الانبیاء آية ۳۰
اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَـتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۗ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۤءِ كُلَّ شَىْءٍ حَىٍّ ۗ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ
طاہر القادری:
اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (قرآن کے بیان کردہ اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے،
English Sahih:
Have those who disbelieved not considered that the heavens and the earth were a joined entity, and then We separated them and made from water every living thing? Then will they not believe?
1 Abul A'ala Maududi
کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے اِنہیں جدا کیا، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی کیا وہ (ہماری اس خلّاقی کو) نہیں مانتے؟
2 Ahmed Raza Khan
کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا کہ آسمان اور زمین بند تھے تو ہم نے انہیں کھولا اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان لائیں گے،
3 Ahmed Ali
کیا منکروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے پھر ہم نے انھیں جدا جدا کر دیا اورہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا کیا پھر بھی یقین نہیں کرتے
4 Ahsanul Bayan
…..
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟
6 Muhammad Junagarhi
کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان وزمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور ہر زنده چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا، کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں ﻻتے
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا کافر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ آسمان اور زمین پہلے آپس میں ملے ہوئے تھے پھر ہم نے دونوں کو جدا کیا۔ اور ہم نے (پہلے) ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا ان کافروں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ زمین و آسمان آپس میں جڑے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو الگ کیا ہے اور ہر جاندار کو پانی سے قرار دیا ہے پھر کیا یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے
9 Tafsir Jalalayn
کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے ان کو جدا جدا کردیا ؟ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے ؟
آیت نمبر 30 تا 41
ترجمہ : کیا کافر یہ نہیں جانتے کہ آسمان اور زمین (منہ) بند تھے ؟ اَوَلَمْ میں واؤ اور ترک واؤ دونوں ہیں رَتَقًا بمعنی سَدًّا ہے اور سَدًّا بمعنی مَسْدُوْدًا ہے پھر ہم نھے ان کو کھول دیا یعنی سات آسمان اور سات زمین بنادیں یا فتق سماء کا مطلب یہ ہے کہ آسمان سے بارش نہیں ہوتی تھی پھر بارش ہونے لگی، اور فتق ارض کا مطلب یہ ہے کہ زمین اگاتی نہیں تھی پھر اگانے لگی اور ہم نے آسمان سے برسنے والے اور زمینی چشموں سے نکلنے والے پانی سے ہر جاندار کو بنایا گھاس وغیرہ کو لہٰذا پانی ہر جاندار کے لئے سبب حیات ہے پھر بھی میری توحید پر ایمان نہیں لاتے اور ہم نے زمین پر ثابت رہنے والے پہاڑ بنائے تاکہ وہ مخلوق کو لیکر (اضطرابی) حرکت نہ کرے اور ہم نے ان میں یعنی پہاڑوں میں کشادہ راستے بنا دئیے سُبُلاً ، فجاجًا سے بدل ہے یعنی آرپار کشادہ راستے تاکہ لوگ سفر کے دوران اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کرسکیں اور ہم نے آسمان کو زمین کے لئے گرنے سے محفوظ چھت بنادیا جیسا کہ گھر کی چھت ہوتی ہے اور یہ لوگ (آسمان میں موجود) شمس و قمر کی نشانیوں سے اعراض کئے ہوئے ہیں یعنی آسمان کی نشانیوں میں غور فکر نہیں کرتے تاکہ ان کو اس بات کی علم ہوجائے کہ اس کا خالق وہ ہے کہ جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور وہ وہ ذات ہے کہ اس نے رات اور دن اور سورج اور چاند بنائے کّلٌّ کی تنوین مضاف الیہ یعنی شمس و قمر کے عوض میں ہے اور مضاف الیہ کے تابع کے عوض میں ہے اور وہ نجوم ہیں ان میں سے یر ایک فلک میں یعنی چکی کے مانند اپنے آسمانی مدار میں تیر رہا ہے۔ یعنی تیزی سے چل رہا ہے جیسا کہ تیرنے والا پانی میں تیزی سے چلتا ہے اور تیرنے والے کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ سے یَسْبَحُوْنَ واو نون کے ساتھ جمع لائے ہیں جو کہ ذُوِالعقول کے لئے ہے اور جب کافروں نے یہ کہا کہ محمد عنقریب مرجائیں گے تو وَمَا جَعَلْنَا لبشرٍ مِن قبلِکَ الخُلد نازل ہوئی یعنی ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی بشر کو دوام یعنی دنیا میں دائمی بقا عطا نہیں کی، پس اگر آپ کا انتقال ہوجائے تو کیا یہ لوگ دنیا میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے ؟ نہیں، جملہ اخیرہ (یعنی فَاِن متّ ) ہمزہ استفہام انکاری کے محل میں ہے ہر جاندار کو دنیا میں موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تم کو پرکھنے کے لئے بری اور اچھی حالت مثلاً فقر اور غنا اور مرض اور صحت سے آزمائیں گے فتنۃً مفعول لہ ہے یعنی تاکہ ہم دیکھیں کہ تم صبر و شکر کرتے ہو یا نہیں، اور تم ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے تو ہم تم کو بدلہ دیں گے اور یہ کافر جب آپ کو دیکھتے ہیں تو بس آپ کا مذاق اڑانے لگتے ہیں یعنی آپ کا مذاق بناتے ہیں، اور آپس میں کہتے ہیں کہ کیا یہی صاحب ہیں وہ جو تمہارے معبودوں کا ذکر برائی سے کیا کرتے ہیں ؟ اور یہ لوگ رحمان کے ذکر کے منکر ہیں جبکہ ان لوگوں نے کہا ہم رحمٰن کو نہیں جانتے اور ان کے عذاب کو جلدی طلب کرنے کے بارے میں آیت خُلِقَ الانسان مِنْ عجلٍ نازل ہوئی یعنی انسان اپنے احوال کے بارے میں عجلت پسندی کی وجہ سے گویا کہ انسان عجلت (کے مادہ) سے بنا ہوا ہے، ہم عنقریب آپ کو اپنی نشانیاں یعنی میری عذاب کے وعدے دکھائے دیتے ہیں لہٰذا اس بارے میں مجھ سے جلدی مت کرو چناچہ ان کو بدر میں قتل کا عذاب دکھا دیا اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ وہ قیامت کا وعدہ کب آئے گا، اگر تم عذاب کے وعدے میں سچے ہو، کاش کافروں کو اس وقت کی خبر ہوتی کہ جب یہ کافر آگ کو نہ اپنے آگے سے روک سکیں دفع کرسکیں گے اور نہ پیچھے سے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی یعنی وہ قیامت کے دن عذاب سے نہیں بچائے جائیں گے اور لَوْ کا جواب ما قالوا ذٰلک ہے بلکہ قیامت ان کو ایک دم آلے گی سو ان کو بدحواس متحیر کر دے گی پھر نہ ان کو اس کے بٹانے کی قدرت ہوگی اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی یعنی توبہ یا عذر خواہی کی مہلت نہ دی جائے گی آپ سے پہلے جو پیغمبر گزر چکے ہیں ان کے ساتھ بھی تمسخر کیا گیا اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی ہے، سو ہنسی کرنے والوں کو ہی اس چیز نے گھیر لیا (نازل ہوگئی) جس کی وہ ہنسی اڑاتے تھے اور وہ عذاب ہے لہٰذا اسی طریقہ سے (عذاب) ان لوگوں کو بھی آگھیرے گا جو آپ کا مذاق اڑاتے ہیں۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : اَوَلَمْ یَرَ ہمزہ فعل محذوف پر داخل ہے اور واو عاطفہ کے ذریعہ یَرَ کا محذوف پر عطف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اَوَلَمْ یَتَفَکَرُوْا وَلَمْ یَعْلَمُوْا اَنَّ السَّمٰوٰت والَارْضِ کانَتَا رَتَقًا کانتا تثنیہ کا صیغہ ہے حالانکہ اس کی ضمیر سمٰوٰت والارض کی طرف راجع ہے جو کہ جمع ہیں لہٰذا مرجع اور ضمیر میں مطابقت نہیں ہے۔
