البقرہ آية ۴۹
وَاِذْ نَجَّيْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۤءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُوْنَ اَبْنَاۤءَكُمْ وَيَسْتَحْيُوْنَ نِسَاۤءَكُمْۗ وَفِىْ ذٰلِكُمْ بَلَاۤءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ
طاہر القادری:
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں قومِ فرعون سے نجات بخشی جو تمہیں انتہائی سخت عذاب دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے، اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (کڑی) آزمائش تھی،
English Sahih:
And [recall] when We saved you [i.e., your forefathers] from the people of Pharaoh, who afflicted you with the worst torment, slaughtering your [newborn] sons and keeping your females alive. And in that was a great trial from your Lord.
1 Abul A'ala Maududi
یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی اُنہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی
2 Ahmed Raza Khan
اور (یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے نجات بخشی کہ وہ تم پر برا عذاب کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی بلا تھی (یا بڑا انعام)
3 Ahmed Ali
اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی و ہ تمہیں بری طرح عذاب دیا کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی
4 Ahsanul Bayan
اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں (١) سے نجات دی جو تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے جو تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے، اس نجات دینے میں تمہارے رب کی بڑی مہربانی تھی۔
آل فرعون سے مراد صرف فرعون اور اس کے اہل خانہ ہی نہیں بلکہ فرعون کے تمام پیروکار ہیں۔ جیسا کہ آگے ( وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ) 8۔ الانفال;54) ہے (ہم نے ال فرعون کو غرق کر دیا) یہ غرق ہونے والے فرعون کے گھر کے ہی نہیں تھے اس کے فوجی اور دیگر پیروکار بھی تھے۔ اس کی مزید تفصیل الاحزاب میں انشاء اللہ آئے گی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور (ہمارے ان احسانات کو یاد کرو) جب ہم نے تم کو قومِ فرعون سے نجات بخشی وہ (لوگ) تم کو بڑا دکھ دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی
6 Muhammad Junagarhi
اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے جو تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے، اس نجات دینے میں تمہارے رب کی بڑی مہربانی تھی
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی تھی۔ جو تمہیں بدترین عذاب کا مزہ چکھاتے تھے (یعنی) تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں (بیٹیوں) کو (اپنی خدمت گزاری کے لئے) زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی بڑی سخت آزمائش تھی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب ہم نے تم کوفرعون والوں سے بچالیا جو تمہیں بدترین دکھ دے رہے تھےً تمہارے بچوں کو قتل کررہے تھے اور عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمہارے لئے بہت بڑا امتحان تھا
9 Tafsir Jalalayn
اور (ہمارے ان احسانات کو یاد کرو) جب ہم نے تم کو قوم فرعون سے مخلصی بخشی وہ (لوگ) تم کو بڑا دکھ دیتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی
