طٰہٰ آية ۹۰
وَلَـقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ يٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖۚ وَاِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِىْ وَاَطِيْعُوْۤا اَمْرِىْ
طاہر القادری:
اور بیشک ہارون (علیہ السلام) نے (بھی) ان کو اس سے پہلے (تنبیہاً) کہہ دیا تھا کہ اے قوم! تم اس (بچھڑے) کے ذریعہ تو بس فتنہ میں ہی مبتلا ہوگئے ہو، حالانکہ بیشک تمہارا رب (یہ نہیں وہی) رحمان ہے پس تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو،
English Sahih:
And Aaron had already told them before [the return of Moses], "O my people, you are only being tested by it, and indeed, your Lord is the Most Merciful, so follow me and obey my order."
1 Abul A'ala Maududi
ہارونؑ (موسیٰؑ کے آنے سے) پہلے ہی ان سے کہہ چکا تھا کہ "لوگو، تم اِس کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئے ہو، تمہارا رب تو رحمٰن ہے، پس تم میری پیروی کرو اور میری بات مانو"
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ان سے ہارون نے اس سے پہلے کہا تھا کہ اے میری قوم یونہی ہے کہ تم اس کے سبب فتنے میں پڑے اور بیشک تمہارا رب رحمن ہے تو میری پیروی کرو اور میرا حکم مانو،
3 Ahmed Ali
اور انہیں ہارون نے اس سے پہلے کہہ دیا تھا اے میری قوم اس سے تمہاری آزمائش کی گئی ہے اور بے شک تمہارا رب رحمان ہے سو میری پیروی کرو اور میرا کہا مانو
4 Ahsanul Bayan
اور ہارون (علیہ السلام) نے اس سے پہلے ہی ان سے کہہ دیا تھا اے میری قوم والو! اس بچھڑے سے صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے، تمہارا حقیقی پروردگار تو اللہ رحمٰن ہی ہے، پس تم سب میری تابعداری کرو۔ اور میری بات مانتے چلے جاؤ (١)۔
٩٠۔١ حضرت ہارون علیہ السلام نے یہ اس وقت کہا جب یہ قوم سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی عبادت میں لگ گئی
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہارون نے ان سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ لوگو اس سے صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے۔ اور تمہارا پروردگار تو خدا ہے تو میری پیروی کرو اور میرا کہا مانو
6 Muhammad Junagarhi
اور ہارون (علیہ السلام) نےاس سے پہلے ہی ان سے کہہ دیا تھا اے میری قوم والو! اس بچھڑے سے تو صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے، تمہارا حقیقی پروردگار تو اللہ رحمنٰ ہی ہے، پس تم سب میری تابعداری کرو۔ اور میری بات مانتے چلے جاؤ
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہارون نے اس سے پہلے ہی ان سے کہہ دیا تھا کہ اے میری قوم! تم اس (گو سالہ) کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے ہو۔ اور یقیناً تمہارا پروردگار خدائے رحمن ہے سو تم میری پیروی کرو۔ اور میرے حکم کی تعمیل کرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہارون نے ان لوگوں سے پہلے ہی کہہ دیا کہ اے قوم اس طرح تمہارا امتحان لیا گیا ہے اور تمہارا رب رحمان ہی ہے لہذا میرا اتباع کرو اور میرے امر کی اطاعت کرو
9 Tafsir Jalalayn
اور ہارون نے ان سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ لوگو ! اس سے صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے اور تمہارا پروردگار تو خدا ہے تو تم میری پیروی کرو اور میرا کہا مانو
