الانبیاء آية ۱
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِىْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
طاہر القادری:
لوگوں کے لئے ان کے حساب کا وقت قریب آپہنچا مگر وہ غفلت میں (پڑے طاعت سے) منہ پھیرے ہوئے ہیں،
English Sahih:
[The time of] their account has approached for the people, while they are in heedlessness turning away.
1 Abul A'ala Maududi
قریب آ گیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت، اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
لوگوں کا حساب نزدیک اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہیں
3 Ahmed Ali
لوگو ں کے حساب کا وقت قریب آ گیا ہے اوروہ غفلت میں پڑ کر منہ پھیرنے والے ہیں
4 Ahsanul Bayan
لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا (١) پھر بھی وہ بےخبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں ٢)
١۔١ وقت حساب سے مراد قیامت ہے جو ہر گھڑی قریب سے قریب تر ہو رہی ہے۔ اور وہ ہرچیز جو آنے والی ہے، قریب ہے۔ اور ہر انسان کی موت بجائے خود اس کے لئے قیامت ہے۔ علاوہ ازیں گزرے ہوئے زمانے کے لحاظ سے بھی قیامت قریب ہے کیونکہ جتنا زمانہ گزر چکا ہے۔ باقی رہ جانے والا زمانہ اس سے کم ہے۔
١۔٢ یعنی اس کی تیاری سے غافل، دنیا کی زینتوں میں گم اور ایمان کے تقاضوں سے بےخبر ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
لوگوں کا حساب (اعمال کا وقت) نزدیک آپہنچا ہے اور وہ غفلت میں (پڑے اس سے) منہ پھیر رہے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا پھر بھی وه بے خبری میں منھ پھیرے ہوئے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
لوگوں کے حساب کتاب (کا وقت) قریب آگیا ہے اور وہ غفلت میں پڑے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
لوگوں کے لئے حساب کا وقت آپہنچا ہے اور وہ ابھی غفلت ہی میں پڑے ہوئے ہیں اور کنارہ کشی کئے جارہے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
لوگوں کا حساب (اعمال کا وقت) نزدیک آپہنچا ہے اور وہ غفلت میں (پڑے اس سے) منہ پھیر رہے ہیں
آیت نمبر 1 تا 10
ترجمہ : لوگوں (یعنی) منکرین بعث اہل مکہ کے لئے ان کا حساب (یعنی) قیامت کا دن قریب آگیا پھر بھی وہ اس سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اس پر ایمان کے ذریعہ تیاری سے اعراض کئے ہوئے ہیں ان کے رب کے پاس سے ان کے پاس کوئی نئی نصیحت بتدریج نہیں آتی (یعنی الفاظ قرآنی) مگر یہ کہ یہ لوگ اس کو کھیل کود میں استہزاء کے طور پر سنتے ہیں حال یہ ہے کہ ان کے قلوب اس کے معانی سے غافل ہوتے ہیں اور ان ظالموں نے چپکے چپکے سرگوشیاں کیں الذین ظلموا اَسَرُّوْا کے واؤ سے بدل ہے کہ یہ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے جیسا ہی انسان ہے لہٰذا جو کچھ یہ پیش کرتا ہے وہ سحر ہے پھر بھی تم جادو کی بات سننے کے لئے اس کے پاس جاؤ گے ؟ حالانکہ تم جانتے ہو کہ یہ سحر ہے پیغمبر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا رب ہر بات کو (خواہ) وہ آسمان میں ہو یا زمین میں جانتا ہے اور جس بات کو یہ چھپا رہے ہیں اس کو خوب سننے والا اور جاننے والا ہے بَلْ ایک غرض سے دوسری غرض کی طرف انتقال کے لئے تینوں مقامات میں (یعنی جادو کہنے پر اکتفا نہیں کیا) بلکہ آپ جو قرآن لیکر آئے اس کے بارے میں کہا یہ پریشان خیالات ہیں یعنی خواب میں دیکھے ہوئے پراگندہ خیالات کا مجموعہ ہے بلکہ اس کو افتراء کیا ہے (یعنی) گھڑ لیا ہے بلکہ یہ تو شاعر ہے لہٰذا جو چیز یہ پیش کرتا ہے وہ شعر ہے لہٰذا (ان کو چاہیے) کہ ہمارے پاس کوئی بڑی نشانی لائیں جیسا کہ پہلے پیغمبر (نشانیاں دیکر) بھیجے گئے تھے مثلاً ناقہ اور عصاء اور یدبیضاء، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان سے پہلے جو بستی یعنی بستی والے ایمان نہیں لائے ہم نے ان کو ان آیات کی تکذیب کی وجہ سے ہلاک کردیا سو کیا یہ لوگ ایمان لے آئیں گے ؟ نہیں ہم نے آپ سے پہلے صرف مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے جن کے پاس وحی بھیجی جاتی تھی اور ایک قرأت میں نون اور حا کے کسرہ کے ساتھ ہے (یعنی ہم وحی بھیجا کرتے تھے) نہ کہ فرشتوں کو اگر تم کو یہ بات معلوم نہ ہو تو اہل ذکر یعنی انجیل اور تورات کے علماء سے معلوم کرلو، اس لئے کہ وہ اس بات کو جانتے ہیں اور تم ان کی تصدیق کے زیادہ قریب ہو بہ نسبت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والوں کے اور ہم نے ان رسولوں کے ایسے جسم نہیں بنائے کہ جو کھانا نہ کھاتے ہوں بلکہ کھاتے ہیں جسد بمعنی اجساد ہے اور یہ حضرات دنیا میں ہمیشہ نہیں رہے پھر ہم نے ان سے جو وعدہ کیا تھا اس کو سچا کردیا یعنی پورا کردیا یعنی ہم نے ان کو اور ان کی تصدیق کرنے والوں میں سے جس کو چاہا نجات دی اور حد سے گزرنے والوں یعنی ان کی تکذیب کرنے والوں کو ہلاک کردیا اے قریش کے لوگو ! ہم تمہارے پاس ایسی کتاب بھیج چکے ہیں جس میں تمہارے لئے نصیحت ہے اس لئے کہ وہ تمہاری زبان میں ہے پھر بھی تم نہیں سمجھتے کہ اس پر ایمان لے آؤ۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
اقترب قرب (س، ک) نزدیک آجانا اِقْتَرَبَ کی تفسیر قرب سے کرکے اشارہ کردیا ہے کہ اقتَرَبَ اور قَرُبَ دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ قولہ : للنَاسِ کی تفسیر اہل مکہ سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہ اطلاق الجنس علی البعض کے قبیل سے ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ آئندہ جو صفات بیان کی جا رہی ہیں وہ مکہ کے مشرکوں پر صادق آرہی ہیں، ورنہ تو حساب ہر شخص کا قریب آگیا ہے۔ قولہ : حِسَابُھُمْ ای وقت حسابھم مضاف محذوف ہے۔ قولہ : وھم فی غفلۃٍ معرضونَ یہ جملہ حالیہ ہے ای قَرُبَ وقتُ حسابھم والحال اَنَّھم غافلون معرضون ھُمْ مبتداء معرضون اس کی خبر۔ قولہ : فی غفلۃ معرضون کی ضمیر سے حال بھی ہوسکتا ہے ای اعرضوا غافلین اور مبتداء کی خبر ثانی بھی ہوسکتی ہے۔ قولہ : تاھب اَھَّبَ وتَأھَّبَ بمعنی تیار ہونا، آمادہ ہونا۔ قولہ : مَا یأتِیھم من ذکر یہ ما قبل کی علت ہے مِنْ ذِکرٍ میں مِن فاعل پر زائدہ ہے۔
قولہ : لفظ القرآن مفسر علام نے لفظ القرآن کا اضافہ کرکے اس شبہ کو زائل کردیا کہ یہاں ذکر سے مراد قرآن ہے اور قرآن اللہ کا کلام اور اس کی خاص صفت ہے اور اللہ کی ذات کے مانند اس کی صفات بھی قدیم ہیں تو پھر اس کو محدثٍ کیوں کہا گیا ہے ؟ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن الفاظ منزلہ کے اعتبار سے حادث ہے اور اپنے مدلول و معنی کے اعتبار سے قدیم ہے۔
