البقرہ آية ۲۶۱
مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِىْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍۗ وَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۤءُ ۗ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ
طاہر القادری:
جو لوگ اﷲ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں)، اور اﷲ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے،
English Sahih:
The example of those who spend their wealth in the way of Allah is like a seed [of grain] which grows seven spikes; in each spike is a hundred grains. And Allah multiplies [His reward] for whom He wills. And Allah is all-Encompassing and Knowing.
1 Abul A'ala Maududi
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں اِسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی
2 Ahmed Raza Khan
ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے،
3 Ahmed Ali
ان لوگوں کی مثال جو الله کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں ایسی ہے کہ جیسے ایک دانہ کہ اگائے سات بالیں ہر بال میں سو سو دانے اور الله جس کے واسطے چاہے بڑھاتا ہے اور الله بڑی وسعت جاننے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سے سو دانے ہوں، اور اللہ تعالٰی اسے چاہے اور بڑھا دے (١) اور اللہ تعالٰی کشادگی والا اور علم والا ہے۔
٢٦١۔١ یہ نفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت ہے اس سے مراد اگر جہاد ہے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ جہاد میں خرچ کی گئی رقم کا یہ ثواب ہوگا اور اگر اس سے مراد تمام مصارف خیر ہیں تو یہ فضیلت نفقات و صدقات نافلہ کی ہو گی اور دیگر نیکیوں کی۔ اور ایک نیکی کا اجر دس گنا کی ذیل میں آئے گا۔ (فتح القدیر) گویا نفقات و صدقات کا عام اجر و ثواب دیگر امور خیر سے زیادہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اس اہمیت وفضیلت کی وجہ بھی واضح ہے کہ جب تک سامان و اسلحہ جنگ کا انتظام نہیں ہوگا فوج کی کارکردگی بھی صفر ہوگی اور سامان اور اسلحہ رقم کے بغیر مہیا نہیں کیے جا سکتے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے۔ وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی واﻻ اور علم واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
جو لوگ خدا کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس ایک دانے کے مثل ہے جس نے (اپنے بوئے جانے کے بعد) سات بالیاں اگائیں اور ہر بالی میں سو دانے ہیں اور خدا جس کے لئے چاہتا ہے اور بڑھا دیتا ہے (دونا کر دیتا ہے) خدا بڑی وسعت والا اور بڑا جاننے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو لوگ راسِ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو سو دانے ہوںاور خدا جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کردیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے، وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے
آیت نمبر ٢٦١ تا ٢٦٦
