یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جو ایک بستی پر سے گزرا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی تو اس نے کہا کہ اﷲ اس کی موت کے بعد اسے کیسے زندہ فرمائے گا، سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لئے) اﷲ نے اسے سو برس تک مُردہ رکھا پھر اُسے زندہ کیا، (بعد ازاں) پوچھا: تُو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)؟ اس نے کہا: میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں، فرمایا: (نہیں) بلکہ تُو سو برس پڑا رہا (ہے) پس (اب) تُو اپنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیّر (باسی) بھی نہیں ہوئیں اور (اب) اپنے گدھے کی طرف نظر کر (جس کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں) اور یہ اس لئے کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیں اور (اب ان) ہڈیوں کی طرف دیکھ ہم انہیں کیسے جُنبش دیتے (اور اٹھاتے) ہیں پھر انہیں گوشت (کا لباس) پہناتے ہیں، جب یہ (معاملہ) اس پر خوب آشکار ہو گیا تو بول اٹھا: میں (مشاہداتی یقین سے) جان گیا ہوں کہ بیشک اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے،
English Sahih:
Or [consider such an example] as the one who passed by a township which had fallen into ruin. He said, "How will Allah bring this to life after its death?" So Allah caused him to die for a hundred years; then He revived him. He said, "How long have you remained?" He [the man] said, "I have remained a day or part of a day." He said, "Rather, you have remained one hundred years. Look at your food and your drink; it has not changed with time. And look at your donkey; and We will make you a sign for the people. And look at the bones [of this donkey] – how We raise them and then We cover them with flesh." And when it became clear to him, he said, "I know that Allah is over all things competent."
1 Abul A'ala Maududi
یا پھر مثال کے طور پر اُس شخص کو دیکھو، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا، جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی اُس نے کہا: "یہ آبادی، جو ہلاک ہو چکی ہے، اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا؟" اس پر اللہ نے اس کی روح قبض کر لی اور وہ سوبرس تک مُردہ پڑا رہا پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا: "بتاؤ، کتنی مدت پڑے رہے ہو؟" اُس نے کہا: "ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا" فرمایا: "تم پر سو برس اِسی حالت میں گزر چکے ہیں اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو (کہ اِس کا پنجر تک بوسید ہ ہو رہا ہے) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اِس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں" اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے بالکل نمایاں ہو گئی، تو اس نے کہا: "میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے"
2 Ahmed Raza Khan
یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پر اور وہ ڈھئی (مسمار ہوئی) پڑی تھی اپنی چھتوں پر بولا اسے کیونکر جِلائے گا اللہ اس کی موت کے بعد تو اللہ نے اسے مردہ رکھا سو برس پھر زندہ کردیا، فرمایا تو یہاں کتنا ٹھہرا، عرض کی دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا کچھ کم، فرمایا نہیں تجھے سو برس گزر گئے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بو نہ لایا اور اپنے گدھے کو دیکھ کہ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں اور یہ اس لئے کہ تجھے ہم لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اٹھان دیتے پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہوگیا بولا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے،