قولہ : وَاَسَرُّوْا النَّجویٰ الذین ظلموا اَسَرُّوْا کے واؤ سے بدل ہے اور محل میں رفع کے ہے اور الذین ظلمو، ھم مبتداء محذوف کی خبر بھی ہوسکتی ہے ای ھم الذین ظلموا اور اگر اعنی مقدر مان لیا جائے تو الذین ظلموا محلاً منصوب ہوگا، ای اَعْنِیْ الذین ظلموا۔ قولہ : ھل ھٰذا الض یہ النجویٰ سے بدل ہے یعنی ان ظالموں کی خفیہ گفتگو یہ تھی کہ یہ ہمارے جیسا بشر ہی ہے ھَل ھٰذا اِلاَّ بشرٌ مثلکُمْ اَوانتٗمْ تبصرون تاتون کی ضمیر سے حال ہے علامہ محلی نے کائناً کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ فی السماء والارض اَلقَوْل سے حال ہے۔
قولہ : اَضغاثُ احلامٍ یہ ھٰذا یا ھو مبتداء محذوف کی خبر ہے جیسا کہ علامہ محلی نے ھُوَ مقدر مان کر اشارہ کردیا ہے اور جملہ ہو کر قالوا کا مفعول بہ ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے اَضْغَاثُ بمعنی اخلاط جمع ضغثٍ وہ پراگندہ خیالات جن کو انسان خواب میں دیکھتا ہے۔
قولہ : فَلْیَأتِنا بآیۃٍ یہ شرط محذوف کی جزاء ہے جو کہ سیاق وسباق سے مفہوم ہے ای کأنَّہٗ قیل وَاِن لم یکن کما قلنا بل کان رسولاً من عبد اللہ فَلْیَاتِنَا بآیَۃٍ ۔ وقولہ : کما اُرْسِلَ الاولون یہ آیۃٍ کی صفت ہے ای اِئتنا بآیۃٍ کائنۃٍ مثل الآیۃ التی ارسل بھا الاوَّلون۔ قولہ : اَھْلکنٰھا قَرْیَۃٍ کی صفت ہے اَفَھُمْ یومِنُونَ کے بعد لامقدر مان کر اشارہ کردیا کہ اَفَھُمْ میں ہمزہ استفہام انکاری ہے۔ قولہ : یُوْحٰی بالیاء مبنی للمفعول اِلَیْھِمْ نائب فاعل وفی قرأۃٍ نُوْحِیْ بالنون وکسر الحاء اس صورت میں مفعول محذوف ہوگا ای نُوحِی اِلَیْھِم الاَمرَ والنَّھْیَ اِنْ کُنْتُمْ لاتعلمون یہ جملہ شرطیہ ہے اس کی جزاء فاسئلوھم محذوف ہے سابقہ جملہ حذف جزاء پر دلالت کر رہا ہے یعنی تم اہل کتاب کی بات کی تصدیق کو اولیت دو گے بخلاف ان لوگوں کی بات کی تصدیق کے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھتے ہیں اس لئے کہ اہل کتاب اسلام دشمنی میں تمہارے ہمنواء اور شریک ہیں۔
قولہ : اَقْرَبُ مِن تصدیق المومنین اصل میں مِن تصدیقکم المومنینَ بمحمدٍ صلی اللہ علیہِ وسلَّمَ ہے جَسَدًا بمعنی اَجْسَادًا یہ اشارہ ہے کہ جَسَدًا مفرد بمعنی اجسادًا ہے یا اس سے پہلے مضاف محذوف ہے ای ذوی جسَدٍ جسدًا یا تو اس وجہ سے منصوب ہے کہ جَعَلنا کا مفعول ثانی ہے اگر جعل بمعنی صیر اور اگر جَعَلَ بمعنی خلق ہو تو جعلناھم کی ضمیر ھم سے حال واقع ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا۔ قولہ : لا یاکلون الطعام ظاہر یہ ہے کہ یہ جملہ جسدًا کی صفت ہے دراصل یہ جملہ مشرکین کے اس قول کا رد ہے کہ وہ کہتے تھے مال ھٰذا الرسول یا کل الطعام۔ قولہ : لَقَدْ اَنْزَلْنَا لقد میں لام قسمیہ ہے ای واللہِ لقَدْ ۔
تفسیر و تشریح