ترجمہ : جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ کے راستہ میں یعنی اس کی اطاعت میں صرف کرتے ہیں ان کے مال کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ کہ اس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اسی طرح ان کا (راہ خدا) میں صرف کیا ہوا مال سات سو گنا افزوں ہوتا ہے، اور اللہ جسے چاہتا ہے اس سے بھی زیادہ دیتا ہے اور اللہ کا فضل بڑا وسیع ہے (اور) وہ اس بات سے واقف بھی ہے کہ افزونی کا کون مستحق ہے ؟ جو لوگ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کرنے کے بعد جس پر خرچ کیا ہے مثلاً یہ کہہ کر احسان نہیں جتاتے کہ میں نے اس کے ساتھ احسان کیا اور میں نے اس کی (خستہ) حالت سدھا ردی اور نہ اس کو تکلیف پہنچاتے ہیں اس احسان کا اس شخص کے سامنے تذکرہ کرکے کہ جس کا واقف ہونا یہ شخص پسند نہیں کرتا، (علی ہذا القیاس) ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، یعنی ان کے خرچ کا ثواب اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اعر نہ وہ غمگین ہوں گے ایک میٹھا بول (اچھی بات) اور سائل کو اچھا جواب دینا اور اس کے اصرار کو نظر انداز کرنا اس خیرات سے بہتر ہے کہ جس کے پیچھے احسان جتلا کر اور سوال پر عار دلا کر ایذا رسانی کی ہو، اور اللہ بندوں کے صدقے سے بےنیاز ہے اور احسان جتلانے والے اور تکلیف پہنچانے والے کی سزا کو مؤخر کرکے بردبار ہے، اے ایمان والو تم اپنے صدقات کو یعنی ان کے ثواب کو احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر اس شخص کے مانند ضائع نہ کرو۔ یعنی اس شخص کے صدقہ کے ضائع کرنے کے مانند کہ جو اپنے مال کو لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا حال یہ کہ وہ منافق ہے۔ اس کی مثال اس چکنے پتھر کی ہے کہ جس پر مٹی پڑی ہو۔ اور اس پر زور کی بارش ہو سو اس کو بالکل صاف کرکے رکھ دے کہ اس پر کچھ باقی نہ رہے۔ (ایسے لوگ) کچھ بھی حاصل نہ کرسکیں گے اپنی کمائی (صدقات) سے، یہ جملہ مستانفہ ہے ریاکاری کے طور پر خرچ کرنے والے منافق کی مثال بیان کرنے کے لیے۔ اور (لایقدرون) کو جمع لایا گیا ہے اَلَّذِیْ کے معنی کی رعایت کرتے ہوئے۔ یعنی آخرت میں عمل خیر کا ثواب نہ پائیں گے جیسا کہ چکنے پتھر پر اس مٹی میں سے کچھ باقی نہیں رہتا جو اس پر تھی، بارش کے اس مٹی کو بہالے جانے کی وجہ سے۔ اور اللہ تعالیٰ کافروں کو راہ ہدایت نہ دکھائے گا اور ان لوگوں کے لیے (راہ خدا میں) خرچ کرنے کی مثال جو اپنے مالوں کو محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے دل کے پورے ثبات (وقرار) کے ساتھ خرچ کرتے ہیں یعنی اس پر ثواب حاصل کرنے کے لئے، بخلاف منافقین کے کہ وہ ثواب کی توقع نہیں رکھتے ان کے ثواب کے منکر ہونے کی وجہ سے اور مِنْ ابتدائیہ ہے، اس باغ کی ہے جو بلند سطح پر ہو (رُبْوَۃ) میں راء کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ۔ وہ جگہ جو مرتفع اور مستوی ہو۔ اور اس پر زور دار بارش ہوئی ہو جس کی وجہ سے اس (باغ) نے دوسرے باغوں کے پھل دینے کے مقابلے میں دوگنا پھل دیا ہو۔ اُکُلُھا۔ میں کاف کے ضمہ اور سکون کے ساتھ۔ (مراد) اس کے پھل ہیں اور اگر اس پر زوردار بارش نہ بھی ہو تو ہلکی ہی کافی ہے۔ یعنی اگر ہلکی بارش بھی اس پر ہوجائے تو اس کے بلند مقام پر ہونے کی وجہ سے وہی کافی ہوجاتی ہے، مطلب یہ کہ اس میں پھل آتے ہیں اور بڑھتے ہیں بارش خواہ زیادہ ہو یا کم ہو۔ اسی طرح مذکورین کے صدقات عند اللہ زیادہ ہوتے ہیں اور بڑھتے ہیں خواہ وہ صدقات کم ہوں یا زیادہ۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس پر نظر رکھے ہوئے ہے، لہٰذا وہ تم کو اس کی جزاء دے گا۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا ایک باغ کھجوروں کا اور انگوروں کا ہو جس کے تحت نہریں بہتی ہوں اور اس کے لیے اس باغ میں اور بھی ہر قسم کے میوے ہوں اور اس کا بڑھاپا آچکا ہو جس کی وجہ سے وہ کمانے میں کمزور پڑگیا ہو۔ اور اس کے کمزور کم سن بچے ہوں جو کمانے پر قادر نہ ہوں۔ اس باغ پر ایک بگولہ آئے (یعنی) شدید آندھی، کہ جس میں آگ ہو، جس کی وجہ سے وہ (باغ) جل جائے سو اس نے باغ کو اس وقت کھویا ہو کہ جب وہ آخرت میں اس کا سخت محتاج ہو۔ اور وہ اور اس کے بچے عاجز متحیر رہ گئے ہوں کہ ان کے لیے (گزر بسر کرنے کی) اور کوئی صورت نہ ہو۔ یہ ریاکار اور احسان جتلانے والے کی تمثیل ہے اس کے ضائع ہونے اور اس کے نفع نہ پہنچانے میں ایسے وقت میں جب کہ (وہ ریاکار) آخرت میں اس (کے ثواب) کا شدید محتاج ہو۔ اور استفہام نفی کے معنی میں ہے، اور ابن عباس (رض) منقول ہے کہ یہ اس شخص کی مثال ہے جس نے نیک اعمال کئے۔ پھر اس پر شیطان مسلط کردیا گیا تو اس نے معصیت کے عمل شروع کر دئیے یہاں تک کہ اس نے اپنے اعمال کو غرق (ضائع) کردیا۔ اللہ تمہارے لیے اسی طرح جس طرح بیان کی گئیں کھول کر نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم اس میں غور وفکر کرو اور عبرت حاصل کرو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
مَثْلُ مضاف اَلَّذِیْنَ موصول، یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہ جملہ ہو کر صلہ، صلہ موصول سے مل کر مثل کا مضاف الیہ، مضاف، مضاف الیہ سے مل کر مبتداء (کَمَثَل حبَّۃٍ ) حِبَّۃٍ موصوف ہے انبتت الخ جملہ ہو کر صفت ہے موصوف صفت سے مل کر محذوف کے متعلق ہو کر مبتداء کی خبر ہے۔ مفسر علام نے صفۃ، کا اضافہ کرکے بتادیا کہ مثل بمعنی مثال نہیں ہے بلکہ بمعنی صفت ہے
سوال : نفقات کے اضافہ کا کیا مقصد ہے ؟
جواب : اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ مشبہ ہے اور کاف حرف تشبیہ ہے اور مثل حبۃ الخ مشبہ بہ ہے مشبہ اور مشبہ بہ میں موافقت نہ ہونے کی وجہ سے تشبیہ درست نہیں ہے اس لیے کہ مشبہ بہ (الذین منفقون) از قبیل حیوانات ہے اور مشبہ (حبۃ) ازقبیل جمادات ہے لہٰذا تشبیہ مناسب نہیں ہے، اس کے دو جواب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ مشبہ کی جانب حذف مانا جائے جیسا کہ مفسر علام نے لفظ نفقات محذوف مانا ہے، اب تقدیر عبارت یہ ہوگی، مَثل نفقۃ الَّذین ینفقون کمثل حَبَّۃٍ اَنْبَتت الخ۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ مشبہ بہ کی جانب حذف مانا جائے اس صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی، مثل الَّذینَ ینفقون اَمْوَالَھُمْ الخ کمثل زارع حبَّۃٍ ۔
قولہ : اکثر مِن ذٰلک اس حذف سے اشارہ کردیا کہ یُصٰعفُ کا مفعول محذوف ہے۔
سوال : مُضاعفت تو ماقبل سے مفہوم ہورہی ہے دوبارہ ذکر کرنے سے تکرار معلوم ہوتا ہے اس کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب : اکثرَ مِن ذٰلک کا اضافہ کرکے اس سوال کا جواب دیا ہے یعنی ماسبق سے جو مفہوم ہو رہا ہے اس سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں گے۔
