البقرہ آية ۷۲
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِيْهَا ۗ وَاللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ
طاہر القادری:
اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا پھر تم آپس میں اس (کے الزام) میں جھگڑنے لگے، اور اللہ (وہ بات) ظاہر فرمانے والا تھا جسے تم چھپا رہے تھے،
English Sahih:
And [recall] when you slew a man and disputed over it, but Allah was to bring out that which you were concealing.
1 Abul A'ala Maududi
اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کی جان لی تھی، پھر اس کے بارے میں جھگڑنے اور ایک دوسرے پر قتل کا الزام تھوپنے لگے تھے اور اللہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے کھول کر رکھ دے گا
2 Ahmed Raza Khan
اور جب تم نے ایک خون کیا تو ایک دوسرے پر اس کی تہمت ڈالنے لگے اور اللہ کو ظاہر کرنا تھا جو تم چھپاتے تھے،
3 Ahmed Ali
اور جب تم ایک شخص قتل کر کے اس میں جھگڑنے لگے اور الله ظاہر کرنے والا تھا اس چیز کو جسے تم چھپاتے تھے
4 Ahsanul Bayan
جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا، پھر اس میں اختلاف کرنے لگے اور تمہاری پوشیدگی کو اللہ تعالٰی ظاہر کرنے والا تھا (١)۔
٧٢۔١ یہ قتل کا وہی واقعہ ہے جن کی بنا پر بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس طرح اللہ تعالٰی نے اس قتل کا راز فاش کر دیا حالانکہ وہ قتل رات کی تاریکی میں لوگوں سے چھپ کر کیا گیا تھا مطلب یہ نیکی یا بدی تم کتنی بھی چھپ کر کرو اللہ کے علم میں ہے اور اللہ تعالٰی اسے لوگوں پر ظاہر کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس لئے خلوت یا جلوت ہر وقت اور ہر جگہ اچھے کام ہی کرو تاکہ وہ کسی وقت ظاہر ہو جائیں اور لوگوں کے علم میں بھی آجائیں تو شرمندگی نہ ہو بلکہ اس کے احترام و وقار میں اضافہ ہی ہو اور بدی کتنی بھی چھپ کر کیوں نہ کی جائے اس کے فاش ہونے کا امکان ہے جس سے انسان کی بدنامی اور ذلت اور رسوائی ہوتی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا، تو اس میں باہم جھگڑنے لگے۔ لیکن جو بات تم چھپا رہے تھے، خدا اس کو ظاہر کرنے والا تھا
6 Muhammad Junagarhi
جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈاﻻ، پھر اس میں اختلاف کرنے لگے اور تمہاری پوشیدگی کو اللہ تعالیٰ ﻇاہر کرنے واﻻ تھا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا۔ اور پھر اس کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے (ایک دوسرے پر قتل کا الزام لگانے لگے) اور اللہ اس چیز کو ظاہر کرنے والا تھا جسے تم چھپا رہے تھے
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کردیا اور اس کے قاتل کے بارے میں جھگڑا کرنے لگے جبکہ خدا اس راز کا واضح کرنے والا ہے جسے تم چھپا رہے تھے
9 Tafsir Jalalayn
اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا اور پھر اس میں باہم جھگڑنے لگے لیکن جو بات تم چھپا رہے تھے خدا اس کو ظاہر کرنے والا تھا
آیت نمبر ٧٢ تا ٧٧
