: 5؍ 90) ” اے ایمان والے لوگو ! شراب، جوا، بت اور پانسے تو نا پاک اور شیطان کے کام ہیں“ اور آخر میں فرمایا ﴿فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ﴾ (لمائدہ:5؍ 91) ” کیا تم باز آؤ گے؟“ اور یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم، اس کی رحمت اور اس کی حکمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ پکار اٹھے( اِنْتَهَيْنَا ِنْتَهَيْنَا)” اے ہمارے رب ہم باز آئے، ہم باز آئے۔“ رہی شراب، تو اس سے مراد ہر نشہ دینے والی چیز ہے جو عقل کو ڈھانپ لے خواہ وہ کسی نوع سے تعلق رکھتی ہو۔ اور جوئے سے مراد ہر وہ کام ہے جس میں مدمقابل کو ہرانے اور خود جیتنے کے لئے مقابلہ ہو اور فریقین کی طرف سے جیتنے پر کوئی مالی عوض مقرر کیا گیا ہو مثلاً شطرنج کا کھیل اور تمام قولی اور فعلی مقابلے جن کی ہار جیت پر کوئی مالی عوض مقرر کیا گیا ہو۔ البتہ گھوڑ دوڑ، اونٹ دوڑ میں مسابقت اور تیر اندازی کا مقابلہ جائز ہے۔ کیونکہ یہ کام جہاد میں مدد دیتے ہیں اس لئے شارع نے ان مقابلوں کی رخصت دی ہے۔
یہ سوال اس بارے میں ہے کہ اہل ایمان اپنے اموال میں سے کتنی مقدار اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کریں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تمام معاملے کو نہایت آسان بنا دیا اور حکم دیا کہ وہ صرف وہی چیز خرچ کریں جو فاضل ہو۔ اس سے مراد ان کے اموال میں وہ زائد حصہ ہے جس کا تعلق ان کی ضرورتوں اور حاجتوں سے نہ ہو۔ یہ حکم ہر شخص کی طرف اس کی استطاعت کے مطابق لوٹتا ہے، خواہ وہ مال دار ہو، فقیر ہو یا متوط طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر شخص اس مال کو خرچ کرنے پر قادر ہے جو اس کی ضروریات سے فاضل ہو خواہ یہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔
بنا بریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگوں کے مال اور صدقات میں سے فاضل مال وصول کیا جائے اور انہیں کسی ایسے امر کا مکلف نہ کیا جائے جو ان پر شاق گزرتا ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کسی ایسی چیز کے خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا جس کی ہمیں خود ضرورت ہو اور نہ ہمیں کسی ایسے امر کا مکلف بنایا ہے جو ہم پر شاق گزرے، بلکہ اس نے ہمیں صرف اسی چیز کا حکم دیا ہے جو ہمارے لئے آسان اور جس میں ہماری سعادت ہو اور جس میں ہمارا یا ہمارے بھائیوں کا کوئی فائدہ ہو۔ پس وہ اس عنایت اور نوازش پر کامل ترین حمد و ثنا کا مستحق ہے۔
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حکم کو اچھی طرح واضح کردیا اور اپنے بندوں کو اسرار شریعت سے آگاہ کردیا، تو فرمایا : ﴿کَذٰلِکَ یُـبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ ﴾” اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔“ یعنی یہ آیات حق پر دلالت کرتی ہیں اور علم نافع اور حق و باطل کے درمیان فرق کے لئے کسوٹی عطا کرتی ہیں۔ ﴿ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ ۙفِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ۭ﴾ ” تاکہ تم دنیا و آخرت (کی باتوں) میں غور و فکر کرو۔“ یعنی، تاکہ تم اسرار شریعت معلوم کرنے کے لئے اپنے فکر و تدبر کو استعمال میں لاؤ اور تمہیں اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں دنیا و آخرت کے مصالح اور فوائد پوشیدہ ہیں اور تاکہ تم دنیا اور اس کے نہایت تیزی کے ساتھ اپنے اختتام کی طرف بڑھنے پر اور آخرت اور اس کے ہمیشہ باقی رہنے پر غور و فکر کرو۔ نیز یہ کہ آخرت جزا و سزا کا گھر ہے۔ تاکہ تم اسے آباد کرو۔
11 Mufti Taqi Usmani
log aap say sharab aur joye kay baaray mein poochtay hain . aap keh dijiye kay inn dono mein bara gunah bhi hai , aur logon kay liye kuch faeeday bhi hain , aur inn dono ka gunah inn kay faeeday say ziyada barha huwa hai . aur log aap say poochtay hain kay woh ( Allah ki khushnoodi kay liye ) kiya kharch keren-? aap keh dijiye kay jo tumhari zaroorat say zaeed ho " . Allah issi tarah apney ehkaam tumharay liye saaf saaf biyan kerta hai takay tum ghor-o-fiker say kaam lo .