جواب : دونوع یا دو جنس مراد ہیں، اس لئے آسمان ایک نوع ہے اور زمین دوسری نوع ہے اور رویتہ سے رویت قلبی مراد ہے، واو کے ساتھ اور ترک واو کے ساتھ دونوں قرأتیں ہیں، قولہ : رَتْقًا کانتَا کی خبر ہے مصدر ہونے کی وجہ سے مفرد استعمال ہوئی ہے، مبالغۃ حمل بھی درست ہے اور مضاف محذوف مان کر بھی حمل درست ہے ای ذوی رَتْقٍ ای کانتا شیئاً واحدًا مفسر علام نے بمعنی مسدودۃً مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ مصدر بمعنی اسم مفعول ہے رَتْقًا (ن) مصدر ہے منہ بند، ملا ہوا، جڑا ہوا، یہاں مصدر اسم مفعول یا اسم فاعل کے معنی میں ہے فَتْقًا (ن، ض) پھاڑنا، گھولنا، الگ کرنا۔ قولہ : وَجَعَلْنَا مِنَ المَاءِ کُلَّ شَئٍ حَئٍ اگر جَعَلَ بمعنی صَیَّرَ ہو تو متعدی بدو مفعول ہوگا، اور جار مجرور اپنے متعلق محذوف ناشِیًا یا متسببًا سے متعلق ہو کر مفعول ثانی مقدم ہوگا اور کُلَّ شَئٍ مفعول اول مؤخر ہوگا تقدیر عبارت یہ ہوگی وجَعَلْنَا نَاشِیًا من الماءِ کُلّ شئٍ حَیّ اور اگر جعل بمعنی خَلَقَ ہو تو متعدی بیک مفعول ہوگا اور وہ کل شئٍ ہے اور من الماء جار مجرور سے مل کر جعلنا کے متعلق ہے۔
قولہ : رَوَاسِیَ رواسِیَ جمع راسیَۃٍ اور اسی بمعنی راسخ وثابت اور مختار میں ہے کہ جبال ثابت کو بھی راسیۃ کہتے ہیں، رَسَا الشّئَ سے ماخوذ ہے جبکہ شئ ثابت اور مستقر ہوجائے، مفسر علام نے، لاَ ، مقدر مانا ہے تاکہ ان تمید بِھَا کا علت بننا صحیح ہوجائے، اس لئے پہاڑوں کا قیام عدم تحرک کے لئے فِجَاجًا دو پہاڑوں کے درمیان کشادہ راستہ فجاج کا واحد فَجَّ ہے جیسے سھام کا واحد سَھْمٌ ہے۔ قولہ : وللتشبیہ بہ اَتٰی بضمیر جمعٍ مَنْ یَعْقِل اس پوری عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے یَسْبَحُون کا فاعل شمس و قمر اور نجوم ہیں جو کہ غیر ذوالعقول ہیں ان کے لئے جمع مؤنث غائب کا صیغہ ہونا چاہیے نہ کہ جمع مذکر غائب کا اور واؤ نون کے ساتھ جمع تو ذوالعقول کی لائی جاتی ہے نہ کہ غیر ذوالعقول کی۔
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ شمس و قمر کی طرف یَسْبَحُوْنَ کی نسبت کی گئی ہے اور سَبْحٌ یعنی تیرنا ذوالعقول کا فعل ہے تو اس مناسبت سے یَسْبَحُون کو واؤ نون کے ساتھ لایا گیا ہے، عدم الخلد کو بشر کے ساتھ خاص کیا حالانکہ دیگر ذی روح بلکہ کائنات کی کسی شئ کے لئے خلود فی الدنیا نہیں ہے، جواب یہ ہے کہ ان کا سوال بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے موت کی توقع بشر ہونے کی حیثیت ہی سے تھی۔ قولہ : فالجملۃ الاخیرۃ محل الاستفھام الانکاری اس عبارت کا مقصد بھی ایک شبہ کا ازالہ ہے، شبہ یہ ہے کہ ہمزہ استفہام انکاری فاِن مُتَّ پر داخل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی موت کا بھی انکار ہے اور ان کے خلود کا بھی، حالانکہ مقصد ان کے خلود کا انکار ہے، جواب کا ماحصل یہ ہے کہ ہمزہ دراصل جملہ اخیرہ ہی پر داخل ہے مگر چونکہ ہمزہ صدارت کلام کو چاہتا ہے اس لئے اس کو جملہ کے شروع میں لایا گیا ہے ورنہ اصل تقدیر عبارت یہ ہے اَفَھم الخٰلِدُوْنَ اِن مُتَّ کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ المَوتِ نفس سے مراد نفس ناطقہ ہے اور موت سے مراد قوت حیوانیہ کا زوال اور روح کا جسد سے انفصال ہے اور ذائقہ سے مراد یہاں ادراک بالقوۃ الذائقۃ نہیں ہے اس لئے کہ موت مطعومات کے قبیل نہیں ہے بلکہ مطلقًا ادراک مراد ہے، اور ادراک سے بھی موت کے مبادیات موت مثلاً آلام وغیرہ کا ادراک مراد ہے اس لئے کہ موت کا ادراک دخول فی الجسد سے پہلے ممکن نہیں ہے اور دخول کے بعد انسان مردہ ہوجاتا ہے اس وقت ادراک ممکن نہیں رہتا۔
