طٰہٰ آية ۸۶
فَرَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا ۙ قَالَ يٰقَوْمِ اَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۙ اَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ يَّحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِىْ
طاہر القادری:
پس موسٰی (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف سخت غضبناک (اور) رنجیدہ ہوکر پلٹ گئے (اور) فرمایا: اے میری قوم! کیا تمہارے رب نے تم سے ایک اچھا وعدہ نہیں فرمایا تھا، کیا تم پر وعدہ (کے پورے ہونے) میں طویل مدت گزر گئی تھی، کیا تم نے یہ چاہا کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے غضب واجب (اور نازل) ہوجائے؟ پس تم نے میرے وعدہ کی خلاف ورزی کی ہے،
English Sahih:
So Moses returned to his people, angry and grieved. He said, "O my people, did your Lord not make you a good promise? Then, was the time [of its fulfillment] too long for you, or did you wish that wrath from your Lord descend upon you, so you broke your promise [of obedience] to me?"
1 Abul A'ala Maududi
موسیٰؑ سخت غصّے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹا جا کر اُس نے کہا "اے میری قوم کے لوگو، کیا تمہارے رب نے تم سے اچھے وعدے نہیں کیے تھے؟ کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں؟ یا تم اپنے رب کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے کہ تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟"
2 Ahmed Raza Khan
تو موسیٰ اپنی قوم کی طرف پلٹا غصہ میں بھرا افسوس کرتا کہا اے میری قوم کیا تم سے تمہارے رب نے اچھا وعدہ نہ تھا کیا تم پر مدت لمبی گزری یا تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب اترے تو تم نے میرا وعدہ خلاف کیا
3 Ahmed Ali
پھر موسیٰ اپنی قوم کی طرف غصہ میں بھرے ہوئے افسوس کرتے ہوئے لوٹے کہا اے میری قوم کیا تمہارے رب نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا پھر کیا تم پر بہت زمانہ گزر گیا تھا یا تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے رب کا غصہ نازل ہو تب تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی
4 Ahsanul Bayan
پس موسیٰ (علیہ السلام) سخت غضبناک ہو کر رنج کے ساتھ واپس لوٹے، اور کہنے لگے کہ اے میری قوم والو! کیا تم سے تمہارے پروردگار نے نیک وعدہ نہیں کیا (١) تھا؟ کیا اس کی مدت تمہیں لمبی معلوم ہوئی؟ (۲) بلکہ تمہارا ارادہ ہی یہ ہے کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غضب نازل ہو؟ کہ تم نے میرے وعدے کے خلاف کیا (٣)
٨٦۔١ اس سے مراد جنت کا یا فتح و ظفر کا وعدہ ہے اگر وہ دین پر قائم رہے یا تورات عطا کرنے کا وعدہ ہے، جس کے لئے طور پر انہیں بلایا گیا تھا۔
٨٦۔ ٢ کیا اس عہد کو مدت دراز گزر گئی تھی کہ تم بھول گئے، اور بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔
٨٦۔٣ قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی طور سے واپسی تک وہ اللہ کی اطاعت و عبادت پر قائم رہیں گے، یا یہ وعدہ تھا کہ ہم بھی طور پر آپ کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں لیکن راستے میں ہی رک کر انہوں نے گو سالہ پرستی شروع کر دی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور موسیٰ غصّے اور غم کی حالت میں اپنی قوم کے پاس واپس آئے (اور) کہنے لگے کہ اے قوم کیا تمہارے پروردگار نے تم سے ایک اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا (میری جدائی کی) مدت تمہیں دراز (معلوم) ہوئی یا تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے غضب نازل ہو۔ اور (اس لئے) تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا (اس کے) خلاف کیا