12 Tafsir Ibn Kathir
حرمت شراب کیوں ؟
جب شراب کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر نے کہا یا اللہ تو اس کا واضح بیان فرما ان پر سورة بقرہ کی یہ آیت (يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ) 2 ۔ البقرۃ :219) نازل ہوئی حضرت عمر کو بلوایا گیا اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی لیکن حضرت عمر نے پھر بھی یہی دعا کی کہ یا اللہ اسے ہمارے لئے اور زیادہ صاف بیان فرما اس پر سورة نساء کی آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا) 4 ۔ النسآء :43) نازل ہوئی اور ہر نماز کے وقت پکارا جانے لگا کہ نشے والے لوگ نماز کے قریب بھی نہ آئیں حضرت عمر کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس آیت کی بھی تلاوت کی گئی آپ نے پھر بھی یہی دعا کی یا اللہ ہمارے لئے اس کا بیان اور واضح کر اس پر سورة مائدہ کی آیت (انما الخمر۔ الخ) اتری جب فاروق اعظم (رض) کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی اور جب ان کے کان میں آیت کے آخری الفاظ (فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ :91) پڑے تو آپ بول اٹھے انتہینا انتہینا ہم رک گئے ہم باز آئے ملاحظہ ہو مسند احمد، ترمذی اور نسائی وغیرہ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ میں بھی روایت ہے لیکن اس کا راوی ابو میسرہ ہے جن کا نام عمر بن شرحبیل ہمدانی کوفی ہے، ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ ان کا سماع حضرت عمر سے ثابت نہیں واللہ اعلم۔ امام علی بن مدینی فرماتے ہیں اس کی اسنا صالح اور صحیح ہے امام ترمذی بھی اسے صحیح کہتے ہیں ابن ابی حاتم میں حضرت عمر کے (انتہینا انتہینا) کے قول کے بعد یہ بھی ہے کہ شراب مال کو برباد کرنے والی اور عقل کو خبط کرنے والی چیز ہے یہ روایت اور اسی کے ساتھ مسند کی حضرت ابوہریرہ والی اور روایتیں سورة مائدہ کی آیت (انما الخمر) کی تفسیر میں مفصل بیان ہوں گی انشاء اللہ تعالیٰ ، امیرالمومنین حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں خمر ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانپ لے اس کا پورا بیان بھی سورة مائدہ میں ہی آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ، میسر کہتے ہیں جوے بازی کو گناہ اس ان کا وبال اخروی ہے اور فائدہ صرف دنیاوی ہے کہ بدن کو کچھ نفع پہنچے یا غذا ہضم ہو یا فضلے برآمد ہوں یا بعض ذہن تیز ہوجائیں یا ایک طرح کا سرور حاصل ہو جیسے کہ حسان بن ثابت کا جاہلیت کے زمانہ کا شعر ہے شراب پی کر ہم بادشاہ اور دلیر بن جاتے ہیں، اسی طرح اس کی خریدو فروخت اور کشید میں بھی تجارتی نفع ممکن ہے ہوجائے۔ اسی طرح جوئے بازی میں ممکن ہے جیت ہوجائے، لیکن ان فوائد کے مقابلہ میں نقصانات ان کے بکثرت ہیں کیونکہ اس سے عقل کا مارا جانا، ہوش و حواس کا بیکار ہونا ضروری ہے، ساتھ ہی دین کا برباد ہونا بھی ہے، یہ آیت گویا شراب کی حرمت کا پیش خیمہ تھی مگر اس میں صاف صاف حرمت بیان نہیں ہوئی تھی اسی لئے حضرت عمر کی چاہت تھی کہ کھلے لفظوں میں شراب کی حرمت نازل ہو، چناچہ آخرکار سورة مائدہ کی آیت میں صاف فرما دیا گیا کہ شراب اور جوا اور پانسے اور تیر سے فال لینا سب حرام اور شیطانی کام ہیں، اے مسلمانو اگر نجات کے طالب ہو تو ان سب سے باز آجاؤ، شیطان کی تمنا ہے کہ شراب اور جوئے کے باعث تم میں آپس میں عداوت وبغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے کیا اب تم ان شیطانی کاموں سے رک جانے والے بن جاؤ گے ؟ اس کا پورا بیان انشاء اللہ سورة مائدہ میں آئے گا، مفسرین تابعی فرماتے ہیں کہ شراب کے بارے میں پہلے یہی آیت نازل ہوئی، پھر سورة نساء کی آیت نازل ہوئی پھر سورة مائدہ کی آیت اتری اور شراب مکمل طور پر حرام ہوگئی۔
عفو اور اس کی وضاحتیں
(فل العفو) کی ایک قرأت قل العفو بھی ہے اور دونوں قرأتیں ٹھیک ہیں معنی قریب قریب اور ایک ہوسکتے ہیں اور بندھی بیٹھ سکتے ہیں، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ثعلبہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمارے غلام بھی ہیں بال بچے بھی ہیں اور ہم مال دار بھی ہیں کیا کچھ اللہ کی راہ میں دیں ؟ جس کے جواب میں آیت (قل العفو) کہا گیا یعنی جو اپنے بال بچوں کے خرچ کے بعد بچے، بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کی یہی تفسیر مروی ہے، حضرت طاؤس کہتے ہیں ہر چیز میں تھوڑا تھوڑا اللہ کی راہ بھی دیتے رہا کرو، ربیع کہتے ہیں افضل اور بہتر مال اللہ کی راہ میں دو ، سب اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ حاجت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرو، حضرت حسن فرماتے ہیں ایسا نہ کرو کہ سب دے ڈالو اور پھر خود سوال کے لئے بیٹھ جاؤ، چناچہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا حضور ! میرے پاس ایک دینار ہے آپ نے فرمایا اپنے کام میں لاؤ، کہا میرے پاس ایک اور ہے فرمایا اپنی بیوی پر خرچ کرو کہا حضرت ایک اور ہے فرمایا اپنے بچوں کی ضروریات پر لگاؤ کہا ایک اور بھی ہے فرمایا اسے تو اپنی عقل سے خود بھی کرسکتا ہے۔ صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے فرمایا اپنے نفس سے شروع کر پہلے اسی پر صدقہ کر پھر تو اپنے بال بچوں پر پھر بچے تو اپنے رشتہ داروں پر پھر تو اور اور حاجت مندوں پر، اسی کتاب میں ایک اور حدیث میں ہے کہ سب سے افضل خیرات وہ ہے جو انسان اپنے خرچ کے مطابق باقی رکھ کر بچی ہوئی چیز کو اللہ کی راہ میں دے اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے، پہلے انہیں دے جن کا خرچ تیرے ذمہ ہے ایک اور حدیث میں ہے اے ابن آدم جو تیرے پاس اپنی ضرورت سے زائد ہو اسے اللہ کی راہ میں دے ڈالنا ہی تیرے لئے بہتر ہے اس کا روک رکھنا تیرے لئے برا ہے ہاں اپنی ضرورت کے مطابق خرچ کرنے میں تجھ پر کوئی ملامت نہیں ابن عباس کا ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ یہ حکم زکوٰۃ کے حکم سے منسوخ ہوگیا، حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کی آیت گویا اس آیت کی تفسیر ہے اور اس کا واضح بیان ہے، ٹھیک قول یہی ہے۔ پھر ارشاد ہے کہ جس طرح یہ احکام واضح کر کے کھول کھول کر ہم نے بیان فرمائے اسی طرح ہم باقی احکام بھی وضاحت اور تشریح کے ساتھ بیان فرمائیں گے، وعدے وعید بھی صاف طور پر کھول دئیے جائیں گے تاکہ تم دنیائے فانی کی طرف بےرغبت ہو کر آخرت کی طرف متوجہ ہوجاؤ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، حضرت حسن نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا واللہ جو غور وتدبر کرے گا جان لے گا کہ دنیا بلا کا گھر ہے اور اس کا انجام فنا ہے اور آخرت جزا اور بقا کا گھر ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں فکر کرنے سے صاف معلوم ہوسکتا ہے کہ دنیا پر آخرت کو کس قدر فضیلت ہے پس عقلمند کو چاہئے کہ آخرت کی بھلائی کے جمع کرنے کی کوشش میں لگ جائے۔
یتیم کا مال اور ہماری ذمہ داری۔
پھر یتیم کے بارے میں احکام نازل ہوتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں پہلے یہ حکم ہوا تھا کہ آیت (وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ) 6 ۔ الانعام :152) یعنی یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر اس طریقہ سے جو بہترین طریقہ ہو اور فرمایا گیا تھا آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا) 4 ۔ النسآء :10) ۔ یعنی جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ بھڑکتی ہوئی جہنم میں عنقریب داخل ہوں گے تو ان آیتوں کو سن کر ان لوگوں نے جو یتیموں کے والی تھے یتیموں کا کھانا اور ان کا پانی اپنے گھر کے کھانے اور گھر کے پانی سے بالکل جدا کردیا اب اگر ان کا پکا ہوا کھانا بچ جاتا تو اسے یا تو وہ خود ہی دوسرے وقت کھائے یا خراب ہوجائے تو یوں ایک طرف تو ان یتیموں کا نقصان ہونے لگا دوسری جانب والیاں یتیم بھی تنگ آگئے کہ کب تک ایک ہی گھر میں اس طرح رکھ رکھاؤ کیا کریں تو ان لوگوں نے آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی جس پر یہ آیت (قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ ۭوَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ ) 2 ۔ البقرۃ :220) نازل ہوئی اور نیک نیتی اور دیانت داری کے ساتھ ان کے مال کو اپنے مال میں ملا لینے کی رخصت دی گئی، ابو داود و نسائی وغیرہ میں یہ روایتیں موجود ہیں اور سلف وخلف کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس کا شان نزول یہی بیان فرمایا ہے، حضرت صدیقہ (رض) فرماتی ہیں یتیم کے مال کی اس طرح دیکھ بھال سخت مشکل ہے کہ اس کا کھانا پینا ملا جلا رکھنے کی اجازت دی گئی اس لئے کہ وہ بھی دینی بھائی ہیں یا نیت نیک ہونی چاہئے، قصد اور ارادہ اگر یتیم کی نقصان رسانی کا ہے تو وہ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ سے پوشیدہ نہیں اور اگر مقصود یتیم کی بھلائی اور اس کے مال کی نگہبانی ہے تو اسے بھی وہ علام الغیوب بخوبی جانتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ تمہیں تکلیف ومشقت میں مبتلا رکھنا نہیں چاہتا جو تنگی اور حرج تم پر یتیم کا کھانا پینا بالکل جدا رکھنے میں تھا وہ اللہ تعالیٰ نے دور فرما دیا اور تم پر تخفیف کردی اور ایک ہنڈیا رکھنا اور ملا جلا کام کرنا تمہارے لئے مباح قرار دیا، بلکہ یتیم کا نگران اگر تنگ دست مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق اپنے خرچ میں لاسکتا ہے، اور اگر کسی مالدار نے اپنے بوقت ضرورت اس کی چیز کام میں لے لی تو پھر ادا کر دے، یہ مسائل انشاء اللہ وضاحت کے ساتھ سورة نساء کی تفسیر میں بیان ہوں گے۔