آیت نمبر 90 تا 104
ترجمہ : اور ہارون (علیہ السلام) نے ان سے پہلے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کے واپس آنے سے پہلے کہہ دیا تھا اے میری قوم تم اس گوسالہ کی وجہ سے آزمائش میں مبتلا کر دئے گئے ہو اور بلاشبہ تمہارا رب تو رحمٰن ہے لہٰذا تم اس کی عبادت کرنے میں میری اتباع کرو اور عبادت کے معاملہ میں میری بات مانو ان لوگوں نے جواب دیا ہم تو اسی پر جمے رہیں گے یعنی اسی کی عبادت پر قائم رہیں گے موسیٰ کے ہمارے پاس واپس آنے تک موسیٰ (علیہ السلام) نے واپسی کے بعد فرمایا اے ہارون جب تم نے ان کو دیکھا کہ یہ گمراہ ہوگئے بچھڑے کی عبادت کی وجہ سے تو میرے پاس چلے آنے سے کیا امر مانع ہوا ؟ اَلاَّ تَتَّبِعَنّ میں لا زائدہ ہے سو کیا تو نے میرے کہنے کے خلاف کیا ؟ غیر اللہ کی بندگی کرنے والوں میں مقیم رہ کر ہارون (علیہ السلام) نے کہا اے میرے ماں جائے بھائی میری ڈاڑھی نہ پکڑ یا ابن اُمِّ میم پر کسرہ اور فتحہ کے ساتھ ہے اور اُمِّ سے مقصد اُمِّی ہے (ی حذف کردی گئی ہے یعنی منادی مرخم ہے) اور یا اُمّ کا ذکر کرنا یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کو زیادہ مہربان کرنے والا ہے، نہ یہ کہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ماں شریک (اخیافی) بھائی تھے اور (موسیٰ علیہ السلام) نے اپنے بائیں ہاتھ سے ڈاڑھی پکڑلی تھی اور نہ سر کے (بال) پکڑ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے غصہ میں اپنے داہنے ہاتھ سے ان کے سر کے بال پکڑ لئے تھے مجھے تو یہ اندیشہ ہوگیا تھا کہ اگر میں آپ کے پیچھے چلا آتا تو ضروری بات تھی کہ ایک جماعت جس نے گوسالہ پرستی نہیں کی تھی میرے ساتھ آئی تو آپ کہتے ہیں کہ تو نے بنی اسرائیل کے درمیان تفرقہ ڈال دیا اور آپ مجھ پر غصہ ہوتے اور تو نے میری بات کا لحاظ نہ رکھا اس معاملہ میں جو تو نے دیکھا (یعنی میں اصلاح کے لئے کہہ کر گیا تھا اور تو نے قوم میں تفریق ڈالدی) (پھر موسیٰ (علیہ السلام) اصل مجرم) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے سامری تیرا کیا معاملہ ہے تو سامری نے جواب دیا مجھے وہ چیز نظر آئی جو دوسروں کو نظر نہیں آئی تَبْصُرُوْا یا اور تا کے ساتھ ہے یعنی جو بات میرے علم میں آئی دوسروں کے علم میں نہیں آئی پھر میں نے اس فرستادے (یعنی جبرائیل کے گھوڑے کے) نقش قدم سے ایک مٹھی (خاک) بھر لی پھر میں نے وہ مٹھی خاک اس ڈھلے ہوئے بچھڑے کے قالب میں ڈالدی اور میرے دل کو یہی بات پسند آئی اور میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ میں مذکورہ خاک میں سے ایک مٹھی خاک لوں اور اس ایک مٹھی خاک کو اگر بےجان چیز میں ڈالدوں تو اس میں جان پڑجائے گی اور میں نے تیری قوم کو دیکھا تھا کہ اس نے تجھ سے مطالبہ کیا تھا کہ تو ان کے لئے کوئی معبود بنا دے تو میرے دل نے مجھے سمجھایا کہ یہ بچھڑا ان کا معبود ہوسکتا ہے موسیٰ نے فرمایا تو ہمارے درمیان سے چلا جا دنیوی زندگی میں تیری یہ سزا ہے کہ تو زندگی بھر ہر اس شخص سے جس کو تو دیکھے گا کہے گا کہ مجھے نہ چھونا یعنی میرے قریب نہ آنا چناچہ وہ جنگلوں میں بھٹکتا پھرتا تھا اور جب وہ کسی کو چھو لیتا تھا یا اسے کوئی چھو لیتا تھا تو دونوں بخار میں مبتلا ہوجاتے تھے اور ایک وعدہ تیرے لئے عذاب کا اور ہے تو ہرگز نہ بچے