البقرہ آية ۶۲
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـِٕـيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ
طاہر القادری:
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور (جو) نصاریٰ اور صابی (تھے ان میں سے) جو (بھی) اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے اچھے عمل کئے، تو ان کے لئے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر ہے، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے،
English Sahih:
Indeed, those who believed and those who were Jews or Christians or Sabeans [before Prophet Muhammad (^)] – those [among them] who believed in Allah and the Last Day and did righteousness – will have their reward with their Lord, and no fear will there be concerning them, nor will they grieve.
1 Abul A'ala Maududi
یقین جانو کہ نبی عربی کو ماننے والے ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں یا صابی، جو بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اُس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک ایمان والے نیز یہودیوں اور نصرانیوں اور ستارہ پرستوں میں سے وہ کہ سچے دل سے اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائیں اور نیک کام کریں ان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو اور نہ کچھ غم
3 Ahmed Ali
جو کوئی مسلمان اور یہودی اور نصرانی اورصابئی الله اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور اچھے کام بھی کرے تو ان کا اجر ان کے رب کے ہاں موجود ہے اور ان پر نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے
4 Ahsanul Bayan
ہم مسلمان ہوں، یہودی ہوں (١) نصاری (٢) ہوں یا صابی (٣) ہوں جو کوئی بھی اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی۔ (٤)
٦٢۔١ یھود ھوادۃ (بمعنی محبت ) سے یا تھود (بمعنی توبہ ) سے بنا ہے گویا ان کا یہ نام اصل میں توبہ کرنے یا ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھنے کی وجہ سے پڑا۔ تاہم موسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو یہود کہاجاتا ہے
٦٢۔٢ نصاری ۔ نصران کی جمع ہے جیسے سکاری سکران کی جمع ہے اس کامادہ نصرت ہے آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی وجہ سے ان کا یہ نام پڑا ، ان کو انصار بھی کہا جاتا ہے جیساکہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو کہا تھا آیت ( نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ)61۔ الصف;14) حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکاروں کا نصاری کہا جاتا ہے جن کو عیسائی بھی کہتے ہیں۔
٦٢۔٣ صابئین ۔ صابی کی جمع ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو یقینا ابتداء کسی دین حق کے پیرو رہے ہوں گے ( اسی لئے قرآن میں یہودیت وعیسائیت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا ہے) لیکن بعد میں ان کے اندر فرشتہ پرستی اور ستارہ پرستی آگئی یا یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے ۔ اسی لئے لامذہب لوگوں کو صابی کہاجانے لگا۔
٦٢۔٤ بعض مفسرین کو اس آیت کے مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی یعنی رسالت محمدیہ پر لانا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو بھی جس دن کو مانتا ہے اور اس کے مطابق ایمان رکھتا ہے اور اچھے عمل کرتا ہے اس کی نجات ہو جائے گی۔ یہ فلسفہ سخت گناہ ہے آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے۔ جب اللہ تعالٰی نے سابقہ آیات میں یہود کی بدعملیوں اور سرکشیوں اور اس کی بنا پر ان کے مستحق عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہو سکتا تھا کہ ان یہود میں جو لوگ صحیح کتاب الٰہی کے پیروکار اور اپنے پیغمبر کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے ان کے ساتھ اللہ تعالٰی نے کیا معاملہ فرمایا یا کیا معاملہ فرمائے گا؟ اللہ تعالٰی نے اس کی وضاحت فرما دی صرف یہودی نہیں نصاری اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنہوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صالح کرتے رہے وہ سب نجات آخروی سے ہمکنار ہونگے اور اسی طرح رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے ایمان باللہ والیوم الآخر اور عمل صالح کا اہتمام کریں تو یہ بھی یقینا آخرت کی ابدی نعمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔ نجات اخروی میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا وہاں بےلاگ فیصلہ ہوگا۔ چاہے مسلمان ہوں یا رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزر جانے والے یہودی، عیسائی اور صابی وغیرہ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری اس امت میں جو شخص بھی میری بات سن لے، وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا، جہاں دیگر آیات قرآنی کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے، وہاں احادیث کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی مذموم سعی کا بھی اس میں بہت عمل دخل ہے۔ اس لئے یہ کہنا بلکل صحیح ہے کہ احادیث صحیحہ کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جا سکتا ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست، (یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو) جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا، تو ایسے لوگوں کو ان (کے اعمال) کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے
6 Muhammad Junagarhi
مسلمان ہوں، یہودی ہوں، نصاریٰ ہوں یا صابی ہوں، جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ﻻئے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے رب کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک جو لوگ مؤمن یہودی نصرانی اور صابی (ستارہ پرست) کہلاتے ہیں (غرض) جو کوئی بھی (واقعی) اللہ اور آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔ تو ان (سب) کے لئے ان کے پروردگار کے پاس ان کا اجر و ثواب (محفوظ) ہے اور ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو لوگ بظاہر ایمان لائے یا یہودی ً نصاریٰ اور ستارہ پرست ہیں ان میں سے جو واقعی اللہ اور آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اس کے لئے پروردگار کے یہاں اجر و ثواب ہے اور کوئی حزن و خوف نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو) جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے گا اور عمل نیک کرے گا تو ایسے لوگوں کو ان (کے اعمال) کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے
آیت نمبر ٦٢ تا ٦٦
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا۔۔۔۔۔۔ الیٰ ۔۔۔۔۔۔ وَمَا خَلْفَھَا وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ ۔
ترجمہ : بیشک وہ لوگ جو انبیا سابقین پر ایمان لائے، (یعنی مسلمان) اور یہود اور نصاریٰ اور صابی (اور صابی) یہود و نصاریٰ ہی کا ایک فرقہ ہے، ان میں سے جو بھی اللہ اور روز آخرت پر نبی کے زمانہ میں ایمان لائے گا، اور آپ کی شریعت کے مطابق نیک عمل کرے گا، تو ان کا اجر یعنی ان کے اعمال کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے، اور ان کے لئے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ غم، آمَنَ اور عَمِلَ کی ضمیر میں مِنْ کے لفظ کی رعایت ہے اور اس کے مابعد میں مَنْ ، کے معنی کی رعایت ہے۔ اور وہ وقت یاد کرو، جب ہم نے تم سے تورات کے احکام پر عمل کرنے کا عہد لیا تھا، درآنحالیکہ ہم نے تمہارے اوپر کوہ طور کو بلند کیا (یعنی) اس کو جڑ سے اکھاڑ کر تمہارے اوپر معلق کردیا، جب تم نے تورات کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا، اور ہم نے کہا تھا کہ جو (کتاب) ہم نے تم کو دی ہے، اس کو مضبوطی سے تھامنا، یعنی کوشش اور محنت سے اور جو احکام اس میں درج ہیں، ان پر عمل کے ذریعہ ان کو یاد رکھنا تاکہ تم نار (جہنم) یا معاصی سے بچ سکو، (مگر) پھر تم اس (عہد) کے باوجود طاعت سے پھرگئے، پھر بھی اگر تم پر توبہ اور تاخیر عذاب کے ذریعہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، تو تم زیاں کاروں (یعنی) ہلاک ہونے والوں میں ہوجاتے۔ اور یقیناً تم ان لوگوں کے بارے میں جانتے ہو، جنہوں نے تم میں سے یوم السبت، (ہفتہ) کے بارے میں مچھلی کا شکار کرکے حد سے تجاوز کیا، حالانکہ ہم نے ان کو اس سے منع کیا تھا، اور وہ ایلہ کے باشندے تھے، تو ہم نے ان کے لئے حکم دیدیا کہ ذلیل دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ، چناچہ وہ بند بن گئے، اور تین روز بعد ہلاک ہوگئے، تو ہم نے اس سزا کو موجودہ اور آئندہ آنے والوں یعنی ان کے اور ان کے بعد آنے والوں کے لئے (سامان) عبرت یعنی ان کے جیسا عمل کرنے سے روکنے والا بنادیا، اور خوف (خدا) رکھنے والوں کے لئے نصیحت بنادیا اور متقین کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ یہی لوگ ان سے استفادہ کرتے ہیں، بخلاف ان کے علاوہ کے۔۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ھَادُوْا، ای دَخَلُوْا فی الیَھُوْدِیَّۃِ ، ھَادُوْا، ماضی جمع مذکر غائب معروف، یہودی مذہب اختیار کیا، (ن) ھُوْدًا، توبہ کرنا یہودی ہونا، گؤسالہ پرستی سے توبہ کرنے کی وجہ سے یہودی کہلائے، ھُوْدٌ یہودیوں کی جماعت، الیھود اگر عربی ہے، تو ھَادَ ، سے موخوذ ہے، بمعنی تاب، چونکہ ان لوگوں نے قتل نفس کے ذریعہ بچھڑے کی پرستش سے توبہ کی تھی، اسی لئے یہ لوگ یہود کہلائے اور اگر عجمی ہے، تو اس صورت میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بڑے صاحبزادے ” یہودا “ کی جانب نسبت ہوگی تعریب کے وقت ذال کو دال سے بدل دیا جو کہ معربین کی عام عادت ہے۔
قولہ : النصاریٰ ، یہ نَصْران، کی جمع ہے، اس میں یا نسبتی ضرور استعمال ہوتی ہے کہا جاتا ہے روکنے نصرانی، اِمرأۃ نصرانیۃ، نصاری کی وجہ تسمیہ یا تو یہ ہے کہ انہوں نے کہا تھا : ” نحن انصار اللہ “ یا نَصْران نامی یا ناصرہ نامی بستی کی طرف نسبت کرکے نصرانی کہلانے لگے۔ (اعراب القرآن، لغات القرآن)
قولہ : اَلصَّابِئِیْنَ ، یہ صابی کی جمع ہے اور صَبَا فلانٌ، سے ماخوذ ہے جب کہ دین سے خارج ہوجائے، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ صابی ستارہ پرست کو کہتے ہیں، ابو اسحاق صابی کاتب شاعر کا تعلق اسی قوم سے تھا، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ان لوگوں نے ہر دین و عقیدے سے کچھ کچھ لے لیا تھا، اس لئے یہ بین بین ہوگے، مفسر علام نے طائفۃ من الیھود والنصاری کہہ کر اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : فی زمَنِ نبینا، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک اشکال کا جواب ہے۔
اشکال : اوپر فرمایا : ” اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا “ اور پھر فرمایا : ” اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ “ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، تو اس تخصیص بعد التعمیم کی کیا ضرورت ہے ؟
جواب : دونوں کا مصداق الگ لاگ ہے : ” اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا “ کا مصداق وہ لوگ ہیں، جو زمانہ فترت (وقفہ) میں ایمان لائے، جیسے کہ ورقہ بن نوفل، بحیرا راہب، سلمان فارسی وغیرہ، ان میں سے بعض نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ بھی پایا، اور بعض آپ کی بعچت سے پہلے انتقال کرگئے، اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے علامہ سیوطی نے ” بالانبیائ من قبل “ فرمایا، اور ” مَنْ امَنَ بِاللہِ “ سے وہ لوگ مراد ہیں، جو آپ کے زمانہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے، اس سے معلوم ہوا کہ دونوں کے مصداق میں مغایرت کے بیان کے لئے دوسری آیت کی تشریح میں ” فی زمَنِ نبینا “ فرمایا۔
سوال : مَنْ آمَنَ اور مَنْ عَمِلَ ، میں ضمیر مفرد کا مرجعمَنْ ہے، اور فَلَھّمْ اَجْرُھُمْ کی ھم ضمیر جمع کا مرجع بھی من ہے، جو کہ درست نہیں ہے۔
جواب : مفسر علام نے رُوْعِیَ فی ضمیر الخ کا اضافہ کرکے اسی سوال کا جواب دیا ہے، مطلب یہ ہے کہ اول میں مَن کے لفظ کی رعایت ہے اور دوسرے میں مَنْ کے معنی کی رعایت ہے یہ بات یاد رہے کہ مَنْ ، لفظ کے اعتبار سے مفرد اور معنی کے اعتبار سے جمع ہے۔
قولہ : وَقَدْ رَفَعْنَا، قَدْ مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ واؤ حالیہ ہے نہ کہ عاطفہ اور رَفَعْنَا، قَدْ کی تقدیر کے ساتھ اَخَذْنٰھُمْ ، سے حال ہے، نہ کہ معطوف، اس لئے کہ امام شافعی کے نزدیک معطوف علیہ اور معطوف میں ترتیب ضروری ہے حالانکہ رفع طور مقدم ہے اور اخذ میثاق مؤخر۔
قولہ : بالعمل، بالعمل، کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ ذکر لسانی کافی نہیں بلکہ مقصد عمل ہے مطلب یہ ہے کہ نعمتوں کو شمار کرنا اور گننا مقصد نہیں ہے عمل مقصد ہے۔
قولہ : النار والمعاصی، اس میں اشارہ ہے کہ تَتَّقُوْنَ کا مفعول النار یا المعاصی محذوف ہے یہ تنزیل المتعدی بمنزلۃ الازم کے قبیل سے نہیں ہے۔
قولہ : نَکَال، جمع اَنکال، بیڑی کو کہتے ہیں، لازم منع کے طور پر عذاب اور مَنَعَ میں استعمال ہوتا ہے۔
اللغۃ والبلاغۃ
وَالصّٰبِئینَ : جمع صَابئ، من صَبَأ فلان اذا خَرَجَ مِنَ الدین، والصابئۃ قومٌ کانوا یعبدون النجوم ومنھم ابو اسحٰق الصابئ الکاتب الشاعر المشھور۔
الطور من جبال فلسطین، ویطلق علی کل جبل کما فی القاموس۔
تفسیر و تشریح
