الانبیاء آية ۴۲
قُلْ مَنْ يَّكْلَـؤُكُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِۗ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ
طاہر القادری:
فرما دیجئے: شب و روز (خدائے) رحمان (کے عذاب) سے تمہاری حفاظت و نگہبانی کون کر سکتا ہے، بلکہ وہ اپنے (اسی) رب کے ذکر سے گریزاں ہے،
English Sahih:
Say, "Who can protect you at night or by day from the Most Merciful?" But they are, from the remembrance of their Lord, turning away.
1 Abul A'ala Maududi
اے محمدؐ، اِن سے کہو، "کون ہے جو رات کو یا دن کو تمہیں رحمان سے بچا سکتا ہو؟" مگر یہ اپنے رب کی نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ شبانہ روز تمہاری کون نگہبانی کرتا ہے رحمان سے بلکہ وہ اپنے رب کی یاد سے منہ پھیرے ہیں
3 Ahmed Ali
کہہ دو تمہاری رات اور دن میں رحمان سے کون نگہبانی کرتا ہے بلکہ وہ اپنے رب کے ذکر سے منہ موڑنے والے ہیں
4 Ahsanul Bayan
ان سے پوچھئے کہ رحمٰن کے سوا، دن اور رات تمہاری حفاظت کون کر سکتا ہے؟ (١) بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے رب کے شکر سے پھرے ہوئے ہیں۔
٤٢۔١ یعنی تمہارے جو کرتوت ہیں، وہ تو ایسے ہیں کہ دن یا رات کی کسی گھڑی میں تم پر عذاب آسکتا ہے؟ اس عذاب سے دن اور رات تمہاری کون حفاطت کرتا ہے؟ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی اور ہے جو عذاب الٰہی سے تمہاری حفاظت کر سکے؟
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہو کہ رات اور دن میں خدا سے تمہاری کون حفاظت کرسکتا ہے؟ بات یہ ہے کہ اپنے پروردگار کی یاد سے منہ پھیرے ہوئے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
ان سے پوچھئے کہ رحمٰن سے، دن اور رات تمہاری حفاﻇت کون کر سکتا ہے؟ بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے رب کے ذکر سے پھرے ہوئے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) کہہ دیجئے! کون ہے جو رات میں یا دن میں خدائے رحمن (کے عذاب) سے تمہاری حفاظت کر سکتا ہے؟ بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے ذکر سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آپ ان سے کہہ دیجئے کہ انہیں رات یا دن میں رحمان کے عذاب سے بچانے کے لئے کون پہرہ دے سکتا ہے مگر یہ ہیں کہ رحمان کی یاد سے مسلسل منہ موڑے ہوئے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
کہو کہ رات اور دن میں خدا سے تمہاری کون حفاظت کرسکتا ہے ؟ بات یہ ہے کہ یہ اپنے پروردگار کی یاد سے منہ پھیرے ہوئے ہیں
آیت نمبر 42 تا 50
ترجمہ : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان تمسخر کرنے والوں سے کہئے رحمان کے عذاب سے رات اور دن کون ہے جو تمہاری نگرانی حفاظت کرتا ہے اگر تم پر عذاب نازل ہونے لگے (اللہ کے سوا) ایسا کوئی نہیں کرتا، اور یہ مخاطبین عذاب الٰہی سے نہیں ڈرتے اس عذاب کے منکر ہونے کی وجہ سے بلکہ یہ لوگ اپنے رب کے ذکر یعنی قرآنی سے اعراض کرتے ہیں یعنی اس میں غور و فکر نہیں کرتے اَمْ اس میں ہمزہ معنی انکاری کے لئے ہے کیا ان کے پاس ہمارے علاوہ ایسے معبود ہیں جو ان کو (ان کی تکلیف) عذاب سے بچا سکیں ؟ یعنی کیا ان کے پاس ہمارے علاوہ کوئی ایسی ذات ہے جو ان کو عذاب سے بچا سکے کوئی نہیں وہ معبود ان (باطلہ) خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتے تو وہ ان کی کیا حفاظت کرسکیں گے اور نہ وہ کفار ہمارے عذاب سے بچائے جائیں گے صَحِبَک اللہ بولا جاتا ہے یعنی اللہ تیری حفاظت کرے اور تجھ کو (آفات) سے بچائے ہم نے ان کو اور ان کے اباء و اجداد کو ان پر اپنی نعمتوں کے ذریعہ خوب سازوسامان عطا کئے یہاں تک کہ (اسی حالت) میں ان پر زمانہ دراز گزر گیا چناچہ اسی وجہ سے وہ دھوکے میں پڑگئے کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم ان کی زمین کا قصد کر رہے ہیں یعنی (ان کی) زمین کو چاروں طرف سے گھٹاتے چلے جا رہے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غلبہ عطا کرکے سو کیا یہ لوگ غالب آئیں گے نہیں بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب (ہی غالب رہیں گے) آپ ان سے کہہ دیجئے میں تو تم کو اللہ کی جانب سے نہ کہ اپنی جانب سے وحی کے ذریعہ آگاہ کرتا ہوں اور یہ بہرے بات نہیں سنتے جب ان کو آگاہ کیا جاتا ہے دونوں ہمزوں کو محقق کرکے اور ثانی ہمزہ کی تسہیل کے ساتھ ہمزہ اوری کے درمیان یعنی بہرے کے مانند سنہ ہوئی تنبیہ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے (گویا کہ حقیقت میں یہ بہرے ہیں) اگر ان کو تیرے رب کے عذاب کا ایک ہلکا سا جھونکا لگ جائے تو پکار اٹھیں ہائے ہماری کمبختی یعنی ہماری ہلاکت واقعی ہم شرک اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی وجہ سے خطا وار تھے اور ہم قیامت کے دن درست میزان عدل قائم کریں گے تو کسی پر اصلا ظلم نہ کیا جائے گا نیکیوں کو کم کرکے یا گناہوں میں اضافہ کرکے اور اگر عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو تو بھی ہم اس کو یعنی موزون کو حاضر کردیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب لینے والے کافی ہیں اور یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہم نے موسیٰ اور ہارون کو تورات فرقان یعنی تورات حق و باطل اور حلال و حرام کے درمیان فرق کرنے والی اور ان پرہیز گاروں کے لئے نصیحت کی کتاب عطا فرمائی جو اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور وہ لوگ قیامت یعنی اس کی ہولناکیوں سے بھی ڈرتے ہیں اور یہ قرآن بھی کثیر الفائدہ نصیحت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے پھر بھی تم اس کے منکر ہو ؟ اس میں استفہام توبیخ کیلئے ہے۔
تحقیق، ترکیب تفسیر فوائد
یَکْلَئُکُمْ (ف، س) مضارع واحد مذکر غائب مصدر کَلْأٌ کِلَأ کِلَاءَۃً حفاظت کرنا آلِھَۃٌ تَمْنَعُھُمْ مِنْ دُوْنِنَا مِنْ دونِنا، آلِھۃ کی صفت ہے کلام میں تقدیم و تاخیر ہے، تقدیر عبارت یہ ہے آلِھَۃٌ مِنْ دُوْنِنَا تَمْنَعُھُمْ ۔ قولہ : مِمّا یَسُوھم ان چیزوں سے جو ان کو تکلیف پہنچائیں لایُصْحَبُوْنَ (س) جمع مذکر غائب منفی مجہول، ان کا ساتھ نہیں دیا جائے گا، وہ بچائے نہیں جائیں گے۔ قولہ : الموازِیْنَ الق، سطَ موازین کو جمع، بیان عظمت کے لئے لائے ہیں ورنہ میزان ایک ہی ہوگی یا مایوزَنُ کے اعتبار سے جمع لائی گئی ہے یعنی چونکہ اعمال کثیرہ اور اعمال کے انواع کثیرہ تولے جائیں گے اس لئے جمع لایا گیا ہے قسط کو مفرد لایا گیا ہے حالانکہ موازین کی صفت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ القسط مصدر ہے اور مصدر کا اطلاق واحد اور جمع سب پر یکساں ہوتا ہے، مفسر علام نے لیوم القیامۃ کی تفسیر فیہ سے کرکے اشارہ کردیا کہ لام بمعنی فی ہے۔ قولہ : شیئاً یا مفعول ثانی ہے یا تظلم کے مفعول مطلق کی صفت ہے ای لاتظلم ظلمًا شیئًا۔ قولہ : واِن کان کے بعد العملُ کو مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ کان ناقصہ ہے اس کے اندر ضمیر ہے جو کان کا اسم ہے اور وہ عمل ہے اور مثقالَ اس کی خبر ہے اور نافع نے مثقالُ رفع کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں کان تامہ ہوگا۔ قولہ : بالغیبِ یخشَون کی ضمیر سے حال ہے ای یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ غائبین عن الناس یعنی جب وہ تنہائی میں ہوتے ہیں تو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں مِنَ الساعۃ کے بعد اَھْوَالِھَا مقدر
مان کر اشارہ کردیا کہ مضاف محذوف ہے اور قیامت سے ڈرنے کا مطلب اس کی ہولناکی سے ڈرنا ہے۔
تفسیر و تشریح
قل من یکلئکم الخ یعنی تمہارے جو کرتوت ہیں وہ تو ایسے ہیں کہ دن رات کی کسی بھی گھڑی میں تم پر عذاب آسکتا ہے، اس عذاب سے رات دن تمہاری کون حفاظت کرتا ہے ؟ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی اور ہے جو عذاب الٰہی سے تمہاری حفاظت کرسکے ؟ وَلاَ ھُمْ مِنّا یُصْحَبُوْنَ کے معنی ہیں ولاھم یُجَارُوْنَ من عذَابِنَا نہ وہ خود ہی ہمارے عذاب سے محفوظ ہیں، یعنی وہ خود اپنی مدد پر اور عذاب الٰہی سے بچنے پر قادر نہیں ہیں، پھر ان کی طرف سے ان کی مدد کیا ہوسکتی ہے اور وہ انہیں عذاب سے کس طرح بچا سکتے ہیں۔
بل متعناھم الخ یعنی ان کی کلاءت اور حفاظت اور بتوں کا عجز اور بیچارگی ایسی چیز نہیں کہ جس کو یہ لوگ سمجھ نہ سکیں اصل بات یہ ہے کہ پشتہا پشت سے یہ لوگ بےفکری کی زندگی گزار رہے ہیں کوئی جھٹکا عذاب الٰہی کا نہیں لگا جس کی وجہ سے مغرور اور غفلت کے نشہ میں چور ہو کر حق تعالیٰ کے پیغام اور پیغمبروں کی نصیحت قبول کرنے سے منہ موڑ لیا ہے افَلاَ یَرَوْنَ یعنی عرب میں اسلام پھیلنے لگا ہے اور کفر گھٹنے لگا ہے آہستہ آہستہ وہاں کی زمین کافروں پر تنگ ہوتی جا رہی ہے ان کی حکومتیں اور سرداریاں ٹوٹتی جا رہی ہیں، کیا ایسے کھلے ہوئے آثار و قرائن دیکھ کر بھی انہیں اپنا انجام نظر نہیں آتا، کیا ان مشاہدات کے باوجود اس کے امیدوار ہیں کہ پیغمبر (علیہ السلام) اور مسلمانوں پر غالب ہوں گے، اگر چشم عبرت ہے تو چاہیے کہ عقل سے کام لیں اور قرائن و احوال سے مستقبل کا اندازہ کریں، کیا ان کو معلوم نہیں کہ ان کے گردوپیش کی بستیاں انبیاء کی تکذیب و عداوت کی سزا میں تباہ کی جا چکی ہیں وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا مَا حولَکُمْ مِنَ القُریٰ وَصَرَّفْنَا الآیَاتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ قُلْ اُنْذِرُکُمْ الخ یعنی ہمارا کام وحی الٰہی کے موافق نصیحت سنا دینا اور انجام سے آگاہ کردینا ہے، دل کے بہرے اگر اس پکار کو نہ سنیں تو ہمارا قصور نہیں وہ خود اپنے بہرے پن کا خمیازہ بھگتیں گے وَلَئِنْ مَّسَّتْھُمْ الخ یعنی یہ لوگ جو بہرے بنے ہوئے ہیں صرف اس وقت تک ہے کہ ذرا زور سے کھٹکھٹائے نہ جائیں اگر عذاب الٰہی کی ذرا سئ بھنک ان کے کان میں پڑگئی یا خڈا کے قہر و انتقام کی ادنیٰ سی بھاپ ان کو چھوگئی تو آنکھ کان سب کھل جائیں گے اس وقت بدحواس ہو کر چلائیں گے کہ بیشک ہم بھاری مجرم تھے جو ایسی کمبختی آئی۔
ونضع الموازین القسط الخ یعنی رائی کے دانہ کے برابر بھی کسی کا عمل ہو عدل و انصاف کی ترازو میں تلے گا ادھر ادھر ضائع نہ ہوگا، نہ کسی پر ظلم زیادتی کی جائے گی، رتی رتی کا حساب ہوگا (تنبیہ) موازین میزان کی جمع ہے ہوسکتا ہے کہ بہت سی ترازو ہوں جو مختلف قسم کے اعمال کو تولنے کے لئے الگ الگ قسم کی ہوں جیسا کہ دنیا میں ہر چیز کو تولنے اور ناپنے کی الگ قسم کی ترازو ہوتی ہے، سیال اشیاء کے لئے الگ اور جامد کے لئے الگ پھر سیال میں بھی مختلف چیزوں کے لئے الگ الگ ترازو ہوتی ہیں، یا ایک ہی ترازو ہو مگر مختلف قسم کے اعمال کو تولنے کا کام دے اس وجہ سے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہو کفیٰ بِنَا حَاسِبِیْنَ کا مطلب ہے کہ ہمارا حساب آخری اور فیصلہ کن ہوگا جس کے بعد کوئی دوسرا حساب لینے والا نہیں ہوگا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کی بے بسی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے جنہوں نے اللہ کے بغیر دوسرے معبود بنا لئے۔۔۔ کہ وہ اپنے رب رحمان کے محتاج ہیں جس کی بے پایاں رحمت شب و روز ہر نیک اور بد پر سایہ کناں ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿قُلْ مَن يَكْلَؤُكُم﴾ یعنی کون تمہاری حفاظت کرتا ہے ﴿ بِاللَّيْلِ﴾ ” رات کو۔“ یعنی جب تم اپنے بستروں میں سو رہے اور اپنے حواس سے محروم ہوتے ہو ﴿وَالنَّهَارِ﴾ ” اور دن کو۔“ یعنی تمہارے زمین میں پھیل جانے اور تمہاری غفلت کے وقت ﴿مِنَ الرَّحْمَـٰنِ﴾ ” رحمن کے مقابلے میں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کون تمہاری حفاظت کرتا ہے اس کے بغیر کوئی ہے جو تمہاری حفاظت کرتا ہو؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی تمہاری حفاظت کرنیوالا نہیں۔
﴿ بَلْ هُمْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِم مُّعْرِضُونَ﴾ ” بلکہ وہ اپنے رب کے ذکر سے اعراض کرنے والے ہیں۔“ اسی لئے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کیا۔ اگر انہوں نے اپنے رب کی طرف توجہ کی ہوتی، اس کی نصیحتوں کو قبول کیا ہوتا، تو یقیناً انہیں رشد و ہدایت عطا کردی جاتی اور ان کے معاملے میں انہیں توفیق سے نواز دیا جاتا۔
11 Mufti Taqi Usmani
keh do kay : kon hai jo raat mein aur din mein khudaye rehman ( kay azab say ) say tumhara bachao keray-? magar woh hain kay apney perwerdigar kay ziker say mun morray huye hain .