البقرہ آية ۷
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰى سَمْعِهِمْ ۗ وَعَلٰىۤ اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَّلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ
طاہر القادری:
اللہ نے (ان کے اپنے اِنتخاب کے نتیجے میں) ان کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑ گیا) ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے،
English Sahih:
Allah has set a seal upon their hearts and upon their hearing, and over their vision is a veil. And for them is a great punishment.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے وہ سخت سزا کے مستحق ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر کردی اور ان کی آنکھوں پر گھٹاٹوپ ہے، اور ان کے لئے بڑا عذاب،
3 Ahmed Ali
الله نے ان کے دلوں اورکانوں پرمہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اوران کے لیے بڑا عذا ب ہے
4 Ahsanul Bayan
اللہ تعالٰی نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے (١)
ف۱ یہ ان کے عدم ایمان کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ کفر و معصیت کے مسلسل ارتکاب کی وجہ سے ان کے دلوں سے قبول حق کی استعداد ختم ہو چکی ہے اور ان کے کان حق کی بات سننے کے لئے آمادہ نہیں اور ان کی نگاہیں کائنات میں پھیلی ہوئی رب کی نشانیاں دیکھنے سے محروم ہیں تو اب وہ ایمان کس طرح سے لا سکتے ہیں؟ ایمان تو ان ہی لوگوں کے حصے آیا ہے اور آتا ہے، جو اللہ تعالٰی کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتے اور ان سے مغفرت حاصل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس لوگ تو اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں بیان کیا گیا ہے کہ مومن جب گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے دل میں سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے اگر وہ توبہ کر کے گناہ سے باز آ جاتا ہے تو اس کا دل پہلے کی طرح صاف اور شفاف ہو جاتا ہے اگر وہ توبہ کی بجائے گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے تو وہ نقطہ سیاہ پھیل کر اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ زنگ ہے جسے اللہ تعالٰی نے بیان فرمایا ہے (كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 14) 83۔المطففین;14) یعنی ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے جو ان کی مسلسل بداعمالیوں کا منطقی نتیجہ ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب (تیار) ہے
6 Muhammad Junagarhi
اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر کر دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پرده ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
خدا نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ اور (آخرت میں) ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر گویا مہر لگا دی ہے کہ نہ کچھ سنتے ہیںاور نہ سمجھتے ہیں اور آنکھوں پر بھی پردے پڑ گئے ہیں. ان کے واسطےآخرت میں عذابِ عظیم ہے
9 Tafsir Jalalayn
خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے، اور انکے لئے بڑا عذاب (تیار) ہے
خَتَمَ اللہُ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ : یہ ان کے ایمان قبول نہ کرنے کی وجہ بیان کی گئی ہے چونکہ کفر و معصیت کے مسلسل ارتکاب کی وجہ سے ان کے دلوں کی قبول حق کی استداد ختم ہوچکی ہے ان کے کان بات سننے کے لئے آمادہ نہیں اور ان کی نگاہیں کائنات میں پھیلی ہوئی رب کی نشانیاں دیکھنے سے محروم ہیں، تو اب وہ ایمان کس طرح لاسکتے ہیں ؟ ایمان تو انہیں لوگوں کے حصے میں آتا ہے جو اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتے ہیں۔