اقترب للناس حسابھم سورة انبیاء بالاتفاق مکی ہے اس میں ایک سو گیارہ یا بارہ آیتیں ہیں چونکہ اس سورت میں متعدد انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات مذکور ہوئے ہیں، اسی وجہ سے اس سورت کا نام سورة الانبیاء رکھا گیا ہے، سورة کہف سورة مریم سورة طٓہٰ اور سورة انبیاء نزول کے اعتبار سے ابتدائی سورتوں میں سے ہیں، حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ یہ میری قدیم دولت اور کمائی ہیں جن کی میں ہمیشہ حفاظت کرتا ہوں۔
حساب کے وقت کے قریب ہونے سے قیامت کا دن مراد ہے جو ہر گھڑی قریب سے قریب تر ہو رہا ہے، اور ہر وہ چیز جو آنے والی ہے وہ قریب ہی ہوتی ہے ” کل ما ھو آتٍ فھو قریب “ اور ہر انسان کی موت بجائے خود اس کے لئے قیامت ہے اس لئے کہ ہر انسان کا حساب قبر ہی سے شروع ہوجاتا ہے، علاوہ ازیں گزرے ہوئے زمانہ کے اعتبار سے بھی قیامت قریب ہے، اس لئے کہ گزشتہ زمانہ کے اعتبار سے آئندہ زمانہ کم ہی ہے حدیث شریف میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ گزشتہ زمانہ کی مقدار باقی زمانہ کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسا کہ صبح سے لیکر عصر کے وقت تک اور بقیہ زمانہ کی مقدار ایسی ہے جیسا کہ عصر سے غروب تک کا وقت، مقصد اس آیت سے غفلت شعار لوگوں کو متنبہ کرنا ہے جس میں مومن اور کافر سب داخل ہیں کہ دنیا کی خواہشات میں مشغول ہو کر اس حساب کے دن کو نہ بھلائیں کیوں کہ اس کو بھلا دینا ہی تمام خرابیوں اور برائیوں کی جڑ ہے۔
مَا یاتِیھِمْ مِن ذکرٍ الخ یہ آخرت اور عذاب قبر سے غفلت کرنے والوں کا مزید بیان ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن کی کوئی نئی آیت نازل ہوتی ہے اور ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے تو وہ اس کا استہزاء کرتے ہیں اور ہنسی مذاق میں اذا دیتے ہیں، آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن کی آیات سننے کے وقت یہ اپنے کھیل اور شغل میں اسی طرح لگے رہتے ہیں کہ قرآن کی طرف توجہ نہیں کرتے اور نہ اس میں تدبیر و غور و فکر کرتے ہیں۔
اَفَتاتون السِّحْرَ وانتم تُبصِرون یعنی یہ لوگ آپس میں سرگوشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ شخص جو خود کو نبی اور رسول کہتا ہے یہ تو ہم جیسا انسان ہے کوئی فرشتہ تو ہے نہیں کہ ہم اس کی بات مان لیں، مطلب یہ کہ ان کو نبی کا بشر ہونا قابل قبول نہیں تھا جیسا کہ خود کو مسلمان کہلانے والے بعض فرقے بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت سے انکار کرتے ہیں۔
قرآن چونکہ اپنی حلاوت و بلاغت کے اعلیٰ مقام پر ہے جس کی تاثیر کا کوئی کافر بھی انکار نہیں کرسکتا تھا اس لئے کہ مشرکین مکہ کے سرداروں نے یہ صورت نکالی کہ اس کو سحر اور جادو قرار دیں اور پھر لوگوں کو اسلام سے روکنے کے لئے یہ کہیں کہ جب تم سمجھ گئے کہ یہ جادو ہے اور اس کلام کا سنانے والا جادو گر ہے تو پھر اس کے پاس جانا اور اس کا کلام سننا دانشمندی کے خلاف ہے، شاید مشرکین مکہ نے رازدارانہ طور پر یہ گفتگو اس لئے کہ ہو کہ اگر مسلمان سن لیں گے تو ان کی احمقانہ تلبیس کا پول کھول دیں گے۔