گا تخلفہٗ لام کے کسرہ کے ساتھ یعنی تو اس سے نہ بچ سکے گا، اور فتحہ لام کے ساتھ یعنی تجھ کو اس عذاب تک ضرور پہنچایا جائے گا اور تو اپنے اس معبود کو دیکھ کہ جس کی عبادت پر تو جما ہوا تھا ظَلْتَ اس کی اصل ظَلِلْتَ دو لاموں کے ساتھ تھی اول ان میں کا مکسور جس کو تخفیفاً حذف کردیا گیا اور معنی اس کے دُمْتَ کے ہیں یعنی تو اس کی بندگی میں ہمیشہ لگا رہا اس کو آگ میں جلا دیں گے اور پھر ہم اس کو ریزہ ریزہ کرکے دریا میں اڑا دیں گے یعنی اس کو ہم دریا کی فضا میں اڑا دیں گے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو ذبح کرنے کے بعد ایسا ہی کیا پس تمہارا معبود (حقیقی) تو اللہ ہی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا علم ہر شئ کو حاوی ہے عِلْمًا تمیز ہے فاعل سے منقول ہوئی ہے (اور تقدیر عبارت یہ ہے) ای وَسِعَ علمُہٗ کلَّ شئٍ یعنی جس طرح ہم نے آپ کو یہ قصہ سنایا ہم اسی طرح آپ کو سابقہ امتوں کی خبریں بھی سناتے ہیں اور ہم نے آپ کو اپنے پاس سے ایک نصیحت نامہ یعنی قرآن دیا ہے اور جو شخص اس سے اعراض کرے گا اس پر ایمان نہ لائے گا تو وہ قیامت کے دن گناہوں کا بڑا بھاری بوجھ اٹھائے گا اور وہ گناہوں کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بوجھ ان کے لئے قیامت کے روز برا ہوگا حملاً تمیز ہے جو کہ ساء کی ضمیر کی تفسیر کر رہی ہے اور مخصوص بالذم محذوف ہے اس کی تقدیر وِزْرَھم ہے اور (لھم) میں لام بیانیہ ہے اور یَوْمَ یُنفَخُ فی الصُّورِ یومَ القیامَۃِ سے بدل ہے (اور صور سے مراد) سینگ ہے اور نفخ سے مراد نفخۂ ثانیہ ہے اور ہم اس روز مجرموں کافروں کو جمع کریں گے اس حال میں کہ وہ گربہ چشم ہوں گے یعنی ان کے چہروں کے سیاہ ہونے کے ساتھ ان کی آنکھیں بھی کنجی (نیلی) ہوں گی آپس میں خفیہ چپکے چپکے باتیں کرتے ہوں گے کہ تم لوگ دنیا میں صرف دس دن رات رہے ہوگے ہم خوب جانتے ہیں قیام کی اس (مدت) کو جس قیام کی مدت کے بارے میں یہ دس دن کی بات کہیں گے یعنی بات ایسی نہیں ہے جو یہ کہیں گے جبکہ ان میں کا اس معاملہ میں سب سے زیادہ صائب الرائے یوں کہے گا کہ تم تو صرف ایک ہی روز (قبر میں) رہے ہو یہ لوگ دنیا میں اپنے قیام کی مدت کو نہایت قلیل سمجھیں گے جب آخرت میں اس کی ہولناکیوں کا مشاہدہ کریں گے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : ولقد قال لھم ہارون ولقد میں لام قسمیہ ہے ای وَاللہِ لَقَد نَصَحَ ہارون ونَبَّہ علی حقیقۃ الأمر من قبل رجوع موسیٰ اِلَیھِمْ ۔ قولہ اِنَّما فَتِنْتُمْ بہٖ یعنی تم بچھڑے کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا کر دئیے گئے ہو اِنّما کلمہ حصر سے جو حصر مستفاد ہو رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بچھڑا تمہارے فتنہ کا سبب بنا ہے، نہ کہ ہدایت کا، یہ مطلب نہیں ہے کہ تم بچھڑے کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہوئے ہو نہ کسی اور وجہ سے رَبّکم الرحمٰن یہاں خاص طور پر رحمٰن کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لایا گیا کہ معلوم ہوجائے کہ اگر صدق دل سے توبہ کرلی جائے تو وہ توبہ قبول کرلیتا ہے اس لئے کہ وہ رحمٰن ہے۔