ترجمہ : اور اس واقعہ کو یاد کرو، جب تم نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا، پھر تم اس (معاملہ) میں لڑنے جھگڑنے لگے تھے، (اِدَّارَئتُمْ ) اصل (یعنی تَدَارَئتم) میں تا، کا دال میں ادغام ہے، یعنی جھگڑ رہے تھے، اور ایک دوسرے پر الزام ڈال رہے تھے، اور جس بات کو تم چھپانا چاہتے تھے، اللہ اس کو ظاہر کرنے والا تھا، یہ جملہ معترضہ ہے، یہ قصہ کا ابتدائی حصہ ہے۔ (اگرچہ تلاوت میں مؤخر ہے) تو ہم نے حکم دیا کہ اس مقتول سے (مذبوحہ) گائے کا کوئی حصہ لگاؤ، چناچہ گائے کی زبان، یا دم کی جڑ مقتول سے لگائی گئی تو وہ (مقتول) زندہ ہو اٹھا اور بتادیا کہ میرے چچا زاد بھائیوں میں سے فلاں اور فلاں نے قتل کیا ہے اور (اتنا بتا کر فوراً ) مرگیا، چناچہ دونوں میراث سے محروم کر دئیے گئے اور قتل گئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس (کو زندہ کرنے) کے مانند اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا اور تم کو اپنی قدرت کے نمونے دکھائے گا تاکہ تم سمجھو غور وفکر کرو، اور اس بات کو سمجھ لو کہ جو ذات ایک شخص کے زندہ کرنے پر قادر ہے وہ بہت سے اشخاص کے زندہ کرنے پر بھی قادر ہے، سو تم ایمان لے آؤ، پھر اس مذکور یعنی مقتول کے زندہ کرنے اور اس سے پہلے مذکور معجزے دیکھنے کے بعد اے یہودیو ! حق قبول کرنے سے تمہارے دل سخت ہوگئے، تو وہ سنگ دلی میں پتھر کے مانند ہیں، یا اس سے بھی زیادہ سخت ہیں اور بلاشبہ پتھروں میں تو بعض ایسے بھی ہیں کہ جن سے چشمے بھی نکلتے ہیں اور ان میں بعض ایسے ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں، (یشّققُ ) میں دراصل تا کا ادغام ہے، شین میں کہ ان سے پانی نکلنے لگتا ہے اور بعض ان میں ایسے ہیں کہ اللہ کے خوف سے اوپر سے نیچے لڑھک جاتے ہیں (مگر) تمہارے دل نہ تو متاثر ہوتے ہیں اور نہ نرم پڑتے ہیں اور نہ خوف کھاتے ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے اور بلاشبہ وہ تم کو ایک وقت تک کے لئے مہلت دیتا ہے اور ایک قراءت میں (یعملون) یاء تحتانیہ کے ساتھ ہے اور اس میں حاضر سے (غائب کی جانب) التفات ہے، اے مسلمانو ! کیا اب بھی تم توقع رکھتے ہو، کہ یہود تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے ؟ حالانکہ ان میں ایک فریق کہ وہ ان کے علماء کا ہے، تورات میں اللہ کے کلام کو سنتا ہے اور سمجھنے کے بعد اس کو بدل دیتا ہے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ افتراء کر رہے ہیں، (اَفَتطمعونَ ) میں ہمزہ انکار کا ہے یعنی تم توقع مت رکھو، اس لئے کہ کفر ان کی خصلت سابقہ ہے اور منافق یہودی جب مسلمانوں سے ملتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ : ہم اس بات پر کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اللہ کے) نبی ہیں، ایمان لاچکے ہیں اور ہماری کتاب میں ان کی بشارت دی گئی ہے اور جب آپس میں تنہائی میں ملتے ہیں، تو ان کے سردار جو منافق نہیں ہیں منافقوں سے کہتے ہیں کہ کیا تم ان (مسلمانوں) کو وہ باتیں بتا دیتے ہو، جو اللہ نے تمہارے اوپر منکشف فرمائی ہیں، یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ صفات جو تم کو تورات میں بتائی گئی ہیں تاکہ تم پر اس کے ذریعہ آخرت میں تمہارے رب کے روبرو حجت قائم کریں یعنی تمہارے ساتھ مخاصمت کریں اور لام صیرورت کے لئے ہے اور اس (محمد) کی ترک اتباع پر اس کو سچا (نبی) جاننے کے باوجود حجت قائم کریں کیا یہ لوگ نہیں جانتے، استفہام