قبول حق کی صلاحیت سے محروم کفر پر مرتے ہیں : ایسے لوگ جو قیام دلائل کے باوجود کفر پر اڑے رہتے ہیں، آخر کار علم الہیٰ میں کفر ہی پر مرنے والے ہیں، جو لوگ دلائل حق میں غور نہیں کرتے اور باطل پر جمے رہتے ہیں، ان کے قبول حق کی صلاحیت جو ہر انسان میں فطری طور پر ودیعت کی جاتی ہے روز بروز کمزور ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ بالکل مردہ ہوجاتی ہے، آیت میں اشارہ خاص طور پر یہود مدینہ کی جانب ہے گو اس میں دیگر کافر و مشرک بھی داخل ہوسکتے ہیں یہود مدینہ کا کفر جحود کی قسم کا تھا، یعنی یہ نبی آخر الزمان کی بابت پیشین گوئیوں اور آپ کی علامات سے بخوبی واقف تھے، اس کے باوجود دانستہ اغماض اور اخفاء کرتے تھے، تاکہ اپنی دینی ریاست اور دنیوی سیادت میں فرق نہ آئے۔
” وَاَمَّا معنی الکفر فاِنَّہ الجحود وذلک انّ الاحبار مِن یھود المدینۃ جحدوا نبوۃ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وستروہ عن الناس وکتموا امرہٗ “۔ (ابن جریر)
عدم قبول کے یقینی ہونے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ برابر جاری رہنی چاہیے اس لئے کہ آپ کو اس کا اجر مسلسل ملتا رہے گا خواپ وہ ایمان لائیں یا نہ لائیں ایسا نہ ہونا چاہیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ایمان سے مایوس ہو کر ان کو دعوت و تبلیغ کا کام چھوڑیں۔
آج معمولی مبلغ بھی اپنی دھن کے پکے ہوتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو مبلغ اعظم تھے، دین الہیٰ کی اشاعت کے لئے آپ کی تڑپ کا کیا کہنا ! آپ کی تو خواہش یہی تھی کہ کافر سب کے سب دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں ان بدبختوں کے حق میں آپ کی خواہش کے بار آور نہ ہونے کی صورت میں آپ کے رنج و غم کو کم کرنے کے لئے آپ کو یہاں یہ بات بتلا دی گئی ہے کہ یہ بدبخت اپنی صلاحیت حق شناسی ضائع کرچکے ہیں آپ کچھ بھی کرلیں یہ حق کو قبول کرنے والے نہیں ہیں، لیکن آپ کا اجر تبلیغ بہرحال ثابت ہے : ” فَلاَ تِذْھَبْ نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرَاتٍ ۔ فمن استجابَ لَکَ فلہ الحظ الاوفر وَمَنْ تولیّٰ فَلا تحزن عَلَیْھِمْ “ (ابن کثیر)
سوال : جب اللہ تعالیی کے علم ازلی میں ان کا ایمان نہ لانا متعین ہے جس کے مطابق حق تعالیٰ نے : ” لَایُؤْمِنُوْنَ “ کہہ کر خبر بھی دیدی، تو یہ لوگ ایمان لا بھی کیسے سکتے ہیں ؟ اس لئے کہ علم خداوندی کے خلاف نہیں ہوسکتا۔
جواب : لَایُؤْمِنُوْنَ ، ایک خبر ہے جو خبیر مطلق اپنے بندے کو دے رہا ہے، ایک اطلاع ہے، جو علیم کل اپنے رسول کو پہنچا رہا ہے، خدا کی مرضی کا اس سے کوئی تعلق نہیں، علم اور مرضی کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے بعض لوگ ان میں فرق و امتیاز نہ کرنے کی وجہ سے خلجان میں پڑجاتے ہیں، طبیب حاذق اپنے علم کی روشنی میں مدتوں پہلے خبردیدیتا ہے کہ فلاں بد پرہیز خود رائے مریض اچھا نہ ہوگا، کیا اس پیش خبری میں اس شفیق طبیب کی خواہش ومرضی کو بھی کچھ دخل ہوتا ہے ؟
یہ امر واقعہ ہے کہ خبر واقعہ کے مطابق ہوتی ہے نہ کہ واقعہ خبر کے مطابق دار العلوم کی مسجد رشید کی خوبصورتی کی خبر اس کے خوبصورت ہونے کی وجہ سے ہے نہ کہ مخبر کی خبر کی وجہ سے مسجد کی خوبصورتی، حضرت تھانوی (رح) تعالیٰ نے فرمایا : اس کافر کا ناقابل ایمان ہونا اللہ کے اس خبر دینے کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ خود اللہ تعالیٰ کا یہ خبر دینا اس کافر کے ناقابل ایمان ہونے کی وجہ سے واقع ہوا ہے اور ناقابل ایمان ہونے کی صفت خود اس کی شرارت وعناد و مخالفت حق کے سبب سے پیدا ہوئی ہے، اللہ نے ہر شخص میں اس کی پیدائش کے وقت قبول حق کی استعداد رکھی ہے، جیسا کہ حدیث ” کل مولود یولد علی الفطرۃ الخ “ میں فرمایا گیا، مگر یہ شخص خود اپنی ہوائے نفسانی اور قوت ارادی سے غلط کام لے کر حق کی مخالفت کرتا ہے یہاں تک کہ ایک روز قبولیتِ حق کی صلاحیت فنا ہوجاتی ہے۔ (حذف واضافہ کے ساتھ تفسیر ماجدی)