قولہ : اَنْ لاَّ تَتَّبِعَنِیْ لا زائدہ ہے جیسا کہ اَن لا تَسْجُدَ میں لا زائدہ ہے تاکید کے لئے ہے اَنْ لاّ تَتَّبَعَنِیْ ، مَنَعَ کا مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے اور مَنَعَکَ میں کاف مفعول اول ہے اِذ رَأیْتَھُمْ منع کا ظرف ہے ای اَیُّ شئٍ مَنَعَکَ حِیْنَ رُوْیَتِکَ لِضَلاَلِھِمْ مِنْ اِتباعیِ ۔ قولہ : اَفَعَصَیْتَ میں ہمزہ استفہام انکاری توبیخ کے لئے ہے اور فاعاطفہ مقدر پر عطف کے لئے ہے۔ قولہ : وکان اَخَذَ شعرہٗ ای شعر راسِہٖ ولم ترقب کا عطف ان تقول پر ہے یعنی اس ڈر سے کہ تو کہے گا کہ میں نے قوم میں تفریق کردی اور اس ڈر سے کہ تو کہے گا کہ تو نے میری بات کا پاس لحاظ نہیں کیا۔
قولہ : بالیاء ای لم یبصُرُوْا ای بنواسرائیل وبالتاء ای اَنْتَ وقومکَ ۔ قولہ : المصاغ الاصح المصوغ کما فی بعض النسخ۔ قولہ : فَقَبَضْتُ قبضًا معنی مٹھی بھرنا، اور بعض نسخوں میں فَقَبْضتُ قبصًا صاد مہملہ کے ساتھ ہے ثٹ کی بھرنا۔ قولہ : من اثر الرسول ای من محل اثر حافر فرس الرسول یعنی جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے نقش قدم کی جگہ سے۔ قولہ : وَاُلقِیٰ فیھا اس کا سَوَّلَتْ لِیْ نفسیِ پر عطف تفسیری ہے یعنی میرے نفس نے مجھے یہ بات سمجھائی اور میرے قلب میں یہ بات ڈالی گئی کہ میں اس مٹی میں سے ایک چٹکی اس میں ڈال دوں تو اس بےجان میں جان پڑجائے گی۔
قولہ : لا مِسِاس یہ باب مفاعلہ کا مصدر منصوب ہے یعنی نہ کوئی تجھے چھوئے اور نہ تو کسی کو چھوئے۔ قولہ : وَاِنَّ لَکَ مَوْعِدًا مَوْعِدًا مصدر ہے اور معنی میں وَعْدًا کے ہے۔ قولہ : نَنْسِفَنَّہٗ جمع متکلم مضارع بانون تاکید ثقیلہ ہم اس کو ہوا میں ضرور اڑا دیں گے (ض) ۔ قولہ : اِنّما اِلٰھُکم اللہ الخ یہ جملہ مستانفہ ہے اور یہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کا اختتام ہے۔ قولہ : کذٰلِکَ نقص عَلَیکَ الخ یہ بھی جملہ مستانفہ ہے یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی اور تکثیر معجزات کے لئے ہے کَذٰلِکَ نقُصُ یہ مصدر محذوف کی صفت ہے ای نقص قصصًا کذٰلک۔ قولہ : مَنْ اَعْرَضَ عنہٗ کی تفسیر فلم یومن بہٖ سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہاں اعراض سے مراد انکار ہے۔
قولہ : فیہِ ای فِی عذاب الوزر اس میں حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے۔ قولہ : خالدین یحمل کی ضمیر سے حال ہے جو کہ مَن کی طرف لوٹ رہی ہے یحمل میں لفظ اور خالدین میں مَن کے معنی کی رعایت سے جمع کا صیغہ لایا گیا ہے قولہ : زُرْقًا یہ المجرمین سے حال ہے ازرق کی جمع ہے صفت مشبہ ہے اس کے معنی ہیں گربہ چشم جسے کنجا کہتے نیلی آنکھوں والا، یتخافتون زُرقًا کی ضمیر سے حال ہے۔ قولہ : اَعْدَلُھُمْ اَعْدَل سب سے زیادہ صحیح رائے رکھنے والا، یہ صحیح رائے اقرب الی الصواب کے اعتبار سے نہیں کہا ہے، بلکہ اقرب الی الہول کے اعتبار سے اَعْدَل کہا ہے یعنی اس کے قول میں اس دن کی ہولناکی کا زیادہ اظہار ہے۔
تفسیر و تشریح
ولقد قال لھم ہارون جب بنی اسرائیل گوسالہ پرستی میں مبتلا ہوگئے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خالفت و نیابت کا حق ادا کرتے ہوئے قوم کو بڑے حکیمانہ انداز سے سمجھایا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کوہ طور پر تشریف لیجانے کے بعد قوم تین فرقوں میں تقسیم ہوگئی ایک فرقہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ رہا، گوسالہ پرستی کو گمراہی سمجھا ان کی تعداد بارہ ہزار بتلائی گئی ہے (کذافی القرطبی) باقی دو فرقے گوسالہ پرستی