اضغاث، صِغْثٍ کی جمع ہے مختلف قسم کی گھاس کا مٹھا اسی مناسبت سے اضغاث ان خوابوں کو کہتے ہیں جن میں کچھ نفسانی اور شیطانی خیالات شامل ہوجاتے ہیں یعنی ان منکرین نے اول تو قرآن کو جادو کہا پھر پریشان خیالات کہنے لگے پھر اس سے بھی آگے بڑھ کر کہنے لگے کہ یہ تو خدا پر افتراء اور بہتان ہے، پھر کہنے لگے یہ کوئی شاعر شخص ہے اس کے کلام میں شاعرانہ خیالات ہیں، خدا کی پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا میرا پروردگار ہر اس بات کو جو زمین اور آسمان میں ہے بخوبی جانتا ہے اور تمام بندوں کی گفتگو سنتا ہے اور ہر ایک کے عمل کو دیکھتا ہے، لہٰذا تم جو جھوٹ بک رہے ہو اسے وہ سن رہا ہے اور میری سچائی کو اور جو دعوت تمہیں دے رہا ہوں اس کی حقیقت کو خوب جانتا ہے۔
فلمیاتنا بآیۃٍ تو مشرکین کہنے لگے اگر یہ واقعی نبی ہے تو ہمارے طلب کئے ہوئے معجزے دکھلائیں اس کے جواب میں حق تعالیٰ نے فرمایا کہ پچھلی امتوں میں اس کا بھی تجربہ اور مشاہدہ ہوچکا ہے کہ جس طرح کا معجزہ انہوں نے طلب کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ہاتھوں پر وہی معجزہ سامنے آگیا مگر وہ پھر بھی ایمان نہ لائے اور منہ مانگے معجزت کو دیکھنے کے بعد بھی جو قوم ایمان سے گریز کرے اس کے لئے اللہ کا قانون یہ ہے کہ دنیا ہی میں عذاب نازل کرکے ختم کردی جاتی ہے اور چونکہ امت مرحومہ کو حق تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعزاز میں دنیا کے عام عذاب سے محفوظ کردیا ہے اس لئے ان کے مطلوبہ معجزات دکھلانا مصلحت نہیں اَفَھُمْ یومنون کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ منہ مانگے معجزات دیکھ کر بھی یہ ایمان لے آئیں گے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی اس لئے مطلوبہ معجزہ نہیں دکھایا جاتا۔
وما ارسلنا قبلک یعنی جتنے بھہ ہم نے نبی اور رسول بھیجے وہ سب مرد اور انسان تھے نہ کوئی غیر انسان کبھی نبی آیا اور نہ غیر مرد، گویا کہ نبوت انسانوں کے ساتھ اور انسانوں میں سے مردوں کے ساتھ خاص رہی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ کوئی عورت نبی نہیں ہوئی اس لئے کہ نبوت بھی ان فرائض میں سے ہے کہ جو عورت کے طبعی اور فطری دائرہ عمل سے خارج ہے۔
فاسئلوا اھل الذکر میں اہل ذکر سے اس جگہ علماء تورات اور علماء انجیل مراد ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے، مطلب یہ ہے کہ اگر تم کو پچھلے انبیاء کا بشر اور مرد ہونا معلوم نہیں ہے تو علماء توریت و انجیل سے معلوم کرلو۔
کتاباً فیہ ذکرکم کتاب سے مراد قرآن ہے اور ذکر سے مراد شرف، فضیلت و شہرت ہے یہ قرآن چونکہ عربی زبان میں ہے لہٰذا تمہارے لئے بڑی عزت اور دائمی شہرت کی چیز ہے اس کی تمہیں قدر کرنا چاہیے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ لوگوں کے احوال پر تعجب کا اظہار ہے اور اس امر کی آگاہی کہ انہیں کوئی وعظ و نصیحت فائدہ دیتی ہے نہ وہ کسی ڈرانے والے کی طرف دھیان دیتے ہیں اور یہ کہ ان کے حساب اور ان کے اعمال صالحہ کی جزا کا وقت قریب آگیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ غفلت میں پڑے روگردانی کر رہے ہیں، یعنی وہ ان مقاصد سے غافل ہیں جن کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے اور ان کو جو تنبیہ کی جاتی ہے وہ اسے درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔ گویا کہ انہیں صرف دنیا کے لئے تخلیق کیا گیا ہے اور وہ محض اس دنیا سے فائدہ اٹھانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نئے