3 Ahmed Ali
یا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ایک شہر پر گزرا اور وہ اپنی چھتوں پر گرا ہوا تھاکہا اسے الله مرنے کے بعد کیوں کر زندہ کرے گا پھر الله نے اسے سو برس تک مار ڈالا پھر اسے اٹھایا کہا تو یہاں کتنی دیر رہا کہا ایک دن یا اس سے کچھ کم رہا فرمایا بلکہ تو سو برس رہا ہے اب تو اپنا کھانا اور پینا دیکھ وہ تو سڑا نہیں اور اپنے گدھے کو دیکھ اور ہم نے تجھے لوگوں کے واسطے نمونہ چاہا ہے اور ہڈیوں کیطرف دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح ابھار کر جوڑدیتے ہیں پھر ان پر گوشت پہناتے ہیں پھر اس پر یہ حال ظاہر ہوا تو کہا میں یقین کرتا ہو ں کہ بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے
4 Ahsanul Bayan
یا اس شخص کی مانند کہ جس کا گزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی وہ کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالٰی اسے کس طرح زندہ کرے گا (١) تو اللہ تعالٰی نے اسے مار دیا سو سال کے لیئے، پھر اسے اٹھایا، پوچھا کتنی مدت تم پر گزری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ (٢) فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ، ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، جب یہ سب ظاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے (٣)۔
٢٥٩۔١ او کالذی کا عطف پہلے واقعہ پر ہے اور مطلب یہ ہے کہ آپ نے پہلے واقعہ کی طرح اس شخص کے قصے پر نظر نہیں ڈالی جو ایک بستی سے گزرا یہ شخص کون تھا اس کی بابت بہت سے اقوال نقل کیے جا چکے ہیں زیادہ مشہور حضرت عزیر علیہ السلام کا نام ہے جس کے بعض صحابہ و تابعین قائل ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس سے پہلے واقعہ (حضرت ابراہیم علیہ السلام و نمرود) میں صانع یعنی باری تعالٰی کا اثبات تھا اور اس دوسرے واقعہ میں اللہ تعالٰی کی قدرت احیائے موتی کا اثبات ہے جسے اللہ تعالٰی نے اس شخص کو اور اس کے گدھے کو سو سال کے بعد زندہ کر دیا حتی کہ اس کے کھانے پینے کی چیزوں کو بھی خراب نہیں ہونے دیا۔ وہی اللہ تعالٰی قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا جب وہ سو سال کے بعد زندہ کر سکتا ہے تو ہزاروں سال کے بعد بھی زندہ کرنا اس کے لئے مشکل نہیں۔ ٢٥٩۔٢ کہا جاتا ہے کہ جب وہ مذکورہ شخص مرا اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا جب زندہ ہوا تو ابھی شام نہیں ہوئی تھی اس سے اس نے اندازہ لگایا کہ اگر میں یہاں کل آیا تھا تو ایک دن گزر گیا ہے اگر یہ آج ہی کا واقعہ ہے تو دن کا کچھ حصہ ہی گزرا ہے۔ جب کہ واقعہ یہ تھا کی اس کی موت پر سو سال گزر چکے تھے۔ ٢٥٩۔٣ یعنی یقین تو مجھے پہلے ہی تھا لیکن اب عینی مشاہدے کے بعد میرے یقین اور علم میں مزید پختگی اور اضافہ ہو گیا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا اتفاق گزر ہوا۔ تو اس نے کہا کہ خدا اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا۔ تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ (مرے) رہے ہو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ خدا نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہے ہو۔ اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے) کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے
6 Muhammad Junagarhi