ربط آیات : ما قبل میں بنی اسرائیل کی شرارتوں اور ان کی ضد وعناد کا ذکر تھا، اس سے ناظرین کو یا خود یہود کو یہ خیال گزر سکتا تھا کہ ان حالات میں اگر عذر معذرت کرکے ایمان لانا بھی چاہیں تو غالبا اللہ کے نزدیک قبول نہ ہو اس خیال کو دفع کرنے کے لئے اس قرینہ میں ایک قانون رکھتا ہو اور دیگر ضروریات دین پر ایمان رکھتا ہو، نیز قانون شریعت کے مطابق عمل پیرا ہو، تو ایسے لوگوں کے لئے ان کا حق الخدمت بھی ہے اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ کر نہ مغموم ہوں گے اور نہ ان کو کسی بات کا خوف ہوگا۔
مطلب : مطلب یہ ہے کہ ہمارے دربار میں کسی کی تخصیص نہیں جو شخص عقائد و اعمال میں پوری اطاعت کرے گا خواہ وہ پہلے سے کیسا ہی ہو وہ ہمارے یہاں مقبول اور اس کی خدمت مشکور ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ نزول قرآن کے بعد پوری اطاعت دین محمدی میں منحصر ہے، مطلب یہ ہے کہ ان شرارتوں کے بعد بھی اگر مسلمان ہوجائے گا، تو اس کے لئے راہ نجات کھلی ہوئی ہے، ہم ان کی سب شرارتوں کو معاف کردیں گے۔ (معارف ملخصا)
وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا، اب تک بنی اسرائیل کے نام سے ایک خاص نسل اور قوم کا ذکر تھا، اور ان کی تاریخ کے اہم ترین واقعات اور مناظر سامنے لائے جا رہے تھے، اب یہاں اسی قوم کا ذکر بحیثیت مسلک اور عقیدہ کے شروع ہو رہا ہے، یہاں پہلی بار “ اَلَّذِیْنَ ھَادُوْا ” کہہ کر ان کے مذہبی عقیدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
بنی اسرائیل اور یہود میں فرق : بنی اسرائیل ایک نسلی اور خاندانی نام ہے جسے اپنی عالی نسبی پر فخر تھا، اپنے آباو اجداد کی مقبولیت پر ناز تھا، تاریخ کو دہرانے کے لئے ضروری تھا کہ ان کا نسلی نام لیا جائے، چناچہ اب تک ان کا اسی نسلی نام سے ذکر کیا گیا، اب یہاں سے ایک دینی مسلک اعتقادی نظام کا بیان شروع ہو رہا ہے، اس لئے ضروری ہوا کہ اب ایسا نام لیا جائے کہ جو نسبت اور نسل اور خاندان کے بجائے، مسلک و عقیدہ کی طرف رہنمائی کرے : ” والَّذِیْنَ ھَادُوْا “ اسی ضرورت کے لئے بولا گیا ہے۔
یہودی مذہب نسلی مذہب ہے، تبلیغی نہیں ؟ کسی غیر اسرائیلی کو یہودی بنانے کا طریقہ ان کے یہاں نہیں، برناباس حواری غیر اسرائیلی کو یہودی مذہب میں داخل کرنے کے مخالف تھے، اس کے برخلاف پولوس رسول اس کے حامی تھے جو غیر اسرائیلی یہودی مذہب اختیار کرتے تھے، ان کو خارجی کہا جاتا تھا، غیر اسرائیلیوں کے یہودی مذہب اختیار کرنے میں بڑی رکاوٹ ایک یہ تھی کہ وہ یہودی شرعی احکام کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے، خاص طور پر احکام عشر کو اور ان میں بھی ختنہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے، پولوس رسول نے ایک کانفرنس میں بعض احکام کو منسوخ کردیا، جن میں ختنہ کا حکم بھی شامل تھا، اس ترمیم کی وجہ سے غیر اسرائیلیوں کا یہودی مذہب میں داخل ہونا آسان ہوگیا اور یہیں سے برناباس حواری کی مخالفت کا آغار ہوا۔ (بائبل سے قرآن تک ملخصا)
عرب میں متعدد قبیلے ایسے آباد تھے، جو نہ پیدائشی یہودی تھے، اور نہ نسلا اسرائیلی، بلکہ عرب یا بنی اسماعیل تھے، لیکن یہود کی صحبت سے متاثر و مرعوب ہو کر انہوں نے یہود کے طور طریقہ اور پھر عقیدے اختیار کر لئے اور رفتہ رفتہ ان کا شمار بھی یہودی آبادی میں ہونے لگا۔
اسرائیل کی قومی حکومت کا خاتمہ : اسرائیل کی قومی حکومت کا خاتمہ تو ظہور سلام سے مدتوں پہلے مشرک رومیوں کے ہاتھوں بیت المقدس کی بربادی کے بعد ہی ہوگیا تھا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاصرین یہود کی حیثیت صرف ایک مذہبی اور دینی فرقے کی رہ گئی تھی، مدینہ اور جوار مدینہ بلکہ یمن میں بھی جو یہود موجود تھے، وہ نسلاً بنی اسرائیل نہ تھے، بنی اسرائیل تھے، لیکن اسرائیلیوں کی صحبت میں رہ کر تمدن معاشرت یہاں تک کہ عقیدے بھی انہیں کے اختیار کر لئے تھے : ” وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا “ میں کھلا اشارہ اسی حقیقت کی طرف ہے۔
