البقرہ آية ۵
اُولٰۤٮِٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ ۙ وَاُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
طاہر القادری:
وہی اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی حقیقی کامیابی پانے والے ہیں،
English Sahih:
Those are upon [right] guidance from their Lord, and it is those who are the successful.
1 Abul A'ala Maududi
ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔
3 Ahmed Ali
وہی لوگ اپنے رب کے راستہ پر ہیں اور وہی نجات پانے والے ہیں
4 Ahsanul Bayan
یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں (١)
ف۱ یہ ان اہل ایمان کا انجام بیان کیا گیا ہے جو ایمان لانے کے بعد تقویٰ و عمل اور عقیدہ صحیحہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ محض زبان سے اظہار ایمان کو کافی نہیں سمجھتے۔ کامیابی سے مراد آخرت میں رضائے الٰہی اور اس کی رحمت و مغفرت کا حصول ہے۔ اس کے ساتھ دنیا میں بھی خوش حالی اور سعادت و کامرانی مل جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی دوسرے گروہ کا تذکرہ فرما رہا ہے جو صرف کافر ہی نہیں بلکہ اس کا کفر و عناد اس انتہا تک پہنچا ہوا ہے جس کے بعد اس سے خیر اور قبول اسلام کی توقع ہی نہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر (قائم) ہیں اور یہی وہ ہیں جو (آخرت میں) فوز و فلاح پانے والے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ہیں اور فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں
9 Tafsir Jalalayn
یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں
اُولِئلکَ عَلیٰ ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : یہ ان اہل ایمان کا انجام بیان کیا گیا ہے جو ایمان لانے کے بعد تقویٰ و عمل اور عقیدہ صحیحہ کا اہتمام کرتے ہیں، محض زبان سے اظہار ایمان کو کافی نہیں سمجھتے، کامیابی دار آخرت میں رضائے الہیٰ اور اس کی رحمت و معرفت کا حصول ہے اگر اس کے ساتھ دنیا میں بھی خوشحالی اور کامرانی مل جائے، تو سبحان اللہ ورنہ اصل کامیابی آخرت کی ہی کامیابی ہے۔
فلاح : عربی میں بڑے وسیع معنی میں آتا ہے، دنیا و آخرت کی ساری خوبیوں کو جامع ہے اس لئے مُفْلِحُوْنَ کا پورا مفہوم کامیاب، بامراد، وغیرہ کسی اردو لفظ سے ادا ہونا دشوار ہے، امام لغت زبیدی کا قول ہے کہ ائمہ لغت کا اس پر اتفاق ہے کہ کلام عرب میں جامعیت خیر کے لئے فلاح سے بڑھ کر کوئی لفظ نہیں : ” لیس فی کلام العرب کلمۃ اجمع من لفظۃ الفلاح لخیری الدنیا والآخرۃ کما قال ائمۃ اللسان “۔ (تاج)
اَولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : کی ترکیب نے معنی میں حصر و تاکید پیدا کردی اور ھم ضمیر فصل تاکید و تخصیص نسبت کے لئے ہے۔ (بحر)
اہم نکتہ : مفسر تھانوی (رح) تعالیٰ نے یہ بات خوب لکھی ہے کہ حصر کا تعلق فلاح کامل سے ہے نہ کہ فلاح مطلق سے اور المفلحون سے مراد الکاملون فی الفلاح ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿أُولَـٰئِكَ﴾یعنی وہ لوگ جو ان صفات حمیدہ سے متصف ہیں۔ ﴿ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ﴾ اپنے رب کی طرف سے عظیم ہدایت پر ہیں، کیونکہ یہاں﴿هُدًى﴾ کا نکرہ استعمال ہونا اس کی تعظیم کی بنا پر ہے اور کون سی ہدایت ایسی ہے جو صفات مذکورہ سے عظیم تر ہو جو صحیح عقیدے اور درست اعمال کو متضمن ہیں؟ ہدایت تو درحقیقت وہی ہے جس پر اہل ایمان عمل پیرا ہیں اس کے علاوہ دیگر تمام مخالف راستے گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ اس مقام پر (علی) کا صلہ استعمال کیا گیا ہے جو بلندی اور غلبے پر دلالت کرتا ہے اور ” ضلالت“ کا ذکر کرتے ہوئے (فی) کا صلہ استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ﴿وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ (سبا :37؍37) ” ہم یا تم یا تو سیدھے راستے پر ہیں یا صریح گمراہی میں“ کیونکہ صاحب ہدایت بر بنائے ہدایت بلند اور غالب ہوتا ہے اور صاحب ضلالت اپنی گمراہی میں ڈوبا ہوا اور نہایت حقیر ہے۔