6 Muhammad Junagarhi
پس موسیٰ (علیہ السلام) سخت غضبناک ہو کر رنج کے ساتھ واپس لوٹے، اور کہنے لگے کہ اے میری قوم والو! کیا تم سے تمہارے پروردگار نے نیک وعده نہیں کیا تھا؟ کیا اس کی مدت تمہیں لمبی معلوم ہوئی؟ بلکہ تمہارا اراده ہی یہ ہے کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غضب نازل ہو؟ کہ تم نے میرے وعدے کا خلاف کیا
7 Muhammad Hussain Najafi
پس موسیٰ غصہ میں افسوس کرتے ہوئے اپنی قوم کی طرف لوٹے (اور) کہا اے میری قوم! کیا تمہارے پروردگار نے تم سے بڑا اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ تو کیا تم پر (وعدہ سے) زیادہ مدت گزر گئی؟ یا تم نے چاہا کہ تمہارے رب کا غضب تم پر نازل ہو؟ اس لئے تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ سن کر موسٰی اپنی قوم کی طرف محزون اور غصہّ میں بھرے ہوئے پلٹے اور کہا کہ اے قوم کیا تمہارے رب نے تم سے بہترین وعدہ نہیں کیا تھا اور کیا اس عہد میں کچھ زیادہ طول ہوگیا ہے یا تم نے یہی چاہا کہ تم پر پروردگار کا غضب وارد ہوجائے اس لئے تم نے میرے وعدہ کی مخالفت کی
9 Tafsir Jalalayn
اور موسیٰ غم اور غصے کی حالت میں اپنی قوم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے قوم کیا تمہارے پروردگار نے تم سے ایک اچھا وعدہ نہیں کیا تھا ؟ کیا (میری جدائی کی) مدت تمہیں دراز معلوم ہوئی یا تم نے چاہو کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف غضب نازل ہو ؟ اور (اس لئے) تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا
آیت نمبر 86 تا 89
ترجمہ : موسیٰ (علیہ السلام) نھے کہا اسے میری قوم کیا تم سے میرے رب نے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا ؟ یعنی سچا وعدہ، یہ کہ وہ تم کو تورات عطا کرے گا، کیا تم پر میری جدائی کا زمانہ زیادہ طویل ہوگیا تھا ؟ یا تم کو یہ منظور ہوا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب واجب ہوجائے، تمہارے بچھڑے کی عبادت کرنے کی وجہ سے کہ تم نے میرے وعدہ کی خلاف ورزی کی کہ تم نے میرے پیچھے پیچھے آنے کو ترک کردیا تو انہوں نے کہا ہم نے آپ کے وعدہ کی خلاف ورزی اپنے اختیار سے نہیں کی مَلْکِنَا کے میم میں تینوں حرکتیں درست ہیں، یعنی اپنی قدرت اور اپنے اختیار سے (خلاف ورزی نہیں کی) لیکن قوم کے زیورات کا کا بوجھ جو ہم پر لاد دیا گیا تھا ہم نے اس کو آگ میں ڈال دیا یا حَمَلْنَا یعنی فرعون کی قوم (قبط) کے زیورات کو بوجھ جس کو بنی اسرائیل نے قبطیوں سے عید کے موقع پر عاریتاً لے لیا تھا پھر وہ انہی کے پاس رہ گیا، اور ہم نے ان زیورات کو سامری کے کہنے سے آگ میں ڈالدیا پس اسی طرح یعنی جس طرح ہم نے ڈالا تھا سامری نے بھی جو اس کے پاس ان کے زیورات تھے اور وہ مٹی جو اس نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے سم کے نیچے سے لے لی تھی (آئندہ) مذکور طریقہ کے مطابق ڈالدی پھر اس نے ان لوگوں کے لئے ایک بچھڑا بنایا یعنی زیورات کا قالب (ڈھانچہ) بنایا کہ اس کے لئے گوشت اور خون بھی تھا اور اس کی بیل کے مانند آواز تھی یعنی سنی جانے والی آواز اور یہ انقلاب اس مٹی کی وجہ سے ہوا