قولہ : قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ، موصوف صفت سے ملکر معطوف علیہ اور مغفرۃ معطوف، معطوف معطوف علیہ سے ملکر مبتداء خَیْرٌ مِنْ صدقۃ الخ خبر۔ سوال : خَیْرٌ نکرہ ہے اس کا مبتداء بننا کیسے درست ہے ؟ جواب : چونکہ اس کا معطوف علیہ معرفہ ہے جس کی وجہ سے معطوف کا مبتداء بننا درست ہوگیا۔
سوال : معطوف علیہ قَوْلٌ ہے جو کہ نکرہ ہے اس کا خود مبتداء بننا صحیح نہیں ہے ؟ جواب : جب نکرہ موصوفی بالصفت ہو تو اس کا مبتداء بننا صحیح ہوتا ہے، قولٌ موصوف معروف صفت ہے لہٰذا اس کا مبتداء واقع ہونا درست ہوگیا۔
قولہ : ای اُجُوْرَھَا۔ سوال : اُجور مضاف محذوف ماننے کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب : نفس صدقہ یعنی مال صدقہ کے باطل ہونے کا کوئی مفہوم نہیں ہے اس لیے کہ احسان جتانے یا اذیت پہنچانے سے مال صدقہ ضائع اور باطل نہیں ہوجاتا بلکہ اس کا اجر وثواب ضائع ہوجاتا ہے اسی شبہ کو رفع کرنے کے لیے اُجُوْرَھَا کا اضافہ کیا ہے۔
قولہ : جمع الضمیر باعتبار معنیٰ الذی : یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یَقْدِرون، کی ضمیر، اَلَذی ینفقُ کی طرف راجع ہے جو کہ مفرد ہے اور یَقْدِرُوْنَ میں ضمیر جمع ہے۔ جواب : اَلَّذی، اگرچہ لفظ کے اعتبار سے مفرد ہے مگر معنی کے اعتبار سے جمع ہے، کما فی قول الشاعر :۔
وَاِن الّذِیْ حَانَت بفلجٍ دِمَاؤھم ھُمُ القوم کلُّ القوم
فلج، بصرہ میں ایک مقام کا نام ہے، وہ شخص جس کا خون مقام فلج میں ضائع ہوگیا درحقیقت وہی پوری قوم کے قائم مقام تھا، مقام استشہاد، ھُمْ ضمیر ہے جو کہ اَلّذِی کی طرف راجع ہے۔
قولہ : نفقات یہاں بھی حذف مضاف کی وجہ مشبہ اور مشبہ بہ میں موافقت پیدا کرنا ہے کما مرّ قریباً ۔
قولہ : اَعْطَتْ ، اٰتَتْ ، کی تفسیر اعطت سے کرکے اشارہ کردیا کہ اٰتت ایتاءٌ سے ہے نہ کہ اِتْیَان سے۔
اللغۃ والبلاغۃ
السُّنبلَۃ، خوشہ، بالی، مشہور و معروف شئ ہے جو کہ گندم وغیرہ میں نکلتی ہے، اس کا وزن فُنْعُلَۃٌ، ہے، نون زائدہ ہے اَسْبَلَ الزرعُ اس وقت بولتے ہیں جب کھیتی میں بال نکل آتی ہے اور بعض حضرات نے سنبل سے مشق مان کی نون کو اصلی بھی کہا ہے۔
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ (الآیۃ) اس آیت میں تشبیہ تمثیل ہے (یعنی تشبیہ مرکب) اس میں مُنْفِقِیْن فی سبیل اللہ کے نفقہ کو مضاعفت میں دانہ گندم کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، یعنی جس طرح ایک دانہ سے بہت سی بالیں اور ہر بال میں سینکڑوں دانے پیدا ہوتے ہیں اسی طرح اخلاص کے ساتھ راہ خدا میں خرچ کرنے والے کا اجر وثواب اضعافًا مضاعفۃً ہوتا ہے، وجہ تشبیہ مضاعفت ہے، تشبیہ تمثیلی یا تشبیہ مرکب میں وجہ تشبیہ متعدد چیزوں سے اخذ کی جاتی ہے، اخلاص و ایمان کے ساتھ راہ خدا میں خرچ کرنا مشبہ ہے جو کہ مرکب ہے اور خوشہ گندم جس میں دانے زیادہ ہوں مشبہ بہ ہے یہ بھی مرکب ہے لہٰذا مذکورہ آیت میں تشبیہ مرکب ہے جس میں تشبیہ کے چاروں رکن مذکور ہیں، مشبہ، مشبہ بہ، وجہ شبہ، اور حرف تشبیہ۔
یٰایَّھُا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتُبْطِلُوْا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالہٗ رِئَاءَ النَّاسِ (الآیۃ) اس آیت میں بھی تشبیہ مرکب ہے۔ ریا کاری کے طور پر خرچ کرنے والے کی کیفیت کو اس صاف اور چکنے پتھر کی کیفیت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس پر ریت پڑا ہو اور زور دار بارش میں وہ ریت مٹی بہہ کر صاف ہوجائے جس طرح یہ پتھر بارش کی وجہ سے صاف ہوگیا اسی طرح اس شخص کے نفاق کی وجہ سے اس کے نفاق کا اجر وثواب بھی ضائع ہوگیا۔
