البقرہ آية ۳
الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَۙ
طاہر القادری:
جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں،
English Sahih:
Who believe in the unseen, establish prayer, and spend out of what We have provided for them,
1 Abul A'ala Maududi
جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری میں اٹھائیں-
3 Ahmed Ali
جو بن دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ا ور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں (١) اور نماز کو قائم رکھتے ہیں (٢) اور ہمارے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرتے ہیں (۳)
ف۱ اَمُوْر غَیْبُۃ سے مراد وہ چیزیں ہیں جنکا ادراک عقل و حواس سے ممکن نہیں۔ جیسے ذات باری تعالیٰ، وحی، جنت دوزخ، ملائکہ، عذاب قبر اور حشر وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی ماورائے عقل و احساس باتوں پر یقین رکھنا، جزو ایمان ہے اور ان کا انکار کفر و ضلالت ہے۔
ف۲ اقامت صلٰوۃ سے مراد پابندی سے اور سنت نبوی کے مطابق نماز کا اہتمام کرنا، ورنہ نماز تو منافقین بھی پڑھتے تھے۔
ف۳ اَنْفَاقْ کا لفظ عام ہے جو صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے۔ اہل ایمان حسب اطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے بلکہ ماں باپ اور اہل و عیال پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر و ثواب ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
جو لوگ غیب پر ایمان ﻻتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے (مال) میں سے خرچ کرتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور پورے اہتمام سے نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ (میری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے، اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ : قرآن سے مستفید ہونے کی یہ دوسری شرط ہے اس آیت میں متقین کی تین صفات بیان کی گئی ہیں (١) ایمان بالغیب (٢) اقامت صلوٰۃ (٣) اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔
پہلی صفت۔ ایمان اور اس کی تعریف : ایمان کی تعریف کو قرآن کریم نے یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے صرف دو لفظوں میں پوری طرح بیان کردیا گیا ہے، اگر ایمان اور غیب کے معنی سمجھ لئے جائیں تو ایمان کی پوری حقیقت اور تعریف سمجھ میں آجاتی ہے۔
قرآن سے فائدہ اٹھانے کی یہ دوسری شرط ہے، غیب سے مراد وہ حقیقتیں ہیں، جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہوں ان کا ادراک نہ عقل سے ہوسکتا ہے اور نہ حواس خمسہ ظاہرہ سے، مثلاً خدا کی ذات وصفات، ملائکہ، وحی، جنت و دوزخ وغیرہ ان حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا اور اس اعتماد پر ماننا کہ نبی اس کی خبر دے رہا ہے، ایمان بالغیب ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان غیر محسوس حقیقتوں کو ماننے کیلئے تیار ہو تو صرف وہی قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، رہا وہ شخص جو ماننے کے لئے، دیکھنے اور چکھنے اور سونگھنے کی شرط لگائے اور کہے کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مان سکتا کہ جو عقل یا حواس خمسہ کی ترازو میں تولی نہ جاسکتی ہو، تو وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پاسکتا۔
محسوسات اور مشاہدات میں کسی کے قول کی تصدیق کا نام ایمان نہیں : عرف میں کسی کی بات کو کسی کے اعتماد پر یقینی طور پر مان لینے کا نام ایمان ہے اسی لئے محسوسات و مشاہدات میں کسی کے قول کے تصدیق کرنے کو ایمان نہیں کہتے مثلاً کوئی شخص سفید چیز کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہہ رہا ہے، اور دوسرا شخص اس کی تصدیق کر رہا ہے، اس کو تصدیق کرنا تو کہیں گے، ایمان لانا نہیں کہیں گے، اس لئے کہ اس تصدیق میں قائل کے اعتماد کو کوئی دخل نہیں، بلکہ یہ تصدیق مشاہدہ کی بناء پر ہے اور اصطلاح شرع میں خبر رسول کو بغیر مشاہدہ کے محض رسولوں کے اعتماد پر یقینی طور پر مان لینے کا نام ایمان ہے، اس تعریف میں ماننے کا نام ایمان بتلا یا گیا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ محض جاننے کو ایمان نہیں کہتے، جہاں تک جاننے کا تعلق ہے، وہ تو ابلیس اور بہت سے کفار کو بھی حاصل ہے کہ ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق کا یقین تھا، مگر اس کو مانا نہیں اس لئے وہ مؤمن نہیں۔
