پھر شیطان نے انہیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انہیں اس (راحت کے) مقام سے جہاں وہ تھے الگ کر دیا، اور (بالآخر) ہم نے حکم دیا کہ تم نیچے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ اب تمہارے لئے زمین میں ہی معیّنہ مدت تک جائے قرار ہے اور نفع اٹھانا مقدّر کر دیا گیا ہے،
English Sahih:
But Satan caused them to slip out of it and removed them from that [condition] in which they had been. And We said, "Go down, [all of you], as enemies to one another, and you will have upon the earth a place of settlement and provision for a time."
1 Abul A'ala Maududi
آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اُس حالت سے نکلوا کر چھوڑا، جس میں وہ تھے ہم نے حکم دیا کہ، "اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے"
2 Ahmed Raza Khan
تو شیطان نے اس سے (یعنی جنت سے) انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کردیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو آپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے -
3 Ahmed Ali
پھر شیطان نے ان کو وہاں سے ڈگمگایا پھر انہیں اس عزت و راحت سے نکالا کہ جس میں تھے اور ہم نے کہا تم سب اترو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا ہے اور سامان ایک وقت معین تک
4 Ahsanul Bayan
لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلوا دیا (١) اور ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو (٢) اور ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے۔
٣٦۔١ شیطان نے جنت میں داخل ہو کر روبرو انہیں بہکایا یا وسوسہ اندازی کے ذریعے سے اس کی بابت کوئی وضاحت نہیں۔ تاہم یہ واضح ہے جس طرح سجدے کے حکم کے وقت اس نے حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس سے کام لے کر سجدے سے انکار کیا اسی طرح اس موقع پر اللہ تعالٰی کے حکم (وَلَا تَقْرَبَا) کی تاویل کر کے حضرت آدم علیہ السلام کو پھسلانے میں کامیاب ہو گیا جس کی تفصیل سورۃ اعراف میں آئے گی۔ گویا حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس اور نص کا ارتکاب بھی سب سے پہلے شیطان نے کیا۔ ٣٦۔٢ مراد آدم علیہ السلام اور شیطان ہیں جو ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
پھر شیطان نے دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا اور جس (عیش ونشاط) میں تھے، اس سے ان کو نکلوا دیا۔ تب ہم نے حکم دیا کہ (بہشت بریں سے) چلے جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانا اور معاش (مقرر کر دیا گیا) ہے
6 Muhammad Junagarhi
لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلوا ہی دیا اور ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ! تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے زمین میں ٹھہرنا اور فائده اٹھانا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
تب شیطان نے (اس درخت کے باعث) ان کے قدم پھسلائے۔ اور انہیں اس (عیش و آرام) سے نکلوا دیا جس میں وہ تھے اور ہم نے کہا اب تم (زمین پر) اتر جاؤ۔ ایک دوسرے کے دشمن ہو کر۔ اور تمہارے لئے زمین میں ایک (خاص) وقت تک ٹھہرنے اور فائدہ ا ٹھانے کا سامان موجود ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تب شیطان نے انہیں فریب دینے کی کوشش کی اور انہیں ان نعمتوں سے باہر نکال لیا اور ہم نے کہا کہ اب تم سب زمین پر اترجاؤ وہاں ایک دوسرے کی دشمنی ہوگی اور وہیں تمہارا مرکز ہوگا اور ایک خاص وقت تک کے لئے عیش زندگانی رہےگی
9 Tafsir Jalalayn
پھر شیطان نے دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا اور جس (عیش و نشاط) میں تھے اس سے ان کو نکلوا دیا تب ہم نے حکم دیا کہ (بہشت بریں) سے چلے جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لئے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانا اور معاش (مقرر کردیا گیا) ہے فَاَزَلَّہُّمَا الشَّیْطٰنُ عَنْھَا، زَلَّتْ لغت میں لغزش کو کہتے ہیں، اِزْلاَل، کے معنی ہیں لغزش دینا، مطلب یہ ہوا کہ شیطان نے آدم و حوا، (علیہما السلام) کو لغزش دیدی، قرآن کریم کے یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) کی یہ خلاف ورزی اس طرح کی نہ تھی، جو عام گناہ گاروں کی طرف سے ہوا کرتی ہے، بلکہ شیطان کی تلبیس سے کسی دھوکہ فریب میں مبتلا ہو کر ایسے اقدام کی نوبت آگئی کہ جس درخت کو ممنوع قرار ددیا تھا اس کا پھل وغیرہ کھا بیٹھے، عَنْھا میں، عَنْ بمعنی سبب ہے یعنی اس درخت کے سبب اور ذریعہ سے شیطان نے آدم و حواء (علیہما السلام) کو لغزش میں مبتلا کردیا ایک سوال اور اس کا جواب : یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شیطان کو سجدہ سے انکار کے نتیجہ میں پہلے ہی مردود کرکے جنت سے نکالا جا چکا تھا، تو پھر یہ آدم و حوا (علیہما السلام) کو بہکانے کے لئے جنت میں کیسے پہنچا ؟ جواب : اگرچہ اس بات کی کوئی صراحت نہیں ہے کہ شیطان نے جنت میں داخل ہو کر روبرو بہکایا، یا وسوسہ اندازی کے ذریعہ، مگر بہکانے کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بغیر ملاقات کے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا ہو اور ہوسکتا ہے کہ اپنی قوت جنیہ کے ذریعہ مسمر یزم کی صورت میں سے حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) کے ذہن کو متاثر کیا ہو اس لئے کہ جنات کو اس کی قوت اور قدرت حاصل ہے جیسا کہ ایک انسان دوسرے انسان کے ذہن کو قوت خیالیہ کے ذریعہ متاثر کرسکتا ہے جنات کی قوت خیالیہ انسان کے مقابلہ میں قوی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شیطان اپنی شکل و صورت بدل کر جنت میں داخل ہوگیا ہو اور روبرو بہکایا ہو اور حضرت آدم علیہ الصلوٰةو السلام کا اس طرف ذہن نہ گیا ہو، وَقَاسَمَہُمَآ اِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ ، سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے صرف وسوسہ سے کام نہیں لیا، بلکہ آدم و حوا، (علیہما السلام) سے زبانی گفتگو کرکے اور قسمیں کھا کر متاثر کیا۔ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدَوّ ، آپسی دشمنی کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے، کہ شیطان اور نبی آدم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن رہیں گے اور یہ بھی کہ نبی آدم آپس میں عداوت اور دشمنی رکھیں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ﴾” تمہارا ایک، دوسرے کا دشمن ہے۔“ یعنی ابلیس اور اس کی ذریت، آدم علیہ السلام اور اولاد آدم کی دشمن ہوگی اور ہمیں معلوم ہے کہ دشمن اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر طریقے سے اس کی برائی چاہتا ہے اور ہر طریقے سے اسے بھلائی سے محروم کرنے کے در پے رہتا ہے۔ اس ضمن میں بنی آدم کو شیطان سے ڈرایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔﴿إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾(فاطر:35؍ 6)’’بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تم اسے دشمن ہی سمجھو وہ تو اپنی جماعت کو بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں۔“ ﴿أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا﴾ (لکھف: 18؍50 )’’کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا اپنا دوست بناتے ہوحالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ اور ظالموں کے لیے بہت ہی برا بدلہ ہے۔ “ پھر انہیں زمین پر اتارے جانے کے مقصد سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ﴾یعنی زمین کے اندر تمہارا مسکن اور ٹھکانا ہوگا۔ ﴿ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ﴾تمہارا وقت پورا ہونے تک (تم نے اس سے فائدہ اٹھانا ہے) پھر تم اس گھر میں منتقل ہوجاؤ گے جس کے لیے تمہیں اور جسے تمہارے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں واضح ہے کہ اس زندگی کی مدت عارضی اور ایک خاص وقت تک کے لیے ہے، یہ دنیا حقیقی مسکن نہیں ہے۔ یہ تو ایک راہ گزر ہے جہاں سے اگلے جہان کے لئے زادراہ حاصل کیا جاتا ہے (دوران سفر) اس راہ گزر میں مستقل ٹھکانا تعمیر نہیں کیا جاتا۔
11 Mufti Taqi Usmani
phir huwa yeh kay shetan ney unn dono ko wahan say dagmaga diya , aur jiss ( aesh ) mein woh thay uss say unhen nikal ker raha aur hum ney ( Adam , unn ki biwi aur iblees say ) kaha : abb tum sabb yahan say utar jao , tum aik doosray kay dushman hogay , aur tumharay liye aik mauddat tak zameen mein thehrna aur kissi qadar faeeda uthana ( tey kerdiya gaya ) hai