تقریر کے لئے اور اس پر جو واؤ داخل ہے وہ عطف کے لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس بات کو جانتا ہے، جس کو یہ چھپاتے ہیں، اور ظاہر کرتے ہیں، ان باتوں میں سے اور ان کے علاوہ سے اس لئے اس اخفاء سے باز آجائیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اِدَّارَئْتُمْ ، بروزن اِفّاعَلْتُمْ ، مادہ، دَرَءٌ ہے بمعنی جھگڑنا اور دفع کرنا، اِدّا رَءْتُمْ ، تَدَارَاء تُمْ ، (تفاعل) سے ماضی جمع مذکر حاضر تم نے ایک دوسرے پر الزام ڈالا، اِدِّا رَءْتُمْ ، اصل میں تَدَارَءْتُمْ ، بروزن تفاعَلْتُمْ تھا، تاء اور دال کے قریب المخرج ہونے کی وجہ سے تاء کو دال سے بدل دیا پھر دال کو دال میں ادغام کردیا جس کی وجہ سے ابتداء بالسکون لازم آگیا اس دشواری کو دور کرنے کے لئے ہمزہ وصل شروع میں لے آئے، اِدَّارَء تُمْ ، ہوگیا۔
قولہ : فِیْھَا، ای فی واقعۃِ قتل النفس۔
قولہ : ھذا، اعتراض، یعنی : وَاللہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ ، معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔
قولہ : مِن اَمْرِھَا، اس میں اشارہ ہے کہ : تَکْتُمُوْنَ کا مفعول محذوف ہے۔
قولہ : مَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ ، میں مَا، موصولہ ہے اور تکتُمُون جملہ ہو کر صلہ ہے عائد محذوف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے الِّذِی تکتمونَہٗ من امر القتل۔
قولہ : ھو اول القصۃ، یعنی اِدَّارَئْتُمْ ، سے اول قصہ کا بیان ہے، اور سابق رکوع میں جو بیان ہوا وہ اس کے بعد کا حصہ ہے گو تلاوت میں مقدم ہے اس تقدیم و تاخیر کا مقصد یہود کی قبائح کو یکجا بیان کرنا ہے۔
قولہ : کَذَالِکَ یُحْیِ اللہُ الْمَوْتٰی، یہ جملہ بھی کلام مسلسل کے درمیان معترضہ ہے اور اس کے مخاطب غیر یہود ہیں اس لئے کہ یہ یہود منکرین بعث نہیں تھے۔
10 Tafsir as-Saadi
...
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( yaad karo ) jab tum ney aik shaks ko qatal kerdiya tha , aur uss kay baad uss ka ilzam aik doosray per daal rahey thay , aur Allah ko woh raaz nikal bahir kerna tha jo tum chupaye huye thay .
12 Tafsir Ibn Kathir
بلاوجہ تجسس موجب عتاب ہے
صحیح بخاری شریف میں " ادارءتم " کے معنی تم نے اختلاف کیا کے ہیں۔ " حضرت مجاہد وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے مسیب بن رافع کہتے ہیں کہ جو شخص سات گھروں میں چھپ کر بھی کوئی نیک عمل کرے گا اللہ اس کی نیکی کو ظاہر کر دے گا اسی طرح اگر کوئی سات گھروں میں گھس کر بھی کوئی برائی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بھی ظاہر کر دے گا پھر یہ آیت تلاوت کی آیت (وَاللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :72) یہاں وہی واقعہ چچا بھتیجے کا بیان ہو رہا ہے جس کے باعث انہیں ذبیحہ گاؤ کا حکم ہوا تھا اور کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی ٹکڑا لے کر مقتول کے جسم پر لگاؤ وہ ٹکڑا کونسا تھا ؟ اس کا بیان تو قرآن میں نہیں ہے نہ کسی صحیح حدیث میں اور نہ ہمیں اس کے معلوم ہونے سے کوئی فائدہ ہے اور معلوم نہیں ہونے سے کوئی نقصان ہے سلامت روی اسی میں ہے کہ جس چیز کا بیان نہیں ہم بھی اس کی تلاش و تفتیش میں نہ پڑیں بعض نے کہا ہے کہ وہ غضروف کی ہڈی نرم تھی کوئی کہتا ہے ہڈی نہیں بلکہ ران کا گوشت تھا کوئی کہتا ہے دونوں شانوں کے درمیان کا گوشت تھا کوئی کہتا ہے زبان کا گوشت کوئی کہتا ہے دم کا گوشت وغیرہ لیکن ہماری بہتری اسی میں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے ہم بھی مبہم ہی رکھیں۔ اس ٹکڑے کے لگتے ہی وہ مردہ جی اٹھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے جھگڑے کا فیصلہ بھی اسی سے کیا اور قیامت کے دن جی اٹھنے کی دلیل بھی اسی کو بنایا۔ اسی سورت میں پانچ جگہ مرنے کے بعد جینے کا بیان ہوا ہے ایک تو آیت (ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :56) میں اور دوسرا اس قصے میں، تیسرے ان کے قصے میں جو ہزاروں کی تعداد میں نکلے تھے اور ایک اجاڑ بستی پر ان کا گزر ہوا تھا چوتھے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے چار پرندوں کے مار ڈالنے کے بعد زندہ ہوجانے میں پانچویں زمین کی مردنی کے بعد روئیدگی کو موت و زیست سے تشبیہ دینے میں ابو داؤد طیالسی کی ایک حدیث میں ہے ابو زرین عقیلی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح جلائے گا فرمایا کبھی تم بنجر زمین پر گزرے ہو ؟ کہاں ہاں فرمایا پھر کبھی اس کو سرسبز و شاداب بھی دیکھا ہے ؟ کہا ہاں فرمایا اسی طرح موت کے بعد زیست ہے قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت (وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ ) 36 ۔ یس :33) یعنی ان منکرین کے لئے مردہ زمین میں بھی ایک نشانی ہے جسے ہم زندہ کرتے ہیں اور اس میں سے دانے نکالتے ہیں جسے یہ کھاتے ہیں اور جس میں ہم کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کرتے ہیں اور چاروں طرف نہروں کی ریل پیل کردیتے ہیں تاکہ وہ ان پھلوں کو مزے مزے سے کھائیں حالانکہ یہ ان کے ہاتھوں کا بنایا ہوا یا پیدا کیا ہوا نہیں کیا پھر بھی یہ شکر گزاری نہ کریں گے ؟ اس مسئلہ پر اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے اور حضرت امام مالک کے مذہب کو اس سے تقویت پہنچائی گئی ہے اس لئے مقتول کے جی اٹھنے کے بعد اس نے دریافت کرنے پر جسے قاتل بتایا اسے قتل کیا گیا اور مقتول کا قول باور کیا گیا ظاہر ہے کہ دم آخر ایسی حالت میں انسان عموماً سچ ہی بولتا ہے اور اس وقت اس پر تہمت نہیں لگائی جاتی۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر پتھر پر رکھ کر دوسرے پتھر سے کچل ڈالا اور اس کے کڑے اتار لے گیا جب اس کا پتہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لگا تو آپ نے فرمایا اس لڑکی سے پوچھو کہ اسے کس نے مارا ہے۔ لوگوں نے پوچھنا شروع کیا کہ کیا تھے فلاں نے مارا فلاں نے مارا ؟ وہ اپنے سر کے اشارے سے انکار کرتی جاتی تھی یہاں تک کہ جب اسی یہودی کا نام آیا تو اس نے سر کے اشارے سے کہا ہاں چناچہ اس یہودی کو گرفتار کیا گیا اور باصرار پوچھنے پر اس نے اقرار کیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی اس طرح دو پتھروں کے درمیان کچل دیا جائے اور امام مالک کے نزدیک جب یہ برانگیختگی کے باعث ہو تو مقتول کے وارثوں کو قسم کھلائی جائے گی بطور قسامہ کے لیکن جمہور اس کے مخلاف اور مقتول کے قول کو اس بارے میں ثبوت نہیں جانتے۔