وَاذکروا اِذْنَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ آل فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ ، سابقہ آیات میں بنی اسرائیل پر جن انعامات و احسانات کا اجمالا ذکر تھا، (اب یہاں سے مسلسل کئی رکوعوں تک) ان کی قدرے تفصیل بیان کی جا رہی ہے، اس تاریخی بیان میں دراصل یہ دکھانا مقصود ہے کہ ایک طرف یہ احسانات و انعامات ہیں جو خدا نے تم پر کئے اور دوسری طرف تمہارے یہ کرتوت ہیں جو ان احسانات کے جواب میں تم کرتے رہے ہو۔
مِنْ آل فِرْعَوْنَ ، ال یہ اہل کامرادف ہے اور مراد اس سے فرعون کی قبطی قوم ہے آل اور اہل میں فرق صرف اس قدر ہے کہ اہل کا استعمال عام ہے اور آل صرف خصوصیت اور اہمیت رکھنے والوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
فرعون کسی متعین بادشاہ کا ذاتی نام یا علم نہیں ہے قدیم شاہان مصر کا لقب تھا، جیسا کہ فارس کے بادشاہ کو کسریٰ اور روم کے بادشاہ کو قیصر اور حبشہ کو نجاشی کہتے تھے، جیسا کہ زمانہ قریب میں روس کے بادشاہ کو زار اور ترکی کے فرمانروا کو سلطان اور والی مصر کو خدیو اور والی حیدرآباد دکھن کو نظام کہتے تھے، مؤرخین کا خیال ہے کہ موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کا ہمعصر کوئی ایک بادشاہ نہیں ہے بلکہ یکے بعد دیگرے دو بادشاہ ہیں۔
تشریح نقشہ
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر جزیرہ نمائے سینا میں مارہ، ایلیم اور عیدیم کے راستے کوہسینا
کی طرف آئے اور ایک سال سے کچھ زائد مدت تک اس مقام پر ٹھہرے رہے، یہیں تورات کے بیشتر احکام آپ پر نازل ہوئے، ہر آپ کو حکم ہوا، کہ بنی اسرائیل کو لے کر فلسطین کی طرف جاؤ اور اسے فتح کرلو کہ کہ وہ تمہاری میراث میں دیا گیا ہے، چناچہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام بنی اسرائیل کو لئے ہوئے تبعیر اور حصیرات کے راستے دشت فاران میں تشریف لائے اور یہاں سے آپ نے ایک وفد فلسطین کے حالات کا مطالعہ کرنے کے لئے روانہ کیا، قادس کے مقام پر اس وفد نے آکر اپنی رپورٹ پیش کی، حضرت یوشع اور کالب کے سوا پورے وفد کی رپورٹ نہایت حوصلہ شکن تھی، جسے سن کر بنی اسرائیل چہخ اٹھے اور انہوں نے فلسطین کی مہم پر جانے سے انکار کردیا، تب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اب یہ چالیس برس تک اس علاقے میں بھٹکتے رہیں گے اور ان کی موجودہ نسل، یوشع اور کالب کے سوا فلسطین کی شکل دیکھنے نہ پائے گی، اس کے بعد بنی اسرائیل دشت فاران و بیانان شور اور دشت صین کے درمیان مارے مارے پھرتے رہے اور عمالقہ، اموریوں، ادومیوں ندیانوں اور موآب کے لوگوں سے لڑتے بھڑتے رہے، جب چالیس سال گزرنے کے قریب آئے تو ادوم کی سرحد کے قریب کوہ ہور پر حضرت ہارون علیہ الصلوٰة والسلام نے وفات پائی، پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام بنی اسرائیل کو لئے ہوئے موآب کے علاقے آئے میں داخل ہوئے، اور اس پورے علاقے کو فتح کرتے ہوئے حسبون اور شطیم تک پہنچ گئے، یہاں کوہ عباریم پر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کا انتقال ہوا، اور ان کے بعد ان کے خلیفہ اول حضرت یوشع نے مشرق کی جانب سے دریائے اردن کو پار کرکے شہر یریکو (اریکا) کو فتح کیا، یہ فلسطین کا پہلا شہر تھا جو بنی اسرائیل کے قبضہ میں آیا پھر ایک مدت ہی میں پورا فلسطین فتح ہوگیا، اس نقدشہ میں ایلہ (قدیم نام ایلات اور موجودہ نام عقبہ) وہ مقام ہے جہاں غالبا اصحاب السبت کا وہ مشہور واقعہ پیش آیا تھا جس کا ذکر سورة بقرہ رکوع ٨، اور سورة اعراف رکوع ١٢ میں آیا ہے۔