جس کی تاثیر حیات تھی جس میں اس کو ڈال دیا جائے اور اس مٹی کو سامری نے قالب کو ڈھالنے کے بعد اس کے منہ میں ڈالدیا چناچہ سامری اور اس کے متبعین نے کہا یہ ہے تمہارا اور موسیٰ کا خدا موسیٰ تو اپنے خدا کو یہاں بھول گئے اور اس کو تلاش کرنے چلے گئے کیا وہ لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ وہ بچھڑا ان کی کسی بات کو نہیں لوٹا سکتا یعنی ان کی کسی بات کا جواب نہیں دے سکتا ألاَّ (یہ أنْ اور لا سے مرکب ہے أن مخففہ عن التقیلہ ہے اور اس کا اسم محذوف ہے یعنی أنَّہٗ اور نہ ان کے کسی ضرر کا مالک ہے کہ اس کو دفع کرسکے اور نہ نفع کا کہ اس کو حاصل کرسکے پھر کس طرح اس کو معبود بنایا جاسکتا ہے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
انہ یعطیکم التوراۃ یہ جملہ یَعِدُکم کا مفعول ثانی ہے اور کُم مفعول اول ہے اور وَعْدًا حَسَنًا مفعول مطلق ہے اَفَطَالَ عَلَیْکُمْ العَھْدُ گؤ پرستی اور میری مخالفت پر تم کو کس چیز نے آمادہ کیا ؟ یا تو طویل زمانہ تک میری مفارقت نے حالانکہ ایسا نہیں ہوا یا اس بات نے کہ تمہارا مقصد ہی غضب الٰہی کو دعوت دینا ہے ؟ یہ بھی نامناسب ہے اس لئے کسی عاقل کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ غضب الٰہی کو دعوت دے فَاَخْلَفْتُمْ مَوْعِدِی حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے یہ وعدہ لیا تھا کہ تم میرے پیچھے پیچھے کوہ طور پر آجاؤ گے مگر قوم نے وعدہ خلافی کی اور گؤپرستی میں مبتلا ہوگئی۔ قولہ : عَلٰی وَجْہِ الآتی اس جملہ کا تعلق ومِنَ التُّرَابِ سے ہے ای اَلْقی الترابَ علیٰ وَجْہِ الآتی اور وجہ آتی یہ ہے وَاَلْقٰی فیھا اَن آخذ قُبْضَۃً مِن تُرابٍ فَاَخْرَجَ اس کا عطف وَاَضَلَّھُمْ السامِری پر ہے یہ خدا کا کلام ہے۔
قولہ : جَسَدًا یہ العجل سے حال ہے ای اَخْرَجَ لھم صورۃَ عجلٍ حَالَ کَوْنِھَا جَسَدً ۔ قولہ : لَحْمًا ودَمًا کا اجافہ اس بات کو بتانے کے لئے کیا ہے کہ جَسَد کہتے ہیں اس کو جو گوشت پوست سے بنا ہوا خُوَارٌ بیل کی آواز کو کہتے ہیں یعنی یہ انقلاب ماہیت اس مٹی کے ڈالنے کی وجہ سے ہوئی، بسبب التراب ای بسبب وضع التراب مضاف محذوف ہے مفسر علام کا ووضعہٗ کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ سبب سے پہلے وضع مضاف محذوف ہے۔
قولہ : فَنَسِیَ اس کا فاعل موسیٰ بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ مفسر نے صراحت کردی ہے لہٰذا یہ سامری کا کلام ہوگا اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کو یہاں بھول گئے ہیں اور اس کو کوہ طور پر تلاش کرنے گئے ہیں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے نَسِیَ کا فاعل سامری ہو اس صورت میں یہ خدا کا کلام ہوگا اور مطلب یہ ہوگا کہ سامری اپنے رب کو بھول گیا جس کی وجہ سے اس نے یہ حرکت کر ڈالی، اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ سامری اس بات پر استدلال کرنا بھول گیا کہ بچھڑا معبود نہیں ہوسکتا اور اس کی دلیل آئندہ آنے والا قول اَفَلاَ یَرَوْنَ اَلاَّ یَرْجِعُ اِلَیْھِمْ قولاً ہے اَلاَّ اصل میں اَنَّہٗ لایَرْجعُ تھا، اَنَّ کو مخفف کرکے اَنْ کیا اور ہٗ ضمیر اسم کو حذف کردیا اور نون کو لام میں ادغام کردیا اَلاَّ ہوگیا بعض حضرات نے یرجع نصب کے ساتھ پڑھا ہے مگر اس میں ضعف ہے اس لئے کہ اَن ناصبہ افعال یقین کے بعد واقع نہیں ہوتا اور رویتہٗ پہلی صورت میں علمیہ ہے اور دوسری صورت میں بصریہ فَفْعَہٗ محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ مضاف محذوف ہے۔ قولہ : جَلْبَہٗ اس سے بھی مضاف محذوف کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ قولہ : لایملک لَھُمْ ضَرًّا وَّلا نَفْعًا اس کا عطف لایَرْجعُ پر ہے۔