دوسری صفت : وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃ : اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صرف جان کر یا مان کر بیٹھ جانے والے ہوں، وہ قرآن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے، اقامت صلوٰۃ سے مراد پابندی سے سنت نبوی کے مطابق نماز کا اہتمام کرنا ہے، جس میں نماز کے تمام فرائض، واجبات، مستحبات اور پھر ان پر دوام والتزام یہ سب اقامت کے مفہوم میں داخل ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ اس جگہ نماز سے کوئی خاص نماز مراد نہیں بلکہ فرائض، واجبات اور نقلی نمازوں کو یہ لفظ شامل ہے۔
تیری صفت : وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ : تیسری صفت انفاق فی سبیل اللہ ہے، انفاق کا لفظ عام ہے جو صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے، اہل ایمان حسب استطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے والدین اور اہل و عیال پر صرف کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر وثواب ہے۔ قرآن سے فائدہ اٹھانے کی یہ چوتھی شرط ہے کہ آدمی مال کا حریص اور زرپرست نہ ہو اس کے مال میں اللہ اور بندوں کے جو حقوق مقرر کئے جائیں انہیں ادا کرنے کے لئے تیار ہو جن چیزوں پر ایمان لایا ہے ان کی خاطر مالی قربانی دینے میں دریغ نہ کرے، مطلقاً انفاق محمود نہیں، فی طاعۃ اللہ کہہ کر اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ : رزق کا لفظ عربی میں بڑے وسیع معنی رکھتا ہے، اس لئے کہ اس کے اندر ہر قسم کی نعمتیں شامل ہیں، خواہ ظاہری ہوں جیسے : مال، اولاد، صحت وغیرہ، یا معنوی و روحانی مثلاً علم و حکمت، فہم و فرست اور عقل سلیم وغیرہ۔
مِمَّا رَزَقْنٰھُم : میں رزق کی نسبت اپنی طرف کرکے بتادیا کہ جو نعمت بھی انسان کو ملتی ہے وہ سب اللہ ہی کے فیض و عطاکا ثمرہ ہوتی ہے۔
اس مختصر جملہ میں غور کیجئے، تو جہاں یہ لفظ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا ایک قوی داعیہ انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے، کہ جو مال ہمارے پاس ہے، سب خدا ہی کا عطا کیا ہوا ہے اور اسی کیا امانت ہے، اگر ہم تمام کا بھی اللہ کی راہ میں اس کی رضا کی خاطر خرچ کردیں تو حق اور بجا ہے نیز خالص نفع کا سودا ہے، وہیں مِمَّا، کے لفظ سے اس بات کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ ہمارے عطا کردہ مال کو پورا خرچ کرنا نہیں بلکہ اس کا کچھ حصہ خرچ کرنا ہے۔
سوال : ایمان بالغیب کو بیان کرنے کے بعد اعمال کو بیان کرتے ہوئے صرف نماز اور انفاق کو بیان فرمایا حالانکہ اعمال کی فہرست طویل ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟
جواب : بنیادی طور پر اعمال کی دو قسمیں ہیں، بدنی اور مالی دونوں میں سے ایک ایک جو اہم ہیں ان کو بیان کردیا، اس کے علاوہ خودبخود اس میں شامل ہوگئے۔
مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ : مِمَّا، میں مَنْ تبعیضیہ ہے، نون کو حذف کرکے میم کو ما، موصولہ میں ادغام کردیا، ما موصولہ، رَزَقْنٰھُم، جملہ ہو کر صلہ ہے رَزَقْنَا کا۔ ھُمْ مفعول اول اور مفعول ثانی اِیّاہ محذوف ہے : اَیْ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ اِیَّاہُ یُنْفِقُوْنَ ۔