میں تو مبتلا ہوگئے مگر فرق اتنا رہا کہ ایک فرقہ نے کہا کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) آکر منع کریں گے تو ہم باز آجائیں گے مگر تیسرا فرقہ گوسالہ پرستی پر اس قدر پختہ ہوگیا تھا کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) بھی منع کریں گے تو ہم نہیں چھوڑیں گے بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی اسی گوسالہ کو اپنا معبود بنالیں گے ہارون (علیہ السلام) نے جب ان دونوں فرقوں کا یہ جواب سنا تو اپنے ہم عقیدہ بارہ ہزار لوگوں کو لیکر ان سے الگ تو ہوگئے مگر رہنے اور قیام کی جگہ وہی رہی گویا کہ تینوں فرقوں میں اشتراک مکانی باقی رہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے آکر اولاً تو بنی اسرائیل کو خطاب کیا جس کی تفصیل سابقہ آیات میں گزر چکی ہے پھر حضرت ہارون (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہو کر ان پر سخت ناراضی کا اظہار کیا حتی کہ ان کی ڈاڑھی اور سر کے بال پکڑ کر کھینچے اور فرمایا جب ان بنی اسرائیل کو تم نے دیکھ لیا کہ گمراہی اور شرک میں مبتلا ہوگئے تو تم نے میرا اتباع کیوں نہیں کیا ؟ اور میرے حکم کی خلاف ورزی کیوں کی ؟
ما منعک اذ رأیتھم الخ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس ارشاد کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اتباع سے مراد یہ کہ جب تم نے قوم کی حالت دیکھی تو تم کو کوہ طور پر میرے پاس آنے سے کیا امر مانع ہوا ؟ اور بعض مفسرین نے اتباع سے یہ مراد لی ہے کہ جب بنی اسرائیل گمراہ ہوگئے تھے تو تم نے ان کا مقابلہ کیوں نہیں کیا اس لئے کہ اگر میں موجود ہوتا تو یقیناً ان سے جہاد کرتا جب تم میرے نائب اور خلیفہ تھے تو تم نے ایسا کیوں نہیں کیا ؟ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے ادب کی پوری رعایت رکھتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نرم کرنے کے لئے یا ابن اُمّ سے خطاب فرمایا اور کہا میں آپ کا بھائی ہی تو ہوں کوئی غیر یا دشمن تو نہیں ہوں اس لئے آپ پہلے میرا عذر سنیں اس کے بعد حضرت ہارون (علیہ السلام) نے عذر بیان کرتے ہوئے فرمایا اِنِّی خَشِیْتُ اَنْ تقُوْلَ الخ مجھے خطرہ یہ ہوگیا کہ اگر آپ کی آمد سے پہلے ان لوگوں کے ساتھ مقابلہ و مقاتلہ کرنے پر اقدام کرتا یا ان کو چھوڑ کر بارہ ہزار ساتھیوں کو اپنے ساتھ لیکر آپ کے پاس آگیا ہوتا تو بنی اسرائیل میں تفرقہ پیدا ہو کر خانہ جنگی کی شکل پیدا ہوجاتی، اور آپ نے چلتے وقت مجھے یہ ہدایت فرمائی تھی اخلفنی فی قومی واصلح، میں اس اصلاح کا مقتضایہ سمجھا تھا کہ ان میں تفرقہ پیدا نہ ہونے دوں ممکن ہے کہ آپ کے واپس آنے کے بعد یہ سب سمجھ جائیں اور ایمان اور توحید پر واپس آجائیں، قرآن کریم میں دوسری جگہ سورة اعراف میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کے عذر میں یہ قول بھی آیا ہے اِنّ القومَ استضعفونی وکادوا یقتلوننی یعنی بنی اسرائیل نے مجھے کمزور سمجھا اس لئے کہ میرے ساتھی دوسروں کے مقابلہ میں بہت کم تھے قریب تھے کہ مجھے قتل کردیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اپنی ذمہ داری پوری طرح نبھائی اور قوم کو سمجھانے میں کسی مداہنت یا سستی سے کام نہیں لیا لیکن معاملہ کو اس حد تک نہیں جانے دیا کہ خانہ جنگی شروع ہوجائے، کیونکہ ہارون (علیہ السلام) کے قتل کا مطلب پھر