فرعون موسیٰ کا نام : اہل کتاب کے قول کے مطابق فرعون موسیٰ کا نام قابوس ہے اور وہب نے کہا ہے کہ اس کا نام ولید بن مصعب بن ریان ہے، (فتح القدیر شرکانی)
جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے کہ \&\& فرعون \&\& شاہان مصر کا لقب ہے کسی خاص بادشاہ کا نام نہیں ہے، تین ہزار سال قبل مسیح سے شروع ہو کر عہد سکندر تک فراعنہ کے اکتیس خاندان مصر پر حکمران رہے ہیں۔
عام مؤرخین عرب اور مفسرین، فرعون موسیٰ کا تعلق خاندان عمالقہ سے قرار دیتے ہیں، کوئی اس کا نام ولید بن معصب بن ریاب بتاتا ہے اور کوئی مصعب بن ریان، مگر ارباب تحقیق کی رائے ہے کہ اس کا نام ریان تھا، ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی کنیت ابومرہ تھی، یہ سب اقوال قدیم مورخین کی تحقیقی روایات پر مبنی تھے، مگر اب جدید مصری اثری تحقیقات اور حجری کتبات کے پیش نظر اس سلسلہ میں دوسری رائے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ موسیٰ علیہ الصلوٰةو السلام کے زمانہ کا فرعون ریمسیس ثانی کا بیٹا منفتاح ہے، جس کا دور حکومت، ١٢٩٢ قبل مسیح سے شروع ہو کر ١٢٢٥ قبل مسیح پر ختم ہوتا ہے۔ (قصص القرآن مولانا حفظ الرحمن ملخصا)
مصری عجائب خانہ میں یہ نعش آج بھی محفوظ ہے اور قرآن عزیز کے اس کلام بلاغت نظام کی تصدیق کر رہا ہے۔
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً ، آج کے دن ہم تیرے جسم کو (دریا سے) نجات دیں گے، تاکہ وہ تیرے بعد آنے والوں کے لئے (خدا کا) نشان رہے۔ محمد احمد عدوی اپنی کتاب \&\& دعوة الرسل الی اللہ \&\& میں لکھتے ہیں کہ اس نعش کی ناک کے سامنے کا حصہ ندارد ہے اس کی تصدیق اس تصویر کے دیکھنے سے بھی ہوتی ہے جو زمانہ قریب میں سی ڈی میں محفوظ کی گئی ہے۔
فرعون کا جواب : تورات اور مورخین کا بیان ہے کہ فرعون کو بنی اسرائیل کے ساتھ اس لئے عداوت ہوگئی تھی کہ فرعون نے ایک بھیانک خواب دیکھا تھا وہ یہ کہ بیت المقدس سے ایک آگ نکلی ہے۔ یہاں تک کہ : اس نے مصر پہنچ کر مصر کے تمام گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور قبطیوں کو جلا ڈالا اور اسرائیلیوں کو چھوڑ دیا، اس خواب سے فرعون کو بہت تشویش لاحق ہوئی اس کی تعبیر کے لئے کاہنوں، نجومیوں اور قیافوں کو جمع کیا، ان لوگوں نے بتایا کہ تیری حکومت کا زوال ایک اسرائیلی لڑکے کے ہاتھوں ہوگا، اس واقعہ کے بعد فرعون کو اسرائیلیوں سے عدوات ہوگئی اور نومولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دیدیا۔ مفسرین نے بھی انہی روایات کو کتب تفسیر میں نقل فرمایا ہے۔
موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام اور ان کا نسب : حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کا نسب چند واسطوں سے یعقوب علیہ الصلوٰة والسلام تک پہنچتا ہے ان کے والد کا نام عمران اور والدہ کا نام یوکابد تھا، سلسلہ نسب یہ ہے موسیٰ بن عمران بن قاہث بن لاوی بن یعقوب (علیہ الصلوٰة والسلام) بن اسحاق بن ابراہیم (علیہ الصلوٰة والسلام) موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی ولادت ایسے زمانہ میں ہوئی جب کہ فرعون بنی اسرائیل کے لڑکوں کے قتل کا فیصلہ کرچکا تھا۔
بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات : وَاِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ آل فِرْعَوْنَ ، نَجَّیْنَا، باب تفعیل سے ہے، اس باب کی ایک خاصیت فعل کی تدریج ظاہر کرنا بھی ہے، بعض مورخین کا خیال ہے کہ تمام اسرائیلی مصر سے ایک ساتھ نہیں نکلے تھے، بلکہ بتدریج مختلف جماعتوں کی شکل میں نکلے تھے، اور ان کا سب سے بڑا اور آخری دستہ وہ تھا، جو حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی قیادت میں روانہ ہوا اور راہ بھٹک کر سمندر پار ہوا۔ (تفسیر ماجدی)
فرعون اور مصری سرکار کے مظالم سالہا سال تک برداشت کرنے کے بعد بالآخر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی قیادت میں ساری قوم اسرائیل نے مصر کی سکونت ترک کرکے اپنے آبائی وطن شام و فلسطین کو چلا جانا طے کرلیا، سفر مصری حکومت سے خفیہ طور پر رات کے وقت شروع کیا، یہ وہ زمانہ تھا کہ راستہ میں روشنی کا انتظام تو دور کی بات ہے، آج کل کی طرح باقاعدہ سڑکیں بھی نہ تھیں، رات کی تاریکی میں اسرائیلی راستہ بھول گئے اور نجائے اس کے کہ شمال کی طرف کچھ آگے بڑھ کر اپنی دائیں طرف مشرق کی جانب مڑتے پہلے ہی ادھر مڑ گئے، ادھر فرعون کو بھی اس کی اطلاع ہوگئی، فرعون اپنے لشکر کی کمان خود کرتا ہو تیزی سے تعاقب میں آپہنچا، اب اسرائیلیوں کے سامنے یعنی مشرق کی جانب بحر قلزم کا شمالی سرا تھا اور دائیں بائیں یعنی شمال و جنوب میں پہاڑیاں تھیں اور پشت یعنی مغرب کی جانب مصری لشکر تھا، قرآن مجید میں اسی تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہاں سے بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تفصیلاً شمار شروع ہوتا ہے، چنانچہ فرمایا :
﴿ وَاِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ ﴾یعنی فرعون، اس کے سرداروں اور اس کی فوجوں سے نجات دی جو انہیں اس سے قبل ذلت آمیز عذاب میں مبتلا رکھتے تھے ﴿ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ﴾” وہ دیتے تھے تمہیں سخت عذاب۔“ یعنی تمہیں ایذاء پہنچاتے اور تم سے کام لیتے تھے ﴿یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَاۗءَکُمْ﴾۔ اور وہ یہ کہ تمہارے بیٹوں کو اس خوف سے ذبح کرتے تھے کہ کہیں تمہاری تعداد بڑھ نہ جائے ﴿ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَاۗءَکُمْ﴾” اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے“ یعنی وہ تمہاری عورتوں کو قتل نہیں کرتے تھے پس تمہاری حالت یہ تھی کہ یا تو تمہیں قتل کردیا جاتا تھا یا تم سے مشقت کے کام لے کر تمہیں ذلیل کیا جاتا تھا اور تمہیں احسان کے طور پر اور اظہار غلبہ کے لئے زندہ رکھا جاتا تھا۔ یہ توہین اور اہانت کی انتہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں مکمل نجات عطا کر کے اور ان کے آنکھوں دیکھتے ان کے دشمن کو غرق کر کے ان پر احسان فرمایا تاکہ ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو۔
﴿وَفِیْ ذٰلِکُمْ﴾” اور اس میں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے اس نجات عطا کرنے میں ﴿ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ﴾” تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش ہے“ پس یہ چیز تم پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کے احکامات کی اطاعت کو واجب کرتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur woh ( waqt yaad kero ) jab hum ney tum ko firon kay logon say najat di jo tumhen bara azab detay thay , tumharay beton ko zabah ker daaltay aur tumhari aurton ko zinda rakhtay thay . aur iss sari soorat-e-haal mein tumharay perwerdigar ki taraf say tumhara bara imtihan tha .