قولہ : فِتنَۃً اس کے منصوب ہونے کی تین وجہ ہوسکتی ہیں (1) نَبْلُوَکم کا مفعول لہ ہونے کی وجہ سے (2) مصدر موضع حال میں واقع ہونے کی وجہ سے ای نَبْلُوَکم قانتینَ (3) نبلوکم کا مفعول مطلق بغیر لفظہٖ ہونے کی وجہ، اس لئے کہ نَبْلُو اور فتنَۃٌ دونوں متحد المعنی ہیں وَاِذَا رَآکَ الَّذِیْنَ کفرُوْا اس جملہ کا عطف ماسبق میں وَاَسَرُّوْا النَّجْوٰی پر ہے، اور شرط ہے أھٰذَا الَّذِیْ یذکر آلھَتَکم اس کی جزاء ہے جزاء سے پہلے یقولون مقدر ہے اور ان یتخذونک اِلاَّ ھُزُوًا شرط وجزاء کے درمیان جملہ معترضہ ہے اور ھُزُوًّا مصدر مفعول کے معنی میں ہے وھُمْ بِذِکرِ الرحمٰن ھُمْ کافِرُوْنَ اول، ھم مبتدا ہے ثانی ھم اس کی تاکید ہے کافرون اس کی خبر ہے اور بذکر الرحمٰن، کافرون سے متعلق ہے تقدیر عبارت یہ ہے ھم کافرون بذکر الرحمٰن اور وھم بذکر الرحمٰن الخ جملہ حالیہ ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے، مفسر علیہ الرحمۃ نے لھُمْ کا اضافہ کرکے اس بات کی طرف اشارہ کردیا ذکر مصدر کی اضافت رحمٰن کی جانب یہ اضافت مصدر الی الفاعل ہے، اور بعض حضرات نے اضافت مصدر الی المفعول بھی کہا ہے اس وقت تقدیر عبارت و ذکرھم الرحمٰن بالتوحیدِ ہوگی (جمل) قولہ : خُلِقَ مِنْ عجلٍ ایسا ہی ہے جیسا کہ کہا جائے خُلِقَ مِنْ طِیْنٍ ہر انسان چونکہ فطرۃً ہر معاملہ میں جلد باز واقع ہوا ہے گویا کہ اس کی پیدائش عجلت کے خمیر سے ہے اسی لئے بطور مبالغہ خُلِقَ من عَجَل کہا گیا ہے۔ قولہ : لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ کفَرُوْا حِیْنَ لایَکُفُّوْنَ الآیۃ لو شرطیہ ہے اور جواب محذوف ہے جیسا کہ مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے ای لَوْ یعلم ما قالوا ذٰلک (ای متی ھٰذا الوعد) اور قولہ : حِینَ یعلم کا مفعول بہ ہے نہ ظرف، ترجمہ یہ ہوگا اگر یہ کافر اس وقت کو جان لیں کہ جب یہ عذاب دفع نہ کرسکیں گے۔ قولہ : ماکانوا بہ حَاقَ کا فاعل ہے اور ھو العذاب میں ھو کا مرجع ما ہے۔
تفسیر و تشریح
اولم یر الذین کفروا اس جگہ رویت سے مطلقاً علم مراد ہے خواہ وہ آنکھوں سے حاصل ہو یا استدلال اور عقل سے، اس لئے کہ آئندہ جو مضمون آرہا ہے اسمیں سے کچھ کا تعلق مشاہدہ سے ہے اور کچھ کا علم استدلالی سے، اس آیت میں رتق اور فتقَ کے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں، رتق کے معنی بند ہونے اور فتق کے معنی کھول دینے کے ہیں ان کے مجموعہ کو رتق و فتق کہتے ہیں، اس کا ایک مفہوم کسی کام کے انتظام اور اس کے پورے اختیار کے ہیں، رتق و فتق یعنی حل و عقد کا مختار ہونا، آیت کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے آسمان اور زمین بند تھے ہم نے ان کو کھول دیا، کھولنے اور بند ہونے سے کیا مراد ہے ؟ اس کی مراد میں مفسرین نے مختلف اقوال نقل کئے ہیں جمہور صحابہ اور جموہر مفسرین نے آسمان کے بند ہونے سے بارش کا نہ ہونا اور زمین کے بند ہونے سے پیداوار کا بند ہونا مراد لیا ہے اور کھولنے سے ان دونوں کا جاری ہونا مراد لیا ہے۔ بعض مفسرین نے رتق اور فتق کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ ابتداء میں زمین و آسمان ایک تھے دونوں باہم ملے ہوئے تھے ہم نے دونوں کو الگ کردیا، علامہ شبیر احمد عثمانی نے مذکورہ دونوں تفسیروں کو بڑی خوبی سے جمع کردیا ہے، فرماتے ہیں کہ رتق کے اصل معنی ملنے اور ایک دوسرے میں گھسنے کے ہیں ابتداءً زمین و آسمان دونوں ظلمت عدم میں ایک دوسرے سے غیر متمیز پڑے تھے پھر وجود کے ابتدائی مراحل میں دونوں خلط ملط رہے، بعدہٗ قدرت کے ہاتھ نے دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا اس تمیز کے بعد ہر ایک کے طبقات الگ الگ بنے اس پر بھی منہ بند تھے، نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی اور نہ زمین سے روئیدگی آخر خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے دونوں کے منہ کھول دئیے اوپر سے پانی کا دہانہ کھلا، نیچے سے زمین کے مسام کھل گئے اسی زمین سے حق تعالیٰ نے نہریں اور کانیں اور طرح طرح کے سبزے نکالے آسمان کو بیشمار ستاروں سے آراستہ کیا جن میں سے ہر ایک کا مدار اور چال جدا جدا ہیں، وَجَعَلنَا منَ الماءِ کل شئ حیّ اس جملہ سے پہلی تفسیر کا راجح ہونا معلوم ہوتا ہے، بحر محیط میں اسی کو اختیار کیا ہے، ہر جاندار کی تخلیق میں پانی کا دخل ضرور ہے، اور جاندار اور ذی روح اہل تحقیق کے نزدیک صرف حیوانات ہی نہیں ہیں بلکہ نباتات بلکہ جمادات میں بھی روح محققین کے نزدیک ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ پانی کو ان سب چیزوں کی تخلیق و ارتقاء میں بڑا دخل ہے۔
زمین کو جب ابتداءً پیدا کیا گیا تو اس میں اضطرابی حرکت تھی قرآن میں اس کے لئے تمید کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، مَیْدٌ عربی میں اضطرابی حرکت کو کہتے ہیں، آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر پہاڑوں کا بوجھ اس کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ڈال دیا ہے تاکہ اس کی لرزش اور اضطرابی حرکت موقوف ہوجائے اور حیوانوں کے لئے رہنے اور بسنے کے قابل ہوجائے۔ (مزید تفصیل کے لئے تفسیر کبیر کی طرف رجوع کریں)
کُلٌّ فی فَلَکٍ یَّسْبَحونَ فلک دراصل ہر دائرے اور گول چیز کو کہا جاتا ہے اسی وجہ سے چرغ میں جو گول چمڑا لگا رہتا ہے اس کو فلکۃ المِغزل کہتے ہیں (روح) اسی مناسبت سے آسمان کو فلک کہتے ہیں، یہاں شمس و قمر کے مدار مراد ہیں جن پر وہ حرکت کرتے ہیں، الفاظ قرآن میں اس کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ مدار آسمان کے اندر ہیں یا باہر فضاء میں، حالیہ تحقیقات نے واضح کردیا ہے کہ یہ مدار خلا میں آسمان سے بہت نیچے ہیں، تمام سیارے اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔
وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد سابقہ آیات میں کفار و مشرکین کے باطل دعو وں اور مشرکانہ عقیدوں کی جن میں حضرت مسیح و عزیز وغیرہ کو خدا کا شریک یا فرشتوں اور مسیح کو خدا کی اولاد کہا گیا ان گمراہ کن عقائد کی تردید واضح دلائل کے ساتھ آئی ہے جس کا مخالفین کے پاس کوئی جواب نہ تھا ایسے موقعہ پر جب مخالف حجت اور دلیل سے مغلوب ہوجاتا ہے تو جھنجلاہٹ میں بےتکی اور بےجوڑ باتیں کرنے لگتا ہے، اسی کا نتیجہ تھا کہ مشرکین مکہ اس کی تمنا کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جلد وفات ہوجائے جیسا کہ بعض روایات میں ہے، قرآن عزیز نے بھی ان کے اس مقولہ کو ذکر کیا ہے جس میں انہوں نے آپ کی موت کی تمنا اور خواہش کا اظہار کیا ہے، مذکورہ آیت میں حق تعالیٰ نے ان کی اس بیہودی تمنا اور آرزو کے دو جواب دئے ہیں وہ یہ کہ اگر ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جلد ہی وفات ہوگئی تو تمہیں کیا فائدہ پہنچے گا ؟ اگر تمہارا مقصد یہ ہے کہ جب ان کی موت ہوجائے گی تو ہم لوگوں کو بتلائیں گے کہ یہ نبی اور رسول نہیں تھے ورنہ تو موت نہ آتی تو اس کا یہ جواب دیا کہ جن انبیاء کی نبوت کو تم بھی مانتے ہو کیا ان کو موت نہیں آئی ؟ جب ان کی موت سے ان کی نبوت اور رسالت میں کوئی فرق نہیں آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت سے آپ کی نبوت کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ کیسے کیا جاسکتا ہے ؟ اور اگر تمہارا مقصد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنا ہے تو یاد رکھو کہ موت کا یہ مرحلہ تمہیں بھی درپیش ہے آخر تمہیں بھی مرنا ہے پھر کسی کی موت سے خوش ہونے کے لیا معنی ؟ ؎