ان کے حامیوں اور مخالفوں میں خونی تصادم ہوتا اور بنی اسرائیل دو گروہوں میں بٹ جاتے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چونکہ خود موقعہ پر موجود نہیں تھے اس لئے صورت حال کی نزاکت ان کے سامنے نہیں تھی اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو سخت سست کہا لیکن پھر اصل دشمن کی طرف متوجہ ہوئے، مذکورہ دونوں عذر ایک ساتھ جمع ہوسکتے ہیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ عذر سنا تو ہارون (علیہ السلام) کو چھوڑ دیا اور اصل مجرم اور فساد کے بانی سامری کی طرف متوجہ ہوئے۔
قال فما خطبک یسامری اور فرمایا اے سامری تیرا کیا معاملہ ہے ؟ تو نے یہ حرکت کیوں کی ؟ تو سامری نے جواب دیا کہ میں نے وہ چیز دیکھی جو دوسروں نے نہیں دیکھی اس سے مراد جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، سامری حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو پہچانتا تھا اس لئے کہ سامری بھی اسی سال پیدا ہوا تھا جس سال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تھے اور وہ اسرائیلی لڑکوں کو قتل کرنے کا سال تھا، سامری کی والدہ نے جلادوں کے قتل کے ڈر سے پہاڑ کی ایک غار میں چھپا دیا تھا وہاں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کی پرورش فرمائی تھی جس کی وجہ سے سامری حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے مانوس تھا (کما فی روایت ابن عباس (رض) ملخصاً ) چناچہ جب جبرائیل (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس تشریف لائے تو سامری نے پہچان لیا اور ان کے گھوڑے کے نقش قدم سے اس کی عجیب و غریب تاثیر دیکھ کر ایک مٹھی خاک اٹھالی اور اس کئ عجیب و غریب تاثیر سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ اگر اس کو بےجان شئ میں ڈالدیا جائے تو اس میں جان پڑجائے گی چناچہ بنی اسرائیل سے حاصل کردہ زیورات سے جو بچھڑے کا ایک ڈھانچہ (قالب) تیار کیا تھا اس کے منہ میں اس خاک میں سے ایک چٹکی خاک ڈالدی جس کی وجہ سے وہ بچھڑے کی طرح بولنے لگا، یہ پوری تفصیل روح المعانی سے ملخصاً ماخوذ ہے، اور اس تفسیر پر ظاہر پرستوں نے جو اعتراضات کئے ہیں ان سب کا جواب بھی مذکور ہے۔
فان لک فی الحیوۃ ان تقول لا مساس، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری کے لئے دنیوی زندگی میں یہ سزا تجویز کی سب لوگ اس سے بائی کاٹ (مقاطعہ) کریں کوئی شخص بھی اس سے کسی قسم کا سروکار نہ رکھے، مذکورہ سزا ہوسکتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے قانونی طور پر نافذ کی ہو جس کی پابندی ہر شخص پر ضروری ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعاء سے اس میں یہ کیفیت پیدا ہوگئی ہو کہ نہ وہ کسی کو چھو سکے اور نہ دوسرا اس کو چھو سکے، چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعاء سے اس میں یہ کیفیت پیدا ہوگئی تھی کہ اگر یہ کسی کو ہاتھ لگا دے یا کوئی دوسرا اس کو ہاتھ لگا دے تو دونوں کو بخار چڑھ جاتا تھا اس ڈر اور خوف کی وجہ سے وہ انسانوں سے دور جنگلوں میں مارا مارا پھرتا رہتا تھا جب وہ کسی شخص کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھتا تو دور ہی سے چلانے لگتا تھا لامِسَاسَ یعنی کوئی مجھے نہ چھوئے۔