بنی اسرائیل کی مختصر تاریخ : اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے، آپ کے بارہ صاحبزادے تھے، حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد ہی کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے عہد قدیم میں اللہ تعالیٰ نے اسی خانوادے کو منصب نبوت کے لئے منتخب فرمایا تھا اور ان میں بیشمار پیغمبر مبعوث فرمائے، بنی اسرائیل کا اصل وطن فلسطین کے علاقے تھے، لیکن عمالقہ نے اس علاقہ پر غاصبانہ قبضہ کرکے اسرائیلیوں کو فراعنہ مصر کی غلامی پر مجبور کردیا تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں اس غلامی سے نجات حاصل ہوئی، لیکن اب بھی وہ فلسطین کو دوبارہ حاصل نہ کرسکے تھے، ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وفات پاگئے، آپ کے بعد حضرت یوشع اور ان کے بعد کالب (علیہم السلام) پیغمبر ہوئے حضرت یوشع (علیہ السلام) نے اپنے زمانہ میں عمالقہ سے جہاد کرکے فلسطین کا ایک بڑا علاقہ فتح کرلیا، لیکن ان دونوں حضرات کے بعد بنی اسرائیل کو چاروں طرف سے مختلف یورشوں کا سامنا کرنا پڑا اس زمانہ تک بنی اسرائیل عربوں کی طرف نیم خانہ بدوش تھے، اور ان کی زندگی تمدن سے زیادہ قبائلی انداز کی تھی، تاہم جو شخص ان کے قبائلی قوانین کی بنا پر بین القبائلی جھگڑوں کو خوبصورتی سے رفع کردیتا تھا، اسے بنی اسرائیل تقدس کی نظر سے دیکھتے تھے، اور اگر اس میں کچھ عسکری صلاحیتیں بھی پاتے، تو بیرونی حملوں کے مقابلہ کے لئے اسی کو اپنا سپہ سالار بھی بنا لیا جاتا، اس قسم کے قائدین کو بنی اسرائیل قاضی کہا کرتے تھے۔
قاضیوں کے زمانہ میں جہاں اسرائیلیوں نے بیرونی حملوں کا کامیاب دفاع کیا، وہاں گیارہویں صدی قبل مسیح میں وہ کنعانیوں کے ہاتھ مغلوب ہوگئے اور فلسطین کے بڑے علاقہ پر کنعانیوں کی حکومت قائم ہوگئی جو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے عہد تک قائم رہی۔
بالآخر حضرت شموئیل (علیہ السلام) پیغمبر بنا کر بھیجے گئے، تو بنی اسرائیل نے ان سے درخواست کی کہ اب ہم خانہ بدوشی کی زندگی سے تنگ آگئے ہیں آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہمارے اوپر ایک بادشاہ مقرر فرما دے جس کے تابع ہو کر ہم فلسطین پر قابضوں کا مقابلہ کریں، چناچہ حضرت شموئیل (علیہ السلام) کی دعا سے ان ہی میں سے ایک شخص کو جس کا نام قرآن کریم کے بیان کے مطابق طالوت تھا، مقرر کردیا گیا، اور بائبل کی روایت کے مطابق ساؤل تھا، طالوت نے فلسطینیوں کا مقابلہ کیا، حضرت داؤد (علیہ السلام) اس وقت نوجوان تھے، اور طالوت کے لشکر میں اتفاقاً شامل ہوگئے تھے، فلسطینیوں کے لشکر سے ایک پہلوان جالوت نے مبارزہ طلب کیا تو حضرت داؤد (علیہ السلام) اس کے مقابلے کے لئے نکلے اور اسے قتل کردیا، اس واقعہ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل میں اتنی ہر دلعزیزی عطا کردی کہ ساؤل (طالوت) کے بعد وہ بادشاہ بنے، حضرت داؤد (علیہ السلام) کے عہد میں فلسطین پر بنی اسرائیل کا قبضہ تقریباً مکمل ہوگیا، ان کے بعد ١٩٧٤ قبل مسیح میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس سلطنت کو اور مستحکم کرے اقبال کے بام عروج تک پہنچا دیا، ان کے ہی حکم سے بیت المقدس کی تعمیر ہوئی، سلطنت کا نام اپنے جد امجد کے نام پر یہودارکھا۔ لیکن ٩٧٣ قبل مسیح میں حضرت سلیمان کے بعد ان کا بیٹا رجعام تخت سلطنت پر بیٹھا تو اس نے اپنی نا اہلی سے نہ صرف یہ کہ سلطنت کی دینی فضا کو ختم کردیا بلکہ اس کے سیاسی استحکام کو بھی سخت نقصان پہنثایا، اسی کے زمانہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ایک سابق خادم بریعام نے بغاوت کرکے ایک الگ سلطنت اسرائیل کے نام سے قائم کرلی، اب بنی اسرائیل دو ملکوں میں تقسیم ہوگئے، شمال میں اسرائیلی سلطنت تھی جس کا پایہ تخت سامرہ تھا اور جنوب میں یہود یہ کی سلطنت تھی جس کا مرکز یروشلم تھا ان دونوں ملکوں میں باہم سیاسی اور مذہبی اختلاف کا ایک طویل سلسلہ قائم ہوگیا، جو بخت نصر کے حملے تک جاری رہا، دونوں ملکوں میں آہستہ آہستہ بت پرستی کا رواج بڑھنے لگا، اس کے سدباب کے لئے انبیا (علیہم السلام) مبعوث ہوتے رہے، جب بنی اسرائیل کی بداعمالیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں، تو اللہ نے ان پر شاہ بابل کو مسلط کردیا، اس نے ٥٨٦ قبل مسیح میں یروشلم پر زبردست حملے کئے اور آخری حملے میں یروشلم کو بالکل تباہ کر ڈالا، اور اس کے بادشاہ صدقیاہ کو قید کرکے لے گیا اور بقیہ السیف یہودی گرفتار ہو کر بابل چلے گئے، عرصہ دراز تک غلامی کی زندگی گزارتے رہے۔
بالآخر جب ٥٣٦ قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ خسرو نے بابل فتح کیا، تو اس نے یہودیوں کو دوبارہ یروشلم پہنچ کر اپنا بیت المقدس تعمیر کرنے کی اجازت دیدی چناچہ ٥١٥ قبل مسیح میں بیت المقدس کو دوبارہ تعمیر کیا گیا اور یہودی ایک بار پھر یروشلم میں آباد ہوگئے، اسرائیلی سلطنت یہودا سے پہلے ہی اسوریوں کے ہاتھوں تباہ پو چکی تھی، اب اگرچہ دونوں فرقوں کے مذہبی اختلافات کافی حد تک کم ہوچکے تھے، لیکن انہیں کوئی سلطنت نصیب نہ ہوسکی ٤٠٠ ق م، میں ان پر سکندر اعظم کا تسلط ہوگیا اور اسی زمانہ میں انہوں نے تورات کا ترجمہ کیا، ١٦٥ ق م، میں سوریا کے بادشاہ انتیوکس نے ان کا بری طرح قتل عام کیا اور تورات کے تمام نسخ جلا دئیے، اسی دوران یہودا مکابی نے جو بنی اسرائیل کا ایک صاحب ہمت شخص تھا، ایک جماعت بنائی، اور اس کے ذریعہ فلسطین کے ایک بڑے علاقہ پر قبضہ کرکے اسوری حکمرانوں کو مار بھگایا، مکابیوں کی یہ سلطنت ٧٠ ق م تک قائم رہی۔ (بائبل سے قرآن تک)
