سو تم دونوں اس سے نرم (انداز میں) گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کر لے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگے،
English Sahih:
And speak to him with gentle speech that perhaps he may be reminded or fear [Allah]."
1 Abul A'ala Maududi
اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے"
2 Ahmed Raza Khan
تو اس سے نرم بات کہنا اس امید پر کہ وہ دھیان کرے یا کچھ ڈرے
3 Ahmed Ali
سو اس سے نرمی سے بات کرو شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے
4 Ahsanul Bayan
اسے نرمی (١) سے سمجھاؤ کہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے۔
٤٤۔١ یہ وصف بھی اللہ سے دعا کے لئے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ سختی سے لوگ بدکتے ہیں اور دور بھاگتے ہیں اور نرمی سے قریب آتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں اگر وہ ہدایت قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے
6 Muhammad Junagarhi
اسے نرمی سے سمجھاؤ کہ شاید وه سمجھ لے یا ڈر جائے
7 Muhammad Hussain Najafi
اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا کہ شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس سے نرمی سے بات کرنا کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا خوف زدہ ہوجائے
9 Tafsir Jalalayn
اور اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے
10 Tafsir as-Saadi
﴿فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا﴾ لفظی آداب کا خیال رکھتے ہوئے، نرمی کے ساتھ نہایت سہل اور لطیف بات کیجیے، فحش گوئی، ڈینگیں مارنے، سخت الفاظ اور درشت افعال سے پرہیز کیجیے۔ ﴿لَّعَلَّهُ﴾ شاید وہ اس نرم گوئی کے سبب سے ﴿يَتَذَكَّرُ﴾ نصیحت پکڑے جو اس کو فائدہ دے اور وہ اس پر عمل کرنے لگے ﴿يَخْشَىٰ﴾ اور نقصان دہ چیز سے ڈرے اور اسے ترک کر دے کیونکہ نرم گوئی اس کی طرف دعوت دیتی ہے اور سخت گوئی لوگوں کو اس سے متنفر کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ” نرم گوئی“ کی اپنے ارشاد میں تفسیر بیان کی ہے۔ ﴿فَقُلْ هَل لَّكَ إِلَىٰ أَن تَزَكَّىٰ وَأَهْدِيَكَ إِلَىٰ رَبِّكَ فَتَخْشَیٰ﴾ (النزعت: 79؍18،19) ” اور اس سے کہئے کہ کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہوجائے اور میں تیرے رب کی طرف تیری راہنمائی کروں تاکہ تو اپنے رب سے ڈرنے لگے؟“ کیونکہ اس قول میں جو نرمی اور آسانی پنہاں ہے اور سختی اور درشتی سے جس طرح پاک ہے، غور کرنے والے پر مخفی نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے (ھل) کا لفظ استعمال کیا ہے جو ”عرض“ اور ” مشاورت“ پر دلالت کرتا ہے جس سے کوئی شخص نفرت نہیں کرتا اور اسے ہر قسم کی گندگی سے تطہیر اور تزکیہ کی طرف بلایا ہے۔ جس کی اصل شرک کی گندگی سے تطہیر ہے جسے ہر عقل سلیم قبول کرتی ہے۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا (اُزَكِّيكَ) ” میں تجھے پاک کروں“ بلکہ فرمایا :( تَزَكّٰى) یعنی ” تو خود پاک ہوجائے۔ “ پھر موسیٰ علیہ السلام نے اسے اس کے رب کی طرف بلایا جس نے اس کی پرورش کی اور اسے ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا جن پر شکر اور ذکر کرنا چاہئے۔ اس لئے فرمایا : ﴿وَأَهْدِيَكَ إِلَىٰ رَبِّكَ فَتَخْشَىٰ﴾ (النزٰعت:79؍19) ” اور تاکہ میں تیرے رب کی طرف تیری راہنمائی کروں تاکہ تو اپنے رب سے ڈرنے لگے۔“ جب فرعون نے اس کلام نرم و نازک کو قبول نہ کیا، جس کا حسن دلوں کو پکڑ لیتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کو وعظ و نصیحت کا کوئی فائدہ نہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اسے اسی طرح پکڑ لیا جس طرح ایک غالب اور مقتدر ہستی پکڑتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jaker dono uss say narmi say baat kerna , shayad woh naseehat qubool keray , ya ( Allah say ) darr jaye .