فائدہ عظمیہ : مذکورہ آیات نے تمام اقوام عالم بلکہ نوع انسانی کو ہدایت کے قبول یا انکار کے معیار سے دو حصوں میں تقسیم کردیا ایک ہدایت یافتہ جن کو مومنین اور متقین کہا جاتا ہے، دوسرے ہدایت سے انحراف اور انکار کرنے والے جن کو کافر یا منافق کہا جاتا ہے۔
قرآن کریم کی اس تعلیم سے ایک اصولی مسئلہ بھی نکل آیا کہ اقوام عالم کے حصوں یا گروہوں میں ایسی تقسیم جو اصول پر اثر انداز ہوسکے، وہ صرف اصول اور نظریات ہی کے اعتبار سے ہوسکتی ہے نسب، وطن، زبان، رنگ اور جغرافیائی حالات ایسی چیزیں نہیں کہ جن کے اختلاف سے قوموں کے ٹکڑے کئے جاسکیں واضح فیصلہ ہے : ” خَلَقَکَمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ“ یعنی اللہ نے تم سب کو پیدا کیا پھر کچھ لوگ تم میں مومن اور کچھ کافر ہوگئے۔
اس بات کی نا مقبولیت کسی زیادہ غور و فکر کی محتاج نہیں کہ ایک ماں باپ کی اولاد محض رنگ کے مختلف ہوجانے، یا الگ الگ خطوں میں بس جانے یا مختلف زبانیں بولنے کی وجہ سے الگ قومیں کیسے ہوسکتی ہیں ؟ بعض اوقات ایک ہی والدین کی اولاد میں بین تفاوت ہوتا ہے کوئی کالا ہوتا ہے کوئی گورا ہوتا ہے کوئی خوبصورت تو کوئی خوبصورتی سے محروم ہوتا ہے کوئی ذہین ہوتا ہے تو کوئی غبی ہوتا ہے، ان وصاف کے اختلاف کی وجہ سے کیا وہ آپس میں بھائی نہیں رہتے ؟ آج انسانیت کی ہمدردی کے ٹھیکے داروں نے خدا کی مخلوق اور آدم کی اولاد کو مختلف عنوانوں کے تحت مختلف گروہوں اور طبقوں میں تقسیم کردیا ہے، جب کہ تقسیم صرف نیکی اور بدی کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿خَتَمَ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے، لہٰذا ایمان ان میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پس وہ کسی فائدہ مند چیز کو یاد کرسکتے ہیں نہ کسی فائدہ مند چیز کو سن سکتے ہیں۔ ﴿وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ ﴾ یعنی ان کی آنکھوں کے سامنے پردہ ہے جو انہیں فائدہ مند چیزوں کو دیکھنے سے روکتا ہے۔ یہی وہ ذرائع ہیں جو علم اور بھلائی کے حصول میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان ذرائع کو ان پر مسدود کردیا گیا ہے، لہٰذا ان سے کسی قسم کی توقع نہیں کی جاسکتی اور نہ ان سے کسی بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے۔ ان پر ایمان کے دروازے صرف اس لئے بند کردیئے گئے کہ انہوں نے حق کے عیاں ہوجانے کے بعد بھی کفر، انکار اور عناد کا رویہ اختیار کئے رکھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ﴾ (الانعام :110؍6) ” اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے وہ اس قرآن پر اس طرح ایمان نہ لائیں گے جس طرح وہ پہلی بار ایمان نے لائے۔ “
یہ دنیاوی عذاب ہے۔ پھر آخرت کے عذاب کا ذکر کیا اور فرمایا : ﴿وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ ” اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے“ یہ جہنم کا عذاب اور اللہ جبار کی دائمی ناراضی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کا ذکر فرمایا جو ظاہری طور پر مسلمان ہیں مگر ان کا باطن کفر سے لبریز ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah ney unn kay dilon per aur unn kay kanon per mohar lagadi hai , aur unn ki aankhon per perda parra huwa hai , aur unn kay liye zabardast azab hai