ایمان اور اسلام میں فرق : لغت میں ایمان کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنا کا نام ہے اور اسلام اطاعت اور فرمانبرداری کا نام ہے، ایمان کا محل قلب ہے اور اسلام کا تعلق قلب اور اعضاء وجوارح سے ہے، لیکن شرعًا ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں، جب تک کہ دل میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق نہ ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ لغت کے اعتبار سے ایمان اور اسلام الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث میں اسی لغوی مفہوم کی بناء پر ایمان اور اسلام میں فرق کا ذکر بھی ہے مگر شرعًا ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں۔
اسلام اور ایمان میں فرق صرف ابتداء اور انتہا کا ہے : حضرت علامہ انور شاہ کشمیری (رح) تعالیٰ اس مضمون کو اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ایمان اور اسلام کی مسافت ایک ہے، فرق صرف ابتداء اور انتہاء کا ہے یعنی ایمان قلب سے شروع ہوتا ہے اور ظاہر عمل پر پہنچ کر مکمل ہوتا ہے اور اسلام ظاہر عمل سے شروع ہوتا ہے اور قلب پر پہنچ کر مکمل سمجھا جاتا ہے اگر تصدیق قلبی اقرار باللسان تک نہ پہنچے تو وہ تصدیق ایمان معتبر نہیں، اسی طرح اگر ظاہری اطاعت و اقرار، تصدیق قلبی تک نہ پہنچے تو وہ اسلام معتبر نہیں۔ (معارف)
امام غزالی (رح) تعالیٰ اور امام سبکی (رح) تعالیٰ کی بھی یہی تحقیق ہے اور امام ابن ہمام (رح) تعالیٰ نے مسامرہ میں اسی تحقیق پر اہل حق کا اتفاق ذکر کیا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
فرمایا : ﴿الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ﴾ ” وہ لوگ جو غیب کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں“ حقیقتِ ایمان ان امور کی کامل تصدیق کا نام ہے جن کی خبر انبیاء و رسل نے دی ہے یہ تصدیق جو ارح کی اطاعت کو متضمن ہے۔ اشیاء کے حسی مشاہدہ سے ایمان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز نہیں کیا جاسکتا۔ ایمان کا تعلق تو اس غیب سے ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں نہ اس کا مشاہدہ ہی کرسکتے ہیں۔ محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خبر دینے سے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہی وہ ایمان ہے جس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایمان مجرد اللہ اور اس کے انبیاء و مرسلین کی تصدیق ہے۔ پس مومن وہ ہے جو ہر اس چیز پر ایمان لاتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے خواہ اس نے اس چیز کا مشاہدہ کیا ہو یا نہ کیا ہو خواہ اس نے اسے سمجھا ہو یا اس کی عقل و فہم کی رسائی وہاں تک نہ ہوسکی ہے۔
زنا دقہ اور امور غیب کی تکذیب کرنے والوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ ان کی عقل ان امور کو سمجھنے سے قاصر رہی اور وہ ان امور تک نہ پہنچ سکے بنا بریں انہوں نے ان امور کو جھٹلا دیا جن کا احاطہ ان کا علم نہ کرسکا۔ پس ان کی عقل فاسد ہوگئی اور ان کا فہم خرابی کا شکار ہوگیا اور امور غیب کی تصدیق کرنے والے اہل ایمان کی عقل اور بڑھ گئی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو راہنما بنا لیا۔
ایمان بالغیب سے مراد ان تمام امور غیب پر ایمان لانا ہے جن کا تعلق ماضی، مستقبل، احول آخرت، اللہ تعالیٰ کی صفات اور انکی کیفیات سے ہے اور جن کی خبر اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء و مرسلین نے دی ہے۔ پس اہل ایمان نہایت یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں اگرچہ وہ ان کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر رہیں۔
﴿وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ﴾ ” اور وہ نماز کو قائم کرتے ہیں۔“ یہ نہیں کہا کہ وہ نماز کا فعل بجا لاتے ہیں یا وہ نماز کو ادا کرتے ہیں کیونکہ ظاہری صورت وہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اقامت صلوٰۃ یہ ہے کہ نماز کو جہاں ظاہری شکل و صورت، اس کے تمام ارکان کی کامل ادائیگی اور اس کی شرائط و واجبات کے ساتھ قائم کیا جائے، وہاں اس کو باطنی اعتبار سے اس کی روح کے ساتھ، یعنی اس کے اندر حضور قلب اور اپنے قول و فعل کا میں کامل تدبر کے ساتھ قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وہ نماز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (لعنکبوت 29؍35) ” بے شک نماز فحش کاموں اور برائیوں سے روکتی ہے۔“ اور یہی وہ نماز ہے جس پر ثواب مرتب ہوتا ہے۔ پس بندہ مومن کو اس کی صرف اسی نماز کا ثواب ملتا ہے جسے وہ سمجھ کر ادا کرتا ہے اور نماز میں فرائض اور نوافل سب داخل ہیں۔
﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ﴾ ” اور ان میں سے جو ہم نے ان کو دیا، وہ خرچ کرتے ہیں“ اس میں تمام نفقات واجبہ مثلاً زکوٰۃ، بیویوں کا نان و نفقہ، قریبی رشتہ داروں اور اپنے غلاموں پر خرچ کرنا بھی شامل ہے اور بھلائی کے تمام کاموں میں نفقات مستحبہ پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ جن لوگوں پر خرچ کیا جانا چاہئے ان کا یہاں ذکر نہیں کیا کیونکہ اس کے اسباب اور ایسے لوگوں کی اقسام بہت زیادہ ہیں نیز خرچ جہاں کہیں بھی کیا جائے تقرب الٰہی کا ذریعہ ہوگا۔ ﴿ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ﴾ میں (من) تبعیض کے لئے ہے اور یہ بات کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہے کہ ان کے رزق اور اموال میں سے تھوڑا سا حصہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا مقصود ہے جس کا خرچ کرنا ان کے لئے نقصان دہ اور گراں نہ ہو بلکہ اس اتفاق سے خود انہیں اور ان کے بھائیوں کو فائدہ پہنچے۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ رَزَقْنَاهُمْ ﴾میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ مال و متاع جو تمہارے قبضے میں ہے تمہیں تمہاری اپنی قوت اور ملکیت کے بل بوتے پر حاصل نہیں ہوا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا رزق ہے۔ اسی نے تم کو عطا کیا ہے اور اسی نے تم کو اس نعمت سے نوازا ہے۔ پس جس طرح اس نے تمہیں اور بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے اور اس نے تمہیں اپنے بہت سے بندوں پر فضیلت عطا کی، تو تم بھی اللہ کا شکر ادا کرو اور ان نعمتوں کا کچھ حصہ اپنے مفلس اور نادار بھائیوں پر خرچ کر کے ان کی مدد کرو۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز اور زکوٰۃ کو اکٹھا ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز معبود کے لئے اخلاص کو متضمن ہے اور زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو متضمن ہے۔ پس بندہ مومن کی سعادت کا عنوان یہ ہے کہ اس کا اخلاص معبود کے لئے ہو اور اس کی تمام تر کاوش مخلوق کو نفع پہنچانے کے لئے ہو، جیسے بندے کی بدبختی اور شقاوت کا عنوان یہ ہے کہ وہ ان دونوں چیزوں سے محروم ہو اس کے پاس اخلاص ہو نہ حسن سلوک۔
11 Mufti Taqi Usmani
jo bey dekhi cheezon per emaan latay hain , aur namaz qaeem kertay hain , aur jo kuch hum ney unhen diya hai uss mein say ( Allah ki khushnoodi kay kamon mein ) kharch kertay hain
12 Tafsir Ibn Kathir
ایمان کی تعریف
حضرت عبداللہ فرماتے ہیں۔ ایمان کسی چیز کی تصدیق کرنے کا نام ہے۔ حضرت ابن عباس بھی یہی فرماتے ہیں۔ حضرت زہری فرماتے ہیں " ایمان کہتے ہیں عمل کو " ربیع بن انس کہتے ہیں۔ یہاں ایمان لانے سے مراد ڈرنا ہے۔ ابن جریر فرماتے ہیں۔ یہ سب اقوال مل جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ زبان سے، دل سے، عمل سے، غیب پر ایمان لانا اور اللہ سے ڈرنا۔ ایمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ پر، اس کی کتابوں پر، اس کے اصولوں پر، ایمان لانا شامل ہے اور اس اقرار کی تصدیق عمل کے ساتھ بھی کرنا لازم ہے۔ میں کہتا ہوں لغت میں ایمان کہتے ہیں صرف سچا مان لینے کو، قرآن میں بھی ایمان اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جیسے فرمایا حدیث (یومن باللہ ویومن من للمومنین) یعنی اللہ کو مانتے ہیں اور ایمان والوں کو سچا جانتے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا تھا۔ آیت (وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ ) 12 ۔ یوسف :17) یعنی تو ہمارا یقین نہیں کرے گا اگرچہ ہم سچے ہوں۔ اس طرح ایمان یقین کے معنی میں آتا ہے جب اعمال کے ذکر کے ساتھ ملا ہوا ہو۔ جیسے فرمایا آیت (اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) 26 ۔ الشعرآء :227) ہاں جس وقت اس کا استعمال مطلق ہو تو ایمان شرعی جو اللہ کے ہاں مقبول ہے وہ اعتقاد قول اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے۔ اکثر ائمہ کا یہی مذہب ہے بلکہ امام شافعی امام احمد اور امام ابو عبیدہ وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ ایمان نام ہے زبان سے کہنے اور عمل کرنے کا۔ ایمان بڑھتا گھٹتا رہتا ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سے آثار اور حدیثیں بھی آئی ہیں جو ہم نے بخاری شریف کی شرح میں نقل کردی ہیں۔ فالحمد للہ۔ بعض نے ایمان کے معنی اللہ سے ڈر خوف کے بھی کئے ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَيْبِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ) 67 ۔ الملک :12) جو لوگ اپنے رب سے در پردہ ڈرتے رہتے ہیں۔ اور جگہ فرمایا آیت (من خشی الرحمن بالغیب) الخ یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے بن دیکھے ڈرے اور جھکنے والا دل لے کر آئے۔ حقیقت میں اللہ کا خوف ایمان کا اور علم کا خلاصہ ہے۔ جیسے فرمایا آیت ( اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا) 35 ۔ فاطر :28) جو بندے ذی علم ہیں صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں وہ غیب پر بھی ایسا ہی ایمان رکھتے ہیں جیسا حاضر پر اور ان کا حال منافقوں جیسا نہیں کہ جب ایمان والوں کے سامنے ہوں تو اپنا ایماندار ہونا ظاہر کریں لیکن جب اپنے والوں میں ہوتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان منافقین کا حال اور جگہ اس طرح بیان ہوا ہے آیت (اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ ) 63 ۔ المنافقون :1) یعنی منافق جب تیرے پاس آئیں گے تو کہیں گے کہ ہماری تہہ دل سے شہادت ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے اللہ خوب جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ منافق تجھ سے جھوٹ کہتے ہیں۔ اس معنی کے اعتبار سے بالغیب حال ٹھہرے گا یعنی وہ ایمان لاتے ہیں در آنحالیکہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ غیب کا لفظ جو یہاں ہے، اس کے معنی میں بھی مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں اور وہ سب صحیح ہیں اور جمع ہوسکتے ہیں۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ پر، فرشتوں پر، کتابوں پر، رسولوں پر، قیامت پر، جنت دوزخ پر، ملاقات اللہ پر، مرنے کے بعد جی اٹھنے پر، ایمان لانا ہے۔ قتادہ ابن دعامہ کا یہی قول ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر اصحاب سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ پوشیدہ چیزیں ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں جیسے جنت، دوزخ وغیرہ۔ وہ امور جو قرآن میں مذکور ہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں اللہ کی طرف سے جو کچھ آیا ہے وہ سب غیب میں داخل ہے۔ حضرت ابوذر فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن ہے۔ عطا ابن ابو رباح فرماتے ہیں اللہ پر ایمان لانے والا، غیب پر ایمان لانے والا ہے۔ اسماعیل بن ابو خالد فرماتے ہیں اسلام کی تمام پوشیدہ چیزیں مراد ہیں۔ زید بن اسلم کہتے ہیں مراد تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ پس یہ تمام اقوال معنی کی رو سے ایک ہی ہیں اس لئے کہ سب چیزیں پوشیدہ ہیں اور غیب کی تفسیر ان سب پر مشتمل ہے اور ان سب پر ایمان لانا واجب ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی مجلس میں ایک مرتبہ صحابہ کے فضائل بیان ہو رہے ہوتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں " حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دیکھنے والوں کو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا ہی تھا لیکن اللہ کی قسم ایمانی حیثیت سے وہ لوگ افضل ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ پھر آپ نے الم سے لے کر مفلحون تک آیتیں پڑھیں۔ (ابن ابی حاتم۔ ابن مردویہ۔ مستدرک۔ حاکم) امام حاکم اس روایت کو صحیح بتاتے ہیں۔ مسند احمد میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث ہے۔ ابو جمع صحابی سے ابن محریز نے کہا کہ کوئی ایسی حدیث سناؤ جو تم نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہو۔ فرمایا میں تمہیں ایک بہت ہی عمدہ حدیث سناتا ہوں، ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک مرتبہ ناشتہ کیا، ہمارے ساتھ ابو عبیدہ بن جراح (رض) بھی تھے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم سے بہتر بھی کوئی اور ہے ؟ ہم آپ پر اسلام لائے، آپ کے ساتھ جہاد کیا، آپ نے فرمایا ہاں وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے، مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہ ہوگا۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے۔ صالح بن جبیر کہتے ہیں کہ ابو جمعہ انصاری (رض) ہمارے پاس بیت المقدس میں آئے۔ رجاء بن حیوہ (رض) بھی ہمارے ساتھ ہی تھے، جب وہ واپس جانے لگے تو ہم انہیں چھوڑنے کو ساتھ چلے، جب الگ ہونے لگے تو فرمایا تمہاری ان مہربانیوں کا بدلہ اور حق مجھے ادا کرنا چاہئے۔ سنو ! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے ہم نے کہا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے ضرور سناؤ۔ کہا سنو ! ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، ہم دس آدمی تھے، حضرت معاذ بن جبل (رض) بھی ان میں تھے، ہم نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم سے بڑے اجر کا مستحق بھی کوئی ہوگا ؟ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ کی تابعداری کی۔ آپ نے فرمایا تم ایسا کیوں نہ کرتے ؟ اللہ کا رسول تم میں موجود ہے، وحی الٰہی آسمان سے تمہارے سامنے نازل ہو رہی ہے۔ ایمان تو ان لوگوں کا افضل ہوگا جو تمہارے بعد آئیں گے دو گتوں کے درمیان یہ کتاب پائیں گے، اس پر ایمان لائیں گے اور اس پر عمل کریں گے، یہ لوگ اجر میں تم سے گنے ہوں گے۔ اس حدیث میں " وجاوہ " کی قبولت کی دلیل ہے جس میں محدثین کا اختلاف ہے۔ میں نے اس مسئلہ کو بخاری شریف میں خوب واضح کردیا ہے بعد والوں کی تعریف اسی بنا پر ہو رہی ہے اور ان کا بڑے اجر والا ہونا اسی حیثیت کی وجہ سے ہے ورنہ علی الاطلاق ہر طرح سے بہتر اور افضل تو صحابہ (رض) ہی ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا، تمہارے نزدیک ایمان لانے میں کون زیادہ افضل ہے، انہوں نے کہا، فرشتے۔ فرمایا وہ ایمان کیوں نہ لائیں وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں، لوگوں نے پھر کہا انبیاء، فرمایا وہ ایمان کیوں نہ لائیں ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے۔
کہا پھر ہم۔ فرمایا تم ایمان کو قبول کیوں نہ کرتے ؟ جب کہ میں تم میں موجود ہوں سنو ! میرے نزدیک سب سے زیادہ افضل ایمان والے وہ لوگ ہوں گے جو تمہارے بعد آئیں گے۔ صحیفوں میں لکھی ہوئی کتاب پائیں گے اس پر ایمان لائیں گے۔ اس کی سند میں مغیرہ بن قیس ہیں۔ ابو حاتم رازی انہیں منکر الحدیث بتاتے ہیں لیکن اسی کے مثل ایک اور حدیث ضعیف سند ہے۔ مسند ابو یعلی تفسیر ابن مردویہ مستدرک حاکم میں بھی مروی ہے اور حاکم اسے صحیح بتاتے ہیں۔ حضرت انس بن مالک سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ واللہ اعلم۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت بدیلہ بنت اسلم (رض) فرماتی ہیں۔ بنو حارثہ کی مسجد میں ہم ظہر یا عصر کی نماز میں تھے اور بیت المقدس کی طرف ہمارا منہ تھا دو رکعت ادا کرچکے تھے کہ کسی نے آ کر خبر دی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ شریف کی طرف منہ کرلیا ہے ہم سنتے ہی گھوم گئے۔ عورتیں مردوں کی جگہ آگئیں اور مرد عورتوں کی جگہ چلے گئے اور باقی کی دو رکعتیں ہم نے بیت اللہ شریف کی طرف ادا کیں۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا یہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ حدیث اس اسناد سے غریب ہے۔