تفسیر و تشریح
الم یعدکم ربکم وعدا حسنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے رنج و غم کے عالم میں واپس آکر قوم سے خطاب کیا اولاً ان کو خدا کا وعدہ یاد دلایا جس کے لئے وہ قوم لیکر طور کی جانب ایمن کی طرف چلے تھے، کہ یہاں پہنچ کر اللہ اپنی کتاب ہدایت عطا فرمائیں گے جس کے ذریعہ دین و دنیا کے تمام مقاصد پورے ہوں گے۔
افطال علیکم العھد یعنی اللہ کے اس وعدہ پر کوئی بڑی مدت بھی نہیں گزری کہ جس میں تمہارے بھول جانے کا احتمال ہو یا زمانہ دراز تک وعدہ کا انتظار کرتے کرتے مایوس ہوگئے ہوں اس لئے مجبوراً دوسرا طریقہ اختیار کرلیا ہو۔
ام اردتم أن یحل الخ یعنی بھول جانے یا انتظار سے تھک جانے کا کوئی احتمال نہیں تو اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ تم نے خود ہی اپنے قصد و اختیار سے اپنے رب کے غضب کو دعوت دی، اور مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کر بیٹھے قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جو وعدہ کیا تھا وہ یا تو یہ تھا کہ ہم آپ کی واپسی تک اللہ کی عبادت اور اس کی طاعت پر قائم رہیں گے یا یہ وعدہ تھا کہ ہم آپ کے پیچھے پیچھے کوہ طور پر آرہے ہیں لیکن راستہ میں رک کر گوسالہ پرستی شروع کردی۔
قالوا ما اخلفنا الخ لفظ مَلْک دونوں کے معنی تقریباً ایک ہی ہیں، مطلب یہ ہے کہ ہم نے گوسالہ پرستی اپنے قصد و اختیار سے نہیں کی بلکہ سامری کے عمل کو دیکھ کر ہم مجبور ہوگئے، ظاہر ہے کہ ان کا یہ دعویٰ غلط اور بےبنیاد تھا وہ خود اپنے ارادہ اور اختیار ہی سے گوسالہ پرستی میں مبتلا ہوئے تھے، سامری نے تو صرف اتنا کہا تھا کہ موسیٰ تم سے تیس دن کا وعدہ کرکے گئے تھے اب ان کو زیادہ دن ہوگئے معلوم ہوتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) تم سے ناراض ہوگئے ہیں اور ناراضی کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ تم جو قبطیوں کا زیور عاریتاً لیکر آئے ہو اور واپس نہیں کیا یہ ان کو پسند نہیں ہے اس لئے کہ تمہارے لئے یہ مال بالکل حرام ہے لہٰذا تم ایسا کرو کہ یہ مال تم مجھے دیدو میں اس کو جلا دوں گا چناچہ سب نے تمام زیورات سامری کو دیدئے اس نے وہ تمام زیورات ایک گڑھے میں ڈال کر پگھلا دئے اپنے پاس جو زیورات تھے وہ بھی اسی میں ڈال دئے اور ساتھ ہی وہ مٹی بھی ڈالدی جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے پیر سے اٹھائی تھی جس کی وجہ سے وہ بچھڑا بولنے لگا اور اسرائیلیوں نے اس کی پرستش شروع کردی۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی میں تاخیر کی اصل یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اولاً تیس روزے کوہ طور پر آکر رکھنے کے لئے کہا تھا پھر ان میں دس دن کا اور اضافہ کردیا جس کی وجہ سے واپسی میں تاخیر ہوگئی۔
ولکنا حملنا۔۔۔ اَوْزار، وِزْرٌ کی جمع ہے جس کے معنی بوجھ کے ہیں انسان کے گناہ بھی قیامت کے روز اس پر بوجھ بنا کر لادے جائیں گے اس لئے گناہ کو وزر کہا گیا ہے اور زینۃٌ سے مراد زیور اور قوم سے مراد قبطی، ان زیورات کو اوزار (گناہ) اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ زیورات عاریتاً لئے گئے تھے ان کے مالکوں کو واپس کرنے چاہیے تھے چونکہ واپس نہیں کئے اس لئے ان کو وزر (گناہ) کہا گیا ہے، حدیث فتون میں ہے کہ ہارون (علیہ السلام) نے بھی لوگوں کو زیورات کے گناہ ہونے پر متنبہ کیا تھا، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ سامری نے اپنا مقصد نکالنے کے لئے وہ ایک گڑھے میں ڈلوا دیا تھا تاکہ اس کو پگھلا کر بچھڑا بنا سکے۔