نئے انداز سے انہیں وعظ و نصیحت کرتا ہے اور یہ ہیں کہ اپنی غفلت اور اعراض میں مستغرق ہیں۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ذکر فرماتا ہے کہ ظالم کفار عناد اور باطل کے ذریعے سے حق کا مقابلہ کرنے کی خاطر ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہ کہنے پر متفق ہیں کہ وہ تو ایک بشر ہے، کس بنا پر اسے تم پر فضیلت دی گئی ہے اور کس وجہ سے اسے تم میں سے خاص کرلیا گیا ہے اور تم میں سے کوئی اس قسم کا دعویٰ کرے تو اس کا دعویٰ بھی اسی طرح کا دعویٰ ہوگا۔ درحقیقت یہ شخص تم پر اپنی فضیلت ثابت کر کے تمہارا سردار بننا چاہتا ہے، اس لئے اس کی اطاعت کرنا نہ اس کی تصدیق کرنا، یہ جادوگر ہے اور یہ جو قرآن لے کر آیا ہے، وہ جادو ہے، اس لئے اس سے خود بھی دور رہو اور لوگوں کو بھی اس سے متنفر کرو اور لوگوں سے کہو ! ﴿أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ﴾ یعنی اسے دیکھتے ہوئے تم اس جادو کی طرف کھنچے چلے آرہے ہو۔۔۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے برحق رسول ہیں کیونکہ وہ بڑی بڑی آیات الٰہی کا مشاہدہ کرتے ہیں جن کا مشاہدہ ان کے علاوہ کسی اور نے نہیں کیا، لیکن ظلم، عناد اور بدبختی نے ان کو اس انکار پر آمادہ کیا اور جو وہ سرگوشیاں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے لامحدود علم نے ان کا احاطہ کررکھا ہے عنقریب وہ ان کو ان سرگوشیوں کی سزا دے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
logon kay liye unn kay hisab ka waqt qareeb aa-phoncha hai , aur woh hain kay ghaflat ki halat mein mun pheray huye hain !
12 Tafsir Ibn Kathir
قیامت سے غافل انسان
اللہ تعالیٰ عزوجل لوگوں کو متنبہ فرما رہا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے پھر بھی لوگوں کی غفلت میں کمی نہیں آئی نہ وہ اس کے لئے کوئی تیاری کررہے ہیں جو انہیں کام آئے۔ بلکہ دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایسے مشغول اور منہمک ہو رہے ہیں کہ قیامت سے بالکل غافل ہوگئے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے (اتی امر اللہ فلاتستعجلوہ) امر ربی آگیا اب کیوں جلدی مچا رہے ہو ؟ دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ) 54 ۔ القمر :1) قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا الخ۔ ابو نواس شاعر کا ایک شعر ٹھیک اسی معنی کا یہ ہے۔ شعر
( الناس فی غفلاتہم ورحی المنیتہ تطحن )
" موت کی چکی زور زور سے چل رہی ہے اور لوگ غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
حضرت عامر بن ربیعہ (رض) کے ہاں ایک صاحب مہمان بن کر آئے۔ انہوں نے بڑے اکرام اور احترام سے انہیں اپنے ہاں اتارا اور ان کے بارے میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی سفارش کی۔ ایک دن یہ بزرگ مہمان ان کے پاس آئے اور کہنے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فلاں وادی عطا فرما دی ہے میں میں چاہتا ہوں کہ اس بہترین زمین کا ایک ٹکڑا میں آپ کے نام کردوں کہ آپ کو بھی فارغ البالی رہے اور آپ کے بعد آپ کے بال بچے بھی آسودگی سے گزر کریں۔ حضرت عامر (رض) نے جواب دیا کہ بھائی مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں آج ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے کہ ہمیں تو دنیا کڑوی معلوم ہونے لگی ہے۔ پھر آپ نے یہی اقترب للناس کی تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد کفار قریش اور انہی جیسے اور کافروں کی بابت فرماتا ہے کہ یہ لوگ کلام اللہ اور وحی الٰہی کی طرف کان ہی نہیں لگاتے۔ یہ تازہ اور نیا آیا ہوا ذکر دل لگا کر سنتے ہی نہیں۔ اس کان سنتے ہیں اس کان اڑا دیتے ہیں۔ دل ہنسی کھیل میں مشغول ہیں۔ بخاری شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں تمہیں اہل کتاب کی کتابوں کی باتوں کے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ انہوں نے تو کتاب اللہ میں بہت کچھ ردوبدل کرلیا تحریف اور تبدیلی کرلی، کمی زیادتی کرلی اور تمہارے پاس تو اللہ کی اتاری ہوئی خالص کتاب موجود ہے جس میں ملاوٹ نہیں ہونے پائی۔ یہ لوگ کتاب اللہ سے بےپرواہی کررہے ہیں اپنے دلوں کو اس کے اثر سے خالی رکھنا چاہتے ہیں۔ بلکہ یہ ظالم اوروں کو بھی بہکاتے ہیں کہتے ہیں کہ اپنے جیسے ایک انسان کی ماتحتی تو ہم نہیں کرسکتے۔ تم کیسے لوگ ہو کہ دیکھتے بھالتے جادو کو مان رہے ہو ؟ یہ ناممکن ہے کہ ہم جیسے آدمی کو اللہ تعالیٰ رسالت اور وحی کے ساتھ مختص کردے، پھر تعجب ہے کہ لوگ باجود علم کے اس کے جادو میں آجاتے ہیں ؟ ان بد کرداروں کے جواب میں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ یہ جو بہتان باندھتے ہیں ان سے کہئے کہ جو اللہ آسمان و زمین کی تمام باتیں جانتا ہے جس پر کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں۔ اس نے اس پاک کلام قرآن کریم کو نازل فرمایا اس میں اگلی پچھلی تمام خبروں کا موجود ہونا ہی دلیل ہے اس بات کی کہ اس کا اتارنے والا عالم الغیب ہے۔ وہ تمہاری سب باتوں کا سننے والا اور تمہارے تمام حالات کا علم رکھنے والا ہے۔ پس تمہیں اس کا ڈر رکھنا چاہیے۔ پھر کفار کی ضد، ناسمجھی اور کٹ حجتی بیان فرما رہا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حیران ہیں کسی بات پر جم نہیں سکتے۔ کبھی کلام اللہ کو جادو کہتے ہیں تو کبھی شاعری کہتے ہیں کبھی پراگندہ اور بےمعنی باتیں کہتے ہیں اور کبھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ازخود گھڑلیا ہوا بتاتے ہیں۔ خیال کرو کہ اپنے کسی قول پر بھروسہ نہ رکھنے والا جو زبان پر چڑھے بک دینے و الا بھی مستقل مزاج کہلانے کا مستحق ہے ؟ کبھی کہتے تھے اچھا اگر یہ سچا نبی ہے تو حضرت صالح (علیہ السلام) کی طرح کوئی اونٹنی لے آتا یا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح کا کوئی معجزہ دکھاتا یا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کوئی معجزہ ظاہر کرتا۔ بیشک اللہ ان چیزوں پر قادر تو ضرور ہے لیکن اگر ظاہر ہوئیں اور پھر بھی یہ اپنے کفر سے نہ ہٹے تو عادت الٰہی کی طرح عذاب الٰہی میں پکڑ لئے جائیں گے اور پیس دئیے جائیں گے۔ عموما اگلے لوگوں نے یہی کہا اور ایمان نصیب نہ ہوا اور غارت کرلئے گئے۔ اسی طرح یہ بھی ایسے معجزے طلب کررہے ہیں اگر ظاہر ہوئے تو ایمان نہ لائیں گے اور تباہ ہوجائینگے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96 ۙ ) 10 ۔ یونس :96) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے وہ گو تمام تر معجزے دیکھ لیں، ایمان قبول نہ کریں گے۔ ہاں عذاب الیم کے معائنہ کے بعد تو فورا تسلیم کرلیں گے لیکن وہ محض بےسود ہے بات بھی یہی ہے کہ انہیں ایمان لانا ہی نہ تھ اور نہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیشمار معجزات روز مرہ ان کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ بلکہ آپ کے یہ معجزے دیگر انبیاء (علیہ السلام) سے بہت زیادہ ظاہر اور کھلے ہوئے تھے۔ ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب روایت میں صحابہ کرام (رض) کا ایک مجمع مسجد میں تھا۔ حضرت ابوبکر (رض) تلاوت قرآن کررہے تھے اتنے میں عبداللہ بن سلول منافق آیا اپنی گدی بچھا کر اپنا تکیہ لگا کر وجاہت سے بیٹھ گیا۔ تھا بھی گورا چٹا بڑھ بڑھ کر فصاحت کے ساتھ باتیں بنانے والا کہنے لگا ابوبکر تم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہو کہ آپ کوئی نشان ہمیں دکھائیں جیسے کہ آپ سے پہلے کے انبیاء نشانات لائے تھے مثلا موسیٰ (علیہ السلام) تختیاں لائے، داؤد (علیہ السلام) اونٹنی لائے، عیسیٰ (علیہ السلام) انجیل لائے اور آسمانی دسترخوان۔ حضرت صدیق (رض) یہ سن کر رونے لگے۔ اتنے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے نکلے تو آپ نے دوسرے صحابہ سے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاؤ۔ اور اس منافق کی فریاد دربار رسالت میں پہنچاؤ۔ آپ نے ارشاد فرمایا سنو میرے لئے کھڑے نہ ہوا کرو۔ صرف اللہ ہی کے لئے کھڑے ہوا کرو۔ صحابہ نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں اس منافق سے بڑی ایذاء پہنچی ہے۔ آپ نے فرمایا ابھی ابھی جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آئے تھے اور مجھ سے فرمایا کہ باہر جاؤ اور لوگوں کے سامنے اپنے فضائل ظاہر کرو اور ان نعمتوں کا بیان کرو جو اللہ نے آپ کو عطاء فرمائی ہیں میں ساری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھے حکم ہوا ہے کہ میں جنات کو بھی پیغام الٰہی پہنچادوں۔ مجھے میرے رب نے اپنی پاک کتاب عنایت فرمائی ہے حالانکہ محض بےپڑھا ہوں۔ میرے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ہیں۔ میرا نام اذان میں رکھا ہے میری مدد فرشتوں سے کرائی ہے۔ مجھے اپنی امدادونصرت عطاء فرمائی ہے۔ رعب میرا میرے آگے آگے کردیا ہے۔ مجھے حوض کوثر عطا فرمایا ہے جو قیامت کے دن تمام اور حوضوں سے بڑا ہوگا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے مقام محمود کا وعدہ دیا ہے اس وقت جب کہ سب لوگ حیران و پریشان سرجھکائے ہوئے ہوں گے مجھے اللہ نے اس پہلے گروہ میں چنا ہے جو لوگوں سے نکلے گا۔ میری شفاعت سے میری امت کے ستر ہزار شخص بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے۔ مجھے غلبہ اور سلطنت عطا فرمائی ہے مجھے جنت نعیم کا وہ بلند وبالا اعلیٰ بالاخانہ ملے گا کہ اس سے اعلیٰ منزل کسی کی نہ ہوگی۔ میرے اوپر صرف وہ فرشتے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ میرے اور میری امت کے لئے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے حلال نہ تھے۔