12 Tafsir Ibn Kathir
احسانات کی یاد دہانی
ان آیتوں میں فرمان باری ہے کہ اے اولاد یعقوب میری اس مہربانی کو بھی یاد رکھو کہ میں نے تمہیں فرعون کے بدترین عذابوں سے چھٹکارا دیا، فرعون نے ایک خواب دیکھا تھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ بھڑکی جو مصر کے ہر ہر قطعی کے گھر میں گھس گئی اور بنی اسرائیل کے مکانات میں وہ نہیں گئی جس کی تعبیر یہ تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہوگا جس کے ہاتھوں اس کا غرور ٹوٹے گا اس کے اللہ کے دعویٰ کی بدترین سزا اسے ملے گی اس لئے اس ملعون نے چاروں طرف احکام جاری کر دئیے کہ بنی اسرائیل میں جو بچہ بھی پیدا ہو، سرکاری طور سے اس کی دیکھ بھال رکھی جائے اگر لڑکا ہو تو فوراً مار ڈالا جائے اور لڑکی ہو تو چھوڑ دی جائے۔ علاوہ ازیں بنی اسرائیل سے سخت بیگار لی جائے ہر طرح کی مشقت کے کاموں کا بوجھ ان پر ڈال دیا جائے۔ یہاں پر عذاب کی تفسیر لڑکوں کے مار ڈالنے سے کی گئی اور سورة ابراہیم میں ایک کا دوسری پر عطف ڈالا جس کی پوری تشریح انشاء اللہ سورة قصص کے شروع میں بیان ہوگی اللہ تعالیٰ ہمیں مضبوطی دے ہماری مدد فرمائے اور تائید کرے آمین یسومونکم کے معنی مسلسل اور کرنے کے آتے ہیں یعنی وہ برابر دکھ دئیے جاتے تھے چونکہ اس آیت میں پہلے یہ فرمایا تھا کہ میری انعام کی ہوئی نعمت کو یاد کرو اس لئے فرعون کے عذاب کی تفسیر کو لڑکوں کے قتل کرنے کے طور پر بیان فرمایا تاکہ نعمتوں کی تعداد زیادہ ہو۔ یعنی متفرق عذابوں سے اور بچوں کے قتل ہونے سے تمہیں حضرت موسیٰ کے ہاتھوں نجات دلوائی۔ مصر کے جتنے بادشاہ عمالیق وغیرہ کفار میں سے ہوئے تھے ان سب کو فرعون کہا جاتا تھا جیسے کہ روم کے کافر بادشاہ کو قیصر اور فارس کے کافر بادشاہ کو کسری اور یمن کے کافر بادشاہ کو تبع اور حبشہ کے کافر بادشاہ کو نجاشی اور ہند کے کافر بادشاہ کو بطلیموس۔ اس فرعون کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا۔ بعض نے مصعب بن ریان بھی کہا ہے۔ عملیق بن اود بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد میں سے تھا اس کی کنیت ابو مرہ تھی۔ اصل میں اصطخر کے فارسیوں کی نسل میں تھا اللہ کی پھٹکار اور لعنت اس پر نازل ہو پھر فرمایا کہ اس نجات دینے میں ہماری طرف سے ایک بڑی بھاری نعمت تھی بلاء کے اصلی معنی آزمائش کے ہیں لیکن یہاں پر حضرت ابن عباس، حضرت مجاہد، ابو العالیہ، ابو مالک سدی وغیرہ سے نعمت کے معنی منقول ہیں، امتحان اور آزمائش بھلائی برائی دونوں کے ساتھ ہوتی ہے لیکن بلوتہ بلاء کا لفظ عموماً برائی کی آزمائش کے لئے اور ابلیہ ابلا وبلاء کا لفظ بھلائی کے ساتھ کی آزمائش کے لئے آتا ہے یہ کہا گیا ہے کہ اس میں تمہاری آزمائش یعنی عذاب میں اور اس بچوں کے قتل ہونے میں تھی۔ قرطبی اس دوسرے مطلب کو جمہور کا قول کہتے ہیں تو اس میں اشارہ ذبح وغیرہ کی طرف ہوگا اور بلاء کے معنی برائی کے ہوں گے پھر فرمایا کہ ہم نے فرعون سے بچا لیا۔ تم موسیٰ کے ساتھ شہر سے نکلے اور فرعون تمہیں پکڑنے کو نکلا تو ہم نے تمہارے لئے پانی کو پھاڑ دیا اور تمہیں اس میں سے پار اتار کر تمہارے سامنے فرعون کو اس کے لشکر سمیت ڈبو دیا۔ ان سب باتوں کا تفصیل وار بیان سورة شعراء میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ عمرو بن میمون اودی فرماتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر نکلے اور فرعون کو خبر ہوئی تو اس نے کہا کہ جب مرغ بولے تب سب نکلو اور سب کو پکڑ کر قتل کر ڈالو لیکن اس رات اللہ تعالیٰ کی قدرت سے صبح تک کوئی مرغ نہ بولا مرغ کی آواز سنتے ہی فرعون نے ایک بکری ذبح کی اور کہا کہ اس کی کلیجی سے میں فارغ ہوں اس سے پہلے چھ لاکھ قبطیوں کا لشکر جرار میرے پاس حاضر ہوجانا چاہئے چناچہ حاضر ہوگیا اور یہ ملعون اتنی بڑی جمعیت کو لے کر بنی اسرائیل کی ہلاکت کے لئے بڑے کروفر سے نکلا اور دریا کے کنارے انہیں پا لیا۔ اب بنی اسرائیل پر دنیا تنگ آگئی پچھے ہٹیں تو فرعونیوں کی تلواروں کی بھینٹ چڑھیں آگے بڑھیں تو مچھلیوں کا لقمہ بنیں۔ اس وقت حضرت یوشع بن نون نے کہا کہ اے اللہ کے نبی اب کیا کیا جائے ؟ آپ نے فرمایا حکم الٰہی ہمارا راہنما ہے، یہ سنتے ہی انہوں نے اپنا گھوڑا پانی میں ڈال دیا لیکن گہرے پانی میں جب غوطے کھانے لگا تو پھر کنارے کی طرف لوٹ آئے اور پوچھا اے موسیٰ رب کی مدد کہاں ہے ؟ ہم نہ آپ کو جھوٹا جانتے ہیں نہ رب کو تین مرتبہ ایسا ہی کہا۔ اب حضرت موسیٰ کی طرف وحی آئی کہ اپنا عصا دریا پر مارو عصا مارتے ہی پانی نے راستہ دے دیا اور پہاڑوں کہ طرح کھڑا ہوگیا حضرت موسیٰ اور آپ کے ماننے والے ان راستوں سے گزر گئے انہیں اس طرح پار اترتے دیکھ کر فرعون اور فرعونی افواج نے بھی اپنے گھوڑے اسی راستہ پر ڈال دئیے۔ جب تمام کے تمام میں داخل ہوگئے پانی کو مل جانے کا حکم ہوا پانے کے ملتے ہی تمام کے تمام ڈوب مرے بنی اسرائیل نے قدرت الٰہی کا یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے کنارے پر کھڑے ہو کر دیکھا جس سے وہ بہت ہی خوش ہوئے اپنی آزادی اور فرعون کی بربادی ان کے لئے خوشی کا سبب بنی۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ دن عاشورہ کا تھا یعنی محرم کی دسویں تاریخ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ جبحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ شریف میں تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں پوچھا کہ تم اس دن کا روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا اس لئے کہ اس مبارک دن میں بنی اسرائیل نے فرعون کے ظلم سے نجات پائی اور ان کا دشمن غرق ہوا جس کے شکریہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ روزہ رکھا آپ نے فرمایا تم سے زیادہ حقدار موسیٰ (علیہ السلام) کا میں ہوں پس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ بخاری مسلم نسائی ابن ماجہ وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ ایک اور ضعیف حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے سمندر کو پھاڑ دیا تھا اس حدیث کے راوی زید العمی ضعیف ہیں اور ان کے استاد یزید رقاشی ان سے بھی زیادہ ضعیف ہیں۔