یا اس شخص کے مانند کہ جس کا گزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی، وه کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسے کس طرح زنده کرے گا؟ تو اللہ تعالی نے اسے مار دیا سو سال کے لئے، پھر اسے اٹھایا، پوچھا کتنی مدت تجھ پر گزری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا، پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ، ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، جب یہ سب ﻇاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
یا اسی طرح تم نے وہ آدمی نہیں دیکھا (اس کے حال پر غور نہیں کیا) جو ایک ایسے گاؤں سے گزرا جس کے در و دیوار کا ملبہ اس کی گری ہوئی چھتوں پر گر پڑا تھا۔ (اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی)۔ اس (آدمی) نے (یہ منظر دیکھ کر) کہا اللہ اس گاؤں (اس کے رہنے والوں) کو کیوں کر اس کی موت کے بعد زندہ کرے گا؟ اس پر اللہ نے اسے سو سال تک کے لئے موت دے دی۔ پھر اسے زندہ کیا۔ اور کہا (پوچھا) تم کتنی دیر اس طرح پڑے رہے ہو؟ کہا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ! ۔ فرمایا بلکہ تم سو سال پڑے رہے ہو۔ ذرا اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ ذرا بھی خراب نہیں ہوئی ہیں۔ (دوسری طرف) ذرا اپنے گدھے کو دیکھو (کہ کس طرح گل سڑ گیا ہے؟) یہ (سب کچھ) اس لئے کیا ہے کہ تمہیں لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بناؤں۔ اور (گدھے) کی سڑی گلی ہڈیوں کو ہم کس طرح انہیں (جوڑ جاڑ کر) کھڑا کرتے ہیں اور پھر کس طرح ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ (اور اسے زندہ کرتے ہیں) جب اس (آدمی) پر یہ بات واضح ہوگئی۔ تو (بے ساختہ) کہا میں یقین سے جانتا ہوں کہ اللہ ہر شئی پر قادر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یا اس بندے کی مثال جس کا گذر ایک قریہ سے ہوا جس کے سارے عرش و فرش گرچکے تھے تو اس بندہ نے کہا کہ خدا ان سب کو موت کے بعد کس طرح زندہ کرے گا تو خدا نے اس بندہ کو سوسال کے لئے موت دے دی اورپھرزندہ کیا اور پوچھا کہ کتنی دیر پڑے رہے تو اس نے کہا کہ ایک دن یا کچھ کم . فرمایا نہیں . سو سال ذرا اپنے کھانے اور پینے کو تو دیکھو کہ خراب تک نہیں ہوا اور اپنے گدھے پر نگاہ کرو (کہ سڑ گل گیا ہے) اور ہم اسی طرح تمہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنانا چاہتے ہیں پھر ان ہڈیوںکو دیکھو کہ ہم کس طرح جوڑ کر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں. پھر جب ان پر یہ بات واضح ہوگئی تو بیساختہ آواز دی کہ مجھے معلوم ہے کہ خدا ہر شے پرقادر ہے
9 Tafsir Jalalayn
یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا اتفاق سے گزر ہو اس نے کہا کہ خدا اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا تو خدا نے اسکی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا کہ تم کتنا عرصہ (مرے) رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم خدا نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہو ہو اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے کی) ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے اَوْکَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ آیت کا عطف معنوی سابق آیت پر ہے اور تقدیر کلام اکثر نحویوں نے یہ نکالی ہے، ” اَرَیْتَ کَالَّذِیْ حَاجَّ اِبْرَاھِیْمَ اَوْ کالَّذِیْ مَرَّ علی قریۃٍ “ اور زمخشری، بیضاوی وغیرہ نے تقدیر ” اَرَیتَ مِثل الذی مَرَّ الخ “ نکالی ہے اور اسی کو ترجیح دی ہے۔ قرآن عزیز اور حضرت عزیر (علیہ السلام) : قرآن عزیز میں حضرت عزیر (علیہ السلام) کا نام صرف ایک جگہ سورة توبہ میں مذکور ہے، اور اس میں بھی صرف یہ کہا گیا ہے کہ یہود عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں جس طرح کہ نصاریٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں، اس ایک جگہ کے سوا قرآن میں اور کسی مقام پر ان کا نام لے کر ان کے حالات و واقعات کا تذکرہ نہیں ہے۔ وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرٌ ابْنُ اللہُ وَقَالَتِ النَّصَارَیٰ الْمَسِیْحُ ابْنُ اللہُ ذٰلِکَ قَوْلُھُمْ بِاَفْوَاھِھِمْ یُضَاھِنُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قبْلُ قَاتَلَھُمُ اللہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ ۔ ( سورة توبہ) ۔ اور یہود یوں نے کہا عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ ان کی باتیں ہیں محض ان کی زبانوں سے نکالی ہوئی، ان لوگوں نے بھی ان ہی کی سی بات کہی جو اس سے پہلے کفر کی راہ اختیار کرچکے ہیں ان پر اللہ کی لعنت یہ کدھر بھٹکے جا رہے ہیں۔ قرآن میں مذکور ایک واقعہ : البتہ مذکورہ آیت میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک برگزیدہ ہستی کا اپنے گدھے پر سوار ایک ایسی بستی سے گزر ہوا جو بالکل تباہ و برباد ہو کر کھنڈر ہوچکی تھی وہاں نہ کوئی مکان تھا اور نہ مکین، ان بزرگ نے جب یہ دیکھا تو تعجب اور حیرت سے کہا ایسا کھنڈر اور تباہ حال ویرانہ پھر کیسے آباد ہوگا ؟ اور یہ مردہ بستی کس طرح دوبارہ زندگی اختیار کرے گی ؟ یہاں تو بظاہر کوئی بھی ایسا سبب نظر نہیں آتا، یہ بزرگ ابھی اسی فکر میں غرق تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی جگہ ان کی روح قبض کرلی اور سو برس تک اسی حالت میں ڈالے رکھا، یہ مدت گزر جانے کے بعد ان کو دوبارہ زندگی بخشی، تب ان سے کہا بتاؤ ! کتنے عرصہ اس حالت میں رہے ؟ وہ جب موت کی آغوش میں سوئے تھے تو دن چڑھنے کا وقت تھا، اور جب دوبارہ زندگی پائی تو غروب آفتاب کا وقت تھا، اس لیے انہوں نے جواب دیا ایک دن یا چند گھنٹے۔ اللہ نے فرمایا ایسا نہیں ہے، بلکہ تم سو برس تک اسی حالت میں رہے، اور اب تمہارے تعجب اور حیرت کا یہ جواب ہے کہ تم ایک طرف اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ ان میں مطلق کوئی تغیر نہیں آیا، اور دوسری جانب اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کا جسم گل سڑ کر صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے، اور پھر ہماری قدرت کا اندازہ کرو کہ جس چیز کو چاہا کہ محفوظ رہے تو سو برس کے اس طویل عرصہ میں کسی بھی اس پر موسمی تغیرات نے اثر نہ کیا اور محفوظ وسالم رہی اور جس کے بارے میں ارادہ کیا کہ گل سڑ جائے وہ گل سڑگئی اور اب تماری آنکھوں کے دیکھتے ہی ہم اس کو دوبارہ زندگی بخشے دیتے ہیں، اور یہ سب کچھ اس لیے کیا تاکہ ہم تم کو اور تمہارے واقعہ کو لوگوں کیلئے نشان قدرت بنادیں اور تم یقین کے ساتھ ساتھ عینی مشاہدہ بھی کرلو۔ تب انہوں نے اظہار عبودیت کے بعد یہ اقرار کیا کہ بلاشبہ تیری قدرت کاملہ کے لیے یہ سب کچھ آسان ہے اور مجھ کو علم الیقین کے بعد عین الیقین کا درجہ ہو حاصل ہوگیا۔ اَوْکَالَّذِیْ مَرَّ عَلیٰ قَرْیَۃٍ (الآیۃ) ان آیات کی تفسیر میں یہ سوال پیدا ہوتا کہ وہ بزرگ شخص کون تھا جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تو اس کے جواب میں مشہور قول یہ ہے کہ یہ حضرت عزیز (علیہ السلام) تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا کہ تم یروشلم جاؤ۔ ہم اس کو دوبارہ آباد کردیں گے جب یہ وہاں پہنچے اور شہر کو تباہ اور برباد پایا تو بر بنائے بشریت یہ کہہ اٹھے کہ اس مردہ بستی کو دوبارہ کیسے زندگی ملے گی ؟ ان کا یہ قول بہ شکل انکار نہ تھا بلکہ تعجب اور حیرت کے ساتھ ان اسباب کے متلاشی تھے جن کے ذریعہ سے اللہ اپنے وعدہ کو پورا کرنے والا تھا، لیکن اللہ کو اپنے برگزیدہ بندے اور نبی کی یہ بات بھی پسند نہیں آئی کیونکہ ان کے لئے یہ کافی تھا کہ خدا نے دوبارہ اس بستی کی زندگی کا وعدہ فرمایا ہے۔ چناچہ ان کے ساتھ وہ معاملہ پیش آیا جو مذکورہ بالاسطور میں بیان ہوا، اور جب وہ زندہ کئے گئے تو یروشلم (بیت المقدس) آبار ہوچکا تھا۔ حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت عبد اللہ بن سلام اور قتادہ، سلیمان، حسن (رض) کا رجحان اسی جانب ہے کہ یہ واقعہ حضرت عزیز (علیہ السلام) سے متعلق ہے۔ (تفسیر ابن کثیر) ۔ اور وہب بن منبہ اور عبد اللہ بن عبید کا اور ایک روایت میں عبد اللہ بن سلام کا قول یہ ہے کہ یہ شخص حضرت ارمیاہ (یرمیاہ) نبی تھے، ابن جریر طبری نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ (تفسیر و تاریخ ابن کثیر) تاریخی بحث : اور یہ اس لیے کہ جب قرآن عزیز نے اس ہستی کا نام ذکر نہیں کیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس سلسلہ میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے اور صحابہ وتابعین سے جو آثار منقول ہیں ان کا ماخذ بھی وہ روایات و اقوال ہیں جو وہب بن منبہ، کعب احبار اور حضرت عبد اللہ بن سلام تک پہنچتے ہیں جو کہ اسرائیلی روایات و واقعات سے منقول ہیں۔ اب واقعہ سے متعلق شخصیت کی تحقیق کے لئے صرف ایک ہی راہ باقی رہ جاتی ہے کہ تورات اور تاریخی مصادر سے اس کو حل کیا جائے، مجموعہ تورات کے صحائف انبیاء اور تاریخی بیانات پر غور کرنے سے یہ تفصیلات سامنے آتی ہیں کہ یہ واقعہ حضرت یرمیاہ نبی سے متعلق ہے مزید تفصیل کے لیے قصص القرآن مصنفہ حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی (رح) تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ ایک اور دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اکیلا اللہ ہی خالق ہے۔ وہی سب فیصلے کرتا ہے۔ اسی کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے﴿ أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا ﴾” یا اس شخص کے مانند جس کا گزر ایک بستی پر ہوا، جو چھتوں کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی۔“ یعنی اس کے باشندے مرکھپ گئے تھے اور چھتیں گر کر ان کے اوپر دیواریں گر چکی تھیں، وہاں کوئی نہیں رہتا تھا بلکہ بالکل ویران ہوچکی تھی۔ وہ شخص وہاں کھڑا ہو کر تعجب سے بولا ﴿َ أ نَّىٰ يُحْيِي هَـٰذِهِ اللَّـهُ بَعْدَ مَوْتِهَا﴾” اس کی موت کے بعد اللہ اسے کس طرح زندہ کرے گا؟“ اسے یہ چیز ناممکن محسوس ہوئی، اس نے اللہ کی قدرت کا صحیح اندازہ نہ کیا۔ اللہ نے اس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایا تو خود اس کی ذات میں اور اس کے گدھے میں اپنی قدرت کا مشاہدہ کرا دیا۔ اس کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی تھا۔﴿ فَأَمَاتَهُ اللَّـهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ﴾” پس اللہ نے اسے سو سال کے لئے مار دیا۔ پھر اسے اٹھایا، پوچھا : کتنی مدت تجھ پر گزری؟ کہنے لگا : ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔“ اسے یہ موت انتہائی مختصر محسوس ہوئی، کیونکہ اس کے احساسات ختم ہوچکے تھے۔ اسے اپنی صرف وہ حالت یاد تھی جو اسے موت سے پہلے معلوم تھی۔ اسے بتایا گیا﴿ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ﴾” بلکہ تو سو سال تک رہا۔ پس اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا۔“ سالوں کی مدت گزرنے کے باوجود اور مختلف اوقات گزرنے کے باوجود اس میں تبدیلی نہیں آئی۔ اس میں اللہ کی قدرت کی بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ اس نے کھانے پینے کی چیزوں کو تبدیل یا خراب ہونے سے بچائے رکھا حالانکہ یہ چیزیں سب سے جلدی خراب ہوتی ہیں۔ ﴿وَانظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ ﴾” اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ۔“وہ مر چکا تھا۔ اس کا گوشت اور چمڑا ریزہ ریزہ ہو چکا تھا۔ اس کی ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ ﴿وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ﴾ ’’اور تاکہ ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشانی بنائیں۔