گر بمرد جائے شادمانی نیست
زندگانی ما نیز جاودانی نیست (سعدی)
کل نفس ذائقۃ الموت یعنی ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے، یہاں ہر نفس سے نفوس ارضیہ مراد ہیں یعنی زمینی جانداروں کو موت آنا لازمی ہے، نفوس ملائکہ اس میں داخل نہیں ہیں، قیامت کے دن فرشتوں کو بھی موت آئے گی یا نہیں اس میں اختلاف ہے، بعض حضرات نے فرمایا کہ ایک لحظہ کے لئے تو سب پر موت طاری ہوجائے گی خواہ انسان اور نفوس ارضیہ ہوں یا فرشتے اور نفوس سماویہ، بعض مفسرین نے کہا ہے فرشتے اور جنت کے حوروغلمان مستثنیٰ ہیں۔ (روح المعانی)
ذائقۃ الموت سے اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ ہر نفس موت کی خاص تکلیف محسوس کرے گا کیونکہ مزہ چکھنے کا محاورہ ایسے ہی موقعہ پر استعمال ہوتا ہے۔
ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃً یعنی خیر و شر کے ذریعہ ہم انسان کی آزمائش کرتے ہیں، شر سے مراد ہر خلاف طبع چیز ہے، جیسے بیماری رنج و غم اور فقر و فاقہ اور خیر سے اس کے بالمقابل ہر مرغوب طبع چیز ہے جیسے صحت و عافیت خوشی و راحت مذکورہ دونوں قسم کی چیزیں اس دنیا میں آزمائش کیلئے دی جاتی ہے یعنی اس بات کی آزمائش کرنا ہوتا ہے کہ خلاف طبع امور پر صبر کرکے اس کا حق ادا کرتا ہے یا نہیں اسی طرح مرغوب خاطر چیزوں پر شکر کرکے اس کا حق ادا کرتا ہے یا نہیں۔
خلق الانسان من عجل الخ یہ کفار کے مطالبہ عذاب کے جواب میں ہے، مطلب یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میں جس طرح کچھ کمزوریاں ہیں ان میں سے ایک کمزوری عجلت کی بھی ہے اور جو چیز طبیعت اور جبلت میں داخل ہوتی ہے عرب اس کو اسی عنوان سے تعبیر کرتے ہیں یعنی یہ شخص اس چیز سے پیدا کیا گیا ہے جیسے اگر کسی کے مزاج میں غصہ غالب ہو تو کہا جائے گا کہ یہ غصہ کا بنا ہوا آدمی ہے، چناچہ کفار کی جلد بازی کا نتیجہ غزوۂ بدر وغیرہ میں کفار کو کھلی آنکھوں دکھا دیا۔
10 Tafsir as-Saadi
کیا ان لوگوں نے۔۔۔۔ جنہوں نے اپنے رب سے کفر کیا اور عبودیت کو اس کے لئے خالص کرنے سے انکار کیا۔۔۔۔ ان نشانیوں کو نہیں دیکھا جو عیاں طور پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی رب محمود و کریم اور معبود۔ وہ زمین و آسمان کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ ان کو ایک دوسرے سے جڑا ہوا پاتے ہیں، آسمان میں کوئی بادل ہوتا ہے نہ بارش، زمین مردہ، بے آب وگیاہ اور بنجر دکھائی دیتی ہے، پھر ہم دونوں کو جدا کردیتے ہیں، آسمان کو پانی کے ذریعے سے اور زمین کو نباتات کے ذریعے سے۔
کیا وہ ہستی جو آسمان پر بادل وجود میں لائی تھی جبکہ آسمان بالکل صاف تھا کہیں بادل کا ٹکڑا نہیں آتا تھا، پھر اس نے اس میں بہت سا پانی ودیعت کیا، پھر وہ ہستی اس بادل کو ایک ایسی مردہ زمین پر لے گئی جہاں پانی کی نایابی کی وجہ سے اس کے کناروں تک خاک اڑتی تھی۔ پس اس نے اس مردہ زمین میں بارش برسائی اور وہ لہلہا اٹھی، حرکت کرنے اور بڑھنے لگی اور اس نے مختلف انواع اور متعدد فوائد کی خوشنما نباتات اگائی۔ کیا یہ سب کچھ اس بات کی دلیل نہیں کہ صرف وہی حق ہے اور اس کے سوا سب باطل ہے، وہی مردوں کو زندہ کرے گا، وہی رحمن و رحیم ہے؟ اس لئے فرمایا ﴿ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ﴾ یعنی کیا وہ صحیح طور پر ایمان نہیں لاتے جس میں کوئی شک ہو نہ شرک۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دلائل آفاقی شمار کرتے ہوئے فرمایا :
11 Mufti Taqi Usmani
jinn logon ney kufr apna liya hai , kiya unhen yeh maloom nahi hai kay saray aasman aur zameen band thay , phir hum ney unhen khol diya , aur paani say her jandaar cheez peda ki hai ? kiya phir bhi yeh emaan nahi layen gay-?