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ ابْتِغَآءُ مَرْضَاتِ اللہِ (الآیۃ) اس آیت میں بھی تشبیہ مرکب ہے اس لیے کہ اخلاص کیساتھ اور رضاء الٰہی کے لیے راہ خدا میں خرچ کرنے والے کو اس باغ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو بلندی پر ہو اور جس میں ہرحال میں پھل بکثرت آئیں خواہ بارش زیادہ ہو یا کم۔
قولہ : نَخِیْلٌ کہا گیا ہے کہ یہ اسم جمع ہے اس کا واحد نخلۃٌ ہے، اور کہا گیا ہے کہ نخل کی جمع ہے اور نخل اسم جنس ہے۔
قولہ : اِعصارٌ، تیز آندھی، بگولہ، لو یا پالے والی ہوا، جو درختوں کو اپنی سمیت کی وجہ سے جھلس دے۔
اَیَوَدّ اَحَدُکُمْ اَنْ تَکُوْنَ لَہٗ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ (الآیۃ) اس آیت میں تشبیہ تمثیل (تشبیہ مرکب) استعمال ہوئی، مشبہ بہ ایک ایسا شخص ہے کہ جس نے زندگی بھر آبپاری کرکے ایک عمدہ باغ تیار کیا ہو جس میں ہر قسم کے پھل ہوں اور اس کے پاس گذر و بسر کرنے کا صرف وہی واحد ذریعہ ہو اور یہ شخص پڑھاپے کی عمر کو پہنچ گیا ہو ضعف و نقاہت کی وجہ سے کسب کرنے کی طاقت بھی نہ رہی ہو اور اس کے ننھے ننھے بچے بھی ہوں وہ بچے اس کا سہارا تو کیا بنتے الٹے اس کے لئے بوجھ بنے ہوئے ہوں، ایسی صورت میں اس باغ پر کوئی بلائے آسمانی آپڑے جو اس باغ کو جلا کر خاکستر کر دے تو اس شخص کو کس قدر حسرت و یاس ہوگی، یہی حال قیامت کے دن اس ریا کار خرچ کرنے والے کا ہوگا کہ نفاق و ریا کاری کی وجہ سے اس کے سارے اعمال اکارت ہوجائیں گے جب کہ وہاں نیکیوں کی شدید ضرورت ہوگی اور دوبارہ اعمال خیر کرنے کی مہلت و فرصت بھی نہ ہوگی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم پسند کرتے ہو کہ تمہارا بھی یہی حال ہو ؟۔ باغ والے کے حالات سے جو کیفیت منتزع ہوتی ہے وہ مشبہ بہ ہے اور قیامت کے دن ایک ریاکار کی جو حالت ہوگی اس سے جو کیفیت منتزع ہوتی ہے، اس تمثیل میں مشبہ بہ مذکور ہے اور مشبہ محذوف ہے، اَیَوَدُّ ، میں استفہام نفی و قوع کے لیے ہے نہ کہ نفی واقع کے لیے۔
تفسیر و تشریح
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ (الآیۃ) یہ انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت کا بیان ہے۔
ثُمَّ لَایُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًی، یہ اس بات کا بیان ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کی مذکورہ فضیلت صرف اس شخص کو حاصل ہوگی جو مال خرچ کرکے احسان نہیں جتلاتا یعنی زبان سے ایسا کلمہ تحقیر ادا نہیں کرتا ہے جس سے کسی غریب ضرورتمند محتاج کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف محسوس کرے، حدیث شریف میں ہے آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا ان میں سے ایک احسان جتلانے والا بھی ہے۔ (مسلم کتاب الایمان)
10 Tafsir as-Saadi