مسئلہ : یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو کافر نہ مسلمانوں کا ذمی ہے اور نہ ان سے کوئی معاہدہ ہے جن کو فقہاء کی اصطلاح میں کافر حربی کہتے ہیں ان کے اموال تو مسلمانوں کے لئے مباح الاصل اشیاء کی طرف حلال ہیں پھر ہارون (علیہ السلام) نے ان کو وزر کیے قرار دیا ؟ اور ان کو گڑھے میں ڈالنے کا حکم کیسے دیا ؟ اس کا ایک جواب تو مشہور ہے جو عامۃ المفسرین نے لکھا ہے کہ کفار حربی کا مال لینا اگرچہ مسلمان کے لئے جائز ہے مگر وہ مال مال غنیمت کے حکم میں ہے اور مال غنیمت کا حکم شریعت اسلام سے پہلے یہ تھا کہ کافروں کے قبضہ سے نکال لینا تو جائز تھا مگر مسلمان کے لئے اس کا استعمال جائز نہیں تھا مگر اس مال کو جمع کرکے ٹیلہ وغیرہ پر رکھ دیا جاتا تھا اور آسمانی آگ اس کو آکر جلا جاتی تھی یہ ان کے جہاد کے مقبول ہونے کی علامت تھی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں مال غنیمت کو حلال کردیا گیا جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں صراحت موجود ہے۔
فائدۂ عظیمہ : فقہی نکتہ نظر سے اس مسئلہ کی تحقیق امام محمد (رح) کی کتاب سیر اور اس کی شرح سرخسی میں بیان کی گئی ہے وہ بہت اہم اور اقرب الی الصواب ہے وہ یہ کہ کافر حربی کا مال بھی ہرحال میں مال غنیمت نہیں ہوتا بلکہ اس کی شرط یہ ہے کہ باقاعدہ جہاد و قتال کے ذریعہ بزور شمشیر ان سے حاصل کیا جائے اسی لئے شرح سیر میں مغالبہ بالمحار بہ قرار دیا ہے اور اگر جہاد و قتال کے ذریعہ حاصل نہ ہو اس کو مال غنیمت نہیں کہیں گے بلکہ اس کو مال فئ کہتے ہیں مگر اس کے حلال ہونے میں ان کافروں کی رضا اور اجازت شرط ہے جیسے کوئی اسلامی حکومت ان پر کوئی ٹیکس عائد کر دے اور وہ راضی ہو کر یہ ٹیکس دیدیں تو یہ حلال ہوگا۔
مذکورہ صورت میں قبطیوں سے لئے ہوئے مال مذکورہ دونوں قسموں میں سے ایک قسم میں بھی داخل نہیں ہیں، کیونکہ یہ عاریتاً لئے گئے تھے اس لئے اسلامی شریعت کی رو سے بھی یہ مال ان کے لئے حلال نہ تھا۔
ہجرت کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اہل مکہ کی بہت سی امانتیں تھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی امانتوں کو واپس کرنے کے لئے حضرت علی (رض) کو مکہ میں چھوڑا تھا اور حکم دیا تھا کہ جس کی امانت ہے اس کو واپس کردی جائے، اس مال کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت کے تحت حلال قرار نہیں دیا۔
فقذفنٰھا یعنی ہم نے ان زیورات کو پھینک دیا، حدیث فتون کی رو سے یہ عمل حضرت ہارون (علیہ السلام) کے حکم سے کیا گیا اور بعض روایات میں ہے کہ سامری نے ان کو بہکا کر زیورات گڑھے میں ڈالوا دئیے، دونوں باتیں جمع ہوجائیں یہ بھی کوئی مستبعد نہیں