﴿وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾” اور یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے“ (فلاح) اپنے مطلوب کے حصول میں کامیابی اور خوف سے نجات کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فلاح کو اہل ایمان میں محصور اور محدود کردیا کیونکہ اہل ایمان کے راستے پر گامزن ہوئے بغیر فلاح کی منزل کو نہیں پایا جاسکتا۔ اس راستے کے سوا دیگر راستے بدبختی، ہلاکت اور خسارے کے راستے ہیں جو اپنے چلنے والوں کو ہلاکت کے گڑھوں میں جا گراتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے جہاں اہل ایمان کی حقیقی صفات بیان فرمائی ہیں وہاں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عناد رکھنے والے کھلے کافروں کی صفات کا ذکر بھی کردیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
yeh hain woh log jo apney perwerdigar ki taraf say sahih raastay per hain , aur yehi woh log hain jo falah paaney walay hain
12 Tafsir Ibn Kathir
ہدایت یافتہ لوگ
یعنی وہ لوگ جن کے اوصاف پہلے بیان ہوئے مثلاً غیب پر ایمان لانا، نماز قائم رکھنا، اللہ کے دئیے ہوئے سے دینا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو اترا اس پر ایمان لانا، آپ سے پہلے جو کتابیں اتریں ان کو ماننا، دار آخرت پر یقین رکھ کر وہاں کام آنے کے لئے نیک اعمال کرنا۔ برائیوں اور حرام کاریوں سے بچنا۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں جنہیں اللہ کی طرف سے نور ملا، اور بیان و بصیرت حاصل ہوا اور انہی لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات ہے۔ ابن عباس نے ہدایت کی تفسیر " نور " اور " استقامت " سے کی ہے اور " فلاح " کی تفسیر اپنی چاہت کو پالینے اور برائیوں سے بچ جانے کی ہے۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے نور، دلیل، ثابت قدمی، سچائی اور توفیق میں حق پر ہیں اور یہی لوگ اپنے ان پاکیزہ اعمال کی وجہ سے نجات، ثواب اور دائمی جنت پانے کے مستحق ہیں اور عذاب سے محفوظ ہیں۔ ابن جریر یہ بھی فرماتے ہیں کہ دوسرے اولئک کا اشارہ اہل کتاب کی طرف ہے جن کی صفت اس سے پہلے بیان ہوچکی ہے جیسے پہلے گزر چکا۔ اس اعتبار سے آیت (والذین یومنون بما انزل الیک) الخ پہلے کی آیت سے جدا ہوگا اور مبتدا بن کر مرفوع ہوگا اور اس کی خبر آیت (اولئک ھم المفلحون) ہوگی لیکن پسندیدہ قول یہی ہے کہ اس کا اشارہ پہلے کے سب اوصاف والوں کی طرف ہے اہل کتاب ہوں یا عرب ہوں۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابن مسعود اور بعض صحابہ سے مروی ہے کہ آیت (یومنون بالغیب) سے مراد عرب ایمان دار ہیں اس کے بعد کے جملہ سے مراد اہل کتاب ایماندار ہیں۔ پھر دونوں کے لئے یہ بشارت ہے کہ یہ لوگ ہدایت اور فلاح والے ہیں۔ اور یہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ یہ آیتیں عام ہیں اور یہ اشارہ بھی عام ہے واللہ اعلم۔ مجاہد، ابو العالیہ، ربیع بن انس، اور قتادہ سے یہی مروی ہے ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال ہوا کہ حضور قرآن پاک کی بعض آیتیں تو ہمیں ڈھاریں دیتی ہیں اور امید قائم کرا دیتی ہیں اور بعض آیتیں کمر توڑ دیتی ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ ہم نامید ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا لو میں تمہیں جنتی اور جہنمی کی پہچان صاف صاف بتادوں۔ پھر آپ نے الم سے مفلحون تک پڑھ کر فرمایا یہ تو جنتی ہیں صحابہ نے خوش ہو کر فرمایا " الحمد للہ ہمیں امید ہے کہ ہم انہی میں سے ہوں " پھر آیت (ان الذین کفروا) سے عظیم تک تلاوت کی اور فرمایا یہ جہنمی ہیں۔ انہوں نے کہا ہم ایسے نہیں آپ نے فرمایا ہاں۔ (ابن ابی حاتم)