اس آیت میں اللہ کے اس ارشاد کی تشریح ہوتی ہے ﴿مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ﴾ (لبقرہ:2؍ 245) ” کون شخص ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے تو اللہ اس کے قرض کو اس کے لئے کئی گنا بڑھا دے گا یہاں فرمایا ﴿مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾” مثال ان لوگوں کی جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔“ یعنی اس کی اطاعت میں اور اس کی خوشنودی کے کاموں میں۔ ان میں سب سے اہم جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنا ہے۔ ﴿كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ﴾” مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں، اور ہر بالی میں سودانے ہوں۔“ اس مثال کے ذریعے عمل کے ثواب میں اضافے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ یہ اضافہ بندہ دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ثواب میں اضافے کو اپنی بصیرت سے دیکھتا ہے۔ اس طرح آنکھوں دیکھی چیز کی وجہ سے ایمان کے ذریعے دیکھی ہوئی چیز پر یقین بڑھتا ہے۔ لہٰذا دل حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پوری آمادگی کے ساتھ خرچ کرتا ہے۔ کیونکہ اسے اس قدر اضافے اور اس اللہ کے عظیم احسان کی امید ہوتی ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ﴾” اور اللہ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے۔“ یعنی خرچ کرنے والے کے حال اور اس کے خلوص کے مطابق، یا خرچ کی کیفیت، منافع اور برمحل ہونے کی مناسبت سے ثواب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ﴾” اور اللہ بڑھا چڑھا کر دے۔“ اس سے بھی زیادہ﴿ لِمَن يَشَاءُ﴾” جسے چاہے“ یعنی بے حساب اجر و ثواب عنایت فرمائے۔﴿وَاللَّـهُ وَاسِعٌ﴾” اور اللہ کشادگی والا ہے۔“ اس کا فضل وسیع ہے، اس کی عطا بے حساب ہے جس میں کسی قسم کی کمی نہیں آتی۔ لہٰذا خرچ کرنے والے کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ شاید کئی گنا بڑھا کردینے کا ذکر مبالغے کے طور پر کیا گیا ہے۔ اللہ کے لئے تو کوئی انعام بھی مشکل نہیں۔ بے شمار عطا کے باوجود اسے کمی نہیں آئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ﴿عَلِيمٌ ﴾ وہ علیم بھی ہے اسے خوب معلوم ہے کہ کون اس دگنے چوگنے ثواب کا مستحق ہے اور کون نہیں۔ لہٰذا وہ اضافہ وہیں کرتا ہے جہاں اس کا صحیح مقام ہو، کیونکہ اس کا علم بھی کامل ہے اور حکمت بھی۔
11 Mufti Taqi Usmani
jo log Allah kay raastay mein apney maal kharch kertay hain unn ki misal aesi hai jaisay aik dana saat baalen ugaye ( aur ) her baal mein so daney hon . aur Allah jiss kay liye chahta hai ( sawab mein ) kaee guna izafa ker deta hai . Allah boht wusat wala ( aur ) baray ilm wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
سو گنا زیادہ ثواب
اس آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں اپنے مال کو خرچ کرے، اسے بڑی برکتیں اور بہت بڑے ثواب ملتے ہیں اور نیکیاں سات سو گنا کرکے دی جاتی ہیں، تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں یعنی اللہ کی فرمانبرداری میں جہاد کے گھوڑوں کو پالنے میں، ہتھیار خریدنے میں، حج کرنے کرانے میں خرچ کرتے ہیں۔ اللہ کے نام دئیے ہوئے کی مثال کس پاکیزگی سے بیان ہو رہی ہے جو آنکھوں میں کھپ جائے اور دل میں گھر کر جائے، ایک دم یوں فرما دیتا ہے کہ ایک کے بدلے سات سو ملیں گے اس سے بہت زیادہ لطافت اس کلام اور اس کی مثال میں ہے اور پھر اس میں اشارہ ہے کہ اعمال صالحہ اللہ کے پاس بڑھتے رہتے ہیں جس طرح تمہارے بوئے ہوئے بیج کھیت میں بڑھتے رہتے ہیں مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ احمد مجتبیٰ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو شخص اپنی بچی ہوئی چیز فی سبیل اللہ دیتا ہے اسے سات سو کا ثواب ملتا ہے اور جو شخص جان پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے اسے دس گنا ملتا ہے اور بیمار کی عیادت کا ثواب بھی دس گنا ملتا ہے۔ روزہ ڈھال ہے، جب تک کہ اسے خراب نہ کرے، جس شخص پر کوئی جسمانی بلا مصیبت دکھ درد بیماری آئے وہ اس کے گناہوں کو جھاڑ دیتی ہے۔ یہ حدیث حضرت ابو عبیدہ نے اس وقت بیان فرمائی تھی جب کہ آپ سخت بیمار تھے اور لوگ عیادت کیلئے گئے تھے، آپ کی بیوی صاحبہ سرہانے بیٹھی تھیں، ان سے پوچھا کہ رات کیسی گزری ؟ انہوں نے کہا نہایت سختی سے، آپ کا منہ اس وقت دیوار کی جانب تھا، یہ سنتے ہی لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا میری یہ رات سختی کی نہیں گزری، اس لئے کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا ہے، مسند احمد کی اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے نکیل والی اونٹنی خیرات کی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ قیامت کے دن سات سو نکیل والی اونٹنیاں پائے گا، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کی ایک نیکی کو دس نیکیوں کے برابر کردیا ہے اور وہ بڑھتی رہتی ہیں، سات سو تک، مگر روزہ، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ خاص میرے لئے ہے اور میں آپ کو اس کا اجر وثواب دوں گا، روزے دار کو دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت، دوسری قیامت کے دن روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے، دوسری حدیث میں اتنی زیادتی اور ہے کہ روزے دار اپنے کھانے پینے کو صرف میری وجہ سے چھوڑتا ہے، آخر میں ہے روزہ ڈھال ہے روزہ ڈھال ہے، مسند کی اور حدیث میں ہے نماز روزہ اللہ کا ذکر اللہ کی راہ کے خرچ پر سات سو گنا بڑھ جاتے ہیں، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص جہاد میں کچھ مالی مدد دے، گو خود نہ جائے تاہم اسے ایک کے بدلے سات سو کے خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے اور خود بھی شریک ہوا تو ایک درہم کے بدلے سات لاکھ درہم کے خرچ کا ثواب ملتا ہے، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی (ۭوَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ) 2 ۔ البقرۃ :261) یہ حدیث غریب ہے اور حضرت ابوہریرہ والی حدیث (مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ) 2 ۔ البقرۃ :245) کی تفسیر میں پہلے گزر چکی ہے جس میں ہے کہ ایک کے بدلے میں دو کروڑ کا ثواب ملتا ہے، ابن مردویہ میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی علیہ صلواۃ اللہ نے دعا کی کہ اے اللہ میری امت کو کچھ اور زیادتی عطا فرما تو (مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ) 2 ۔ البقرۃ :245) والی آیت اتری اور آپ نے پھر بھی یہی دعا کی تو آیت (اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) 39 ۔ الزمر :10) اتری، پس ثابت ہوا کہ جب قدر اخلاص عمل میں ہو اسی قدر ثواب میں زیادتی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ بڑے وسیع فضل و کرم والا ہے، وہ جانتا بھی ہے کہ کون کس قدر مستحق ہے اور کسے استحقاق نہیں فسبحان اللہ والحمداللہ۔