فکذلک القی السامری حدیث فتون میں مذکور عبد اللہ بن مسعود (رض) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے جب بنی اسرائیل کے سب زیورات گڑھے میں ڈلوا دئیے اور اس میں آگ جلوا دی تو سامری بھی مٹھی بند کئے ہوئے پہنچا اور حضرت ہارون (علیہ السلام) سے کہا میں بھی ڈالدوں، حضرت ہارون (علیہ السلام) نے یہ سمجھا کہ اس کے ہاتھ میں بھی کوئی زیور ہوگا فرمایا ڈال دو ، اس وقت سامری نے حضرت ہارون (علیہ السلام) سے کہا میں جب ڈالوں گا کہ جب آپ یہ دعا کردیں کہ جو کچھ میں چاہتا ہوں وہ پورا ہوجائے ہارون (علیہ السلام) کو اس کا کفر و نفاق معلوم نہیں تھا دعا کردی، اب جو اس نے اپنے ہاتھ سے ڈالا تو وہ زیور کے بجائے مٹی تھی جس کو اس نے جبرائیل امین کے گھوڑے کے قدم کے نیچے سے یہ حیرت انگیز واقعہ دیکھ کر اٹھا لیا تھا کہ جس جگہ اس کا قدم پڑتا ہے وہیں مٹی میں نشو و نما اور آثار حیات پیدا ہوجاتے ہیں جس سے اس نے یہ سمجھا کہ اس مٹی میں آثار حیات رکھے ہوئے ہیں شیطان نے اس کو اس پر آمادہ کردیا کہ اس کے ذریعہ ایک بچھڑا زندہ کرکے دکھلا دے، بہرحال مٹی کی یا حضرت ہارون (علیہ السلام) کی دعا کی تاثیر سے یہ بچھڑا بن کر بولنے لگا، بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ سامری نے پگھلے ہوئے زیورات کا بچھڑے کا ایک ڈھانچہ بنادیا تھا اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے قدم کے نیچے کی مٹی ڈالنے کی وجہ سے اس میں جان پیدا ہوگئی اور وہ بیلوں کی طرح بولنے لگا، یہ روایات قرطبی میں مذکور ہیں اور ظاہر ہے کہ اسرائیلی روایات ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا مگر ان کو غلط کہنے کی بھی دلیل موجود نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
جب موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام اپنی قوم میں واپس آئے تو سخت ناراض ہوئے وہ تاسف اور غیض و غضب سے لبریز تھے انہوں نے اس فعل پر زجرو تو بیخ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ﴾ ” اے میری قوم ! کیا تم سے تمہارے رب نے ایک اچھا وعدہ کیا تھا؟“ اور یہ تورات نازل کرنے کا وعدہ تھا۔ ﴿أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ﴾ کیا وعدہ پورا ہونے میں دیر لگ گئی تھی اور میری عدم موجودگی طویل ہوگئی تھی، حالانکہ یہ تو بہت ہی تھوڑی سی مدت تھی۔ یہ بہت سے مفسرین کا قول ہے اور اس میں ایک دوسرے معنی کا احتمال بھی ہے، وہ یہ کہ کیا عہد نبوت اور تمہارے پاس کوئی خبر نہ پہنچی اور طول عہد کی بنا پر آثار نبوت محو ہوگئے تھے اور اسی طرح تم نے آثار رسالت اور علم کے معدوم ہونے اور غلبۂ جہالت کی وجہ سے غیر اللہ کی عبادت شروع کردی۔۔۔؟ مگر معاملہ یوں نہیں، بلکہ نبوت تمہارے درمیان موجود اور علم قائم ہے۔ اس لئے تمہارا یہ عذر قابل قبول نہیں۔ یا اس فعل کے ذریعے سے تمہارا ارادہ یہ تھا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب نازل ہو، یعنی تم نے ایسے اسباب اختیار کئے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے موجب ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے۔ ﴿ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي﴾ ” پس تم نے میرے وعدے کے خلاف کیا“ جب میں نے تمہیں استقامت کا حکم دیا اور ہارون علیہ السلام کو تمہارے بارے میں وصیت کی تو تم نے غائب کا انتظار کیا نہ موجود کا احترام کیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
chunacheh musa ghum o ghussay mein bharay huye apni qoam kay paas wapis lotay . kehney lagay : meri qoam kay logo ! kiya tumharay perwerdigar ney tum say aik acha wada nahi kiya tha-? to kiya tum per koi boht lambi mauddat guzar gaee thi , ya tum chahtay hi yeh thay kay tum per tumharay rab ka ghazab nazil hojaye , aur iss wajeh say tum ney mujh say wada khilafi ki-?