“ جس سے اللہ کی قدرت ظاہر ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کر کے قبروں سے اٹھا سکتا ہے۔ تاکہ یہ ایسی مثال بن جائے جس کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیں اور انہیں معلوم ہوجائے کہ پیغمبر نے جو خبریں دی ہیں وہ واقعی سچی ہیں۔﴿ وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ﴾” اور تو دیکھ کر ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں۔“ اور انہیں ایک دوسری سے جوڑتے ہیں۔﴿ ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ﴾پھر ہم ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔“ پس اس نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ ہوتے دیکھ لیا۔﴿ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ ﴾” جب یہ سب ظاہر ہوچکا۔“ اور اسے اللہ کی قدرت کا علم ہوگیا تو کہنے لگا ﴿ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾” میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص موت کے بعد کی زندگی کا منکر تھا۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوئی کہ اسے ہدایت دے کر لوگوں کے لئے نشانی اور قیامت کی دلیل بنا دے۔ اس موقف کے تین دلائل ہیں : (١) اس نے کہا ﴿أَنَّىٰ يُحْيِي هَـٰذِهِ اللَّـهُ بَعْدَ مَوْتِهَا﴾ ” اس کی موت کے بعد اللہ اسے کس طرح زندہ کرے گا؟“ اگر وہ نبی یا نیک بندہ ہوتا تو یوں نہ کہتا۔ (٢) اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی خوراک، اس کے مشروب، اس کے گدھے اور اس کی ذات میں اپنی نشانی دکھا دی، تاکہ وہ جس چیز کا انکار کرتا ہے اسے آنکھوں سے دیکھ کر اقرار کرلے۔ آیت میں یہ ذکر نہیں کہ وہ بستی بعد میں پہلے کی طرح آباد ہوگئی تھی۔ نہ سیاق کلام ہی سے اس کا اشارہ ملتا ہے۔ نہ اس کا کوئی خاص فائدہ ہی ہے۔ ایک بستی جو بے آباد ہوگئی۔ بعد میں اس کے باشندوں نے واپس آ کر یا دوسرے لوگوں نے رہائش اختیار کر کے اسے آباد کردیا تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ اللہ مردوں کو زندہ کرے گا؟ اصل دلیل تو خود اسے اور اسکے گدھے کو زندہ کرنے میں اور اس کے سامان خورد و نوش کو اصلی حالت میں باقی رکھنے میں ہے۔ (3) اللہ نے فرمایا: ﴿ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ﴾” جب اس کے لئے ظاہر ہوگیا۔“ یعنی جو چیز اسے معلوم نہیں تھی، اس سے مخفی تھی، وہ ظاہر اور واضح ہوگئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارا قول صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔
11 Mufti Taqi Usmani
ya ( tum ney ) uss jaisay shaks ( kay waqaey ) per ( ghor kiya ) jiss ka aik basti per aesay waqt guzar huwa jab woh chatton kay ball giri parri thi ? uss ney kaha kay : Allah uss basti ko uss kay marney kay baad kaisay zinda keray ga-? phir Allah ney uss shaks ko so saal tak kay liye moat di , aur uss kay baad zinda kerdiya . ( aur phir ) poocha kay tum kitney arsay tak ( iss halat mein ) rahey ho-? uss ney kaha : aik din ya aik din ka kuch hissa ! Allah ney kaha : nahi ! balkay tum so saal issi tarah rahey ho . abb apney khaney peenay ki cheezon ko dekho kay woh zara nahi sarren . aur ( doosri taraf ) apney gadhay ko dekho ( kay gal sarr ker uss ka kiya haal hogaya hai ) aur yeh hum ney iss liye kiya takay hum tumhen logon kay liye ( apni qudrat ka ) aik nishan bana den , aur ( abb apney gadhay ki ) haddiyon ko dekho kay hum kiss tarah unhen uthatay hain , phir unn ko gosht ka libas pehnatay hain ! chunacheh jab haqeeqat khul ker uss kay samney aagae to woh bol utha kay : mujhay yaqeen hai Allah her cheez per qudrat rakhta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