لنخرقنہٗ یعنی ہم اس کو آگ میں جلا دیں گے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بچھڑا سونے چاندی کے زیورات کا ڈھلا ہوا تھا تو اس کو آگ میں جلانے کی کیا صورت ہوگی، جواب یہ ہے کہ اولاً تو خود اس بات میں اختلاف ہے کہ بچھڑے میں آثار حیات پیدا ہونے کے بعد بھی وہ چاندی سونے ہی کا رہا یا اس کی حقیقت تبدیل ہو کر گوشت پوست اور خون کا بن گیا (جیسا کہ مفسر علام کی رائے ہے) تب تو اس کے جلانے کا مطلب ظاہر ہے اور اگر وہ چاندی سونے ہی کا رہا تو اس کے جلانے کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کو سوہان سے گھس کر ذرہ ذرہ کردیا جائے گا، یا کسی اکسیری (کیمیاوی) دوا کے ذریعہ اس کو خاکستر کردیا جائے گا جیسا کہ زمانہ قدیم سے سونے اور چاندی بلکہ ہر دھات کو کشتہ کرکے خاک کردی جاتی ہے۔
کذلک نقص علیک اس صورت میں اصل بیان توحید، رسالت اور آخرت کے مسائل کا ہے، انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات اسی سلسلہ میں بیان ہوئے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے اس کے ضمن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اثبات بھی ہے اسی اثبات کا یہ حصہ بھی ہے، جو آئندہ آیات میں بیان ہوا ہے کہ ان واقعات اور قصص کا اظہار ایک نبی امی کی زبان سے خود دلیل نبوت و رسالت ہے جس طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیا اسی طرح ہم تیرے سامنے پہلے کے گزرے ہوئے لوگوں کے قصے اور وارداتیں بیان فرما رہے ہیں تاکہ آپ لوگوں کو سنائیں اور وہ آپ کے لئے دلیل نبوت ثابت ہوں اسلئے کہ ہزار ہا سال پہلے کے واقعات کا علم صرف وحی الٰہی ہی کے ذریعہ ہوسکتا ہے خاص طور پر ایک امی شخص کو۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی بچھڑے کو معبود بنانے میں وہ معذور نہیں تھے۔ اگر وہ بچھڑے کی عبادت کے بارے میں کسی شبہ میں مبتلا ہوگئے تھے تو ہارون علیہ السلام نے ان کو بہت روکا تھا اور ان کو آگاہ کردیا تھا کہ یہ ان کی آزمائش ہے۔ ان کا رب تو رحمٰن ہے، جس کی طرف سے تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں کا فیضان جاری ہے اور وہ تمام تکالیف کو دور کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ ہارون علیہ السلام کی اتباع کریں اور بچھڑے کو چھوڑ دیں، مگر انہوں نے ایسا نہ کیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur Haroon ney unn say pehlay hi kaha tha kay : meri qoam kay logo ! tum iss ( bachrray ) ki wajeh say fitney mein mubtala hogaye ho , aur haqeeqat mein tumhara rab to rehman hai , iss liye tum meray peechay chalo aur meri baat maano .
12 Tafsir Ibn Kathir
بنی اسرائیل اور ہارون (علیہ السلام) ۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے آنے سے پہلے حضرت ہارون (علیہ السلام) نے انہیں ہرچند سمجھایا بجھایا کہ دیکھو فتنے میں نہ پڑو اللہ رحمان کے سوا اور کسی کے سامنے نہ جھکو۔ وہ ہر چیز کا خالق مالک ہے سب کا اندازہ مقرر کرنے والا وہی ہے وہی عرش مجید کا مالک ہے وہی جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔ تم میری تابعداری اور حکم برداری کرتے رہو جو میں کہوں وہ بجا لاؤ جس سے روکوں رک جاؤ۔ لیکن ان سرکشوں نے جواب دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی سن کر تو خیر ہم مان لیں گے تب تک تو ہم اس کی پرستش نہیں چھوڑیں گے۔ چناچہ لڑنے اور مرنے مارنے کے واسطے تیار ہوگئے۔