وَالنَّصٰریٰ ، نصاریٰ نصرانی کے جمع ہے، ملک شام (موجودہ فلسطین) میں ایک قصبہ ہے، ناصرہ (Nazareth) علاقہ گلیلی میں بیت المقدس سے ستر میل دور شمال میں اور بحرروم سے مشرق میں بیس میل کے فاصلہ پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا آبائی وطن یہی قصبہ ہے اور آپ یسوع ناصری اسی مناسبت سے کہلاتے ہیں، ناصرہ ہی کو عربی تلفظ میں نَصْرَان بھی کہتے ہیں، یہی قول قتادہ، ابن جریج کا ہے۔
وھو قول ابن عباس و قتادہ (ابن جریج) (کبیر) قیل سموا بذلک قریۃ تسمی ناصرہ۔ (قرطبی)
مسیحی اور نصرانی میں فرق : مسیحی اناجیل اربعہ پر ایمان رکھتے ہیں، مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا نبی نہیں خدا کا بیٹا مانتے ہیں، یا یہ مانتے ہیں کہ خدا ان کے قالب میں حلول کر آیا تھا، آخرت میں نجات دہندہ خدا کو نہیں مسیح (ابن اللہ) کو مانتے ہیں اور خدائی کو تین اقنوم میں تقسیم کرکے ایک ناقابل فہم فلسفہ بیان کرتے ہیں، ان کے نزدیک ہر اقنوم بجائے خود ایک مستقل خدا ہے اور تینوں اقنوم بھی مل کر ایک مستقل خدا ہے ! کبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎
تثلیث کے قائل نے خالق کو کہا ایک تھی سوئی تین پر حیرت سے بجا ایک
یہاں مقصود بیان نصاریٰ کا ہے، نہ کہ مشرک مسیحیوں کا، نصرانی حضرت مسیح کے سچے پیرو اور آپ کو نبی مانتے تھے، نہ خدا نہ اس کا بیٹا توحید کے قائل تھے، انا جیل اربعہ کے بجائے، انجیل متی کو مانتے تھے، موجودہ مسیحیت سرتاپا پولوسیت ہے اور تمام تر پولوس طرسوسی کی تعلیمات پر مبنی پے یہ فرقہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے کچھ مدت بعد وجود میں آگیا تھا، نصرانی اس کے بالکل منکر تھے، (ماجدی)
وَالصَّابِئِیْنَ ، صابی ہر اس شخص کو کہا جاتا ہے، جو اپنے دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں شامل ہوجائے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شروع میں صابی اس لئے کہا گیا کہ آپ نے دین قریش کو چھوڑ کر دین اسلام اختیار فرمایا، وکانت العرب تسمی بالنبی الصابی لانہ خرج من دین قریش الی دین الاسلام۔ (نہایۃ، تاج)
اصطلاح میں صابیوں کے نام کا ایک مذہبی فرقہ جو عرب کے شمال مشرق میں شام و عراق کی سرحد پر آباد تھا، یہ لوگ دین توحید اور عقیدہ رسالت کے قائل تھے، اصلاً اہل کتاب تھے، ان ہی کو نصاریٰ یحییٰ بھی کہا جاتا تھا، یہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی طرف نسبت رکھتے تھے، حضرت عمر (رض) جیسے مبصر دور بین اور دور رس خلیفہ راشد اور حضرت عبد اللہ بن عباس جیسے محقق صحابی نے صابیوں کا شمار اہل کتاب میں کیا ہے، حضرت عمر (رض) نے ان کا ذبیحہ بھی حلال قرار دیا ہے۔
قال عمر بن الخطاب وابن عباس (رض) ھم قوم من اھل الکتاب وقال عمر تحل ذبائحھم مثل ذبائح اھل الکتاب۔ (معالم، ماجدی)
10 Tafsir as-Saadi
پھر اہل کتاب کے مختلف گروہوں کے درمیان محاکمہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
یہ حکم خاص طور پر اہل کتاب کے لئے ہے، کیونکہ صابئین کے بارے میں صحیح ترین رائے یہ ہے کہ یہ نصاریٰ ہی کا ایک فرقہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس امت کے اہل ایمان، یہود و نصاریٰ اور صابئین میں سے جو کوئی اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اپنے رسولوں کی تصدیق کی ان کے لئے اجر عظیم اور امن ہے۔ ان پر کسی قسم کا خوف ہوگا نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ ان میں سے جس کسی نے اللہ تعالیٰ، اس کے انبیاء و رسل اور یوم آخرت کا انکار کیا تو ان کا حال مذکورہ بالا لوگوں کے حال کے برعکس ہوگا، پس وہ خوف اور غم سے دوچار ہوں گے۔
(مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں) صحیح مسلک یہ ہے کہ ان فرقوں کے مابین یہ محاکمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کی نسبت سے نہیں بلکہ ان کی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ہے۔ کیونکہ یہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل ان کے احوال کی خبر ہے۔ یہ قرآن کا طریقہ ہے۔ جب سیاق آیات کے بارے میں بعض نفوس و ہم کا شکار ہوجائیں تو لازمی طور پر وہ کوئی ایسی چیز ضرور پائیں گے جو ان کے وہم کو زائل کر دے۔ کیونکہ یہ کلام ایسی ہستی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو اشیاء کے وجود میں آنے سے قبل ہی ان کو جانتی ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بنی اسرائیل کا ذکر مذمت کے طور پر کیا ہے اور ان کے گناہوں اور برائیوں کا تذکرہ کیا ہے تو بسا اوقات دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس مذمت میں تمام بنی اسرائیل شامل ہیں۔ اس لئے اللہ نے ایسے لوگوں کے بارے میں واضح کردیا جو اس مذمت میں شامل نہیں۔ نیز چونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جس سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ باتیں صرف بنی اسرائیل ہی سے متعلق ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایک عام حکم بیان کردیا جو تمام طوائف کو شامل ہے تاکہ حق واضح اور وہم و اشکال دور ہوجائے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی کتاب میں ایسی چیزیں بیان کی ہیں جو عقلوں کو متحیر کردیتی ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
haq to yeh hai kay jo log bhi , khuwa woh musalman hon ya yahudi ya nasrani ya saabi , Allah aur aakhirat kay din per emaan ley ayen gay aur naik amal keren gay , woh apney perwerdigar kay paas apney ajar kay mustahiq hon gay , aur unn ko naa koi khof hoga , naa woh kissi ghum mein mubtala hon gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
فرماں برداروں کے لئے بشارت
اوپر چونکہ نافرمانوں کے عذاب کا ذکر تھا تو یہاں ان میں جو لوگ نیک تھے ان کے ثواب کا بیان ہو رہا ہے نبی کی تابعداری کرنے والوں کے لئے یہ بشارت تاقیامت ہے کہ نہ مستقبل کا ڈر نہ یہاں حاصل نہ ہونے والی اشیاء کا افسوس و حسرت۔ آیت (اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ) 10 ۔ یونس :62) یعنی اللہ کے دوستوں پر کوئی خوف و غم نہیں اور وہ فرشتے جو مسلمان کی روح نکلنے کے وقت آتے ہیں یہی کہتے ہیں آیت (اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ) 41 ۔ فصلت :30) تم ڈرو نہیں تم اداس نہ ہو تمہیں ہم اس جنت کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا تھا حضرت سلمان فارسی (رض) فرماتے ہیں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے جن ایمان والوں سے ملا تھا ان کی عبادت اور نماز روزے وغیرہ کا ذکر کیا تو یہ آیت اتری (ابن ابی حاتم) ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت سلمان نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ نمازی روزہ دار ایماندار اور اس بات کے معتقد تھے کہ آپ مبعوث ہونے والے ہیں آپ نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہیں، حضرت سلمان کو اس سے بڑا رنج ہوا وہیں یہ آیت نازل ہوئی لیکن یہ واضح رہے کہ یہودیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو توراۃ کو مانتا ہو اور سنت موسیٰ (علیہ السلام) کا عامل ہو لیکن جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آجائیں تو ان کی تابعداری نہ کرے تو پھر بےدین ہوجائے گا اسی طرح نصرانیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو انجیل کو کلام اللہ مانے شریعت عیسوی پر عمل کرے اور اگر اپنے زمانے میں پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پالے تو آپ کی تابعداری اور آپ کی نبوت کی تصدیق کرے اگر اب بھی وہ انجیل کو اور اتباع عیسوی کو نہ چھوڑے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو تسلیم نہ کرے تو ہلاک ہوگا۔ (ابن ابی حاتم) سدی نے یہی روایت کی ہے اور سعید بن جبیر بھی یہی فرماتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کا تابعدار اس کا ماننے والا ایماندار اور صالح ہے اور اللہ کے ہاں نجات پانے والا لیکن جب دوسرا نبی آئے اور وہ اس سے انکار کرے تو کافر ہوجائے گا۔ قرآن کی ایک آیت تو یہ جو آپ کے سامنے ہے اور دوسری وہ آیت جس میں بیان ہے آیت (وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران :85) یعنی جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والا ہوگا۔ ان دونوں آیتوں میں یہی تطبیق ہے کسی شخص کا کوئی عمل کوئی طریقہ مقبول نہیں تاوقتیکہ وہ شریعت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق نہ ہو مگر یہ اس وقت ہے جب کہ آپ مبعوث ہو کر دنیا میں آگئے آپ سے پہلے جس نبی کا جو زمانہ تھا اور جو لوگ اس زمانہ میں تھے ان کے لئے ان کے زمانے کے نبی کی تابعداری اور اس کی شریعت کی مطابقت شرط ہے۔
یہود کون ہیں ؟
لفظ یہود ہوداۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مودۃ اور دوستی کے ہیں یا یہ ماخوذ ہے تہود سے جس سے کے معنی توبہ کے ہیں جیسے قرآن میں ہے آیت (انا ھدنا الیک) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں ہم اے اللہ تیری طرف توبہ کرتے ہیں پس انہیں ان دونوں وجوہات کی بنا پر یہود کہا گیا ہے یہودا حضرت یعقوب کے بڑے لڑکے کا نام تھا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ توراۃ پڑھتے وقت ہلتے تھے۔ اس بنا پر انہیں یہود یعنی حرکت کرنے والا کہا گیا ہے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا زمانہ آیا تو نبی اسرائیل پر آپ کی نبوت کی تصدیق اور آپ کے فرمان کی اتباع واجب ہوئی تب ان کا نام نصاریٰ ہوا کیونکہ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کی نصرت یعنی تائید اور مدد کی تھی انہیں انصار بھی کہا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول ہے آیت (مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَار اللّٰهِ ) 3 ۔ آل عمران :52) اللہ کے دین میں میرا مددگار کون ہے ؟ حواریوں نے کہا ہم ہیں بعض کہتے ہیں یہ لوگ جہاں اترتے تھے اس زمین کا نام ناصرہ تھا اس لئے انہیں نصاریٰ کہا گیا قتادہ اور ابن جریج کا یہی قول ہے ابن عباس سے بھی مروی ہے واللہ اعلم۔ نصاریٰ نصران کی جمع ہے جیسے نشوان کی جمع نشاوی اور سکران کی جمع سکاری اس کا مونث نصراتہ آتا ہے اب جبکہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ آیا اور آپ تمام دنیا کی طرف رسول و نبی بنا کر بھیجے گئے تو ان پر بھی اور دوسرے سب پر بھی آپ کی تصدیق و اتباع واجب قرار دی گئی اور ایمان و یقین کی پختگی کی وجہ سے آپ کی امت کا نام مومن رکھا گیا اور اس لئے بھی کہ ان کا ایمان تمام اگلے انبیاء پر بھی ہے اور تمام آنے والی باتوں پر بھی۔ صابی کے معنی ایک تو بےدین اور لامذہب کئے گئے ہیں اور اہل کتاب کے ایک فرقہ کا نام بھی یہ تھا جو زبور پڑھا کرتے تھے اسی بنا پر ابوحنیفہ اور اسحاق کا مذہب ہے کہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ ہمارے لئے حلال ہے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنا بھی۔ حضرت حسن اور حضرت حکم فرماتے ہیں یہ گروہ مجوسیوں کے مانند ہے یہ بھی مروی ہے کہ یہ لوگ فرشتوں کے پجاری تھے۔ زیاد نے جب یہ سنا تھا کہ یہ لوگ پانچ وقت نماز قبلہ کی جانب رخ کر کے پڑھا کرتے ہیں تو ارادہ کیا کہ انہیں جزیہ معاف کر دے لیکن ساتھ ہی معلوم ہوا کہ وہ مشرک ہیں تو اپنے ارادہ سے باز رہے۔ ابو الزناد فرماتے ہیں یہ لوگ عراقی ہیں۔ بکوثی کے رہنے والے سب نبیوں کو مانتے ہیں ہر سال تیس روزے رکھتے ہیں اور یمن کی طرف منہ کر کے ہر دن میں پانچ نماز ہیں پڑھتے ہیں وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ جانتے ہیں لیکن کسی شریعت کے پابند نہیں اور کفار بھی نہیں عبدالرحمن بن زید کا قول ہے کہ یہ بھی ایک مذہب ہے جزیرہ موصل میں یہ لوگ تھے آیت (لا الہ الا اللہ) پڑھتے تھے اور کسی کتاب یا نبی کو نہیں مانتے تھے اور نہ کوئی خاص شرع کے عامل تھے مشرکین اسی بنا پر آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو لا الہ اللہ صابی کہتے تھے یعنی کہنے کی بنا پر،۔ ان کا دین نصرانیوں سے ملتا جلتا تھا ان کا قبلہ جنوب کی طرف تھا یہ لوگ اپنے آپ کو حضرت نوح کے دین پر بتاتے تھے ایک قول یہ بھی ہے کہ یہود مجوس کے دین کا خلط ملط یہ مذہب تھا ان کا ذبیحہ کھانا اور کی عورتوں سے نکاح کرنا ممنوع ہے قرطبی فرماتے ہیں مجھے جہاں تک معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ موحد تھے لیکن تاروں کی تاثیر اور نجوم کے معتقد تھے ابو سعید اصطخری نے ان پر کفر کا فتویٰ صادر کیا ہے رازی فرماتے ہیں یہ ستارہ پرست لوگ تھے کشرانبین میں سے تھے جن کی جانب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھیجے گئے تھے حقیقت حال کا علم تو محض اللہ تعالیٰ کو ہے مگر بظاہر یہی قول اچھا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہ یہودی تھے نہ نصرانی نہ مجوسی نہ مشرک بلکہ یہ لوگ فطرت پر تھے کسی خاص مذہب کے پابند نہ تھے اور اسی معنی میں مشرکین اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صابی کہا کرتے تھے یعنی ان لوگوں نے تمام مذاہب ترک کر دئیے تھے بعض علماء کا قول ہے کہ صابی وہ ہیں جنہیں کسی نبی کی دعوت نہیں پہنی۔ واللہ اعلم۔