سو سال بعد اوپر جو واقعہ حضرت ابراہیم کے مباحثہ کا گزرا، اس پر اس کا عطف یہ، یہ گزرنے والے یا تو حضرت عزیز تھے جیسا کہ مشہور ہے یا ارمیا بن خلقیا تھے اور یہ نام حضرت خضر کا ہے، یا خرقیل بن بوار تھے، یا بنی اسرائیل میں کا ایک شخص تھا، یہ بستی بیت المقدس تھی اور یہی قول مشہور ہے، بخت نصر نے جب اسے اجاڑا یہاں کے باشندوں کو تہ تیغ کیا، مکانات گرا دئیے اور اس آباد بستی کو بالکل ویران کردیا، اس کے بعد یہ بزرگ یہاں سے گزرے، انہوں نے دیکھا کہ ساری بستی تہ وبالا ہوگئی ہے، نہ مکان ہے نہ مکین، تو وہاں ٹھہر کر سوچنے لگے کہ بھلا ایسا بڑا پررونق شہر جو اس طرح اجڑا ہے یہ پھر کیسے آباد ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے خود ان پر موت نازل فرمائی، تو اسی حالت میں رہے اور وہاں ستر سال کے بعد بیت المقدس پھر آباد ہوگیا، بھاگے ہوئے بنی اسرائیل بھی پھر آپہنچے اور شہر کھچا کھچ بھر گیا، وہی اگلی سی رونق اور چہل پہل ہوگئی، اب سو سال کامل کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کیا اور سب سے پہلے روح آنکھوں میں آئی تاکہ اپنا جی اٹھنا خود دیکھ سکیں، جب سارے بدن میں روح پھونک دی گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے پچھوایا کہ کتنی مدت تک تم مردہ رہے ؟ جس کے جواب میں کہا کہ ابھی تک ایک دن بھی پورا نہ ہوا، وجہ یہ ہوئی کہ صبح کے وقت ان کی روح نکلی تھی اور سو سال کے بعد جب جئے ہیں تو شام کا وقت تھا، خیال کیا کہ یہ وہی دن ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ایک سو سال کامل تک مردہ رہے، اب ہماری قدرت دیکھو کہ تمہارا توشہ بھتا جو تمہارے ساتھ تھا، باوجود سو سال گزر جانے کے بھی ویسا ہی ہے، نہ سڑا نہ خراب ہوا ہے۔ یہ توشہ انگور اور انجیر اور عصیر تھا نہ تو یہ شیرہ بگڑا تھا نہ انجیر کھٹے ہوئے تھے نہ انگور خراب ہوئے تھے بلکہ ٹھیک اپنی اصلی حالت پر تھے، اب فرمایا یہ تیرا گدھا جس کی بوسیدہ ہڈیاں تیرے سامنے پڑی ہیں، انہیں دیکھ تیرے دیکھتے ہوئے ہم اسے زندہ کرتے ہیں، ہم خد تیری ذات کو لوگوں کیلئے دلیل بنانے والے ہیں کہ انہیں قیامت کے دن اپنے دوبارہ جی اٹھنے پر یقین کامل ہوجائے، چناچہ ان کے دیکھتے ہوئے ہڈیاں اٹھیں اور ایک ایک کے ساتھ جڑیں، مستدرک حاکم میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرأت ننشزھا زے کے ساتھ ہے اور ننشزھا رے کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے یعنی زندہ کریں گے، مجاہد کی قرأت یہی ہے، سدی وغیرہ کہتے ہیں یہ ہڈیاں ان کے دائیں بائیں پھیل پڑی تھیں اور بوسیدہ ہونے کی وجہ سے ان کی سفیدی چمک رہی تھی، ہوا سے یہ سب یکجاں ہوگئیں، پھر ایک ایک ہڈی اپنی اپنی جگہ جڑ گئی اور ہڈیوں کا پورا ڈھانچہ قائم ہوگیا جس پر گوشت مطلق نہ تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے گوشت، رگیں، پٹھے، اور کھال پہنا دی، پھر فرشتے کو بھیجا جس نے اس کے نتھنے میں پھونک ماری، بس اللہ کے حکم سے اسی وقت ندہ ہوگیا اور آواز نکالنے لگا، ان تمام باتوں کو دیکھ کر حضرت عزیز دیکھتے رہے اور مدت کی یہ ساری کاریگری ان کی آنکھوں کے سامنے ہی ہوئی، جب یہ سب کچھ دیکھ چکے تو کہنے لگے اس بات کا علم تو مجھے تھا ہی کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے لیکن اب میں نے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیا، تو میں اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے زیادہ علم و یقین والا ہوں، بعض لوگوں نے اعلم کو اعلم بھی پڑھا ہے، یعنی اللہ مقتدر نے فرمایا کہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر قدرت ہے۔