قیام صلوٰۃ کیا ہے
ابن عباس فرماتے ہیں فرائض نماز بجا لانا۔ رکوع سجدہ تلاوت خشوع اور توجہ کو قائم رکھنا نماز کو قائم رکھنا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں وقتوں کا خیال رکھنا، وضو اچھی طرح کرنا، رکوع سجدہ پوری طرح کرنا، اقامت صلوٰۃ ہے۔ مقاتل کہتے ہیں وقت کی نگہبانی کرنا۔ مکمل طہارت کرنا، رکوع، سجدہ پورا کرنا، تلاوت اچھی طرح کرنا۔ التحیات اور درود پڑھنا اقامت صلوٰۃ ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں آیت (وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ ) 8 ۔ الانفال :3) کے معنی زکوٰۃ ادا کرنے کے ہیں۔ ابن عباس بن مسعود اور بعض صحابہ نے کہا ہے اس سے مراد آدمی کا اپنے بال بچوں کو کھلانا پلانا ہے۔ خرچ میں قربانی دینا جر قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے دی جاتی ہے۔ اپنی استعداد کے مطابق بھی شامل ہے جو زکوٰۃ کے حکم سے پہلے کی آیت ہے۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی سات آیتیں جو سورة برات میں ہیں ان کے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا کہ اپنی اپنی طاقت کے مطابق تھوڑا بہت جو میسر ہو دیتے رہیں۔ قتادہ فرماتے ہیں یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے عنقریب تم سے جدا ہوجائے گا۔ اپنی زندگی میں اسے اللہ کی راہ میں لگا دو ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ آیت عام ہے زکوٰۃ میں اہل و عیال کا خرچ اور جن لوگوں کو دینا ضروری ہے ان سب کو دنیا بھی شامل ہے اس لئے کہ پروردگار نے ایک عام وصف بیان فرمایا اور عام تعریف کی ہے۔ لہذا ہر طرح کا خرچ شامل ہوگا۔ میں کہتا ہوں قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلا آتا ہے اس لئے کہ نماز اللہ کا حق اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید، اس کی ثناء اس کی بزرگی، اس کی طرف جھکنے، اس پر توکل کرنے، اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان کرنا ہے جس سے انہیں نفع پہنچے۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں، پھر دور والے اجنبی۔ لہذا تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰۃ اس میں داخل ہیں۔ صحیحین میں حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی دینا۔ نماز قائم رکھنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا، اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ عربی لغت میں صلوٰۃ کے معنی دعا کے ہیں۔ عرب شاعروں کے شعر پر شاہد ہیں۔ پھر شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز کے لئے ہونے لگا جو رکوع سجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو مخصوص اوقات میں جملہ شرائط صفات اوراقسام کے ساتھ بجا لائی جاتی ہے۔ ابن جریر فرماتے ہیں۔ صلوٰۃ کو نماز اس لئے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کی دونوں طرف آتی ہیں انہیں عربی میں صلوین کہتے ہیں چونکہ صلوٰۃ میں یہ ہلتی ہیں اس لئے اسے صلوٰۃ کہا گیا ہے۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں بعض نے کہا یہ ماخوذ ہے صلی سے، جس کے معنی ہیں جھک جانا اور لازم ہوجانا۔ جیسے قرآن میں آیت (لَا يَصْلٰىهَآ) 92 ۔ اللیل :15) یعنی جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت۔ بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کے لئے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب تصلیہ کہتے ہیں چونکہ مصلی بھی اپنے نفس کی کجی کو نماز سے درست کرتا ہے اس لئے اسے صلوٰۃ کہتے ہیں۔ جیسے قرآن میں ہے آیت ( ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۭ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ) 29 ۔ العنکبوت :45) یعنی نماز ہر بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور ہے واللہ اعلم۔ لفظ زکوٰۃ کی بحث انشاء اللہ اور جگہ آئے گی۔