12 Tafsir Ibn Kathir
مہر کیوں لگا دی گئی ؟
حضرت سدی فرماتے ہیں ختم سے مراد طبع ہے یعنی مہر لگا دی حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آگیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر لگا دی حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آگیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر الٰہی ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر لگ گئی اور آنکھوں پر پردہ پڑگیا۔ ہدایت کو نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں، نہ سمجھ سکتے ہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ گناہ لوگوں کے دلوں میں بستے جاتے ہیں اور انہیں ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ بس یہی طبع اور ختم یعنی مہر ہے۔ دل اور کان کے لئے محاورہ میں مہر آتی ہے۔ مجاہد (رح) فرماتے ہیں قرآن میں ران کا لفظ ہے طبع کا لفظ ہے اوراقفال کا لفظ ہے۔ ران طبع سے کم ہے اور طبع اقفال سے کم ہے، اقفال سب سے زیادہ ہے۔ حضرت مجاہد نے اپنا ہاتھ دکھا کر کہا کہ دل ہتھیلی کی طرح ہے اور بندے کے گناہ کی وجہ سے وہ سمٹ جاتا ہے اور بند ہوجاتا ہے۔ اس طرح کہ ایک گناہ کیا تو گویا چھنگلیا بند ہوگئی پھر دوسرا گناہ کیا دوسری انگلی بند ہوگئی یہاں تک کہ تمام انگلیاں بند ہوگئیں اور اب مٹھی بالکل بند ہوگئی جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح گناہوں سے دل پر پردے پڑجاتے ہیں مہر لگ جاتا ہیں مہر لگ جاتی ہے پھر اس پر کسی طرح حق اثر نہیں کرتا۔ اسے زین بھی کہتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ تکبر کی وجہ ان کا حق سے منہ پھیرلینا بیان کیا جا رہا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس بات کے سننے سے بہرا بن گیا۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تکبر اور بےپرواہی کر کے اس نے اس بات کی طرف دھیان نہیں دیا۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ مطلب ٹھیک نہیں اس لئے کہ یہاں تو خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ زمحشری نے اس کی تردید کی ہے اور پانچ تاویلیں کی ہیں لیکن سب کی سب بالکل بےمعنی اور فضول ہیں اور صرف اپنے معتزلی ہونے کی وجہ سے اسے یہ تکلفات کرنے پڑے ہیں کیونکہ اس کے نزدیک یہ بات بہت بری ہے کہ کسی کے دل پر اللہ قدوس مہر لگا دے لیکن افسوس اس نے دوسری صاف اور صریح آیات پر غور نہیں کیا۔ ایک جگہ ارشاد ہے آیت (فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ ) 61 ۔ الصف :5) یعنی جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے اور فرمایا آیت (وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ) 6 ۔ الانعام :110) ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیتے ہیں گویا کہ وہ سرے سے ایمان ہی نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں۔ جو صاف بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ہدایت کو ان سے دور کردیا ہے۔ حق کو ترک کرنے اور باطل پر جم رہنے کی وجہ سے جو یہ سراسر عدل و انصاف ہے اور عدل اچھی چیز ہے نہ کہ بری۔ اگر زمخشری بھی بغور ان آیات پر نظر ڈالتے تو تاویل نہ کرتے۔ واللہ اعلم۔ قرطبی فرماتے ہیں۔ امت اجماع ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی ایک صفت مہر لگانا بھی بیان کی ہے جو کفار کے کفر کے بدلے ہے۔ فرمایا ہے آیت ( بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا) 4 ۔ النسآء :155) بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر مہر لگا دی۔ حدیث میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے۔ دعا میں ہے حدیث (یا مقلب القلوب ثبت قلوبنا علی دینک) یعنی اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ۔ حضرت حذیفہ (رض) والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دلوں پر فتنے اس طرح پیش ہوتے ہیں جیسے ٹوٹے ہوئے بورے کا ایک ایک تنکا جو دل انہیں قبول کرلیتا ہے اس میں ایک سیاہ نکتہ ہوجاتا ہے اور جس دل میں یہ فتنے اثر نہیں کرتے، اس میں ایک سفید نکتہ ہوجاتا ہے جس کی سفیدی بڑھتے بڑھتے بالکل صاف سفید ہو کر سارے دل کو منور کردیتی ہے۔ پھر اسے کبھی کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اسی طرح دوسرے دل کی سیاہی (جو حق قبول نہیں کرتا) پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ اب وہ الٹے کوزے کی طرح ہوجاتا ہے۔ نہ اچھی بات اسے اچھی لگتی ہے نہ برائی بری معلوم ہوتی ہے۔ امام ابن جریر کا فیصلہ وہی ہے جو حدیث میں آچکا ہے کہ مومن جب گناہ کرتا ہے اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ ہوجاتا ہے اگر وہ باز آجائے توبہ کرلے اور رک جائے تو وہ نکتہ مٹ جاتا ہے اور اس کا دل صاف ہوجاتا ہے اور اگر وہ گناہ میں بڑھ جائے تو وہ سیاہی بھی پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارے دل پر چھا جاتی ہے، یہی وہ ران ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے آیت (كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ) 83 ۔ المطففین :14) یعنی یقیناً ان کے دلوں پر ران ہے، ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے (ترمذی۔ نسائی۔ ابن جریر) امام ترمذی (رح) نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے تو معلوم ہوا کہ گناہوں کی زیادتی دلوں پر غلاف ڈال دیتی ہے اور اس کے بعد مہر الٰہی لگ جاتی ہے جسے ختم اور طبع کہا جاتا ہے۔ اب اس دل میں ایمان کے جانے اور کفر کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہتی۔ اسی مہر کا ذکر اس آیت آیت (ختم اللہ) الخ میں ہے، وہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ جب کسی چیز کا منہ بند کر کے اس پر مہر لگا دی جائے تو جب تک وہ مہر نہ ٹوٹے نہ اس میں کچھ جاسکتا ہے نہ اس سے کوئی چیز نکل سکتی ہے۔ اسی طرح جن کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر الٰہی لگ چکی ہے ان میں بھی بغیر اس کے ہٹے اور ٹوٹے نہ ہدایت آئے، نہ کفر جائے۔ سمعھم پر پورا وقف ہے اور آیت (علی ابصارھم غشاوۃ) الگ پورا جملہ ہے۔ ختم اور طبع دلوں اور کانوں پر ہوتی ہے اور غشاوت یعنی پردہ آنکھوں پر پڑتا ہے۔ جیسے کہ حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن مسعود اور دوسرے صحابہ (رض) سے مروی ہے۔ قرآن میں ہے آیت (فَاِنْ يَّشَاِ اللّٰهُ يَخْتِمْ عَلٰي قَلْبِكَ ۭ وَيَمْــحُ اللّٰهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ ) 42 ۔ الشوری :24) اور جگہ ہے آیت (وختم علی سمعہ وقلبہ وجعل علی بصرہ غشاوۃ ان آیتوں میں دل اور کان پر ختم کا ذکر ہے اور آنکھ پر پردے کا بعض نے یہاں غشاوۃ زبر کے ساتھ بھی پڑھا ہے تو ممکن ہے کہ ان کے نزدیک فعل جعل مقصود ہو اور ممکن ہے کہ نصب محل کی اتباع سے ہو جیسے " آیت (وحورعین) " میں۔ شروع سورت کی چار آیتوں میں مومنین کے اوصاف بیان ہوئے پھر ان دو آیتوں میں کفار کا حال بیان ہوا۔ اب منافقوں کا ذکر ہوتا ہے جو بظاہر ایماندار بنتے ہیں لیکن حقیقت میں کافر ہیں چونکہ ان لوگوں کی چالاکیاں عموماً پوشیدہ رہ جاتی ہیں۔ اس لئے ان کا بیان ذرا تفصیل سے کیا گیا اور بہت کچھ ان کی نشانیاں بیان کی گئیں انہی کے بارے میں سورة برات اتری اور انہی کا ذکر سورة نور وغیرہ میں کیا گیا تاکہ ان سے پورا بچاؤ ہو اور ان کی مذموم خصلتوں سے مسلمان دور رہیں۔ پس فرمایا۔