12 Tafsir Ibn Kathir
زبردست غالب
اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ اس کی قدرت پوری ہے اور اس کا غلبہ زبردست ہے۔ فرماتا ہے کہ جو کافر اللہ کے سوا اوروں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں کیا انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ تمام مخلوق کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور سب چیز کا نگہبان بھی وہی ہے پھر اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت تم کیوں کرتے ہو ؟ ابتدا میں زمین و آسمان ملے جلے ایک دوسرے سے پیوست تہ بہ تہ تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں الگ الگ کیا زمینیں پیدا کیں اور سات ہی آسمان بنائے۔ زمین اور پہلے آسمان کے درمیان جوف اور خلا رکھا۔ آسمان سے پانی برسایا اور زمین سے پیداوار اگائی۔ ہر زندہ چیز پانی سے پیدا کی۔ کیا یہ تمام چیزیں جن میں سے ہر ایک صانع کی خود مختاری، قدرت اور وحدت پر دلالت کرتی ہے اپنے سامنے موجود پاتے ہوئے بھی یہ لوگ اللہ کی عظمت کے قائل ہو کر شرک کو نہیں چھوڑتے ؟
ففی کل شئلہ ایتہ تدل علی انہ واحد
یعنی ہر چیز میں اللہ کی حکمرانی اور اس کی وحدانیت کا نشان موجود ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے سوال ہوا کہ پہلے رات تھی یا دن ؟ تو آپ نے فرمایا کہ پہلے زمین و آسمان ملے جلے تہ بہ تہ تھے تو ظاہر ہے کہ ان میں اندھیرا ہوگا اور اندھیرے کا نام ہی رات ہے تو ثابت ہوا کہ رات پہلے تھی۔ ابن عمر (رض) سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا تم حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کرو اور جو وہ جواب دیں مجھ سے بھی کہو، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا زمین و آسمان سب ایک ساتھ تھے، نہ بارش برستی تھی، نہ پیداوار اگتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذی روح مخلوق پیدا کی تو آسمان کو پھاڑ کر اس سے پانی برسایا اور زمین کو چیر کر اس میں پیداوار اگائی۔ جب سائل نے حضرت ابن عمر (رض) سے یہ جواب بیان کیا تو آپ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے آج مجھے اور بھی یقین ہوگیا کہ قرآن کے علم میں حضرت عبداللہ (رض) بہت ہی بڑھے ہوئے ہیں۔ میرے جی میں کبھی خیال آتا تھا کہ ایسا تو نہیں ابن عباس (رض) کی جرات بڑھ گئی ہو ؟ لیکن آج وہ وسوسہ دل سے جاتا رہا۔ آسمان کو پھاڑ کر سات آسمان بنائے۔ زمین کے مجموعے کو چیر کر سات زمینیں بنائیں۔ مجاہد (رح) کی تفسیر میں یہ بھی ہے کہ یہ ملے ہوئے تھے یعنی پہلے ساتوں آسمان ایک ساتھ تھے اور اسی طرح ساتوں زمینیں بھی ملی ہوئی تھیں پھر جدا جدا کردی گئیں۔ حضرت سعید (رح) کی تفسیر ہے کہ یہ دونوں پہلے ایک ہی تھے پھر الگ الگ کردیئے گئے۔ زمین و آسمان کے درمیان خلا رکھ دی گئی پانی کو تمام جانداروں کی اصل بنادیا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب میں آپ کو دیکھتا ہوں میرا جی خوش ہوجاتا ہے اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں آپ ہمیں تمام چیزوں کی اصلیت سے خبردار کردیں۔ آپ نے فرمایا ابوہریرہ تمام چیزیں پانی سے پیدا کی گئی ہیں۔ اور روایت میں ہے کہ پھر میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں ؟ آپ نے فرمایا لوگوں کو سلام کیا کرو اور کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کرتے رہو اور رات کو جب لوگ سوتے ہوئے ہوں تو تم تہجد کی نماز پڑھا کرو تاکہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ۔ زمین کو جناب باری عزوجل نے پہاڑوں کی میخوں سے مضبوط کردیا تاکہ وہ ہل جل کر لوگوں کو پریشان نہ کرے مخلوق کو زلزلے میں نہ ڈالے۔ زمین کی تین چوتھائیاں تو پانی میں ہیں اور صرف چوتھائی حصہ سورج اور ہوا کے لئے کھلا ہوا ہے۔ تاکہ آسمان کو اور اس کے عجائبات کو بچشم خود ملاحظہ کرسکیں۔ پھر زمین میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کاملہ سے راہیں بنادیں کہ لوگ باآسانی اپنے سفر طے کرسکیں اور دور دراز ملکوں میں بھی پہنچ سکیں۔ شان الٰہی دیکھئے اس حصے اور اس کے ٹکڑے کے درمیان بلند پہاڑی حائل ہے یہاں سے وہاں پہنچنا بظاہر سخت دشوار معلوم ہوتا ہے لیکن قدرت الہٰی خود اس پہاڑ میں راستہ بنادیتی ہے کہ یہاں کے لوگ وہاں اور وہاں کے یہاں پہنچ جائیں اور اپنے کام کاج پورے کرلیں۔ آسمان کو زمین پر مثل قبے کے بنادیا جیسے فرمان ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم وسعت اور کشادگی والے ہیں فرماتا ہے قسم آسمان کی اور اس کی بناوٹ کی۔ ارشاد ہے کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے سروں پر آسمان کو کس کیفیت کا بنایا ہے اور کس طرح زینت دے رکھی ہے اور لطف یہ ہے کہ اتنے بڑے آسمان میں کوئی سوارخ تک نہیں۔ بنا کہتے ہیں قبے یا خیمے کے کھڑا کرنے کو جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اسلام کی بنائیں پانچ ہیں جیسے پانچ ستون پر کوئی قبہ یا خیمہ کھڑا ہوا ہو۔ پھر آسمان جو مثل چھت کے ہے۔ یہ ہے بھی محفوظ بلند پہرے چوکی والا کہ کہیں سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ بلندوبالا اونچا اور صاف ہے جیسے حدیث میں ہے کہ کسی شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ یہ آسمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا رکی ہوئی موج ہے۔ یہ روایت سنداً غریب ہے لیکن لوگ اللہ کی ان زبردست نشانیوں سے بھی بےپرواہ ہیں۔ جیسے فرمان ہے آسمان و زمین کی بہت سی نشانیاں ہیں جو لوگوں کی نگاہوں تلے ہیں لیکن پھر بھی وہ ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ کوئی غور و فکر ہی نہیں کرتے کبھی نہیں سوچتے کہ کتنا پھیلا ہوا کتنا بلند کس قدر عظیم الشان یہ آسمان ہمارے سروں پر بغیر ستون کے اللہ تعالیٰ نے قائم کر رکھا ہے۔ پھر اس میں کس خوبصورتی سے ستاروں کا جڑاؤ ہو رہا ہے۔ ان میں بھی کوئی ٹھیرا ہوا ہے کوئی چلتا پھرتا ہے۔ پھر سورج کی چال مقرر ہے۔ اس کی موجودگی دن ہے اس کا نظر نہ آنا رات ہے۔ پورے آسمان کا چکر صرف ایک دن رات میں سورج پورا کرلیتا ہے۔ اس کی چال کو اس کی تیزی کو بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔ یوں قیاس آرائیاں اور اندازے کرنا اور بات ہے۔ بنی اسرائیل کے عابدوں میں سے ایک نے اپنی تیس سال کی مدت عبادت پوری کرلی مگر جس طرح اور عابدوں پر تیس سال کی عبادت کے بعد ابر کا سایہ ہوجایا کرتا تھا اس پر نہ ہوا تو اس نے اپنی والدہ سے یہ حال بیان کیا۔ اس نے کہا بیٹے تم نے اپنی اس عبادت کے زمانے میں کوئی گناہ کرلیا ہوگا ؟ اس نے کہا اماں ایک بھی نہیں۔ کہا پھر تم نے کسی گناہ کا پورا قصد کیا ہوگا جواب دیا کہ ایسا بھی مطلقا نہیں ہوا۔ ماں نے کہا بہت ممکن ہے کہ تم نے آسمان کی طرف نظر کی ہو اور غور وتدبر کے بغیر ہی ہٹالی ہو۔ عابد نے جواب دیا ایسا تو برابر ہوتا رہا فرمایا بس یہی سبب ہے۔ پھر اپنی قدرت کاملہ کی بعض نشانیاں بیان فرماتا ہے کہ رات اور اس کے اندھیرے کو دیکھو، دن اور اس کی روشنی پر نظر ڈالو، پھر ایک کے بعد دوسرے کا بڑھنا دیکھو، سورج چاند کو دیکھو۔ سورج کا نور ایک مخصوص نور ہے اور اس کا آسمان اس کا زمانہ اس کی حرکت اس کی چال علیحدہ ہے۔ چاند کا نور الگ ہے، فلک الگ ہے، چال الگ ہے، انداز اور ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے فلک میں گویا تیرتا پھرتا ہے اور حکم الٰہی کی بجا آوری میں مشغول ہے۔ جیسے فرمان ہے وہی صبح کا روشن کرنے والا ہے وہی رات کو پرسکون بنانے والا ہے۔ وہی سورج چاند کا انداز مقرر کرنے والا ہے۔ وہی ذی عزت غلبے والا اور ذی علم علم والا ہے۔